جدیدتہذیبی یلغاراورنوجوان نسل کا فکری المیہ

پچھلے وقتوں کے سیدھے سادے ایمان والے جو بہت تھوڑی معلومات مگر بہت راسخ ایمان رکھتے تھے آج کی دنیا میں نہیں جی سکتے جہاں ہر لمحہ ان پر بے اعتقادی اور کفر کے دلائل کی چاند ماری ہوتی رہتی ہو۔ آج سیلابِ زمانہ کے سامنے اپنے عقائد پر جمے رہنے کے لیے اعتقادات کا نظری علم لازم ہو گیا ہے۔ہم میں سے بیشتر کا عقائد اور فقہ کا علم ادھر ادھر کی چند سنی سنائی غیر مستند باتوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اکثر گھرانوں میں بچوں کو نہ تو عقائد کا علم دیا جاتا ہے نہ فقہ سکھائی جاتی ہے صرف ایک جذباتی فضا کا اہتمام ہوتا ہے۔ علماء یا صالحین کی صحبت میں بھجوانے کا ذکرہی کیا۔ نتیجہ یہ کہ جب اسی قلیل سرمایۂ علم کو لے کروہ دنیائے جدید میں نکلتے ہیں تو مخالفت درپیش ہونے پر صرف ایک ہیجان اپنے اندر پاتے ہیں۔اس سے گھٹن پیدا ہوتی ہے یا تلخی، جو اکثر تشکیک میں ڈھل جاتی ہے۔ اگر ان کو ضرورت بھر علم ِنظری حاصل ہو تو یہ ساری چاند ماری ان کے لیے بے اثر ہو جائے، جدید فکر میں تمام شور و غوغا کے باوجود اتنا بھی دم نہیں کہ قدیم علمِ کلام کا ایک بھی وار سَہ سکے۔ جن لوگوں کو ان دونوں کے موازنہ کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ قدیم علمِ کلام و فلسفہ میں جدید فکر کی اصلاح کے لیے کتنی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔آج سے دو سو برس پیشتر ایک آدمی اچھا مسلمان ہو سکتا تھا اور رہ سکتا تھا خواہ اس نے کبھی امام غزالی اور ابن عربی کا نام بھی نہ سنا ہوتا۔ اس وقت نرا ایمان کافی تھا کیونکہ اس کی حفاظت ہوتی رہتی تھی۔ آج کا مسلمان اگر ان عقائد کے بارے میں تفصیلی اور نظری علم نہیں رکھتا جن پر اس کا ایمان ہے تو اس کے ایمان کی سلامتی ہر دم خطرے میں ہے۔ ہاں کسی شخص کو فطرتاً سادگی کا ایک ناقابلِ تسخیر حصار میسر ہو تو اور بات ہے۔
بات صرف مخالفانہ دلائل کی دھمکیوں اور ان کے جواب تک ہی محدود نہیں ہے۔ ایک اور چیز، جس کی تعریف اور جس کا تعین گو مشکل ہے، زیادہ قوی ہے اور چھائی ہوئی ہے۔ وہ ہے ایک عمومی خیال، ایک رائے عامہ بلکہ ایک خاموش اتفاقِ رائے۔ جیسا کہ شیخ عیسیٰ نور الدین احمد نے کہا ہے کہ:
جب لوگ خدایا عالمِ قدس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اس کا منطقی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی فضا اور ماحول پیدا کرنا شروع کر دیا جاتا ہے جس میں روحانی چیزیں اوپری اور انمل معلوم ہونے لگتی ہیں۔ خدا کے غیر حقیقی ہونے کے اعلان میں کامیاب ہونے کے لیے انھیں انسان کے گرد ایک جعلی حقیقت تعمیر کرنا ہوتی ہے ایسی حقیقت جو لازماً غیر انسانی ہوتی ہے کیونکہ صرف غیر انسانی حقیقت ہی خدا کو خارج کر سکتی ہے۔ اس کام میں تخیل کی جعل سازی اور نتیجتاً اس کی تباہی کا بھی عمل دخل ہے۔(.شیخ عیسیٰ نورالدین Understanding Islam, F. Schuon p. 37.)
جس طرح ہر عہد میں اس کے مفروضوں کے اپنے مخصوص سانچے اور نمونے ہوتے ہیں اسی طرح ہر عہد میں کچھ نظریات اپنی ماہیت کے اعتبار سے ہی اس عہد والوں کے لیے بظاہر مستبعد ہو جاتے ہیں۔ ان کے استبعاد Improbability کو کسی دلیل سے ثابت نہیں کیا جاتا۔ پھر چونکہ ہرعہد کی پیداوار_ اس کا ادب اور فن تعمیر، انسانی ماحول یعنی انسانوں کے اعمال اور مصنوعات دونوں معاصر مفروضوں کے پرتو بھی ہوتے ہیں اور ان کو تقویت بھی دیتے ہیں لہٰذا یہ مستبعد جلد ہی ناممکن الخیال بن جاتے ہیں۔اس کے بعد ماضی کی چند یادگاروں اور طبعی ماحول nature کے علاوہ ہر چیز ان مفروضوں کی تائید کرنے لگتی ہے اور تشکیک تو دور کی بات ہے ان مفروضوں کے بارے میں ناقدانہ اندازِ فکر اختیار کرنے کے لیے بھی جبری شعوری کاوش کرناپڑتی ہے۔ گویا کہ انسانوں اور ان کے ماحول immediate surroundings کے مابین ایک باہمی عمل نفوذ __ osmosis واقع ہو گیا ہو جس میں خارج اپنے داخل (انسان) کو منعکس کرے اور اس کے زیر اثر متشکل ہو جب کہ داخل اپنے خارج (ماحول) کے قالب میں ڈھل جائے۔
مذہبی نقطۂ نظر اپنے تمام متلازمات اور اطلاقات سمیت، جس میں احترام و رعبِ ماورا اور شعورِ قدس sense of the sacred بھی شامل ہے، ایک عام آدمی کے لیے طبعاً صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ ایک ایسے ماحول میں رہتا ہو جس میں نورِ قدسی، برا بھلا ہی سہی مگر منعکس ضرور ہوتا ہو اور اس کے نور کی ایک آدھ کرن اس کے حواس کو بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک مکمل طور پر دھندلے ماحول میں عام آدمی کے لیے ہمارے بلبلے کے باہر کے منظر کا تصور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور وجودِ باری خود استبعادِ عظیم Great Improbability بن جاتا ہے۔
ہمارے ہاں کے وہ نیک مسلمان جن کو ابھی جدیدیت کی ہوا نہیں لگی، ان کو ’’نہ ماننے والوں‘‘ (کفارِ زمانہ حاضر) کو سمجھنے اور ان کو اپنے جیسی فطرت رکھنے والا گرداننے میں جو دشواری خاص طور پر درپیش رہتی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان مسلمانوں کے لیے اپنے دین کی صداقت (توحید الٰہی اور اس کے تمام اطلاقات و مضمرات) ایسے حاوی انداز میں بدیہی اور اپنا ثبوت آپ ہے کہ ان کے نزدیک اس کا انکار ایسا ہی ہے جیسا کوئی شخص تپتے صحرا میں سورج کے وجود سے اس کی تمازت میں کھڑا ہو کر انکار کر دے۔ ان ’’نہ ماننے والوں‘‘ کے خیالات کے کسی طرح کے احترام کا خیال ان کو احمقانہ بلکہ فاسقانہ معلوم ہوگا۔
دوسری طرف دنیائے جدید میں اکثر لوگوں کو اس ’’ایمانِ قاہر‘‘ (شیخ عیسیٰ نور الدین احمد کے الفاظ میں Terrifying faith)کو سمجھنے میں جس دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی کی حاوی اور بلا شرکت غیر حقیقت ان کو اتنی ہی بدیہی اور ناقابل اعتراض لگتی ہے جتنی مسلمانوں کو توحید۔ دونوں جگہ ہی ایسی سامنے کی بات میں شک و شبہ تقریباً ناممکن ہے۔ اس سے آپ ایک خاص رائے سے پیدا شدہ فضا اور ماحول کی تاثیر اور قوت کا اندازہ کر لیجیے۔
شاید کسی کو یہ اعتراض سوجھے کہ مغربی یورپ اور امریکہ تو اب بھی عمومی طور پر (عیسائی) کہلاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قدیم عیسائی یعنی عیسوی سنِ تاریخ کی پہلی پندرہ صدیوں کے لوگ اگر آج ہوتے، تو کیا ان کو عیسائی مان لیتے؟ اس لیے کہ پرانے عیسائیوں اور روایتی مسلمانوں اور کسی حد تک آج کے بدھوں اور ہندوئوں کے لیے بھی انسانی زندگی میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو اور ہر چیز پر ترجیح رکھتی ہیں اور مقدم ہیں۔ پھر ان ترجیحات میں سے ایک سب سے افضل ہے۔ ایک طرف ’’المطلق‘‘ Absolute ہے اور دوسری طرف انسانی اور اعتباری Relative۔ بلحاظِ اہمیت اعتباری کو مطلق سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس قسم کا کوئی شعورِ ترجیحات ہمارے زمانے کی اناسیت پرست اخلاقیات Humanistic Morality کے پاس رہنمائی کے لیے موجود نہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ان معاصرین کی فکرِ عالی بھی اس خیال سے کبھی متصادم نہیں ہوتی جو ایک مبہم سا اعتقاد ایک آرام دہ حیاتِ بعد الموت میں رکھتے ہیں جو ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو شائستگیِ آداب کا حامل ہو۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا آج کل دو متبائن اور منافی رویوں یعنی کفر و ایمان کے درمیان حدفاصل دھندلی ہوگئی ہے۔ ارتیاب اور ایمان یا کفر اور ایمان دونوں کو ان کے منطقی نتائج تک لے جانے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں ایک اعتقادی جھٹ پٹے کا سماں ہے۔ لوگ بس زمانے کی رو میں بہے چلے جا رہے ہیں۔ انھیں یہ تو خیال ہے کہ اس صورتِ حال کے بعد بھی ’’کچھ‘‘ ہے ضرور مگر انھیں شک ہے کہ کسی کو بھی اس ’’کچھ‘‘ کافی الحقیقت علم نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ان عظیم آوازوں سے بھی بے خبر ہیں جن کا سننا آج بھی ممکن ہے اور جو ان کو اس ’’کچھ‘‘ کا ہُو بہُو حال بتا رہی ہیں اور ان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ ان کی بات اس طرح سنیں جس طرح ایک مہلک خطرے کاشکار، موت کے پنجے میں گرفتار آدمی اپنے نجات دہندہ کی سنتا ہے۔ یہ نیمے دروں نیمے بروں لوگ ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کی ماہیت ظلمت ہے اور جس میں ان کے چھوٹے سے نور کے ہالے کے سوا سب کچھ غیر حقیقی لگتا ہے اگر یہ کبھی حقیقتِ الٰہیہ کے بارے میں سوچتے بھی ہیں تو وہ ان کو خیالی، وحشت انگیز اور گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے۔ آفتاب ِ صحرائی کا جھلسانا اور چندھیاناختم ہو چکا ہے۔
اس صورت ِحال کے پیش نظر ہمارے لیے یہ بات ذرا بھی حیران کن نہیں کہ مذہب اس دشمن ماحول میں باقی نہ رہ سکے اور جو بچا کھچا رہ بھی جائے وہ بھی اپنی عمودی جہت سے محروم و منقطع، دنیاویت میں گھرا ہوا۔ یہاں دنیاویت کا مطلب وہ نہیں جو عموماً سننے میں آتا ہے یعنی عورت، شراب اور موسیقی، (یا ان کے مترادفات اور متبادلات)کیونکہ یقینِ مذہبی کے سامنے ان تینوں چیزوں کی کبھی کوئی خاص قوت نہیں رہی۔ دنیاویت سے ہماری مراد اس دنیا کی چیزوں سے ایسا لگائو اور تعلق ہے جو کسی اور شے کی گنجائش نہ رہنے دے۔
چیست دنیا از خدا غافل بدن ۔نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
یہ تعلق اس لیے بھی زیادہ مرغوب ہوگیا ہے کہ اسے مقصدِ حیات اور شایانِ حصول بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سرچشمۂ خیر حبِ الٰہی ہے مگر ان کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایک ’’سماجی شعور‘‘ یا ’’سماج کا ضمیر‘‘ اس محبت کا مناسب متبادل ہو سکتا ہے۔

سر سیّد کے بعد سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیاتھا کہ عقائد ہیں تو درست مگر چونکہ لوگ سننا پسند نہیں کرتے اس لیے ان پر زور نہ دیا جائے۔ پھر مغرب سے نظریات درآمد ہونے لگے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دامن میں ایک ’’نرم و خوش گوار‘‘ عقائد سے عاری دین رہ گیا جو اپنے آپ کو معاصر مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھال چکا تھا۔ وہ تہذیب جس کے تمام مفروضوں، ساری اقدار اور منطق کے سارے مآخذ سرے سے غیر قدسی اور دینوی Profane تھے، ان مآخذ میں سر فہرست اناسیت پرستی Humanism فکر پرستی Rationalism نشاۃ ثانیہ کے دور کا تطاول Self-assertion اور جعلی بلند بانگ خود اعتمادی تھی۔ یا اگر اور پیچھے جائیے تو دو قدیم تہذیبوں یونان وروم کے وہ گھٹیا ترین اوصاف جو انھوں نے کلاسیکی ورثے کی شکل میں اس وقت مغرب کے حوالے کیے جب وہ دونوں انسانیت کے معیار Norm اور دوسری تہذیبوں کے حوالے سے خود ہی زوال پذیر اور انحطاط کا شکار ہو چکی تھیں۔ اس کلاسیکی ورثہ پر عیسائیت بھی صرف عارضی طور پر ہی غالب آ سکی تھی۔
کتنے ہی خرابے آج ان نیک نیتوں کی شہادت دے رہے ہیں جو بھٹک گئیں۔ ایسے ارادوں کی شہادت جن کو نورِ دانش کی کرن میسر نہ ہوئی۔ (انکے نزدیک)لوگوں کو دین سکھانا اچھی بات سہی، ضروری بھی سہی مگر آج کی صورتِ حال ایسی نہیں کہ مجوزہ مقصد کو کسی بھی منہاجِ وصول کاجواز قرر دے لیا جائے۔ دین کے بارے میں End justifies the means کا کلیہ نہیں چل سکتا کیونکہ جوں جوں لوگ حق سے دور ہٹتے جا رہے ہیں یہ خواہش زور پکڑتی جا رہی ہے کہ دین میں مناسب قطع و برید کی جائے اور اس کے وہ پہلو یا وہ عناصر جو لوگوں کے حلق سے آسانی سے نہیں اُترتے ان پر بے ضرر سا ملمع کر دیا جائے یا ان کی تاویل کر دی جائے یا مختصراً یہ کہ مصالحت کے لائحہ عمل کو ملاوٹ کی پالیسی بنا دیا جائے۔ اس طرح یہ توقع کی جاتی ہے کہ عام آدمی مذہب کو اپنی مصروف زندگی کے ایک گوشے میں جگہ دے دے گا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی بھی نہیں لانی پڑے گی نہ ہی پریشان کن خیالات (آخرت، جزا و سزا) سے اُلجھنا پڑے گا۔ یہ بالکل بیہودہ اور موہوم امید ہے۔ اس طریقہ کار کا انجام یہی ہوگا بلکہ بہت سے مقامات پر ہو چلا ہے کہ دین کی بات سکھا نے والا اس خوانچہ فروش کی طرح ہو جائے گا جو بھرے بازار میں سڑک کے کنارے کھڑا اپنے مال کی قیمت گھٹاتے گھٹاتے اب اسے مفت بانٹنے پر آمادہ ہو چکا ہو_ آخرت اور حساب و جزا ایک دیومالا ہے، جہنم ایک خبیث و اہمہ ہے،عبادت اور دعا شائستہ رویے سے بھی فروتر اور بے اہمیت ہے اور آخرمیں خود وجود الٰہی لا یعنی اور غیر ضروری ہے _ مگر اس کے باوجود لوگ اس بھلے مانس خوانچے والے کو نظر انداز کرنے پر رسمی سا افسوس کرتے ہوئے اپنے دوسرے اہم کاموں کی طرف متوجہ ہو جائیں گے جو ان کی راہ تک رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ لوگوں کے یہ اہم کام جن کے لیے وہ ہر چیز نظر انداز کیے ہوئے ہیں خود ان کے نزدیک ریگِ رواں بلکہ دلدل ہیں جس میں وہ دھنستے جا رہے ہیں۔
اگر ان کو اس کا حقیقی متبادل (یعنی دین اپنی اصلی شکل میں نہ کہ حیلۂ پرویزی کا شکار) پیش کیا جائے جو ابتدائے زمان سے ایک پائیدار چٹان کی طرح مستحکم ہے تو شاید وہ اس کے لیے بھاری قیمت ادا کرنے اور قربانی دینے پرتیار ہو جائیں۔اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ اگر متذکرہ دین سکھانے والا ان سے منہ موڑ کر صرف اور صرف آفتاب الٰہی کی طرف متوجہ ہو جائے، اسی سے لولگائے، اسی پر اپنی نگاہ مرکوز رکھے تو لوگ از خود اس کی پیروی کرنے لگیں اور ہاتھ باندھے، اپنی فکروں اور مشکلات کو فراموش کیے ہوئے اسی رُخ دیکھنے لگیں جدھر وہ دیکھ رہا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب کا بنیادی حکم یہ نہیں ہے کہ ’’یہ کرو، وہ نہ کرو‘‘ بلکہ محض ’’دیکھو‘‘ باقی سب کچھ خود بخود ہو جاتا ہے کہ وہ اس کا تابع ہے۔
موجودہ زمانے میں چونکہ تقریباً ہر قول و فکر کی تَہ میں عدمِ ایمان کام کر رہا ہے لہٰذا دنیائے جدید پر ایک ایمان والے کی تنقید لازماً انتہائی ہوگی۔کوڑھی کی آرائشِ حسن کوئی نہیں کیا کرتا۔ مگر انتہا پسند تنقید کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے اور چونکہ دنیا کی تقدیر ہمارے کسی بھی اقدام سے نہیں بدل سکتی اور نہ ہی دورِ ایمان وقت کے اختتام سے قبل واپس آ سکتا ہے(وقت ان معنوں میں جو ہم اس سے سمجھتے ہیں) یہ سوال خاصا معقول ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال میں اس کارِعبث کا فائدہ؟ سیلاب سے مقاومت کیوں کی جائے؟ پچھلے زمانوں کے عظیم لوگ اور اہلِ دانش ایک غافل دنیا یا واصل بہ جہنم معاشرے سے فوراً کنارہ کش ہو جاتے تھے۔ اس سے منہ موڑ کر وہ ان چند نفوس کے لیے مثال قائم کر دیتے تھے جو ان کے اتباع کے لیے تیار ہوں۔ یہ گمان انھوں نے کبھی نہیں کیا تھا کہ لوگوں کی اکثریت کو کسی دوسرے راستے پر گامزن ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی اگر ان لوگوں کے لیے کوئی راہِ سکون ہوتی جو ان نظریات اور رائے عامہ کے ڈھانچے کو قبول کرنے پر تیار نہیں جس پر موجود ہ معاشروں کی بنیاد رکھی ہوئی ہے تو وہ یقینا اسی کو اختیار کرتے اور نہ ماننے والوں کو راہِ سقر میں پا کوبی کرتا چھوڑ کر خود علیٰحدہ ہو جاتے۔
ہمارے پاس آج اگر اس کے برعکس منہاج اپنانے اور مناظرہ و مباحثہ کی گرد اڑانے کو کوئی جواز ہے تو وہ ہمارے موجودہ دور کی صورتِ حال ہے جس کی کوئی اور مثال ملنی نا ممکن ہے۔ اس دور کی خاص بات وہ کوششیں ہیں جو لادین معاشروں نے اپنے افراد کو مکمل طور پر، جسم و روح سمیت، اپنے عمل میں جذب کرنے کے لیے شروع کر رکھی ہیں۔ پرانے لوگوں کے برعکس ہمارے پاس ان معاشروں کو ترک کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں جوابی جنگ پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ہم میں سے جو اس زمانے کے مفروضوں، اس کی ترجیحات، مقدم چیزوں اور اس کے اخلاقی لوازم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ان کو واقعی یلغار کر کے ایک کونے میں گھسنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعض تہذیبیں اور معاشرے دوسرے معاشروں سے بدرجہا افضل و برتر ہیں مگر ہم مجبور ہو چکے ہیں کہ تہذیبوں کے اعتباری یا نسبتی کمال اور موازنے کو چھوڑ کر یہ دیکھیں کہ انھوں نے اپنے باشندوں کو کس حد تک جکڑ کر محبوس و مغلوب کر رکھا ہے۔
افریقہ اور دوسرے مقامات پر بڑھتی ہوئی آبادی نے جنگلی جانوروں کے مساکن اور گزرگاہوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے اور کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب جنگلی جانور(آلڈس ہکسلے Aldous Huxley کی کتاب Brave New World کے وحشیوں کی طرح) صرف مخصوص پناہ گاہوں میں پائے جائیں گے، اسی طرح وہ لوگ جو موجودہ زمانے سے علیٰحدہ سوچ رکھتے ہیں اور صرف اس ’’بلبلے کی دنیا‘‘ ہی کو حقیقی اور واحد دنیا نہیں سمجھتے، جلد ہی کسی راہِ فرار سے محروم ہو جائیں گے اور اس معاشرے کے چنگل سے بچ نہ سکیں گے جو اپنے باشندوں کے بچپن ہی سے ان کے ذہن پر مختلف ذرائع سے قابو پانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ برین واشنگ ایمان والوں کی موجودہ نسل کے ایمان کو اگر کرسکی تو غارت کرے گی ہی، ان کی آنے والے والی نسلیں اس حق و ایمان کا قیاس تک کرنے کے قابل نہ ہوں گی۔ ذہن میں یہ تصور ہی نہ آسکے گا کہ انسانوں کا سماجی اور اقتصادی طور پر کار آمد بننے کے سوا کوئی اور بھی منصب ہے۔
چند دوردراز اور تنہا مقامات کو چھوڑ کر اب دنیا میں غالباً کہیں سماج قدسی sacred societies نہیں پائے جاتے۔ اس لیے ہمارے سامنے یہ سوال نہیں ہے کہ فلاں فلاں سماجی نظام بڑا منظم، مربوط، فائدہ رساں یا کار آمد ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں ہر الوہی عنصر کا دم تو نہیں گھونٹ دیا جاتا اور کیا وہ فکراً اجنبی، مختلف المرکز لوگوں اور ایسی شخصیات کو برداشت کرتا ہے جو اس کے اجتماعی مزاج میں ضم ہو جانے کی مزاحمت کرتے ہوں۔ جدید لادین معاشروں کا واضح رجحان یہ ہے کہ انسان پر راہِ خروج بند کر دی جائے اور اس کی ساری رفعتیں ہموار کرکے اسے صرف اس کی ارضی جہت و منہاج تک محدود کر دیا جائے۔ اس انسان کو جو صورتِ الٰہی پر تخلیق ہوا اور عظمت کے تمام امکانات کا حامل ہے، صرف سماجی حیوان اور فاعلِ اقتصادی بنا دیا جائے۔ اس رجحان کا مقابلہ اس کی اپنی سطح پر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سطح پر اس قبیل کے رجحانات میں کچھ ایسی ناگزیر قوت ہوتی ہے جیسی فطرت کی قوتوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ صرف مذہبی نقطۂ نظر ہی میں اس رجحان کی مزاحمت و مقاومت کی پختہ بنیاد کی تلاش کی جا سکتی ہے مگر یہ واضح رہے کہ مذہب وہ ہونا چاہیے جس کی جڑیں ماورا میں پیوست ہوں نہ کہ انفعالی مذہبیت اور فرسودہ اقوال۔ صرف اسی بنیاد پر ان لوگوں کی مدد کرنا ممکن ہے جنھوں نے دبائو میں آ کر اس دور کی اجتماعی اخلاقیات کے خلاف سپر تو ڈال دی ہے مگر تشکیک اور بے یقینی سے۔صرف اسی نقطۂ استدلال سے انھیں یہ یقین دلانا ممکن ہے کہ ان کے شکوک ایک صحیح اور صحت مند وجدان سے پھوٹے ہیں اور ان کو انسانی روایت کی پوری تائید حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ کبھی اس شخص کو ہدایت سے محروم نہیں رکھتا جو اس کے لیے انکسار،صبر،اعتماد اور استقلال سے کوشش کرتا ہے۔ وہ ہمیں بھٹک جانے کی ڈھیل بھی اسی لیے دیتا ہے کہ ہم گمراہی سے اور اچھی طرح واقف ہو سکیں یا تذبذب اور پر اگندگی میں پڑکر ازسرِنو اپنی نیّتوں کا امتحان دے سکیں۔ہو سکتا ہے کہ کا میابی دمِ آخر تک حاصل نہ ہو یا ایسی صورت اور اس موقع پر نصیب ہو جس کا وہم وگمان بھی نہ تھا۔۔
اللہ کو خوب معلوم ہے آج کے دور میں کتنی مشکلات ہیں اور ……لایکلّف اللّہ نفساََ الاّوسعھا [قرآن :۲:۲۸۶]
استفادہ کتاب حرف بہ حرف ، ڈاکٹر سہیل عمر

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password