امام غزالیؒ کاعلمی منہاج اورچندبڑےاشکالات کاجائزہ

کچھ لوگوں کو امام غزالی پر یہ اعتراض رہا ہے کہ امام نے تہافت الفلاسفہ میں فلسفیوں کے ہتھیار سے فلسفیوں کے افکار کے پرخچے تو اڑا دئیے مگر اثبات الہیات کے باب میں انہوں نے مثبت عقلی دلائل نہ دئیے ــــــ اس سے بعضوں کو یہ بدگمانی ہوگئی کہ وہ محض ”تخریب کار” تھے، انکے پاس کوئی مثبت ایجنڈا موجود نہ تھا ــــــــ کچھ لوگوں کو یہ وہم گذرتا ہے کہ امام نے عقلیات کے استعمال سے ایسے معروضی دلائل جن کی بنیاد پر ایک ملحد سے مکالمہ ہوسکے، انہیں فراہم کرنے کے بجائے امت کو تصوف کی وادیوں کی طرف دھکیل دیا اور ظاہر ہے متصوفانہ تجربات کی بنا پر کسی شخص کو اسلام کی حقانیت پر قائل نہیں کیا جا سکتا۔ گویا اثبات الہیات کے باب میں امام نے عقلیت سے فرار کا راستہ اختیار کیا (بعض لوگ اس مقام پر امام کا ڈیکارٹ سے موازنہ شروع کردیتے ہیں، جو ایک الگ موضوع ہے)
اس قسم کے تمام اعتراضات و شبہات امام کی مجموعی فکر اور ان کے طریقہ استدلال پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں اس حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔
♥…امام کی فکر کا تخریبی یا سلبی پہلو:
یہ وہ پہلو ہے جہاں وہ بالخصوص فلسفیوں کا رد اور اس کا طریقہ کار بتاتے ہیں جس کا افق ‘تہافت الفلاسفہ’ میں ملتا ہے جو گویا ”افکار باطلہ کی تخریب” کا عمل تھا۔ اس “تخریب” کیلئے امام نے جو عمومی طرز استدلال اختیار کیا اسے “داخلی تنقید” (internal criticism) کا منہج کہا جاتا ہے۔ اس کے مد مقابل نقد کا دوسرا عمومی طریقہ ”خارجی تنقید” (external criticism) کہلاتا ہے۔
خارجی تنقید کا مطلب ایک نظرئیے کو کسی دوسرے نظریاتی فریم ورک کے معیارات سے جانچ کر رد کرنا ہوتا ہے۔ مثلا اگر ہم مغربی تصورات کو قرآن و سنت پر پرکھ کر رد کریں تو یہ خارجی نقد کہلائے گا۔ اس کے مقابلے میں “داخلی نقد” کا مطلب کسی نظرئیے کو خود اس کے اپنے طے کردہ پیمانوں پر جانچ کر رد کرنا ہوتا ہے۔ اس طریقے کے تحت چند طرح سے تنقید کی جاتی ہے:
♥ـــــ فریق مخالف کے مفروضات کی لغویت ثابت کرنا، یعنی یہ کہ وہ عقلی اعتبار سے ثابت شدہ نہیں
♥ـــــ فریق مخالف کے مفروضات یا دعووں میں تضاد ثابت کرنا
♥ـــــ یہ ثابت کرنا کہ انکے طے شدہ مقدمات سے لازما انکے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے وغیرہ۔
چنانچہ امام نے تہافت الفلاسفہ (Incoherence of Philosophers) میں رداعتزال و فلسفہ کیلئے داخلی نقد کا منہج بطور خاص ہتھیار استعمال کیا۔ امام سے پہلے اعتزال کے خلاف اسلامی دنیا میں اس طریقے کو اتنے منظم انداز سے کسی متکلم نے استعمال نہیں کیا تھا۔
رد الحاد و اعتزال کے رد کے ضمن میں امام اس بات کی بطور خاص تاکید کرتے ہیں کہ الحادی مفروضات کو مذہبی پیمانوں پر جانچ کر رد کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ مذہب اور الحاد کے علمی تناظر (یعنی ان کے مفروضات، مقاصد اور نتائج اخذ کرنے کے طریقہ کار) میں فرق ہوتا ہے، لہذا الحاد کو رد کرنے کا درست طریقہ اس پر داخلی تنقید کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ امام یہ خصوصی وضاحت فرماتے ہیں کہ جو لوگ مذھبی نصوص کو الحادی ڈسکورس رد کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف مذھب کا نہایت کمزور مقدمے کی بنا پر دفاع کرتے ہیں بلکہ الٹا اسے نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔ امام غزالی جدید دور کے مفکرین کی طرح اس فکری و علمی غلط فہمی کا شکار نہیں تھے کہ دماغی عقلیت کا کوئی ایسا معروضی دائرہ کار بھی موجود ہے جہاں مذھب اور الحاد کے مابین “مساوی سطح پر مکالمہ” ممکن ہے۔
♥…”تہافت الفلاسفہ” کیوں؟
امام کی فکر کے اس (تخریبی) پہلو کو سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا ازحد ضروری ہے کہ امام نے تہافت الفلاسفہ (incoherence of philosophers) کیوں لکھی۔ امام نے یہ کتاب اپنے دور کے گمراہ کن یونانی فلسفہ ذدہ معتزلی نظریات کے رد میں لکھی تاکہ عام لوگوں کو ان سے بچایا جاسکے۔ اس کتاب کو لکھنے کا جو مقصد اور طریقہ امام نے بتایا وہ جدید تنویری فکری و فلسفے کے رد کے لئے بھی اتنا ہی ریلیونٹ ہے جتنا ہزار برس قبل تھا۔ چنانچہ امام کتاب کے دیباچے میں فرماتے ہیں:
”موجودہ زمانے میں میں ایک ایسی جماعت کو دیکھ رہا ہوں جو خود کو عقل و ذکاوت میں اپنے ہم عصروں سے ممتاز سمجھ رہی ہے اور اسی لئے اسکے افراد نے فرائض اسلامی سے کنارہ کش رھنا اپنا شعار بنا لیا ہے، یہ لوگ شعائر دینی کی توقیر و عظمت کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اپنے وھم و گمان میں اسکو اپنا اعلی وصف سمجھ رہے ہیں۔ اپنے اس عمل سے یہ لوگ گمراہی کا سبب بن رہے ہیں……اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب لکھوں جس میں انکے خیالات کا رد کیا جائے، نیز ان کے دعووں و استدلال کے تناقض و بے ربطگی کو واضح کیا جائے تاکہ انکی معقولیت کے رعب کو لوگوں کے دماغوں سے اٹھایا جائے تاکہ سادہ ذھن عوام اس فتنے سے محفوظ رہیں….ان لوگوں کے مباحث و دعووں کو جانچتے وقت میں صرف ایک طالب حقیقت بن کر ہی کھوج نہیں لگاؤں گا بلکہ مذہب کے وکیل و مدعی کی حیثیت سے بھی گفتگو کروں گا”
یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ امام جدید دور کے دانشوروں و مفکرین کی طرح “غیرجانبداریت و معروضیت” کے جھانسے کا نہ تو شکار تھے اور نہ ہی اس علمی خیانت کے اظہار کے قائل تھے۔ اکیڈمک clarity اور integrity کی اس سے زیادہ عمدہ مثال ملنا مشکل ہے۔ “تہافت الفلاسفہ” میں امام مسلم فلاسفہ کے نظریات کی صرف تنقیص و تردید کرتے ہیں، کسی مخصوص مذہبی تصور کا ایجابی ثبوت پیش نہیں کرتے۔ اس کتاب سے امام یہ بتانا چاہتے ہیں کہ زندگی کی حقیقت و معنی متعین کرنے کا کوئی یقینی پیمانہ ماسواء نبی موجودہ نہیں، لہذا ھدایت و کامیابی کیلئے اسی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
امام کی تنقید اس قدر ٹو دا پوائینٹ اور مہلک تھی کہ ابن رشد جیسے ذھین انسان کو بھی یہ کہے بغیر کوئی جائے فرار میسر نہیں آئی کہ امام نے جو نقد کیا ہے وہ “اصل یونانی فلاسفہ” کے نظریات پر نہیں بلکہ وہ تو ان کے مسلم شارحین پر پڑتا ہے۔ پھر ابن رشد اپنے تئیں ان یونانی فلاسفہ کی ایک تشریح بیان کرکے امام کے نقد کو غیر متعلق ثابت کرنے لگتے ہیں۔ ابن رشد کے اس طریقہ کار سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوگئی کہ امام نے معتزلی مفکرین کے جن نظریات کا رد کیا تھا ابن رشد کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا اور اسی لئے انہیں “علمی تناظر” بدلنا پڑا۔ اب اگر ابن رشد یا کوئی دوسرا شخص یونانی فلاسفہ کی ایک نئی تشریح لے کر بیٹھ جائے (جو علمی اعتبار سے ایک ایسا سلسلہ ہے جو تاقیامت جاری رہے گا کیونکہ مصنف کی موت کے بعد اس کا ہر نیا قاری اس کی ایک نئی تشریح بہرحال کرسکتا ہے اور اس بات کی بھی کوئی قطعی دلیل نہیں کہ آیا یونانی فلاسفہ کی اصل پوزیشن وہی تھی جو ابن رشد نے کہی کیونکہ وہ بھی محض ایک تشریح ہی تھی) تو ایسی تاقیامت بدلتی ہوئی تشریحات کا جواب دینا کسی ایک شخص کے لئے کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔
امام غزالی نے “تہافت الفلاسفہ” لکھنے سے قبل “مقاصد الفلاسفہ” لکھی جس میں اس پوزیشن کو بالتفصیل سمجھایا جسے پھر تہافت الفلاسفہ میں رد کیا۔ بیان کردہ پوزیشن کس کس فلسفی کی تھی یا نہیں، یہ ایک ثانوی بحث ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بیان کردہ پوزیشن پر جو نقد امام نے پیش کیا ابن رشد کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ امام کے اس نقد کے جواب میں ابن رشد البتہ یہ نئی بحث لے کر بیٹھ گئے کہ آیا امام کے نقد کا اثر یونانی فلاسفہ کی (ان کے خیال میں مفروضہ) “اصلی پوزیشن” پر پڑتا ہے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ یونانی فلاسفہ کی “اصلی پوزیشن” وہی ہو جو ابن رشد کہتے ہیں مگر اس سے امام کے نقد پر کیا اثر پڑا؟ امام نے جس پوزیشن پر نقد کیا وہ تو مقاصد الفلاسفہ میں درج ہے، اب وہ پوزیشن جس کسی کی بھی ہے، اگر اس پر کیا جانے والا نقد غلط تھا تو جواب اس کا دیا جانا چاہئے تھا۔ مگر ایسا تو کیا نہیں گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن رشد نے امام پر جو نقد کیا وہ غیر متعلق ہے۔

♥…امام کی فکر کے تعمیری پہلو میں مجرد عقل کی حیثیت:
اگر امام کے ”تعمیری” پہلو کی طرف نظر کیجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ امام نے اس باب میں کلامی طرز پر بھی اسکا مختصرا اثبات (درحقیقت دفاع) کیا جس کی نمائندہ کتاب ان کا رسالہ ”کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد” ہے۔ البتہ امام الہیات کے باب میں اصولا ‘مجرد عقل’ (absolute or abstract rationality) اور کلام و فلسفے کی زیادہ افادیت کے قائل نہ تھے۔ پہلے اس پر کچھ گفتگو کئے لیتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا لازم ہے کہ امام کے علمیاتی منہج میں ان کا “مخاطب کون” اور انہیں “خطاب کس حیثیت” میں تھا کیونکہ مخاطب اور اس کی حیثیت کا تعین کئے بغیر کسی کے خطاب کو سمجھنا ناممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ الہیات کے باب میں امام کا مخاطب وہ مسلمان ہے جو فلاسفہ کے زیر ‘مجرد عقل’ کی بنیاد پر الہیات کے اثبات کا مدعی ہے۔ چنانچہ امام کا پورا نقد تھا ہی اس گروہ پر جو بدون وحی مجرد عقلیت کی بنیاد پر الہیات کے تعین کے امکان کا دعوے دار تھا اور جو اپنے اس دعوے کی بنیاد پر نبی کی ضرورت کو ایک اضافی امر اور نبی کے بتائے ہوئے احکامات کو مجرد عقل پر تولنے کا مدعی تھا۔ امام نے ان کے نظریات کا رد کرکے بالتفصیل یہی مقدمہ ثابت کیا کہ مجرد عقل یا عقل محض میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ اس باب میں اسے راہنما بنایا جاسکے۔ الہیات و قدر کے معاملات میں نبی کے سہارے کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص ایک ذریعہ علم (مجرد عقل) پر پہلے یہ نقد پیش کرے کہ اس راستے سے مخصوص نتائج (خدا تک رسائی کے حصول ) کا دعوی باطل و ناممکن ہے پھر بعد میں خود اسی ذریعے کی بنیاد پر اسی نتیجے کو ثابت کرنے کا پراجیکٹ کھول دے؟ ایسی بات ایک غیر ھم آھنگ مفکر ہی کرسکتا ہے، امام سے اس کی امید رکھنا عبث ہے۔ جن لوگوں کو امام پر یہ اعتراض رہا ہے کہ آخر امام نے اثبات الہیات کی “خالص عقلی بنیادیں” کیوں نہ فراہم کیں وہ دراصل امام کے علمی منہج ہی سے ناواقف ہیں۔ اگر معترضین کو لگتا ہے کہ امام نے اس باب میں ٹھوکر کھائی تو پھر انہیں یہ ثابت کرکے دکھانا چاہئے کہ “مجرد عقل” کے ذریعے الہیات اور قدر کے وہ سوالات حل کرنا ممکن ہیں جن کے جوابات نبی بتاتا ہے۔ علمی منہج کے اس معاملے میں امام جس فکری clarity کے مقام پر فائز نظر آتے ہیں اس کا رد کرنا تو دور کی بات اس کا فہم بھی ان کے اکثر معترضین کو حاصل نہیں۔
اثبات الہیات کے باب میں امام مجرد عقل تو کجا علم الکلام کی افادیت کے بھی بجا طور زیادہ قائل نہیں۔ علم الکلام کے بارے میں انکی رائے یہ ہے کہ اس کا مقصد “مسلمان شخص کے عقیدے کی حفاظت ہے جو اپنے عقائد کی بنیاد کتاب و سنت قرار دیتا ہو اور یہ چاہتا ہو کہ اس کا عقیدہ فلسفیوں کے شکوک و شبہات سے محفوظ رہے”۔ پس علم الکلام سے اسی قدر فائدہ ممکن ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی عقائد کا دفاع کیا جاسکے، رہا وہ شخص جس کا سینہ نور ایمان سے خالی ہے تو اس بارے میں امام کی رائے یہ ہے کہ علم الکلام میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایسے شخص کے سینے کو نور ایمان سے منور کردے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کلام کے پاس جتنے استدلال ہیں وہ “بیرونی ساخت” کے ہیں اور اسکا حامل انہی دلائل و مسلمات کو لیکر آگے بڑھتا ہے جو یا تو دھوکہ دے جاتے ہیں اور یا پھر کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اثبات الہیات کے باب میں امام کلام و فلسفے پر زیادہ انحصار نہیں کرتے۔ یہی نقطہ نہ سمجھنے کی بنا پر فلسفہ ذدہ لوگوں نے جب دیکھا کہ امام نے الہیات کا فلسفیانہ اثبات نہ کیا تو وہ امام پر عقلیت سے فرار کا الزام لے کر بیٹھ گئے حالانکہ جس عقلیت کا رد امام نے کیا وہ عقل بطور کیٹیگری نہیں بلکہ بطور ماخذ (مجرد عقل یا substantive reasoning) تھا۔ امام پر “علمیات” و “ریشنیلٹی” کے تناظرات میں اعتراض کرنے والوں کو پہلے ان الفاظ کے معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کیا امام غزالی وقت کے ساتھ عقلی علوم سے کنارہ کش ہوگئے تھے؟
امام غزالی اصول فقہ پر اپنی کتاب “المستصفی” کے مقدمے میں بتاتے ہیں کہ اس سے قبل وہ کن کن علوم پر کونسی کتب لکھ چکے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل وہ احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت جیسی کتب لکھ چکے تھے۔ معلوم ہوا کہ “المستصفی” بعد کے دور کی کتب میں سے ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں امام غزالی ابتدائی عمر میں کلام و منطق کے زیر اثر ہونے کی بنا پر عقلی علوم کو پسند کیا کرتے تھے لیکن بعد میں تصوف کے زیر اثر آجانے کے سبب ان میں گویا عقلیت سے فرار کا رویہ پیدا ہوگیا تھا۔ امام کے بارے میں یہ مفروضہ “المستصفی” میں بیان شدہ ترتیب کتب کے خلاف جاتا ہے کیونکہ “کیمیائے سعادت” جیسی کتب “المستصفی” سے ماقبل دور میں ہی لکھی جاچکی تھیں اور کون نہیں جانتا کہ “المستصفی” میں امام غزالی عقلی علوم کی بلندیوں کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مقدمہ پڑھ کر ہی بندہ عش عش کر اٹھتا ہے۔
♥…امام کی فکر کے تعمیری پہلو میں تصوف کا مقام:
رہا یہ سوال کہ امام نے پھر اثبات الہیات کا کونسا طریقہ بتایا؟ تو اس سوال کے جواب سے قبل یہ سمجھنا لازم ہے کہ اثبات ایمان پر گفتگو کرتے ہوئے امام ایمان کے کس درجے کی بات کرتے ہیں۔ اسکی وضاحت امام نے ”المنقذ من الضلال” (جو امام کی ‘سوانح عمری’ ہے) میں کی ہے۔ امام اپنے سفر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ یقین کے اس درجے کے متلاشی تھے جسے بلا تمثیل “ارنی کیف تحی الموتی” کی کیفیت کہا جاسکتا ہے۔ امام کے کچھ شارحین کو یہ وہم گزرا گویا امام صاحب کو ایمانیات اسلام کے بارے میں کوئی شکوک و شبہات لاحق ہوگئے تھے جنہیں رفع کرنے کے لئے وہ مختلف ماخذات علم کی طرف متوجہ ہوئے، حاشا و کلا۔ امام یقین کے اس درجے کے متلاشی تھے جسے “احسان” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ جنہیں “اثباتی عقلی دلائل” (مثلا اثبات توحید کے تکوینی، مقاصدی یا منطقی دلائل) کی جنس کہا جاتا ہے وہ تو امام کی کتاب “تہافت” میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں (بس آنکھیں اور کتاب دونوں کھول کر کتاب پڑھنے کی ضرورت ہے) مگر یقین کی جس منزل کے امام متلاشی تھے وہاں ان عقلی دلائل کا گزر نہیں۔ بقول مولانا مودودی عقلی دلائل محض گمان غالب کی ایک کیفیت پیدا کرسکتے ہیں، یہ جسے ایمان کہا جاتا ہے تو یہ اس سے آگے کی ایک چیز ہے۔ کانٹ کے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ فنامینا پر مبنی دلائل عقل کو متعدد نامینا میں سے بعض کے بعض کے مقابلے میں زیادہ قرین قیاس ہونے کے امکانات تک تو پہنچا سکتے ہیں مگر نامینا کے اس الجھاؤ کو پوری طرح حل نہیں کرسکتے جس میں عقل پھنس جاتی ہے۔ جس کی نظر امام کی منزل پر نہیں وہ امام کے طریقہ علم کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔
امام اس منزل تک ایسی رسائی رکھنے کا دعوے کرنے والے چار گروہوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی طرف وہ متوجہ ہوئے:
★ اهل کلام (اسکی حدود اوپر بیان ہوچکیں)
★ اھل باطن جنکا یہ زعم ہے کہ ہم نے امام معصوم سے سینہ بسینہ تعلیم پائی ہے۔ انکے ساتھ امام اس حد تک تو متفق ہیں کہ عقل محض سے دینی حقائق کا اکتساب نہیں ہوسکتا مگر انکے اس دعوے کو رد کرتے ہیں کہ اس اکتساب کا ذریعہ امام معصوم ہے
★ اھل فلسفہ جنکا یہ گمان ہے کہ ہم ہی اہل منطق ہیں (انکا رد امام نے تہافت میں خود ہی فرما دیا)
★ اهل تصوف جن کا یہ دعوی ہے کہ ھم خاصان بارگاہ ایزدی و اھل مشاھدہ ہیں۔
امام فرماتے ہیں کہ صوفیا کا طریقہ علم (دماغی عقل) سے زیادہ ‘عمل’ (عقلیت قلبی) پر مبنی ہے اور مجھے اس ہی طریقہ کسب کے ذریعے ایمان و ایقان کی دولت اور قلبی سکون میسر آیا۔ علمیاتی مباحث میں حقیقت تک رسائی کے اس طریقے کو “شرکت” (participation) کا طریقہ کہا جاتا ہے جبکہ عقل جس طریقے سے کسی شے کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اسے “مشاہدے” (observation) کا طریقہ کہا جاتا ہے اور دونوں میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے اور دونوں سے تعمیر ہونے والا ادراک حقیقت اپنی نوعیت میں جداگانہ ہوتا ہے (یہاں اس کی تفصیلات میں جانا ممکن نہیں)۔
جب امام کو اس ذریعے سے ایمان کی مطلوبہ کیفیت میسر آگئی تو انہوں نے ”احیاء العلوم” تحریر کی جس کے حصہ سوئم و چہارم میں امام اس قلبی عقلیت کی تعمیر کا طریقہ بتاتے ہیں جو حقیقت تک رسائی کا ذریعہ بنتا ہے، جنکے اسرار و رموز سے امام نے کتاب الصبر، کتاب الشکر، کتاب المحبة، کتاب التوکل’ میں پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ابواب سمجھنا ان لوگوں کے بس کی بات نہیں جو اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ معروضیت کسی عقلی تناظر کا نام ہے۔ ہر گز نہیں، معروضیت دماغی عقلیت نہیں بلکہ قلبی عقلیت کے فروغ سے میسر آتی ہے۔
اب اگر اس گفتگو پر کسی کو یہ اشکال ہے کہ آخر اس طریقہ کار سے کسی غیر مسلم کو دعوت کس بنیاد پر دی جائے تو اس کا جواب ہے وہی طریقہ جو پیغمبرعلیہ السلام و صحابہ نے برت کر دکھایا، یعنی یہ کہ جس حق کے آپ وارث بنائے گئے ہیں اس کے تقاضوں پر پورے خلوص، قوت و راست بازی کے ساتھ مسلسل عمل پیش کرنا، ہاں اس کے ساتھ دیگر وسائل کو بھی بروئے کار لایا جاتا رہے۔ احیاء العلوم میں امام اس طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہیں جس کے ذریعے انسان ایسا عمل پیش کرنے لائق ہوکر دوسروں کے لئے مشعل راہ بنتا ہے۔
جن لوگوں کو “علمیات” کا حوالہ دینے کا شوق ہے تو انہیں چاہئے کہ علمیات کے مباحث میں یہ بحث دیکھیں کہ کسی دعوے کی سچائی کو جانچنے کے ممکنہ علمی معیارات کیا کیا ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ موثر معیار کونسا ہے، عوام الناس سب سے زیادہ کس سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ معیارات متعدد ہیں، مثلا فاؤنڈیشنلسٹ تھیوری کے مطابق علم کو جانچنے کا اعلی ترین معیار قطعیت (certainty) ہے، بعضوں کے مطابق یہ معیار “داخلی ھم آھنگی” (coherence) ہے تو بعضوں کے مطابق یہ معیار “correspondence” ہے۔ جو لوگ امام کے بارے میں عقلیت سے فرارکی بات کرتے ہیں وہ اگر ان سوالوں پر غور کرلیں تو اپنے دعوے کی غلطی ان پر واضح ہوجائے:

  • علم کو جانچنے کا کونسا معیار ان حضرات کے پیش نظر ہے؟
  • ان میں سے کونسے معیار میں (دماغی) عقلیت کا کتنا کردار ہے؟
  • امام کے پیش نظر جو مقصد تھا اس کے لحاظ سے کونسا علمی معیار زیادہ متعلق ہے؟
  • ان میں سے متعلقہ معیار کے اظہار کے ساتھ کون سا طریقہ کار مناسبت رکھتا ہے؟
    امام کے طریقہ کار کو رد کرنے والے درحقیقت انبیاء، صحابہ اور پوری اسلامی تاریخ میں دعوت کے لئے اختیار کی جانے والی روایت کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔ “عقلیت” کی باتیں کرنے والے جو لوگ اپنی زندگی میں کسی ایک بھی غیر مسلم کو مسلمان نہ بنا پائے وہ اٹھ کر دعوت کے طریقوں پر حکم لگانے لگیں تو انسان صرف ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔
    پس یہ جو چند گزارشات پیش کیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک خاص علمی تناطر کی بنا پر یہ ناچیز امام سے ایک مخصوص قلبی تعلق محسوس کرتا ہے اور دوسری وجہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ مقصود تھا جو ایک زمانے سے امام کے بارے میں کچھ مغربی مفکرین کی پیروی میں پھیلائی جاتی رہی ہیں۔ جب کچھ “مفکر نما” لوگ ان غلط فہمیوں کو ہماری نوجوان نسل تک منتقل کرتے ہیں تو دل پریشان ہوتا ہے۔ پس اسی جذبے کے تحت یہ گزارشات پیش کیں کہ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات!
    تحریر ڈاکٹر زاھد صدیق مغل، پروفیسر سوشل سائنسز نسٹ یونیورسٹی، اسلام آباد

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password