جدت پسندوں کوامام غزالی سےاصل مسئلہ کیا ہے؟

تمام مغربی دانشور مستشرقین اور ماڈرنسٹ اجتماعی طور پر معتزلہ، ابوبکر رازی، کندی، فارابی، ابنِ سینا، اخوان الصفاء اور ابن رشد وغیرہ کے دور  کو اسلامی تاریخ کے سنہری دور کے طور پر پیش کرتے ہیں   امام غزالیؒ اور ابو الحسن اشعریؒ کا کوئی ذکر نہیں کرتے حالانکہ ان دونوں علماء کی تعلیمات اور فلسفے نے اپنے دور کے بڑے انتشار کو ختم کیا اور  معتزلہ سے لے کر اخوان الصفاء تک تمام باطل افکار (بشمول پرویز ہود بھائی کے مذہب اسماعیلیہ ) کا قلع قمع کر دیا جس کے باعث ان باطل افکار کو امت نے کبھی قبول نہیں کیا۔  امام ابوالحسن اشعریؒ نے فرقہ معتزلہ کو علمی بنیادوں پر جس طرح شکست دی  ۔ اشاعرہ نے اسلامی عقیدے، علمیات اور مابعد الطبیعیات کو قرآن و سنت کے ساتھ اس طرح مربوط کیا کہ اسلام ایک محفوظ پناہ گاہ میں آگیا جس کو آج تک مغربی فلسفہ بھی شکست نہ دے سکا۔ مختلف فرقوں کی گمراہیوں کے خلاف ہسپانیہ کے ظاہری مکتب، مصر کے طحاوی مکتب فکر اور سمرقند کے ماتریدی مکتبہ فکر نے عظیم الشان کارنامے انجام دیے۔ امام ابو الحسن اشعریؒ کی کتاب ’’مقالات الاسلامئیین‘‘ اور ان کے مکتبہ فکر کے نمائندوں امام باقلانیؒ ، امام الحرمینؒ اور فخر الدینؒ رازی جیسے مفکرین نے زبردست علمی کارنامے انجام دیے ۔ امام غزالیؒ (م ۱۱۱۲ء)  نے  نوافلاطونیت (Neo-Platonism) پر سب سے زبردست عاقلانہ، عالمانہ اور فلسفیانہ حملہ نے کیا۔ یہ حملہ اتنا زبردست تھا کہ یونانی فلسفہ شکست کھا گیا اور یونانی فلسفے سے متاثرین غزالیؒ کا جواب نہیں دے سکے اس کے نتیجے میں اسلام کو ایک مرتبہ پھر روحانی، اخلاقی، ایمانی، ثقافتی برتری کے ساتھ علمی و عقلی برتری بھی حاصل ہوگئی۔لیکن ان مکاتب فکر کا مسلم جدیدیت پسندوں اور مغربی مفکرین کے یہاں کوئی حوالہ نہیں ملتا  کیونکہ یہ فلاسفہ و مفکرین مغربی سیکولر و الحادی  فکر کے خلاف ایک ایسا حصار مہیا کرتے ہیں جس میں آج بھی رخنہ پیدا کرنا بہت مشکل کام ہے۔  یہی وجہ ہے کہ تمام جدیدیت پسند مفکرین اور تمام مغربی مفکرین غزالیؒ کا ذکر کرنے سے کتراتے ہیں ۔ ان سب کا مشترک صدمہ یہ ہے کہ غزالیؒ کے فلسفیانہ حملے نے اسلامی معاشروں میں الحاد، لادینیت، زندقہ، آزاد خیالی، بے حیائی، روشن خیالی، خرد افروزی کے تمام راستے محدود و مسدود کر کے رکھ دیے۔ اس آزاد خیالی اور روشن خیالی کا مطلب صرف یہی ہے کہ اسلام کی علمیاتی بنیادوں کو فراموش کر دیا جائے اور مذہب کو ریاست سے بے دخل کر کے حجرے میں محصور کر دیا جائے۔

    مغرب کو قبول کرنے کی راہ میں سب سے بڑی علمی رکاوٹ امام غزالیؒ کے فلسفیانہ نظریات ہیں   اسی وجہ سے مسلم جدیدیت پسندوں کو  امام غزالیؒ   قبول نہیں  ۔امام غزالیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلامی نظام فکر و فلسفے میں یونانی الہیات، مابعد الطبیعیات اور کونیات کے مباحث کو مخلوط کرنے کی کوشش نہیں کی اور ان تمام موضوعات و مباحث کو اجنبی اور غیر مانوس قرار دے کر ان کی درجہ بندی کی اور ان کا محاکمہ پیش کیا۔  دوسری جانب انھوں نے فلسفے کا انکار کرنے اور فلسفیانہ مباحث کو کفر قرار دینے کے بجائے اسلامی علمیاتی، کونیاتی، مابعد الطبیعیاتی اصولوں اور بنیادوں پر یونانی فلسفے کا بیرونی [External] محاکمہ اور یونانی علمیاتی اصولوں کی بنیادوں پر اس کا اندرونی [internal] محاکمہ کیا اور ایک ایسی علمیاتی حکمت عملی تیار کی جس کے نتیجے میں فلسفیانہ سطح پر اس بات کو ثابت کیا گیا کہ اجنبی تہذیبیں اور نظریات نہ تو اسلامی علمیات پر غالب ہوسکیں اور نہ اسلامی علمیاتی ڈھانچے کے اندر خلط ملط ہوجائیں۔

یہ امام غزالیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اس کے برعکس عصرِ حاضر کے جدیدیت پسند مسلم مفکرین مغربی تہذیب، افکار اور فلسفے کی اسلام کاری میں مصروف ہیں اور مغربی اقدار، روایات، عادات، افکار، نظام اور طریقوں کو اسلامی معاشروں میں عام کرنے اور اسلامی معاشروں کے لیے ان کی اجنبیت کو ختم کرنے کے طریقے، قرینے اور سلیقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان معذرت خواہوں کے مختلف گروہ ہیں، مختلف رنگ ہیں، مختلف طریقے ہیں، ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ مغرب اسلام ہی کی نئی جلوہ گری ہے اور کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو مغربی فکر و فلسفے کے نظام میں کوئی محفوظ جگہ مل جائے اور مصالحت کی کوئی سبیل نکل آئے۔ یہ تمام مفکرین مغربی اور اجنبی طرزِ زندگی، طرزِ فکر اور طرزِ تعلیم اور طرزِ بود و باش کو اسلامی علمیاتی فکر میں سمونے اور مغربی اقدار و روایات کا اسلامی جواز پیش کرنے اور اسلام کو ان مغربی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے زیادہ وسیع النظر اور وسیع الخیال بنانا چاہتے ہیں۔ 

 جس طرح غزالیؒ کے عہد میں عالمِ اسلام کو یونانی فکر، فلسفے اور تہذیب کا خطرہ درپیش تھا جس کی بنیاد عقل، ریاضی، طبیعیات اور خود پسندی پر رکھی گئی تھی، اسی طرح عصرِ حاضر میں عالمِ اسلام کو مغرب سے یہی خطرہ درپیش ہے۔ آج دنیا کو پھر امام غزالیؒ کی ضرورت ہے جو مغربی فکر و فلسفے کو اسی طرح مجروح و مفلوج کر دے جس طرح انھوں نے ماضی میں یونانی فلسفے کو اپاہج بنا دیا تھا۔ مشہور مستشرق منٹگمری واٹ کو امام غزالیؒ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ اس کے خیال میں اسلام کو عصر حاضر میں مغرب سے وہی معرکہ درپیش ہے جو ماضی میں یونانی فلسفے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ اس صورت حال کا حل فلسفۂ غزالی کے عمیق مطالعے میں پوشیدہ ہے اگر مسلمان موجودہ صورت حال سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برا ہونا چاہتے ہیں۔ منٹگمری واٹ کے اصل الفاظ درج ذیل ہیں: 
“Al-Ghazali has sometimes been acclaimed in both East and West as the greatest Muslim after Muhammad and he is by no means unworthy of that dignity. His greatness rests above all on two things: (1) He was the leader in Islam’s supreme encounter with Greek philosophy – that encounter from which Islamic theology emerged victorious and enriched; and in which Arabic Neoplatonism received a blow from which it did not recover. (2) He brought orthodoxy and mysticism into closer contact; the orthodox theologians still went their own way, and so did the mystics, but the theologians became more ready to accept the mystics as respectable, while the mystics were more careful to remain within the bounds of orthodoxy (Intro. pp. 14-15). 
Islam is now wrestling with Western thought as it once wrestled with Greek philosophy, and is as much in need as it was then of a ‘revival of the religious sciences’. Deep study of al-Ghazali may suggest to Muslims steps to be taken if they are to deal successfully with the contemporary situation. (ibid. p.15)
اسلام کا پہلا مقابلہ عیسائیت اور یہودیت سے تھا۔ اسلام اور ان دونوں سامی النسل مذاہب کی علمیاتی اور مابعد الطبیعیاتی بنیادوں میں کوئی فرق نہیں تھا کیوں کہ یہ تمام مذاہب علم، خیر اور حقیقت کا سرچشمہ وحی الٰہی کو سمجھتے ہیں اور وحی الٰہی پر کسی بھی ذریعہ علم کو فوقیت نہیں دیتے۔ اس کے برعکس یونانی فلسفے کی بنیاد عقل پر رکھی گئی۔ یونانی فلاسفہ کے مسلمان مقلدین پر فلاسفہ کے علم کی غیر معمولی صلاحیتوں کا رعب و دہشت طاری تھی وہ ان فلاسفہ کے افکار، طریقۂ کار اور ان کے علوم اور ان کے علمیاتی اصولوں سے حیرت زدہ ہوگئے تھے۔ امام غزالیؒ کی فلسفۂ یونان پر تنقید کا اصل محرک مسلم فلاسفہ، مفکرین اور معتقدین کو اس طلسم سے باہر نکالنا اور ان کے ذہن پر طاری اس دبدبے، رعب، ہیبت، دہشت، تحیر اور سکتے کی کیفیت کو ختم کرنا تھا۔ اس سلسلے میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں: 

“The heretics in our times have heard the awe inspiring names of people like Socrates, Hippocrates, Plato, Aristotle etc. They have been deceived by the exaggerations made by the followers of these philosophers – exaggerations to the effect that the ancient masters possessed extraordinary intellectual powers: that the principles they have discovered are unquestionable: that the mathematical, logical, physical and metaphysical sciences developed by them are the most profound: that their excellent intelligence justifies their bold attempts to discover the Hidden Things by deductive method; and that with all the subtlety of their intelligence and the originality of their accomplishments they repudiated the authority of religious law denied the validity of the teachings of religions, and believed that all such things are only sanctimonious lies and trivialities” 
“When I saw this vein of folly pulsating among these idiots, I decided to write this book in order to refute the ancient philosophers. It will expose the incoherence of their beliefs and the inconsistency of their metaphysical theories. It will bring to light the flimsiest and the obscurest elements of their thought, which will provide some amusement for, and serve as a warning to, the intelligent men. (I mean those things which they contributed to beliefs and opinions, and by virtue of which they thought they could be distinguished from the common men)” 
امام غزالی کا کارنامہ یہ ہے کہ: انہوں نے ابن سينا و فارابى کی فکری روایت پر شديد تنقید کرکے ایک مستقل منہج کی بنیاد رکھی، جو فلسفے کو شریعت کا پیشوا بنانے کی بجائے، خود اسلام کے نظامِ علم و اخلاق کو اجاگر كرتا ہے۔جدت پسندوں  کا خیال ہے کہ امام نے الہیات کے مثبت دلائل سے کام نہیں لیا جبکہ یہ دلائل انکی کتاب میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ امام پر جو نقد پیش کیا جارہا ہے وہ ان مغربی مفکرین کا سرقہ ہے جو دنیا پرست تھے اور امام پر اس لئے نقد کرتے ہیں کیونکہ امام نے دنیا و ھوس پرستی کے راستے میں روڑے اٹکائے۔ ایسے مفکرین کی اتباع میں امام پر بچکانہ قسم کے اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ پہلے یہ بحث اٹھائی کہ امام نے اثبات الہیات میں عقلیت کے بجائے تصوف کا راستہ اختیار کیا۔ جب اس کا تفصیلی جواب دے دیا گیا تو پھر یہ باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں کہ امام نے داخلی نقد میں عقلیت کو ھم آھنگی سے استعمال نہیں کیا اور جو مثالیں پیش کی ہیں وہ متعلقہ مباحث سے لاعلمی کا ثبوت   ہیں۔ امام کا عقلی مقام تو یہ  ہے کہ   مسیحت کے سب سے بڑے مفکر طامس آکویناس نے امام کو اپنا مرشد مانا۔ دور حاضر کی الحادی عقلیت کے خلاف سینہ سپر سب سے معتبر آواز پروفیسر ولیم لین کریگ کی وجودِ باری پر محکم ترین ’’عقلی‘‘ دلیل کی بنیاد امام کا کلامی استدلال ہے۔ آپ کے نتائج کو کئی صدیوں بعد یورپ کے چوٹی کے فلسفیوں نے دہرایا، آپ کی  وجہ سے دیمطری گوطاس جیسے محقیقن نے اس پورے عہد کو سنہری دور سے تعبیر کیا۔ آج بھی آپ  کی فکر کی طرف ایک بار پھر ہماری مابعدالجدید دنیا مڑتی جا رہی ہے۔  

تحریر سید خالد جامعی، ڈاکٹر زاہد مغل

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password