ایمان، عقل اور سائنس [2]

معقولیت(Rationality) انسان کی فطرت کا لاینفک جزو ہ
بدیہیات اور مسلمات کا اختیار کیا جانا اور چیزوں کا مسلّمہ معیارات کے مطابق پرکھاجانا ایسی چیز نہیں جو انسان کے اندر ”ماحول کے بگاڑ“ یا ”چار سُو پھیلی گمراہیوں“ کی وجہ سے دَر آتی ہو۔ یہ ایک لازمی وصفِ انسانی ہے ، خواہ انسان تاریخ کے کسی دور او رتمدن وترقی کے کسی درجے میں پایا جاتا ہو۔
کسی معاملے کے مختلف پہلوؤں کا آپس میں مربوط اور مطابق (Consistent)ہونا ، اور خود اس معاملے کا خارج میں موجود معلوم شدہ بدیہی امور سے متضاد ومخالف نہ ہو نا، اس کی معقولیت سے تعلق رکھتا ہے۔ انسان کی فطرت بھی معاملات میں اس صفت کے پائے جانے کو چاہتی ہے اور اسی سے متأثر ومرعوب ہوتی ہے۔ انسان کی فطرت میں جو سچائی کی تلاش کا مادہ اور کائنات کی حقیقت کی جستجو کُوٹ کُوٹ کر بھر دی گئی ہے ، اس کی معقولیت پسندی ، حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی اس کی اسی فطری خواہش کی ایک مظہر ہے۔ ہر نئی چیز کسی پچھلی مسلّمہ چیز سے متصادم اور بالکل ہی غیر متعلق نہ ہو ، اور خود اس چیز کے اپنے اندر اضطراب وبحران نہ پایا جاتا ہو ، حقیقت کی ایک صفت یہ بھی ہے۔ یعنی کوئی چیز خارجی طور پر بھی نہایت محکم ، متوازن اور مربوط ہو اور داخلی طور پر بھی کسی انتشار وہےجان سے مأمون ، فطرتِ انسانی کے پاس حقیقت کی تلاش کا ابتداءً یہی ایک معیار ہے۔ اور یہی معقولیت ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ فطرت انسانی میں ایک چیز کی جوت جگادی گئی ہو اور وہ چیز خارج میں اسی نسبت اور اسی انداز میں نہ رکھ دی گئی ہو جس انداز میں انسان کی فطرت میں اسے دیکھنے اور پانے کی طلب رکھی گئی ہے، یاخارج میں اس فطرت کے استعمال ، تسلّی ، اطمینان اور تسکین کے لئے اس کے ہم آہنگ مناسب قرائن نہ پیدا کئے گئے ہوں ، کہ جن کے آشکار ہونے پر فطرت مقصدیت کا لطف اور انبساط حاصل کرتی ہے ، بلکہ اسی ہم آہنگی کو حقیقت کی تلاش کے سلسلے کی ابتدائی کڑی نہ بنایا گیا ہو۔ انسان کی معقولیت پسندی ہی اس طرح اس عالمِ اسباب میں اُس کے سچائی اور حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔
معقولیت پسندی کا جو کہ عقل رکھے جانے کا ایک لازمی تقاضا ہے انسان خواہ قائل ہو یا نہ ہو ، اور خواہ کتنا ہی ”غیر معقول “ ہوجائے ، عقل کی چیرہ دستیوں سے اس کو ہرگز مفر نہیں۔ معقولیت اگر عقل کا کارنامہ ہوتی ہے تو ”غیر معقولیت“بھی اسی عقل ہی کی کارستانی ہوتی ہے۔ انسان جب عقل کے کردار کو سراہتے ہوئے اس کو بروئے کار لاتا ہے اور اس کا بطور خاص قدردان بنتا ہے تب وہ عقل استعمال کررہا ہوتا ہے۔ اور جب وہ عقل کو محض فتنہ سمجھتے ہوئے اس سے کوسوں دور بھاگنے کا منہج اختیار کرتا ہے ، تب وہ عقل کے زیرِ دام ہوتا ہے۔ انسان نے بہر صورت عقل کے زیرِ نگیں ہی رہنا ہوتا ہے۔اس کے باوجود بعض لوگوں کو ”غیر معقولیت “کا منہج ہی راس آتا ہے!پس اس معقولیت اور غیر معقولیت کے درمیان فر ق یہ نہیں کہ ایک میں عقل کا استعمال ہوتا ہے اور دوسری میں نہیں ، بلکہ دراصل یہ ہے کہ کچھ لوگ تلاش ِحقیقت میں ایک کی ضرورت اور اس کے لزوم کے قائل ہیں اور دیگر لوگ اس کے برخلاف دوسری کے۔اور جہاں فرق کی یہ بنیاد یعنی ”حقیقت کی تلاش“ نہ پائی جاتی ہو وہاں عقل کا استعمال اور اس کی حدود زیرِ بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ وہاں اس بابت سرے سے اختلاف ہی نہیں پایا جاتا۔ تاہم محلِ اختلاف میں عقل کو اُس کی ”اوقات“ میں رکھنے کے قائلین اپنی ”نامعقولیت“ کے جواز میں بھی خاصی معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پائے جارہے ہوتے ہیں۔یعنی وہی طریقہ واندازِ استدلال جو معقولیت پسند ی کا خاصہ ہے ۔ تفکیر کے فطری طریقوں سے انسان کہاں تک راہِ فرار اختیار کر سکتا ہے؟!!
ویسے بھی انسان کے ارادی افعال اور فیصلے بغیر استدلال اور استنتاج کے واقع نہیں ہوتے ۔ اور کوئی استدلال ایسا نہیں ہوتا جو ”عقلی“ یعنی عقل پر سہارا کرنے والا نہ ہو، خواہ اپنی نہاد میں وہ استدلال کتنا ہی ’خلافِ عقل‘ ہو۔ اب اگر کوئی اپنے فیصلوں میں آباءکی پیروی کرتا ہے ، کوئی منطق وفلسفہ کی ، کوئی رسوم ورواج کی اور کوئی انبیاءاور ان کے پیروکار وں کی ، تو اگرچہ ہر کسی کا ’محلِ پیروی‘ بیک وقت درست نہیں ہوسکتا ، تاہم ہرکوئی اپنے محل پیروی کے صائب ہونے کا استدلال شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے پاس رکھتا ہے ، جو ظاہر ہے، عقل ہی کے مرہونِ منّت ہوتا ہے۔استدلال البتہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ چنانچہ دانشمندی اور غیر دانشمندی میں فرق یہ نہیں کہ ایک میں عقل کا استعمال ہوتا اور دوسری میں نہیں، بلکہ ایک میں عقل کے صادر کردہ فیصلے اور استدلال کی بنیادیں صحیح ہوتی ہیں اور دوسری میں غلط۔ حتی کہ عقل سے جان چھڑانے اور چھڑائے رکھنے کے لیے بھی سارا زور عقل ہی کا استعمال ہورہا ہوتا ہے!!!
پس ضروری نہیں لوگوں کے درمیان اصل فرق عقل کے استعمال یا عدم استعمال میں ہو، بلکہ ضروری نہیں یہ فرق معقولیت پسند rational ہونے یا نہ ہونے میں ہو ، بسا اوقات تو یہ فرق حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کے جواز اور ضرورت کے محض قائل ہونے نہ ہونے میں ہو جاتا ہے۔ جس کی اصل وجہ پہلے سے طے کردہ معیارات یا مسلّمات کا فرق ہوتی ہے۔ یا کسی منہاجِ علم کو اس کے اصل دائرے سے وسیع تر یا مختصر کرکے دیکھنے سے بھی یہی صورت سامنے آتی ہے۔ یعنی ایک چیز جو کسی منہاج علم کا مقتضیٰ یا مشمول نہ ہو ، اور اس کے ذمّے جڑ دی جائے۔ یا ایک چیز کسی منہاج علم کا حصہ ہو، یا کم از کم وہ چیز اس منہاج سے متصاد م نہ ہو، اور اسے اس کے متضاد قراردیا جائے۔ پس ایسے مقامات پر مسلّمات اور منہاج کے فرق (یعنی کسی مخصوس طریقۂ علم کے اپنے منہاج ومسلّمات اور اس سے منسوب کئے جانے والے منہاج ومسلّمات کے درمیانی فرق )کی تفتیش وتفحیص ہی عقدۂ اختلاف کو کھولنے میں معاون ہوسکتی ہے ، چاہے معاملہ اسلام کی منہاج کا ہو یا سائنس کی منہاج کا۔

پس اس معقولیت اور غیر معقولیت کے درمیان فر ق یہ نہیں کہ ایک میں عقل کا استعمال ہوتا ہے اور دوسری میں نہیں ، بلکہ دراصل یہ ہے کہ کچھ لوگ تلاش ِحقیقت میں ایک کی ضرورت اور اس کے لزوم کے قائل ہیں اور دیگر لوگ اس کے برخلاف دوسری کے۔اور جہاں فرق کی یہ بنیاد یعنی ”حقیقت کی تلاش“ نہ پائی جاتی ہو وہاں عقل کا استعمال اور اس کی حدود زیرِ بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ وہاں اس بابت سرے سے اختلاف ہی نہیں پایا جاتا۔ تاہم محلِ اختلاف میں عقل کو اُس کی ”اوقات“ میں رکھنے کے قائلین اپنی ”نامعقولیت“ کے جواز میں بھی خاصی معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پائے جارہے ہوتے ہیں۔یعنی وہی طریقہ واندازِ استدلال جو معقولیت پسند ی کا خاصہ ہے ۔ تفکیر کے فطری طریقوں سے انسان کہاں تک راہِ فرار اختیار کر سکتا ہے؟!!
ویسے بھی انسان کے ارادی افعال اور فیصلے بغیر استدلال اور استنتاج کے واقع نہیں ہوتے ۔ اور کوئی استدلال ایسا نہیں ہوتا جو ”عقلی“ یعنی عقل پر سہارا کرنے والا نہ ہو، خواہ اپنی نہاد میں وہ استدلال کتنا ہی ’خلافِ عقل‘ ہو۔ اب اگر کوئی اپنے فیصلوں میں آباءکی پیروی کرتا ہے ، کوئی منطق وفلسفہ کی ، کوئی رسوم ورواج کی اور کوئی انبیاءاور ان کے پیروکار وں کی ، تو اگرچہ ہر کسی کا ’محلِ پیروی‘ بیک وقت درست نہیں ہوسکتا ، تاہم ہرکوئی اپنے محل پیروی کے صائب ہونے کا استدلال شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے پاس رکھتا ہے ، جو ظاہر ہے، عقل ہی کے مرہونِ منّت ہوتا ہے۔استدلال البتہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ چنانچہ دانشمندی اور غیر دانشمندی میں فرق یہ نہیں کہ ایک میں عقل کا استعمال ہوتا اور دوسری میں نہیں، بلکہ ایک میں عقل کے صادر کردہ فیصلے اور استدلال کی بنیادیں صحیح ہوتی ہیں اور دوسری میں غلط۔ حتی کہ عقل سے جان چھڑانے اور چھڑائے رکھنے کے لیے بھی سارا زور عقل ہی کا استعمال ہورہا ہوتا ہے!!!
پس ضروری نہیں لوگوں کے درمیان اصل فرق عقل کے استعمال یا عدم استعمال میں ہو، بلکہ ضروری نہیں یہ فرق معقولیت پسند rational ہونے یا نہ ہونے میں ہو ، بسا اوقات تو یہ فرق حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کے جواز اور ضرورت کے محض قائل ہونے نہ ہونے میں ہو جاتا ہے۔ جس کی اصل وجہ پہلے سے طے کردہ معیارات یا مسلّمات کا فرق ہوتی ہے۔ یا کسی منہاجِ علم کو اس کے اصل دائرے سے وسیع تر یا مختصر کرکے دیکھنے سے بھی یہی صورت سامنے آتی ہے۔ یعنی ایک چیز جو کسی منہاج علم کا مقتضیٰ یا مشمول نہ ہو ، اور اس کے ذمّے جڑ دی جائے۔ یا ایک چیز کسی منہاج علم کا حصہ ہو، یا کم از کم وہ چیز اس منہاج سے متصاد م نہ ہو، اور اسے اس کے متضاد قراردیا جائے۔ پس ایسے مقامات پر مسلّمات اور منہاج کے فرق (یعنی کسی مخصوس طریقۂ علم کے اپنے منہاج ومسلّمات اور اس سے منسوب کئے جانے والے منہاج ومسلّمات کے درمیانی فرق )کی تفتیش وتفحیص ہی عقدۂ اختلاف کو کھولنے میں معاون ہوسکتی ہے ، چاہے معاملہ اسلام کی منہاج کا ہو یا سائنس کی منہاج کا۔

اشیاء اور مطاہر کائنات کی حقیقت – دو انتہائیں
عالم مادّہ اور اس میں جاری وساری مظاہروواقعات کی حقیقت وکنہ کی بابت فلاسفہ وحکماءکی دومخالف اپروچز کا تذکرہ یہاں ضروری ہے ، جودرحقیقت اس معاملے کی دو انتہائیں ہیں۔
تفریط پر واقع انتہا اس نقطئہ نظر کی حامل ہے کہ اشیاءاور مظاہر کائنات جس طرح واقع ہوتے نظر آتے ہیں ان کی حقیقت بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور چیزوں کے وقوع پذیر ہونے سے کسی ایسی چیز کا کوئی تعلق نہیں ہوتا جو انسانی عقل وحواس کے دائرے میں نہ آتی ہو۔ کیونکہ ایسی کسی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا! ان کے ہاں وہی چیز تسلیم کی جاتی ہے جو براہ راست ثابت کی جاسکتی ہو، اور ثابت ہونے کا مطلب ان کے اپنے طے شدہ حسّی معیارات کے مطابق ہونا ہے۔ جو چیز یوں ”ثابت“ نہ ہو وہ ہے ہی نہیں ! چنانچہ ان کے یہاں کسی عالمِ غیر مادّہ یا عالم غیب یا عالمِ ماورا کا کوئی تصوّر نہیں پایا جاتا۔
دوسری انتہاکو پہنچا ہوا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حقیقت جو کچھ بھی ہے وہ سامنے ہر گز نہیں ہے، بلکہ آنکھوں اور دیگر حواس وغیرہ سے نہاں ہے۔سامنے جو کچھ ہے وہ اس حقیقت کا ایک پرتو یا عکس تو ہوسکتا ہے ، خود حقیقت نہیں ہے۔ اور اس کے ذریعے حقیقت تک نہ تو پہنچاجاسکتا ہے اور نہ اس کے اور حقیقت کے مابین کوئی ایسا ربط و آہنگ یا علاقہ ہی ہے جو حقیقت کی ماہیت پر دلالت کرسکتا ہو یا کم از کم اس کی طرف اشارہ ہی کرسکتا ہو۔ مزید یہ کہ مختلف مظاہر کائنات اور مادّی امور ایک دوسرے سے قطعاً غیر متعلق ، غیرمربوط اور آزاد طور پر واقع ہوتے ہیں ۔ چنانچہ چیزوں کے ہونے میں کوئی طبیعی یک رنگی اور استمرار نہیں پایا جاتا۔ یوں کوئی بھی چیز کبھی بھی کسی بھی انداز میں رُوپذیر ہوسکتی ہے ، اور اس میں کوئی Predictabilityنہیں پائی جاتی۔
وجود وعدم کے پیچاک میں الجھی ہوئی ان دو انتہاؤں میں سے پہلی ، عالم غیب یا عالم ماورا کو ”عدم“ کے ہم معنی ٹھہرا دیتی ہے۔ جبکہ دوسری انتہاکے نزدیک عالم ِوجود اپنی حقیقت کے اعتبار سے عالم عدم ہی ہے۔!!ایک غیب کی منکر ہے تو دوسری سے شہود کا انکار لازم آتا ہے۔
ثانی الذکر فکر کے قائلین کچھ فرق کے ساتھ فلاسفۂ مغرب اور مسلمان حکماءدونوں میں پائے جاتے ہیں ۔ ہماری اس تمام گفتگوکا دائرہ البتہ اس فکر کے ان قائلین تک محدود ہے جو اسے اپنے تئیں اسلام کے تناظر میں لیتے ہیں۔
عالمِ مادّہ کے ایک ”قطعاً بے حقیقت شے “ ہونے کے مذکورہ بالا نظریے کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ انسان کے محسوسات اور مشاہدات سب کے سب قریب قریب واہمہ اور سراب کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ اور چیزوں کا ظاہری ادراک محض فریب ہستی۔ واقعات اور اشیاءمیں ربط وضبط ، ان کا باہمی قرار وآہنگ اور ان کا وقوع پذیر ہونا اتفاق اور حادثہ قرارپاتا ہے جو کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح یہ کائنات ”ممکنات کی دنیا“ سے بدل کر محض” حادثات کی دنیا“ رَہ جاتی ہے۔
اس نظریے کے مطابق چونکہ عالمِ مظاہر (World of Phenomena) نہ خود حقیقت ہے نہ اس کے ساتھ مربوط ومتصل کوئی جہان ، لہٰذا نتیجتاً ، انسانی عقل وحواس اس کائنات کے ساتھ تفاعل کے بعد جن اصول وقوانین تک پہنچتے ہیں ، وہ حتمی نہیں ہوتے ، بلکہ سرے سے قابل اعتبار نہیں ہوتے۔اور اس لحاظ سے یہ بات اظہر من الشمس بھی ہے ، کہ جب اس کائنات کا اشیاءاور واقعات کا ایک نہایت بے ہنگم وبے ڈھب کارخانہ ہونا طے پاجاتا ہے تو کسی سلسلۂ واقعات کا انجام یا نتیجہ (inference)احاطۂ ذہن میں کیونکر لایا جاسکتا ہے؟ بلکہ خود واقعات کا کوئی سلسلہ ہونا ہی محلِ نظر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ سلسلہ تو وہاں بنتا ہے جہاں چیزوں میں کوئی ربط وضبط ہو۔!!
نوبت بالآخر یہاں جاپہنچتی ہے کہ کسی چیز کا پھر کوئی مطلب ہی متعین ہونے کے لائق نہیں رہتا ، اس کا کسی ضابطے یا قانون کی شکل میں منضبط ہوجانا دور کی بات۔ جب مختلف واقعات کا سرے سے آپس میں کوئی ربط ہی نہ بن سکتا ہو ، نہ ہی حقیقت کے ساتھ کسی واقعے کے ڈانڈے جاملتے دکھائی دیتے ہوں تو کسی شے کے معنی کا تقاضا بھی نہایت بے معنی لگتا ہے۔پھر کسی اَمر کی جو تعبیر رکھی جائے اس میں ہر ایک کے لئے اس کی اپنی صوابدید ہی معتبر ہوسکتی ہے۔ کیونکہ جب یہاں کوئی چیز حتمی ہے ہی نہیں تو ایک کی بات دوسرے پر حجت کیونکر ہوسکتی ہے؟ خارج کا جب وجود ہی اصل حقیقت سے متغایر ہو ، اور اس میں استحکام، استمرار اور یک رنگی نہ پائی جاتی ہو ، تو اس سے دلیل کیسے پکڑی جاسکتی ہے؟ معروضیت (Objectivity)پھر وہ شے ہوتی ہے جسے موضوعیت (Subjectivity)سے کوئی تباین نہیں ہوتا۔ اور دونوں میں فرق ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آکر عقلِ انسانی انتہائی بے کار ، فالتو اور زائد ازضرورت شے محسوس ہوتی ہے۔
اس فکر کے حامل فلاسفۂ مغرب حقیقت کی کوئی تفصیل یا ماخذ پیش نہیں کرتے ، بس اجمالاً اس حقیقت کے پائے جانے کا اثبات کرتے ہیں۔ کیونکہ خود ان کے نزدیک بھی مجر ّ د عقل کے ذریعے اس حقیقت تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ البتہ عقل وحواس کے علاوہ کسی اور ذریعۂ علم کے قائل نہ ہونے کی بناءپر وہ اس ماورائے مادّہ حقیقت تک رسائی ہوسکنے کے انکار ی ہیں۔
البتہ جب یہ فکر مسلمانوں میں نمودار ہوتی ہے تو ان کے ہاں حقیقت سے مراد ذاتِ خداوندی اور اس کی لامحدود قدرت وغلبہ ہوتی ہے ، جس تک پہنچنے کا واحد راستہ وحی کے ذریعے حاصل شدہ علم ہے جو انبیاءپر نازل کیا گیا۔ حقیقت کی نشاندہی کرنے میں تو اس فکر کی اصابت واضح ہی ہے، لیکن مادی جہان کی حیثیت متعین کرنے میں یہ فکر مادّہ پرستوں کے بالمقابل ردِّ عمل کا شکار ہوکر دوسری انتہاءکو پہنچی نظر آتی ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان کھینچا تانی کا عنوان ہے : ”حقیقت اور اس تک رسائی میں عقل کا کردار “۔ ایک جس قسم کی حقیقت کی قائل ہے اُس تک پہنچنے میں محض عقل ہی کافی ہو جاتی ہے۔ اور دوسری جس حقیقت پر ایمان رکھتی ہے اس تک رسائی حاصل کرنے میں وہ عقل کے کسی کردار ہی کی منکر ہے۔ اس انکار کی وجہ اغلباً یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس باب میں عقل کا کوئی کردار تسلیم کرلینے سے وحی کی اہمیت کم ہوتی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے، جب عقل کے ذریعے حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہو تو پھر وحی کی کیا ضرورت؟ اور اس کے معکوس کے طور پر، جب وحی ہی حقیقت تک رسائی کا اصل ذریعہ ہے تو اس میں پھر عقل کا کیا کام؟ چنانچہ اس طرح ایک انتہا کے بالمقابل دوسری انتہا وجود میں لائی جاتی ہے۔ پھر ذات خداوندی کے غلبہ وقدرت اور ربوبیت والوہیت کے جتنے اشارے کائنات سے عقل کو دستیاب ہوسکتے ہیں ان کو کالعدم قراردینے کے لئے مادی واقعات واشیاءکو حقیقت سے بالکل الگ تھلگ اور خود آپس میں غیر مربوط و لاتعلق ”ثابت “ کیا جاتا ہے۔ تاکہ عقل وحی کی غیر موجودگی میں کسی ابتدائی درجے میں بھی حقیقت کی جستجو کی ”جسارت“ نہ کرسکے اور یوں وحی کی اہمیت میں فرق پیدا نہ ہو۔ نتیجہ یہ کہ اس طرح نہ صرف کائنات میں جابجاکارفرما، علم وحی کے برحق ہونے کی نشانیاں دیکھنے کے عقل کے اختیارات زائل کردیے جاتے ہیں، بلکہ خودکائنات کو بہتر سے بہتر انداز میں برتنے کے (سائنسی) اصول وقوانین کا بھی انکار کرنا پڑجاتا ہے۔ اس طرح وحی کی خودساختہ اہمیت قائم کروانے کے لئے بہت ساری چیزوں کو ان کی جگہ سے ہٹادینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے فکری توازن جاتا رہتا ہے اور نظریاتی واقعاتی اعتبار سے آدمی دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔
جب آپ خارج کو” اصل حقیقت “کے ساتھ عقلی اعتبار سے بالکل ہی منقطع اورغیر متعلق مان لیتے ہیں تو یہیں پر آپ ایمان قبول کرنے کے معاملے میں عقل کے کردار پر پابندی قائم کردیتے ہیں۔ وحی کی نشانیاں خارج میں نہ پاکر عقل کے پاس کیا رَہ جاتا ہے جو اُسے وحی کو برحق تسلیم کرنے پر آمادہ و راغب کرے؟ چنانچہ آپ کو ایمان لانے کا غیر اختیاری اور جبری نظریہ تشکیل دینا پڑتا ہے۔ جس میں ظاہر ہے خارج کا ”حقیقت“ سے ربط قطعاً غیر متعلق وغیر ضروری ہوجاتا ہے۔ اس نظریے کے تحت خدا جس کے دل میں چاہتا ہے ایک الہامی انداز میں ایمان کی شمع روشن کردیتا ہے ، خواہ اسے دین کی تعلیمات کی ہوا بھی نہ لگی ہو (حتی کہ خوابوں میں نبی کریم ﷺ آآ کر کافروں کو کلمہ پڑھو ا کے مسلمان کرواتے بیان کیے جاتے ہیں !)اور جسے چاہتا ہے اس الہام سے محروم رکھتا ہے۔ اس طرح ایمان قبول کرنے نہ کرنے کا سارا معاملہ خدا پر موقوف ہورہتا ہے، اور بندوں کا اپنا کردار درمیان سے غائب ہوجاتا ہے۔ اور ہوبھی کیوں نہ، جبکہ اس کردار کو ادا کرنے کے تمام قرائن اور لوازمات اس سے پہلے غائب کرائے جاچکے ہوتے ہیں! (یعنی خارج اور ظاہرِ کائنات کو ایک بے حقیقت ، غیر مربوط ، بے معنی اور نتیجتاً مہمل وعبث شے ثابت کرکے۔)ایک بے معنی وبے حقیقت شے سے انسان کو کسی چیز(یعنی وحی) کے سچے ہونے کی گواہیاں اور نشانیاں تو ملنے سے رہیں۔ لیکن ایمان لانا بھی فرض ہے!! چنانچہ یہ فرضیت پھر اس طرح طے پاتی ہے کہ بندوں کی بجائے یہ خود خدائے تعالیٰ کے اوپر ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔معاذاللہ، یوں ایمان لانے کا معاملہ ایک ”تکوینی امر“ ہورہتا ہے، جس کا تعلق صرف خدا سے ہوا کرتا ہے اور معاملے کا ”تشریعی پہلو“خارج ازسوال ہوجاتا ہے جس کی ذمہ داری بندوں پر ہوا کرتی ہے۔ اس طرح جبریت کے نظریے کو تقویت ملتی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ ”اصل حقیقت“ کی پہچان اوربندوں کے لیے اس کی ”آزمائشی حیثیت “ کا ہونا بھی محل نظر ہوجاتا ہے۔ پھر ایمان کے اس نظریے سے متفر ع ہونے والی دعوت دین میں بھی جبریت پوری طرح کارفرمانظر آتی ہے ، جس کی وجہ سے یہ دعوت کی بجائے ایک دعوٰی بن جاتی ہے ، کیونکہ اسے خارجی دلائل وقرائن سے مبرہن کرنے کا اہتمام نہیں کیاجاتا، بلکہ ان کو دلائل ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔
عقل وحواس جب خداوندِ فطرت کی طرف سے انسان کو عطا کیے گئے ہیں تو اس کا ایک طے شدہ مقصد ہے اور دونوں کا ایک باقاعدہ کام۔ ان دونوں کا کردار صرف یہی نہیں کہ دنیا گزارنے میں انسان کے لئے ضروری وکارآمد ہیں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور جن وانس کو جس مقصد کے لئے پیدا فرمایا ہے اس مقصد کو تکمیل تک پہنچانے میں انسان نے اپنا کردار انہی کے ذریعے ادا کرنا ہوتا ہے۔ یعنی ان کا”دنیاوی کردار“ تو اپنی جگہ ، جس سے کسی کو انکار نہیں، ان کا ”دینی کردار“ البتہ اہمیت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے، جس کے لئے ہی انہیں انسانی شخصیت میں ودیعت کیا گیا ہے۔تاہم ان کے دنیاوی کردار کی طرح ان کا دینی کردار بھی اسی دنیا اور اس کے مظاہر سے شروع ہوتا ہے (جوکہ اصل نکتہ بحث ہے) کیونکہ ان دونوں کا دائرۂ عمل اپنی نوعیت میں مادی ہے۔ حتی کہ علم وحی سے بھی عقل کا اتصال ابتداءً اسی طرح ہوتا ہے جس طرح دیگر علوم سے۔ کیونکہ ایک عام آدمی کے لئے (مسلمان ہونے سے قطع نظر ) یہ بھی دیگر علوم کی طرح مدوّن شدہ ایک علم ہے۔ اب ایک غیر نبی حقیقت تک پہنچنے کے لئے وحی کے تجربے سے تو گزرنے سے رہا۔ اس کے پاس بھی لے دے کر وہی حواس خمسہ اور وہی ایک عقل ہے جس سے کام لیتے ہوئے اس نے حق کو پہچانتے ہوئے حقیقت تک پہنچنا ہے۔ ایسا شخص اگر کائنات میں فکر وتدبر کے ذریعے اس کی حقیقت کی بابت کچھ سوالات ، الجھنیں، اشکالات اور نتائج زیر غور لاہی نہ سکتا ہو، نہ کائنات ہی اسے سوچنے پر مجبور کر دینے والے کچھ ایسے اشارے دے سکتی ہو تو وحی کا علم بھلا اس کی کونسی مشکل کا مداواکرپائے گا؟ بلکہ وہ شخص ایسے کسی علم کی طرف رجوع کی طلب ہی کیونکر رکھے گا؟؟
پس حقیقت مطلقہ(Absolute Reality)تک پہنچنے میں عقل کے کام کا آغاز اسی مادّی جہان اور اس کی موجودات سے ہوتا ہے۔ چنانچہ جب ضروری اور بدیہی ہے کہ عقل اس دنیا کے ظاہر سے اس کے باطن اور اس کی حقیقت تک رسائی حاصل کرے تو لازم ہے کہ اس ظاہر اور باطن کے درمیان کوئی کمال درجے کا عقلی ربط وضبط ہو، اور جو عقل کو مہمیز بھی دیتا ہو۔لیکن اس کی گرہ علمِ وحی سے ہی کھل سکتی ہو۔تاکہ اس کی اہمیت اور فوقیت اپنی جگہ قائم رہے ۔ البتہ وحی کا اس ظاہر وباطن کے درمیان ہونا عقل کو آپ اس حقیقت کی طلب وتلاش سے بھی نہ روکتا ہو۔ بلکہ عقل میں (نہ کہ محض فطرتِ انسانی میں) اس طلب وتلاش کی کیفیت کا پاجانا (نظم ونظام کائنات کی ہیئت کی وجہ سے) اور اس کا ابتداءً ”میانِ غیب وحضور “ بھٹکتے پھرنا اس پر وحی کے صحیح طور پر اثرانداز ہونے کے لئے ایک درجہ میں مطلوب بھی ہو۔
اصل حقیقت کا ماخذ ”وحیٔ الٰہی “اور ”شریعت“ ہونے کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ خارج اور ظاہر حقیقت سے عقلی طور پر منقطع ہی ہوں گے۔اور نہ یہ کہ خارج کے اجزاءآپس میں کوئی عقلی ربط نہ رکھتے ہوں گے۔ ایسی کوئی دلیل جبکہ خود وحیٔ الٰہی اور شریعت میں موجود نہیں ہے تو ان پر ایمان رکھنے والوں نے اسے کہاں سے درآمد کرلیا؟ اگر انہوں نے اسے عقلی طورپر اخذ کیا ہے تو کیا اس طرح انہوں نے خود ” حقیقت “ کی بابت کوئی رائے رکھنے میں اس کے اصل ماخذ سے ماورا ہونے کی جسارت نہیں کرلی؟؟ ؟

کیا سائنسی علوم اور شرعی علوم میں ہم آہنگی ہوسکتی ہے؟
سائنس کی منہاج(Paradigm) مظاہرکائنات سے علاقہ رکھتی ہے۔ کائنات میں ہمہ وقت جاری وساری اَن گنت واقعات وامور میں ارادۂ الٰہی نے اگر کچھ موزو نیت اور اصول پنہاں کررکھے ہیں تب تو یہ دنیا ایک بامعنی اور بامقصد جہان ہے ، وگرنہ محض تو ہّم کاکارخانہ ۔ لیکن جبکہ ایسا نہیں ہے، یعنی حقیقتاً کائنات خالق کے طے کردہ کچھ طبیعی اصولوں کے تحت چلی جا رہی ہے، اور ابتدائے آفرینش سے ہی یہ اصول و قوانین انسان کی عقل سے اتصال کرتے اور اس کے مشاہدے میں آتے رہے ہیں تو انسان کے ہاں اِن اصولوں کے مطالعہ کے کسی ایسے طریقے کا وضع ہو جانا جو اِن کی ٹھیک ٹھیک دریافت پر منتج ہوتا ہو، قیاس کا عین تقاضا ہے۔یہ طریقۂ مطالعہ سائنس کہلاتا ہے۔ مختصراً، انسانی عقل وحواس کو بروئے کار لاتے ہوئے ان فطری اصولوں کو طبیعی طور پر معلوم کرلینے کا نام سائنس ہے۔
سائنس کا دائرۂ کار یہی ہے کہ وہ مادے کے برتاؤ اور اس کے عمل کرنے کے طبیعی اصولوں سے بحث کرتی ہے، اور بس۔ اس دائرے سے ہٹ کر کوئی گفتگو کرنا سائنس کے بس کی بات ہی نہیں ہے، کجایہ کہ وہ اپنے دائرے سے باہر کسی شے کے ہونے یا نہ ہونے کا دعوٰی کرتی پائی جائے، اور لوگ اسے سائنس کی دخل درمعقولات ماننے پر مجبور ہوں۔! عالم غیب (کہ جہاں ”حقیقت “ چھپی ہوئی ہے!) کے بارے میں سائنس جو ہمیشہ سے خاموش ہے تو کوئی اس لیے نہیں کہ وہ اس عالم کی منکر ہے، بلکہ درحقیقت سائنس کی اتنی ”اوقات“ ہی نہیں ہے کہ وہ عالم غیب کی بابت مثبت یامنفی کوئی بات کرسکے۔ وہ تو اس کا انکار کرسکتی ہے نہ اقرار، کہ وہ اس کے حیطۂ انکار واقرار سے ہی باہر ہے۔ البتہ کوئی سائنسدان اگر اپنے طور پر اس موضوع پر اظہارِ خیال کر دیتا ہے تو اِس میں بے چاری سائنس کا کیا قصور؟ سائنسی طریقۂ مطالعہ تو اپنی حدود سے باہر کسی موضوع پر لب کشائی کی ذمہ داری اپنے سر لینے کا رودار نہیں ہے۔ نہ یہ اپنے علاوہ کسی اور دائرے کا اِحاطہ کرنے والے،کسی دوسرے طریقۂ مطالعہ وتفکیر کا انکار یا اس سے تصادم ہی کرتا ہے۔ لیکن اگر سائنس عالمِ غیب سے بحث ہی نہیں کرتی تو کیا اس سے اس کا کفر اور الحاد پر مبنی ہونا لازم آتا ہے؟ ایسا ہے تو پھر جو چیز سائنسی مطالعے کا بنیادی نقطۂ ترکیز ہے (یعنی مادّہ) اس کا ماننا بھی پھر کفر اور الحاد ہے۔ لیکن مادے کا وجود تسلیم کرنے سے ماورائے مادّہ کا انکار لازم نہیں آتا۔ ایک شے کا اثبات دوسری کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتا۔
سائنسی طریقۂ مطالعہ میں ایک مؤمن اور ایک ملحد شخص برابر ہوسکتے ہیں ۔ اس فرق کے ساتھ کہ ممکن ہے کہ آخرالذکر شخص سائنسی دریافتوں سے اپنے کفر والحاد پر شواہد لیتا ہو جبکہ پہلا شخص انہیں اپنے ایمان بالغیب کے لئے ایک نشانی کے طور پر لیتا ہو جس کی وجہ خود سائنس نہیں بلکہ وہ نظر (Vision) ہوگی جس کے تحت سائنس بلکہ ہر ایک شے کو دیکھا اور برتا جارہا ہو ، اور جو قلب وذہن میں پہلے سے پائی جاتی ہو۔
شرعی علوم و طبعی علوم:
علم شرعیہ یعنی وحی سے حاصل ہونے والا علم اور طبیعی علوم یعنی سائنس دونوں ہی فطرت کے اصولوں کی دریافت وتحقیق پر موکوز ہوتے ہیں۔ فطرت کے کئی پہلو اور جہتیں ہوسکتی ہیں۔ فطرت اپنی حقیقت وماہیت کی بنیاد پر بنی نوع انسان سے جن مقاصد کی تکمیل ہوتے دیکھنا چاہتی ہے اس کے لیے وہ اس کو عالمِ طبیعی کا میڈیم فراہم کرتی ہے،جس کے دائرے اور قاعدے میں رہتے ہوئے انسان نے فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنی ہوتی ہے۔ چنانچہ فطرت کی کنہ اور اس کے مقاصد کے اصول اپنی جگہ ، اور ان مقاصد کے حصول کے لئے فراہم کردہ میڈیم کے عمل کرنے کے اصول وقوانین اپنی جگہ۔ شرعی علوم فطرت کے پہلی قسم کے اصولوں سے بحث کرتے ہیں اور سائنسی علوم دوسری قسم کے۔ پہلی قسم کے اصول خداوندِ فطرت نے وحی کے ذریعے انسان تک پہنچائے اور ان کا جاننا اور ماننا انسانیت پہ فرض کردیا، کہ یہ حقیقت کی ”اصل“ اور اس کے مقاصد سے تعلق رکھتے تھے۔ جبکہ دوسری قسم کے اصولوں کو سمجھنے اور ان سے تفاعل کرنے کے لئے انسانی عقل کو آزاد چھوڑ دیا۔ البتہ چونکہ ہر دو قسم کے اصول وقوانین کی پنہائی، فطرات کی مشّاطگی سے ہی ودیعت کردہ ہے، اس لئے اسی کی طرف سے طبیعی اصولوں کے نظام کو شرعی اصولوں کے نظام یا مبداء(origin) کے لئے ایک طرح سے ایک نشانی اور indicator بنایا گیا۔ پھر انسانی قلب وذہن میں حقیقت کی کنہ کی جستجو لگا کے دہر میں وَحی کا ڈنکا بجادیا۔ یعنی ایک طرف طبیعی ومادّی امور سے غیر طبیعی وغیر مادّی امور کے ہونے کی نشانیاں دکھلائیں ، پھر طبیعی اصولوں کے نظام سے اس طرف راہ سجھلائی کہ اس سے بھی بالاتر اور عظیم تر اصولوں کا کوئی ایسا نظام بھی ضرور موجود ہے جو مادّی وطبیعی امور سے بلند تر معاملات کو کنٹرول اور طے کرتا ہے، اور یہ کہ انسانیت کے وجود کا مقصد اور غرض وغایت کسی ایسے ہی نظام سے پتہ چل سکتی ہے، اور اس کے بعد انسانوں میں سے ہی اپنے نیک طینت وپاک فطرت فرستادوں کے ذریعے وحی کی شکل میں یہ پورا نظام انسانیت کے سامنے اُس کے ایمان و تسلیم اور نتیجتاً اُس کی وسیع تر فلاح و کامیابی کے لیے پیش کر دیا۔ اور اِس سارے عمل کو اِنسانیت کی آزمائش قراردے کر اس کی پیدائش کا ہی اصل مقصد ٹھہرادیا۔
اس طرح طبیعی اصول اور شرعی اصول ایک ہی سلسلے کی دو باہم منسلک کڑیوں کے طور پر ترتیب پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ طبیعی اصول ، شرعی اصولوں سے انتہائی مختلف نوعیت رکھنے کے باوجود بطور ایک نظام ان کے ساتھ ایک گونہ استنتاجی ربط وتعلق کے حامل ہوتے ہیں۔
طبیعی اصول اگر کائنات میں کارفرماہی نہ ہوتے تو دوسری بات تھی لیکن اس طرح معاذاللہ خداوندِ فطرت کا غیر حکیم ہونا لازم آتا۔ اصول تو وہی ہوتے ہیں جن میں ایک باہمی ربط ، نظم، توازن، ہم آہنگی اور یک رنگی پائی جاتی ہو۔ اصولوں کاکوئی نظام انہی خصوصیات کی بناء پر تشکیل پاتا ہے۔ یعنی اصول الگ الگ انفرادی حیثیت میں نہیں پائے جاتے بلکہ اپنی قبیل کے دیگر اصولوں کے ساتھ ایک مکمل نظام کی صورت میں وجود رکھتے ہیں کہ جن کے درمیان زبردست ہم آہنگی اور یک رنگی پائی جاتی ہے۔پھر کسی نظام کا پایا جانا اس کے کسی یکہ وتنہا سرچشمہ کے ہونے پر دلالت کرتا ہے جو درحقیقت اس نظام کو برپا اور قائم کیے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس کائنات میں ہمہ وقت جاری طبیعی حوادث وواقعات کے پیچھے طبیعی اصولوں کے کارفرمانہ ہونے کے تصوّر سے کائنات میں توازن ، نظم اور یک رنگی (uniformity)پائے جانے کی نفی ہوتی ہے، جس سے خالق کا حکمت سے خالی ہونا تو، معاذاللہ ، لازم آتا ہی ہے، طبیعی واقعات وحوادث کا بے ہنگم،بے ڈھب، بے نظم اور بے ربط طور پر واقع ہونا بھی لازم آتا ہے جو ”فساد“ کے لوازمات میں سے ہے،جس سے درپردہ اس نظریے کو تقویت مل سکتی ہے کہ کائنات میں بیک وقت کئی مختلف قوتوں کے سرچشمے برسرِ عمل ہیں۔! جن میں سے ہر ایک دوسرے سے جداوبیگانہ ہے۔
لَوْ کَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ
”اگر آسمان وزمین میں اللہ کے سوا اور بھی الٰہ ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ پس اللہ، عرش کا رب ، ان چیزوں سے پاک ہے جو یہ (اُس کے لیے) بیان کرتے ہیں۔“ (الانبیاء۔22)
گویا کائنات میں توازن و یک رنگی اور اُس کے جاری وساری ہونے میں طبیعی اصولوں کے کسی نظام کا پنہاں ماننا وحدانیت ِ خداوندی کا ایک تقاضا ہے۔
کیا شک ہے کہ کائنات کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا وقوعہ بغیر ارادۂ الٰہی ومنشائے خداوندی کے انجام نہیں پاسکتا۔اس کی مرضی ،اختیار اور علم کے بغیر پتّا بھی نہیں ہلتا اور ذرہ بھی نہیں سرکتا۔ وہ زبردست قدرت والا غالب وقاہر ہے۔ اس کا حکم اور اختیار ہر ایک شے کے ظاہر وباطن پر بدرجۂ اتم طاری اور جاری وساری ہے۔ اس کی بلاشرکت غیرے فرمانروائی، اقتدار اور سلطنت سے کسی کو ایک ذرہ برابر چھوٹ اور راہِ فرار کا امکان نہیں۔ ہر اِک شے اور ہر اِک امر اپنی انجام دہی کے لئے ہرآن ایک اسی کا رہین التفات ہے۔
البتہ وہ قادر ہے حکیم وداناہونے کے ساتھ، اور غالب وقاہر ہے علیم وخبیر ہونے کے ساتھ۔ بے مقصدیت اس کو روا نہیں۔ بے معنی کام اس کو زیبا نہیں۔ ”عبثیت“ سے وہ پاک ہے۔ لہو ولعب ہر گز اس کے شایان شان نہیں۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ oمَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَکِنَّ أَکْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ َ o
”ہم نے زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے ، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ (الدّخان ۔38،39)
اسی نے جب اپنے بندوں کو کائنات میں اس کی نشانیاں دیکھنے اور ان میں فکر وتدبرکرنے کا حکم دیا ہے تو ضرورکائنات اور عقل ِانسانی میں کوئی ربط وتعلق رکھا ہے۔اور عقلِ انسانی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہرشے کو اس کے اطراف اور ساتھ پائی جانے والی اشیاء کے حوالے اور تعلق سے دیکھتی اور سمجھتی ہے۔ یوں اشیاء میں خود بخود ایک خاص ربط اور ہم آہنگی کا ہونا ناگزیر ٹھہرتا ہے،ایسا ربط وتعلق جو انسانی عقل کی گرفت میں آسکتا ہو۔ اشیاء کے باہمی ربط وتعلق سے ان کے عمل کرنے اور واقعات کے ظہور پذیر ہونے کے کچھ اصولوں کا پایا جانا بھی پھر ضروری ٹھہرجاتا ہے،ایسے اصول جو انسانی عقل سے دریافت کیے جاسکتے ہوں۔
پس کائنات میں ایک طرف طبیعی امور وواقعات کے رونما ہونے کے لئے خدا ہی کی طرف سے مقررکردہ طبیعی اصولوں کے کسی نظام کا ہونا، اور دوسری جانب ہر ایک انفرادی واقعہ میں ارادۂ الٰہی کا الگ سے کارفرماوپنہاں ہونا ایک زبردست حکمت الٰہیہ کا مظہر ہے، جس کی بدولت نہ تو یہ کائنات ہی ایک بے نظم، بے ڈھب، ناقابل ضبط اور عقل انسانی سے بے تعلق شے قرارپاتی ہے اور نہ کوئی بھی چیز ایک لمحہ کے لئے بھی غلبہ وقدرت خداوندی سے آزاد ٹھہرتی ہے۔
البتہ کچھ لوگ طبیعی اصولوں کے کسی نظام کا پایا جانا تسلیم کرلینے کو ہر ایک انفرادی وقوعہ میں ارادۂ خداوندی کے الگ سے موجود ہونے کا انکار سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یعنی جب ہر واقعہ کچھ لگے بندھے اصولوں کے تحت انجام پارہا ہے تو خدا کا ارادہ ہرواقعے کے پیچھے تو کارفرما نہ ہوا! چنانچہ ایک کو دوسرے کا نقیص سمجھتے ہوئے انہیں ان اصولوں کے کائنات میں پنہاں ہونے کا ہی انکار کرنا پڑجاتا ہے۔ جب ایسے کوئی اصول موجود ہی نہیں تو اشیاءوواقعات کے ہونے اور عمل کرنے میں ان کا باہمی کوئی ربط اور تعلق نہیں! کیونکہ اس ربط وتعلق سے ہی تو یہ اصول وجود پاتے ہیں اور اس تعلق کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں یہ ماننا پڑجاتا ہے کہ ہر ایک انفرادی وقوعہ تنہا ارادۂ خداوندی کا نتیجہ ہونے کے ناتے گردوپیش کے باقی تمام واقعات واشیاء سے آزاد اور لاتعلق ہوکر انجام پاتا ہے۔ یوں مشیئت الٰہی نے جب وقوعات کے درمیان کوئی طبیعی ربط نہیں رکھا تو حوادث کے وقوع پذیر ہونے کے طبیعی اصول نام کی کسی شے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی۔ جب یہ اصول فطرت میں پائے ہی نہیں جاتے تو ان کو ضبط میں لانا چہ معنی دارد؟ یوں انکار کا یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے بالآخر سائنسی طریقۂ علم ہی کے انکار پر جامنتج ہوتا ہے۔
گویا واقعات میں ربط اور تسلسل ، اور ان کے رُو پذیر ہونے کے طبیعی اصولوں کو تسلیم کرلینے سے یہ ماننا لازم آسکتا ہے کہ خدا نے اس کائنات اور اس کے نظام کو کچھ مخصوص اصولوں کے تحت بناکر چھوڑدیا ہے۔اور اب کائنات کا نظام خود بخود خالق کی منشا سے لاتعلق ہوکر ان اصولوں کے تحت چلا جارہا ہے، جس طرح گھڑی ساز گھڑی کو بناکر چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنے تیار کرنے والے سے آزاد طور پر چلتی رہتی ہے۔ ظاہر اس طرح کی سوچ رکھنا سراسر الحاد وکفر ہے لیکن ان کے حق میں جو پہلے سے ہی ملحد ہیں۔ مسلمانوں پر یہ کفر تو تب لازم آئے جب ان طبیعی اصولوں کے وجود اور اثر پذیری کو ماننے سے واقعی خالق کائنات کے ہمہ وقت کارفرما ارادے سے بالاتر ی اور بے نیازی کا تصور لازم آتا ہو۔ خالق کے قائم کردہ ان طبیعی اصولوں کو ماننا نیچریت نہیں ہے۔ کیونکہ نیچرسٹ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان اصولوں کو غیر استثنائی مانتے ہیں اور خود خالق کوایک طرح سے ان اصولوں کے آگے مجبور۔ جبکہ ایمان والے تو ہر ایک وقوعے کی نسبت خدائے علیم وحکیم کی طرف ہی کرتے ہیں۔اس کی انفرادی حیثیت میں بھی اور کسی سلسلۂ واقعات میں ایک کڑی کی حیثیت میں بھی۔ کیونکہ اللہ کی قدرتِ مطلقہ وکاملہ پر ایمان رکھنے والے اس کی حکمتِ واسعہ وبالغہ پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اور ان دونوں کے آثار وہ زمین وآسمان میں خدا کی جاری کردہ بے شمار سنتوں میں واضح طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ سنتیں خواہ بندوں کے اعمال کے نتیجے میں ظاہر ہوں یا کائنات کے ”افعال“ کی صورت میں، ہر طرح سے یہ خدا ہی کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کو واضح کرتی ہیں۔ البتہ استثناء ہر دو اقسام کی سنتوں میں پایا جاسکتا ہے ، جو ہر ایک انفرادی معاملے میں خدائی ارادے کی برتری اور غلبہ کو ظاہر کرتا ہے۔ استثناءات البتہ کہیں بھی ہوں، اصول وقوانین کی ضبط وتدوین میں آڑے نہیں آتے۔
خدا کی فرمانبرداری یا نافرمانی کی جانے کے حوالے سے جو خدائی سنتیں ازل سے چلی آرہی ہیں ، جن کے تحت کبھی انسان کی بداعمالیوں کے سبب خشکی اور تری میں فساد پھیل جاتا ہے اور کبھی اس کی فرمانبرداری کے صلہ میں زمین وآسمان سے برکات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،وغیرہ وغیرہ، تو جب ان ”شرعی اسباب“ پر مبنی خدائی سنتوں کے اصول وقوانین طے شدہ ہوجانے سے ارادۂ خداوندی کا معطل ہوجانا لازم نہیں آتا تو مادّی اور طبیعی اسباب پر مبنی خدا ہی کی طے کردہ سنتوں اور اصولوں کے متعین ہوجانے سے کیونکر ایسا لازم آسکتا ہے؟؟
کسی قسم کے فطری اصولوں اور قوانین کے وجود رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ لازماً قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہوں۔قرآن وسنت بنیادی طور پر شرعی اصولوں اور شرعی اسباب سے بحث کرتے ہیں۔ تاہم وہ مادی اور طبیعی اصولوں اور ان کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کرتے۔ یہ تو علوم شرعیہ کی اپنی منہاج کا تقاضا ہے کہ وہ کچھ خاص قسم کے اصولوں سے ہی بحث کریں۔ چنانچہ طبیعی علوم ان کی راہ میں آڑے نہیں آتے اور یہ خود طبیعی علوم کے آگے رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ شرعی علوم اور طبیعی علوم دونوں فطرت کے علوم ہیں۔ ان دونوں کی منہاج کا فرق یہی ہے کہ شرعی علوم عقل سے نہیں گھڑے جاتے، بلکہ ان کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ طبیعی علوم کے لیے وحی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ عقل کے ذریعے معلوم ودریافت کیے جاسکتے ہیں۔

طبیعی اصول و قوانین _ جو خداوند فطرت نے ہی کائنات کے وقوعات میں اثر پذیر فرمائے ہیں، لیکن یہ کسی انفرادی وقوعہ میں ارادۂ خداوندی کے الگ سے پنہاں ہونے میں مانع نہیں ہیں _ یہ طبیعی اصول اگر اس کائنات میں پنہاں ہیں تو پھر محال ہے کہ انسانی عقل کبھی اِن کو دریافت ہی نہ کر سکے۔ یعنی شب و روز صدیوں سے مادّی عوامل وامور انسان کے سامنے رُونما ہوتے رہیں اور عقل کی نعمت غیر مترقبہ رکھنے والی یہ اکلوتی مخلوق کبھی یہ معلوم کرنے پر ہی نہ آسکے کہ یہ طبیعی عوامل کیسے اور کیونکر واقع ہوتے ہیں۔! یا اگر معلوم کرے بھی تو بھی صدیوں کے سفر اور ذہنی و مادّی ارتقاءکے باوجود ہمیشہ غلط اندازوں اور نتائج ہی تک پہنچے۔! یا کبھی اگر ”بظاہر“ درست اندازوں تک پہنچ بھی جائے تو بھی اس کا نتیجہ کبھی حتمی نہ ہو۔ اور یہ جہان اور اس کے مظاہر انسانی عقل کے لیے ہمیشہ ایک دھوکا، سراب اور گورکھ دھندہ یا ایک ”شجر ممنوعہ“ کی سی حیثیت اختیار کیے رکھیں۔ اس طرح حقیقت تو کجا، ”حقیقت کے مظاہر“ ہی انسانی عقل کی ضبط بندیوں سے بالا تر قرار پائیں۔ پھر سوائے اس ایک بات کے انسانی عقل کسی حقیقت تک پہنچنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو کہ مظاہرِ کائنات اور عقل، ہر دو کی کوئی ضرورت ہے نہ مقصد! اور باقی حقیقتوں کے لیے کسی ”الہام“ کا منتظر رہنا پڑے۔
رہا یہ کہ تاریخ کے سفر میں انسان بہت سے اپنے ہی سائنسی نظریات بدلتا اور ردّ کرتا چلا آیا ہے، تو اِس سے یہ کہاں طے پا گیا کہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا رہے گا، اور کبھی کوئی نظریہ حتمی شکل اختیار ہی نہیں کر سکے گا؟ جب تک نظریات، مفروضہ (Hypothesis) کے phase میں ہوتے ہیں، اور ان کو تجربات کی مدد سے پرکھا اور جانچا نہیں گیا ہوتا، یا تجربات سے ان کی تصدیق نہیں ہوئی ہوتی، تب تک تو اس بات کی گنجائش موجود ہوتی ہے کہ کسی phenomenon کی تشریح کرنے والے کسی سائنسی نظریے کی جگہ کوئی اور نظریہ لے آیا جائے۔ لیکن تجربات سے بار بار ثابت ہو جانے کے بعد جب وہ مفروضہ، تھیوری کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو پھر یہ گنجائش قریب قریب ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ مزید سائنسی ترقی کے نتیجے میں پہلے سے ثابت شدہ کسی نظریے میں کوئی پیشرفت کرلی جائے، یا اس میں کوئی بہتری لے آئی جائے۔ سائنسی نظریات کی صداقت یا صحت دنیا میں پائی جانے والی سائنسی و ٹیکنالوجیکل ترقی کی صورت میں بہ آسانی بچشم سر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ طبیعی اصول و قوانین عالَم میں اگر کارفرما نہیں ہیں، یا اگر کارفرما تو ہیں مگر صحت و یقین کے ساتھ معلوم نہیں کیے جاسکتے، تو دنیا میں ایجاد کردہ ہزارہا آلات، پرزے، مشینیں، مصنوعات اور پلانٹس انسانیت کو کیونکر اپنی پیداوار، ثمرات اور مضمرات بہم پہنچا رہے ہیں؟؟ یا یہ بھی محض فریبِ نظر، اور فہم کا دھوکا ہے؟ یا یہ کہ یہ ایجادات اور دریافتیں بھی صرف الہامات کا نتیجہ ہیں، اور عقل نے بہر صورت لبِ بام تماشا ہی دےکھنا ہے؟؟؟
کائنات میں کارفرما طبیعی اصولوں میں یک رنگی و استمرار (uniformity) ، ان کی مدد سے طبیعی واقعات اور اشیاء کے وقوع پذیر ہونے کی بابت ٹھیک ٹھیک اندازہ کیا جانا (predictability) اور ان کی مقداری و تحسیبی حیثیت(computability) کا ہونا دنیا کا ایک مسلّمہ واقعہ بن چکا ہے۔ یعنی سائنسی نظریات کو اس قدر ترقی یافتہ شکل دی جا چکی ہے کہ انہیں اب بہ آسانی ریاضیاتی فارمولوں کی مدد سے بیان کیا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اور عالم ِ واقعہ میں اِن اصولوں کا اِطلاق و استعمال (یعنی ٹیکنالوجی کا حصول) اِن فارمولوں کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔ بعض سائنسدانوں کے بقول، طبیعی اصول (physical laws) تو وہی ہوتے ہیں جنہیں فارمولوں کی زبان میں ڈھالا جا سکے۔ فارمولوں کی شکل اختیار کر لینے کے بعد طبیعی اصولوں کی مذکورہ تینوں خصوصیات یعنی uniformity ، predictabilityاور computability انتہائی واضح طور پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اِس کے بعد اِن فارمولوں کی پشت پر پائے جانے والے سائنسی نظریات کے تبدیل یا ردّ ہونے کے اِمکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
اس کی ایک انتہائی سادہ مثال سورج گرہن اور چاند گرہن ہونے کی سائنسی پیشینگوئیاں ہیں۔ فلکیات اور ہیئت کے علوم سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اپنے علم کی مدد سے مہینوں پہلے اِن واقعات کی جو پیشینگوئی کر دیتے ہیں، وہ بعد ازاں اپنے وقت اور مقام کے اعتبار سے بالکل درست اور صحیح (exact & accurate) نکلتی ہیں۔ جدید دنیا کے باسیوں کے لیے یہ بات تقریباً معمول کا ایک واقعہ بن چکی ہے، کہ وہ اِن فلکیاتی پیشینگوئیوں کی صداقت اور صحت بارہا ملاحظہ کرتے رہے ہیں۔ یہ سائنسدان اتنی درست پیشینگوئی کیسے کر جاتے ہیں؟ کیا اُن کے ہاتھ علمِ غیب کا کوئی سرا لگ جاتا ہے، یا یہ کہ وہ اجرامِ فلکی سے متعلق طبیعی اصولوں پر مبنی ریاضیاتی فارمولوں کی مدد سے اِن اجرام کی حرکت و رفتار وغیرہ کی تحسیب کے ذریعے ان نتائج تک پہنچتے ہیں؟ درحقیقت ایسے محض ایک واقعے کی درست اور مکمل prediction کے لیے کئی ایک ریا ضیاتی تخمینات (Mathematical Calculations) کی مدد لی جاتی ہے۔ پھر ہر ایک تخمین اورفارمولے کے ساتھ کئی ایک سائنسی نظریات متعلق ہوتے ہیں، جن میں سے کسی ایک جگہ بھی ذرا سی غلطی نتائج میں بہت بڑا فرق لے آنے کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نتائج مذکورہ مثال کے حوالے سے ہمیشہ سو فیصد درست نکلتے ہیں۔
اِ س مثال سے کم اَز کم یہ ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ بہت سے پیچیدہ طبیعی اصول _ جو خالقِ کائنات نے ہی وضع فرمائے ہیں _ اِنسانی عقل سے بالکل صحیح صحیح طور پر معلوم و دریافت کیے جا سکتے ہیں۔پھر جب خلا میں موجود اجرام سے متعلق اتنے درست سائنسی نظریات قائم کیے جا سکتے ہیں جو اِنسان کی پہنچ اور رَسائی سے حقیقتاً بہت ہی دور ہیں تو انسان خود اپنی دنیا کے کرّۂ حیات (Biosphere) سے متعلق سائنسی نظریات رکھنے میں درستی اور صحت کے مقام پر کیوں نہیں پہنچ سکتا؟!
مظاہرِکائنات اور ان کے طبیعی اصول _ یعنی سائنس_ اگر خود حقیقت نہیں ،تو حقیقت سے جدا اور منقطع بھی نہیں ۔ حقیقت سے ہی پھوٹنے اور اس سے ایک زبردست تعلق و ہم آہنگی رکھنے کے ناتے یہ اِنسان کو حقیقت ہی کی طرف پلٹاتے اور اسی کا سرا تھماتے نظر آتے ہیں۔ کوئی تھامنے پر آئے تو۔!

تحریر محمد بن مالک، ایقاظ

  • ایمان، عقل اور سائنس | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    April 16, 2019 at 10:06 am

    […] سائنسی حقائق کا قرآنی اشارات کے مطابق ہونا یہ بات ایک حقیقت ہے کہ گزرتے ہوئے زمانے اور ادوار کے ساتھ انسان نے مادی کائنات کے متعلق اپنے بنیادی علم کو بذریعہ تجربات اور تحقیق وتفتیش ناقابل یقین حد تک آگے بڑھادیا ہے ۔ اور کئی ایک ایسے حقائق کا ادراک کیا ہے جن تک پہنچنا گزشتہ ادوار میں ایک نا ممکن سی بات تھی ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ تمام نئے سائنسی حقائق محض مفروضات ہی ہیں جو کسی بھی وقت بدل کر کچھ اور ہوسکتے ہیں ۔ بلکہ ان کی بنیاد پر عالمِ واقعہ میں ہونے والی نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی ترقی ان حقائق کی مسلمہ حیثیت کو ثابت کرتی ہے۔ پھر یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مادی دنیا یا مادے سے متعلق قرآن کے بہت سے انکشافات ایسے ہیں کہ جو عالمِ واقعہ کے اندر گزشتہ ادوار میں انسان کے مشاہدے کے دائر ے میں نہیں آتے تھے ، اس لیے ان پر محض ایمان ہی رکھا جاسکتا تھا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ خصوصاً گزشتہ چند صدیوں میں جب کہ سائنسی ترقی کی بدولت انسان کے مشاہدے اور تجربے کے دائرے میں نہایت درجہ وسعت پیدا ہوگئی تو بہت سے معلوم ہونے والے نئے مادی حقائق کی ان قرآنی انکشافات کے ساتھ حیرت انگیز مماثلت ثابت ہوتی نظر آئی ۔ مثلاً بطنِ مادر میں جنین (Embryo) کی افزائش و نمو کے مختلف مراحل جنہیں قرآن بیان کرتا ہے، سائنسی ترقی کے دور سے پہلے انسان کے لیے قابل مشاہدہ نہیں تھے ۔ لیکن اب جبکہ سائنسدانوں نے ان مراحل کو سائنسی طور پر معلوم و دریافت کرلیا ہے تو یہ عین وہی اور ویسے ہی ثابت ہوتے نظر آتے ہیں جس طرح کہ قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح کی اور درجنوں مثالیں موجودہیں ۔ چنانچہ قرآن اور جدید سائنسی حقائق کے درمیان مماثلت یا اشتراک کی بدولت حوالے کے فریم کی ایک نئی جہت سامنے آنا شروع ہوئی جو موجودہ دورمیں سائنسی اور تجرباتی ذہن رکھنے والے انسان کو مخاطب اور اپیل کرنے کے لیے بجا طور پر حوالے کے نقاط فراہم کرسکتی ہے۔ ٍ قرآن پر اور دین ِاسلام پر لوگوں کو دعوت ِایمان دینے کے لیے آخر کچھ نہ کچھ مُشترکہ بنیادیں تو درکار ہوں گی ۔قرآن توہر دور اور ہر ذہن کے انسان کو خطاب کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ جبکہ دعوت کا مفہوم لوگوں کے قلوب واذہان پر اثر ڈالنا ہے نہ کہ محض بات پہنچا دینا ۔سو، جدید ذہن کے حامل انسان کو جو اسلام کے ساتھ کوئی قابل ِذکر مشترکہ ایمانیات نہیں رکھتا ، مخاطب اور متاثر کرنے کے لیے ہمارے پاس حوالے کے نقاط کیا ہیں؟ بادلوں کا بارش برسانا ، ہواؤں کا چلنا ، بارشوں سے مردہ زمین کا لہلہا اٹھنا ، اندھیری راتوں میں ستاروں کا راہبر ہونا ، پہاڑوں کا زمین میں بطور میخ گڑا ہونا ، سورج اور چاند کا اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے گردش کرنا ۔۔۔۔اور درجنوں ایسے ہی مادی حقائق کی بنیاد پر قرآن لوگوں کو ایمان لانے کے لیے دعوت ِغور وفکر دیتا آیا ہے تو آج کے ثابت شدہ مادی حقائق قرآن میں دکھلا کر ان کی بنیاد پر لوگوں کو غوروفکر اور ایمان بالغیب کی دعوت دینے میں بھلا کیا قباحت ہے؟ اور اس سے اسلام کی پیراڈائم کو کیا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے؟۔ قرآن کی ایک اپروچ اگر یہ بھی ہے کہ وہ مادی حقائق اور عالم ِغیب کے درمیان تلازم اور ربط دکھلاکر اپنی پیش کردہ غیب کی تفصیلات پر ایمان لانے کا تقاضا کرتا ہے تو اسی اپروچ کو استعمال کرتے ہوئے کچھ ”نئے “ سائنسی حقائق کا تعلق ”کُل قرآن “ پر ایمان کی دعوت دینے کے لیے ”بعض “ قرآن سے کیوں نہیں جوڑا جاسکتا ؟ جبکہ مقصد دونوں جگہ بالکل ایک ہے ۔ رہا فرق طریقہ کار کا تو وہ دونوں جگہوں پر واقعات و حقائق کے بیان کی معجزاتی حیثیت کی نسبت سے ہے۔ معجزہ کا مقصد جہاں اللہ کی قدرت ، اختیار اور فاعلیت کا براہِ راست ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے (کیونکہ معجزہ، ”عادت“ (Routine) اور طبیعی و مادی قوانین کے برعکس واقع ہوتا ہے) وہیں اس ہستی یا شے کا ، جس سے معجزہ کا صدور ہوا ہے، منجانب اللہ ہونا (یعنی خدا کا نبی یا خدا کا کلام ہونے کے حیثیت سے) بھی ثابت کرناہوتا ہے۔ کسی کا منجانب اللہ ہونا بطور کُل اگر ثابت ہو جائے تو اس کی ہر ایک بات کا منجانب اللہ پھر آپ سے آپ متحقق ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اصولی طور پر، اس ہستی یا شے پر ایمان لانے میں کوئی مانع بھی باقی نہیں رہتا۔ قرآن اللہ کا کلام اور دنیا کے اندھیروں میں آدمی کے لیے ہدایت کا نور ہے، جس نے تا قیامت انسانیت کے قلب و ذہن کو اپنی لافانی روشنیوں سے منور کرتے رہنا اور حقیقت کی جستجو میں اس کی تشنگی کو ہر دور میں تسکین بخشتے رہنا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ یہ اس خالق و فاطر کا کلام ہے جو اپنے اسماء و صفات اور افعال میں بے مثل، بے عیب اور غالب و قاہر ہے۔”کلام“ بھی اس کی ایک صفت ہے ۔یوں اللہ کا کلام ہونے کے ناطے یہ قرآن اس دنیا میں پورے کا پورا ایک معجزہ ہے، جس کی کوئی ذرہ برابر بھی نظیر اور مثال ہو ہی نہیں سکتے۔ خواہ اس کے الفاظ ہوں ، اسلوب ہو ،پیریہء بیان ہو یا اس کے بیان کردہ واقعات وحقائق ،یہ اپنے ہر ہر انداز سے ایک معجزہ اور فکر کو مہمیز دینے والا کلام ہے۔اس کی معجز نمائی تا قیامت جاری رہے گے۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہونگے ۔ اس سے سیرابی اور شفایابی کی تمناو جستجو رکھنے والے ہر دور میں اس کے فیض عام سے بہرہ اندوز ہوتے رہیں گے۔تاقیامت لوگ اس سے ہدایت اور منفعت حاصل کرتے رہیں گے۔ کون سی چیز ہے جس کے ذکر سے یہ کتاب خالی ہے ؟کونسی بات ہے جس کا اس میں بیان نہیں؟ وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْءٍ (النحل – 89)”اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے کہ جو ہر چیز کا بیانِ (مفصل )ہے۔“ چنانچہ قرآن کی ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور ہمہ وقتی معجزاتی حیثیت کے پیش نظر اس میں ایسے سائنسی حقائق سے متعلق اشارات کا پایا جانا جو گزشتہ ادوار میں معلوم یا دریافت نہیں ہو سکے تھے (حتی کہ وہ بھی جو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکے ہیں اور آئندہ کسی زمانے میں ہوسکیں گی) ہرگز مستبعد نہیں ہے۔ بلکہ از قبیل تسلسل ِعجائب ِقرآن ہے۔ کائنات اور حیات سے متعلق سائنسی حقائق کا قرآنی اشارات کے مطابق ہونا اور یوں ان کا انسان کے قرآن پر ایمان لانے کے لیے ایک نشانی (آیات ) اور ایک بنیاد ہونا تو خود قرآن میں مذکور ہے جسے دورِ جدید کے داعیان اسلام بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (حم السجدۃ – 53)”ہم عنقریب انکو اطراف ِعالم میں اور خود ان کی ذات میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ یہی (قرآن) حق ہے۔“ درست، کہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے ، نہ ہی اس کے نزول کا مقصد سائنس کی تعلیم دینا ہے۔ اسی طرح قرآن کی حقانیت پر ایمان جدید سائنس کی تائید و شہادت ہی پر منحصر نہیں ہے ۔ لیکن نہ تو یہ دونوں امور قرآن میں سائنسی اشارات کے پائے جانے میں مانع ہیں ، اور نہ جدید سائنسی حقائق اور قرآنی اشارات کے درمیان اشتراک تلاش کرکے اسے بطور معجزہء قرآن دعوت کا ایک حوالہ (Reference) بنانا قرآن کو جدید سائنس کے تابع کردینے کے مترادف ہے ۔ پس اسلام کے کسی داعی کی طرف سے سائنسی حقائق اور قرآنی اشارات میں مماثلت پیش کیا جانا دراصل قرآن کی معجزاتی حیثیت کا بیان ہونا ہے کہجو بات جدید سائنس نے آج بڑی دقتوں سے معلوم کی ہے وہ قرآن نے صدیوں پہلے بغیر کسی مادی تحقیق کے بیان کردی تھی ۔ پھر اسی بات کو دعوت کی بنیاد بنایا جاتا ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن کی” بعض “کی معجزاتی حیثیت کی بنیاد پر قرآن کی’ ’کُل“ پر ایمان کی دعوت کوئی منطق کے استقرائی طریقہ کار کے تحت نہیں ہوتی (کہ جس میں حتی الامکان تمام اجزاءکو الگ الگ انفرادی طور پر ثابت کرکے پھر انکے مجموعے یا کُل کا اثبات ممکن بنایا جاتا ہے )بلکہ صرف چند حقائق میں مماثلت ہی کُل قرآن اور اسلام کی حقانیت کی دعوت پیش کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی نبی کے ایک معجزے یا چند معجزات کی بنیاد پر اسکی تمام باتوں پر ایمان لے آیا جائے ۔ چناچہ خود اسی طریقہ استدلال کو استعمال کرنے والے داعی حضرات اس طرح قرآن کو سائنسی کتاب کی بجائے ایک معجزاتی کتاب ثابت کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان مخلص اور سلیم الطبع داعی حضرات پر قرآن اور دین کوجدید سائنسی پیراڈائم کے تحت و تابع کردینے کا الزام تو ایک طرف رہا ،خود مجرد جدید سائنس کے تمام نظریات سے ان لوگوں کا متفق ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ جیسے ڈارون کا نظریہء ارتقاءاسلام کے نظریات سے شدید طور پرمتصادم ہونے کی بناء پر ہمیشہ سے شدید اور کڑی تنقید کا سامنا کرتا رہا ہے۔ اور اگر چہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ سائنسی نظریات بعض اوقات ردّ ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے سائنسی نظریات لے لتے ہیں (البتہ روز افزوں سائنسی ترقی و تحقیق کے باعث اس عمل میں بھی بڑی حد تک کمی آچکی ہی) لیکن یہ بات بھی اسلام اور سائنسی حقائق کے درمیان اشتراک تلاش کرنے میں مانع نہیں ہے۔ کیونکہ صرف اسلامی اصول و عقائد کے موافق، اور مسلّمہ طور پر ثابت شدہ سائنسی حقائق (Well established scientific facts) ہی اسلام اور سائنس کی مماثلت کے موضوع پر ، دعوت کی غرض سے ، ان اسکالرز کی بحث و گفتگو کا محور بنتے ہیں۔ اسلام اور سائنس کے درمیان مماثلت تلاش کرنے کا یہ عمل ایک مخصوص اور محدود دائرے کے اندر اندر ہوتا ہے، جو دراصل خود اسلام کی اپروچ کے تابع ہوتا ہے۔ ورنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو، کثرت کے ساتھ قرآنی آیات کی بے جا سائنسی تاویلات اور دور اَزکار توجیہات ان لوگوں کی طرف سے دیکھنے میں آرہی ہوتیں ۔۔۔۔، جس پر کہ معروف وجید علمائے کرام کی تنقید و تردید پھر ایک مشہور و معلوم بات ہوتی۔ یہاں اگر تفریط کی صورت میں یہ ایک انتہا ہے کہ سائنس کو کلیۃً اسلام کے خلاف قرار دیکر اس سے ”بری الذمہ“ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے، تو ہرشرعی مسئلہ کی طرح اس معاملے میں بھی بہ صورت افراط ایک دوسری انتہا کا پایا جانا ہرگز خارج از امکان نہیں بلکہ ایک امر واقعہ ہے۔ چنانچہ کسی شخص نے اگر اپنی کسی تالیف یا تفسیر قرآن میں ہر سائنسی رطب و یابس (بشمول ڈارون کا نظریہء ارتقاء) کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہو تو ایک شخص یا چند اشخاص کی غلط اپروچ پر باقی تمام لوگوں کو تو موردِالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ نہ ہی ان سب کی یکساں صف بندی کی جانا کوئی عدل و انصاف کے قرین ہے ۔ ویسے بھی اس قسم کی تفاسیر پر علمائے کرام کی شدید تنقید و تردید کا تو خود سائنس مخالفین کو اعتراف بلکہ دعویٰ ہے۔ قرآن میں ان سائنسی حقائق سے متعلق اشارات کا پایا جانا جو آج کے دور میں جا کر دریافت ہوئے ہیں، غیر مسلموں پر تو گہرا تاثر قائم کرتا ہی ہے ، مسلمان بھی اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ یوں ان کا ایمان مزید بڑھتا اور ان کے اطمینان قلب میں مزید اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ ان کا سائنسی ذہنیت کا حامل ہونے کی بجائے قرآن کی معجزاتی حیثیت کو پا کر دم بخود رہ جانا ہوتا ہے ۔ ورنہ قرآن پر ان (مسلمانوں ) کا پہلے کا ایمان کوئی سائنس کا مر ہونِ منّت تھوڑی رہا ہوتا ہے۔ یہ بات کہ اسلام کے بہت سے جدید اسکالرز اور داعی حضرات اسلام اور سائنس کے مشترکہ امور کو حوالے کی بنیاد بنا کر دین کی دعوت پھیلارہے ہیں، آج کے دورکا ایک مشہور و معروف واقعہ ہے ،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسلام کے آغاز سے اب تک ہر دور کی طرح اس دور میں بھی علمائے حق کی کثیر تعداد مسلمانان ِعالم کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت موجودو مستعد ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلام کے کسی نظریے یا عقیدے پر کوئی آنچ آرہی ہو ، یا اس کی ایمانیات میں ملاوٹ یاکمی بیشی کی کوشش کی جارہی ہو تو سب سے پہلے یہ علمائے کرام ہی ہیں جو اس واقعے کا نوٹس لیتے اور عامۃالمسلمین کو اس سے خبردار و ہوشیار کرتے ہیں ۔ کسی مسئلہ یا واقع میں علمائے کرام تائید میں جاتے ہیں یا مخالفت میں ، یا خاموش ہی رہتے ہیں ،۔۔۔۔ غرض جو بھی طرزِ عمل اپناتے ہیں وہی عامۃ المسلمین کی سمت بندی کے لئے ایک معیار بن جاتا ہے۔ چنانچہ کسی چیز کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے سے متعلق عالم ِاسلام کے جیدعلماء کی آراءہی کو مدنظر رکھنا یا اس بابت ان ہی کی طرف رجوع کیا جانا ناگزیر ہے جس سے انحراف کی کی روش ایک خطرناک طرزِ عمل ہے۔ مزید برآں، سائنس اور عقل ، اسلام اور اس کی ایمانیات کی کتنی مخالف ہیں ، اور مخالف ہیں بھی یا نہیں اس کا کوئی ثبوت اگر ہو تو خود اسلام اور اس کی ایمانیات سے دیا جانا چاہیے نہ کہ کہیں اور سے ۔ اسلام ایک جامع ، کامل ، ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے، اور اپنی حقانیت اور دیگر ادیان ونظاموں کے بطلان کے دلائل آپ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ یہ اپنی نہاد میں اس قدر صاف ، شفاف ، کھرا، سچا اور خالص ہے کہ کسی بھی قسم کا کھوٹ یا ملاوٹ اس میں بار پاہی نہیں سکتی ،بلکہ فوراً الگ سے ، صاف طور پر پہچان لی جاتی اور ردّ کردی جاتی ہے۔اب اسلام کی ایمانیات کی کیا منہاج (paradigm) ہے ، یا اس کی ایمانیات کے بنیادی اصول یعنی اسلام کے اصول ِعقیدہ کیا ہیں ، تو اس کے لیے کوئی بہت زیادہ تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی اس غرض سے اسلام کے اپنے طریقہء مطالعہ کو چھوڑ کر کسی اور طریقہء تفکیر (Discourse) مانند فلسفہ کو استعمال کرنا درست ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اسلام کے اصولِ عقیدہ تو روزِ روشن کی طرح واضح ہیں اور صدیوں سے چلے آئے غیر مبدّل اور ناقابل ِتحریف اسلام کے مصادر ہی اس کے بیان کا حق محفوظ رکھتے ہیں نہ کہ یہ موجودہ دور کے کچھ مغربی فلسفہ سے واقف افراد کو ہے، اسلام کے مزعومہ دفاع کے لیے کچھ نیا اس باب میں ”متعارف“ کرانا پڑے گا۔!مغربی فکر و فلسفہ کا مطالعہ اگر فرض نہیں ، تو ایسا برا بھی نہیں ہے، بشرطیکہ اس نگاہ اور طریقہء تفکیر کا ہی پہلے شعوری تعین کرلیا جائے جسکے تحت پھر یہ مطالعہ کیا جانا ہو ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے، یا اسکے لیے، اسلام کے اصول ِعقیدہ پر مبنی مشہور و متداول کتب کسی عالم سے پڑھ لی جائیں تو پھر ا س اپروچ کا درست ہوجانا کافی حد تک ممکن ہے۔ اور توفیق تو صرف خدائے ربِّ ذوالجلال کے پاس ہے۔ حصہ دوئم […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password