کیا ہیومن رائٹس واقعی نیوٹرل ہوتے ہیں ؟

موجودہ دور کی ریاستوں کا مذہب “ہیومن رائٹس” ہوتا ہے جسے نہایت چالاکی کے ساتھ “نیوٹرل پوزیشن” سے تعبیر کر دیا جاتا ہے؛ فرق اتنا ہے کہ حقوق کی تفصیلات سے متعلق یہ مذہب انسانوں کا اپنا بنایا ہوا ہے۔ نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔یہ کہتے ہیں کہ “جدید ریاست مذھب سے ماوراء رہ کر اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا تعین کرتی ہے” لیکن آپ ایسا کہنے والوں سے پوچھئے گا کہ “اچھا یہ بتاؤ کہ مذھب سے ماوراء رہ کر یہ جو حقوق ڈیفائن کرتی ہے، ان حقوق کا ماخذ کیا ہے؟”
ان میں سے پچاس فیصد سے زائد کو تو اس سوال کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی، یہ بس ایک عام سی چلتی ہوئی بات کرتے ہیں، یہ سوال سن کر سٹ پٹا کر کچھ ادھر ادھر کی کہنے لگیں گے۔ پھر جو اس سوال کا جواب واقعی جانتے ہیں، اس کی ایک اکثریت بھی اس کا جواب دینے سے جان بوجھ کر احتراز کرتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سوال کا “اصل جواب” دینے سے غلط فہمیوں سے بنے گئے اس جال کے تار ٹوٹ جاتے ہیں جس کے ذریعے یہ عوام الناس کا شکار کرنا چاھتے ہیں۔ ان میں سے بہت تھوڑے ہی یہ جانتے اور کہنے کی جرات رکھتے ہیں کہ “جی ان حقوق کا ماخذ تنویری فکر سے ماخوذ ہیومن رائٹس فریم ورک ہے”۔تو گویا اب انکی پوزیشن یہ ہوئی کہ جدید ریاست لبرل ھیومن رائٹس کے تناظر میں اپنے شہریوں کے حقوق کا تعین کرتی ہے (یہ “مذھب سے ماوراء” وغیرہ جیسے الفاظ محض اپنی پوزیشن کو خوشنما دکھانے کے لئے بولے جاتے ہیں)۔
تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ جس طرح آپ یہ کہتے ہو کہ “ریاست کو چاھیے کہ وہ شہریوں کے حقوق ھیومن رائٹس سے اخذ کرے” بعینہہ ھمارا یہ مقدمہ ہے کہ “ریاست کو اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا تعین قرآن و سنت کی روشنی میں کرنا چاہئے”۔ بتائیے اس میں سوائے ترجیحات کے کیا منطقی مسئلہ ہے؟ آخر ایک بندہ مؤمن قرآن و سنت کو پیچھے کرکے تنویری فکر سے ماخوذ ھیومن رائٹس کو کیوں کر مقدم کرلے؟
“ہیومن رائٹس (انسانی حقوق) کی خلاف ورزی” آج ویسا ہی ایک معقول و مانا ہوا حوالہ بن گیا ہے جیسے ایک زمانے میں “شرعی حقوق” حوالہ ہوتے تھے۔ جدید لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر غیر مسلم لوگ مسلمان نہ ہوتے ہوئے اجتماعی زندگی میں “شرعی حقوق” کا حوالہ کیسے مان لیں؟ تو جناب ان سب نے “ہیومن نہ ہوتے ہوئے” آخر “ہیومن رائٹس” کا حوالہ کیسے مان رکھا ہے؟ علمی و سیاسی غلبہ اسی کو کہتے ہیں، یہ اپنی دلیل و جواز از خود رکھتا ہے۔
درحقیقت ہیومن رائٹس دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسانوں پر ان کی مقامی اقدار و روایات کے خلاف جبر کرنے کا آلہ ہے۔ جب یورپی اقوام اپنی سرحدوں سے باہر دنیا بھر میں لوٹ مار کرنے کی خاطر پھیلتے پھیلتے امریکہ پر قابض ہوئیں تو وہاں کے مقامی باشندوں کی دولت لوٹنے کا علمی جواز فراہم کرنے والا مفکر کوئی اور نہیں بلکہ ھیومن رائٹس سے ماخوذ عمرانی معاھدے پر مبنی جمہوری ریاست کا جواز بیان کرنے والا رواد اولین (pioneer) جان لاک تھا۔ جان لاک نے بتایا کہ زمین کا ہر وہ قطعہ کہ جس پر ایک شخص اپنی محنت شامل کرلے تو وہ اسکی ملکیت بن جاتی ہے۔ چونکہ ریڈ انڈینز امریکہ کی لق و دق پیداواری صلاحیت کی حامل زمینوں کو سرمائے (پراپرٹی) کے فروغ کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ اس عمل کو فروغ دینے کا سہرا یورپی اقوام کے سر ہے، لہذا امریکی باشندے ان زمینوں کے مالک نہیں، یورپی اقوام کا ان زمینوں پر قبضہ کرنا ان کا جائز حق ہے۔ یعنی پہلے آپ پراپرٹی کی ایک تعریف متعین کرو، پھر اسے دوسری قوم پر لاگو کردو کہ چونکہ تمہارا “تصور پراپرٹی” پراپرٹی کے اس تصور سے ھم آھنگ نہیں ہے جو ہم بیان کرتے ہیں لہذا تمہیں حق نہیں ہے کہ تم پراپرٹی کے مالک بنو۔ یہ محض ایک چھوٹی سی مثال ہے، ھیومن رائٹس کی تاریخ ایسے امور سے بھری پڑی ہے۔
اس سے متعلق ایک اوراصول جو یورپی اقوام نے اپنے نام نہاد بین الاقوامی قانون کی اساس کے طور پر قبول کیا تھا، یہ تھا کہ جو خطۂ زمین کسی ریاست کی ملکیت نہیں (terra nullius)، اس پر اسی ریاست کی ملکیت قائم ہوجاتی ہے جو اس پر قبضہ کرلے (اور ریاست اور قوم سے اس قانون کی رو سے مراد کوئی بھی یورپی مسیحی قوم تھی جسے اب ‘قومی ریاست’ (nation-state) کا نام دیا گیا)۔ چنانچہ ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا، غرض یورپ سے باہر کی ساری دنیا عملاً terra nullius قرار پائی۔ جس یورپی ریاست نے جس خطے پر قبضہ کرلیا وہ اس ریاست کی ملکیت قرار پایا۔ (برٹش انڈیا، فرنچ انڈوچائنا وغیرہ کی مثالیں دیکھ لیجیے۔) غیر یورپی/غیرمسیحی اقوام کےلیے اصول یہ طے پایا کہ تین شرائط قبول کرلیں تو اس کے بعد ہی انھیں ‘قومی ریاست’ کی حیثیت سے قبول کیا جاسکتا ہے:
1۔ وہ ‘تہذیب’ کی ایک خاص سطح تک پہنچ چکے ہوں؛
2۔ وہ یورپی قانون بین الاقوام کی شرائط قبول کرلیں؛ اور
3۔ ‘بین الاقوامی برادری’ اسے اپنے ساتھ شامل کرنے پر راضی ہو۔
یہی تین شرائط آج بھی بین الاقوامی قانون کی روح کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ‘بد معاش ریاست’، ‘شر کا منبع’، ‘انسانی آزادی کے مخالف’، ‘جمہوریت مخالف’ اور اس طرح کے دیگر القاب ان اقوام کے لیے اب بھی مستعمل ہیں جو آپ کے سانچے میں خود کو ڈھالنے پر آمادہ نہ ہو۔ پھر ایسی اقوام میں ‘انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت’ (humanitarian intervention) اور ‘بین الاقوامی امن کو خطرہ’ (threat to international peace) قرار دے کر ‘حکومت کی تبدیلی’ (regime change) آج کے بین الاقوامی نظام میں اسی طرح رائج ہے جیسے سترھویں، اٹھاویں، انیسویں یا بیسویں صدی عیسوی میں تھی۔ اب تو یوروپین یونین نے ‘حقوقِ انسانی کی ترویج’ کو’ GSP Plus کی حیثیت کےلیے شرط قرار دیا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو اپنے قوانین میں تبدیلی، جیسے سزاے موت پر پابندی، پر اسی طرح مجبور کیا جاتا ہے۔
اقبال کی دور رس نگاہ نے ایک صدی قبل دیکھ لیا تھا:
دیو استبداد جمہوری، قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری!
حال ہی میں یو این نے پاکستان سے بدکاری جبکہ انڈونیشیا سے ھم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کا مطالبہ کیا ۔(ایکسپریس ٹریبیون، 7 فروری 2018ء)، (ایکسپریس ٹریبیون، 9 اپریل 2018ء)
اس کے برعکس اگر مسلمانوں کی کسی عالمی تنظیم نے امریکہ و یورپی ممالک سے مطالبہ کیا ہوتا کہ مثلا وہ بدکاری و ھم جنس پرستی کو جرم قرار دیں تو اسے (جدت پسندوں کی طرف سے ) استعماریت کہا جاتا۔ ہیومن رائٹس والے دوسروں سے اپنے تصور خیر (دین) پر عمل کا مطالبہ کریں تو اس سے کسی اقلیت و اکثریت کی حق تلفی کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے ھیومن رائٹس کی دھونس جتانے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، ہاں اگر مسلمان اپنے علاقوں میں اپنے تصور خیر کے مطابق قانون بنالیں تو اس سے نجانے کس کس کی حق تلفی بھی ہوجاتی ہے اور مسلمانوں پر عالمگیریت کا الزام بھی در آتا ہے۔
رب کی دھرتی پر رب کا نظام۔ یہ تو عالمگیریت ہے۔رب کی دھرتی پر ھیومن کا نظام ۔ ماشاء اللہ یہ تو عین عدل ہے۔یہ ہے ہمارے جدید دانشوروں کی دانش وری کی حقیقت۔ اگر کچھ ہی عرصے میں اس موضوع پر پاکستانی دانش ور پوسٹ ماڈرن ازم، یا تاریخیت، یا ہرمینیوٹکس، یا “عادی مجرم” یا “انتہائی سزا” یا “مفاسدی فکر” وغیرہ کے “براہینِ قاطعہ” کی مدد سے اس موضوع پر بحث شروع کردیں تو حیرت کا اظہار نہ کریں۔
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل ، ڈاکٹر مشتاق

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password