امام غزالیؒ کا فکری سفر ’’المنقذ من الضلال‘‘ کی روشنی میں

ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (۱۰۵۸/۴۵۰۔ ۱۱۱۱/۵۰۵) اس عبقری شخصیت کا نام ہے، اسلامی تاریخ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ امام غزالی کی انفرادیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ وہ اپنے عہد کی تمام تاریکیوں سے گزر کر، بے اعتدالیوں کو گہرائی سے سمجھ کر، علاج کے لیے کمر بستہ ہوئے اور کامیاب ہوئے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ فلسفے میں ابن سینا اور فارابی کا درجہ رکھتے ہیں مگر بطور فلسفی نہیں جانے جاتے، علم الکلام میں ابوالحسن اشعری اور نظام معتزلی کے اندرون تک پہنچے ہوئے ہیں مگر بطور متکلم کے نہیں جانے جاتے۔ فقہ و اصول میں امام شاطبی جیسا کام کیا لیکن ’’اصولی‘‘ ان کی شناخت نہیں بن سکی۔ انھوں نے جنید اور بسطامی کی طرح چلہ کشی کی لیکن ’’صوفی‘‘ ان کے نام کا حصہ نہیں بن سکا، ہر فن میں کمال انھیں کسی ایک فن کی طرف منسوب ہونے سے ابا کرتا رہا۔ اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ممکن ہو سکا کہ کبھی بھی انھوں نے ساحل پر کھڑے ہو کر موج دریا کا تماشہ نہیں دیکھا، بلکہ اسے گناہ سمجھتے ہوئے، ہر موج سے ٹکرائے، ہر خندق میں چھلانگ لگا دی، اور کہیں سے موتی تو کہیں سے ہیرا نکالنے میں کامیاب رہے۔ ان کی عظمتوں کا اندازہ ایک انگریزی محقق مانٹ گمری واٹ (W. Montgomery Watt) کی اس تحریر سے لگایا جاسکتا ہے گو کہ اس بات سے کلی اتفاق نہیں کیا جاسکتا اور اس نے خود بھی جزوی طور پر اس سے اختلاف کیا ہے:
“Al۔ Ghazali has been acclaimed by both western and Muslim scholors as the greatest Islamic theologian and inded as the greatest Muslim after Mohammad”.
(Islamic Phylosophy and Theology, Page: 85, Edinburgh, 1985)
غزالی عظمتوں کے اس مینار تک کیسے پہنچے، غزالی خود نوشت کے انداز میں ’’المنقذ من الضلال و الموصل الیٰ ذی العزۃ و الجلال‘‘ لکھ کر انھوں نے اس راز سے خود ہی پردہ اٹھا دیا۔ یہ دنیا کی غالباً واحد خود نوشت ہے جو بہت مختصر ہوتے ہوئے بھی بے انتہا مشہور و مقبول ہے۔ غزالی نے اپنی روحانی کشمکش، اندرونی اضطراب اور تلاش حق میں ہر در کی خاک چھاننے اور ہر عقدے کو کھولنے کی کوشش کی ہے اور پھر اس منزل تک رسائی کی فرحت انگیز داستان لکھی ہے جہاں صرف نور و یقین کی جلوہ سامانی ہے۔
المنقذ من الضلال میں امام غزالی نے اپنی سپاٹ سرگزشت کے ساتھ ہی بیچ بیچ میں اپنی پختہ فکر اور زاویۂ نگاہ کا تذکرہ بھی کر دیا ہے اور کہیں کہیں ایک ایک جملے میں سچ مچ سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے۔ یہ باتیں غزالی کے فکری منہج کو اجاگر کرتی ہیں۔ ذیل میں المنقذ من الضلال سے انہی بکھرے موتیوں کو چننے اور ان سے غزالی کے نظام فکر کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قارئین محسوس کریں گے کہ غزالی کے ان خیالات کی معنویت موجودہ حالات میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
٭سب سے بڑی وجہ گمراہی:
امام غزالی کے نزدیک کثرت مذاہب اور تعدد مسالک گمراہی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بقول ان کے یہ ایسا سمندر ہے جس میں اکثر لوگ ڈوب گئے اور بہت کم لوگ اس سے نکلنے میں کامیاب ہوسکے اور طرفہ تماشہ یہ کہ ہر شخص خود کو برحق سمجھتے ہوئے شاداں و نازاں ہے۔
بحر عمیق غرق فیہ الأکثرون، و مانجا منہ الا الاقلون و کل فریق یزعم انہ الناجی، ’’و کل حزب بما لدیہم فرحون‘‘ (الروم: ۳۲) (المنقذ من الضلال، ص: ۳)
اس بات کی اہمیت امام غزالی کے نزدیک کتنی زیادہ ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے خطبۂ کتاب کے بعد اسی سے اپنی بات کا آغاز کیا ہے اور ساتھ ہی مناسبت کے پیش نظر حدیث افتراق امت کو نقل کیا ہے اور اس کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ صادق و مصدوق ﷺنے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی بعد میں وقوع پذیر ہوا۔

٭مطالعے میں معروضیت (Objectivity) چاہیے:
امام غزالی کے سامنے گمراہی کا یہ سمندر (کثرت مذاہب و مسالک) عنفوان شباب یعنی بیس سال کی عمر سے پہلے ہی ٹھاٹھیں مارنے لگا اور اسی وقت تشکیک و ریب کا مرض انھیں لاحق ہوگیا لیکن غزالی اس معاملے میں ہمالیہ صفت عزم جواں رکھتے تھے، انھوں نے اس سے گھبرانے اور ڈرنے کی بجائے سیدھے اس اتھاہ سمندر میں غوطہ لگا دیا اور پوری جرأت مندی کے ساتھ تلاش حق کا سفر طے کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’باطن کی باطنیت، ظاہری کی ظاہر پرستی کی وجوہ، فلسفی کے راز فلسفہ، متکلم کے کلام و مناظرہ کی حقیقت، صوفی کی صوفیت، عابد کے مقصد عبادت اور زندیق بے دین کی زندیقیت و بے دینی کو جاننے کی میرے اندر ہوس تھی اور اس کے لیے میں نے ہر ممکن کوشش کی۔ (المنقذ من الضلال، ۳)
اس سے غزالی کی معروضیت (Objectivity) کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن اس معروضیت (Objectivity) نے غزالی کو اس موڑ پر پہنچا دیا کہ:
’’تقلید کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، بچپن کے موروثی عقائد بکھر گئے، کیوں کہ میں نے دیکھا کہ نصاری کے بچے صرف نصرانی، یہود کے بچے صرف یہودی اور مسلمانوں کے بچے صرف مسلمان ہی بنتے ہیں۔ ‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث میرے کانوں میں آئی کہ ہر بچہ ’’فطرت‘‘ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔ ‘‘ اب میرے اندر ’’فطرت اصلی‘‘ جاننے کا شوق پیدا ہو چلا۔ ‘‘ (ص: ۴)

٭حقیقت علم:
لیکن ’’فطرت اصلی‘‘ کو جاننے سے پہلے غزالی کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوا کہ پہلے وہ یہ جانیں کہ جاننے کی حقیقت ’’حقیقت علم‘‘ کیا ہے؟ غور و فکر کے بعد ان پر واضح ہوا کہ حقیقی علم صرف وہ علم ہے جس میں کسی طرح کا کوئی شک و ریب نہ ہو۔ جیسے دس تین سے زیادہ ہے۔ یہ ایسا علم یقینی ہے کہ اس میں کوئی بھی شک پیدا نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ کوئی لاٹھی کو سانپ بنانے کا ہنر رکھتا ہو اور وہ ایسا کرکے دکھا دے اور دس تین سے زیادہ ہے، کے کلیے کو توڑنے کو کہے تب بھی سابقہ یقین میں کسی طرح کا احتمال پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ’’علم‘‘ کے اس معیار کو طے کرنے کے بعد غزالی نے جب اپنی معلومات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس معیار پر صرف ’’حسیات‘‘ اور ’’بدیہیات‘‘ اترتی ہیں۔ باقی دیگر تمام معلومات کے اندر ایسا یقین اور حتمیت موجود نہیں ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے پھر غزالی نے سوچا کیوں نہ ’’محسوسات‘‘ اور ’’بدیہیات‘‘ کا بھی گہرائی سے جائزہ لے لیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس کے اندر بالکل شک کی گنجائش نہیں ہے۔ کیوں کہ پہلے تو دیگر معلومات پر بھی ایسے ہی اعتبار تھا لیکن غور کرنے کے بعد ان کی حقیقت واضح ہوگئی۔ تفکر و تدبر کے معمولی سفر کے بعد ہی غزالی پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ ’’حسیات‘‘ پر بھی آنکھ بند کرکے یقین نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ محسوسات میں سب سے زیادہ معتبر ’’بصریات‘‘ (وہ امور جو دیکھنے سے معلوم ہوتے ہیں) ہیں۔ لیکن بسا اوقات تجربے سے ان کا غیریقینی ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ مثلاً سورج سے پیدا ہونے والا ’’سایہ‘‘ بظاہر ٹھہرا ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی لمحے بھی ٹھہرا ہوا نہیں ہوتا۔ اسی طرح زمین سے تارے چھوٹے نظر آتے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ بہت بڑے ہیں۔
اب غزالی کو لگا کہ صرف ’’بدیہیات‘‘ پر ہی، جو عقلی ہیں، کلی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ دس تین سے زیادہ ہے، نفی و اثبات شئی واحد میں جمع نہیں ہوسکتے، شئی واحد حادث و قدیم، موجود و معدوم، واجب اور محال نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پھر غزالی کو اس شک نے آ دبوچا کہ کیا اب تک جتنی معلومات میں شک لاحق ہوا اور ان کا اعتبار ختم ہوا، وہ صرف عقل کی وجہ سے ہوا، اسی لیے عقلی بدیہیات یقینی معلوم ہو رہے ہیں، لیکن کیا عجب کہ عقل سے ماورا بھی کوئی ادراک کرنے والی قوت ہو کہ جب وہ ظاہر ہو تو عقلی چیزوں کا اعتبار ختم ہو جائے۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارے سامنے وہ مافوق العقل مدرک آشکار نہیں ہے، لیکن اس کے آشکار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے امکان کو جھٹلایا تو نہیں جاسکتا۔ اس کے بعد غزالی کے نزدیک عقلی بدیہیات بھی قابل اعتبار نہ رہ سکے۔ غزالی کے اس شبہے کو ’’خواب‘‘ کے تصور نے اور تقویت پہنچا دی۔ کیوں کہ ہم خواب میں بہت سی چیزوں کو اصلی تصور کرتے ہیں، لیکن جونہی آنکھ کھلتی ہے وہ سب کے سب خیالات و خرافات معلوم ہوتے ہیں۔ غزالی نے کہا یہ ممکن ہے کہ یہ حالت بیداری بھی، ایک طرح کا خواب ہو، جس کے ٹوٹنے کے بعد اس حالت کی غیر واقعی حقیقت واضح ہوگی۔ شاید یہ خواب موت سے ٹوٹ جائے۔ غالباً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے۔
’’لوگ سوئے ہوئے ہیں، جب موت آئے گی بیدار ہو جائیں گے۔ ‘‘
الناس نیام، فاذا ماتو، انتبہوا۔
کشف محتاج برہان نہیں:
امام غزالی کے اوپر یہ بے یقینی، سفسطہ اور لاادریت دو مہینے تک طاری رہی۔ پھر رفتہ رفتہ اعتدال کی طرف لوٹے اور ’’بدیہیات عقلی‘‘ پر اعتماد بحال ہوگیا۔ اور بقول غزالی ایسا صرف مشیت ربانی اور عطائے وہاب سے ہوا، نہ کہ کسی دلیل یا برہان سے۔ کیوں کہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز بچی ہی نہیں تھی جو دلیل و برہان بن سکتی۔ وہ تو مکمل لاادریت کی کیفیت سے دوچار تھے۔ وہ ایک ربانی نور تھا جسے قدرت نے قلب غزالی پر اتارا تھا اور وہی نور لاادریت سے علم کی طرف اور ظلمت سے روشنی کی طرف پلٹنے کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سبب ٹھہرا۔ اسی سے غزالی نے ’’کشف‘‘ کے برحق اور معتمد ہونے کو ثابت کیا۔ فرماتے ہیں:
’’جسے یہ گمان ہو کہ ’’کشف‘‘ دلائل پر موقوف ہے، وہ اللہ کی وسیع رحمت کا دائرہ تنگ کرنا چاہتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد، خدا وندی: فمن یرد اللہ اَن یہدیہ یشرح صدرہ للاسلام‘‘ (الانعام: ۱۲۵) میں ’’شرح‘‘ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ ایک نور ہے جسے اللہ دل میں اتارتا ہے۔ ‘‘ عرض کیا گیا: اس کی علامت کیا ہے؟ فرمایا: ’’التجا فی عن دار الغرور و الانابۃ إلیٰ دار الخلود‘‘ اس خانۂ پرفریب سے گریز اور دارالبقا کی طرف رجوع‘‘ (المنقذ من الضلال، ص: ۶)

٭متکلمانہ مباحث ناکافی:
امام غزالی کو جب عطائے ربانی اور نور سبحانی سے بدیہیات عقلی میں اعتبار و یقین حاصل ہوگیا تو اس کے بعد وہ دیگر معلومات اور عقائد و افکار کی تصحیح کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے سامنے ادراک حقائق کے چار بڑے مسالک تھے۔ ۱۔ طریقۂ متکلمین، ۲۔ طریقۂ باطنیہ، ۳۔ طریقۂ فلاسفہ اور ۴۔ طریقۂ صوفیاء ۔ امام غزالی نے باری باری چاروں طریقوں کا گہرا مطالعہ کیا اور ہر ایک راستے سے اپنی مراد تک پہنچنے کی کوشش کی۔
سب سے پہلے طریقہ متکلمین کا مطالعہ کیا۔ فرماتے ہیں:
’’میں نے علم الکلام سے شروع کیا، اسے حاصل کیا اور سمجھا، اس فن کے محققین کی کتابیں پڑھیں، اس میں کتابیں لکھیں، میں نے پایا کہ یہ علم اپنے مقصد کو پورا کر رہا ہے، لیکن میرے لیے ناکافی ہے۔ ‘‘ (ص: ۸)
اس کی وجہ غزالی نے یہ بتائی کہ متکلمانہ مباحث اسلام میں نوپیدا افکار و عقائد کی تصحیح کے لیے ہیں، ان کی بنیاد کتاب و سنت، اجماع یا تقلیدی احکام ہیں، ان مباحث سے کتاب و سنت کے ماننے والوں کے افکار کی تصحیح تو کی جاسکتی ہے لیکن جسے عقلی بدیہیات کے سوا کسی چیز پر اعتماد ہی نہ ہو، اس کے لیے یہ مباحث اور یہ دلائل قطعاً ناکافی ہیں۔

٭تردید کے لیے اعلیٰ درجے کی تحقیق ضروری:
علم الکلام کے بعد علم الفلسفہ کی باری تھی۔ غزالی سے پہلے علمائے اسلام میں بہت تھوڑے حضرات نے ادھر توجہ دی تھی، لیکن ان کی وہ توجہ بالکل ناکافی تھی، علمائے متکلمین کا مقصد فلسفہ کے مطالعے سے صرف فلسفیانہ مباحث کی تردید تھی، اس لیے وہ صرف مطالعہ برائے تردید کے عادی تھے۔ غزالی نے اس روش کو ناپسند کیا۔ بقول غزالی:
’’جب تک کوئی شخص کسی بھی علم کی چوٹی تک نہیں پہنچ جاتا، اس کے فساد و ضرر سے واقف نہیں ہوسکتا۔ اسے اس علم کی فاضل ترین شخصیت کے درجے تک پہنچنا چاہیے، پھر آگے بڑھ کر ایک درجہ اور بلندی پر پہنچنا چاہیے تاکہ اس فن کی وہ غلطیاں اس پر واضح ہوں جو اس کے امام پر واضح نہ ہوسکی تھیں۔ اس کے بعد ہی اس فن کے فساد کے سلسلے میں اس کا دعویٰ برحق ہوسکے گا۔ کسی مسلک کا رد، اس کے فہم اور اس کی حقیقت کے ادراک سے پہلے تاریکی میں نشانہ سادھنے کے ہم معنی ہے۔ ‘‘
ان رد المذہب قبل فہمہ و الاطلاع علی کنہہٖ رمی في عمایۃ۔

٭ریاضیات سے پیدا شدہ دو غلط فہمی:
امام غزالی نے پہلے علوم فلسفہ کو تقسیم کیا۔ ان کے مطابق علوم فلسفہ کی یہ چھ قسمیں ہیں: (۱) ریاضی (Mathemetics) (۲) منطق (Logic) (۳) طبیعیات (Physics) (۴) الٰہیات (Metaphisics) (۵) سیاسیات (Politics) اور (۶) اخلاقیات (Ethics)۔ غزالی نے سب سے پہلے ریاضیات کا تجزیہ کیا۔ ان کے مطابق ریاضیات کا تعلق دینی امور کے اثبات و انکار سے بالکل ہی نہیں ہے۔ یہ برہانی اور یقینی امور ہیں۔ ریاضیات میں کسی طرح کاکوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ ایک علاحدہ دنیا ہے جس کا ادراک ریاضیات کو پڑھنے کے بعد ہو جاتا ہے۔
لیکن غزالی کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ریاضیات کی دنیا الگ ہے اور مذہب کی دنیا الگ۔ مذہب کے اثبات و انکار سے ریاضیات کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ لوگ علوم فلسفہ میں ریاضیات کو الگ کرکے نہیں دیکھ پاتے اور انھیں یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ جس طرح ریاضیات قطعیت پر مبنی ہے اسی طرح غلطی سے وہ فلاسفہ کی ان ساری باتوں کو بھی قطعی سمجھنے لگتے ہیں جن کا تعلق وہم و گمان سے ہے۔ اس طرح ریاضیات نادانوں کے لیے بالواسطہ طور پر گمراہی کا باعث بن جاتا ہے جو یہ نہیں سمجھتے کہ ایک فن کا ماہر دوسرے فن میں حماقتیں بھی کرسکتا ہے۔
لکل ضاعۃ اہل بلغوا فیہا رتبۃ البراعۃ و السبق، و ان کان الحمق و الجہل قد یلزمہم فی غیرہا۔
غزالی کہتے ہیں کہ فلسفے کی وجہ سے دین کو بے وقعت کرنے کی حماقت اسلام کے بعض جاہل دوستوں نے بھی کی ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے جب فلسفہ کی گمراہیاں دیکھیں تو غلطی سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ سارے فلسفیانہ علوم گمراہ کن ہیں، حتی کہ انھوں نے ریاضیات سے بھی دشمنی مول لی اور اس چیز کو جب ریاضیات کے ماہرین نے دیکھا تو انھیں یہ گمان ہوگیا کہ دین سائنس کی قطعی باتوں کے بھی مخالف ہے۔
دین کے تعلق سے یہ احمقانہ فریضہ آج بھی اسلام کے نادان دوست انجام دے رہے ہیں۔

٭منطق دین کا مخالف نہیں:
امام غزالی کا منطق کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ منطق کا تعلق دین کے اثبات یا انکار سے قطعاً نہیں ہے۔ ہاں! غزالی منطق سے پیدا ہونے والی اس گمراہی کے قائل ہیں کہ اس فن کے ماہرین نے نتیجے کی قطعیت کے لیے جو شرطین رکھی ہیں ان کو صحیح طور پر الٰہیات میں وہ نہیں نبھا پاتے اور اس طرح تاریکی ان کا مقدر بنتی ہے اور اس سے عوام یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جب مناطقہ دین مخالف باتیں کہہ رہے ہیں تو وہ باتیں غلط کیسے ہوسکتی ہیں؟

٭ طبیعیات:
طبیعیات Physics کے بارے میں غزالی کی رائے ہے کہ یہ علم اس کائنات سے اسی طرح بحث کرتا ہے جس طرح فن طب جسم کے احوال سے بحث کرتا ہے۔ تو جس طرح طب کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا تعلق دین کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہے، اسی طرح طبیعیات کے اقرار یا انکار کو بھی دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں! طبیعیات کے بعض مسائل ایسے ہیں جن میں فلاسفہ نے اپنی حدیں توڑ دی ہیں اور وہ یہ بھول گئے ہیں کہ کائنات اپنے خالق کے دست قدرت میں ہے۔ یہی ایک موٹی بات نہ سمجھنے کی وجہ سے تخلیق و تکوین کائنات سے متعلق بعض امور میں فلاسفہ اپنی حدیں توڑ کر آگے بڑھ گئے۔

٭الٰہیات (Metaphysics) میں فلاسفہ کا تساہل:
غزالی کا خیال ہے کہ فلاسفہ نے الٰہیات میں بہت ٹھوکریں کھائیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ نتیجے کی قطعیت کے لیے فن منطق میں انھوں نے جو اصول بنائے تھے، الٰہیات میں پورے طور سے انھیں نبھا نہ سکے۔ غزالی کے مطابق الٰہیات میں فلاسفہ کی غلط فہمیوں کو موٹے طور پر بیس حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جن میں تین گمراہیاں ایسی ہیں جن کے قائل کی تکفیر کی جائے گی اور وہ یہ ہیں:
[۱] اجسام کا حشر نہیں ہوگا، ثواب و عذاب صرف روحانی ہوگا۔
[۲] اللہ کو صرف کلیات کا علم ہے، جزئیات کا نہیں۔
[۳] کائنات ازلی اور قدیم ہے۔
غزالی نے انہی بیسوں مسائل کی تحقیق و تردید کے لیے تہافت الفلاسفہ لکھی تھی۔

٭رجال کی شناخت حق سے ہوتی ہے:
غزالی نے علوم فلسفہ میں اخلاقیات سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلاسفہ کی اخلاقی تعلیمات، زمانہ قدیم کے انبیا، صالحین اور صوفیاء کے اقوال و احوال سے ماخوذ ہیں۔ اس لیے فلاسفہ کی ان تعلیمات کو صرف اس لیے رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ فلاسفہ کی زبانوں سے ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ یہ ہمارے ضعیف دماغوں کا حال ہے جو فلاسفہ کی ساری باتوں کو آنکھ بند کرکے رد کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی نصرانی لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ کہتا ہے تو وہ چراغ پا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ شخص اس قول کی وجہ سے کافر نہیں ہے بلکہ نبوت محمدی کے انکار کی وجہ سے کافر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حق کی شناخت رجال سے کرتے ہیں، رجال کی شناخت حق سے نہیں کرتے۔ جب کہ عقل مند آدمی سرور عاقلاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی کرتا ہے جن کا فرمان ہے: حق کی شناخت رجال سے مت کرو، بلکہ حق کو پہنچانو، اہل حق کو پہچان لوگے۔
لا تعرف الحق بالرجال بل اعرف الحق تعرف اہلہ۔
عقل مند آدمی پہلے حق کی معرفت حاصل کرتا ہے، پھر کسی بات کو دیکھتا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو اسے تسلیم کر لیتا ہے، خواہ اس کا قائل حق پرست ہو یا گمراہ۔ بلکہ بسا اوقات وہ گمراہوں کی باتوں میں سے اچھی باتوں کو الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ مٹی سے سونا بھی نکلتا ہے۔ (المنقذ من الضلال، ص: ۱۴)

٭عوام کو گمراہوں کی کتابیں پڑھنے سے روکنا چاہیے:
امام غزالی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فلاسفہ کی اخلاقی تعلیمات یکسر غلط نہیں ہیں بلکہ ان میں بعض قیمتی جواہر پارے بھی بکھرے پڑے ہیں۔ وہ یہ بھی تاکید کے ساتھ کہتے ہیں کہ کسی بات کو صرف اس لیے رد نہیں کیا جاسکتا کہ کہنے والا غلط تھا، لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ عامی کو گمراہوں کی کتابیں نہیں پڑھنا چاہیے، کیوں کہ رفتہ رفتہ یہ ہوگا کہ اچھی باتوں کے ساتھ ملی ہوئی وہ بعض گمراہیوں کو بھی بھلی تصور کرنے لگے گا اور اس طرح وہ جادۂ اعتدال سے بہک جائے گا۔ غزالی کے الفاظ ہیں:
’’تیراکی سے ناواقف شخص کو سمندر کے ساحل سے روکا جائے گا، ماہر تیراک کو نہیں، اسی طرح بچے سے سانپ کو الگ رکھا جائے گا اس سے نہیں جو سانپ پکڑنے کی مہارت رکھتا ہو۔ ‘‘
غزالی ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہتے ہیں کہ:
’’اکثر لوگوں کو اپنی ذہانت و فطانت کا غرہ ہے۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ حتی الامکان اہل ضلال کی کتابوں کے مطالعے کا دروازہ بند ہو۔ ‘‘ (المنقذ، ص: ۱۴)
واضح رہے کہ یہ باتیں عام حالات کے لیے ہیں ورنہ ایک محقق اور تحقیق کار کے لیے غزالی مکمل معروضیت کے قائل ہیں۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک کسی بھی مکتب فکر کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا جاتا اس کا رد ممکن نہیں۔ اس کا ذکر پچھلے صفحات میں ہوچکا ہے۔

٭عقل ادراک حقائق میں ناکافی ہے:
عقلی علوم/ فلسفیانہ علوم کے گہرا مطالعہ اور تحقیق و تجزیہ کے بعد امام غزالی اس نتیجے پر پہنچے کہ عقل زندگی کی گتھیوں کو سلجھانے اور حقیقت سے پردہ اٹھانے میں ناکافی ہے۔ چوں کہ ریاضیات اور منطق محکم اصولوں پر مبنی ہیں لیکن ان کا تعلق دین کے اثبات و انکار سے نہیں ہے۔ طبیعیات احوال کائنات سے بحث کرتی ہے جس طرح طب احوال ابدان سے بحث کرتا ہے، اس لیے اس کا تعلق بھی مذہب کی حقیقت سے نہیں ہے۔ صرف الٰہیات کے مباحث ایسے ہیں جن کا تعلق مذہب کے بنیادی اصولوں سے ہے، لیکن غزالی کے بقول فلاسفہ اس میں منطقی اصولوں کی پابندی سے قاصر رہے۔ شاید اس لیے کے مابعد الطبیعیاتی امور میں منطقی انداز فکر کامیاب نہیں ہے۔ اس لیے آخر میں غزالی اس نتیجے پر پہنچے کہ عقل ادارک حقائق میں ناکافی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’جب میں علم فلسفہ کے مطالعے، اس کے سمجھنے اور اس کی گمراہیوں کو اجاگر کرنے سے فارغ ہوا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ فلسفہ بھی میرے مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور عقل تمام حقائق کے ادراک سے عاجز ہے۔ ‘‘
ان العقل لیس مستقلا بالاحاطۃ بجمیع المطالب۔

٭کب گمراہیوں کو پیش کرکے ان کا رد کرنا درست ہے؟
امام غزالی کے عہد میں مسلمانوں کا ایک طبقہ باطنیہ کا تھا، جن کا خیال تھا کہ ادراک حقیقت اور فہم شریعت کے سلسلے میں صرف امام معصوم کا قول حجت ہوسکتا ہے۔ لوگ اس کے لیے امام معصوم کے محتاج ہیں، جو امام نظروں سے غائب ہیں۔ وہ ایک دن ضرور سامنے آئیں گے، کتاب و سنت کے نصوص کے سلسلے میں وہ جو تفہیم کریں گے وہ شک سے ماورا اور قابل اعتماد ہوگی۔ غزالی نے لکھا ہے کہ یہ طبقہ اپنی غلط فہمیوں پر رفتہ رفتہ دلیر ہوتا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس عہد میں جو لوگ ان کا رد کرتے تھے، ان کا طرز استدلال بہت ہی کمزور تھا۔ غزالی سے ایک شخص نے بتایا کہ باطنیہ یا اہل تعلیم اپنے خلاف لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ امام غزالی نے محسوس کیا کہ باطنیہ کے رد میں جو تحریریں آ رہی ہیں وہ اس لیے باطنیہ کے لیے ناقابل التفات ہیں کہ ان کے لکھنے والے نہ صحیح طور پر باطنیت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی باطنیت کے علم برداروں کے دلائل کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی باتیں بے وزن ہوتی ہیں۔ غزالی نے فلسفیانہ علوم و فنون سے فراغت کے بعد باطنیت کی طرف توجہ کی اور اس کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر جب ان کی فکری بے اعتدالیاں غزالی پر واضح ہوگئیں تو غزالی نے ایک ایک کرکے ان کے شبہات اور دلائل کو ترتیب وار پیش کیا اور پھر ان کا جواب دیا۔ غزالی کی یہ روش ان کے بعض معاصرین کو ناگوار گزری اور انھوں نے یہ کہا کہ غزالی نے باطنیہ کے دلائل کو مرتب اور علمی انداز سے پیش کرکے ایک طرح سے باطنیت کو عام کیا ہے۔ کیوں کہ کل تک جو لوگ باطنیت پسندوں کے دلائل سے واقف نہیں تھے، غزالی نے انھیں ان سے واقف کرا دیا۔ غزالی کے ان مخالفین نے اپنی بات کو مضبوط کرنے کے لیے امام احمد ابن حنبل کا حوالہ دیا کہ جب حارث محاسبی نے معتزلہ کے رد میں کتاب لکھی تو امام احمد ابن حنبل نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ حارث محاسبی نے کہا ’’گمراہی کا رد فرض ہے‘‘ تو امام احمد ابن حنبل نے فرمایا: ’’جی ہاں! لیکن تم نے پہلے ان کے شبہات کو بیان کیا ہے، پھر ان کا جواب دیا ہے۔ اب وہ شخص جس نے صرف شبہات کا مطالعہ کیا اور جواب کی طرف التفات نہیں کی، یا جواب پڑھا لیکن اسے سمجھ نہ سکا، اس کی عاقبت کے بارے میں تم کیسے مطمئن رہ سکتے ہو؟‘‘ امام غزالی اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’امام احمد ابن حنبل کی بات درست ہے۔ لیکن یہ ان شبہات کے بارے میں ہے جو ابھی عام نہ ہوئے ہوں۔ لیکن جب شبہات عام ہو جائیں تو ان کا جواب دینا ضروری ہے اور جواب اسی وقت ممکن ہے جب اعتراضات پورے نقل کر دیے جائیں۔ ہاں! اپنی طرف سے ایسا شبہ پیش نہیں کرنا چاہیے جسے مخالفین نے خود بھی پیش نہ کیا ہو۔ اور میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ بلکہ میں نے ان شبہات کو ایک شخص سے سنا جو میرے پاس آتا جاتا تھا۔ پھر یہ ان سے ملا اور ان کے مسلک کو اختیار کر لیا اور اس نے بتایا کہ جو لوگ ان کے خلاف لکھتے ہیں وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، کیوں کہ رد کرنے والے اب تک ان کے دلائل کو ہی نہیں سمجھ سکے ہیں۔ پھر اس نے مجھ سے ان کے دلائل کو بیان کیا۔ اس لیے میں نے نہیں چاہا کہ میرے اوپر بھی طعنہ کسا جائے کہ میں نے ان کے دلائل کو نہیں سمجھا۔ چنانچہ میں نے ان کے شبہات و دلائل کو پیش کیا۔ مجھے یہ بھی پسند نہیں تھا کہ کوئی یہ گمان کرتا کہ میں نے صرف ان کے دلائل سنے، انھیں سمجھ نہیں سکا۔ اس لیے میں نے ان اعتراضات کو صاف صاف بیان کیا۔ ‘‘ (المنقذ من الضلال، ص: ۱۷(

٭مخالف کی ہر بات نہیں ٹھکرانی چاہیے:
امام غزالی نے لکھا ہے کہ باطنیہ کے رد میں جو لوگ کتابیں لکھ رہے تھے، باطنیہ ان سے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اور غالی اور متشدد ہوتے جا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رد کرنے والے باطنیہ کے ان باتوں کو بھی رد کر رہے تھے جو بجائے خود درست تھیں۔ مثال کے طور پر باطنیہ کا قول تھا کہ انسانی عقل پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ عقلیں باہم مختلف ہیں۔ اس لیے علم کے لیے ضروری ہے کہ ایسا معلم ہو جو بالکل معصوم ہو۔ باطنیہ کی یہ بات اپنے آپ میں مضبوط تھی اور ان کا رد کرنے والے ان کے اس دعوے کابھی رد کر رہے تھے۔ اس لیے وہ ایسی باتیں پڑھ کر اپنے تشدد اور غلو میں اور بڑھتے جا رہے تھے۔ غزالی تردید میں سلیقہ مندی کے قائل تھے، جو اسی وقت ممکن ہے جب مخالف کی بات غور سے سنی جائے، اسے سمجھا جائے، اس کی معقول باتوں کا اعتراف کیا جائے اور اس کی غلط فہمیوں کو احسن طریقے سے واضح کیا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو غزالی کے خیال میں تردید فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ہو جائے گی اور مخالف اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اس میں اور دلیر ہو جائے گا۔
غزالی فرماتے ہیں کہ باطنیہ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ تعلیم کے لیے امام معصوم کی ضرورت ہے۔ امام معصوم کے ہم بھی قائل ہیں، اور وہ امام معصوم پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ رہی یہ بات کہ وہ ہمارے بیچ میں نہیں ہیں تو باطنیہ کے امام بھی تو غائب ہیں۔ ان کے بیچ موجود نہیں ہیں۔ اور رہی یہ بات کہ جن مسائل میں پیغمبر کی تصریح نہ ہو، اس میں کیا ہوگا؟ تو یہ اعتراض تو باطنیہ کے اوپر بھی وارد ہوگا اور اس کا حل ان کے پاس نہیں ہے جب کہ ہمارے پاس اس کا حل موجود ہے اور وہ حل حضرت معاذ بن جبل کا ارشاد ہے جس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سراہا تھا۔ معاذ ابن جبل نے کہا تھا کہ میں مسائل کا حل سب سے پہلے کتاب اللہ میں تلاش کروںگا، اس میں نہیں پایا تو سنت رسول میں تلاش کروںگا اور اگر اس میں بھی نہیں پایا تو اپنی رائے سے اجتہاد کروںگا۔ ہاں! یہ درست ہے کہ اجتہاد میں خطا کا امکان ہے۔ لیکن اگر اجتہاد مخلصانہ ہو تو خطا کرنے پر بھی مجتہد ایک اجر کا مستحق ہوگا جیسا کہ احادیث میں وارد ہے.

٭صوفیائے اسلام کی راہ ایمان کی راہ ہے:
کلام، فلسفہ اور باطنیت کی تہوں میں پہنچ کر جب غزالی تشنہ و نامراد واپس ہوئے تو صوفیاء کے طریقے کا مطالعہ شروع کیا۔ ان کے بقول صوفیاء کا طریقہ علم اور عمل سے مکمل ہوتا ہے. انھوں نے پہلے ابوطالب مکی کی قوت القلوب، حارث محاسبی کی تصوف سے متعلق کتابیں اور جنید بغدادی، شبلی، ابویزید بسطامی وغیرہ کبار صوفیاء کی منتشر تحریروں اور حالات کا مطالعہ کیا۔ اور تعلیم و تعلم سے تصوف اور صوفیاء کو جاننا جہاں تک ممکن تھا جانا، لیکن پھر خیال ہوا کہ نشہ اور بھوک کی تعریف و تحدید الگ ہے، لیکن خود ان کا احساس اور تجربہ بالکل ہی الگ ہے۔ چنانچہ غزالی نے سلوک اور ذوق کی راہ اختیار کی اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ذات خداوندی، نبوت اور آخرت پر کامل ایمان و یقین کی دولت گراں مایہ حاصل ہوگئی۔ غزالی فرماتے ہیں کہ ایمان کے یہ تینوں اصول میری روح میں رچ بس گئے۔ لیکن کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایسے اسباب، احوال اور تجربات کی وجہ سے جو شمار سے باہر ہیں۔
فہٰذہٖ الاصول الثلاثۃ من الایمان کانت قدر سخت فی نفسی، لا بدلیل معین محرر بل باسباب و قرائن و تجارب لا تدخل تحت الحصر تفاصیلہا۔ (المنقذ من الضلال، ص: ۲۱)
صوفیاء کے راستے کو اختیار کرنے اور توحید، نبوت اور یوم آخرت پر حتمی یقین پیدا ہونے کے بعد غزالی کو احساس ہوا کہ آخرت کی سعادت تقویٰ پر مبنی ہے۔ اور تقویٰ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیا سے دل کو توڑ دیا جائے اور اسے آخرت سے جوڑ دیا جائے انھوں نے اپنے حال کا تجزیہ کیا تو خود کو غیرضروری امور سے وابستہ پایا۔ اس میں ان کی نیت بھی آخرت طلبی کی بجائے دنیا طلبی پر مبنی تھی۔ اس لیے انھوں نے سب کچھ چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک طویل اندرونی کشمکش کے بعد رخت سفر باندھا اور علما و حکام کے ہزار روکنے کے باوجود بغداد کو خیر باد کہہ دیا۔ دو سال تک شام میں مقیم رہے۔ خلوت میں ذکر و فکر اور مجاہدہ و ریاضت کرتے دن گزارتے۔ پھر حج کا شوق پیدا ہوا اور حرمین شریفین کا سفر کیا اور دوسرے شہروں میں گئے۔ اکثر اوقات خلوت میں ریاضت و مجاہدہ میں بسر ہوتے۔ تقریباً دس سال تک کنج نشینی کا یہ سفر جاری رہا۔
دس سالوں تک مجاہدے کے بعد امام غزالی کو صوفی مسلک پر کامل اعتماد ہوگیا اور نہ صرف اس پر اعتماد ہوگیا بلکہ اس کی انھیں وہ ایمان و ایقان حاصل ہوا جس کی نعمت ان سے چھن گئی تھی۔ وہ بھی اس شان سے کہ ان کا ایمان تقلیدی کے بجائے ایک طرح کا تجرباتی ایمان ہوگیا۔ لکھتے ہیں:
’’خلوت کے ان ایام میں ایسے ایسے راز کھلے جن کا شمار کرنا ناممکن ہے، فائدے کے لیے صرف اتنا ذکر کرتا ہوں کہ مجھے یقین سے معلوم ہوگیا کہ صرف صوفیاء ہی راہ خدا کے صحیح مسافر ہیں۔ ان کی سیرت سب سے اچھی، ان کا راستہ سب سے بہتر اور ان کے اخلاق سب سے ستھرے ہیں۔ بلکہ اگر دانشوروں کی دانش، حکما کی حکمت اور علمائے شریعت کے علم کو جمع کر دیا جائے اور ان سے صوفیاء اپنے اخلاق کو بدل کر بہتر کرنا چاہیں تو ایسا ان کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ صوفیاء کے تمام ظاہری اور باطنی حرکات و سکنات مشکوٰۃ نبوت سے مقتبس ہیں اور نور نبوت کے سوا روئے زمین پر کوئی ایسا نور نہیں ہے جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کوئی بھلا اس طریقے کے بارے میں کیا کلام کرے گا جس کی پہلی شرط طہارت، دل کو ماسویٰ اللہ سے مکمل پاک کر لینے سے عبارت ہے اور جس کی کنجی، جس کی حرمت نماز کی سی ہے، دل کو پورے طور سے ذکر الٰہی میں محو کر دینے کا نام ہے اور جس کی انتہا کلی طور پر اللہ میں فنا ہو جانا ہے۔ اور فنا آخری منزل صرف اس اعتبار سے ہے کہ وہ کسب و اختیار کی آخری منزل ہے ورنہ حقیقت میں وہ اس سفر کا آغاز ہے اور اس سے پہلے کے جو درجات ہیں ان کی حیثیت صرف دہلیز کی ہے۔
راہ سلوک کے آغاز کے ساتھ ہی مکاشفات و مشاہدات کی شروعات ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ حالت بیداری میں فرشتوں اور انبیا کی روحوں کو دیکھتے ہیں۔ وہ ان کی آوازیں سنتے ہیں اور ان سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ پھر صور و امثال کے مشاہدے سے ترقی ہوتی ہے اور سالک ان بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے جن کی تعبیر سے بیان قاصر ہے۔ اگر کوئی ان احوال کو بیان کرنا چاہے تو اسے ایسے الفاظ کا سہارا لینا پڑے گا جن کا استعمال غلط ہے اور ان سے بچنا اس کے لیے ناممکن۔
قصہ مختصر! یہ کہ معاملہ اس قرب تک پہنچتا ہے جسے ایک گروہ حلول خیال کرتا ہے، ایک دوسرا طبقہ اسے اتحاد گمان کرتا ہے اور ایک تیسرا طبقہ اسے وصول باور کرتا ہے جب کہ یہ ساری باتیں غلط ہیں۔ ان کے غلط ہونے کو ہم نے اپنی کتاب المقصدالاسنیٰ میں بیان کیا ہے۔ جسے یہ احوال طاری ہوں اسے صرف اتنا کہنا چاہیے کہ جو کچھ ہوا اسے میں بیان نہیں کرسکتا۔ تم بس اسے اچھا گمان کرو اور اس کے بارے میں سوالات مت کرو۔
و کان ما کان مما لست اذکرہ
فظن خیراً و لا تسأل عن الخبر
(المنقذ من الضلال، ص: ۲۳)

امام غزالی اپنے مطالعہ و تحقیق اور تلاش و جستجو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایمانیات کے فہم کے لیے عقلی ذرائع ناکافی ہیں، عقلی علوم سے اشتباہ حاصل ہوگا جب کہ شرعی علوم سے ایک مومن کے لیے تفصیلات سے آگاہی ہوگی۔ لیکن نفس ایمان کا حصول نہ شرعی علوم سے ممکن ہے اور نہ ہی عقلی علوم سے۔ ایمانیات کے واقعی ادراک کا راستہ صرف کشف کا راستہ ہے، جو صوفیاء کا راستہ ہے۔ حقیقت نبوت کے ذیل میں امام غزالی نے لکھا ہے کہ انسان بالکل سادہ لوح، ہر شے سے بے خبر ہوتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اس کے اندر حواس پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے لمس کی قوت پیدا ہوتی ہے، پھر بصارت آتی ہے، پھر سماعت پیدا ہوتی ہے۔ پھر ذائقہ کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ تقریباً سات سال کی عمر میں قوت تمیز پیدا ہوتی ہے، جس سے انسان کو بھلے برے کا ادراک ہوتا ہے، جس کا ادراک حواس نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد انسان دولت عقل سے سرفراز ہوتا ہے جس سے وہ واجب، ممکن اور محال جیسے عقلی امور کو سمجھتا ہے۔ غزالی کا ماننا ہے کہ معروف مدرکات/ ذرائع علم کے سوا بھی ایسا ذریعہ علم ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔ وہ ایسا ذریعہ علم ہے جس کے آنے کے بعد آنکھوں سے سارے حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ ماضی، حال و مستقبل سب کچھ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ غیوب مشہود بن جاتے ہیں۔ امام کے الفاظ ہیں:
’’عقل سے ماورا ایک اور ذریعۂ ادراک ہے جو آدمی کو ایک ایسی آنکھ دے دیتا ہے جس سے وہ عالم غیب کا مشاہدہ کرتا ہے، مستقبل کے حالات اور دیگر امور اس کے سامنے ہوتے ہیں۔ عقل ان باتوں کے ادراک سے اسی طرح عاجز ہے جس طرح قوت تمیز، معقولات کے ادراک سے عاجز ہے، یا جس طرح حواس قوت تمیز سے معلوم ہونے والی باتوں کے ادراک سے قاصر ہیں۔ صاحب تمیز شخص پر اگر عقلی چیزوں کو پیش کیا جائے تو ان کا انکار کر بیٹھتا ہے اور انھیں ناممکن تصور کرتا ہے۔ اسی طرح بعض ارباب عقل نبوت سے حاصل ہونے والی معلومات کا انکار کرتے ہیں اور اس کو ناممکن خیال کرتے ہیں۔ یہ عین جہالت ہے۔ کیوں کہ ان کی دلیل صرف یہ ہے کہ اس ذریعۂ علم تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ اب جو قوت ان میں موجود نہیں ہے، وہ سرے سے اس قوت کا ہی انکار کر بیٹھتے ہیں۔ ‘‘ (المنقذ من الضلال، ص: ۲۵)
’’نبوت اس ذریعہ علم کا نام ہے جس سے ایک آنکھ پیدا ہوتی ہے، جس آنکھ میں ایسا نور ہوتا ہے جس کی روشنی میں غیب بے حجاب ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً)

٭عقل کا دائرہ کار:
امام غزالی نبوت کو مافوق العقل ایک ذریعہ ادراک سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں نبوت کا کام امراض قلب کا علاج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان جسم اور قلب سے مرکب ہے۔ قلب سے ان کی مراد حقیقت روح ہے جو معرفت الٰہی کا محل ہے۔ اس قلب کے علاج سے عقل قاصر ہے۔ کیوں کہ عقل سے اس قلب کے احوال معلوم نہیں ہوسکتے۔ اب ایسے میں لامحالہ امراض قلب کے علاج کے لیے نبی کی ضرورت ہے جس طرح امراض جسم کے علاج کے لیے طبیب کی حاجت ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر قلب کے معاملات میں عقل کا کیا رول ہے؟ کیا یہ معاملات یکسر عقل سے پرے ہیں؟ امام غزالی اس کا جواب دیتے ہیں:
’’حاصل کلام: انبیا علیہم السلام امراض قلب کے طبیب ہیں۔ عقل کا فائدہ اور اس کا کام یہ ہے کہ اس نے یہ حقیقت سمجھائی اور نبوت کی تصدیق کی گواہی دی اور نبوت سے حاصل ہونے والی معلومات کے ادراک سے اپنی عاجزی کا اعتراف کیا اور اس نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر پیغمبر کے حوالے کر دیا جیسے اندھوں کو ان کے رہنماؤں کے حوالے اور پریشاں حال مریضوں کو مشفق طبیبوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ یہی عقل کی جولان گاہ اور منتہیٰ ہے۔ وہ اس کے آگے کے مراحل کے ادراک سے عاجز ہے۔ ‘‘ (المنقذ من الضلال، ص: ۲۸)

٭بے عملی باطنی کفر ہے:
نبوت پر ایمان اور شریعت کی تصدیق کرنے کے باوجود شرعی احکام میں تساہلی اور سستی ایک عام مرض ہے، جس میں عوام سے خواص تک اور جہلا سے علما تک ملوث ہیں۔ جب مجاہدہ اور اعتکاف کے دس سال پورے ہوگئے اور امام غزالی بے انتہا فیوضات ربانیہ اور انوار الٰہیہ سے مستفیض ہوگئے تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ شرعی احکام میں اس قدر تساہل کیوں برتا جاتا ہے؟ اسی سوال نے غزالی کے اندر اصلاح و تجدید کا ذوق بیدار کیا اور ایک بار پھر اپنے عہد کے عظیم مصلح نے احکام اسلامی کی تجدید و احیا کی نیت سے خلوت کو الوداع کہا اور جلوت کی زندگی پھر سے اختیار کی۔ اس سلسلے میں امام غزالی نے مختلف طبقے سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد سے یہ سوال کیا:
’’تم احکام شریعت کے اتباع میں تساہلی کیوں برتتے ہو؟ اگر تمہیں آخرت پر ایمان ہے اور پھر بھی تم اس کی تیاری کرنے کے بجائے اسے دنیا کے عوض بیچ رہے ہو تو یہ حماقت ہے۔ کیوں کہ جب تم ایک کے بدلے دو چیزیں نہیں بیچتے ہو تو پھر چند دنوں کے عوض ایک غیر متناہی زندگی کو کیوں بیچ رہے ہو؟ اور اگر تمہیں آخرت پر یقین نہیں ہے تو پھر تم کافر ہو۔ اپنی جان کو ایمان کی طلب میں وقف کر دو اور اپنے کفر خفی کا سبب تلاش کرو جو تمھارا باطنی مذہب ہے، جس کی وجہ سے تم ایسی جسارت کرتے ہو، اگرچہ تم اپنے اس باطنی مذہب کا اظہار نہیں کرتے۔ ایمان کا دکھاوا کرتے ہو اور شریعت کا دم بھرتے ہو۔ ‘‘ (المنقذ من الضلال، ص: ۲۹)
غزالی نے ہر طبقے کے افراد سے یہ سوال کیا اور مختلف افراد نے مختلف طریقے سے عذر لنگ پیش کیا۔ غزالی میدان میں آئے اور اصلاح کا بیڑا اٹھایا، عوام و خواص کی روش پر اپنی مختلف کتابوں جیسے القسطاس المستقیم، کیمائے سعادت، المنقذ من الضلال وغیرہ میں گفتگو کی اور ان کی رگ بیمار کو پکڑنے اور نسخۂ کیمیا تجویز کرنے کی پوری کوشش کی۔

٭حقیقی علم اور حقیقی علما:
مذکورہ سوال کے جواب میں بعض عوام نے غزالی کو یہ اٹ پٹا جواب دیا کہ :
’’شریعت کی پابندی تو علما کو زیادہ کرنی چاہیے جب کہ فلاں مشہور فاضل بے نمازی ہے، فلاں عالم شراب پیتا ہے، فلاں اوقاف کا مال کھاتا ہے، فلاں عالم بادشاہ کی چاپلوسی کرتا ہے اور حرام کاری کرتا ہے، فلاں عالم قضا اور گواہی کے معاملے میں رشوت لیتا ہے اور اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ ‘‘
امام غزالی اس کا جواب تین طریقے سے دیتے ہیں:
[۱]۔ ایسے آدمی سے یہ کہنا چاہیے کہ تم فلاں عالم کے بارے میں یہ کہہ رہے ہو کہ وہ حرام کھاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جس طرح وہ عالم اس حرام کی حرمت کو جانتا ہے تم بھی شراب، سور کے گوشت اور سود کی حرمت کو جانتے ہو، بلکہ غیبت، جھوٹ، چغل خوری کی حرمت کو بھی جانتے ہو اور ان گناہوں کا ارتکاب بھی کرتے ہوے۔ اس لیے نہیں کہ ان کے گناہ ہونے پر تمھارا ایمان نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ شہوت تم پر حاوی ہوگئی ہے۔ اس عالم کے اندر بھی وہ شہوت ہے جو اس پر حاوی ہے۔ اس میں اور تم میں صرف فرق یہ ہے کہ وہ اس کے علاوہ دوسری باتوں کو بھی جانتا ہے، جن کا تعلق اس گناہ سے روکنے سے نہیں ہے۔
[۲] ۔ عام آدمی سے یہ کہا جائے کہ وہ عالم اپنے علم کو سرمایۂ آخرت سمجھتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا علم قیامت میں شفیع بن کر اسے بچا لے گا۔ اس کی وجہ سے اس کے اندر اتباع شریعت میں تساہل آجاتا ہے۔ حالاں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ علم اس کے لیے بلندی درجات کا سبب بننے کی بجائے اس کے خلاف حجت بن جائے۔ لیکن بہرحال یہ ممکن ہے کہ عالم، عمل کے بغیر بھی اپنے علم سے نفع اٹھا سکے۔ لیکن تم عام آدمی ہو، اگر تم اسی عالم کو دیکھتے ہوئے بے عمل رہ گئے تو تمھاری بدعملی تمہیں ہلاک کر دے گی اور تمھارا کوئی شفیع نہ ہوگا۔
[۳] ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ حقیقی عالم لغزش کے سوا گناہ کا مرتکب نہیں ہوسکتا اور گناہ پر اصرار تو کر ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ علم حقیقی وہ علم ہے جس سے گناہ کے زہر ہلاہل ہونے کی معرفت حاصل ہوتی ہے جس سے دنیا کے بالمقابل آخرت کی اچھائی کا یقین حاصل ہوجاتا ہے۔ جسے یہ معرفت حاصل ہو جائے وہ اعلیٰ کو ادنیٰ کے عوض نہیں بیچ سکتا اور یہ علم ان علوم و فنون سے حاصل نہیں ہوتا جس میں اکثر لوگ لگے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ وہ علوم خدا کی معصیت پر جسارت پیدا کرتے ہیں، جب کہ علم حقیقی عالم کے اندر خشیت، خوف اور امید کو بڑھاتا ہے جو اس کے اور گناہوں کے بیچ حائل ہو جاتے ہیں۔ ہاں! اس سے لغزشیں ہو جاتی ہیں، کیوں کہ لغزش سے کوئی بشر نہیں بچ سکتا۔ لیکن یہ ایمان کی کمزوری کی دلیل نہیں۔ مومن آزمایا جاتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے۔ وہ معصیت پر اصرار کرنے اور گناہوں میں مبتلا رہنے سے بہت دور رہتا ہے۔ ‘‘ (المنقـذ من الضلال، ص: ۳۹)
المنقذ من الضلال کے سرسری مطالعے سے یہ جواہر پارے سامنے آئے۔ گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اور بھی بہت سے قیمتی ہیرے نکل سکتے ہیں، جن سے نہ صرف حجۃ الاسلام امام غزالی کے فکری نظام اور انداز نظر کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان شفاف آئینوں میں آج کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ دراصل امام غزالی کا دور فلسفہ، باطنیت، تصوف اور متکلمانہ جدال کا دور تھا جس نے نفس دین اور حق کی معرفت کو مشتبہ کر دیا تھا۔ آج یہ دور پھر پلٹ آیا ہے، سائنس فلسفے کی جگہ، اباحیت پسندی باطنیت کی جگہ، درگاہیت تصوف کی جگہ اور مسلکی جنگیں متکلمانہ جدال کی جگہ پوری آب و تاب کے ساتھ ایمان و یقین کو پامال کرنے کے لیے پیش نگاہ ہیں۔ یہ حالات کی یکسانی ہی کہیے کہ امام غزالی کی سرگشت ’’المنقذ من الضلال‘‘ کو ہر قاری اپنی سرگزشت سمجھتاہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کچھ جواں عزم پھر غزالی کی طرح اٹھیں اور انفرادی طور پر نہ سہی اجتماعی طور پر ہی وہ مقدس فریضہ انجام دینے کی کوشش کریں جسے ’’مشکوٰۃ نبوت‘‘ کی روشنی میں امام غزالی نے انجام دیا۔ اس عظیم فریضے کی ادائیگی بڑے پیمانے پر امام غزالی کے لٹیریچر کی تقسیم اور افکار کی تشہیر کے ذریعے بھی کی جاسکتی ہے۔
تحریر :ذیشان احمد مصباحی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password