اگرنبی آج کےدورمیں آتےتوکیسےاصلاح کرتے؟

اعتراض:۔ اگر نبی آج کے دور میں ہوتے تو تبلیغ کیسے کرتے ؟ وہ اس جدید دنیا کو کیسے ہینڈل کرتے ؟ سود کیسے ختم کرتے ؟ حکومت کیسے چلاتے ؟ اقوام متحدہ کا مقابلہ کیسے کرتے ؟ اس قسم کے تمام سوالات ۔
جواب :بعض سوال اپنے اندر ایک الزام لیئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ یہ کہنا کہ اگر اسلام آج آتا تو کیسا ہوتا دراصل اس بات کے مترادف ہے کہ اسلام ایک دقیانوسی مذہب ہے جو آج کے ماحول کے حساب سے فٹ نہیں ہوتا ۔ حالانکہ اس الزام میں کوئی صداقت نہیں ۔نبوت کا ختم ہو جانا اور قران کا آخری کتاب ہونا درحقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ اب قیامت تک انسان جتنی مرضی ترقی کر لے یا جتنے مرضی مسائل کا شکار ہو ۔ اسلام اس کی رہنمائی کے لیئے کافی ہونا چاہئے ۔
اگر نبی آج کے دور میں ہوتے تو تبلیغ کیسے کرتے ۔ وہ اس جدید دنیا کو کیسے ہینڈل کرتے ؟ سود کیسے ختم کرتے ؟ حکومت کیسے چلاتے ؟ اقوام متحدہ کا مقابلہ کیسے کرتے ؟ان سوالات کی بنیاد اصل میں اس بات پر پڑی ہے کہ ہم نبیوں کے نام پر پرانے زمانے کا ایک تصور ذہن میں لے آتے ہیں جن میں ہمیں انسان اونٹوں پر سفر کرتے نظر آتے ہیں اور تیر کمانوں اور تلواروں سے جنگیں لڑتے نظر آتے ہیں ۔اب ظاہر ہے جب ہم نے نبیوں کے دور کی ایک شبیہ اپنے ذہن میں پہلے سے تراش رکھی ہے اور دوسری طرف ہم آج کے کمپوٹرائزڈ دور کی ترقی یافتہ قوموں کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہونا یقینی امر ہے کہ یہ مقابلہ کیسے ہو گا ۔خود ہی اندازہ لگائیں کہ ایک طرف پرانے زمانے کے لوگوں کا لشکر تیر کمانوں اور تلواروں کے ساتھ اونٹوں پر چلا آرہا ہے اور دوسری طرف مخالفین کی طرف سے ایف 16 طیارے ان کی سرکوبی کے لیئے اڑنا شروع کر دیتے ہیں تو مقابلہ کیسے ہو گا ؟
ظاہر ہے پرانے زمانے کے لوگ ہار جائیں گے ۔یہ ہے اس سوال کی اصل ۔
سوال پوچھنے والے نے یہ نہ سوچا کہ جب دنیا ترقی کرتی ہے تو ایک ساتھ ترقی کرتی ہے ۔ حملہ آور حملہ کرنے کی نئی تکنیک ایجاد کرتے ہیں تو دفاع کرنے والے بھی نئی دفاعی حکمت عملی کے تحت ان کا مقابلہ کرنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں ۔محمد بن قاسم کے دور میں مسلمانوں ہی نے منجنیق ایجاد کی تھی جسے آپ میزائل کی ابتدائی شکل قرار دے سکتے ہیں ۔ آج کے دور میں بھی پاکستان ترکی اور ایران سمیت کئی اسلامی ممالک انتہائی جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ پاک فوج آج کے دور میں تیرکمان یا تلواریں رکھتی ہو گی ۔ ہم نے تو ان کے پاس بھی جدید ترین اسلحہ ہی دیکھا ہے ۔ پاکستان تو اس معاملے میں اتنا آگے نکل گیا ہے کہ بعض کافر ممالک کے پاس ایسے ہتھیار موجود نہیں جو پاکستان کے پاس ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے اسرائیل نے ایک گن ایجاد کی تھی جس کی مدد سے فائر کرنے والا کسی پلر یا دیوار کی آڑ سے بھی بغیر سامنے آئے مخالف کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔ اس گن کی نال کچھ ڈگری مڑی ہوئی ہوتی ہے اور نشانے کے لیئے اس میں ایل سی ڈی اسکرین نصب ہوتی ہے ۔ اسرائیل کے بعد پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اس گن کو خود بنا سکتا ہے ۔
دوسری وجہ اس سوچ کی یہ ہو سکتی ہے کہ آج مسلمان بظاہر بہت کمزور نظر آتے ہیں ۔ اقوام متحدہ پوری دنیا کو اپنے اثر میں لے چکی ہے تو انبیاء ان مسائل کو حل کیسے کرتے ؟میرے خیال میں اگر سیرت پڑھی جائے تو اس سوال کا جواب بھی بخوبی مل جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں روم اور ایران بالکل ویسے ہی بڑی طاقتیں تھیں جیسے آج امریکہ روس اور چین وغیرہ ہیں ۔ روم عیسائیوں کی سلطنت تھی جیسے آج امریکہ عیسائی سلطنت ہے ۔ ایران آتش پرستوں کا ملک تھا جیسے آج روس اور چین الحاد سے قریب تر سمجھے جاتے ہیں ۔سود قومی سطح پر نہیں تھا مگر انفرادی سطح پر ضرور موجود تھا ۔ اکثر مسلمان سود میں گھٹنوں گھٹنوں ڈوبے ہوئے تھے ۔
آج امریکہ ہمیں ڈو مور کی دھمکی لگاتا ہے تو ہم ڈر جاتے ہیں ۔ گھٹنوں کے بل گر جاتے ہیں ۔ مگر جب روم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ آپ جو نیا دین لے کر آئے ہیں اسے رومی سلطنت پسند نہیں کرتی لہٰذا آپ اس کی ترویج بند کر دیں ورنہ رومی ہاتھیوں کا لشکر مدینہ کو روند ڈالے گا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ رومیوں کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم خود روم پر حملہ کرنے آرہے ہیں ۔ یقین کیجیئے اتنا سخت جواب جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اس وقت مدینے کی معاشی حالت آج کے افغانستان سے بدتر تھی اور روم اس وقت آج کے امریکہ سے زیادہ طاقتور تھا ۔ مگر رومی بادشاہ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو روم کو للکار رہے ہیں ۔کاش پاکستان میں کوئی ایک ایمان والا حکمران آجاتا جو امریکہ کو اسی طرح للکارتا تو امریکہ کی بھی اسی طرح ٹانگیں لرزتیں ۔دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی موت کے خوف کو کم نہیں کرتی ۔ بلکہ جن کے پاس زیادہ ٹیکنالوجی ہو مرنے سے ڈر بھی انہی کو زیادہ لگتا ہے ۔
اصل میں سائل کو لگتا ہے کہ آج کفر اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ اللہ کا کوئی نبی بھی آجائے تو شائد اس کا مقابلہ نہ کر پائے معاذاللہ ۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ اس کفریہ نظام کو توڑنے کے لیئے اللہ کے ایک عام بندہ ہی کافی ہے اور جب اللہ چاہے گا ایسا ہو بھی جائے گا ۔ ان شاء اللہ آپ ایسا ہوتا اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ وہ دن دور نہیں ہے جب مسلمان جہاد فی سبیل اللہ پر واپس آئے گے اور آپ طاقت کے اس بت کو پاش پاش ہوتا دیکھیں گے جسے آپ طاقت سمجھتے ہیں ۔ پھر آپ کو اندازہ ہو گا کہ انسان جتنا مرضی ترقی یافتہ ہو جائے اپنے خالق سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا ۔
مثالیں آج بھی موجود ہیں ۔ افغانستان میں امریکہ کا جو حال ہوا وہ کس سے چھپا ہے ؟ابھی پچھلی پوسٹ میں میں نے موغادیشو کا قصا سنایا کہ کس طرح ایک سپر پاور کی فوج سومالیہ جیسے پسماندہ ملک میں بے بس ہو گئی اور اسے جان بچانے کے لیئے پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک کی مدد لینی پڑی ۔
امید ہے بات سمجھ میں آگئی ہو گی ۔
تحریر محمد سلیم

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password