قرآن میں آسمان اورزمین کاذکراورجدید سائنسی اصطلاحات

اعتراض:جدید سائنس کے مطابق آسمان نام کی بھی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، ایک خلا ہے جس میں زمین اور باقی ستارے ، سیارے تیر رہے ہیں، جبکہ قرآن زمین اور آسمان کا ذکر کرتا ہے۔
قرآن اور آسمان کا مطلب :
پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن سائنسی کتاب نہیں ہے اس لئے اس کا انداز بھی سائنسی نہیں ہے۔ اس کا طرز بیان ایسا ہے کہ موجود دور کا جدید انسان بھی اس کو سمجھے اور چودہ سو سال پہلے والا ایک عام سے بدو بھی اس کو سمجھے۔ قرآن کا مقصد چونکہ سائنس سکھانا نہیں اس لئے آپ قرآن سے سائنسی انداز کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ ہاں یہ ہے کہ قرآن اگرچیکہ سائنسی کتاب نہیں ہے لیکن سادہ انداز میں جو بھی اس میں سائنسی حقائق بیان کئے گئے ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہیں ۔
دوسری بات قرآن کی اصطلاح میں آسمان پانچ چھے معانی میں استعمال ہوا ہے ایک مجموعی مطلب یہی ہے کہ زمین سے اوپر جو فضا ہے وہ آسمان ہے ، اسی میں ہینلی باڈیز بھی ہیں، بادل بھی ہیں ، سپیس بھی ہے ۔اس طرح قرآن ستاروں ، سیاروں، آسمان میں برج، دروازوں کی اصطلاح استعمال کرتا ہے ، غلطی فہمی قرآن کی اصطلاح کا مطلب سائنس کی اصطلاح میں سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے، جدید سائنسی اصطلاحات چونکہ بعد کی ہیں اور لازمی نہیں قرآن کو مدنظر رکھ کے ترتیب دی گئی ہوں ۔ اگرقرآن ہمارے سر پر موجود فضا کو آسمان کہتا ہے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے عوامی زبان آج بھی اسی طرح ہے ، یورپ ہو یا امریکہ ساری دنیا میں آج بھی سکائے، آسمان کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس سے وہی مراد لیا جاتا ہے جو قرآن سمجھا رہا ، آج بھی یہ کہا جاتا ہے کہ آسما ن میں سورج نکلا ہوا ہے، چاند، ستارے آسمان میں چمکتے ہیں، اگر یہ ساری اصطلاحیں قابل قبول ہیں تو قرآن کی اصطلاح پر اعتراض کیوں ہےجو عوام الناس کو سمجھانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔؟
قرآن مجید نے بہت سی جگہوں پر لفظ سماء (آسمان) مختلف معانی میں استعمال کیا ہے اور وہ عام اصطلاح میں بالکل درست ہے مثلا:
1۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا (سورۃ فصلت آیت 5)یہاں آسمان سے مراد آسمان سے مراد کائنات ہے، جیسا کہ بعد کے فقروں سے ظاہر ہےکہ آسمان کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات کی طرف متوجہ ہوا۔
2۔ ونزلنا من السماء ماءً مبارکاً ” ” اور هم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا هے ـ”
3۔ “بابرکت هے وه ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا هوا چاند قرار دیا هے ـ”(سورۃ الفرقان آیت 61) یہاں آسمان فضا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
4۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کیے، تم خدائے رحمن کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں پاؤ گے۔ (سورۃ الملک آیت 3)
اسی طرح قرآن میں بادلوں اور چھت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں جہاں لفظ سماء آیا ہے اسکو سمجھنے کے لیے اسکے سیاق و سباق کو دیکھا جاتا ہے۔ قرآن میں سات آسمان اور سات زمینوں کا ذکر ہے ، کچھ مفسرین نے اس سے مراد آسمان و زمین کی تہیں /سطحیں مراد لی ہیں ۔ قرآن نے آسمان دنیا کو طبقات میں تقسیم کیا ہے ۔ سبع (سات) عربی میں کثرت کی علامت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، ممکن ہے یہ سات سے زائد ہوں۔ سات زمینوں کے متعلق کچھ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس طرح یہ زمین اپنی موجودات کے لئے ماحول کے لحاظ سے موضوع ہے ممکن ہے اسی طرح کی اللہ تعالی نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہوں ( تفہیم القرآ ن ، سید مودودیؒ)

سات زمینوں سے مراد :

قرآن مقدس میں جس طرح سات آسمان کا ذکر ہے اسی طرح سات زمین کا بھی ذکر ہے قرآن کا اعلان ہے اللہ الذی خلق سبع سماوات ومن الارض مثلھن (الطلاق ١٢)اللہ ہی سات آسمان اور اسی طرح سات زمین بھی بنایا اس آیت کی تفسیر مختلف مفسرین نے مختلف کی ہے، البتہ ان کی کیا کیفیت ہے وہاں کے احوال کی تفصیلات سے قرآن وحدیث خالی، اس کے علاوہ تفصیل موجود نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے؛ لہٰذا اس کے بارے میں غور وخوش کرنا بے فائدہ ہے۔ (معارف القرآن)

٭کیا قرآ ن کے مطابق زمین فلیٹ ہے؟
ملحدین قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار یا فلیٹ ہے اور اس کے لیے وہ قرآن کی دیگر آیات کے ساتھ ایک آیت ‘والارض مددنھا’ پیش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کو پھیلایا گیا اور اس پھیلائے جانے سے مراد وہ یہ لیتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین فلیٹ ہے جب کہ سائنس کے مطابق زمین گول ہے۔
جواب:قرآنی آیت اور اسکا ترجمہ :
وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ 19
ترجمہ : ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔( سورۃالحجر آیت 19)
آیت سے واضح ہے کہ یہاں قرآن زمین کی سطح کی بات کررہا ہے اسکی شیپ یا شکل کی نہیں۔! قرآن کہتا ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے زمین کووسعت دی، اسکو پھیلایا ،یہ پھیلاناایک گول چیز کا بھی ہوسکتاہے اور مستطیل نما اور فلیٹ چیز کا بھی ۔ اسی طرح سورۃ النازعات میں ہے وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ۔ ترجمہ :اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا ۔ (النازعات، 30)

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password