کیاجانبداریت سے بالاتر ہونا ممکن ہے ؟

 

آج کل اپنی بات وزنی بنانے کیلئے چند الفاظ کا استعمال بے دریغ کیا جاتا ھے، مثلا میرا تجزیہ معروضی (objective) ھے، ہمیں اسلاف کو رد کرکے غیر متعصبانہ (یعنی نیوٹرل) روش اختیار کرنی چاھئے، جو بات عقل کے پیمانے پر پورا اترے اسے ہی ماننا چاہئے (گویا عقل کا کوئ ایک ہی آفاقی پیمانہ ھے) وغیرھم۔ اس قسم کے الفاظ ماڈرن و تنویری مفکرین نے اپنے مخصوص جانبدارانہ ایمانیات، نظریات و مفروضات کو پھیلانے کیلئے بے دریغ استعمال کئے (اور سوشل سائنٹسٹ آج بھی لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے انکا استعمال کرتے ہیں)۔ چونکہ ھمارے متجددین بھی ماڈرنزم کے ڈسکورس سے سخت متاثر ھیں لہذا انکے یہاں بھی غیرمتعصبانہ روش کا لفظ کثرت سے پایا جاتا ھے۔ درحقیقت اس کائنات میں غیر متعصب بمعنی غیر جانبدار (خالی الذھن) ھونا ناممکن بلکہ لامتصور تصور ھے کہ انسان ہمیشہ ‘ایک پوزیشن کو کسی دوسری پر ترجیح دینے پر مجبور ھے’۔ جب آپ ایک پوزیشن کر رد کرکے کسی دوسری پوزیشن کو (کسی بھی وجہ سے) اختیار کرتے ہیں یا ایک کو دوسری پر فوقیت دیتے ھیں تو یہ بذات خود جانبداریت کا رویہ ھے نہ کہ غیرجانبدار ھوجانے کا۔ الغرض اس کائنات میں انسان کے پاس انتخاب تعصب کرنے یا نہ کرنے کا نہیں بلکہ مخصوص قسم کے تعصبات (ترجیحات) کو جائز سمجھنے یا نہ سمجھنے کا ھے، تعصب تو ناگزیر ھے (prejudices are inevitable, choice is only between legitimate and illegitimate prejudices, not between prejudice and no-prejudice)۔
مثلا ایک مسلمان جب اسلام کو حق کہتا ھے تو یہ اسکا اسلام کی طرف جانبدارانہ رویہ ھے اور وہ اس تعصب (جانبداریت) کو بوجوہ جائز سمجھتا ھے۔ اسکے مقابلے میں ایک ایتھسٹ کا تعصب یہ ھے کہ وہ انسان کو عبد کے بجاۓ آزاد ماننے کی طرف جانبدار ھے مگر اپنی اس ‘پوزیشن’ کو وہ غیرجانبداریت کےپردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ھے اور مسلمان کو متعصب کہتا ھے مگر فی الحقیقت وہ خود بھی متعصب ھی ھے (ان دونوں میں فرق صرف تعصبات کی نوعیت اور انکی ترجیح کا ھے نا کہ متعصب یا غیر متعصب ھونے کا)۔ جب وہ مسلمان کو کہتا ھے تم اسلام کے تعصب سے باہر آکر سوچو تو وہ اسے کسی نیوٹرل مقام کی طرف نہیں بلکہ کفر کی پوزیشن کی طرف دعوت دے رہا ھوتا ھے کیونکہ اسلام سے باہر نکل جانے کے بعد انسان نیوٹرل نہیں بلکہ کافر ھوجاتا ھے اور کفر بذات خود ایک جانبدارانہ پوزیشن (ترجیح) ھے۔
اسی طرح ایک راسخ العقیدہ مسلمان جب یہ کہتا ھے کہ میرے فہم اسلام کا مصدر وہ فہم اسلام ھے جو ”اسلامی تاریخ کے اندر” متشکل ھوا تو یہ اسکا اسلامی تاریخ کی طرف جانبداریت کا رویہ ھے اور وہ اس تعصب (ترجیحات کی ترتیب) کو بوجوہ جائز سمجھتا ھے۔ اسکے مقابلے میں ماڈرنسٹ حضرات کے نزدیک غیرمتعصب ھوجانے کا تقاضا یہ ھے کہ تم اپنے اس مخصوص تعصب سے دستبردار ھوکر اسلاف کے فہم اسلام کو رد کردو۔ مگر درحقیقت ‘عدم تعصب’ کے نام پر انکی یہ دعوت کس نیوٹرل مقام کی طرف نہیں بلکہ اس جانبدارانہ تشریح کی طرف ھوتی ھے جو خود انہوں نے اسلام کو ماڈرنزم کے تقاضوں سے ھم آھنگ ثابت کرنے کیلئے کی ھوتی ھے۔ ظاھر ھے یہ بذات خود ایک متعصبانہ پوزیشن ھوتی ھے۔ لہذا یاد رہنا چاہئے کہ جب یہ ماڈنسٹ غیر متعصب ھوجانے کی دعوت دیتے ہیں تو اسکا مطلب صرف اتنا ھوتا ھے کہ تم اپنے تعصبات کو ناجائز اور ہمارے تعصبات کو جائز سمجھو۔
درحقیقت کسی ایک پوزیشن کو رد کردینے کے بعد انسان نیوٹرل یا غیر متعصب نہیں ھوجاتا بلکہ ایک دوسری پوزیشن میں داخل ھوجاتا ھے، ان دو پوزیشنوں کے درمیان کوئ ایسا خلا متصور نہیں جہاں انسان خالی الذھن ھوجاتا ھو۔ انسان تاریخی و معاشرتی عمل کے مختلف النوع اثرات سے بیک وقت متاثر ھونے پر مجبور ھے۔ جو شخص غیرمتعصب (بمعنی خالی الذھن و غیر جانبدار) ھونے کا دعوی کرتا ھے وہ درحقیقت معاشرے و تاریخ سے ماوراء ھونے کا دعوی کرتا ھے اور یہ محض ایک لغو تصور ھے کیونکہ تاریخ و معاشرے سے کٹے ھوۓ انسان کا تصور ایک لامتصور تصور ھے (people without history is inconceivable idea)۔ اسکا دوسرا پہلو یہ ھے کہ انسانی سوچ کا عمل اور اسکا اظہار زبان (language) کا محتاج ھے اور زبان بذات خود معاشرتی عمل کا نتیجہ ھے لہذا زبان مخصوص نظریات و اقدار کو اپنے اندر سموۓ ھوتی ھے۔ پس اس کائنات میں انتخاب صرف ترتیب ترجیحات کا ھے نہ کہ ترجیح و عدم ترجیح کا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ اس دنیا کے تمام نظریات، دعوے اور پوزیشن مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں (یعنی حق کے تمام تصورات مساوی ھیں) تو یہ بذات خود ایک جانبدارانہ پوزیشن و دعوی ھے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password