اِخلاقیات کی غیرالہامی[سائنسی،تاریخی،فطرتی] بنیادوں کاداخلی محاکمہ

.

جدید زمانے کے مذہب مخالفین، خود کو عقل پرست کہنے والے اور چند سیکولر لوگ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ اخلاقیات (خیروشر، اہم وغیراہم) یعنی قدر کا منبع الہامی کتاب نہیں ہونا چاہیئے (کیوں؟ بعض کے نزدیک اس لیے کہ مذہبی اخلاقیات ڈاگمیٹک ہوتی ہیں، بعض کے نزدیک اس لیے کہ ان کی عقلی توجیہہ نہیں ہوتی اور بعض کے نزدیک اس لیے کہ وہ سرے سے وحی کو علم ہی نہیں مانتے، مگر یہ ‘ کیوں’ فی الحال ہمارے لیے اہم نہیں)۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ پھر اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے تو انکے مختلف لوگ مختلف دعوے کرتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ہم اخلاقیات کی انہی معروف غیر الہامی بنیادوں کے اصولی مسائل اور داخلی تضادات پر روشنی ڈالیں گے۔

1) سائنس سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں
ہمارے یہاں کے ملحدین اور عقل پرستوں میں سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر اخلاقیات یا قدر کا اثبات کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس کی سرے سے کوئی بنیاد ہے ہی نہیں۔ جو لوگ اخلاقی معاملات طے کرنے کے لیے سائنسی تحقیقات پیش کرتے ہیں انہیں اتنی بنیادی بات کی خبر بھی نہیں کہ سائنسی تجربات کا دائرہ’کیاہے'(what is) جب کہ اخلاقیات کا ‘کیا ہونا چاہیے’ (what ought to be) ہے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ سائنس کی بذات خود اپنی اقدار بھی ہیں مگر یہاں ہم بحث کو پیچیدہ نہیں کرنا چاہتے۔ )۔ بنیادی منطق پڑھے لوگ بھی اس امر سے واقف ہی کہ ‘کیاہے’ کے دعوے سے’ کیا ہوناچاہیے’ کا دعوٰی منطقی طور پر اخذ نہیں کیاجاسکتا کیوں کہ یہ دو الگ دائرے ہیں(بالکل اسی طرح جیسے’ایک کلو’ کا موازنہ ‘ایک فٹ’ سے نہیں کیا جاسکتا۔)مزید تفصیل ۔ دوسرے لفظوں میں ‘کیاہے’ کا دعوٰی ‘کیا ہوناچاہیے’ کی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔’کیا ہونا چاہیے’ کا دعوٰی اخذ کرنے کے لیے دلیل میں لازماً ایک نارمیٹو(normative) یعنی’ کیا ہوناچاہیے’ کا دعوٰی موجود ہونا ضروری ہے۔ بصورت دیگر ایسا استدلال دو ناقابل موازنہ دعووں کا غیر منطقی مجموعہ ہوگا۔ مثال کے طور پر یہ دعویٰ لیجئے کہ ‘چرس کے استعمال سے انسانی موت واقع ہوجاتی ہے'(ایک پوزیٹو یا مثبت دعوٰی)۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتاہے کہ ‘چرس نہیں پینی یانہیں اُگانی چاہیئے، (نارمیٹو یا اخلاقی دعویٰ)؟ ہرگز نہیں، جب تک دلیل میں پہلے دعوے کے ساتھ یہ نارمیٹو دعوٰی ‘فرض’ نہ کرلیاجائے، کہ انسانی زندگی کو تلف نہیں کرنا چاہیئے یا انسان کو بچانا چاہیئے، اس وقت تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ ‘ چرس پینی چاہیئے یا نہیں’۔ چنانچہ عقلاً ایسا کوئی اخلاقی دعویٰ نہیں دکھایا جا سکتا جس کی پشت پر ایک مفروضہ نارمیٹو دعوٰی موجود نہ ہو(اس اصول کا ایک اہم نتیجہ ذیل میں عقل کی بحث کے ضمن میں بیان ہوگا جس سے یہ دلیل مکمل ہوگی)۔
اس اصولی گفتگو سے یہ سمجھا جاسکتاہے کہ جو عقل پرست لوگ سائنسی تحقیقات کا حوالہ دے کر کسی فعل کے صحیح یا غلط ہونے کا اخلاقی جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ کیسی فاش اور مضحکہ خیز منطقی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ سمجھنا کہ قدر کے سوال میں سائنس ہماری رہنمائی کرے گی ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ، سائنسی تحقیقات اس حوالے سے عقل پرستوں کو کہیں نہیں لے جاسکتی، ‘انسان کو قتل کرنا چاہیئے یا نہیں’ سائنس اس بات کا جواب دینے کے لیے کلیتاً بے کار شے ہے(یہ الگ بات ہے کہ ہم سائنس کی مفروضہ اخلاقیات کو پہلے مان لیں، مگر اس صورت میں پھر اس اخلاقی چوائس اور ترجیح کا جواز پیش کرنا ہوگا)۔

2) تاریخی عمل سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں
جب اخلاقیات کیلیے سائنسی بنیاد کو منہدم کردیا جائے تو یہ عقل پرست اخلاقی قضیوں کے جواز کیلیے ‘تاریخی عمل سے تشکیل پانے والے انسان کے اجتماعی شعور’ کا حوالہ دینے لگتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی تاریخ اور اجتماعی شعور سے اخلاقی سبق سیکھتا رہتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ، کیا فائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ وغیرہ ( یعنی سچ بولنا، انسانیت کا احترام وغیرہ یہ سب تاریخی عمل سے سیکھے ہوئے اخلاقی تصورات ہیں)۔ اس اجتماعی شعور کے نتیجے میں انسان غلط کو ترک کرتا اور صحیح کو اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں اس تاریخی عمل میں مذہب بھی کسی طور ان معنی میں شامل کیا جاسکتاہے کہ مخصوص دور تک کے انسانوں نے اپنے تاریخی تجربات سے جو کچھ سیکھ لیاتھا چند اچھے اور بھلے لوگوں( جنہیں اہل مذہب انبیاء کہتے ہیں) نے ان اقدار کو معاشرے میں بطور عقیدہ متعارف کروادیا، مگر چونکہ انسانی شعور کی تعمیر کا یہ سفر جاری و ساری ہے لہٰذا اِنسان کو ماضی کے ان اقداری تصورات کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھول جانا چاہیے اور دورِ حاضر کی علمیت ( یعنی سائنس وسوشل سائنس) کی روشنی میں اقدار اختیار کرنا چاہیے۔ یہ دلیل بلکہ کہانی سُنا کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ساری اخلاقی گتھیاں ہمیشہ کیلیے سلجھادی ہیں۔
مگر یہ کہانی اپنے اندر اس قدر غیر منطقی، باہم متضاد اور غیر ثابت شدہ مفروضات سموئے ہوئے ہے کہ ان کا احاطہ کرنے کیلیے ایک مستقل مضمون درکار ہے۔ خوفِ طوالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہاں چند ایک کی نشاندہی کئے لیتے ہیں:
1) انسانی تاریخ ایک مسلسل عمل (continuous process) اور سفر کا نام ہے۔ ظاہر ہے یہ صرف ایک مفروضہ ہے جسے چند ایک فلسفیوں کے سوا دیگر نہیں مانتے۔
2) یہ تاریخی عمل یک جہتی خط مستقیم (linear path) پر سفر کرتا ہوا ایک عمل ہے ، یعنی تاریخی عمل ہمیشہ پیچھے سے آگے کی طرف بڑھتاہے نیز یہ سفر کبھی معکوس سمت میں نہیں چل سکتا۔ یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے نیز اس کے خلاف بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ یونانی فخریہ انداز سے برہنہ حالت میں کھیلوں کا مظاہرہ کیا کرتے تھے مگر عیسائیت کے غلبے کے بعد لوگو ں نے ایک طویل عرصے تک ایسا کرنا چھوڑے رکھایہاں تک کہ تنویری فکر کے غلبے کے بعد یورپی اور امریکی معاشروں میں یہ فعل دوبارہ راسخ ہونا شروع ہوگیا۔ اسی طرح دورِ جاہلیت کے عرب شرم کے باعث اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، پھر ایک عرصے تک اسے برا سمجھا جاتا رہا، یہاں تک کہ یہ فعل دنیا میں دوبارہ ابورشن کے حق کے نام پر لوٹ آیا( آج انڈیا میں کئی ایسے گاؤں ہیں جہاں لڑکیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین پیدائش سے قبل بچے کی جنس لڑکی معلوم ہونے پر اسقاط حمل کرالیتی ہیں)۔ اسی طرح سود کی اخلاقی شناعت کے حوالے سے معکوس سمت میں تبدیل ہوتے انسانی اخلاقی رویوں کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔
3) کیا اس دنیا میں مطالعہ تاریخ اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا ایک ہی مخصوص طریقہ کار اور نظریہ ہے؟ ظاہر ہے ایسا تو ہرگز بھی نہیں ، مثلاً ہیگل، مارکس، کومٹے، سپنسر، فوکو وغیرہ مختلف نظریات اور مفروضوں کی بنیاد پر تاریخی عمل کا مطالعہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک طرزِعمل ایک مفکر کے مطابق اخلاقاً درست ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے مطابق غیراخلاقی قرار پاتاہے۔ مثلاً ‘جذبہ مسابقت’ کو لیجئے، مارکس کے نزدیک یہ ظلم اور استحصال کو فروغ دیتا ہے جبکہ سپنسر اور دیگر سوشل ڈارونسٹ مفکرین کے خیال میں یہ انسانی فطرت کا عمدہ اور جائز ترین اظہار ہے۔
4) ان میں سے جو بھی منہج اختیار کرلیاجائے اسکی علمی حیثیت ایک رائے(perspective) سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی، اور یہ رائے کسی صورت غیر اقداری یا نیوٹرل نہیں ہوگی کیونکہ آپ اس کے ‘اندر رہتے ہوئے’ تاریخ کو دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے تاریخ کے مختلف ادوار اور دھاروں کے اندر رہنے والے لوگ تاریخ کو چند دیگر نظریات و آراء سے دیکھ کر مختلف نتیجے نکالیں گے نیز ان میں سے ہر ایک کو اپنے نظریہ سے نکلنے والی تاریخ ہم آہنگ دکھائی دے گی اور دوسرے کی لایعنی(یہ درحقیقت استقراء کا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ ایک ہی قسم کے مشاہدات کی توجیہہ ایک سے زیادہ مفروضات کے ذریعے کرنا ممکن ہوتاہے)
5) مطالعہ تاریخی عمل اور اس سے نتیجہ نکالنے کے مختلف مناہیج میں سے کون سا منہج درست ہے اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا، یہ فیصلہ کون اورکس بنیاد پر کرے گا؟ پھر کیا اس فیصلہ کرنے کا پیمانہ تاریخی عمل کے اندر ہوگا یا اس سے باہر؟ اگر کہاجائے کہ وہ پیمانہ تاریخی عمل کے اندر ہوگا تو یہ باہم متضاد بات ہے، اس لیے کہ جب ‘تاریخ کیاہے’ بذات خود ایک منہج سے طے ہوتاہے اور مختلف مناہیج ونظریات ‘تاریخ کے مختلف تصورات’ پیش کرتے ہیں تو یہ تاریخ اور اسکے مختلف تصورات بذات خود ان مناہیج پر فیصل حیثیت کیسے اختیار کرسکتے ہیں، یہ تو خود ان سے نکلے(outcome) ہیں؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ پیمانہ تاریخی عمل سے باہر ہوگا تو وہ کہاں سے آئے گا اور کون دے گا؟ نیز یہ بھی باہم متناقض بات ہے کہ ایک طرف تو آپ یہ دعوی کررہے ہیں کہ علم تاریخی عمل سے آئے گا مگر اسکی صحت طے کرنے کا پیمانہ اس سے باہر ہے، سوال یہ ہے کہ جب امکانِ علم ہی تاریخ سے آتا تو اس سے باہر جانے کا امکان کہاں سے آیا؟
6)اگر کوئی ایک منہج طے کرہی لیاجائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاریخی عمل درست سمت میں جارہا ہے یا غلط سمت میں ، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ ظاہر ہے تاریخی عمل سے وجود میں آنے والا اجتماعی شعور بذات خود اپنا جواز نہیں بن سکتا جب تک کہ یہ’فرض’ نہ کرلیا جائے کہ ‘یہ ٹھیک ہوتا ہے اسے مان لو’۔ پس جب کسی پیمانے پر یہ طے ہی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ عمل ٹھیک سمت میں جارہا ہے یا نہیں، تو تاریخی عمل کو اخلاقی اعمال کے جواز کے طور پر پیش کرنا کیسے درست ہوسکتاہے؟
7)فرض کرلیں اگر یہ تاریخی عمل درست ہے بھی، تب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے بطور فرد اسے کیوں قبول اور اختیار کرلینا چاہیے؟ آخر بطور آزاد ہستی میں اسے رد کرکے اس کے خلاف رویہ کیوں نہ اختیار کروں(خصوصاً اس صورت میں کہ جب یہ معلوم ہی نہیں کہ حاضر وموجود درست ہے بھی یا نہیں)؟

3) ‘تصورفطرت’ سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں
بہت سے عقل پرست انسانی فطرت کو بھی اخلاقی اعمال کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں(یعنی فلاں عمل فطرت کا تقاضا ہے یا فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا ایسا کرنا یا نہیں کرنا چاہیئے وغیرہ)۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ لفظ ‘فطرت’ دو معنی میں استعمال ہوتاہے، ایک پوزیٹو(مثبت) اور دوسرا نارمیٹو(میعاری)۔ پوزیٹو معنی میں فطرت سے مراد’کسی کام کو کرنے کی صلاحیت'(ability to do something) ہوتی ہے، ان معنی میں سچ بولنا، محبت کرنا، کسی کی مدد کرنا، دوسرے انسان کی جان لے لینا، محرم رشتوں سے بدکاری کرنا، جھوٹ بولنا، نفرت کرنا، دھوکہ دینا وغیرہ تمام فطری کام ہیں اس لیے کہ انسان میں یہ سب کرنے کی ‘صلاحیت’ موجود ہے۔ نارمیٹو معنی میں فطرت سے مراد ‘نارمل، معیاری یا جائز رویہ، ہوتاہے، یعنی یہ سوال اٹھایا جائے کہ سچ بولنا نارمل ہے یا جھوٹ، محبت جائز عمل ہے یا نفرت، کسی کو قتل کردینا اہم ہے یا بچالینا، محرم رشتوں کا تقدس ہونا چاہیئے یا ان کے ساتھ بدکاری، مزامیر پرموسیقی کی سماعت درست ہے یا اسکا نہ سننا وغیرہ۔ چنانچہ جب اخلاقی اعمال کا جواز فطرت سے پیش کیا جاتاہے تو لفظ فطرت اس دوسرے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ ‘ نارمل وابنارمل، معیاری و غیرمیعاری، جائز وناجائز انسانی رویوں اور احساسات کا فیصلہ مطالعہ فطرت کی روشنی میں کرنا ممکن ہے۔
مگر انسانی فطرت کو مآخذ اخلاق پیش کرنے میں نہایت بنیادی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس انسانی فطرت کی روشنی میں خیروشر، جائز وناجائز کا فیصلہ کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے وہ’ انسانی فطرت کیاہے’ اس کا تعین کیسے ہوتاہے؟ اسکی تعیین کا ایک طریقہ وہ ہے جو اجتماعیت پسند مفکرین بتاتے ہیں کہ فطرت انسانی کا فیصلہ تاریخی عمل سے وجود میں آنے والے انسانی شعور سے ہوتاہے ، مگر اس فکر کی بنیادی خامیاں اوپر بیان کردی گئیں۔ اسکا دوسرا طریقہ وہ ہے جو انفرادیت پسند مفکرین پیش کرتے ہیں جن کے خیال میں انسانی فطرت کا تعین انسان کو زمان ومکان سے ماوراء (asocial and ahistorical) تصور کرکے کیا جاسکتاہے۔ یعنی یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر ہم انسان کو معاشرے اور وقت سے ماقبل اور ماوراء اور ان سے علیحدہ کرکے ایک آزاد ہستی کے طور پر تصور کریں تو وہ اسکی ‘حالت اصلی’ یا ‘فطری حالت’ ہوگی، اس اصلی حالت میں انسان جو کرے گا یا کرنا چاہے گا وہی اس کی فطرت کا جائز اظہار ہوگا(اس طریقے کے تحت انسانی فطرت کی تمیز قائم کرنے کی ایک کوشش مشہور فلسفی جان رالز کی کتاب theory of justice میں ملتی ہے، مگر اجتماعیت پرست مفکرین کے نقد کے بعد رالز کو اپنی اس پوزیشن سے رجوع کرنا پڑا، اس دلچسپ بحث کے مطالعے کیلیے دیکھئے کتاب Liberal and Communitarians by Stephen Mulhall and Adam Swift )۔ یہ دلیل دینے والوں کا مقصد یہ کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ معاشرے میں رہنے کی وجہ سے انسان کی فطرت بہت سے خیالات، میلانات، معاشرتی رویوں اور سیاسی جکڑبندیوں کی وجہ سے مسخ ہوجاتی ہے لہٰذا اصل فطرت کی دریافت کیلیے ضروری ہے کہ اسے معاشرے سے علیحدہ کرکے اور کاٹ کر دیکھاجائے۔ اس طریقہ مطالعہ میں بہت سے بنیادی نوعیت کی خامیاں وکمزوریاں ہیں:
1)سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ ایک ایسی شے جو کٹی ہوئی ہے ہی نہیں اسے کٹی ہوئی فرض کرکے نتیجے نکالنے کی کوشش کرتاہے، یعنی جو ہے یہ جزو اسے کلیت سے علیحدہ فرض کرنے کی کوشش کرتاہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک لا متصور شے کو متصور کرنے کی لا حاصل کوشش کے سواء کچھ نہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی معاشرے کی، ماقبل معاشرہ انسان کا نہ توکوئی تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جس کی روشنی میں یہ طے کیا جاسکے کہ وہ ‘اصلی انسان’ کیسا تھااور نہ ہی ایسا فرض کرنے کی کوئی علمی بنیاد ہمارے پاس موجود ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں تو انسان ہمیشہ معاشرے کے اندر ہی پایا گیاہے اور اسی کے اندر سے وہ اپنی شناخت ، نظریات و رجحانات دریافت کرتا رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف قسم کے معاشروں میں پیدا ہونے والے لوگ کے ‘فطری وغیرفطری’ کے رجحانات ومیلانات مختلف ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہزار ہاسال کی انسانی تاریخ اور معاشرتی وسیاسی عمل سے گزر جانے اور ان سے نجانے کن کن طریقوں سے متاثر ہوجانے کے بعد آج کون سا شخص اور کس بنیاد پر یہ دعوی کرسکتاہے کہ فطرت نے اسے کیسابنایاتھا؟ آخر’کون’ اور ‘کس بنیادپر’ یہ طے کرے گا کہ ‘اس کے’ میلانات اور رجحانات ‘فطری’ (بمعنی حالت اصلی کا اظہار) ہیں؟ یہ کس طرح طے ہوگا کہ آج جو ہمارے میلانات ہیں ان میں سے ‘کون سے’ میلانات اور ‘کس حد تک’ اصلی ہیں جبکہ دیگر معاشرتی حالات کی پیداوار ہیں؟ درحقیقت معاشرے سے ماقبل انسان کا تصور بدیہی طور پر ایک لغو(absurd) تصور ہے۔
2) درحقیقت اپنی مخصوص تاریخی و معاشرتی جکڑبندیوں کا شکار ہر شخص اس طریقہ کار کے تحت اپنی’حالت اصلی’ کا ایک مختلف تصور قائم کرے گا اور ان مختلف تصورات’حالت اصلی’ میں تمیز قائم کرنے کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوسکتی۔ مثلاً رالز ہی کی مثال لیں، اسکے خیال میں انسان کی اصلی حالت یہ ہے کہ وہ خود کو ‘آزاد’ ، قائم بالذات، اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا حریص انسان تصور کرے’۔ ظاہر ہے اس تصور کو اصلی کہنے کی کوئی علمی دلیل نہیں، رالز نے انسان کی حالت اصلی کے بارے میں یہ رائے اس لیے قائم کی کیوں کہ وہ جس مغربی معاشرے میں پیدا ہوا وہاں فرد کی آزادی اور مفادات کے تحفظ کو بنیادی فوقیت دی جاتی ہے لہٰذا رالز نے اسی کو حالت اصلی ‘فرض’ کرلیا۔ اسکے برعکس ایک قبائلی معاشرت کے انسان کیلیے ذاتی آزادی اور مفاد کوئی معنی نہیں رکھتے، وہ خود کو قبیلے کا رکن تصور کرتاہے اور اسی کو حالت اصلی سمجھے گا۔ اسی طرح رالز کی ملحدانہ عقل کے برعکس ایک مسلمان کی عقل اسے یہ بتاتی ہے کہ اسکی حالت اصلی(فطرت) ‘خدا کابندہ’ ہونا ہے(وہ اَلَستُ بِرَبِّکُم قَالُوابَلَی کا نعرہ بلند کرتاہے)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عقل پرستوں کے پاس آخر وہ کون سا علمی پیمانہ و بنیاد ہے جس کے ذریعے یہ ان مختلف تصورات فطرت میں تمیز قائم کرکے ‘اصلی حالت’ کا تعین کرسکتے ہیں؟ اور جب ایسا کوئی پیمانہ ہے ہی نہیں تو پھر اس دعوے سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوگی کہ’فلاں کام انسانی فطرت کے مطابق یا خلاف ہے، لہٰذا اسے کرنا یا نہیں کرناچاہیئے؟

4) ‘عقلیت’ سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں:
درج بالا گفتگو کے بعد اس قضئے پر تفصیلی بحث کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہتی، البتہ ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ تصور ِ عقل دو معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جوہری اور آلاتی substantive and instrumental rationality ۔ جوہری عقلیت کا معنی یہ ہے کہ ہم عقل کے سامنے یہ سوال رکھیں کہ خیروشر کیاہے، حقیقت کا سراغ کیسے لگایاجائے، مقاصدِ حیات کی تعیین وترتیب کس طرح طے ہو۔ اسکے مقابلے میں آلاتی عقل کا معنی یہ ہے کہ عقل سے کسی ‘ طے شدہ’ مقصد کے حصول کا طریقہ معلوم کیا جائے۔ چنانچہ یہ خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ دماغی عقل میں جوہری عقلیت کی صلاحیت نہیں، یعنی وہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں دے سکتی کہ خیروشر کیا ہے نیز مقاصد حیات او رانکی باہمی ترتیب کیا ہو۔ دماغی عقل کے لیے صرف یہ ممکن ہے کہ آپ اسے کسی طے شدہ مقصد کے ‘ذریعہ حصول’ کے طور پر استعمال کریں، یعنی عقل یہ تو نہیں طے کرسکتی کہ مقصد ادائیگی حج وہ یا فٹ بال کھیلنا، البتہ عقل اس امر میں ضرور مددگار ہوسکتی ہے کہ ادائیگی حج یا فٹ بال کا بہترین انتظام کیسے ہو۔ اسی بات کو امام اشعریؒ وغزالیؒ نے فتنہ اعتزال کے تناظر میں صدیوں پہلے بتادیا تھا کہ عقل خیروشر کے تعین کی اہلیت نہیں رکھتی یہ خالصتاً شرعی اوصاف ہیں۔ یعنی جو بات مغربی فلسفیوں کو بیسویں صدی میں سمجھ آئی، امام غزالیؒ نے ہزار سال قبل ہی اسکی وضاحت کردی تھی۔مزید تفصیل ۔
چند مغربی فلسفیوں نے اخلاقیات کی خالصتاً عقلی توجیہات پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے جن میں سرفہرست نام کانٹ کا ہے۔ اسکی فکر کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ خواہش جسے ایک انسان مقصد میں ٹکراؤ آئے بغیر سب کو پورا کرنے کی اجازت دے سکتاہے وہ جائز ہے۔ مگر کانٹ کی فکر کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ یہ آزادی کو مفروضے کے طور پر قبول کرتی ہےنیز یہ محض ایک ساخت ہے جس کے اندر سوائے انسانی خواہشات کسی شے کاگزر نہیں ، دوسرے لفظوں میں کانٹ کے خیال میں اخلاقیات کا مافیہ ہم آہنگی کے ساتھ خواہشات کا حصول ہے۔ پھر کانٹ کے اس فریم ورک میں خواہشات کی ترتیب قائم کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں ، یعنی یہ اصول فرد کو یہ نہیں بتاتا کہ ‘ اسے کیا چاہناچاہیئے’ ، یہ بس اتنا بتاتا ہے کہ ہر وہ فعل جو ہم آہنگی کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے وہ جائز ہے۔ یہ اور اس قسم کے مزید خامیوں کی بنا پر کانٹ کے اخلاقی فلسفے کو علمی دنیا میں اصولاً رد کردیاگیا(یہ اور بات ہے کہ عملاً اسے قانون کے دائرے میں اب بھی کسی نہ کسی درجے میں برتاجارہاہے)۔
عقل سے اخلاقیات اخذ کرنے کی مشکلات کو ایک مزید زاویے سے دیکھیں۔ اوپر اس بات کی وضاحت کی گئی کہ اخلاقی دعوٰی اخذ کرنے کیلیے دلیل میں اخلاقی دعوی موجود ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اگر ایک نارمیٹو دعوے کے اثبات کیلیے آپ کو دوسرا نارمیٹو دعوی چاہئے، پھر اس دوسرے کا جواز آپ تیسرے سے دیتے ہیں، اور اگر آپ ہر پچھلے نارمیٹو دعوے پر’یہ کیوں نہ ماناجائے’ what is its justification? کا سوال اٹھاتے چلے جائیں تو آخر میں ایک ایسا نارمیٹو دعوی بچے گا جسے آپ کی عقل بدیہی self-evident ، یعنی اپنی دلیل ازخود ماننے پر مجبور ہوگی، یعنی آپ کہیں گے کہ بدیہی دعوی ایک شخص کا ایمان ہوتاہے جسے وہ’عقل’ اور ‘اِخلاق کے پیمانے’ کے طور پر مانتاہے۔ درحقیقت جب عقل پرست مذہبی لوگوں کو کہتے ہیں تم عقل کی بات نہیں مانتے تو اسکا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ‘تم ہماری عقل کی طے کردہ تعریف کیوں نہیں مان رہے؟’۔ ان عقل پرستوں کے ہاں عقل کا معنی انسان کو قائم بالذات اور اسکی لامتناہی خواہشات کی تسکین کو مقصد حیات مان لیناہے۔ یہی کلمہ خبیثہ انکی مزعومہ اخلاقیات کی اصل بنیاد ہے، جو انکی اس خود ساختہ عقل کی تعریف کو نہ مانے یہ اس پر جاہل، وحشی، غیرمہذب اور غیر عقلی کے القابات چسپاں کردیتے ہیں۔ انکے یہاں عقل اور قدر کا مطلب انسانی آزادی میں اضافہ ہے اور چونکہ آزادی کی عملی شکل اور تجسیم سرمایہ capital ہے لہٰذا سرمایہ ہی انکے یہاں ہرعمل کی قدر متعین کرنے کا اصلی پیمانہ ہے۔ جو خواہشات اور اعمال بڑھوتری سرمائے میں زیادہ ممدومددگار ہوتی ہیں مغربی(سرمایہ دارانہ) معاشروں میں انکی قدر و قیمت زیادہ ہوتی ہے اور ان کا اجتماعی نظم فرد کو انہی خواہشات واعمال کو اختیار کرنے پر راغب اور مجبور کرتاہے۔ خواہشات کی جو ترتیب فرد کو حصول سرمائے کا مکلّف نہیں بناتی یہ نظام ایسی ترتیبِ خواہشات رکھنے والے شخص کو سزا دیتاہے(جس کی شکلیں آمدن میں انتہائی حد تک کمی، معاشرتی اخراج، معاشرے میں شمولیت کے مواقع میں کمی وغیرہ کی صورت ہوتی ہے)۔ چونکہ سرمائے میں اضافے کی یہ جدوجہد حرص وحسد کے عمومی فروغ کے بغیر ممکن العمل نہیں، لہٰذا حرص وحسد اور شہوت کا فروغ ہی انکے نزدیک فطری انسانی کیفیات ہیں اور یہی عقلیت کا وہ پیمانہ ہیں جنہیں اختیار کرکے فرد اپنا مقصد (آزادی میں اضافہ) حاصل کرنے لائق بنتا چلا جاتاہے۔ جو جتنا زیادہ حریص، دنیا پرست اور شہوت سے مغلوب ہوتاہے ان معاشروں میں اتنی ہی زیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوتاچلاجاتاہے۔

جدید انسان کی سرکشی کی عجیب کہانی:
اٹھارویں صدی کے ملحد فلاسفہ نے یہ بلند وبانگ دعوی کرکے مذہب کو رد کردیاتھا کہ ہم حقیقت ، سچ،معنی،قدر،عدل اور حسن کو وحی کی بنیاد پر قبول کرنے کے بجائے انسانی عقل پر تعمیر کریں گے، انکا دعوٰی تھا کہ حقیقت،سچ،معنی،قدر،عدل اور حُسن کی جو تشریح ہم دریافت کرکے بیان کریں گے چونکہ وہ عقلی ہوگی، کسی مفروضے پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی، لہٰذا دنیا کے سب انسان اسے ماننے پر مجبور ہونگے۔ مگر پھر کیا ہوا، دوسوسال کی فلسفیانہ لم ٹٹول اور نتیجہ : ” انسان اپنے کلیات سے حقیقت، سچ،معنی،قدر،عدل اور حسن جان ہی نہیں سکتا”۔
اس مقام پر انسان کو اصولاً اپنی علمی کم مائیگی اور دامن کی تنگی کو پہچان کر اپنے رب کے حضور جبین نیاز خم کردینی چاہیے تھی کہ اس نے اپنے پالن ہار کے آگے سرکشی کرکے خود خدا بننے کا جو دعوی کیاتھا اس دعوے کے حصول میں چاروں شانے چت ہوگیا تھا۔ مگر یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ جو شکست اسکی آنکھیں کھول دینے کیلیے بہت کافی ہوجانی چاہئے تھی اس نے اپنے رب کی اسی نشانی کو اپنی سرکشی میں مزید اضافے کا ذریعہ بنالیا۔ بجائے اپنی شکست قبول کرنے کے آج کا جدید انسان اب یہ کہتا ہے کہ حقیقت،سچ،معنی،قدر،عدل اور حسن نامی کوئی شے ہوتی ہی نہیں، یہ محض اضافی وبے معنی تصورات ہیں۔ وہ زندگی کو ایک بے معنی کھیل تماشا سمجھتاہے مگر غور نہیں کرتا کہ زندگی کو کھیل تماشا سمجھنا بذات خود ایک ایمان ہی ہے۔ وہ کہتاہے کہ حقیقت اور سچ کچھ نہیں مگر یہ نہیں سمجھ رہا کہ اسکا مطلب یہ دعوی کرنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک اور سچ ہے(یعنی جوبھی چاہو اور کرلو وہ ٹھیک ہے)۔ اسی ‘بے معنویت’ کی طرف وہ انسانیت کو دعوٰی دیتا ہے۔ آج اپنے اس لغو دعوے کو وہ اپنی ‘تلاش قراردے رہاہے، جبکہ فی الحقیقت یہ دعوی صرف اور صرف اس کی ‘شکست'(retreat) کا باغیانہ اعتراف ہے۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ موت اٹل ہے، اپنے رب کے حضور اسکی حاضری کا وقت بالکل قریب ہے، پھر کیا حال ہوگا اس وقت کہ جب اپنے دفاع کیلیے اسے پورا موقع دیاجائے گا مگر کہنے کیلئے اسکے پاس الفاظ ہی نہ ہونگے؟… ہاں توبہ کا دروازہ ہر آن کھلا ہے اور اسکا رب بڑا کریم اور رحیم ہے۔
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password