ملحدین کیساتھ مکالمے کا طریقہ کار

ملحدین کے مذہبی رویے:
ملحدین سے مکالمہ کرتے وقت ان کے رویوں کے محرکات (motives of attitudes) کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اچھا دہریہ(good atheist) کے الفاظ فی زمانہ ایک اصطلاح کے طور معروف ہورہے ہیں اور اس کے کئی ایک مفاہیم مراد لیے جاتے ہیں، جن میں ایک یہ ہے کہ اچھا دہریہ وہ ہے کہ جو خدا کونہ ماننے کے باوجود کسی سماجی اخلاقی نظام کی پابندی کرتاہو، وغیرہ۔
میں پہلے ان دہریوں کو بے وقوف سمجھتا تھا کہ جو خدا کہ بارے میں اپنے شکوک وشبہات کا اظہار بھی کرتے ہیں، مذہب بیزار بھی ہیں، لیکن ساتھ میں بات بات پر اللہ کا شکر(thanks God) جیسے الفاظ بھی کہہ دیتے ہیں، نماز بھی پڑھ لیتے ہیں ، انسانی رشتوں میں بھی اس حلت وحرمت کا دھیان کرنے والے ہیں کہ جو مذہب کی تعلیم ہے، شادی بیاہ اور نکاح وطلاق کے مسائل میں بھی معاشرتی مذہب پر عمل پیرا ہیں۔ ایک دفعہ میں ایک دہریے سے الجھ پڑا کہ مجھے بتلاؤ کہ پاکستان میں کوئی ایسا دہریہ ہے کہ جس نے مرنے سے پہلے وصیت کی ہو کہ میری نماز جنازہ نہ پڑھانا؟ اس نے کہا نہیں، ایسا دہریہ میرے علم میں بھی کوئی نہیں ہے۔ (لیکن بعد میں ایک اور ملحد سے معلوم ہوا کہ نہیں ، دو ایسے بھی ہوگزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنی اولاد کو یہ تک وصیت کی تھی کہ ہماری لاش کو جلا دینا۔) لیکن اس کو آپ یہ نہ سمجھیں کہ ایک دہریے کو آخرت یا جنت اور جہنم کا یقین ہے یا یہ عمل اس کے خدا پر ایمان کی علامت ہے، بلکہ اس کو یوں سمجھیں کہ یہ سماجی اقدار (social values) ہیں کہ جن کا ہم خیال رکھتے ہیں۔
اس دہریے کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہم یہ وصیت کرجائیں کہ ہماری نمازِجنازہ نہ پڑھی جائے تو اس سے ہمارے رشتہ داروں کی دل آزاری ہوگی، لٰہذا ہم اس سے منع نہیں کرتے۔ اسی طرح ” جزاک اللہ” یا السلام علیکم” کے الفاظ ہم سماج اور رواج کی وجہ سے ادا کرتے ہیں اور رشتوں کی حرمت اور حلت کا مسئلہ بھی معاشرتی ہے۔ مذہبی حلال وحرام کی پرواہ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ معاشرے سے ہم آہنگ رہنا چاہتے ہیں اور معاشرہ چونکہ مذہبی ہے لہٰذا انہیں معاشرے کی مذہبی اخلاقیات کا دھیان کرنا پڑتاہے۔ (ہماری نظر میں ملحدین کا یہ تجزیہ درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملحدین انتہائی کوشش کے باوجود خدا کو اپنے اندر سے نکال نہیں پائے۔ مذہب اور خدا ہمارے لوگوں کے جینیات genes میں ہے۔ یہ اسے اپنے سے نکال باہر کرنے کی ہر کوشش میں بری طرح ناکام ہوگئےہیں)
اس دن سے مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ دہریت اور الحاد کچھ مذہبی شعائر یا مظاہر کا انکار کرنے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ دہریت اور الحاد ایک سوچ اور ایک فکر ہے۔ اور اس فکر کے حاملین بہت سمجھداری سے کام کررہے ہیں۔ کہ وہ ایک مسلمان کو نماز،روزے سے منع نہیں کرتے، مذہب پر عمل کرنے سے منع نہیں کرتے، بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ مذہب پر عمل کرو تا کہ معاشرے میں اجنبی نہ بن جاؤ، اچھے انسان کہلاؤ اور پھر ایک دہریے کی سوچ کے ساتھ زندگی گزارو اور دہریت اور الحاد کی تبلیغ کرو۔ (ایڈمن فیس بک پیج ڈاکٹر پرویز ھود بھائے”ملا” کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ” ملا” وہ نہیں ہےکہ جس کی لمبی داڑھی ہو، یا سر پر پگڑی ہو بلکہ ” ملائیت” ایک فکر کا نام ہے۔ یعنی انہیں ہمارے داڑھی کی لمبائی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ ہماری سوچ سے ہے۔ وہ ہمارا حلیہ تبدیل نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ہماری سوچ کی تبدیلی ان کا ہدف ہے۔)
پاکستانی ملحدین سے بات چیت کے بعد ایک سنجیدہ شخص کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مذاق(JOKE) سے کم نہیں ہیں۔ ان میں کچھ تو نوجوان ہیں جو اپنے دہریے (ATHEIST) ہونے پر بڑا فخر کرتے ہیں اور ان کی زندگی کا کل مقصود یہ ہے کہ انہیں اپنے خیالات جیسی کوئی ( FEMALE ATHEIST) مل جائے اور اس کے بعد کی کہانی واضح ہے۔ ان میں بعض وہ ہیں جو اپنے آپ کو مفکرintellectualثابت کرنے لیے ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ انہیں معاشرے میں اتنی توجہ نہیں مل سکتی جتنی کہ ان کی خواہش تھی۔ اور بعض وہ ہیں جو نیوٹن کے حرکت کے تیسرے قانون کے عین مطابق مولوی کا ردِعمل reaction ہیں۔ اور بعض وہ ہیں کہ جنہیں بچپن میں گھر سے کم توجہ ملی اور اب انہیں خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ان میں سے اکثر وبیشتر مذہب اور مذہبی تعلیمات پر لعن طعن کرکے اپنے اندر کی گھٹن باہر نکالتے رہتے ہیں اور اگر زیادہ کسی نے علمی میدان میں کوئی بہت تیر مارلیا تو کسی انگریز ملحد کی کتاب کا اردو ترجمہ کردیا اور اس فخر کے ساتھ جیسے اندھیروں میں علم کی مشعل روشن کردی ہو، بھلے اردو میں لفظ مشعل کا صحیح تلفظ بھی معلوم نہ ہو ۔

٭ملحدین کیساتھ مکالمے کا طریقہ کار
ملحدوں(ATHEISTS) سے مکالمہ (DIALOGUE) کےلیے ضروری ہے کہ پہلے ان کی حکمت عملی (STRATEGY) سے واقف ہوا جائے۔ اہم تر بات یہ ہے کہ سطحی ذہن کا ملحد ہمیشہ فروعات پر بحث کرنے کی کوشش کرے گا، اصولوں ( principles) پر نہیں۔ وہ اہلِ ایمان کو محمدّ رسول اللہﷺ کی شادیوں، تعدد ازدواج ، نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر، لونڈی، غلام، حجاب، نقاب، جہاد، طالبان، داعش وغیرہ جیسے تصورات میں الجھانے کی کوشش کرے گا، اور اسے خدا اور مذہب کے انکار کی دلیل بنائے گا۔
ایسے ملحدوں کو فروعات کی بجائے پہلے اصولوں پر لانا چاہیے، مکالمے کے لیے پہلا موضوع”خالق ہے یا نہیں ہے” ہونا چاہیے۔ جب” خالق کا ہونا” ثابت ہوجائے تو پھر “مخلوق کی مقصدیت” کو موضوع بحث بنانا چاہیے کہ خالق کی تخلیق بامقصد ہے یا نہیں؟ جب تخلیق کا بامقصد ہونا ثابت ہوجائے تو پھر ” مذہب کی ضرورت” کو موضوع بحث بنایا جائے کہ مذہب ، انسانوں کی بنیادی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہے یا نہیں؟ جب” مذہب کی ضرورت” ثابت ہوجائے تو پھر صرف اسلام ہی کے تمام مذاہب میں مذہب برحق ہونے کو موضوع بحث بنایا جائے۔
جب خدا کا وجود اور مذہب کی ضرورت ثابت ہوجائے تو پھر رسالت کی ضرورت پر بحث کی جائے کہ اگر خدا ہے تو رسول ضروری ہیں یا نہیں؟ جب رسولوں کی ضرورت ثابت ہوجائے تو پھر محمدؐ کے رسول ہونے پر بحث کی جائے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں یا نہیں؟ جب ان کا سچا رسول ہونا ثابت ہوجائے تو اب آپ کے لیے اس ملحد کو یہ سمجھانا مشکل نہیں ہے کہ محمدﷺ نے اتنی شادیاں کیوں کیں؟
جب خدا، مذہب اور رسالت ثابت ہوجائیں تو اب آخرت اور جنت وجہنم پر بحث کی جائے۔ جب ان تمام اصولوں پر بحث ہوجائے تو اب فروعات کو زیربحث لانے میں حرج نہیں ہے۔ جو لوگ اصولوں میں آپ سے متفق نہ ہوں تو ان سے فروعات میں بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ اور یہ اس لیے بھی کہ بڑا ذہن ہمیشہ اصولوں پر بحث کرتاہے نہ کہ فروعات پر۔ اصول درست ہوں تو فروعات بھی درست ہی ہوتی ہیں یا انہیں صرف درست توجہیہ (reasoning and interpretation) کی ضرورت ہوتی ہے،لیکن اگر اصول ہی غلط ہوں تو پھر فروعات کبھی درست نہیں ہوسکتیں۔
اور الحاد کو زیربحث لاتے ہوئے اس کے اصولوں کو ضرور موضوع بحث بنانا چاہیے۔ ملحد ہوشیار ہے، وہ آپ کے میدان پر ہی کھیلنا چاہتا ہے، آپ اس کے میدان پر بھی کھیلیں۔ یعنی ملحد کے خدا کو موضوع بحث بنائیں اور وہ قوانین فطرت(laws of nature) ہیں یا عدم (nothingness) ہے، وغیرہ۔ ملحد کی کوشش ہوگی کہ آپ سے اس بات پر مکالمہ کرے کہ اللہ موجود ہے یا نہیں؟ اور آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ملحد کے عقیدے کو موضوع بحث بنائیں کہ قوانین فطرت اس کائنات کے خالق ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ اورالحاد کا اصل الاصول (prime principle)” نظریہ ارتقاء” ہے۔ ملحدوں کے پاس دلیل کی کل جمع پونجی نظریہ ارتقاء ہے۔ آپ اس نظریے پر بات کرنے کے لیے ملحد کو آمادہ کریں اور اس( سے جو نتائج ملحدین نکالتے ہیں ) کو غلط ثابت کردیں تو ملحد کے ایمان ویقین کی کل عمارت زمین بوس ہوجائے گی۔
تحریر ڈاکٹر زبیر

  • تصدق حسین شاہ
    May 20, 2020 at 1:33 pm

    عمدہ تحریر اعلی طریقہ کار۔۔۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password