من نمی ملحد

کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں آدمی کے بجائے عدمی ہوں اور یہ زندگی ایک لامتناہی گمان سے زیادہ کچھ نہیں… سب کچھ ‘ہونا’ ناممکن سا لگتا ہے… یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ‘زندگی’ میرے ورود سے پہلے بھی ایسے ہی رواں دواں تھی اور میرے بعد بھی ایسے ہی جادہ پیما رہے گی… یہ کیسی نامکمل سی تصویر ہے ازل اور ابد کے بغیر… آخرت کے بغیر…!
~ آگہی میں اِک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
اور پھر جب نفسیات مابعد الطبعیاتی (میٹافِزِکل) دقیقہ سنجیوں میں معلّق سوچتا ہوں ازل کے بارے میں کہ آخر رب کے بغیر دنیا وجود میں ہی کیسے آئی تو عدم سے آدم نکلتا محسوس نہیں ہوتا… مطلب کہ اگر ‘فلسفۂ دھماکہ’ (بگ بینگ) کو ایک لمحے کیلئے تھوڑی سی جگہ دے کر دیکھ بھی لِیا جائے کہ ‘کچھ نہیں’ سے ‘سب کچھ’ بن گیا تو بھی یہ بات کتنی بدمنطقی ہے کہ جرثومۂ واحد سے ہی ارتقائی منازل طے کرتا انسان معدوم سے موجود ہوا ہے… تو پھر تمام جرثومے انسان ہی کیوں نہ بن گئے… کوئی بھینس، کوئی بلّی، کوئی شترمرغ، کوئی مچھلی، کوئی پرندہ کیونکر بنا…!؟ اور اس میں پھر عدم سے ہی ایسی صلاحیت کیسے ودیعت ہوئی کہ اس بےبس و بےکس جرثومے نے کارآمد ارتقائی تبدّل قبول کِیے اور بےکار نظر انداز کرتا رہا جبکہ اس کا اپنا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا… خشکی والوں نے پانی میں سانس لینے کی ارتقائی منزل کیوں ترک کردی اور آبی نے خشکی میں سانس لینے کے ارادے کا بیڑا کیوں نہیں اٹھایا بلکہ الٹا بیڑا غرق کر لیا اپنا…!؟ اس کے بعد عورت اور مرد کے نہ صرف طبعی مختلف اجسام بلکہ انکے ارادے، مزاج اور متعیّن شدہ طریقۂ نسلِ انسانی… کہ عورت کا کام اس کو اپنے اندر سنبھالنا اور پرورش کرنا اور قرآن میں ربّ کا فرمانا
مَاجَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِي جَوْفِہ. =نہیں بنائے اللہ تعالی نے مرد کے پہلو میں دو دل! (الاحزاب ٣)
ادھر صرف مرد کا ذکر ہوا… کیونکہ عورت حمل ٹھہرنے کے بعد دو دلوں کی پاسبان ہو جاتی ہے… اسی طرح نہ صرف انسان بلکہ ہر جنس میں دو اصناف اور ان میں بھی یہ متعیّن کہ وہ مخصوص کام مادہ کا ہی ٹھہرا… کبھی مرد نے بچہ کیوں نہ جنا…!؟ یا عورت نے ہی کبھی انڈا کیوں نہ دیا…!؟ انڈے یا بچے دینے والوں نے کبھی ایک دفعہ ہی سہی جننے کا دوسرا انداز کیوں نہ اپنایا ارتقاء کے ذریعے…!؟ یہ اتنا ‘تعیّن’ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ہے جو اس سب ‘ارادے’ کے پیچھے ہے… وگرنہ ہر ارتقائی عمل کا ایک جیسا نتیجہ کیوں نکلا…!؟ آدھا گھوڑا آدھا انسان صرف ہیری پوٹر میں ہی کیوں…!؟ اصل میں ارتقاء نے اسے ثابت کیوں نہ کِیا…!؟ میڈِیُوسا (سنپیلی عورت) صرف دیومالا میں کیوں…!؟ بندر سے بنتا انسان اب کیوں نہیں…!؟ یک چشم دیو (سائیکلاپس) صرف ‘گاڈ آف وار’ اور اسی نہج کی گیموں اور مُووِیوں میں ہی کیوں…!؟ ‘ڈےوِی جونز’ اور ‘کریکَن’ فقط قزاقی داستانوں کا حصہ ہی کیوں…!؟ یک سینگھی گھوڑا (یُونی کارن) اور اسی طرح کی دوسری مخلوقات فقط اساطیری قصّوں میں ہی کیوں…!؟ کوئی جرثومہ ان میں سے ایک کیوں نہ بنا…!؟ ارتقاء نے یہ سب کیوں نہ ثابت کیا…!؟ ارتقاء کے عمل سے گزرتے جرثومے سب کے سب ہی ایسے عمدہ کیسے ہیں…!؟ کوئی آدھا انسان آدھا مچھلی کیوں نہ بنا ‘ایکوَامین’ (Aqua Man) کی طرح…!؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ سب اس طرح دکھائے گئے ہیں کہ اصل ہوں… بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جتنے ممکنات جرثومے کے انسان بننے کے ہیں اتنے ہی باقی اشیاء بننے کے بھی ہیں… پھر کیوں نہ بنے…!؟ کیا معلوم کہ جینیاتی گھپلے (Genetic Engineering and Mutation) کے ذریعے یہ اس طرح کی مخلوق وضع کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں… مگر وہ ‘ارتقائی نتیجہ’ تو کسی طرح نہ کہلایا جا سکے گا… سوال تو پھر بھی برقرار رہے گا… حیرت ہے کہ رب کے اوپر بغیر دیکھے ایمان نہ لانے والے اس نظریۂ ارتقاء پر بغیر دیکھے ایمان کیونکر لے آئے…!؟ یہ منطق کی عبادت کرنے والے اتنے بڑے خائن کیسے ہو سکتے ہیں…!؟ مگر ہم دیکھتے آئے ہیں… کہ یہ سب سوفسطائیت زدہ زہنیت کے مارے ہیں… ان کے ذہن اصل میں اتنے ٹیڑھے ہو گئے ہیں کہ انھیں پیچیدہ بات سیدھی لگنے لگی ہے… حالانکہ پیر اگر ٹیڑھا ہو تو اس پر جوتا بھی ٹیڑھا ہی آئے گا… سیدھا نہیں… اسی کی مانند ان کے ذہن اب سیدھی بات نہیں قبول کرینگے… کیونکہ یہ مزعومہ پرپیچ گتھیوں میں خود کو اتنا الجھا چکے ہیں کہ سلجھنا شاید ان کی قسمت میں ہی نہیں رہا… ٹیڑھا جوتا انکے خمیدہ پیر پر چڑھ گیا ہے تو یہ اسے ہی سیدھا سمجھنے لگ گئے ہیں… حالانکہ فلسفۂ پینسپَرمِیا (Panspermia) بھی زندگی ‘کب اور کہاں’ کا جواب دیتا ہے… اور ‘کیسے’ کا اسکے پاس جواب محض ‘خودروئی’ (Abiogenesis) ہی ہے… یعنی ‘کچھ نہیں’ سے ‘سب کچھ’ کا نکلنا… حالانکہ یہ سب کچھ انتہائی غیرمنطقی ہے… کیونکہ اٹّھارھوِیں اور انّیسوِیں صدّی میں رُو بہ عمل ہونے والے سلسلہ وار تجربات نے ثابت کردیا تھا کہ زندگی زندگی سے ہی نکلتی ہے… از خود پیدا ہونا محال ہے… لاطینی میں کہا جاتا تھا
Omne vivum ex vivo, Latin for “all life [is] from life.” A related statement is Omnis cellula e cellula, “all cells [are] from cells;”
یعنی ہر زندگی کا مخرج زندگی ہی ہے… اسی سے متعلقہ ایک اور قول تھا کہ ہر خلیہ (سیل) خلیے سے ہے…!
اور اسکی سائنسی تطبیق لُوئس پاسچر (Louis Pasteur) نے دی تھی اپنے تجربات کے ذریعے… اور ان تجربات میں اس نے ثابت کِیا تھا کہ زندگی ازخود رفتہ نہیں ہے… اسکے الفاظ آج بھی تاریخ میں ثبت ہیں… اسنے کہا تھا
“La génération spontanée est une chimère”
(“Spontaneous generation is a dream”).
“خودرُو زندگی ایک خواب ہے…!”
یہ منطق کے پیروکار جانے کیوں سائنس کی ثابت کردہ چیزوں کو ہی ٹھکرا رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ‘ثبوت’ لاؤ… ثبوت جانے کس چڑیا کا نام ہے انکے یہاں… جانے کیوں جب بھی الحاد کی بات ہوتی ہے مجھے قراۃ العین طاہرہ یاد آ جاتی ہے… ایک تو حسن کی فراوانی… اور وہ بھی ایرانی… جسے اقبال نے ‘خاتونِ عجم’ کہہ کر پکارا… وہ بہابی مذہب کی داعیہ جس کو شاعرہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا… ایسی پرکار اور چابکدست نقاب آرا مقررہ تھی کہ لوگوں کو اپنی ندا کے حصار میں جکڑ لیتی تھی… اور منتہائے کلام پر جب سامعین اس کے دام میں آ چکے ہوتے تھے تو یک دم اپنا نقاب الٹتی تھی اور ایک خلقت از خود رفتگی میں اس کا کلمہ پڑھنا شروع کر دیتی تھی… ‘نوائے طاہرہ’ نام کی فارسی غزل پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیا فتنہ زا شخصیت رہی ہوگی… بالکل اسی طرح… جب الحادی سوچیں دماغ تک رسائی حاصل کرتی ہیں تو بندہ ان کے ساتھ بہنا شروع ہو جاتا ہے اور اسی ارتیابیت زدگی (تشکیک) کے دوران جب ایک دم سے اسے اسکے نفس کی پسندیدہ ترین چیز بےروک ٹوک ملتی ہے تو وہ مست ہو جاتا ہے اور بےاختیار پکار اٹھتا ہے… لَایَھُم… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا… انکار از وجودِ خدا اسکا کام ٹھہرتا ہے… دین اسکو ‘ترقی’ کی راہ میں بوجھ لگتا ہے… حالانکہ خدا کے وجود کے انکار میں کوئی جادُو تھوڑا ہی ہے کہ اسکا ارتکاب کرتے ہی صنعتیں آپوں آپ کھڑی ہونا شروع ہو جائیں…!
یہ تو ہو گئی زندگی کی ‘شروعات’ کے بارے میں موجود الحاد میں پیچیدگی… باقی موت اس سے زیادہ عقل سے ماورا ہے الحاد میں… مرنے کے بعد جسم تو ویسا ہی باقی رہتا ہے… پھر کیا شے ہے جو انسان کو زندہ کرتی ہے…!؟ کیا گردش کرتا خون یا کیا…!؟ وہ پمپ کے ذریعے گردش میں لاؤ… انسان نہیں زندہ ہوگا… پھر…!؟ اور پھر اسکے مرنے سے جو کروڑ ہا خلیے اور جرثومے وجود میں آئے تو انھوں نے ارتقائی منازل طے کر کے کروڑ نہیں، لاکھوں نہیں، ہزاروں نہیں، سیکڑوں چھوڑ محض ایک نیا انسان کیوں نہ بنایا…!؟ یا انسان بھی برطرف؛ محض چوہا، مینڈک یا چھپکلی کیوں نہ بنائی..!؟ اور جو مرنے سے پہلے تک اچھا بھلا ایک چلتا پھرتا بندہ تھا، ایک جسم، سوچ، تخیل، نظریات، مزاج رکھنے والا… وہ کہاں گیا…!؟ کیا بس فضا میں دھول بن کر تحلیل ہو گیا…!؟ وہ کیا شے ہے جو جسم کو زندہ کرتی ہے…!؟ مادّے (Matter) اور انَرجی (Energy) کا قانونِ دوام (Law of Conservation) کیا ہوا…!؟ یا یہ مانا جائے کہ دنیا میں محض گنے چنے اجسام ہی ہیں کہ اِدھر مرا اور اُدھر دوسری صورت میں زندہ ہو گیا…!؟ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے… اور اگر اس تمام مربوط زندگی کو دہرایا جانے والا مان بھی لیا جائے تو یہ جو نئے نئے انسان اور ہر انسان کا الگ مزاج آ رہا ہے اس کو کیا مانا جائے گا…!؟ اور انسان اپنے جسم سے جدا ہو کر کچھ روح ہوتا بھی ہے یا محض جسم ہی ہوتا ہے جو ایک جسم سے دوسرے قالب میں ڈھل جاتا ہے… اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اسے یاد کیوں نہیں رہتا کہ وہ پہلے فلاں بندہ فلاں ملک میں تھا اور اس دفعہ اس نے یہ قالب اپنایا…!؟ اور اگر اسی کو مان لیا جائے تو یہ تو سیدھا سادہ ہندوؤں کا نظریۂ آواگون ہے… مرنے کے بعد کتے بلی بنو اور بھول جاؤ… اور اسی طرح قالب بدلتے جاؤ نروانہ حاصل کرنے کیلئے… تم پوچھتے ہو کہ آخرت کیوں ضروری ہے…!؟ جاؤ کسی تاریک کوٹھری میں سلاخوں کے پیچھے سسکنے والے کسی بےگناہ انسان سے پوچھو… وہ تمھیں اچھی طرح بتائے گا کہ آخرت کیوں ضروری ہے…!
کہتے ہیں کہ ‘غیب’ کوئی چیز نہیں ہے اور اسکو ‘ثابت’ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے… انھوں نے شاید گوڈل کے ریاضیاتی منطق کے نظریاتِ تشنگی (Godel’s Theorems of Incompleteness) نہیں پڑھے…بقول بسمِل اسکا پہلا نظریہ یوں بیان کِیا جا سکتا ہے کہ
“کوئی بھی ایسا مربوط منطقی نظام (consistent logical system) جس میں بنیادی حساب کو مشاہدہ میں لایا جاسکے، ان میں کچھ قضیے یا جملے ضرور ایسے ہونگے جو نہ ثابت کیے جاسکیں گے نہ رد کیے جاسکیں گے…!”
دوسرا نظریہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
“کسی بھی مربوط منطقی نظام کو اسی نظام میں رہتے ہوئے مربوط ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ”
اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کسی منطقی نظام کے مربوط ہونے کا مشاہدہ ہوگا تو وہ لامتناہی یا ناتمام ہوگا… اسی وجہ سے انہیں ناتمامی کے تھیورم بھی کہتے ہیں… یعنی یہ کہ کوئی بھی مربوط منطقی نظام ہمیشہ نا تمام رہے گا… کیونکہ کوئی بھی منطقی نظام اگر مکمل ہے، اور اس کے سارے قضیے اسی نظام کے تحت حل ہوسکتے ہیں تو وہ مکمل کہلا سکتا ہے… لیکن تکمیل کی صورت میں غیر مربوط (Inconsistent) ہوجائے گا… اس میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہت سی باتیں سچ ہوتے ہوئے بھی ناقابلِ اثبات (True but Unprovable) رہیں گی…!
گویا ایسا کوئی بھی منطقی نظام جو اپنے آپ میں ایسا کوئی محال جملہ نہ رکھتا ہو، وہ مربوط (consistent) نہیں ہو سکتا… اور جو بھی نظام مربوط ہوگا وہ جملۂ محال سے پاک نہیں ہو سکے گا… کوئی ایک جملہ ضرور رہے گا جس کا اثبات (Proof) ممکن نہیں ہوگا… مگر وہ پوری آب و تاب سے موجود ہوگا…!
اسی طرح ‘غائب’ جاننے کیلئے اس نظام سے نکلنا ضروری ہے… اور اسکا فقط ایک ہی طریقہ ہے… اور وہ ہے ‘موت’…! موت سے ہمکنار ہونے کے بعد ‘غیب’ کا عالم نظر آ جائے گا… جنھیں یقین نہیں ہے وہ موت کے بعد کا جاننے کیلئے کبھی مرنے کا ‘تجربہ’ کیوں نہیں کرتے…!؟ وہ تو ‘تجربات’ پر یقین رکھتے ہیں نا…!؟ (قطع نظر لُوئس پاسچر کے ‘ثابت شدہ’ تجربے کو ٹھکرانے کے)… اپنی دھڑکن معدوم کروا کے مر جائیں اور تصدیق کر لیں جا کر… اور جسم میں جان ڈلوالیں جو بقول انکے ‘خود بہ خود’ آ گئی… کیا انھیں ‘تجرباتِ قریب المرگ’ (Neat Death Experiences-NDE) نہیں معلوم…!؟ ان لوگوں کے تجربات جو کچھ دیر کیلئے مرے اور پھر زندہ ہو گئے…! کیا انکی باتیں بھی ان کیلئے قابلِ التفات نہیں…!؟ کہ ‘کوئی’ موجود ہے… دنیاوی زندگی ایک ربط ہے… اور اس سے وسیع تر ربط اخروی زندگی ہے… اور موت ہی صرف وہاں تک کی سواری ہے… مگر واپسی کا راستہ نہیں ہے… کیونکہ دنیا جائے امتحان ہے… اور امتحان کے بعد فقط نتیجہ ہی آتا ہے…!
یہ پوری کائنات اور اس میں محصور چیزیں جس طرح چل رہی ہیں اور باقاعدہ سائنسی قوانین (Laws Of Science) پر چل رہی ہیں تو اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ ‘کسی اور’ کا ارادہ اسکے پیچھے کارفرما ہے… المانیہ (جرمنی) کا فلسفی المزاج آدمی شوپن ہار (Schopenhauer) بھی اسی نتیجہ پر پہنچا تھا کہ پس از افعالِ انسان ‘ارادہ’ ہی کارفرما ہوتا ہے اگرچہ وہ ارادہ خود انسان کے اختیار میں نہیں… اور اس سے بہتر نتیجے پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سیکڑوں سال قبل پہنچے تھے کہ
‘عرفتُ ربی بفسخ العزائم ‘…
میں نے اپنے ربّ کو اپنے عزائم کے ٹوٹنے سے پہچانا…!
کیونکہ انسان کا اپنا ارادہ کچھ نہیں ہے… وہ منصوبے بناتا ہے مگر ارادے ربّ کے ہی چلتے ہیں…!
مَنْ یَّھْدِہِ اللہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَاھَادِیَ لَہ…
وہ اللہ جسے ھدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت یاب کرنے والا نہیں…!
بدُونِ دین پوری تصویر ہو ہی نہیں سکتی… بلکہ اصل حقیقت صرف ‘وہ’ ہی ہے…! وہ سورۂ یٰس میں فرماتا ہے
وَ جَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدّاً وَّ مِنْ خَلْفِھِمْ سَدّاً فَأَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لَایُبْصِرُوْن (یٰس ٩)
اور بنادی ہم نے ان کے آگے دیوار اور ان کے پیچھے دیوار پھر ان کو ڈھانپ دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے…!
اس رب نے پوری کتاب میں اپنے آپکو پہچاننے کے تین طریقے بتائے ہیں… اس نے گزری ہوئی قوموں کا ماجرہ بیان کِیا… اس نے کہا کہ کیا تم زمین پر نہیں پھرتے کہ خود دیکھ لو کہ تم سے اگلوں کا کیا حال ہوا…!؟ کنفیُوشس کا کہنا تھا… ‘ماضی کا مطالعہ کرو… اگر تم مستقبل سے متعارف ہونا چاہتے ہو…!’ پھر اس رب نے ایک دوسرا طریقہ جو بیان کِیا وہ یہ تھا کہ ‘کیا یہ اپنے سامنے کی آیات (نشانیوں) پر غور نہیں کرتے…!؟’ رات دن کا ہزاروں لاکھوں قرنوں سے بغیر بدلے اسی انداز میں آنا جانا… پانی کا اوپر سے نیچے بہنا… برف کا نیچے سے اوپر آنا… پرندوں کا اڑنا، آبیوں کا تیرنا… درندوں کا پھاڑنا، چرندوں کا چرنا… نفس کا موت کا مزہ چکھنا… یہ جو ایک لَے میں پوری دنیا بہہ رہی ہے تو کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو گیا…!؟ کیا یہ سب سے بڑا ‘ارادہ’ نہیں ہے…!؟ کُن فَیکون… پھر اس کے بعد جو سب سے آخری بات بیان کی وہ تھا قرآن… کیا نازل کِیے ہوئے قرآن کو پڑھ کر، سن کر اس میں نشانیاں نظر نہیں آتیں…!؟ کیا انھیں اہرامِ مصر میں دھرا فرعون مجسّم نظر نہیں آتا…!؟ یا یہ ‘اگر مگر’ کرتے محض منطقی محالیہ (Paradox) میں ہی رہ رہے ہیں…!؟
یہی کہا سورہ یٰس میں کہ ان کے پیچھے دیوار کھڑی کردی کہ انھیں پیچھے والوں کے احوال سے بےخبر کردیا… عاد، ثمود، لوطی، نوحی، مُوسوی… اور انکے سامنے کی چیزوں کو دیوار کھڑا کر کے بےمعنی کر دیا… صُمّ بُکْم عُمْی فَھُمْ لَایَعْقِلُوْن… بہرے ہیں، اندھے ہیں، گونگے ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں…! اور نازل ہوئے قرآن کی بابت ان کے ذہنوں پر پردہ ڈال دیا کہ اس کو محض ‘اگلے لوگوں کی حکایتیں’ کہتے ہیں… یاَیُّھَا الْاِنْسانُ مَاغَرَّكَ بِرَبِّكَ الْکرِیم…!؟ اے انسان تجھے کس چیز نے تیرے کریم رب کے بارے دھوکے میں ڈال دیا…!؟ فَأَیْنَ تَذْھَبُوْن…!؟ پس تم کدھر جا رہے ہو…!؟ فَھَل مِنْ مُّدَّکِر…!؟ تو کوئی ہے جو سوچے سمجھے…!؟
~ سازِ ہستی کی صدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا، غور سے سن
~ دن کے ہنگاموں کو بےکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا، غور سے سن
“تو اسی (دین کی) طرف (لوگوں کو) بلاتے رہنا اور جیسا تم کو حکم ہوا ہے (اسی پر) قائم رہنا۔ اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔ اور کہہ دو کہ جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تم میں انصاف کروں۔ خدا ہی ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے۔ ہم کو ہمارے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال کا۔ ہم میں اور تم میں کچھ حجت نہیں۔ خدا ہم (سب) کو اکھٹا کرے گا۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے- اور جو لوگ اللہ (کے بارے) میں بعد اس کے کہ اسے (مومنوں نے) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں ان کے ربّ کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے۔ اور ان پر (خدا کا) غضب اور ان کے لئے سخت عذاب ہے-
خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور (عدل وانصاف کی) ترازو۔ اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی آ پہنچی ہو- جو لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس کے لئے جلدی کر رہے ہیں۔ اور جو مومن ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ وہ برحق ہے۔ دیکھو جو لوگ قیامت میں جھگڑتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں- خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ جس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ اور وہ زور والا (اور) زبردست ہے-“ ﴿شوریٰ ١٥ تا ١٩﴾
میں نے شروع میں کہا تھا کہ کبھی کبھی یہ ایک لامتناہی گمان سا محسوس ہوتا ہے… غلط کہا تھا… گمانوں سے احتراز کرنا چاہئے… کیونکہ بعض گمان… گناہ ہوتے ہیں…!
اَللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَتِ اِنِّيْ اَعْھَدْ اِلَیْكَ فِيْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا اَنِّيْ اَشْھَدُ اَن لَّااِلٰہَ اِلّا اَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ و َ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُكَ وَ رُسُوْلُكَ فَإِنَّكَ اِنْ تَکِلْنِيْ اِلٰی نَفْسِيْ تُقَرِّبَنِيْ مِنَ الشَّرِّ وَ تَبَاعِدْنِي مِنَ الْخَیْرِ وَ اِنِّي لَااَثِقَّ اِلَّا بِرَحْمَتِكَ فَاجْعَلِّيْ عِنْدَكَ عَھْداً تَوَفِّیْنِیْهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اِنَّكَ لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَاد
یااللہ! آسمانوں اور زمین کو بےنمونہ پیدا کرنے والا، غائب اور حاضر کے جاننے والے میں اس دنیا میں عہد کرتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے؛ تیرا کوئی شریک نہیں… اور میری یہ بھی شہادت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں… اگر تُو مجھے میری ہی طرف سونپ دے گا تو میں برائی سے قریب اور بھلائی سے دور ہو جاؤنگا… الٰہی! مجھے صرف تیری ہی رحمت کا سہارا اور بھروسہ ہے… پس تُو بھی مجھ سے وعدہ کر جسے تُو قیامت کے دن پورا کرے… بےشک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا…!
تحریر ذہین احمق آبادی… مدعو بہ نام… حافظ رؤف الرحمٰن…!

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password