کیاہم سائنس کے مخالف ہیں؟

” آپ عام طور پر سائنس کو اپنی معلومات کا ماخذ بناتے ہیں اور اسی سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن پھر کہیں آپ کی کوئی تحریر یا گفتگو ملتی ہے جس میں کھلم کھلا سائنس کی مخالفت میں مواد اور بحث ملتی ہے۔ کیا یہ آپ کا فکری تضاد نہیں؟ کیا آپ اس حوالے سے متردد اور کنفیوزڈ ہیں؟ ایسے میں آپ کوکیا کہا جائے؟ سائنس کا مخالف یا حامی؟“
یہ سوال ہے جو کہ مجھے اب سے کچھ عرصے پہلے موصول ہوا تھا۔ امتحانات اور دوسری مصروفیات کی وجہ سے جواب نہیں لکھ پایا اور ان سے معذرت کرلی کہ تفصیلی جواب کے لیے تھوڑا انتظار کرلیں تاکہ میں اپنی فکری بنیاد کی درست صورتحال واضح کر سکوں۔یہ واضح رہے کہ میں مختلف اوقات میں سائنس کے حوالے سے مختلف تحریریں لکھتا رہا ہوں۔ اور مجموعی طور پر اپنے مذہبی حلقۂ احباب میں سائنس کی طرف لڑھکا ہوا کچھ ”ملحد ملحد سا“ مزاج رکھنے والا انسان سمجھا جاتا ہوں۔دوسری طرف وہ دوست جو کہ مذہب کی قید سے باہر جا چکےہیں۔ ان کے نزدیک میں سائنس کا مخالف ہوں۔
مجھ سے پوچھا جائے کہ میں کیا ہوں؟ آیا میں سائنس کا مخالف ہوں یا حامی؟ جواب سادہ سا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ مذہب والے ہیں۔ کچھ سائنس والے ہیں۔ لیکن مجھ جیسے لوگ دونوں کا امتزاج ہوتے ہیں۔ ہمارے فرقے میں مذہب کو بھی اس کے مکمل اور معقول رویوں کے ساتھ تسلیم کیا جاتا ہے اور سائنس کو بھی۔
مذہبیات کے حوالے سے جو جو زیادتیاں اور غیر معقول رویے سائنس کی مخالفت میں ہمارے سامنے آتے ہیں ان سے برات کو میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ جہاں جہاں مذہبیات کی مد میں لوگوں کو اپنے ”خود ساختہ عقائد“ کے کو ثابت کرنے لیے سائنس کی مخالفت میں مبتلا پاتا ہوں وہاں وہاں کافر اور ملحد قرار دیا جاتا ہوں۔ کیونکہ میں ان بے جان نظریات کے لیے سائنس کی مخالفت نہیں کرتا جن پر اصرار کرنے کی مجھے میرے مذہب کے بنیادی ماخذات کی طرف سے تلقین نہیں کی گئی۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے کا مقصد صرف اور صرف ان رویوں کی نفی کرنا ہے جو کہ نامعقول ہیں اور غیر مناسب ہیں۔
اسی طرح جہاں جہاں پر سائنس کی مخالفت میں جو کچھ لکھا ہے وہ در حقیقت سائنس کی نہیں بلکہ ان رویوں کی مخالفت ہے جو غیر معقول ہونے کے ساتھ ساتھ غیر سائنسی بھی ہیں۔ اور اس غیر معقولیت کی وضاحت کرنے کے لیے سائنس کی کمیاں اور خامیاں بتانا در حقیقت سائنس کی مخالفت نہیں بلکہ مقصود سائنس کو عقیدہ بنا کر دوسروں کے عقائد کی تضحیک کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
میں بارہا کہتا رہا ہوں کہ:
”شدت پسند ملحدوں اور مذہب بیزاروں نے سائنس کو جتنا برباد کیا ہے اتنا تو تاریخ میں کوئی بھی نہیں کر سکا۔ میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے لوگوں کے تعقلات پر نفسیاتی خنجر آزمائیاں کرکے جس قدر لوگوں کو سائنس سے بد ظن کیا ہے اتنا کوئی بڑے سے بڑا مولوی یا پادری بھی نہیں کر سکا۔“
میں کئی سال سے سائنس کا ایک مخلص طالبِ علم ہوں، اور علم کی پیاس کو بجھانے کی خاطر سائنسی علوم کو پوری دیانت کے ساتھ سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ سائنس کی مخالفت میرے لیے ممکن نہیں۔ البتہ میں ان رویوں کا مخالف ضرور ہوں جو کہ سائنس کی آڑ میں لوگوں کے مذہبی جذبات اور عقائد کو نامعقول انداز میں مجروح کرنے کے لیے عمل میں ہیں۔
چنانچہ میں ہر اس شخص کا مخالف ہوں جو کہ مذہبی عقائد کی تضحیک کرکے سائنس کی ایسی تصویر پیش کرتا ہو کہ گویا سائنس اپنی ترقی کا آخری قدم کوہِ علم کی چوٹی پر رکھ چکی ہو، اور اب اس میں مزید کسی بھی تبدیلی کی یا کسی کمی اور خامی کی گنجائش باقی نہ رہی ہو۔
ماضی میں طبیعیات، طب، فلکیات اور جتنے علوم پر بھی کام ہوا ہے اور جو جو نظریات وجود میں آئے ہیں وہ سب کے سب اپنے ادوار کے بہترین اور معقول ترین نظریات تھے۔ ہر دور میں علوم کی ترقی اپنے سے پچھلے ادوار کی آنکھوں کو چندھیا دینے والی تھی۔
اور اسی طرح آج بھی ہو رہا ہے۔ ہم کسی انوکھے دور ترقی کی کسی غیر معمولی انتہا تک نہیں پہنچ گئے ہیں، نہ ہی ہم نے سرحدِ کائنات کے غلاف اٹھا کر اس پار کی دنیائیں فتح کرلی ہیں۔ ترقی کا یہ سلسلہ ٹھیک اسی طرح جاری رہے گا جس طرح ماضی میں جاری رہا ہے۔ جس طرح پچھلے ادوار کے نظریات کی تضحیک آج کی جارہی ہے اسی طرح اِس دور کا تمسخر آنے والی نسلیں بنائیں گی۔ اور اگر آپ کے دماغ میں ایسا کچھ سما گیا ہے کہ ہماری سائنس ترقی کی حدوں کو چھو چکی ہے، اور اس میں اب مزید کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔
میری خوش گمانی مجھے بس اتنا ہی کہنے کی اجازت دیتی ہے کہ ہم ابھی ترقی کی پہلی سیڑھی پر ہیں۔ اور آخری سیڑھی لامتناہی اونچائی پر ہے۔
ہم نے ابھی تک کائنات میں رونما ہونے والے لامتناہی مظاہر میں سے چند ایک کا استعمال ہی سیکھا ہے، انکی ہیئت اب بھی ایک معمہ ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ کشش ثقل کیا کرتی ہے۔ کیونکہ اس کی وضاحت نیوٹن دیتا ہے۔ لیکن وہ ناکافی ہے۔ پھر اسی مظہر کی ایک اور وضاحت ہمیں آئنسٹائن سے ملتی ہے۔ ایک ہی مظہر، دو وضاحتیں۔ اور کسی تیسری وضاحت کی تلاش اب بھی جاری ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ مقناطیسیت (Magnetism) کیا ہے۔ لیکن اس کی کنہہ میں وہ کونسی قوت موجود ہے جو کشش یا ہٹاؤ پر مسلسل مزاحمت کے باوجود برقرار رہتی ہے۔ کوئی منطقی اور تسلی بخش وضاحت ابھی تک ناپید ہے۔
صدیوں تک روشنی کے موج یا ذرات ہونے پر بحثیں جاری رہی ہیں۔ اور آخر کار کسی طرح یہ طے پا گیا کہ روشنی موج اور ذرات دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے، جس کا انحصار تجربے کی صورتحال پر ہے۔ اور اس کے بعد قوانٹم کے کی پیچ در پیچ پہیلیاں۔ اور اس کے باوجود ہم ابھی تک یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ ہم نے روشنی کی درست ماہیت کو سمجھ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک صرف چند طبیعی مظاہر سے کھیلنا سیکھے ہیں۔ تاہم انہیں درستی سے سمجھنے کا دعوی کرنا ایک بے بنیاد عمل ہوگا۔
اس سارے عجز کے ساتھ جب کچھ لوگ سائنس کو مذہبی عقائد اور عام لوگوں کے جذبات سے کھیلنے اور ان کی مذہبی وابستگیوں کی تضحیک کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ایسے میں مجھے بتانا پڑتا ہے کہ سائنس کی اہمیت اپنی جگہ ہے، لیکن سائنس وہ نہیں جو تم پیش کرتے ہو۔ سائنس وہ کچھ نہیں کہتی جو تم اس سے کہلوانا چاہتے ہو۔ سائنس تو نہ مذہبی لوگوں کی ہے نہ مذہب بے زار لوگوں کی۔ اس کا کام نہ مذہب کی تائید کرنا ہے نہ مذہب کی تردید۔ پھر جب آپ پوچھتے ہیں کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور آپ ابھی تک چندی چوری میں لگے ہوئے ہیں، تو میرا بولنا تو بنتا ہے نا؟ اب اگر آپ اسے سائنس کی مخالفت کہتے ہیں تو کہتے رہیں۔
ڈاکٹر مز مل شیخ بسمل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password