منکرین کا وجود بھی ضروری ہے !

انکار بھی ضروری ہے!
(روایت سے انکار کا ایک مثبت پہلو)
خدا کے وجود پر فلسفیانہ نکتۂ نگاہ سے بات کرنا مفید ہے کہ اِس طرح انسان کے تصورِ خدا کی تخلیص (Purification) ہوتی رہتی ہے۔ عقل کے ذریعے تصورِ خدا کی تخلیص کرتے رہنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ایسا وقت کوئی نہیں ہوتا جب ہم کسی بھی خدا کو نہ پُوج رہے ہوں۔ کرسی، عہدہ، دولت، بیٹے، گاڑیاں، بنگلے یہ سب بھی خدا ہی کی شکلیں ہیں جن کی اگر ہم ایتھسٹ ہیں تو ضرور پوجا کرتے ہیں۔ دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز ایتھسٹ کا وجود زمین پر ممکن نہیں۔ ایسا کوئی بھی شخص جو خدا کے وجود سے انکار کرتاہے اور دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز بھی رہتا ہے، صوفیا کے نزدیک ملحد نہیں ہوتا بلکہ تصوف میں اسے مقام ِ فنا پر فائز سمجھا جاتاہے۔
خیر! تو میں عرض کررہا تھا کہ فلسفیانہ طرز ِ فکر کے مسلسل استعمال سے تصور ِ خدا کی تخلیص ہوتے رہنا ضروری ہے ورنہ معاشرے میں بُری رسمیں رواج پاجاتی ہیں۔اور دلچسپ امر یہ ہے کہ تصورِ خدا کی تخلیص کا کام یاتو صوفیأ اور فلسفی انجام دیتےہیں اور یا یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ملحدین سرانجام دیتے ہیں۔وہ خدا کے مختلف منفی ’’کرداروں‘‘ اور ’’عادات‘‘ پر انگلی اُٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کے سامنے مذہبی شرمندہ ہوتے ہیں اور اپنے تصورِ خدا کی فوری تخلیص کا سامان کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو’’خدا کاانکار‘‘ بھی نہایت ضروری ہے اور ہرعہد میں الحاد اور دہریت کا وجود بھی ’’وجود ِ خدا میں رُوح‘‘ جیسی اہمیت رکھتاہے۔ اگر ایسا نہ ہو ، خداؤں کا انکار کوئی نہ کرے تو دنیا ، لات و منات و عزیٰ و ہبل سے بھر جائے۔ ہرعہد میں ہمیشہ ایک وقت آتاہے جب ’’انکار کے فرمان‘‘ کا اُترنا لازم ہوجاتاہے۔جیسا کہ فیض نے کہا تھا
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ من و تُو، نیا پیماں کوئی اُترے
اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے
صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنا ضروری ہوتاہے ورنہ معاشرے جمود کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔
یہ وہ الحاد ہوتاہے جو تصورِ خدا کی تخلیص کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو خدا ، عادات میں انسان سے بھی چھوٹا اور حقیر ہوجاتاہے۔ اور کم تر ہوتے ہوتے جانوروں اور پھر بے جان پتھروں کی سطح پر گرجاتاہے۔ایک زندہ و جاوید ، حیّ و قیوم اور جیتا جاگتا خدا آہستہ آہستہ مرنے لگتاہے اور پھر مرکر فقط اپنی ہی قبر کی لوحِ مزار بن کر رہ جاتاہے جس پر سب آ کر پھول چڑھاتے اور اس کا عُرس مناتے ہیں۔چنانچہ خدا کی زندگی کے لیے باخدا لوگوں سے زیادہ ہمیشہ ملحدین کی ضرورت رہتی ہے جو تصورِ خدا پر کاری ضربیں لگاتے اور ’’لالا‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے اپنے وقت میں موجود خدا کے تمام تصورات کو جھٹلاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ چونکہ عقل سے جھٹلاتے ہیں اس لیے تصور ِ خدا کی تخلیص ہوتی چلی جاتی ہے۔
اگر کسی معاشرے میں ملحدین کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے تو اس معاشرے میں بُری رسموں کا رواج زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا جاتاہے۔میں اکثر کہا کرتاہوں کہ،’’اجتہاد کے دروازے جتنے زور سے بند کیے جائیں افترا ٔ کے دروازے اُتنے زور سے کھل جاتے ہیں‘‘۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگ انجام دیتے ہیں۔ افترأ ہرکوئی بلکہ پورا معاشرہ مل کر انجام دیتاہے۔اجتہاد کو نوجوان نسل سے زیادہ اور پرانی نسل سے کم تائید اور قبولیت ملتی ہے۔ افترأ کو پرانی اور نئی ہردوطرح کی نسلوں کی تائید اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہاد کی نسبت افترأ کسی آکاس بیل کی طرح پھیلتا اور معاشرے کے، بوجہ اعلیٰ اقداروروایات، پھل دار درخت کا خون چُوستا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ درخت سُوکھ جاتاہے۔ افترأ کی شدت سے جب کسی معاشرے میں بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں تو اس معاشرے کی زندگی کے لیے لازمی ہوجاتاہے کہ کوئی ریفارمر آئے۔ ریفارمیشن کا عمل ہی کسی معاشرے کو دوبارہ زندہ کرسکتاہے۔ ورنہ تو تہذیبوں کی تہذیبیں زمین بُرد ہوجاتی ہیں اور زمین ڈکار بھی نہیں مارتی۔
کوئی ریفارمر کب اور کیسے آتاہے؟
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جب کسی معاشرے میں اجتہاد کا عمل رُک جائے تو افترأ کا عمل تیز ترہوجاتاہے۔افترأ کے بڑھ جانے سے بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں۔ بُری رسموں کے بڑھ جانے سےپست طبقات زیادہ مظلوم اور غالب طبقات زیادہ ظالم ہوجاتے ہیں۔اگر اِسی حال میں تین نسلیں اوپر تلے گزر جائیں تو ایک وقت ایسا آتاہے جب تیسری نسل پہلی کی جگہ لے لیتی ہے۔ گویا اب وہ بُری عادات جو افترأ کی وجہ سے رائج ہوئی تھیں بزرگوں کی اقدار کے طور پر نافذ ہوکرمذہبی تقدس حاصل کرلیتی ہیں۔ جیسا رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کا حال تھا۔ ابنِ خلدون کے نزدیک کسی بھی معاشرے میں تیسری نسل کے بچے (بڑے ہوکر) ہمیشہ پہلی نسل کے بزرگوں کی اقدار کے پاسدار بنتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نئی نسل ہمیشہ پرانی نسل کے مقابلے میں تھوڑی سی باغی ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ نئی نسل کی بغاوت میں پائی جانے والی قوت اور بزرگوں کی نافذ کردہ اقدار میں پائی جانے والی قوت کا تناسب اُس تصادم کے نتائج مرتب کرتاہے جو دونوں نسلوں کے درمیان پایا جاتاہے ۔
نئی نسل کے پاس صرف ’’جذبہ‘‘ جبکہ پرانی نسل کے پاس، عقل، علم اور تجربہ کی طاقت ہوتی ہے اس لیے یہ تصادم زیادہ تر بزرگوں کی فتح کی صورت میں انجام پاتاہے۔ پرانی نسل کے پاس جذبے کی شدید کمی ہوتی ہے اس لیے وہ ویمپائرز کی طرح تازہ خُون کی تلاش میں رہتے اور اِس طرح اپنے خوفناک قدامت پسندانہ نظام اور اقدار کو زندہ رکھتے ہیں۔ جب بُری رسمیں تیسری نسل کے بزرگوں کو منتقل ہوجائیں تو ان میں شدت اور سختی بڑھ جاتی ہے، افترأ کی رفتار مزید تیز ہوجاتی ہےا ور معاشرہ اپنی زندگی کے آخری دن گننے لگتاہے۔
ایسے میں اگر کوئی ریفارمر پیدا ہوجائے تو مرتاہوا معاشرہ پھر سے انگڑائی لیتاہے۔ کبھی دوبارہ زندہ ہوجاتاہے تو کبھی نہیں ہوپاتا۔ اس کا تعلق ریفارمر کی اپنی شخصیت اور کردار کی قوت،اور اس کے ساتھ شامل ہوجانے والی نئی نسل کے تازہ لہُو کی مقدار کے ساتھ ہے۔ کوئی ریفارمر جتنی پُراثر شخصیت اور اعلیٰ کردار کا مالک ہوتاہے ، نئی نسل اتنی زیادہ شدت کے ساتھ اس کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ نئی نسل کےدلوں میں اپنے لیے محبت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو نئی نسل اس کے لیے جانوں کے نذرانے بصد شوق پیش کرنے کو تیار ہوجاتی ہے۔ کیونکہ نئی نسل ہمیشہ، ہرحال میں اپنے بزرگوں کی متشدد اقدار سے دل ہی دل میں نفرت کرتی اور ان سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے۔
ریفامر کون ہوتاہے؟
ریفارمر وہ شخص ہوسکتاہے جس پر ’’انکار کا فرمان‘‘ نازل ہوتاہے۔اپنے وقت کے لات و منات و عزی و ہبل سے انکارکا فرمان۔ اپنے وقت کے بزرگوں کی اقدار سے انکار کا فرمان۔ مدتوں سے رُکے اجتہاد کی وجہ سے بڑھ جانے والے افترأ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والی بُری رسموں سے انکار کا فرمان۔ ویسے تو ہرنئی نسل میں ’’انکار کی وحی‘‘ موجود ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی ریفارمر ، جلد اس لیے پیدا نہیں ہوپاتا کہ تنہا جذبات ریفارمیشن کا عمل انجام نہیں دے سکتے۔ جذبات کو کسی عقل کے اتباع کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہرکس و ناکس ، عاقل کی عقل نوجوانوں کو تحریکوں کے لیے آمادہ نہیں کرسکتی۔ کسی بھی ریفارمر کے لیے پرکشش شخصیت، اعلیٰ کردار اور دلنواز سخن کا مالک ہونا ضروری ہے۔
کسی معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کی ’’قوتِ انکار‘‘، پرانی نسل کی ’’قوتِ اصرار‘‘ کے برابر ہو۔ تناسب یہ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ زیادہ قدیم اقدار کا مارا ہوا ہوگا تو نئی نسل کو زیادہ قوتِ انکار کی ضرورت ہوگی ۔اگرکوئی معاشرہ زیادہ قدیم اور دقیانوسی نہ ہوگا تو نئی نسلوں کو کم ’’قوتِ انکار‘‘ کی ضرورت ہوگی۔ غرض یہ الحاد اور انکار کی روش ہی ہے جو کسی بھی معاشرے میں اجتہاد کے دروازے کھلے رکھ سکتی ہے۔
جب ہم کسی معاشرے میں بری رسموں کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم اس معاشرے کی ثقافت یعنی کلچر کی بات کرتے ہیں۔ اب چونکہ کسی بھی کلچر کا سب سے بڑا حصہ اُس کا مذہب ہوتاہے سو بُری رسمیں سب سے زیادہ مذہب کے راستے سے داخل ہوتی ہیں۔ گزشتہ بارہ ربیع الاول پرپاکستان کے کئی شہروں میں لوگوں نے رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کے کیک کاٹے۔ ان میں سے بعض کیک کئی کئی من وزنی اور کئی فُٹ لمبے چوڑے تیار کیے گئے تھے۔ تب مجھے نہ جانے کیوں وہ یونانی بُت یاد آگیا جو سَتُو کا بنا ہوا تھا۔ اور جب اُس قوم پر قحط آیا تو وہ اپنے خدا کو ہی کھاگئے۔ ٹی وی چینلز پر باہر سے درآمد شدہ رسموں کا سُونامی ہمہ وقت ہمارے معاشرے کے ’’ بَند‘‘ ڈھاتا رہتاہے۔
زندہ انسانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ارتقأ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اجتہاد رُکا رہیگا تو افترأ تو ہوگا۔ تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔اجتہاد نہ سہی تو افترأ سہی۔ کیونکہ معاشرہ سانس لیتے ہوئے ، جیتے جاگتے ، زندہ جسموں کا مجموعہ ہوتاہے۔اب چونکہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگوں کا کام ہے اس لیے ضروری ہوجاتاہے کہ معاشرے میں سمجھدار لوگ موجود ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ تمام تر سمجھدار لوگ تیسری نسل سے پہلی نسل میں منتقل ہوچکے ہیں اور ان کے سامنے اقدار کے تحفظ کے سوا کوئی مقصد موجود نہیں اس لیے وہ نئی نسل کی طرف سے سامنے آنے والی تبدیلیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔
وہ تبدیلیاں چونکہ کسی دانا اور سمجھدار کی طرف سے نہیں ہیں اس لیے ان پر عقلی اعتراضات بھی جلد وارد ہوسکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کی ہر کھیپ جلد دوسری اور پھر پہلی نسل میں تبدیل ہوکر خود اسی کام پر مامور ہوجاتی ہے جس کے، خلاف ہوا کرتی تھی۔اور اِس لیے نئی نسل کی طرف سے وارد ہونے والی تبدیلیوں کو کم قبولیت مل پاتی ہے بنسبت مذہب کے راستے سے داخل ہونے والی بُری رسموں کے۔ کیونکہ مذہب کے راستے سے داخل ہونے والی اکثر بری رسموں میں بزرگوں کا کردار ہوتاہے ، اس لیے ان کے خلاف صدائے احتجاج کم کم سنائی دیتی ہے۔
چنانچہ مذہب کے راستے سےکسی معاشرے میں داخل ہونے والی بُری رسموں کا مقابلہ صرف کوئی ایسا شخص ہی کرسکتاہے جو خود نئی نسل کا نمائندہ ہو۔ اس کے پاس اجتہاد کی طاقت ہو۔ وہ بری اور اچھی رسموں کا فرق پہنچانتاہو اور وہ پرانی نسل کی رسوم بالخصوص مذہبی رسوم (اور خداؤں) کا انکار کرسکے۔ایسا کوئی شخص اگر کامیاب ہوجائے تو ایک بار پوری سوسائٹی بدل جاتی ہے۔بہت سارے بُت ٹوٹ جاتے ہیں۔ فضول چیزوں میں سے سے تقدس کا عنصر ختم ہوجاتاہے۔
غالباً جوش ملیح آبادی نے کہا تھا،
اوہام کا رباب، قدامت کا ارغنوں
فرسودگی کا سحر، روایات کا فسُوں
اقوال کا مراق، حکایات کا جنُوں
رسم و رواج و صحبت و میراث و نسل و خُوں
افسوس یہ وہ حلقۂ دام ِ خیال ہے
جس سے بڑے بڑوں کا نکلنا محال ہے
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ قوموں میں ریفارمرز دو طرح کے وارد ہوتے رہے ہیں،
۱۔ وہ لوگ جوکسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے اُٹھے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک بڑی عقل (وحی) ہے جو اُن کی رہنمائی کررہی ہے۔
۲۔وہ لوگ ، جو کسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے خود اُٹھے اور انہوں نے کسی بھی قسم کی’خدائی نصیحت‘‘ یعنی ’’وحی‘‘ کا دعویٰ نہ کیا۔
پہلی قسم کے لوگ ماضی میں زیادہ پائے جاتے تھےجبکہ دوسری قسم کے لوگ ابھی بھی کبھی کبھار نظر آجاتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا ریفارمر نظر نہیں آتا جس نے ’’ڈیوائن گائیڈینس ‘‘ کا دعویٰ بھی کیاہو اور کسی معاشرے کو فی الواقعہ ریفارم بھی کیا ہو۔
ایران کی بعض تحریکیں مثلاً اسماعیلیہ یا بہائی تحریک یا ہندوستان میں گُرونانک وغیرہ کی تحریک کو ہم ریفارمیشنز کی تحریکیں تو کہہ سکتے ہیں۔لیکن ان تحریکوں کے بانیوں نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ پہلے سے موجود ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ میں تبدیلی کو ترجیح دی۔ یعنی وہ کام کیا جو کسی مجتہد یا مجدد کو کرنا ہوتاہے ، یہ الگ بات ہے کہ کوئی مجتہد یا مجدد ریفارمیشن کا کام ہی اس طرح انجام دے کہ بجائے معاشرے کو زندہ کرنے کے اسے ایک نئے معاشرے میں بدل دے، جیسا گرُونانک نے کیا۔
البتہ مرزا غلام احمد صاحب نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ تو کیا لیکن اُن کے دعوے کے عملی اطلاق پر گواہ موجود نہیں تھے یعنی وہ جس کمیونٹی کی ریفارمیشن کے لیے ڈیوائن گائیڈینس کا دعویٰ کررہےتھے وہ کمیونٹی ہی دستیاب نہ تھی۔ اس لیے ان کا دعویٰ ’’وحی‘‘ کے تجربہ سے اُس طرح نہ گزرسکا جس طرح ایک سائنسی مواد کےلیے گزرنا لازمی امر ہے۔ ہم اِس اُصول کا اُوپر تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں، جسے میں ’’توھّم میں تکرار‘‘ کا اصول کہتاہوں۔غرض مرزا صاحب کچھ ریفارم نہ کرپائے۔چونکہ کسی بھی ریفارمر کا اصل مقصد معاشرے سے بری رسوم کا خاتمہ ہوتاہے چاہے وہ ریفارمر کارل مارکس ہو یا کوئی نبی، فلہذا اِس اصول کے تحت مرزا صاحب ایک ریفارمر کے کرائیٹیریا پر پورے اُترنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ اپنے معاشرے کی بُری رسموں کو ختم نہیں کرسکے اس کے برعکس ایک اور فرقے کا اضافہ ہوجانے سے اُمت ِ مسلمہ مزید تقسیم ہوگئی اور یوں گویا الٹا تفرقہ بازی کی رسم کو بڑھاوا ملا۔
یہ تو تھا پہلی قسم کے ریفارمزز کا ذکر یعنی اُن لوگوں کا ذکر جو یہ دعویٰ کرتےہیں کہ ان کے پاس ڈیوائن گائیڈینش ہے اور دوسری یہ شرط کہ وہ کسی معاشرے میں موجود بُری رسموں کو ختم کرکے نئی اور شفاف روایات کا آغاز کرتے ہیں۔
دوسری قسم کے ریفارمرز جو ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ نہیں کرتے ان میں کئی نام ہیں لیکن سب سے بڑانام بلاشبہ ’’کارل مارکس‘‘ کا ہے۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر ریفارمیشن کا عمل مارکس کی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہوا جبکہ مارکس کسی قسم کی ’’وحی‘‘ کا دعوے دار نہیں تھا۔مارکس کی اِسی خصوصیت کی وجہ سے اقبال نے یہ شعر کہا تھا،
وہ کلیم ِ بے تجلّی، وہ مسیح ِ بے صلیب
نیست پیغبر ولیکن دربغل دارد کتاب
یعنی اقبال کے بقول مارکس کی دعوت میں بھی پیغمبرانہ رمق پائی جاتی ہے۔ وہ پیغمبر نہیں ہے لیکن اس کے پاس کتاب ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ’’مارکس‘‘ ملحد تھا۔ مارکس خدا کو نہیں مانتا تھا۔ وہ مذہب کو ’’عوام کے لیے افیون‘‘ کہتاتھا۔
خیر! بات لمبی ہوگئی۔ اس ساری گفتگوسے میری مراد فقط اتنا ثابت کرناہے کہ انکار کی روایت یعنی ملحدانہ نظریات، تصورِ خدا کی تخلیص کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی نہ کسی ریفارمر کی بدولت معاشرے میں داخل ہوتے ہیں اور ضرور معاشرے میں پہلے سے موجود خداؤں کے انکار پر منتج ہوتے ہیں۔پھر چاہے وہ خدا لات و منات و عزی و ہبل ہوں یا بدترین مادیت پسندی۔ یہ ان خداؤں کے انکاری یعنی ملحدین ہی ہوتے ہیں جو بزرگوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کرتے اور بزرگوں کے خداؤں کا انکار کرتے ہیں۔متحرک اور زندہ معاشروں میں ، جُوں جُوں ملحدین تصور ِ خدا پر اعتراض کرتے جاتے ہیں، ’’خدا کو ماننے والے‘‘اصل تصور خدا میں وقت کیساتھ در آنے والے فساد اور گمراہیوں کو اپنے تصورِ خدا سے نکالتے چلے جاتے ہیں اور حقیقت نکھرتی چلی جاتی ہے۔
تحریر ادریس آزاد
بتغیر قلیل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password