خدائی شہادت-قرآن کی الوہیت [God’s- Testimony-The- Divine- Authorship- of- the- Qur’an]

۔

۔

اب تک ، ہمارا مسئلہ خدا کے وجود کے لئے ثبوت اور خدائی کے خلاف کلیدی دلائل کے جوابات رہے ہیں۔ پچھلے ابواب میں ہم نے خدا کائنات کا لازمی تخلیق کار، منصوبہ ساز اور اخلاقی قانون ساز ہے، پت بحث کی۔ تاہم ، اس سے ہمیں صرف خدائی حقیقت کے بارے میں تھوڑا سا ہی پتہ چلتا ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ: اگر واقعی اس ہستی نے ہمیں پیدا کیا ہے ، تو پھر ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ وہ کون ہے؟ اس کی کھوج میں ، ہم قرآن مجید پر غور کریں گے جو وحی الہی ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ اگرچہ پچھلے ابواب میں متعدد قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے ، تاہم ، مندرجہ ذیل باب میں خدا کے کلام کی عقلی بنیادوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا جائے گا۔

غور کیجیے، ہماری معلومات کا بیشتر حصہ لوگوں سے سنی ہوئی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں ایسی باتیں بھی شامل ہوتی ہیں جن پر ہم پورا یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً ہم میں سے بہت سے لوگ امیزون کے جنگلات میں بسنے والے قبائل، ضیائی تالیف[1]، بالائے بنفشی شعاؤں[2]، اور جراثیموں کے وجودکے قائل ہیں۔ بات واضح کرنے کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ اگر ایک بالکل اجنبی شخص کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوکہ آپ جس خاتون کو اپنی والدہ کہتے ہیں یہ واقعی آپ کی حقیقی والدہ ہیں تو آپ یہ بات کیسےثابت کریں گے؟ یہ سوال اگرچہ کچھ نامعقول لگتا ہےلیکن یہ درحقیقت معلومات حاصل کرنے کے ایک نہایت اہم ذریعہ کی نشاندہی کرتا ہے جسےعموماً خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اس سوال کا جواب آپ مختلف صورتوں میں دے سکتے ہیں مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’میری والدہ نے مجھےخود بتایا‘، یا ’میرے برتھ سرٹیفیکیٹ پر لکھا ہے‘ یا ’میرے والد صاحب پیدائش کے وقت وہاں موجود تھے اور انھوں نے مجھے بتایا‘ یا ’میں نے اپنی والدہ کا ہسپتال کا ریکارڈ چیک کیا ہے‘ وغیرہ۔ یہ تمام جوابات درست ہوسکتے ہیں لیکن غور کریں، ان سب کی بنیاد دراصل کسی دوسرے شخص کی کہی ہوئی بات ہی ہے۔ لہٰذا کسی شکی مزاج شخص کی ان سے تسلّی نہیں ہو گی۔ آپ اس کو ثابت کرنے کے لیے پھر شاید ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ پیش کرنا چاہیں، یا کوئی ویڈیو دکھانے کے امکان کے بارے پر غور کریں۔

سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اس خاتون کو اپنی والدہ کسی ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد تسلیم کیا تھا، نہ ہی کوئی ویڈیو دیکھ کر۔ اگر آپ اپنی ولادت کی ویڈیو دیکھ بھی لیں تو یہ ثابت کرنے کے لیے بھی ویڈیومیں جو بچہ ہے وہ آپ ہی ہیں، آپ کو دوسرے لوگوں کی ہی بات پر بھروسا کرنا پڑے گا۔ تو بھلا بتائیے آپ نے کیسے یہ جانا کہ جنھیں اپنی والدہ سمجھتے ہیں، وہی آپ کی حقیقی والدہ ہیں؟

یہ مثال کچھ حساس ضرور ہے لیکن یہ درحقیقت معلومات حاصل کرنے کے ایک نہایت اہم ذریعے کو واضح کرتی ہے اور وہ ذریعہ ہے ‘گواہی’ کا۔

ہمارے بہت سے خیالات کچھ اس طرح ترتیب پاتے ہیں کہ پہلے ہم کچھ معلومات، حقائق یا مفروضوں پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر ان کی سمجھ میں آنے والی توجیہہ سوچتے ہیں۔ والدہ والی مثال پر پھر سے بات کرتے ہیں۔ تصور کیجیے کہ حمل کے آخری ایام ہیں اور پیدائش کی متوقع تاریخ کو گزرے ہفتہ ہوچلا ہے۔ اچانک آپ کی والدہ کو دردِ زہ اٹھنا شروع ہوتا ہے۔ آپ کے والد اور طبّی عملہ فوراً اخذ کر لیتا ہے کہ اب آپ کی والدہ آپ کو جنم دینے کو ہیں۔

ایک اور مثال لیجیے۔ چند سال گزرتے ہیں، آپ کی والدہ ایک بسکٹ کا کھلا ہوا پیکٹ آپ کے پاس پڑا دیکھتی ہیں، اور آپ کے منہ اور کپڑوں پر اس کے ذرّات بھی نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتی ہیں کہ آپ نے بسکٹ کھائے ہیں۔

ان دونوں مثالوں میں معاملے کی جو نوعیت سمجھی گئی، ضروری نہیں کہ وہی حقیقت بھی ہو، یا اس کی کوئی اور تعبیر نہ کی جا سکتی ہو، لیکن شواہد کودیکھتے ہوئے جو سب سے معقول توجیہہ کی جاسکتی تھی وہ یہی تھی۔ سوچنے کےاس طریقے کو ‘استدلال’ یعنی توجیہہ کے ذریعے نتائج تک پہنچنا کہتے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ مثالیں کیوں پیش کیں؟ دراصل ان مثالوں سے ہم نے جو باتیں سمجھی ہیں، ان کی بنیاد پر ہم اس باب میں یہ واضح کریں گے کہ قرآن حکیم عربی زبان کا ایک یکتا شاہکار ہے جس کی کوئی مثل نہیں اور درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کا کلام نہیں ہو سکتا۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ قرآن حکیم جیسی کوئی دوسری کتاب تصنیف نہیں کی جا سکتی، تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آج تک کوئی انسان قرآن پاک جیسا لسانی و ادبی شاہکار تخلیق نہیں کر سکا۔ قرآن پاک کا منفرد ادبی اسلوب اور بلاغت کا تسلسل اس کی متعدد خوبیوں میں سے ہے۔ ممکن ہے آپ کومیرایہ دعویٰ اور اوپر بیان کی گئی مثالیں کچھ بے ربط معلوم ہوں، اس لیے میں چاہوں گا کہ آپ ذیل کی نکات پر غور کریں، بات واضح ہو جائے گی۔

قرآن حکیم محمد ﷺ پر مکہ مکرمہ میں ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوا۔ یہ دور عرب کے لسانی اور ادبی عروج کا زمانہ تھا۔ ساتویں صدی کا عرب معاشرہ ایسے افراد پروان چڑھاتا تھا، جو اپنی مقامی زبان میں خیالات کے اظہار پر کمال درجے کا عبور رکھتے تھے۔ کسی کامیاب شاعر کا پیدا ہونا قبیلے کے لیے مسرت کا باعث ہوتا۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ شاعری کے لیے جیتے اورشاعری کے لیے مرتے تھے۔ شاعری کے ذوق کو نکھارنا اور کلام پر دسترس حاصل کرنا ہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔ یہ ان کے لیے آکسیجن اور زندگی بخشنے والے خون کی مانند تھا۔ گویا وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے، جب تک وہ اپنے کلام کے معیار کو اعلیٰ ترین درجے تک نہ پہنچا لیں۔

لیکن جس لمحے انھیں قرآن سنایا گیا، وہ دم بخود رہ گئے۔ ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ وہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ یہ دیکھ کر وہ مبہوت ہوگئے کہ قرآن کے آگے ان کے عظیم ترین شعراء کے لبوں پربھی تالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ قرآن جیسا کوئی کلام نہ لا سکے۔ اس سے بھی بڑھ کر، جب قرآن نے چوٹی کے ماہرین ِکلام کو مقابلے کی دعوت دے ڈالی کہ اس جیسے منفرد ادب اور زبان والا کوئی شہپارہ بنا کر لائیں، تو وہ اس میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ ان میں سے کئی ایک نے تسلیم بھی کیا کہ قرآن خدا ہی کی جانب سے ہے۔ لیکن زیادہ تر نے انکار، مخالفت، تشدّد، قتل وغارت اور افواہ سازی کا راستہ لیا۔ کئی اشخاص ایسے بھی اٹھے کہ جنھوں نے متعلقہ فنون میں اس غرض سے مہارت حاصل کی کہ قرآن کے چیلنج کا جواب دیا جا سکے اور یہ سلسلہ صدیوں جاری رہا، لیکن بالآخر انھوں نے تسلیم کر لیا کہ قرآن کی مثل کچھ بنانا  ناممکن ہے اور وہ جان گئے کہ ان سے قبل آخر ماہرینِ کلام کیوں ناکام ہوتے رہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو خود عرب نہیں، اور عربی زبان میں دسترس بھی نہیں رکھتا، وہ کیوں کر اس بات کو سمجھے اور تسلیم کرے کہ قرآن جیسا کوئی کلام بنانا ممکن نہیں؟ یہاں سے معاملہ شروع ہوتا ہے ‘گواہی’ کا۔ ہمارے دعوے کی بنیاد درحقیقت وہ معلومات ہیں جو عربی زبان کے موجودہ اور قدیم ماہرین کی تحریری اور زبانی ‘گواہی’ کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں۔ اگر یہ سچ ہے جو لوگ قرآن حکیم کو چیلنج کرنےاٹھے اور اس کے الہامی طرزِ کلام کی مانند کچھ پیش نہ کر سکے، تو پھر قرآن کس کا کلام ہے؟ یہاں آکر ’گواہی‘ کا دائرہ کار ختم اور ’استدلال‘ کا شروع ہوتا ہے۔ اس ’استدلال‘ کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن کے بے مثل ہونے کی ممکنہ صورتوں پر غور کرنا ہو گا جو کچھ یوں ہیں۔ قرآن یا تو کسی عجمی کی تصنیف ہو سکتی ہے، یا کسی عربی کی، یا محمدؐ خودہی اس کے مصنف تھے، یا پھر یہ مان لیا جائے کہ یہ خدا کی جانب سے ہے۔ اس باب میں یہ سارے امکانات زیرِ بحث آئیں گے کہ ان میں سے ہر ممکنہ صورت پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قرآن جیسے بے مثل کلام کا صدور کسی عجمی، کسی عرب، یا خود محمدؐ سے ہونے کا امکان عقل سے بعید از خیال ہے۔ لہٰذا قرآن کے بے مثل اور یکتا ہونے کی جو واحد توجیہہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ قرآن حکیم، اللہ رب العالمین ہی کا کلام ہے۔

ہم اس تصور پر بات کر چکے ہیں کہ گواہی معلومات تک رسائی کا ایک قابلِ بھروسا ذریعہ ہے اور استدلال سوچنے کا ایک موزوں اور معقول طریقہ ہے، جن کا استعمال کرتے ہوئے ہم حقیقت کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس باب میں آگے ہم گواہی کی علمی حیثیت پر بات کریں گے اور تفصیلاً بتائیں گے کہ معلومات کی ترسیل بذریعہ گواہی، عقل و سمجھ کے دائرے میں رہتے ہوئے کیسے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ہم واضح کریں گے کہ شواہد کی بہترین ممکنہ توجیہہ (استدلال) کو کیسے موثر طور پر استعمال کیا جا تاہے۔ تاکہ ان دونوں تصورات کی مدد سے قرآن پاک کے یکتا اور بے مثل ہونے کو ثابت کریں۔ یہ باب آپ کو اس نتیجے تک پہنچائے گی کہ انسانوں کا اس الہامی کتاب  جیسا کوئی کلام بنانے سے عاجز ہونا دراصل یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ ہی ہے، جس نے اس کتاب کو بھیجا۔ اور یہ سب کچھ اس طرح بیان کیا جائے گا کہ اسے سمجھنے کے لیے قاری کا عربی زبان سے واقفیت یا اس کا ماہر ہونا لازم نہ ہو گا۔

گواہی کا علمی تجزیہ

جیسا کہ باب 12 میں مختصر طور پر بحث کی گئی تھی کہ گواہی، علم کا ایک لازمی اور بنیادی ذریعہ ہے۔ علم شہادت میں کچھ بہت ہی اہم سوالات ہیں جن کے جوابات کے بارے میں ماہرین علمیات کوشاں ہیں۔ ان میں شامل ہیں:بیان کس وقت ثبوت کے درجے پر پہنچتا ہے؟ کیا علم گواہی علم کے دوسرے سر چشموں پر مبنی ہے؟ کیا گواہی اساسی ہے؟

مندرجہ ذیل کچھ مباحثوں کا خلاصہ کیا جائے گا کہ گواہی علم کا ایک صحیح ذریعہ ہے۔

کیا گواہی حصول علم میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے؟

باب نمبر 12 میں گزری روایت بالشہادہ کی مثالیں دوسروں کے اقوال پر تکیہ کرنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے مجھے مشہور ملحد لارنس کراوس کے ساتھ کی گئی گفتگو یاد آئی۔ میں نے اس کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلانے کی کوشش کی کہ مشاہدہ معلومات حاصل کرنےکا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ اس سے میرا مقصد مشاہدے پر بے جا انحصار کرنے والے حضرات کے روبرو ان کے فرضی تصور کو آشکار کرنا تھا۔ میں نے گواہی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں؟ انھوں نے ہاں میں جواب دیا تو میں نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے کیے گئے سارے تجربات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں تھا۔[i] یوں ان کے طرز فکر کے بارے میں ایک سنجیدہ نوعیت کا سوال ابھرا۔ آخر ہم جن چیزوں پر یقین رکھتے ہیں ان پر اس (یقین) کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟ درحقیقت ہمارے بہت سے خیالات لوگوں سے سنی ہوئی باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو صرف اس لیے تسلیم کیا جا سکتا کہ ان کو “سائنسی زبان” میں بیان کیا گیا ہے۔

کچھ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ ’گواہی‘ کو بطور ْعلم کی شاخ‘ کسی سنجیدہ تحقیق کے لائق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بالآخر متعدد تحقیقات اور مقالوں کی اشاعت سے علم کی دنیا میں یہ سکوت ٹوٹا۔ ان میں سب سے معروف پروفیسر سی اے جے کوڈی[3] کا مقالہ ‘گواہی پر ایک فلسفیانہ گفتگو’ ہے۔ پروفیسر کوڈی گواہی کو معلومات کے حصول کے ایک معتبر ذریعے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور گواہی کے ذریعے معلومات کے حصول پر ڈیوڈ ہیوم[4] کے “گواہی کی ترسیل کو ٹھکرانے” پرتنقید کرتے ہیں۔ ‘تجزیہ پسندانہ یا تخفیفی سوچ’ یہ لازم قرار دیتی ہے کہ ہر گواہی کی تائید معلومات کے دیگر ذرائع مثلاً تاثر، یادداشت، تعارف وغیرہ سے ہو۔ دوسرے الفاظ میں گواہی بذاتِ خود کوئی معنی نہیں رکھتی اور یہ لازم ہے کہ اسے دیگر ذرائع، یعنی تجربے سے حاصل کی گئی معلومات سے تقویت دی جائے۔ اس کے رد میں پروفیسر کوڈی گواہی کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گواہی سے حاصل کی گئی معلومات معتبر ہوتی ہیں اور ضروری نہیں کہ معلومات کے دیگر ذرائع مثلاًمشاہدہ سے ان کی تصدیق کی جائے۔ گواہی کے بارے میں یہ بیانیہ “گواہی کے تخفیفی نظریے کا رد” کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پروفیسر کوڈی گواہی کے معتبر ہونے کے حق میں دلائل دیتے ہیں اور ڈیوڈ ہیوم کے روایت بالشہادۃ کے متعلق تخفیفی نظریہ پر زور دار تنقید کرتے ہیں۔ ہیوم کو اس کے اس مقالے ” معجزات کے بارے میں”[5] کی وجہ سے تخفیفی نظریے کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔ ہیوم کا نظریہ گواہی سے معلومات کے حصول کی نفی نہیں کرتا بلکہ وہ درحقیقت اس کی اہمیت اجاگر کرتا ہے۔ “ہم دیکھ سکتے ہیں کہ معلومات کی کوئی جنس ایسی نہیں جو اتنی عام، کار آمد اور انسانی زندگی کے لیے اہم ہو جتنی کہ انسانوں کی گواہی سے حاصل ہونے والا علم ہے۔ “[ii] البتہ ہیوم کا کہنا ہے کہ گواہی پر ہمارا اعتبار تب ہی قائم ہوتا ہے جب گواہی اور ہمارا تجربہ ایک دوسرے کی تائید کرتے ہوں۔ یہ ہیوم کا وہ نکتہ ہے جس کو پروفیسر کوڈی بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔

پروفیسر کوڈی کہتے ہیں کہ ہیوم کا “اجتماعی مشاہدے”  کا سہارا لینا شیطانی چکر میں پھنسنے کے مترادف ہے۔ ہیوم کا کہنا کہ گواہی صرف اس صورت میں معتبر ہوتی ہے جب اس سے ملنے والی معلومات کی تائید مشاہدہ میں آنے والے حقائق سے ہوتی ہو۔ لیکن یہاں قابلِ مشاہدہ حقائق سے ہیوم کی مراد کسی شخص کا ذاتی مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب انسانوں کا مجموعی مشاہدہ ہے۔  یعنی تمام انسانوں کے مشاہدے کا نتیجہ یکساں طور پر، گواہی سے حاصل شدہ معلومات سے پوری موافقت رکھتا ہو[6]۔ اس پر پروفیسر کوڈی کہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ذاتی عمومی مشاہدات پر یقین نہیں کر سکتے۔ یوں اس شیطانی چکر کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔ اگر ہر معاملے میں کسی بھی انسان کے ذاتی مشاہدے پر اعتبار کرنا کافی نہیں ہے تو پھر انسانوں کے اجتماعی مشاہدے کے نتائج تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا یہ دعویٰ کہ گواہی پر اعتبار کے لیے دیگر ذرائع، مثلاً مشاہدے کی تائید کی ضرورت ہے، بذاتِ خود اس ہی مفروضے پر قائم ہے، جس کی یہ نفی کرنا چاہتا ہے۔ یعنی گواہی کا بنیادی نوعیت کا حامل ہونا۔ اور اس کی سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ یہ جاننے کے لیے کہ کسی چیز کے بارے میں لوگوں کا اجتماعی مشاہدہ کیا ہے، ہمیں دوسرے لوگوں کی گواہی ہی کی ضرورت ہو گی کیونکہ ہم نے از خود اس کا مشاہدہ نہیں کیاہوتا۔

ماہرین کی رائے پر بھروسا کرنا

ہمارے زمانے کی یہ سائنسی ترقی ، جس پر فخر کیا جاتا ہے، کبھی ممکن نہ ہوتی، اگر کسی ماہر فن کی جانب سے کئے گئے تجرباتی معلومات سے متعلق دعوؤں پر یقین نہ کیا جاتا۔ ارتقاء ہی کی مثال لیجیے، رچرڈ ڈاکنز کبھی اس نظریے کی سچائی کا پر زور دعویٰ نہ کر پاتے، اگر یہ لازم ہوتا کہ یہ دعویٰ کرنے سے پہلے وہ تمام تجربات خود کریں اور ان کے نتائج کا خود مشاہدہ کریں۔ ممکن ہے وہ چند ایک مشاہدات یا تجربات خود دہرا بھی لیں۔ لیکن پھر بھی انھیں دوسرے سائنسدانوں کی بتائی ہوئی معلومات پر ضرور یقین کرنا پڑتا۔ ارتقاء پر تحقیق کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ہر چیز کا ازخود مشاہدہ کرنا ممکن ہی نہیں، اوراگر ایسا کیا جانے لگے تو سائنس ترقی کرنے سے قاصر ہو جائے گی۔

اوپر بیان کی گئی مثال ایک اہم سوال اٹھاتی ہے۔ ایسی صورت میں کہ جب گواہی کے ذریعے جو بات ہم تک پہنچ رہی ہو وہ دراصل کسی ایک ماہرِ فن کی رائے ہو تو اس کی کیا حیثیت ہو گی؟ یونیورسٹی میں فلسفے کے لیکچرار ڈاکٹر الزبتھ فرِکر[7] کا اس بارے میں کہنا ہے کہ:

“کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں دوسروں کی گواہی پر بھروسا کرنا ایک معقول طرزِ فکر ہے اور اس کو مسترد کرنا عقل سے بعید ہوتا ہے اور یہ ایک شخص کی اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے محدود ہونے کے شعور کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ دیگر افراد بعض امور میں تو اس سے مماثلت رکھتے ہیں لیکن بعض امور میں وہ اس سے مختلف ہیں اور نتیجتاً کسی خاص معاملے میں وہ اس سے بہتر علمی استعداد رکھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ مجھے کبھی حسر ت ہوتی ہو کہ میں اڑ نہیں سکتا، یا اپنی صحت کو متاثر کیے بنا ایک ہفتے تک جاگ نہیں سکتا، یا وہ تمام باتیں نہیں کھوج سکتا جو میں جاننا چاہتا ہوں۔ لیکن اپنی محدود ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو اپنی حد جانتے ہوئے، میرے لیے عقلی طور پر اس پر تاٴسف کی کوئی گنجائش نہیں بنتی کہ میں دیگر افراد کے الفاظ پر احتیاط کے ساتھ بھروسا کروں کہ جس کے نتیجے میں مجھے بے پناہ علمی سرمایہ اور بیش بہا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ “[iii]

اعتبار

یہ وہ مقام ہے جہاں  ‘اعتبار’ کا تصور روایت بالشہادہ کی بحث میں داخل ہوتا ہے۔ دیگر افراد کی رائے پر اس وجہ سے بھروسا کرنا کہ وہ ایک خاص شعبے میں چوٹی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں, اس وقت تک سود مند نہ ہو گا جب تک ہماری یہ رائے کہ وہ ماہرین واقعی قابلِ بھروسا ہیں، بذات ِخود اعتبار کے قابل نہ ہو۔

گواہی کی نوعیت اور اس کے معتبر ہونے کی بحث تخفیفی نظریہ اور اس کی نفی سے آگے جا چکی ہے۔ فلسفے کے پروفیسر کیتھ لہرر[8] کا اس مسئلہ پر کہنا ہے کہ گواہی کےقابلِ بھروسا ہونے کا مسئلہ ان دونوں نظریات سےالگ ایک معاملہ ہے۔ لہرر اپنی دلیل کی بنیاد ‘اعتبار’ پر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گواہی علم حاصل کرنے کا ذریعہ ضرور ہے مگر “کچھ حالات میں، تمام حالات میں نہیں”۔[iv] وہ کہتے ہیں”گواہی کے ذریعے آپ کوئی بات اس وقت یقینی طور پر جان سکتے ہیں جب بتانے والا بذاتِ خود قابل بھروسا ہو۔ ورنہ گواہی بذات خود ثبوت نہیں ہو سکتی” ۔[v] ایسا نہیں ہے کہ اگر گواہی دینے والا شخص ” قابل اعتماد ہونے کے لئے مُبرا عن الخطا ہو”،[vi] لیکن یہ ضروری ہے کہ “گواہی دینے والے شخص کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ ویسے ہی آگے بیان کر رہا ہے جیسا کہ اس نے خود سنا تھا”۔[vii] لہرر اس خیال سے متفق ہے کہ صرف راوی کا قابلِ بھروسا ہونا اس بات کے لیے کافی نہیں کہ اس کی بتائی ہوئی بات سے حقیقت تک پہنچ جائیں۔ نہ صرف یہ کہ اس با ت کی بھی چھان بین کی جانی چاہیئے کہ آیا ایک شخص قابلِ بھروسا ہے کہ نہیں (اس تصور کولہرر نے ‘سچائی کے ربط’ کا نام دیا ہے) بلکہ ہمیں خود بھی اس تحقیق میں دیانتدار اور قابلِ بھروسا ہونا ہو گا۔ [viii]

گواہی سے حاصل ہونے والی معلومات کی چھان پھٹک کے لیے، معاملے کے پسِ منظرسے واقفیت، دیگر افراد کی علم کے اس شعبے سے متعلق رائے، اور ذاتی و اجتماعی مشاہدات، یہ سب عوامل کار آمد ثابت ہوتےہیں۔

لہرر کا کہنا ہے کہ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کسی راوی کے قابلِ اعتبار ہونے کے بارے میں ہمار ی اپنی رائے بھروسے کے لائق ہے کہ نہیں، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس سے قبل جو ہم نے کسی کے بارے میں آراء دی تھیں، وہ درست ثابت ہوئیں یا غلط۔ لیکن جب ہم کسی کےبارے میں یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس کی گواہی قابل بھروسا نہیں، تو عموماً اس کے پیچھے دیگر لوگوں کی اس شخص سے متعلق گواہیاں ہوا کرتی ہیں۔[ix] یہاں سے ایک کبھی ختم نہ ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کسی ایک گواہی کی چھان بین کرنے کے لیے ہمیں دیگر مزید گواہیوں پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ لہرر کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک “خیر کا چکر” ہے۔[x] لیکن کیسے؟ پروفیسر لہرر اس کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں:

“پہلی بات، سچائی یا دیانت سے متعلق کسی بھی مکمل تصور کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ اس تصور کو حقیقت تسلیم کرنا ہمارے لیے کیوں درست ہے۔ لہٰذا اس نظریے کو اپنے اصولوں پر خود بھی پورا اترنا چاہیئے اور ثابت کرنا چاہیئے کہ اسے ماننا کیوں بر حق ہے۔ دوسری بات جو اتنی ہی اہم ہے، یہ ہے کہ ہمارے بذاتِ خود دیانت دار ہونے کا انحصار اس بات پر ہونا چاہیئے کہ ہم نے ماضی میں کن امور کو درست تسلیم کیا، بشمول ان حقائق کے جن کو ہم نے کسی دوسرے شخص کی گواہی کی بنا پر تسلیم کیا۔ نتیجتاً، کسی بات کو سچ تسلیم کرنے کےمعاملے میں ہماری دیانت اور جن امور کو ہم نے ماضی میں حقیقت جانا، ان کے درمیان ایک طرح کا باہمی ربط ہو گا۔ ہماری سچ تسلیم کی گئی باتوں کے درمیان پایا جانے والا باہمی تعلق ہی یہ بتاتا ہے کہ باتوں کو سچ تسلیم کرنے کی ہماری صلاحیت کتنی قابلِ بھروسا ہے۔ “[xi]

جرح کا حق

لہرر کی ‘اعتبار’ سے متعلق گفتگو سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم دیگر افراد یا ماہرین کی آراء کے قابلِ بھروسا ہونے کو کیسے پرکھیں؟ پروفیسر بنجمن مک مائیلر[9] نے ایک دلچسپ نکتہ پیش کیا ہے جو اس سوال کاجواب دینے میں مددگار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گواہی کے علمی مسئلہ کو “جرح کے علمی حق کی وضاحت کے مسئلے کے طور پر دوبارہ پیش کیا جاسکتا ہے۔”۔[xii] مک مائیلر کہتے ہیں کہ اگر ہر سننے والے کو سوال کرنے کا حق دیا جائے تو اس سے ’گواہی‘ کے مسئلے کو ایک نئی جہت میسر آئے گی۔ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ سننے والے اور بیان کرنے والے دونوں اشخاص ذمہ داری قبول کرنے ذمہ داری لیں۔ بیان کرنے والا اپنے بیان کی مکمل ذمہ داری لے۔ اور سامعین اس کی بیان کی گئی معلومات سے متعلق کسی بھی مسئلہ پر اس سے سوال کرنے کے لئے تیار ہوں۔[xiii]

مقرر یا مصنف کو جرح  کرنے کے حق سے”گواہی” پر اعتمادبڑھایا جا سکتا ہے  ۔ مثلاً، لسانیات کا استاد دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن یکتا و بے مثل ہے، یہ کہتے ہوئے وہ قرآن کی بلاغت اور اس کی منفرد ادبی ساخت اور اسلوب بیان پر روشنی ڈالتا ہے۔ طلبہ اپنے استاد کی بیان کی گئی معلومات کا راوی بننا قبول کرتے ہیں، لیکن اس سے قبل کچھ سوالات کرتے ہیں۔ یہ اعتراضات سوالات کی شکل میں ہیں۔ جیسا کہ:کیا آپ قرآن سے اس کی مزید مثالیں پیش کر سکتے ہیں؟ قرآن کے ادبی اسلوب کے بارے میں دیگر ماہرین فن کیا رائے رکھتے ہیں؟ جو ماہرین علم آپ کی بات سے اختلاف رکھتے ہیں ان کے دلائل کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟ اور یہ کہ قرآن کا تاریخی پسِ منظر جو معلومات ہمیں دیتا ہے آیا اس سے آپ کے دعوے کی تائید ہوتی ہے؟ استاد صاحب ان سوالات کے تسلّی بخش جوابات دیتے ہیں اور یوں سامعین ان کی بات پر اعتبار کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

عینی شہادت سے متعلق چند باتیں

ابھی تک ہماری ساری گفتگو گواہی کے ذریعے منتقل ہونے والی معلومات سےمتعلق تھی اورکسی واقعے یا جرم کے آنکھوں دیکھے احوال کی یاد داشت پر ہم نے کوئی گفتگو نہیں کی۔ عینی شہادت سے متعلق دستیاب معلومات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ہمارے اس مضمون کا مقصد اگرچہ عینی شہادت پر کیے گئے مطالعے اور تحقیق کے نتائج اور مضمرات پر گفتگو نہیں ہے۔ چونکہ عینی شہادت کےقابلِ بھروسا ہونے پر ایک علمی سوال اٹھایا جاتا ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے کو گواہی کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کے معاملے سے نہ جوڑا جائے۔ یہ دو بالکل واضح طور پر الگ معاملے ہیں۔ عینی شہادت کے درست ہونے میں، ہماری محدود اور ناقص یاد داشت، نفسیاتی اثرات، اور ایک واقعہ کس ترتیب سے پیش آیا، یہ سب یاد رکھنے کی محدود صلاحیت ہمارے لئے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب گواہی کے ذریعے حاصل کیے گئے علم، تصورات اور خیالات پر یہ عوامل اثر انداز نہیں ہوتے، کیونکہ گواہی کے ذریعے معلومات تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچتی ہیں، جنھیں نسبتاً طویل عرصے میں غور و فکر کے بعد جذب کیا گیا ہوتا ہے۔

یہاں سے ہم اپنے موضوع سے تھوڑا دور نکلتے ہیں لیکن یہ بھی اس بحث کے لیے مفید ہو گا – معجزات پر ڈیوڈ ہیوم کا مقالہ۔ اس کا کہنا ہے کہ معجزات کی بابت جاننے کا واحد ذریعہ عینی شہادت ہے۔ اس کے بقول ہمیں معجزے پر صرف اس صورت میں یقین کرنا چاہیئے کہ جب عینی شاہد کے غلطی کرنے کا امکان، معجزے کے وقوع پذیر ہونے کے امکان سے زیادہ نہ ہو۔ [xiv]

واحد عینی گواہ کے معاملے میں اٹھنے والے اعتراضات سے ہٹ کر، متعدد عینی گواہوں کے بیان کو سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے (اسلامی تحقیق میں جس کی بعض صورتوں کو تواتر کہا جاتا ہے)۔ اگر کسی معاملے میں کثیر تعداد میں (یا ایک معقول تعداد میں) مختلف گواہوں سے علیحدہ علیحدہ واسطوں سے معلومات حاصل کی گئی ہوں، اور ان گواہوں کی ایک معقول تعداد میں باہم میل جول بھی نہ ہو، تو ایسی معلومات کو رد کرنا نامعقول طرزِ عمل ہو گا۔ خود ڈیوڈ ہیوم نے اس طرح کی شہادت کی سچائی کو قبول کیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ معجزات کو ثابت کرنا ممکن ہے، اگر کثیر تعداد میں شہادتیں دستیاب ہوں:

“میں یہاں اپنے اس دعوے کی حدود واضح کرنا چاہوں گا کہ جب میں کہتا ہوں کہ معجزات کبھی بھی اس قدر یقین کے ساتھ ثابت نہیں کیے جا سکتے کہ ان پر کسی مذہب کی بنیاد رکھی جائے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ معجزات یا فطرت کے معمول کے خلاف ایسے واقعات رونما ہوں کہ جن کو انسانوں کی گواہی کے ذریعے تسلیم کیا جا سکے (اگرچہ ان کا ذکر انسانی تاریخ کی تمام روداد میں پایا جانا شاید ممکن نہیں)۔ فرض کیجیے تمام زبانوں کے تمام مصنف اس بات پر متفق ہیں کہ یکم جنوری 1600 سے پورے کرہٴارض پر آٹھ دنوں کے لئے مکمل تاریکی چھا گئی۔ اور فرض کیجیے کہ اس غیر معمولی واقعے کا تذکرہ آج بھی لوگوں کے درمیان اس طرح زندہ ہے کہ دیگر ملکوں کے سفر سے آنے والے تمام مسافر اس واقعے کا احوال کسی معمولی سے فرق یا تضاد کےبغیر بیان کرتے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ہمارے دور کے تمام فلسفی حضرات کو چاہیئے کہ اس واقعے پر شک کرنے کے بجائے، اس کو بطور حقیقت تسلیم کریں۔ “[xv]

گواہی معلومات کے حصول کا ایک لازم ذریعہ ہے۔ گواہی کے بنا ہمارے زمانے کی معروف سائنسی ترقی نہ ہو پاتی۔ ہمارے بہت سے مستند حقائق کی حیثیت فقط کسی شکی انسان کے وہم سے زیادہ نہ ہوتی، اور زمین کے چپٹا ہونے کے دعویٰداروں کو ہمارا یوں مزے سے جھٹلانا معقول رویہ نہ ہوتا۔ گواہی سے معلوما ت اخذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری دیگر افراد کی دیانتداری جانچنے کی صلاحیت قابلِ بھروسا ہو۔ نیز ہم ایسی معلومات سے متعلق شبہات کے ازالے کے لیے گواہی دینے والے شخص سے رجوع کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم یہ یقینی بنائیں کہ گواہی دینے والے شخص کی باتیں باہم مربوط ہیں، اور یہ جاننے کے لیے ہم اس کی دی گئی دیگر شہادتوں اور اس کے سابقہ احوال پر بھی نظر ڈال سکتے ہیں۔

بہترین وضاحت سے قیاس

توجیہہ ایک نہایت کار آمد طرز فکر کا نام ہے کہ جس میں دستیاب حقائق اور سیاق و سباق سے متعلق معلومات کو باہم ایک ربط دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب  ہمارا معالج دریافت کرتا ہے کہ آپ کیسے ہیں، تو ہم اپنی علامات کچھ یو ں بتاتے ہیں: ناک بند ہے، گلے میں خراش ہے، چھینکیں آ رہی ہیں، آواز بھاری ہے، کھانسی ہے، آنکھوں میں پانی آتا ہے، بخار کی کیفیت ہے، سر اور جسم میں درد ہے، اور تھکن ہو رہی ہے۔ ان معلومات کی روشنی میں معالج یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمیں کیا بیماری لاحق ہے۔ اپنی میڈیکل کی تعلیم کے دوران حاصل کی گئی معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے، وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ آپ کی بیماری کا بنیادی سبب انفلوئنزا وائرس نظر آتا ہے۔ تاریخ اور فلسفے کے پروفیسر پیٹر لپٹن [10] بالکل اسی طرح توجیہہ کے عملی اور ناگزیر استعمال کو بیان کرتے ہیں:

“ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس مریض کو خسرہ ہے کیوں کہ دستیاب شواہد کی بہترین ممکنہ توجیہہ یہی ہے۔ ماہر فلکیات، سیارہ نیپچون[11] کی حرکت کے قائل ہو جاتے ہیں کیوں کہ سیارہ یورانس[12] میں دیکھی گئی غیر متوقع تبدیلیوں کی یہی سب سے بہترین توجیہہ ہو سکتی ہے۔ معقول ترین توجیہہ کے اصول کے مطابق، ہمارے نتیجہ اخذ کرنے کے عمل کا انحصار ممکنہ صورتوں پر ہوتا ہے۔ دستیاب حقائق اور اس کےسیاق و سباق سے متعلق تصورات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ کون کون سی صورتیں متبادل کے طور پر تصور کی جا سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ درست ہوں۔ “[xvi]

بیشتر معاملات کی طرح ، ہمارے پاس موجود معلومات کی مسابقتی وضاحتیں ہوسکتی ہیں۔ ان وضاحتوں کی کسوٹی نہ صرف ان کی معقولیت ہے ، بلکہ اس کے علاوہ اور اعداد و شمار، جو ہمیں ان وضاحتوں کے مابین امتیاز برتنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ لیپٹن وضاحت کرتے ہیں: “ہم بظاہر معقول وضاحتوں پر غور کرتے ہوئے شروع کرتے ہیں ، اور پھر ایسے اعداد و شمار کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کے مابین امتیاز کر سکیں… جب کوئی بہتر متبادل تاویل  پیش کرتا ہے توہی پہلی رائے کو شکست دی جاسکتی ہے ، اگرچہ شواہد تبدیل نہیں ہوتے۔”[xvii]

مزید معلومات کا حصول ہی وہ واحد طریقہ نہیں ہے کہ جس سے ہم دو متبادل ممکنہ صورتوں میں سے ایک کو زیادہ معقول تسلیم کر سکیں۔ سب سے بہترین توجیہہ وہی ہو گی جو سب سے آسانی سے سمجھ میں آتی ہو۔ لیکن یہ با آسانی سمجھ میں آنا صرف پہلی شرط ہے۔ اس سے آگے ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ با آسانی سمجھ میں آنے کے ساتھ ساتھ یہ جامع بھی ہو۔ جامع ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایک ممکنہ صورت میں توجیہہ کی مکمل گنجائش اور اس کا دائرہ وسیع ہو۔ ممکنہ صورت کو تمام دستیاب حقائق پر درست بیٹھنا چاہیئے، چاہے وہ بالکل منفرد اور مختلف مشاہدات ہوں۔

کسی ممکنہ صورت کے جامع ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایسے مشاہدات اور حقائق کو بھی اپنے دامن میں سمو سکتی ہو، جن سے ماضی میں لوگ واقف نہ تھے، یا جو بالکل غیر متوقع یا ناقابلِ توجیہہ سمجھے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک اہم اصول یہ ہے کہ کسی ممکنہ صورت کو درست تسلیم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے متعلق پہلے سے موجود معلومات کی روشنی میں اس صورت کے حقیقت ہونے کا امکان دیگر ممکنہ صورتوں سے زیادہ ہو۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ فلسفی گلبرٹ ایچ ہر مین[13] کا کہنا ہے کہ جب ایک سے زیادہ صورتیں ممکن ہوں تو “ان میں سے کسی ایک کو حقیقی ماننے کے لیے ضروری ہے کہ دیگر تمام ممکنہ مفروضوں کو رد کیا جا سکتا ہو۔ اس طرح ہم اس بنیاد پر کہ ایک مفروضہ دیگر مفروضوں کے مقابلے میں حقائق کی زیادہ بہتر توجیہہ کر سکتا ہے، یہ نتیجہ قائم کر سکتے ہیں کہ ہماری فرض کی گئی صورت واقعی درست ہے۔ “[xviii]

اوپر جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاملے کی معقول ترین توجیہہ کرنا ایک ناگزیر طرزِ فکر ہے۔ یہاں تک کہ یہ ہمیں کسی معاملے کے بارے میں یقینی علم تک لے جاسکتا ہے۔ اگر ہمارے سامنے گنے چنے حقائق ہی دستیاب ہوں اور ان سےچند ہی ممکنہ صورتیں سامنے آتی ہوں تو معاملے کی معقول ترین توجیہہ کو کافی حد تک یقینی سمجھا جائے گا، کیوں کہ اس سے بہتر صورت فرض کرنے کی گنجائش نہیں ہو گی۔ یا ایسے حقائق ملنے کے امکانات نہیں ہوں گے جو ہماری معقول ترین توجیہہ کو تبدیل کر سکتے ہوں ۔ یہ دعویٰ  کہ “قرآن آسمانی کتاب ہے”، اسی طرح یقینی طور پر ثابت ہوا ہے۔ قرآن کی تصنیف سے متعلق چند ہی ممکنہ صورتیں زیر غور لائی جا سکتی ہیں اور اس کے الہامی ہونے کے سوا اور کوئی صورت زیادہ معقول نظر نہیں آتی۔

دلیل قائم کرنا :

ہماری ابھی تک کی بحث کا مقصد حصول علم میں گواہی اور (کسی معاملے کی) معقول ترین توجیہہ کی اہمیت واضح کرنا تھا۔ لیکن صرف گواہیوں کا ذکر کرنا کافی نہ ہو گا کیوں کہ قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے سے متعلق ماہرین کی ایک سے زائد آراء ملتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس کے پسِ منظر سے متعلق مصدقہ احوال پیش کرنا ہوں گے، تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ قرآن کے بے مثل و یکتا ہونے کے حق میں جو آراء ملتی ہیں، ان کو کیوں حقیقت پر مبنی تسلیم کیا جائے۔

سابقہ احوال میں قابلِ ذکر حقائق یہ ہیں کہ قرآن اپنے زبان و ادب کے شاہکار کے مقابلے کی دعوت دیتا ہے اور یہ کہ ساتویں صدی کے عرب اپنے خیالات کے اظہار کے لیے عربی زبان پر کمال درجے کا عبور رکھتے تھے، اور یہ کہ اس کے باوجود قرآن جیسا کوئی کلام وہ پیش نہ کر سکے۔ اگر ہم ان حقائق کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کے حق میں پائی جانے والی ماہرین کی آراء کو اختیار کرنا ایک معقول انتخاب سمجھا جائے گا ۔کیوں کہ ان باتوں کا سچ ثابت ہونا ایسی آرا کو اختیار کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ آراء جو قرآن کے یکتا ہونے کے خلاف ہیں، وہ عقل سے بعید سمجھی جائیں گی کیوں کہ وہ ایسے حقائق سے متصادم ہوں گی، جو ثابت شدہ ہیں (اس کی وضاحت آگے آئے گی)۔ جب ایک دفعہ گواہی (ماہرین کی آراء) کے ذریعے حاصل معلومات پر اطمینان حاصل ہو جائے گا، تو ممکنہ متبادل صورتوں کا تجزیہ کیا جائے گا، تاکہ ان میں سے معقول ترین صورت کا انتخاب کیا جا سکے کہ یا تو قرآن کسی عرب آدمی کی تخلیق ہے، یا کسی غیر عرب کی، یا محمد ﷺ کی، یا پھر اللہ رب العالمین کی۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے:

  •  قرآن انسانوں کو اپنے ادبی و لسانی شاہکار کے مقابلے کی دعوت دیتا ہے۔
  •  ساتویں صدی کے عرب اس مقابلے کے لیے موزوں ترین افراد تھے۔
  •  ساتویں صدی کے عرب قرآن کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہے۔
  •  ماہرین نے قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی تصدیق کی۔
  • ایسے ماہرین کی آراءجو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، عقل کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں۔ کیوں کہ وہ ثابت شدہ حقائق سے متصادم ہیں۔
  • لہٰذا ان پانچ نکات سے ثابت ہوا کہ قرآن یکتا و بے مثل ہے۔
  • قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی بابت یہ چار توجیہات سوچی جا سکتی ہیں۔ قرآن کسی عرب نے تصنیف کیا، یا کسی غیر عرب نے یا محمد ﷺ نے یا پھر اللہ رب العالمین نے نازل فرمایا ہے۔
  • قرآن کی تخلیق کسی عرب، غیر عرب یا محمد ﷺ کے بس سے باہرہے۔
  • چنانچہ جو سب سے معقول توجیہہ تصور کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ خود اللہ رب العالمین نے اسے نازل فرمایا ہے۔

اس باب کے بقیہ حصے میں ہم ان نکات پر تفصیلی بحث کریں گے۔

1.      قرآن انسانوں کو اپنے ادبی و لسانی شاہکار کے مقابلے کی دعوت دیتا ہے:

“پڑھیے اپنے رب کے نام سے۔ “[xix] یہ پانچ الفاظ محمد ﷺ پر چودہ سو سال قبل نازل ہوئے۔ آپ ﷺ مکہ سے کچھ دور ایک غار میں تنہائی میں غور و فکر کیا کرتے تھے۔ یکایک آپ ﷺ پر ایک ایسی کتاب کا نزول ہوا، جس نے ہماری دنیا پر غیر معمولی نقوش ثبت کیے۔ محمد ﷺ کہ جن کو کبھی شعر کہتے نہیں سنا گیا، اور نہ جن میں کوئی قابلِ ذکر زبان دانی کے جوہر محسوس کیے گئے، پر ایک ایسی کتاب کے اترنے کا آغاز ہوا ،جس میں عقائد، قانون، عبادات، روحانیت اور معاشیات کے معاملات ایک بالکل نئے ادبی اسلوب اور طرز میں بیان وارد ہوئے ہیں۔ [xx]

قرآن کے منفرد لسانی اور ادبی کمالات کو مسلمانوں نے اپنے اس عقیدے کہ، قرآن اللہ تعالیٰ کی جانب سے بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے، کی سند کے طور پر پیش کیا۔ قرآن کی مثل کوئی کلام تخلیق کرنے میں تمام افراد کی ناکامی نے مسلمانوں کے دینی عقیدے اعجاز القرآن کی بنیاد رکھی۔ ‘اعجاز’ ایک اسم ِ فعل ہے جس کے معنی ’معجزاتی‘ کے ہیں اور یہ لفظ فعل ’عجز‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ‘عاجز ہوجانا، لاچار ہو جانا’ ہیں۔ یہ اصطلاح وہ عقیدہ ظاہر کرتاہے کہ جس کے مطابق عربوں کے ماہرینِ کلام قرآن کے جیسا کوئی کلام پیش کرنے سے قاصر رہے۔ علامہ جلال الدین السیوطی جو پندرہویں صدی کے نامور مصنف اور عالم گزرے ہیں اس نظریے کو یوں بیان کرتے ہیں:

“جب محمد ﷺ نے انھیں مقابلے کی دعوت دی، وہ لوگ اس دور کے سب سے فصیح و بلیغ ماہرین ِ کلام تھے، چنانچہ انھوں نے انھیں دعوت دی کہ وہ قرآن کی مثل کوئی کلام تخلیق کر کے دکھائیں۔ سالہا سال بعد بھی وہ ایسا نہ کر سکے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’اگر یہ سچے ہیں تو ان سے کہو اس کی مثل کوئی کلام بنا لائیں’۔ اس کے بعد محمد ﷺ نے انھیں دعوت دی کہ وہ صرف دس سورتیں بنا لائیں۔ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں ‘ان سے کہو، اچھا تو دس سورتیں ہی بنا لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جسے چاہو اپنی مدد کے لیے بلا لو، اگر تم سچے ہو۔ ‘ اس کے بعد محمد ﷺ نے دعوت د ی کہ صرف ایک سورت ہی قرآن جیسی بنا کر دکھا دو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ان کے خیال میں کیا نبی ﷺ نے یہ خود گھڑ لیا ہے؟۔ ان سے کہو اس جیسی ایک سورت ہی تم بنا کر دکھا دو اور خدا کے سوا اپنی مدد کے لیے جسے چاہو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔ ” جب عرب ایک سورت بھی نہ بنا سکے جب کہ ان کے درمیان اس دور کے چوٹی کے ماہرینِ کلام موجود تھے، تو محمد ﷺ نے واشگاف الفاظ میں ان کی ناکامی اور بے بسی کا اعلان کر دیا اور قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کو ثابت کر دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا “کہو اگر تمام کے تمام انسان، اور جنات مل کر بھی چاہیں کہ قرآن جیسا کچھ بنا لیں تو وہ نہیں بنا سکتے چاہے وہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں”۔ [xxi]

مفسرین کے مطابق، قرآن کی وہ آیات جو اس جیسی دس سورتیں بنانے کے لیے مقابلے کی دعوت دیتی ہیں، وہ ہر زمانے کے ماہرین کلام کو اس کے ادبی و لسانی کمالات کے مقابلے کے لیے للکارتی ہیں۔[xxii] اس مقابلے کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہے, وہ گرامر کے چند محدود قواعد، ادبی و لسانی تراکیب، اور عربی زبان کے اٹھائیس حروف تہجی ہیں۔ اور یہ اسباب بلا تخصیص، سب افراد کو آزادانہ دستیاب ہیں۔ یہ حقیقت کہ اپنے نزول کے زمانے سے لے کر آج تک کوئی بھی انسان اس مقابلے کو نہ جیت سکا، عربی زبان اور قرآن سے واقفیت رکھنے والے بیشتر علماء کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں۔

2.      ساتویں صدی عیسوی کے عرب عربی زبان پر سب سے زیادہ عبور رکھتے تھے :

قرآن نے عربی زبان کے چوٹی کے ماہرین کو مقابلے کی دعوت دی، یعنی ساتویں صدی کے عرب۔ مغربی و مشرقی ماہرین لسانیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس زمانے کے اہل عرب نے عربی زبان کی بلاغت کی انتہاؤں کو چھو لیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ بلاغت اور کلام میں مہارت ساتویں صدی کے عربوں کے خون میں شامل تھی۔[xxiii] نویں صدی کے شعراء کی سوانح لکھنے والے الجماہی کے مطابق “شعر عربوں کے لیے ان کے تمام علم کو مرتب کرنے کا ذریعہ تھا اور ان کی ذہانت کا اعلیٰ ترین نشان تھا، اسی سے وہ اپنے معاملات کا آغاز کرتے اور اسی پر ان کا اختتام کرتے”۔[xxiv] چودہویں صدی عیسوی کے مشہور مورخ علامہ ابنِ خلدون عربوں کی زندگی میں شعر و شاعری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “واضح رہے کہ عرب شاعری کو گفتگو کا ایک قابلِ فخر طریقہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ اسی میں انھوں نے اپنی تاریخ رقم کی، اس کے ذریعے انھوں نے اپنے خیر اور شر کے معیار محفوظ کیے اور اسی میں انھوں نے اپنے سائنسی اور عقلی علوم کی اصولی بنیادیں بیان کیں”[xxv]۔

ساتویں صدی کے عربوں کی معاشرت میں زبان پر قدرت اور کمال ایک نہایت موثر خوبی سمجھی جاتی تھی۔ ادبی نقاد اور تاریخ دان ابنِ رشد اس معاشرے کی کچھ اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں: “جب بھی کسی عرب قبیلے میں کوئی شاعر ابھرتا، دیگر قبائل اس قبیلے کو مبارک باد دینے پہنچتے، دعوتیں کی جاتیں، خواتین دھنیں بجاتیں جیسا کہ وہ شادی کے موقع پر کیا کرتیں، اور بزرگ اور جوان جھومتے جیسا کہ کسی خوشخبری پرخوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عرب ایک دوسرے کو صرف دو مواقع پر مبارک باد پیش کرتے، ایک کسی بچے کی ولادت پر اور دوسرا جب ان کے یہاں کوئی شاعر پیدا ہوتا۔”  [xxvi]نویں صدی کے عالم ابنِ قطیبہ شاعری کوایک عرب کی نگاہ سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں “شاعری ان کے لیے گویا علم کی کان تھی، عقل و دانش کی کتاب تھی، جھگڑے کے موقع پر ایک سچا گواہ تھی، اور بحث و تکرار میں آخری دلیل۔ “[xxvii]

ایک عرب کو عربی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کتنی ریاضت کرنی ہوتی تھی ،اس پر اسلامی علوم کے استاد نوید کرمانی روشنی ڈالتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ایک ایسی دنیا میں رہتے تھے جو شعر و شاعری کو خراجِ تحسین پیش کرتی تھی: “قدیم عربی شاعری ایک نہایت پیچیدہ عجوبہ ہے۔ اس کی لغت اور گرائمر کا انوکھا مزاج اور سخت اصول نسل در نسل منتقل ہوتے تھے، اور صرف اعلیٰ درجے کی خداداد صلاحیتیں رکھنے والے شاگرد ہی اس پر مکمل عبور حاصل کر پاتے تھے۔ ایک شخص کو سالوں بلکہ بعض صورتوں میں تو دہائیوں تک ایک ماہر شاعر کی زیرِ نگرانی شاعری سیکھنی ہوتی تھی، تب جا کر وہ خود کو شاعر کہنے کے لائق ہوتا تھا۔ محمد ﷺ ایسے معاشرے میں پلے بڑھے کہ جس میں شاعری سے لوگ مذہب کی مانند عقیدت رکھتے تھے۔ “[xxviii]

ساتویں صدی عیسوی کے عرب ایسی معاشرت میں جیتے تھے کہ جس میں عربی زبان میں اظہار کی بے مثل صلاحتیں پروان چڑھانے کے لیے مطلوب تمام سہولیات وافر موجود تھیں۔

3.      ساتویں صدی کے عرب قرآن کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہے:

اپنی ان تمام ادبی قابلیتوں کے باوجود وہ سب مل کر بھی قرآن کے ادبی و لسانی کمالات کے مقابلے کا کوئی عربی متن بنانے میں ناکام رہے۔ لسانیات کے ماہر پروفیسر حسین عبدالروؤف کہتے ہیں ،”اس دور کے عرب زبان پر عبور، اس کے اصول، کلام کی بلاغت، تقریر اور شاعری کے لحاظ سے زبان کی بلندیوں کو چھوتے تھے۔ اس کے بادجود، ان میں سے کوئی بھی، قرآن کی مانند کوئی ایک سورت بھی پیش نہ کر سکا۔ “[xxix]

قرآنی علوم کی پروفیسر انجیلیکا نیورتھ[14] کہتی ہیں کہ قرآن کے اس دعویٰ کو کبھی بھی شکست نہ دی جا سکی، نہ ماضی میں اور نہ ہی حا ل میں، “یہ سچ ہے کہ کوئی کامیاب نہ ہو سکا۔ میں سچ میں یہ سمجھتی ہوں کہ قرآن نے مغربی محققین کو بھی شرمسار کر دیا ہے کہ وہ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ، اچانک سے ایک ایسے ماحول میں جہاں کوئی قابلِ ذکر تحریر ہی موجود نہ ہو اس میں قرآن، اس قدر پر معنی تصورات اور اتنی عالی شان زبان میں کیسے ظاہر ہو گیا۔ “[xxx]

لبید ابنِ ربیعہ سبعہ معلقات میں سے ایک شاعر تھے، جنھوں نے قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کے اعتراف میں اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے شاعری چھوڑ دی۔ لوگ حیران تھے، کیوں کہ لبید تو ان کے “سب سے بڑے شاعر”[xxxi] تھے۔ دریافت کرنے پر انھوں نے جواب دیا “کیا قرآن کے آجانے کے بعد شاعری کی کوئی گنجائش ہے؟”[xxxii]

ایچ پامر[15] جو قرآن اور عربی زبان کے پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ صاحبانِ علم کے اس طرح کے دعوے حیرت کی بات نہیں۔ وہ لکھتے ہیں “عربو ں کے ماہر ترین اشخاص کا قرآن جیسے معیار کا کچھ بنا لانے میں سدا ناکام ہونا باعثِ حیرت نہیں۔ “[xxxiii]

اسلامی علوم کےپروفیسر ایم اے دراز[16] تصدیق کرتے ہیں کہ ساتویں صدی کے مفکرین قرآن کے بیان میں یوں محو ہوئے تھے کہ بے حس و حرکت ہو کر رہ گئے۔ “عربی زبان کی بلاغت ِ کلام کے سنہرے دور میں زبان ترقی کرتے کرتے نفاست اور اظہار کی طاقت کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی، اور شعراء اور مقررین کو سالانہ میلوں میں بھرپور اعزاز کے ساتھ القابات سے نوازا جاتا تھا، ایسے حالات میں قرآن کے الفاظ نے شاعری اور نثر کو بے جان کر کے رکھ دیا، اور سات سنہری نظمیں جو کعبے کے دروازے پر آویزاں کی جاتی تھیں، اتار لی گئیں۔ اور سماعتیں ان سب سے کنارہ کش ہو کر قرآن کی شکل میں عربی زبان کے اس شاہکار پر جم گئیں۔ “[xxxiv]

ساتویں صدی سے ملنے والی کثیر شہادتیں اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے شک کو باقی نہیں رہنے دیتیں کہ عرب قرآن جیسا کوئی کلام پیش کرنے سے عاجز  ہو گئے تھے۔ اس حقیقت کا انکار کرنا کہ عرب بے بس ہو چکے تھے، بلا دلیل ہو گا۔ جیسا کہ اس باب میں عینی شہادت پر بات کرتے ہوئے ہم نے پہلے عرض کیا، وہ روایتیں جو بتاتی ہیں کہ عرب قرآن کی مثل کچھ پیش کرنے میں ناکام ہوئے، تواتر کے درجے کو پہنچی ہوئی ہیں۔ راویوں اور تاریخ دانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جن سے متعدد سلسلوں سےیہ معلومات ہم تک پہنچیں اور ان میں سے بہت سے ماہرین ایک دوسرے سے کبھی ملے بھی نہ تھے۔

ایک اور مضبوط دلیل جو اس بات کی تائید کرتی ہے کہ ساتویں صدی کے عرب قرآن جیسا کوئی کلام بنانے میں ناکام رہے، اس دور کے سیاسی و معاشرتی حالات سے متعلق ہے۔ قرآن میں مکہ میں بسنے والے قبائل کی غیر اخلاقی، ظالمانہ اور شیطانی طرزِ عمل کی بھرپور مذمت کی گئی ہے، جن میں خواتین سے ناروا سلوک، غیر منصفانہ تجارت، شرک، غلامی، بچوں کے قتل اور یتیموں سے غفلت وغیرہ شامل ہیں۔ قرآن کے پیغام نے مکہ اور عرب کے سرداروں کو للکارا، اور ان کی قیادت و سروری اور ان کے اقتصادی مفادات پر 23 سال تک پے در پے ضرب لگاتا رہا۔ اسلام کو پھیلنے سے روکنے کے لیے محمد ﷺ کے مخالفین کو بس اتنا کرنا تھا کہ قرآن کے لسانی و ادبی کمالات کے مقابلے میں اس جیسا کچھ تخلیق کر کے دکھا دیتے۔

لیکن اسلام کا اپنے ابتدائی دور میں، جب کہ یہ بہت کمزور تھا، کامیاب ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دور کے مخاطبین قرآن کے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔ کوئی تحریک ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی ،اگر اس کے وہ دعوے کہ جن پر اس کی بنیادیں کھڑی ہوں، غلط ثابت ہو جائیں۔ مکہ کےسرداروں کا اسلام کے خلاف جنگ اور تشدد جیسی مہم جوئی پر اتر آنا یہ بتاتا ہے کہ اسلام کو ناکام کرنے کا آسان ترین راستہ یعنی قرآن کے چیلنج کا جواب دینا، ان کے لئے مشکل ترین چیلنج تھا۔

4.      اہلِ علم نے گواہی دی ہے کہ قرآن یکتا و بے مثل ہے

مشرق و مغرب کے دینی اور لادینی پسِ منظر رکھنے والے لاتعداد ماہرینِ علم نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قرآن یکتا و بے مثل ہے۔ یہاں ہم نے ان میں سے صرف چند ایک کے ناموں کا ذکر کیا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کے مثل کوئی کلام نہیں بنایا جا سکتا۔

  • مشرقی علوم کے پروفیسر مارٹن زمِٹ: “اسلام سے پہلے پائی جانے والی طویل نظموں کے ادبی معیار سے قطع نظر… قرآن، عربی زبان میں تحریری شکل میں پایا جانے والے سب سےممتاز کلام کی حیثیت سے بلا شبہ اپنی مثال آپ ہے۔ “[xxxv]
  • شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ: “قرآن مبین کی اعلیٰ ترین درجے کی بلاغت انسان کی پہنچ میں نہیں۔ لیکن چونکہ ہم دورِ اول کے عربوں کے بعد کے زمانے کے ہیں اس لیے ہم اس کا مکمل ادراک نہیں کر پاتے۔ لیکن جو بات ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآنِ عظیم الشان میں سادہ لفظوں کو جس خوبصورتی کے ساتھ دلوں کو چھو لینے والے جملوں میں ڈھالا گیا ہے، کہ جن میں کوئی بناوٹ نہیں، اس کی مثال قدیم یا جدید دور کے کسی شاعر کے کلام میں نہیں ملتی۔ “[xxxvi]
  • علوم ِ مشرق اور ادبیات کے عالم اے جے آربری[17]: “مجھ سے پہلے گزرے ماہرین کے کام کو کچھ آگے بڑھانے اور عربی قرآن کی مثل کوئی ایسا کلام بنانے کی کوشش میں کہ جس میں قرآن کی شاندار بلاغت کی ادنیٰ سی جھلک نظر آتی ہو، مجھے اس کے پیچیدہ اور جا بجا پائے جانے والے مختلف نوعیت کے آہنگ کو سمجھنے میں مشکل کا سامنا ہے، اور اس کے پیغام سے قطع نظر یہی وہ بنیاد ہے جس پر قرآن انسانی تاریخ کے سب سے عظیم ادبی شاہکار ہونے کا نا قابلِ تردید دعویٰ کرتا ہے۔ “[xxxvii]
  • مفتی تقی عثمانی: “ان میں سے کوئی قرآن جیسے چند جملے بھی نہ بنا سکا۔ تصور کیجیے یہ وہ لوگ تھے کہ علامہ جرجانی کے بقول یہ ممکن نہ تھا کہ انھیں خبر ہوکہ زمین کے دوسرے سرے پر موجود کوئی شخص اپنے کلام کی بلاغت اور خطاب کی فصاحت پر نازاں ہے اور یہ اس کا اپنی شاعری میں مذاق نہ اڑاتے۔ یہ تصور کرنا محال ہے کہ انھیں بار بار مقابلے کے لیے پکارا جائے اور یہ خاموش بیٹھے رہیں اور آگے آنے کی جرات نہ کریں۔ انھوں نبی ﷺ کو اذیت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، ان پر جسمانی تشدد کرتے، انھیں پاگل قرار دیتے، انھیں جادوگر، شاعر اور کاہن کہتے، لیکن وہ قرآن کی مانند چند جملے بنانے میں بری طرح ناکام رہے۔ “[xxxviii]
  • امام فخر الدین :“قرآن حکیم اپنی بلاغت، اپنی منفرد طرز بیان، اور غلطیوں سے مبراء ہونے کے سبب یکتا و بے مثل ہے۔ “[xxxix]
  • الزملکانی: “قرآن حکیم کے الفاظ اپنے متعلقہ معیار پر خوبصورتی سے پورا اترتے ہیں، اور اس کے جملے جس حکمت سے ترتیب دیے گئے ہیں ان کی معنی خیزی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہاں تک کہ اس میں پائی جانے والی ہر ادبی صنف اپنے ہر جملے اور ہر لفظ کے لیے لاثانی ہے۔ “[xl]
  • پروفیسر بروس لارنس[18]: “واضح نشانی کے طور پر، قرآنی آیات لا متناہی سچائی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان سے تہہ در تہہ معنی کھلتے جاتے ہیں، روشنی در روشنی، معجزہ در معجزہ۔ “[xli]
  • پروفیسر اور عربی دان ہملٹن گب[19]: “دیگر تمام عربوں کی طرح وہ (محمد ﷺ) زبان اور بلاغت کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ تو اگر قرآن ان کی اپنی تخلیق ہوتا تو دیگر عرب بھی ان کا مقابلہ کر سکتے۔ انھیں کہو کہ اس جیسی دس آیات بنا لائیں، اور اگر نہ بنا سکیں (جو صاف ظاہر ہے کہ وہ نہ بنا سکے) تو پھر قرآن کو ایک عظیم اور کھلا معجزہ تسلیم کر لیں۔ “[xlii]

قرآن کے بےمثل و یکتا ہونے کی لا تعداد دستیاب شہادتوں میں سے یہ صرف چند شہادتیں ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی مزید شہادتیں: المتنبّی اور شیکسپیئر

ابو الطیّب احمد ابن الحسین المتنبّی الکندی عربوں کی نظر میں ایک بے مثال غیر معمولی صلاحیت کے حامل شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ دیگر شعراء نے بھی اس عظیم شاعر کی مانند قصیدہ گوئی اور منظوم کلام کہا، لیکن کوئی ان کے بلاغت کے معیار اور اسالیب کے تنوع کو نہ پہنچ سکا۔ چنانچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ المتنبّی یکتا ہے، کیوں کہ ہمارے سامنے ان کا کام بھی موجود ہے اور تمام ادبی وسائل بھی، لیکن ان کی جیسی شاعری کوئی نہیں کر سکا۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ قرآن کے یکتا اور بے مثل ہونے کے دعویٰ کو کمزور کر دیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ المتنبّی کی یہ ستائش بے بنیاد ہے۔ المتنبّی کے کام سے مماثل شاعری یہودی شعری ٰموسی ابن عزراء اور سلمان ابن جبریل کے یہاں ملتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اندلسی شاعر ابن ہانی الاندلسی تو مشہور ہی مغرب کا المتنبّی کے لقب سے تھا۔ [xliii]

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ کی عرب شاعری میں کسی نئی صنف کا اضافہ نہیں ہوا تھا۔ اور یہ اس لیے تھا کہ یہ پہلے سے پائی جانے والی شاعری ہی کا تسلسل تھا۔ ڈینس ای مک اولے [20] لکھتے ہیں کہ قرونِ وسطیٰ کی شاعری” براہِ راست تجربے کی بجائے سابقہ ادبی نہج سے جڑی ہوتی تھی۔ “[xliv]

قدیم عربی شاعری میں یہ کوئی انہونی بات نہ تھی کہ ایک شاعر اپنے سے پہلے کے کسی شاعر کی نظم جیسی ایک نئی نظم کہتا، جو اسلوب، روانی اور موضوع میں اسی کے جیسی ہو۔ یہ ایک عام طریقہ تھا۔[xlv] یہ باعثِ حیرت نہیں کہ دینی علوم کے پروفیسر ایمل ہومرین [21]نے ابن الفرید کے ادبی کام کا جائزہ لیا اور اسے بڑی حد تک حقیقتاً المتنبّی کے پائے کا قرار دیا۔ [xlvi]

یہ واضح کرنے کے لیے کہ المتنبّی کے پائے کا کلام تخلیق کرنا ممکن ہے، انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایک اور شاعر ابو نواس کے کام سے استفادہ کیا۔[xlvii] قرونِ وسطیٰ کے کئی ادبی نقاد وں مثلاً الصاحب ابن عباد اور ابو علی محمد ابن علی حسن الہثیمی نے المتنبّی پر تنقید کی ہے۔ ابن عباد نے الکشف عن مساوی شعر المتنبّی تصنیف کی جب کہ الہثیمی نے الرسالة الموضحة في ذكر سرقات أبي الطيب المتنبّی میں المتنبّی کے ساتھ اپنی ملاقات کا واقعہ ذکر کیا ہے۔[xlviii] ان ادبی تنقیدوں کا ماحصل یہ ہے کہ اگرچہ اس کا کام ایک غیر معمولی شخص کا تھا لیکن اس کے پائے کا کام تخلیق کرنا بہر حال ممکن ہے۔ الہثیمی اپنے حریف المتنبّی کے خلاف ایک مضبوط دلیل پیش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے کلام کی طرز یکتا نہیں ہے اور اس میں غلطیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ پروفیسر سیگر اے بون بیکر[22] جنھوں نے المتنبّی پر الہثیمی کی تنقید کا مطالعہ کیا اس نتیجے پر پہنچے کہ” اکثرو بیشتر الہثیمی کی رائے کی مضبوط بنیادیں ہوا کرتی ہیں اور ایک قاری انھیں پڑھ کر آخر کار یہ محسوس کرتا ہے کہ المتنبّی بس ایک عام سا شاعر تھا ,جس کے پاس نہ صرف اپنے حقیقی خیالات کا فقدان تھا بلکہ اسے قواعد، لغت، اور فنِ خطابت پر بھی مطلوبہ عبور نہیں تھا، حتیٰ کہ بعض مقامات پر تو اس نے نہایت برے ذوق کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔”[xlix]

شیکسپیئر کے بارے میں عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ انگریزی زبان کے استعمال میں یکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کے کام کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاتا کہ اس جیسا کلام تخلیق کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی بیشتر نظمیں ایک عام پائے جانے والی طرز( iambic pentameter) پر ہیں جو منظوم کلام کا ایسا اسلوب ہے کہ جس میں ہر مصرعہ دس الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ الفاظ پانچ پانچ کے دو مجموعوں کی شکل میں ہوتے ہیں جن کو دھوج(iambs)یا جمع رکن(iambic  feet) کہا جاتا ہے۔ [l]اب چونکہ اس کے کام کا نقشہ ہمارے سامنے موجود ہے اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ انگریز ڈرامہ نگار کرسٹوفر مارل[23] اسی طرز میں لکھا کرتا تھا، اور شیکسپیئر کا موازنہ، فرانسس بیوماونٹ[24]، جان فلیچر اور اس کے زمانے کےدیگر ڈرامہ نگاروں سے کیا جاتا رہا ہے۔ [li]

قرآن کے بے مثل و یکتا ہونے کے اقرار کا لازمی نتیجہ یہ نہیں کہ سب اس کے الہامی ہونے کو تسلیم کر لیں:

ایک قابل غور نکتہ جو قرآن کے بےمثل و یکتا ہونے کی علمی شہادتوں سے متعلق ہے, وہ یہ ہے کہ ان تمام ماہرین نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ قرآن کے مانند کوئی کلام بنانا ممکن نہیں ہے، لیکن پھر بھی ان میں سے بعض نے اس کے منزل من اللہ ہونے کا اقرار نہیں کیا۔ اس دلیل میں خامی یہ ہے کہ یہ دلیل قرآن کے بے مثل و یکتا ہونے کی معقول ترین ممکنہ توجیہہ کے ساتھ خلط ملط کر رہی ہے۔ میں اس باب میں جو بحث پیش کر رہا ہوں وہ قرآن کے الہامی ہونے کو ان ماہرین کی رائے سے ثابت کرنا نہیں، بلکہ یہ بحث یہ بتانے کے لیے ہے کہ قرآن کے بے مثل و یکتا ہونے کی جو معقول ترین توجیہہ کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ منزل من اللہ ہے۔ ان ماہرین کا اس نتیجے یا قرآن کے الہامی ہونے سے اتفاق نہ کرنا غیر متعلق ہے۔ ماہرین کی رائے یہاں پیش کرنے کا مقصود صرف یہ دکھانا تھا کہ قرآن یکتا ہے اور اس کی مثال پیش کرنا ناممکن۔ ہمارا مقصود ان آراء کو پیش کرنے سے یہ نہیں کہ ان سے یہ بھی ثابت کیا جائے کہ قرآن منزل من اللہ ہے۔ یہ نکتہ تو قرآن کے متن کے یکتا و بے مثل ہونے سے اخذ ہوتا ہے، نہ کہ اس سے کہ ان ماہرین نے قرآن کے بے مثل اور یکتا ہونے سے یہ نتیجہ اخذ کیوں نہ کیا۔

یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیئے کہ ممکن ہے ان ماہرین کی نظر سے وہ دلیل نہ گزری ہو جو معقول ترین توجیہہ کی جانب راہنمائی کرتی ہے، یا ممکن ہے کہ انھوں نے قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی ممکنہ وجوہات پر فلسفیانہ غور و فکر نہ کیا ہو۔ ممکن ہے ان میں سے بعض ضدی قسم کے ملحد ہوں اور فلسفہ فطرت پر یقین رکھتے ہوں، اور ان کی فطرت پرستی ان کو کسی بھی فوق الفطرت حقیقت تک پہنچنے سے روک دیتی ہو۔

بہت سے صاحبانِ علم، خاص طور پر ہمارے دور کے ما بعد جدیدی[25] تمدن میں جینے والے علوم کو ایک خاص نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قرآن کے متن میں تو دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ان کا مقصد تلاش حق نہیں ہوتا بلکہ محض ادبی علوم کے مطالعہ کے غرض سے اس کو پڑھتے ہیں۔ یہ علم کی جدید دنیا کا ایک عام رجحان بن چکا ہے۔ اس لیے جب یہ اہلِ علم قرآن کے یکتا و بےمثل ہونے پر غور کرتے ہیں، زیادہ امکان اس کا ہوتا ہے کہ وہ صرف اس کے ادبی کمالات پر غور کر رہے ہوں نہ کہ اس کے الہامی کتاب ہونے کے دعوے کی سچائی کے امکان پر۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ آیا قرآن بے مثل اور نفیس ہے؟ اور اگر ہے تو کس حد تک؟ وہ یہ جاننے میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتے کہ قرآن کا یکتا اور بے مثل ہونا اس کے الہامی ہونے کے لیے درحقیقت کیا معنی رکھتا ہے۔

5.      مخالف علمی آراء معقول نہیں کیوں کہ یہ ثابت شدہ سابقہ احوال کو نظرانداز کرتی ہیں:

اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے، اس کی روشنی میں گواہی کے ذریعے قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی جو معلومات ہم تک پہنچیں، ان پر یقین کرنا عقل کے تقاضے کے عین مطابق ہو گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس موضوع پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے یا تمام اہلِ علم یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ قرآن کے چیلنج کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ چند علمی آراء ( اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے) ایسی بھی پائی جاتی ہیں جو قرآن کے بے مثل ہونے کے دعوے کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کسی شہادت کو قابلِ بھروسا ہونے کے لیے اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہے، تو آخر کیسے کوئی شخص گواہی کے ایک سلسلے کو دوسرے سلسلے پر ترجیح دے؟

قرآن کے بے مثل و یکتا ہونے سے متعلق گواہی زیادہ معقول معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس کی بنیاد مستند سابقہ علم پر رکھی گئی ہے جن پر ہم نےپہلے تین نکات میں گفتگو کی۔ ان سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن انسانوں کو ایک ادبی و کلامی چیلنج دیتا ہے۔ ساتویں صدی کے عرب اس چیلنج کا جواب دینے کی سب سے بہتر استعداد رکھتے تھے، لیکن اس کے باوجود کلام کی دنیا کے یہ بادشاہ اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر رہے۔

اس نظریے کی مخالف آراء کو تسلیم کرنا عقل سے بعید بات ہو گی۔ کیوں کہ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ اس سوال کا جواب دیا جائے کہ وہ لوگ جو اس چیلنج کا جواب دینے کی بہترین صلاحیت رکھتے تھے، آخر کیوں اس میں ناکام رہے۔ اس کا جواب تراشنے کے لئے شاید اس مستند تاریخ کا انکار کرنا پڑ جائے، یا ساتویں صدی کے عربی زبان کے چوٹی کے ماہرین سے زیادہ بہتر زبانی و ادبی استعداد رکھنے کا دعویٰ کیا جائے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخالف آراء کی بنیاد عقلی دلائل پرقائم نہیں ہیں۔ مستند تاریخ کے انکار کے لیے لازم ہو گا کہ عربی ادب کی تاریخ کو از سرِ نو مرتب کیا جائے۔ یہ فرض کرنا کہ ساتویں صدی کے عربی زبان کے ماہرین سے بہتر قابلیت اس زبان میں حاصل کی جا سکتی ہے، ایک بے بنیاد خیال ہے کیو نکہ اس دور کے ماہرین کے اردگرد ایک نسبتاً خالص ادبی ماحول تھا۔ یہ وہ ماحول ہے جس کے باعث زبان میں نفاست پیدا ہوتی ہے، اور جہاں غیر زبانوں سے آلودگی یا زبان کے بگاڑ کا امکان نہایت محدود ہوتا ہے۔ آج کے دور میں عربی زبان کے ماحول میں دیگر زبانوں سے تال میل اور زبان کا بگاڑ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے مقابلے میں زبان دانی کا دعویٰ کرنا جو زبان میں کمال حاصل کرنے کے لیے نہایت زرخیر ماحول میں پلے بڑھے ہوں، ایک بے معنی بات ہے۔

ان کے دعوؤں کی ان کمزوریوں سے قطع نظر، جب ان اہلِ علم کی آراء کا تجزیہ کیا جاتا ہے جو قرآن کے بے مثل و یکتا ہونےکے مخالف ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے دانشمند حضرات خود زبان میں مہارت کی قلت کا شکار ہیں۔ اس خامی کی ایک مثال مشہور زمانہ جرمن مستشرق تھیوڈور نالڈک [26] کی تحقیق میں دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ تدریس سے وابستہ اور قرآن کی ادبی خصوصیات کے نقاد تھے اور اپنی اس حیثیت میں قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کے عقیدے کو رد کرتے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ ان کی تنقید سے اس قسم کی آراء کا غیر مصدقہ ہونا بالکل واضح ہو گیا۔ مثال کے طور پرنالڈک کا یہ کہنا کہ” قرآن میں خطاب کرنے والی ہستی بار بار، بنا کسی قاعدے کے اور ایک غیر دلکش(nicht schoner Weise۔ اچھا طریقہ نہیں) انداز میں تبدیل ہوتی ہے۔”[lii]

قرآن کا وہ ادبی اسلوب جس کی طرف نالڈک نے اشارہ کیا دراصل پر اثر تقریر کی ایک ایسی خاصیت ہے جسے التفات یا قاعدے کی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ یہ اسلوب بیان کی تاثیر میں اضافہ کرتا ہے اور عربی فنِ کلام کا ایک جانا پہچانا، تحقیق شدہ جز ہے۔ [liii]اس کی تفصیل الاثیر، سیوطی اور زرکشی کی عربی فنِ کلام کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ [liv]

قاعدے کے ان تنوعات میں شامل ہیں: فرد میں تبدیلی، عدد میں تبدیلی، مخاطب، صیغے، حروفِ جار، ضمیر کو اسم سے تبدیل کرنے سمیت متعدد دیگر تبدیلیاں ہیں۔[lv] ان تبدیلیوں کااصل مقصد گفتگو کے مرکز و محور کو بدلنا، قاری کو کسی خاص معاملے پر خبردار کرنا، اور متن کی شان میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔[lvi] اس کے زیرِ اثر تحریر میں تنوع پیدا ہوتا ہے، اس کا ایک مقام دوسرے سے ممتاز نظر آتا ہے، اور لے اور روانی پیدا ہوتی ہے اور یہ قاری کی توجہ ایک ڈرامائی انداز میں اپنی جانب کھینچتی ہے۔[lvii] قرآن حکیم کی سب سے مختصر سورۃ الکوثر قاعدے کی تبدیلی کی ایک بڑی خوبصورت مثال پیش کرتی ہے:

“(اے نبی ﷺ) بے شک، ہم نےتمہیں الکوثر عطا کر دیا۔ پس تم اپنے رب کے لیے ہی نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔ ” [lviii]

اس سورت میں متکلم کے لئے جمع کا صیغہ “ہم”، غائب واحد کے صیغے “اپنے رب” میں بدل رہا ہے۔ یہ تبدیلی کوئی حادثاتی نہیں ہے، یہ ایک بہت نپی تلی اور پیغمبر ﷺ اور ان کے رب کے درمیان قریبی تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ جب “ہم” استعمال کیا گیا، تو اس کا مقصد شاہانہ جلال، قوت، اور مقتدر ہونا بتانا مقصود تھا۔ یہ ضمیراس لیے استعمال کی گئی تاکہ معلوم رہے کہ اللہ کے پاس یہ قوت اور صلاحیت ہے، کہ وہ محمد ﷺ کو الکوثر عطا کر سکے۔ دوسری جانب، “اپنے رب” کامقصد گہرے تعلق، قربت اور الفت کا اظہار کرنا تھا۔ اس لفظ کے نہایت وسیع مفاہیم ہیں، جو آقا، رزق دینے والے، پروردگار اور پالنہار وغیرہ کو محیط ہیں۔ یہ زبان کا نہایت موزوں استعمال ہے کیوں کہ اس کا سیاق و سباق نماز، قربانی اور عبادت سے متعلق ہے “پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو، اور قربانی کرو۔ ” اس کے علاوہ اس سورۃ کا مقصد بھی پیغمبر محمد ﷺ کی دلجوئی ہے، اور ایسی محبت بھری زبان کے استعمال سے اس کی نفسیاتی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔

تھیوڈور کی قرآن پر یہ تنقید نہ صرف اس کے ذاتی رجحانات کا اظہار تھا بلکہ اس سے اس کا قدیم عربی کا ناقص فہم بھی آشکار ہو گیا۔ اس سے اس بات کا بھی پتہ چلا کہ ساتویں صدی کے عرب مہارت کی کن بلندیوں پر فائز تھے۔ قاعدے کی یہ تبدیلیاں قرآن کے رواں لب و لہجےکی علامت ہیں اور واضح طور پر قرآن کا ایک خاص اسلوب اور ایک جانا پہچانا طرزِ کلام ہے۔ قرآن اس اسلوب کو متن کی روح کے مطابق اور اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ پروفیسر نیل رابنسن نے اپنی کتاب[27] میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قرآن میں استعمال کی گئی قواعد کی تبدیلیاں”دراصل” کلام کی اثر انگیزی بڑھانے کا باعث ہیں۔ “[lix]

 پس ثابت ہوا کہ، مخالف آراء جو قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کا انکار کرتی ہیں، قابلِ التفات نہیں، کیوں کہ ان کو تسلیم کرنے سے الجھنیں اور بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح کی آراء کے پیچھے ایک ایسی طرز فکر کار فرما ہے جو متعصب،  ناقص الفہم اور عربی زبان و ادب کی درست اور گہری تفہیم اور تاریخ ادب سے نا آشنا ہے۔ اگر قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کا انکار کرنا ہو, تو ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کا جواب دیا جائے: آخر کیا وجہ تھی کہ وہ عرب جو اس کے مقابلے کے لیے موزوں ترین تھے، وہ اس میں ناکام رہے؟ اس سوال کے ممکنہ جوابات عقلی طور پر سمجھ سے باہر ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر، مخالف آراء کو سنجیدگی سے لینا نامعقول ہو گا۔

6.      چنانچہ یہ ثابت ہوا کہ قرآن یکتا و بے مثل ہے۔

ایک سے لے کر پانچ تک کے نکات سے یہ نتیجہ نکلا کہ قرآن کو بے مثل و یکتا تصور کرنا درست ہے۔

7.      قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی چار ممکنہ توجیہات۔

عربی زبان کی باریکیوں میں جائے بنا، قرآن کے الہامی ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں گواہی اور استدلال کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس قابل بھروسہ گواہیاں اور ان کی اسناد موجود ہیں، جو ثاب کرتی ہیں کہ  قرآن ”  یکتا و بے مثل” ہے۔ اس کی ایک قابلِ بھروسا گواہی دستیاب ہے، اور یہ کہ اس کے یکتا و بے مثل ہونے کی توجیہہ کی یہی صورتیں سوچی جا سکتی ہیں کہ یہ کسی عرب، یا کسی غیر عرب، یا محمد ﷺ کی تصنیف ہو یا منزل من اللہ ہو۔ تاہم، یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید کچھ مزید صورتیں بھی ممکن ہوں جو ابھی ہمارے علم میں نہیں۔ لیکن یہ دعویٰ دراصل ایک مغالطے کو جنم دیتا ہے جسے ‘فرضی شرط کا  دھوکہ’[28] کہا جاتا ہے۔ ہماراکہنا یہ ہے کہ اگر کوئی حقیقی متبادل صورت موجود ہو تو اس کو لازماً علمی بحث کے لیے پیش کیا جانا چاہیئے۔ بصورتِ دیگر اس طرح کی گفتگو کچھ یوں معلوم ہو گی جیسے کہا جائے کہ درختوں کے پتے کششِ ثقل سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے گرتے ہیں لیکن ہم ابھی وہ وجہ جانتے نہیں ہیں۔

8.      اسے کوئی عرب، غیر عرب یا خود محمد ﷺ تصنیف نہیں کر سکتے۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ قرآن کا ممکنہ مصنف کون ہے، ہم اس مضمون کے بقیہ حصے میں تین خیالات کا تجزیہ کریں گے۔

کیا کسی عرب نے قرآن تصنیف کیا؟

چند اہم وجوہات ایسی ہیں کہ جن کی بنا پر یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن کسی عرب شخص کی تخلیق ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ انھیں زبان پر وہ دسترس حاصل تھی جوکسی اور کو حاصل نہیں ہو سکی، اس کے باوجود وہ قرآن کے چیلنج کا جواب نہ دے سکے اور اس زمانے کےچوٹی کے ماہرین نے تصدیق کی کہ قرآن کے کمالات کی نقل ممکن نہیں۔ اس دور کے ایک اعلیٰ پائے کے صاحب زبان، ولید ابن المغیرہ نے کہا: “تو میرے پاس کہنے کے لیے کیا تھا؟ اللہ کی قسم تم میں سے کوئی شاعری کو مجھ سے بہتر نہیں سمجھتا، اور نہ تم میں سے کوئی شعر کہنے یا بلاغت میں میرا مقابلہ کر سکتا ہے، حتیٰ کہ جنات کی شاعری میں بھی نہیں۔ اور اس پر میں قسمیہ کہہ رہا ہوں کہ محمد ﷺ کا کلام (یعنی قرآن حکیم) ان چیزوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا جنھیں میں جانتا ہوں اور اللہ کی قسم جو وہ کہتا ہے وہ بے حد لطیف ہے، اور وہ دل آویز ی اور حسن سے مزین ہے۔ “[lx]

دوسری قابلِ ذکر وجہ یہ ہے کہ ساتویں صدی کے مشرکینِ عرب نے ابتداء میں محمد ﷺ پر شاعر ہونے کا الزام لگایا تھا۔ یہ مسلمانوں سے جھگڑنے اور جنگ کرنے سے کہیں آسان تھا۔ لیکن کسی بھی ایسے شخص کو جو عربی زبان اور شاعری میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہو، یہ لازم تھا کہ وہ کئی سالوں تک شعراء سے تربیت لے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکا کہ محمد ﷺ نے اس سے یا کسی اور سے شاعری کی تربیت لی۔ محمد ﷺ کے پیغام کی شاندار کامیابی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے شاعروں اور ادیبوں سے یہ منوانے میں کامیاب رہے کہ قرآن درحقیقت منزل من اللہ ہے۔ اگر قرآن کی نقل ممکن ہوتی، تو کوئی بھی شاعر یا ادیب قرآن کی جیسی یا اس سے بہتر کوئی چیز بنا کر لاتا اور دعوت اسلام کے سیل رواں کے آگے بند باندھ دیتا۔ علومِ اسلامی کے ماہر نوید کرمانی اس نقطے کو بالکل واضح کرتے ہیں۔ “یہ بالکل ظاہر ہے کہ پیغمبر محمد ﷺ نے اس مقابلے میں شاعروں کو شکست دی، ورنہ اسلام جنگل کی آگ کی طرح اس قدر تیزی سے نہ پھیل پاتا۔ “[lxi]

اس سے بھی زیادہ بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ قرآن مجید پیغمبر محمد ﷺ پر 23 سال تک متواتر نازل ہوتا رہا، اگر پیغمبر محمد ﷺ کو چھوڑ کر یہ کسی عرب نے تخلیق کیا ہوتا تو اس کو پیغمبر محمد ﷺ کے ساتھ سائے کی مانند لگے رہنا لازم تھا تاکہ وہ جہاں بھی جاتے اور جب بھی ضرورت ہوتی، ان کو سکھایا کرتا۔ کیا واقعی کوئی اس پر سنجیدگی سے یقین کر سکتا ہےکہ اس قسم کا دھوکہ وحی کے مسلسل تئیس سال تک چلتا رہا اور کبھی پکڑا نہ گیا؟

اچھا تو آج کے عربوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ آج کے دور کا کوئی عربی بولنے والا شخص قرآن مجید کے جیسا کلام بنا سکتا ہے۔ اس کے پسِ پشت چند وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ساتویں صدی کے عرب قرآن کو چیلنج کرنے کی زیادہ بہتر استعداد رکھتے تھے اور چونکہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے اس لیے یہ گمان رکھنا کہ آج کے دور کا کوئی عرب اپنے آبا و اجداد سے زیادہ بہتر صلاحیت کا مظاہرہ کر سکتا ہے، یہ سراسر غیر منطقی خیال ہے۔ دوسرا یہ کہ جدید عربی زبان نے قدیم عربی کے مقابلے میں دیگر زبانوں سے بہت زیادہ اثر قبول کیا ہے اور یہ زیادہ بگاڑ کا شکار ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا عرب جو زبان کے لحاظ سے نسبتاً غیر معیاری ماحول میں پروان چڑھا ہو، وہ ایک ایسے عرب کا ہم پلہ ہو سکے جس نے ٹھیٹھ زبان کے ماحول میں زندگی بسر کی ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ گو کہ آج کے زمانے کا ایک عرب بھی قدیم عربی سیکھ سکتا ہے لیکن اس کی بیان کی صلاحیتیں کسی ایسے شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جو ایسے معاشرے کا حصہ ہو جو زبان دانی کی معراج کو پہنچا ہوا تھا۔

کسی غیر عرب نے قرآن تصنیف کیا؟

قرآن کسی غیر عرب کی تصنیف نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن عربی زبان میں ہے لہٰذا اس کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے عربی زبان کی واقفیت لازم ہے۔ قرآن خود اس بارے میں بتاتا ہے: “اور ہم بلاشبہ جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں، ‘یہ ضرور کوئی انسان ہے جو محمد ﷺ کو سکھاتا ہے’، جس شخص کی جانب یہ اشارہ کرتے ہیں اس کی زبان غیر عربی جب کہ قرآن کی زبان تو صاف عربی ہے۔ ” [lxii]

امام المفسرین علامہ حافظ ابنِ کثیر اس آیت کے معنی یوں بیان کرتے ہیں: “یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن اپنے بلیغ طرزِ بیان اور کمال کے مطالب کے ساتھ جو اس سے قبل کسی بھی پیغمبر پر نازل ہونے والی کتابوں سے زیادہ پختہ ہے، کسی ایسے شخص سے سیکھا گیا ہو جو غیر عرب ہے اور بمشکل عربی بول سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو معمولی سی بھی عقل سمجھ رکھتا ہو ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ ” [lxiii]

یہ بھی تو ممکن ہے کہ کوئی غیر عرب عربی زبان سیکھ لے۔ ہاں، لیکن ایسی صورت میں اسے عربی بولنے والا تصور کیا جائے گا اور اس کی مثال وہی ہو گی جو ہم نے پہلی ممکنہ صورت میں بیان کی۔ تاہم ایک زبان کے بولنے والے مقامی اور غیر مقامی افراد کی بول چال میں بہت نمایاں فرق ہوتا ہے، جیسا کہ عملی ادبیات اور اسی نوعیت کی دیگر بہت سی علمی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی زبان میں مقامی اور غیر مقامی افراد کے درمیان با محاورہ اور لفظی گفتگو میں وثوق سے امتیاز کرنے میں فرق پائے جاتے ہیں۔[lxiv] انگریزی بولنے والے ایسے افراد، جن کے والد یاوالدہ میں سے کوئی ایک بھی بدیسی تھا اور وہ جن کے دونوں والدین مقامی تھے، ان میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کے والدین میں سے کوئی ایک بدیسی تھا، کچھ امور میں ان لوگوں سے جن کے والدین مقامی تھے، نسبتاً بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتے پائے گئے۔[lxv] حتیٰ کہ ایسے بدیسی انگریزی بولنے والے جو مقامی انگریزی بولنے والوں کے برابر استعداد رکھتے تھے، میں بھی چند باریک سے فرق ضرور پائے گئے۔ کینیتھ ہالٹن اسٹام اور نکلس ابراہامسن[29] اپنی تحقیق میں یہ نتیجہ پیش کرتے ہیں کہ باصلاحیت بدیسی افراد اپنی گفتگو میں کچھ غیر محسوس آثار ظاہر کر رہے ہوتے ہیں, جو باریک بینی اور ایک ترتیب وار تجزیے کے بغیر نظر نہیں آتے۔[lxvi] چنانچہ یہ سمجھنا کہ قرآن بحیثیت یکتا و بے مثل کمالات کے حامل اور ایک ادبی شاہکار کے، کسی غیر عرب یا بدیسی شخص کی تخلیق ہو سکتا ہے ایک عقل سے بعید خیال ہے۔

 کیا محمد ﷺ خود اس کے مصنف ہو سکتے ہیں؟

اس سلسلے میں یہ جاننا سود مند ہو گا کہ نزولِ وحی کے ابتدائی زمانے میں مشرکین عرب محمد ﷺ پر شاعر بننے کا الزام دیا کرتے تھے لیکن وہ اپنے اس الزام پر زیادہ دیر قائم نہ رہ سکےاور جلد ہی محمد ﷺ کو قرآن کا مصنف قرار دینا ترک کرچکے تھے۔ پروفیسر مہر علی لکھتے ہیں:

“یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن کو کوئی بھی اہلِ علم شاعری کی کتاب تصور نہیں کرتا۔ اور نہ پیغمبر محمد ﷺ نے کبھی شاعری کی کوشش کی۔ یہ درحقیقت ابتدائی دور میں ایمان نہ لانے والے قریش کی جانب سے نبوت کی مخالفت میں لگایا گیا الزام تھا کہ محمد ﷺ شاعر ہوگئے ہیں۔ لیکن جلد ہی انھیں اپنے الزام کے بے فائدہ ہونے کا اندازہ ہو گیا اور انھیں اپنے مخالفانہ بیانات کو اس ناقابلِ تردید حقیقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر تبدیل کرنا پڑا کہ محمد ﷺ لکھنے پڑھنے سے نا آشنا اور شاعری کے فن سے قطعی ناواقف تھے، اور اب ان کا کہنا تھا کہ محمد ﷺ کو کوئی دوسرا شخص سکھاتا ہے جو ان کے لیے پرانی گھسی پٹی کہانیاں گھڑتا ہے اور انھیں صبح و شام سناتا ہے۔ “[lxvii]

اہم بات یہ ہے کہ پیغمبر محمد ﷺ کو کلام کا ماہر نہیں سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی وہ کبھی شاعری یا قافیہ بندی میں مشغول پائے گئے۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ انھوں نے اپنی انسانی استعداد میں رہتے ہوئے خود ہی کسی طرح ایک بے مثال لسانی و ادبی شاہکار تخلیق کر کے دنیائے شعر و ادب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا، سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ کرمانی لکھتے ہیں “اس دن تک جب سے انھوں نے اعلانیہ قرآن کی آیات سنانا شروع کیں، انھوں نےکبھی بھی شاعری کے کٹھن فن کو نہیں پڑھا تھا… جبکہ محمد ﷺ جو کچھ تلاوت کرتے تھے, وہ شاعری، کاہنوں کی قافیہ بندی یا اس دور میں پائے جانے والے دیگر الہامی منظوم کلام سے مختلف تھا۔ “[lxviii]

مفتی تقی عثمانی اسی نوعیت کے دلائل پیش کرتے ہیں: “یہ صدا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اسے کہنے والا وہ شخص تھا، جس نے اپنی زندگی کے چالیس سال تک، اپنے دور کے کسی معروف شاعر یا اہلِ علم سے کبھی تعلیم حاصل نہ کی تھی، کبھی ایک شعر تک نہ پڑھا تھا اور کبھی کاہنوں کے پاس اٹھا بیٹھا نہ تھا۔ شعر کہنے کا ان سے گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، حتیٰ کہ کسی دوسرے شاعر کے اشعار بھی ٹھیک سے ازبر نہ تھے۔ “[lxix]

نہ صرف یہ، بلکہ پیغمبر محمد ﷺ کی ارشاد کی گئی مستند احادیث، قرآن کے اسلوب سے ایک بالکل جدا طرز رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر دراز[30] قرآن اور پیغمبر محمد ﷺ کے ذاتی کلام کے فرق کے بارے میں کہتے ہیں:

“جب ہم قرآن کے اسلوب کی بات کرتے ہیں تو ہم اسے شروع تا آخر یکساں پاتے ہیں، جب کہ پیغمبر محمد ﷺ کا اپنا ذاتی طرزِ کلام بالکل مختلف ہے۔ یہ قرآن سے کہیں بھی برابری نہیں کرتا، اس کی مثال تو بس ایسی ہے، جیسے ایک انسان بلندی پر محوِ پرواز پرندوں کی برابری نہیں کر سکتا۔ ہاں ان کے ساتھ حرکت کر سکتا ہے۔ جب ہم انسانوں کے طرزِ کلام کو دیکھتے ہیں تو یہ سب ہمیں سطحِ زمین سے لگےہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی رینگنے والا ہوتا ہے اور کوئی نسبتاً تیز چلنے والا۔ لیکن جب آپ ان میں سے تیز ترین کو لے کر اس کا موازنہ قرآن کے ساتھ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گو یا سڑک پر چلتی گاڑیوں کی رفتار کا موازنہ مدار میں گھومتے سیارے کی رفتار سے کیا جا رہا ہو۔ “[lxx]

تاہم، ڈاکٹر دراز کی اسلوب کے مختلف ہونے کی دلیل، ممکن ہے شاعروں اور نثر گو فنکاروں کو سامنے رکھتے ہوئے بہت زیادہ قوی معلوم نہ ہو۔ شاعر اور نثر گو فنکار اپنی روزمرہ کی گفتگو اور اپنے فنی کلام میں اسلوب کا واضح فرق رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے کمزور تصورکی جائے گی کہ پیغمبر محمد ﷺ نے قرآن تصنیف نہیں کیا۔ لیکن یہاں اس کے ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر محمد ﷺ اور قرآن کا لب و لہجہ بالکل یکساں، یا ملتا جلتا بھی ہوتا تو قرآن کے یکتا و بے مثل الہامی کلام ہونے کے دعویٰ کے سچ ہونے کے امکانات معدوم ہو جاتے۔

پیغمبر محمد ﷺ اپنے پیغمبرانہ مشن کے دوران بہت سی آزمائشوں اور اذیتوں سے گزرے۔ مثلاً، ان کے بچوں کا کم عمری میں انتقال ہو گیا، ان کی محبوب ترین اہلیہ خدیجہ ؓ رحلت فرما گئیں، ان کا معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا، ان کے قریبی ساتھیوں پر تشدد کیا گیا اور بعض کو قتل بھی کر دیا گیا، خود ان پر پتھر پھینکے گئے، ان کے خلاف جنگی مہمات شروع کی گئیں، لیکن ان سب کے درمیان قرآن کا ادبی اسلوب ویسا ہی رہا جیسا کہ کلام الٰہی کو زیب دیتا ہے۔[lxxi] قرآن میں کسی بھی مقام پر محمد ﷺ کے جذبات اور زندگی کے مدّو جزر کی پرچھائیں نہیں ملتیں۔ نفسیاتی اور جسمانی لحاظ سے ایسا ہونا نا ممکن ہے کہ وہ سب کچھ جو محمد ﷺ پر بیتا، سہا جائے، اور اس کے نتیجے میں جو جذبات پیدا ہوں ان کا کوئی اثر قرآن کے ادبی اسلوب پر ثبت نہ ہو۔

ادبی نقطہ نظر سے، قرآن کو ایک لاثانی شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ ایک معیاری ادبی لٹریچر بنانے کے لیے لازم ہے کہ اس میں غور و خوص کرکے تبدیلیاں کی جائیں۔ نابغہ روزگار شخصیات نے آج تک جتنے بھی ادبی شاہکار تخلیق کیے وہ سب ردوبد ل اور کانٹ چھانٹ کے مرحلے سے گزر کر کمال کے درجے تک پہنچے ہیں۔  یہ کسی بھی شخص کے بس میں نہیں کہ وہ کھڑے کھڑے نہایت نفیس نوعیت کا لٹریچر تخلیق کر ڈالے۔ جب کہ قرآن درحقیقت اسی طرح نازل ہوا۔[lxxii]یعنی اس کی اکثر آیات ان دنوں میں پیش آنے والے کسی خاص واقعے، یا حالات سے متعلق احکام پر ہیں۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ ایک دفع لوگوں کے سامنے پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کی کسی نئی آیت کی تلاوت فرمائی، اور پھر اس میں خود محمد ﷺ یا کسی اور نے لغوی اصلاح کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ اس کے باوجود ان آیات کے مجموعے نے ایک ادبی شاہکار کی شکل اختیار کر لی۔ اس تفصیل کی روشنی میں، یہ امکان کہ قرآن محمد ﷺ نے تصنیف کیا ہو گا، بالکل بے بنیادقطعی ناممکن ثابت ہوتا ہے۔

اس نکتے کو مزید واضح کرنے کئے لیے مشہور شاعر المتنبّی کے کام کی مثال دی جا سکتی ہے، جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے۔ -متنبی کو تمام عرب شاعروں میں سب سے بڑا اور لاثانی و غیر معمولی ذہین سمجھا جاتا تھا۔ لہذا ، کچھ لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ اس کا کام بے مثال تھا ، اور یہ کہ وہ ایک انسان تھا ، اس کا مطلب ہے کہ قرآن مجید بھی کسی انسان نے لکھا تھا۔ المتنبّی کے متعلق ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلام کو سنوارتا نکھارتا رہتا تھا جب تک کہ وہ اس سے مطمئن نہ ہو جائے۔[lxxiii] واضح طور پر یہ معاملہ محمد ﷺ  کے ساتھ نہیں تھا ، کیوں کہ انہوں نے قرآن مجید کے وحی ہونے کے بعد، ایک بار بھی اس میں تصحیح، ترمیم یا تبدیلی نہیں کی۔ اس کا صرف ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ قرآن کسی ادبی ذہن کا کام نہیں ہے ، جسے عام طور پر ،اپنے کام پر  نظر ثانی کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

چنا چہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کو محمد ﷺ کی انسانی کاوش کا نتیجہ سمجھنا سراسر غلط خیال ہے۔ ایک ادبی صاحبِ کمال کو بھی اپنے کلام کو معیاری شکل دینے کے لیے رد و بدل اور ترامیم سے گزارنا پڑتا ہے۔ لیکن قرآن کے ساتھ یہ معاملہ نہیں تھا۔ تمام انسانی تخلیق کی مثل دوسری شئے تخلیق کی جا سکتی ہے، اگر اس تخلیق کا نقشہ اور درکار اسباب و وسائل موجود ہوں۔ ہم یہ ادبی صاحبانِ کمال شیکسپیئر اور المتنبّی کی مثال کے ذریعے سمجھا چکے ہیں۔ چنانچہ اگربالفرض قرآن محمد ﷺکی تخلیق ہوتا تو اس کی نقل بنائی جا چکی ہوتی۔

اس خیال کو رد کرنے کی ایک اہم ترین دلیل انسانوں کے اظہار کی دستیاب شکلوں اور ان کو تخلیق کرنے کے اسباب و وسائل میں چھپی ہے۔ خیالات کے اظہار کی تمام انسانی کاوشوں کی نقل ممکن ہے، چاہے وہ کسی صاحبِ کمال نے کی ہو یا کسی عام شخص نے کی ہوں، بس شرط یہ ہے کہ اس کا نقشہ اور اسے بنانے کے لیے مطلوب اسباب و وسائل دستیاب ہوں۔ یہ دعویٰ متعدد انسانی اظہار کی صورتوں مثلاً آرٹ، ادب، یہاں تک کہ پیچیدہ ٹیکنالوجی کے لیے بھی درست ثابت کر دکھایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی فن پارے کی نقل ممکن ہے ،چاہے وہ کتنا ہی غیر معمولی اور حیرت انگیز حد تک منفرد سمجھا جاتا ہو۔[lxxiv] لیکن قرآن کے معاملے میں، ہمارے پاس اس کا مکمل نقشہ (بصورت مصحف قرآن ) بھی موجود ہے، اور اس کی تخلیق میں استعمال ہونے والے وسائل بھی، یعنی چند گنے چنے حروف اور پرانے دور سے چلے آرہے گرائمر کے چند قاعدے۔ اس کے باوجود کوئی بھی اس کی بلاغت، منفرد ادبی طرز اور اسلوب کامقابلہ نہیں کر سکا۔

9.      لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ معقول ترین توجیہہ یہی ہے کہ قرآن من جانب اللہ ہے۔

چونکہ قرآن کا خالق کوئی عرب نہیں ہو سکتا، کوئی غیر عرب نہیں ہو سکتا، پیغمبر محمد ﷺ خود نہیں ہو سکتے، لہٰذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سب سے معقول توجیہہ یہی ہے کہ قرآن منزل من اللہ ہے۔ یہ قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی سب سے بہتر طور پر سمجھ میں آنے والی تاویل ہے کیونکہ دستیاب معلومات کی روشنی میں دیگر ممکنہ صورتیں غیر منطقی ہیں۔ جو نتیجہ ہم نے اخذ کیا اس سے اختلاف ممکن ہے، اور وہ یہ کہ اس تصور کو درست تسلیم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خدا کے وجودکے قائل ہوں، چنانچہ اس سے خدا کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا سوال اٹھتا ہے۔ گو کہ اس سوال کے جواب سے ہماری اس بحث کو سمجھنا آسان ہو گا، اور اگرچہ خدا کے وجود کے بارے میں کوئی رائے قائم کیے بنا بھی ہمارا نظریہ اپنی جگہ مستحکم ہے، تاہم واضح رہے کہ ہم نے اسے خدا کے وجودپر ایمان رکھنے والے حضرات ہی کے لیے پیش کیا ہے۔ ویسے بھی خدا کا وجود ثابت کرنا کوئی دشوار نہیں ہے اس کتاب میں شروع سے لے کر آخر تک خدا کے وجود کے اثبات کے لیے ایک مدلل بحث پیش کی گئی ہے۔

اس کے برعکس، یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان رکھنا اس بحث کو سمجھنے کی شرط نہیں بلکہ قرآن کا یکتا و بے مثل ہونا خود خدا کے وجود کی نشانی ہے۔ اگر کوئی انسان (عرب، غیر عرب، پیغمبر محمد ﷺ) قرآن تخلیق نہیں کر سکتے تھے، اور تمام ممکنہ صورتیں بھی ہم کھنگال چکے، تو آخر وہ کونسی ہستی ہے جس نے اسے نازل کیا؟ ایسی ہستی کہ جس کےپاس انسانی تاریخ کے کسی بھی مصنف سے بہتر ادبی صلاحیتیں ہیں؟ اس سوال کا فطری نتیجہ ایک ایسی ذات کا تصور ہے جو انسانوں سے اعلیٰ و برتر درجے کی ادبی استعداد رکھتی ہو، اور یہی دراصل خدا کا تصور ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ چنانچہ قرآن کا یکتا و بے مثل ہونا اللہ کے وجود کی منطقی بنیاد فراہم کرتی ہے، یا کم از کم ادراک سے بالاتر کسی ہستی کا پتادیتا ہے۔

سائنسدانوں نے بھی اسی نوعیت کے استدلال کو قبول کیا ہے۔ ہگز باسن (Higgs-Boson)کی حالیہ دریافت کی مثال لے لیجیے۔ ہگز باسن کا ذرّہ ہگز(Higgs-Boson  particle) کا دائرہ اثر(Higgs  field)بناتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دائرہ اثر، کائنات کی تخلیق کے آغاز میں وجود میں آیا اور اس سے ذرّات میں کمیّت(mass) پیدا ہوئی۔ جب یہ ذرّہ دریافت نہیں ہوا تھا اس وقت بھی اسے اس امر کی معقول ترین تاویل سمجھ کر قبول کیا جاتا تھا کہ کائنات کی تخلیق کی ابتدا میں ذرّات کی حالت میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی کہ جس سے کمیّت نہ رکھنے والے ذرّات میں کمیّت پیدا ہوگئی (فوٹون ایک استثنا ہیں)۔ چنانچہ دستیاب حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہگز باسن سب سے زیادہ سمجھ میں آنے والا تصور تھا باوجود اس کے کہ مشاہدے سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔ اسی استدلال کو اب قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے پر استعمال کریں تو واضح ہو گا کہ اس کے منفرد ادبی اور کلامی کمالات کی سب سے بہتر طور پر سمجھ میں آنے والی تاویل اس کا من جانب اللہ ہونا ہے۔ دیگر تمام تاویلیں عقل کو مطمئن کرنے میں ناکام ہیں، اور دستیاب معلومات اور حقائق کی سب سے معقول تاویل خدا کا وجود ہی ہے۔

دیگر متبادل تاویلات

قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی متبادل تاویلوں میں سے یہ بھی سوچی جا سکتی ہے کہ شاید یہ کسی دوسری زیادہ باصلاحیت مخلوق کی جانب سے ہو یا شیطان نے اسے تخلیق کیا ہو۔ لیکن یہ متبادل صورتیں بھی غیر حقیقی ہیں اور اسی وجہ سے ہم نے انھیں اس مضمون کے مرکزی موضوع میں شامل نہیں کیا۔ پھر بھی یہاں ان کا جواب دینے سے واضح ہو جائے گا کہ اصل مضمون میں ہم نے ان پر بات کیوں نہیں کی۔

یہ نظریہ وضع کرنا کہ قرآن کسی برتر مخلوق کی طرف سے ہے دراصل خدا ہی کے وجود کے اقرار کے ہم معنی ہے۔ کسی ’’برتر مخلوق‘‘ سے کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا “بر تر مخلوق” کے وجود کی سب سے بہتر توجیہہ خودخدا کے تصور کی ایک بگڑی ہوئی شکل نہیں؟ اگر برتر مخلوق سے مراد کوئی ایسی ہستی ہے جو انسانوں سے کہیں بہتر کلام کی قوت، استعداد اور صلاحیت رکھتی ہو تو خدا سے بہتر اس تعریف پر کون پورا اترتاہے؟ اس کتاب میں خدا کے وجود کے بالکل علیحدہ ثبوت پیش کیے گئے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ خدا ہم سے کلام کرنا چاہتا ہو۔ یہ اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ خدا نے نہ صرف ہماری اس کائنات کو وجود بخشا اور اسے شکل دی، بلکہ اس میں ہماری بقا کے لیے تمام اسباب بھی مہیا کیے۔ مزیدیہ کہ اس نے ہمیں روح اور شعور عطا کیا اور ہم میں اخلاقیا ت کی حس بھی پیدا کی۔

صاف نظر آتا ہے کہ ہماری بقا اور ہمارے پھلنے پھولنے میں خدا کی واضح چاہت شامل ہے۔ یہاں تک کہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ ہم سے وحی کی صورت میں کلام کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن جو کلام اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ایسی خاصیتیں رکھتا ہے جو خدائی افعال کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں تو خدا کی ذات کو قرآن کا مصنف تسلیم کرنا عین عقل کا تقاضا معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ قرآن کسی نامعلوم برتر ہستی نے کسی نا معلوم وجہ سے نازل کیا ہے ایسا ہی ہے جیسے آپ کو جب بھی کچھ ثابت کرنا ہو تو آپ کسی بھی نا معلوم ہستی کا وجود گھڑ لیں۔

خدا کے وجود کے قائل افراد اس امکان پر بھی بات کرتے ہیں کہ آیا قرآن کسی شیطان کی تخلیق ہو سکتا ہے؟ یہ صورت بالکل لغو ہے۔ قرآن کسی شیطان یا کسی روح کی تخلیق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ شیطان اور روح تو وہ تصورات ہیں جو قرآن اور وحی نے متعارف کرائے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ قرآن کسی شیطان کی جانب سے ہے تو اسے پہلے شیطان کو ثابت کرنا پڑے گا اور اس کے لیے لامحالہ وحی کا وجود تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب قرآن کو بطور وحی شیطان کے ثبوت کے لیے پیش کیا جائے گا، تو یہ قرآن کو الہامی کلام تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا ۔کیونکہ شیطان کے وجود پر یقین رکھنے سے قبل یہ تسلیم کیا جائے گا کہ قرآن الہامی کتاب ہے اور اس سے یہ اعتراض ازخود اپنے داخلی تضاد کا شکار ہو جائے گا۔ اگر تو جس وحی سے شیطان کا وجود ثابت کیا جا رہا ہو اس کابائبل میں پائے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہو، تو شیطان پر یقین کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ وہ وحی واقعی بائیبل میں موجود تھی۔ بائیبل کے تاریخی طور پر مستند ہونے اور اس کے متن کی درستگی پر کی جانے والی موجودہ دور کی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ ایسا ثابت کرنا ممکن نہیں۔[lxxv] مزید یہ کہ قرآ ن کے متن پر غور کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی شیطان کی تعلیمات نہیں کیونکہ قرآن شیطان کی مذمت کرتا ہے اور ایسی اخلاقیات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جو شیطان کے بارے میں ہمارے تصور ات سے مناسبت نہیں رکھتیں۔ ان سب سے قطع نظر، شیطان کو الزام دینا ہمارےعلمی طرزِ عمل سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ ہم کسی بھی معاملے کو شیطان کی کارستانی قرار دے کر جان چھڑا سکتے ہیں، یہ کسی مسئلے پر علمی بحث سے فرار ہونا ہے۔

حاصلِ بحث

اس باب میں ہم نے “گواہی” اور “تاویل” کی مدد سے قرآن کے الہامی ہونے کے دلائل پیش کیے ہیں۔ “گواہی” کے اہم اور کلیدی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور بتایا گیا ہے کہ تاویل کی مدد سے کسی حقیقت کے بارے میں سب سے بہتر طور پر سمجھ میں آنے والی ممکنہ صورت پر یقین کرنا عقل کی رو سے ایک درست طرزِ عمل ہے۔ قرآن کا یکتا و بےمثل ہونا گواہی کی مدد سے ثابت ہے۔ عرب زبان دان اور ماہرین ِ ادب نے قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی تصدیق کی ہے، اور گواہی کے ذریعے سے اس بارے میں ان کے جواقوال ہم تک پہنچے ہیں، وہ قابلِ بھروسا ہیں کیونکہ سیاق و سباق سے متعلق دستیاب معلومات بھی ان کی تصدیق کرتی ہیں۔

ان سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے دنیا کو اپنے کلامی اور ادبی شاہکار کے مقابلے کے لیے سوچ سمجھ کر للکارا، اور ساتویں صدی کے عرب اس میدان میں قرآن کا مقابلہ کرنے کی سب سے بہتر استعداد رکھتے تھے، اور یہ حقیقت ہے کہ وہ قرآن کے جیسا منفرد متن، اور ادبی اسلوب پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ اور چونکہ سابقہ احوال کی مستند معلومات کی روشنی میں قرآن کے یکتا و بے مثل ہونے کی گواہی کو معتبر تسلیم کرنا ایک معقول رویّہ ہے، لہٰذا اس کے بعد ہم نے قرآن کے منفرد کلامی و ادبی کمالات کی ممکنہ صورتوں پر غور کیا۔ یعنی قرآن کو یا تو کسی عرب نے، یا کسی غیر عرب نے یا پھر پیغمبر محمد ﷺ نے تصنیف کیا یا اللہ رب العالمین نے نازل کیا۔ لیکن جو معلومات دستیاب ہیں انکی روشنی میں قرآن کو کسی عرب، غیر عرب یا محمد ﷺ کی تخلیق سمجھنا عقل سے بالاتر ہے۔ اس لیے سب سے معقول توجیہہ یہ ہے کہ یہ منزل من اللہ ہے۔ جو نتیجہ ہم نے اس مضمون میں اخذ کیا ہے، اسے رد کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس حقیقت کو رد کیا جائے کہ دنیا گول ہے۔ یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی مستند ماہرِ طب کی رائے کو جھٹلا دیا جائے۔ دنیا کی گول ساخت کا علم ہم میں سے بیشتر افرادتک کسی دوسرے فرد کی گواہی کے ذریعے ہی پہنچا ہے، اور کسی تربیت یافتہ طب کے ماہر کی رائے صورتحال کی معقول ترین توجیہہ پر مشتمل ہوتی ہے۔

ہمارے اس دعوے کے جواب میں شاید فوری طور پر کہا جائے کہ دنیا کے گول ہونے اور طبی تشخیص پر اعتبار کرنا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہمارے علم میں جو دیگر معلومات ہیں، یہ حقائق ان سے مناسبت رکھتے ہیں اور یہ کوئی ایسے غیر معمولی خیالات پر اعتبار کرنے کا تقاضہ نہیں کرتے، جیسے کسی مافوق الفطرت ہستی پر ایمان لانا۔ یہ ایک عام طور پر پایا جانے والا خیال ہے ،لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ نیچری فلسفے کو پہلے سے ٹھیک قبول کیے ہوئے ہیں۔ اس طرز کے خدشات کے پیچھے یہ اعتقاد چھپا ہوتا ہے کہ کوئی فوق الفطرت شے وجود نہیں رکھتی اور یہ کہ کائنات میں جاری ہر عمل کو مادی اسباب کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ غیر محتاط اور مفروضوں پر مشتمل نقطہ نظر، بالکل بے معنی اور فکر و تدبر کے فلسفے، زبانوں کے وجود میں آنے اور پروان چڑھنے، خارجی اخلاقی حقیقتوں اور کائناتی علوم سے متصادم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم اس باب میں کسی مافوق الفطرت وجود کا تصور پیش نہیں کر رہے۔ ہم تو پچھلے ابواب میں پیش کئے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر صرف  اس ہستی(اللہ) کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ہستی کا وجود کہ جسے ہم پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں، بہت سی حقیقتوں کی درست توجیہہ پیش کرتا ہے۔

اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہوئے ہم کہنا چاہیں گے کہ اگر کوئی کھلے دل و دماغ کے ساتھ، اور ذہن کو دنیا کے بارے میں فرض کیے گئے جامد تصورات کی بندشوں سے آزاد کر کے ہمارے دلائل کا مطالعہ کرے گا، تو وہ ضرور اس دانشمندانہ نتیجے پر پہنچے گا کہ قرآن منجانب اللہ ہے۔ تاہم، قرآن سے متعلق جو بھی کہا یا لکھا جائے وہ اس کے الفاظ اور ان کے مطالب کے بیان اور ان پر تحقیق کے لیے ہمیشہ ناکافی رہے گا۔

“اے محمد ﷺ کہو، اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے، تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔ “[lxxvi]


[1] Photosynthesis

[2] Ultraviolet rays

[3] Testimony: A Philosophical Discussion by C. A. J. Coady

[4] David Hume

[5] On Miracles

[6] اس شرط کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کیسے معلوم ہو گا کہ میرے مشاہدے کا نتیجہ کیا نکلا؟ یقیناً اس کے بارے میں آپ کو میری بات پر یقین کرنا ہو گا۔ تاہم ہیوم کے انداز فکر پر چلنے سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ میری بات کا بھی یقین صرف اس وقت کریں جب میری گواہی کی صحت بھی اجتماعی مشاہدے کے نتیجے میں درست قرار پائے۔

[7] Elizabeth Fricker

[8] Keith Lehrer

[9] Benjamin Mc Myler

[10] Peter Lipton

[11] Neptune

[12] Uranus

[13] Gilbert .H. Harman

[14] Angelika Neuwrith

[15] H Palmer

[16] M A Draz

[17] A. J.Arberry

[18] Bruce Lawrence

[19] Hamilton Gibb

[20] Denis E۔ McAuley

[21] Emil Homerin

[22] Seager.A.Bonebakker

[23] Christopher Marlowe

[24] Francis Beaumont, John Fletcher

[25] Post Mordernist

[26] Theodor Nӧldeke

[27] Discovering the Qur’an: A Contemporary Approach to a Veiled Text by Neal Robbinson

[28] The fallacy of phantom options

[29] Who can become native-” like in a second language? All, some, or none? by Kenneth Hyltenstam , Niclas Abrahamsson

[30] Draz


[i] iERA. (2013). Lawrence Krauss vs Hamza Tzortzis – Islam vs. Atheism Debate.            Available at: http://www.youtube.com/watch?v=uSwJuOPG4FI#t=7247 [Accessed 2nd October 2016].

                 [ii] Hume, D. (1902). An Enquiry Concerning Human Understanding, section 88.  Available at: http://www.gutenberg.org/files/9662/9662-h/9662-h.htm [Accessed 4th October 2016].

       [iii] Fricker, E. (2006). Testimony and Epistemic Autonomy. In: Jennifer Lackey, J and Sosa, E, ed, The Epistemology of Testimony. Oxford: Oxford University Press, p. 244.

  [iv] Lehrer, K. (2006). Testimony and Trustworthiness. In: Jennifer Lackey, J and Sosa, E, ed, The Epistemology of Testimony, p.145.

[v] Ibid, p.149.                                                                                                                                                  

[vi] Ibid, p. 150.                                                                                                                                                   

[vii] Ibid.                                                                                                                                                                  

[viii] Ibid.                                                                                                                                                                 

[ix] Ibid, p.151.                                                                                                                                                   

[x] Ibid, p.156.                                                                                                                                                   

[xi] Ibid, pp. 156-157.                                                                                                                                              

[xii] McMyler, B. (2011). Testimony, Truth and Authority, p 66.                                                       

[xiii] Ibid, p 69.                                                                                                                                                             

                 [xiv] Hume, D. (1902). An Enquiry Concerning Human Understanding, section 91. Available at: http://www.gutenberg.org/files/9662/9662-h/9662-h.htm [Accessed 4th October 2016]

[xv] Ibid, section 99.                                                                                                                                                     

[xvi] Lipton, P. (2004). Inference to the Best Explanation. 2nd ed. Abingdon: Routledge, p.56.

[xvii] Ibid, pp. 64-65.                                                                                                                                                      

[xviii] Harman, G. (1965). The Inference to the Best Explanation. The Philosophical Review, 74(1), pp. 88-95. Also available at: http://people.hss.caltech.edu/~franz/Knowledge%20and%20Reality/PDFs/Gilbert%20H.%20Harman%20-%20The%20Inference%20to%20the%20Best%20Explanation.pdf [Accessed 4th October 2016].

[xix] سورة العلق, آیت 1

[xx] The Magnificent Qur’an: A Unique History of Preservation. (2010). London:                    Exhibition Islam, pp. 145-204.

    [xxi] Al-Suyuṭi. J. (2005). Al-Itqan fi ‘Ulum al-Qur’an. Madina: Mujamma Malik Fahad, p. 1875.

[xxii] Shafi, M. (2005). Ma’riful Qur’an. 2nd Edition. Translated by Muhammad Jasan Askari and Muhamad Shamim. Karachi: Maktaba-e-Darul-Uloom. Vol 1, pp. 139-149.

[xxiii] Usmani, M. T. (2000). An Approach to the Quranic Sciences. Translated by Dr.              Mohammad Swaleh Siddiqui. Revised and Edited by Rafiq Abdur Rehman. Karachi: Darul Ishaat, p. 260.

           [xxiv] Cited in Irwin, R. (1999). The Penguin Anthology of Classical Arabic Literature.  London: Penguin Books, p. 2.

[xxv] Ibn Khaldun, A. The Muqaddimah. Translated by Franz Rosenthal. Chapter 6, Section   58. Available at: http://www.muslimphilosophy.com/ik/Muqaddimah/Chapter6/Ch_6_58.htm [Accessed 9th October 2016].

[xxvi] Ibn Rasheeq, A. H. (2000). Al-‘Umda fee Sina’atu al-Sh’iar wa Naqdihi. Edited by Dr. Al-Nabwi Sha’lan. Cairo: Maktabu al-Khaniji, p. 89.

     [xxvii] Al-Qutaybah, A. (1925) ‘Uyun al-Akhbar. Beirut: Dar al-Kutub al-Arabi. Vol 2,  p. 185.

               [xxviii] Kermani, K. (2006). Poetry and Language.  In: Rippin, A. (ed.). The Blackwell Companion to the Qur’an. Oxford: Blackwell Publishing, p. 108.

              [xxix] Abdul-Raof, H. (2003). Exploring the Qur’an. Dundee: Al-Makhtoum Institute Academic Press, p.64.

              [xxx] Personal interview with Professor Angelika Neuwrith in German. A copy of the recording is available on request.

    [xxxi] Islahi, A. A. (2007). Pondering Over the Qur’an: Tafsir of Surah al-Fatiha and Surah al-Baqarah. Vol 1. Translated by Mohammad Saleem Kayani. Kuala Lumpur: Islamic Book Trust, pp. 25-26.

        [xxxii] Cited in Islahi, A. A. (2007). Pondering Over the Qur’an: Tafsir of Surah al-Fatiha and Surah al-Baqarah. Vol 1, p. 26.

[xxxiii] Palmer, E. H. (tr.). (1900). The Qur’an. Part I. Oxford: Clarendon Press, p. lv.                 

[xxxiv] Draz, M. A. (2000). Introduction to the Qur’an. London: I. B. Tauris, p. 90.                       

          [xxxv] Zammit, M. R. (2002). A Comparative Lexical Study of Qur’anic Arabic. Leiden: Brill, p. 37.

      [xxxvi] Waliyyullāh, S. (2014). Al-Fawz al-Kabīr fī Uṣūl at-Tafsīr. The Great Victory on Qur’ānic Hermeneutics: A Manual of the Principles and Subtleties of Qur’anic Tafsīr. Translated, Introduction and Annotated by Tahir Mahmood Kiani. London: Taha, p.160.

                [xxxvii] Arberry, A. J. (1998). The Koran: Translated with an Introduction by Arthur J. Arberry. Oxford: Oxford University Press, p. x.

[xxxviii] Usmani, M. T. (2000). An Approach to the Quranic Sciences, p. 262.                                    

    [xxxix] Al-Suyuṭi. J. (2005). Al-Itqan fi ‘Ulum al-Qur’an. Madina: Mujamma Malik Fahad, p. 1881.

Ibid.                                                                                                                                                                            [xl]

[xli] Lawrence, B. (2006). The Qur’an: A Biography. London: Atlantic Books, p 8.                    

[xlii] Gibb, H. A. R. (1980). Islam: A Historical Survey. Oxford University Press, p. 28.           

                  [xliii] Van Gelder, G. J. H. (2013). Classical Arabic Literature: A Library of Arabic Literature Anthology. New York: New York University Press, pp. 31-33.

         [xliv] McAuley, D. E. (2012). Ibn `Arabi’s Mystical Poetics. Oxford: Oxford University Press, p.93.

[xlv] Ibid, p. 94.                                                                                                                                                     

[xlvi] Cited in D. E. (2012). Ibn `Arabi’s Mystical Poetics. Oxford: Oxford University Press, p.94.

  [xlvii] Bonebakker, S. A. (1984). Hatimi and his Encounter with Mutanabbi: A Biographical Sketch. Oxford: North-Holland Publishing Company, p.47.

  [xlviii] Ibid, p.15; and see Ouyang, W. (1997). Literary Criticism in Medieval Arabic Islamic Culture: The Making of a Tradition. Edinburgh University Press.

[xlix] Ibid, p. 44.                                                                                                                                                     

[l] Mabillard, A. (1999). Shakespearean sonnet basics: Iambic pentameter and the                English sonnet style. Available at: http://www.shakespeare-online.com/sonnets/sonnetstyle.html [Accessed 5th October 2016].

               [li] Holland, P. (2013). Shakespeare, William (1564–1616). Oxford Dictionary of National Biography. Oxford University Press. Available at: http://dx.doi.org/10.1093/ref:odnb/25200 [Accessed 9th October 2016].

[lii] Cited in Abdel Haleem, M. (2005). Understanding the Qur’an: Themes & Styles.             London: I. B. Tauris, p. 184.

                [liii] Abdul-Raof, H. (2003). Exploring the Qur’an. Dundee: Al-Maktoum Institute Academic Press; Abdul-Raof, H. (2001). Qur’an Translation: Discourse, Texture and Exegesis. Richmond, Surrey: Curzon.

[liv] Abdel Haleem, M. (2005). Understanding the Qur’an: Themes & Styles, p. 185.                

[lv] Ibid, p. 188.                                                                                                                                                    

[lvi] Chowdhury, S. Z. (2010). Introducing Arabic Rhetoric. Updated Edition. London:        Ad-Duha, p. 99.

[lvii] Ibid.                                                                                                                                                                

[lviii]  سورة الكوثر، آیت 3-1

 [lix] Robinson, N. (2003). Discovering The Qur’an: A Contemporary Approach to a  Veiled Text, 2nd Edition. Washington: Georgetown University Press, p. 254.

[lx] Cited in Qadhi, Y. (1999). An Introduction to the Sciences of the Qur’an. Birmingham: Al-Hidaayah, p. 269. The original translation has been amended; the name Allah has been replaced with God.

                [lxi] Kermani, K. (2006). Poetry and Language. In: Rippin, A. (ed.). The Blackwell Companion to the Qur’an. Oxford: Blackwell Publishing, p. 110.

[lxii] سورة النحل، آیت 103

[lxiii] Ibn Kathir, I. (1999). Tafsir al-Qur’an al-‘Atheem. Vol 4, p. 603.                                                

[lxiv] Vanlancker–Sidtis, D. (2003). Auditory recognition of idioms by native and nonnative speakers of English: It takes one to know one. Applied Psycholinguistics, 24, pp. 45–57.

[lxv] Ibid.                                                                                                                                                                

[lxvi] Hyltenstam, K. and Abrahamsson, N. (2000). Who can become native-like in a second language? All, some, or none? Studia Linguistica, 54, pp. 150–166.

  [lxvii] Ali, M. M. (2004). The Qur’an and the Orientalists. Ipswich: Jam’iyat Iḥyaa’ Minhaaj Al-Sunnah, p. 14.

[lxviii] Kermani, K. (2006). Poetry and Language, p. 108.                                                                         

[lxix] Usmani, M. T. (2000). An Approach to the Quranic Sciences, p. 261.                                   

 [lxx] Draz, M. A. (2001). The Qur’an: An Eternal Challenge. Translated and Edited by Adil Salahi. Leicester: The Islamic Foundation, p. 83.

            [lxxi] Lings, M. (1983). Muhammad: his life based on the earliest sources. 2nd Revised Edition. Cambridge: The Islamic Texts Society, pp. 53-79.

                                       [lxxii] Islamic Awareness. (no date). The text of the Qur’an. Available at: http://www.islamic-awareness.org/Quran/Text/ [Accessed 1st October 2016].

       [lxxiii] Arberry, A. J. (1967). Poems of Al-Mutanabbi. Cambridge: Cambridge University Press, pp. 1-18.

[lxxiv] For example these can include reproductions of Picasso’s art. Available at:                         http://www.sohoart.co/artist/Pablo-Picasso.html [Accessed 6th October 2016].

                                 [lxxv] See Textual Integrity of the Bible. Available at: http://www.islamic-awareness.org/Bible/Text/ [Accessed 7th October 2016].  

[lxxvi]  سورة الكهف، آیت 109

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password