اتنی وسیع کائنات اور انسان کا مقصدِتخلیق

ایک بھائی نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ کائنات اس قدر وسیع و عریض ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، اسی کائنات میں خدا نے ایک نہایت عجیب تر مخلوق انسان بنائی کہ جس کے پاس ارادہ ہے۔ چنانچہ مذھب کا یہ کہنا کہ انسان کو جنت و جہنم میں جانے کے لئے بناگیا تو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ گویا اس وسیع تر کائنات میں انسان کا مقصد اس سے کچھ “وسیع تر” ہونا چاہئے (مفروضہ یہ ہے کہ انسان کا مقصد گویا اس عظیم الشان کائنات کا مقصد متعین کرنا ہونا چاھئے)۔
تبصرہ:
اگر تو کوئی اس سوال کو خالصتا عقلی بنیاد پر حل کرنا چاھتا ہے تو پہلے تو یہ بات سمجھنا چاھئے کہ صرف کائنات کی وسعتوں پر ہی اس قدر حیران ہوکر کیوں ان کا معنی تلاش کرنے کی جستجو میں ہیں، یہ جو ہزاروں قسم کے جانور و کیڑے مکوڑے اس زمین پر موجود ہیں کیا انکا ٹھیک ٹھیک مقصد متعین کرلیا گیا ہے کہ اب نظر اس کائنات کی وسعتوں کی طرف ہے؟ یہ تو ہوئی پہلی بات۔
دوسری بات یہ کہ کائنات کی ھر شے کا مقصد وجود “انسان کو مرکز کائنات فرض کرکے” متعین کرنا ہے، اس مفروضے کی صحت کی کیا دلیل ہے؟ یہ ایک اپنی طرف سے تخلیق کردہ مفروضہ ہے کہ میں تمام حشرات الارض کا مقصد اپنے لحاظ سے متعین کروں گا نیز یوں متعین کیا گیا مقصد ہی اس کائنات میں ان کا درست مقام ہے۔ شیر ھزاروں سال سے زیبرے و ھرن کو کھاتا آرہا ہے، میرے نکتہ نظر سے “کیوں؟” کیا یہ سوال متعلق ہے؟
کہنے کا مطلب یہ کہ اصولی بات یہ ہے کہ “یہ کائنات کیا ہے اور اس میں میری پوزیشن کیا ہے”، اس کا جواب اگر میں اصولا وحی سے متعین کرتا ہوں تو پھر وہی جواب اور اسی حد تک متعلقہ ہوگا جس قدر وحی نے اس راز سے پردے کھلوے ہیں۔ ان حشرات الارض کو خدا نے کیونکر پیدا کیا، کیا میری کامیابی و نجات سے ان کا کوئی تعلق ہے، اگر تو خدا نے اس بابت مجھے مکلف بنایا ہے تو یہ ایک اھم سوال ہے، اور اگر خدا نے مجھے اس بابت مکلف نہیں بنایا تو ھم یہی کہیں گے کہ یہ سوال مجھ سے متعلق نہیں یا یہ کہ میں اپنے مقصد میں کامیابی کی حد تک ان ذرائع کو کیسے استعمال کرسکتا ہوں۔
کائنات کی جس وسعتوں کا ذکر گیا گیا حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر ہزاروں انبیاء کے ادوار تک کے لوگوں کو ان وسعتوں کی خبر نہ تھی مگر وہ پھر بھی جنت میں ہیں اور یہی اصل کامیابی ہے۔ اسکے مقابلے میں اگر ایک فزکس و کاسمالوجی جاننے والے کو کائنات کی وسعتوں کی تو خوب خبر ھو مگر وہ رب کائنات کو پہچاننے سے قاصر رھا تو خطرہ ہے کہ ناکام ہوجائے گا۔ الغرض اس جنت و جھنم کو اس پورے سوال میں جس طرح ایک ھلکے مقام پر رکھا گیا ہے وہ ان غلط مفروضات کا نتیجہ ہے جو سوال میں پیوست ہیں۔ خدا کی نظر میں “انسان کے نکتہ نگاہ سے” اصل سوال جنت و جہنم ہی ہیں۔
کیا اس وسیع کائنات کا یہ فائدہ ناکافی ہے کہ جس رب کی انسان عبادت کرتا ہے ,اس وسیع کائنات کو اپنے علم کے مطابق دیکھ کر سمجھ کر رب کو پہچان لے اور رب کی عظمت کا ادراک کر لے..
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password