قوانینِ فطرت اورخداکی ضرورت

کائنات میں فزیکل لاز کی موجودگی کی بنا پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سائنس نے مذہب کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی کیونکہ کائنات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جو واقعات ہو رہے ہیں وہ ایک متعین قانون فطرت کے مطابق ہو رہے ہیں اس لئے ان کی توجیہہ کرنے کیلئے کسی نامعلوم خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ معلوم قوانین خود اس کی توجیہہ کیلئے موجود ہیں۔۔اس دعوی کی حقیقت دو سوالات سے واضح ہوسکتی ہے۔

٭ پہلا سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا قوانینِ فطرت اپنے طور پر کوئی نظام بناسکتے اور زندگی تخلیق کر سکتے ہیں ؟
کیا قوانین فطرت بےجان اشیاء سے جاندار تخلیق کرسکتے ہیں ؟ملحدین اس کا جواب عموماً ”ہاں“ میں دیتے ہیں یعنی ممکن ہے۔ ایک امریکی مصنفہ Nancy Pearcy اس کا بہت اچھا جواب دیا کہ کیوں قوانینِ فطرت سے، ڈی این اے میں موجود وسیع تر معلومات کا تخلیق پانا ممکن نہیں۔ وہ اپنی کتاب Total Truth میں لکھتی ہیں:
” اصولی طور پر، قوانینِ فطرت معلومات تخلیق نہیں کرتے۔ کیوں نہیں ؟ کیونکہ قوانین ان واقعات کا پتہ دیتے ہیں جو باقاعدہ ہوں، دہرائے جاسکتے ہوں اور اسی بناء پران کا انجام معلوم ہو۔ اگر آپ پنسل کو چھوڑیں، تو وہ گر جائے گی۔ اگر آپ کاغذ شعلے کی نظر کریں تو وہ جل جائے گا۔ اگر آپ پانی میں نمک ملائیں تو وہ حل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی طریقہ کار اس بات پر زور دیتا ہے کہ تجربات لازماً اس طرح کیے جائیں کہ وہ دہرائے جاسکتے ہوں۔ جب بھی ایک مخصوص حالات دوبارہ پیدا کیے جائیں انجام معین و مخصوص ہو۔ ورنہ آپ کے تجربے میں کچھ غلطی ہے۔ سائنس کا مقصد ان تسلسلات کو ریاضی کے فارمولاجات میں سمونا ہے۔ اس کے برعکس، کسی پیغام میں الفاظ کی ترتیب کسی مخصوص اصول کے طابع نہیں ہوتی (از مترجم: یعنی متکلم کی منشاء پر مبنی ہوتی ہے اور ہر متکلم کی منشاء الگ ہوتی ہے) جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قانونی عمل کا نتیجہ نہیں ہو سکتا”۔
قوانینِ فطرت صرف باقاعدہ اور دہرائے جانے والے الفاظ ہی پیدا کرسکتے ہیں جن میں معلومات بہت کم ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایسی الفاظ:ABC ABC ABC ABC ABC۔مگرزیادہ وسیع انفارمیشن کو محفوظ رکھنے کے لیے جو کہ حیاتیاتی احکامات (Biological instructions) جاری کرنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے ، جینیاتی کوڈ کو لازماً بے قاعدہ اور غیر دہرائے جانے والی ترتیب پر چلنا ہوگا۔ ذیل میں ” بے قاعدہ اور غیر دہرائے جانے والی ترتیب“ کی ایک علامتی مثال ہے جس میں ،پچھلی قانونی ترتیبِ الفاظ کی مثال کے مقابلے میں، معلومات بہت زیادہ ہے:“In 1492, Christopher Columbus sailed the ocean blue.””1492 میں، کولمبس نے بحیرہ کا سفر شروع کیا“۔چنانچہ بے قاعدہ اور غیر دہرائے جانے والی ترتیب پر مبنی DNA کی پیچیدہ ترتیب کا مطلب یہی ہے کہ یہ(دو جمع دو چار کرنے والے ) کسی لاء کا نتیجہ نہیں۔
انفارمیشن سائنٹسٹ Henry Quastler اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں: ”نئی معلومات کی عادتاً تخلیق کا تعلق شعوری کوشش (conscious activity) سے ہے۔“ جب بھی ہم معلومات کو اس کے ماخذ تک لے جاتے ہیں،لامحالہ، ہم اس شعور(conscious mind) تک پہنچ جاتے ہیں۔
SETI (جو کہ NASA کا خلائی مخلوق کی تلاش کا پروگرام تھا) کے ہاں بھی ذہین ایجنسی کی شناخت کو سائنس کے دائرہ اختیار میں رکھا گیا ۔(مثال کے طورپر) جفت اعداد کا ایک طویل ٹکڑا جو ریڈیائی لہروں میں خلا سے آئے اس کو SETI کے ہاں کسی انٹیلیجنٹ کردار کی موجودگی کا اشارہ قرار دیا گیا ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئ کہ اعداد کا ایسا مجموعہ فطری طور پر پیدا ہونے والے باقاعدہ اور دہرائے جانے والے قوانین سے پیدا نہیں ہوتا۔!
Algorithmic Information theory کو زندگی کے آغاز پر منطبق کرنے والی اولین کتاب، Information Theory, Evolution, and the Origin of Life میں، ماہر طبعیات Hubert Yockey اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاضی کے قوانین کی رو سے یہ ناممکن ہے کہ قوانینِ فطرت DNA جیسی کوئی چیز تخلیق کرسکیں کیونکہ ان کا انفارمیشن کنٹینٹ بہت کم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:
”طبیعات اور کیمیات کے اصول فٹ بال کے کھیل کے اصولوں کی طرح ہیں۔ ریفری یہ تو دیکھ سکتا ہے کہ ان قوانین کی پابندی ہو رہی ہے کہ نہیں لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ کھیل کون جیتے گا۔ کھیل کے اصولوں میں اتنی معلومات ہی نہیں ہے کہ ان کی بناء پر پیش گوئی کی جاسکے , اسی لیے ہم کھیل کھیلتے ہیں”۔
ریاضی دان Gregory Chaitin نے طبعیاتی قوانین کا مشاہدہ ان قوانین کو پروگرام کرتے وقت کیا۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ (ان قوانین میں) (Information Content)معلوماتی جز بہت کم ہے۔”
اس اصول یعنی یہ بات کہ حیاتیاتی قوانین طبعیات و کیمیا کے قوانین سے اخذ نہیں ہو سکتےکی وجہ محض یہ سادہ سی بات ہے ان قوانین میں معلومات کا اتنا جز ہی نہیں ہے کہ جس سے کسی سادہ ترین جاندار کی جینیاتی ترکیب ہی تشکیل پا سکے۔ ایک سادہ ترین جینیاتی ترکیب کے لیے بھی درکار معلومات ان قوانین کے انفارمیشن کنٹینٹ سے کہیں بڑھ کر ہے۔“ (Information Theory, Evolution, and the Origin of Life)
2002ء میں، گارڈین اخبار کے مضمون بعنوان How We Could Create Life (ہم زندگی کس طرح تخلیق کر سکتے ہیں؟) میں ماہرِ طبعیات Paul Davies نے اسی طرح کا نکتہ پیش کیا تھا:.
“Trying to make life by mixing chemicals in a test tube is like soldering switches and wires in an attempt to produce [Microsoft] Windows 98. It won’t work because it addresses the problem at the wrong conceptual level.”
”مختلف کیمیکل کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں مکس کرکے کسی جاندار کی تخلیق کی کوشش ایسا ہی عمل ہے جسے سوئچ اور تاریں جوڑ کر کمپیوٹر ونڈو ( 98Windows) کے بننے کی توقع کی جائے۔ یہ عمل بے سود ہے کیونکہ یہ نفس مسئلہ کو غلط ذہنی اپروچ سے لے رہا ہے۔“
خلاصہ یہ کہ محض فزیکل لاز اپنے طور پرنا کوئی سسٹم/نظام ترتیب دے سکتے ہیں نا کوئی جسم تخلیق کرسکتے ہیں اس کام کے ایک شعور/ذہن ، ایک کانشیٹ مائنڈ چاہیے ۔ کائنات کا اتنا کمپلیکس نظام اور انواع اقسام کی مخلوقات کی موجودگی ایک ذہین ڈیزائنر کی موجودگی ہی کی گواہی دیتی ہے۔ !

٭دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قوانین فطرت کی موجودگی مذہبی توجیہہ کی جگہ لے سکتی ہے؟
یہ صحیح ہے کہ سائنس نے کائنات کے بارے میں انسان کے مشاہدے کو بہت بڑھا دیا ہے اس نے دکھا دیا ہے کہ وہ کون سے فطری قوانین ہیں جن میں یہ کائنات جکڑی ہوئی ہے اور جس کے تحت وہ حرکت کر رہی ہے۔ مثلاً پہلے آدمی صرف یہ جانتا تھا کہ پانی برستا ہے مگر اب سمندر کی بھاپ اٹھنے سے لے کر بارش کے قطرے زمین پر گرنے تک کا وہ پورا عمل انسان کو معلوم ہو گیا ہےجس کے مطابق بارش کا واقعہ ہوتا ہے مگر یہ ساری دریافتیں صرف واقعہ کی تصویر ہیں وہ واقعہ کی توجیہہ نہیں ہیں ۔سائنس یہ نہیں بتاتی کہ فطرت کے قوانین کیسے بن گئے وہ کیسے اس قدر مفید شکل میں مسلسل طور پر زمین و آسمان میں قائم ہیں اور اس صحت کے ساتھ قائم ہیں کہ ان کی بنیاد پر سائنس میں قوانین مرتب کئے جاتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت جس کو معلوم کر لینے کی وجہ سے انسان یہ دعوی کرنے لگا ہے کہ اس نے کائنات کی توجیہہ دریافت کر لی وہ محض دھوکا ہے۔ اس کا بہترین جواب ایک عیسائی عالم نے دیا کہNature is the fact not an explanation”یعنی فطرت کا قانون کا ئنات کا ایک واقعہ ہے وہ کائنات کی توجیہہ نہیں ہے۔ تمہارا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہم نے فطرت کے قوانین معلوم کرلئے ہیں مگر تم نے جو چیز معلوم کی ہے وہ اس مسئلے کا جواب نہیں ہے ۔ مذہب یہ بتاتا ہے کہ وہ اصل اسباب و محرکات کیا ہیں جو کائنات کے پیچھے کام کر رہے ہیں جب کہ تمہاری دریافت صرف اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ کائنات جو ہمارے سامنے کھڑی نظر آتی ہے اس کا ظاہری ڈھانچہ کیا ہے .جدید علم جو کچھ بتاتا ہے وہ صرف واقعات کی مزید تفصیل ہے نہ کہ اصل واقعہ کی توجیہہ۔ سائنس کا سارا علم اس سے متعلق ہے کہ جو کچھ ہے وہ کیا ہے؟ یہ بات اس کی دسترس سے باہر ہے کہ جو کچھ ہے وہ کیوں ہے؟ جب کہ توجیہہ کا تعلق اسی دوسرے پہلو سے ہے۔ یہ ایک غیر متعلق بات کو سوال کا جواب بنا کر پیش کرنا ہے یہ درمیانی کڑی کو آخری کڑی قرار دینا ہے ۔
مثال کے طور پر اگر آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خود سرخ کیوں ہوتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے موٹے سرخ اجزا ہوتے ہیں (ایک انچ کے سات ہزارویں حصے کے برابر) یہی سرخ ذرات خون کو سرخ کرنے کا سبب ہیں۔”درست مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں“”ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتا ہے جس کا نام ہیمو گلوبن ہے یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتا ہ تو گہرا سرخ ہو جاتا ہے“۔”ٹھیک ہے مگر ہیموگلوبن کے حام سرخ ذرات کہاں سے آئے ہیں“”وہ آپ کی تلی میں بن کر تیار ہوتے ہیں “”ڈاکٹر صاحب ! جو کچھ آپ نے فرمایا وہ بہت عجیب ہے مگر مجھے بتایئے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون سرخ ذرات تلی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کل کے اندر باہم مربوط ہیں اور اس قدر صحت کے ساتھ اپنا اپنا عمل کر رہی ہیں“”یہ قدرت کا قانون ہے“”وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قدرت کا قانون قدرت کہتے ہیں“اس سے مراد
Blind interplay of physical and chemical forcesطبیعی اور کیمیائی طاقتوں کا اندھا عمل ہے۔
مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں جو انہیں متعین انجام کی طرف لے جائے ؟ کیسے وہ اپنی سر گرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اڑنے کے قابل ہو سکے، ایک مچھلی تیر سکے ایک انسان اپنی مخصوص صلاحتیوں کے ساتھ وجود میں آئے ۔؟میرے دوست مجھ سے یہ نہ پوچھو سائنس داں صرف یہ بتا سکتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے ؟ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔؟
یہ سوال وجواب واضح کررہا ہے کہ سائنسی دریافتوں کی حقیقت کیا ہے۔ بلا شبہ سائنس نے ہم کو بہت سی نئی نئی باتیں بتائی ہیں مگر مذہب جس سوال کا جواب ہے اس کا ان دریافتوں سے کوئی تعلق نہیں اس قسم کی دریافتیں اگر موجودہ مقدار کے مقابلے میں اربوں کھربوں گنا بڑھ جائیں تب بھی مذہب کی ضرورت باقی رہے گی کیوں کہ یہ دریافتیں صرف ہونے والے واقعات کو بتائی ہیں یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں اور ان کا آخری سبب کیا ہے اور اس کا جواب ان دریافتوں کے اندر نہیں ہے یہ تمام کی تمام دریافتیں صرف درمیانی تشریح ہیں جبکہ مذہب کی جگہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ آخری اور کلی تشریح دریافت کر لے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی مشین کے اوپر ڈھکن لگا ہوا ہو تو ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ چل رہی ہے اگر ڈھکن اتار دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ باہر کا چکر کس طرح ایک اور چکر سے چل رہا ہے اور وہ چکر کسی دوسرے بہت سے پرزوں سے کر حرکت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے سارے پرزوں اور اس کی پوری حرکت کو دیکھ لیں مگر کیا اس علم کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے مشین کے خالق اور اس کے سبب حرکت کا راز بھی معلوم کر لیا ؟کیا کسی مشین کی کارکرردگی کو جان لینے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بخود بن گئی ہے اور اپنے آپ چلی جارہی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو کائنات کی کارکردگی کی بعض جھلکیاں دیکھنے سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ یہ سارا کارخانہ اپنے آپ قائم ہوا اور اپنے آپ چلا جارہا ہے ہیریز نے یہی بات کہی تھی جب اس نے ڈارو نزم پر تنقید کرتے ہوئے کہا۔
“nature selection may explain the survival of fittest, but cancnot explain the arrival of the fittest”
Revolt Against Reason by A.lunn p.133
یعنی انتخاب طبیعی کے قانون کا حوالہ صرف زندگی کے بہتر مظاہر کے باقی رہنے کی توجیہہ کرتا ہے وہ یہ نہیں بتاتا کہ یہ بہتر زندگیاں خود کیسے وجود آئیں۔
استفادہ تحریر: سکاٹ ینگرین ، وحید الدین خان

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password