مغربی دنیامیں الحادکےبنیادی اسباب

عصر حاضر میں الحاد کا دقت نظر سے تجزیاتی و تحلیلی مطالعہ کرنے کی بہت ضرورت ہے ،اس سلسلے میں ملحدین کے پھیلائے ہوئے جزوی شبہات و اعتراضآت(جو اگرچہ بذات خود ایک اہم کام ہے) کی بجائے الحاد کی اساسیات اور اس کے متنوع اسباب پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ یعنی سب سے پہلے یہ بات کہ وہ کونسے اسباب ہیں جن کی بنا پر ایک شخص یا گروہ الحاد اختیار کرتا ہے ۔الحاد کے اسباب ایک تو جغرافیہ بدلنے سے بدل جاتے ہیں ،مغربی دنیا میں الحاد میں مبتلاء ہونے کے اسباب الگ ہیں جبکہ اسلامی دنیا میں اسلام کو چھوڑ کر الحاد اپنانے کی وجوہات بالکل علیحدہ ہیں ۔اس کے علاوہ خود شخصیات کی علمی ،ذہنی ،نفسیاتی اور عقلی سطح کے اعتبار سے بھی الحاد کے مختلف اسباب بن جاتے ہیں ۔اسی طرح الحاد کی اساسیات کا تجزیہ بھی ضروری ہے،کہ وہ کونسے بنیادی امور و دعاوی ہیں ،جن پر ملحدین کی دعوت الحاد کھڑی ہے ،ان امور کا ماخذو مصدر کیا ہے ،نیز الحاد کی ان “ایمانیات “کے بارے میں معاصر جملہ ملحدین کا نقطہ نظر ایک ہے یا الگ الگ ۔

اس وقت پوری دنیا میں نت نئے نظریات و افکار کا ماخذ و منبع “خطہ مغرب”ہے ،اور فکر و نظر کے حوالے سے مغرب و ہ شجرہ خبیثہ ہے ،جس کی شاخیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔(“مغربی دوست”اس پر چیں بہ جبیں نہ ہوں ،مغرب کی انسانیت بخش ایجادات کا ہمیں بھی اقرار ہے ،البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان ایجادات پر لگنے والے سرمایہ کے لیے “سونے کی کس کس چڑیا”کو شکار کیا گیا ) .”جدید الحاد”(دنیا میں دہریوں کا وجود ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ رہا ہے ،پر یہاں معاصر نظریہ الحاد کی بات ہورہی ہے ) بھی مغرب کی دین ہے ،اور وہاں سے یہ نظریہ پوری دنیا میں کاپی کیا گیا ۔اس لیے ہم اولین مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کے بنیادی اسباب و علل پر مختصرا بات کریں گے ۔اس سے بقیہ دنیا خصؤصا اسلامی دنیا میں الحاد کی وجوہ جاننے میں معاونت ملے گی ۔
مغربی الحاد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے تین بڑے سبب سامنے آتے ہیں :
۱۔مغرب میں عیسایئت کی بطور مذہب کے شکست کے بعد جدید فلسفیانہ افکار جدیدیت ،مابعد جدیدیت اور سوشل سائنسز کی کھوکھ سے الحاد نے جنم لیا ۔ان ملحدین کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے ۔ اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔( شیخ سلمان بن فہد العودہ)
مغرب میں صدیوں مذہب کو حکمرانی حاصل تھی ،لیکن اس حکمرانی نے انہیں اس دور کے پسماندہ ترین قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا ،اسی لیے خود مغرب اپنے اس دور کو “dark ages”یعنی “تاریک زمانہ”کہتا ہے ۔ سولہویں صدی سے جب مذہب سے آزادی کی تحریک “اصلاح مذہب”کی شکل میں شروع ہوئی ،جو آہستہ آہستہ مذہب کے کلی انخلا پر منتج ہوئی ،اس وقت سے مغرب ترقی کی شاہراہ پر چڑھ گیا ،اور اب تک تسلسل کے ساتھ روز بروز آگے بڑھ رہا ہے ۔اس پور ے تاریخی عمل سے مغربی اہل علم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے ۔اور یوں مذہب و خدا دنیا کا کلی انکار سامنے آیا ۔اس راستے پر چل کر جو لوگ الحاد کا شکار ہوئے ،ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو انہوں نے عیسائیت کی شکست کو “مذہب”کی شکست کے مترادف سمجھا ،حالانکہ کسی خاص مذہب کی ناکامی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مذہب نام کی ہر قسم ناکام ہوگئی ۔دوسرا دنیا کے دیگر مذاہب خصوصا اسلام کا گہرا مطالعہ اور اسلام کی ہزار سال کی تاریخ سے مکمل واقفیت نہیں تھی ۔اور اگر کوئی واقفیت تھی بھی ،تو مستشرقین کے واسطے سے تھی ،اور مسترقین کا “اسلامی سرمایہ ” اسلام کی بجائے اینٹی اسلام کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے ، اس لیے محض عیسائیت کی شکست سے انہوں نے یہ سمجھا کہ اب مذہب اور خدا کا دور ختم ہوگیا ۔
اس الحاد کے شکار لوگوں نے جب بھی بالغ نظری سے اسلام کا مطالعہ کیا ،تو انہوں نے اسلام کو گلے لگایا ۔آج جو مغربی دنیا میں اسلام جوق در جوق پھیل رہا ہے ،ان میں سے بڑی تعداد “سابق ملحدین”کی ہیں ۔کہ جب ان کے سامنے اسلام کی صحیح شکل سامنے آئی ،تو بلا جھجک اسے قبول کیا ۔یاد رہے کہ عموما لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید “عیسائی مذہب کے پیروکار”نے اسلام قبول کیا ،حالانکہ وہاں کے صحیح “مذہبی آدمی “کو اسلام سے اتنی ہی نفرت ہے ،جیسے کہ ایک کٹر اور بنیاد پرست مسلمان کو عیسایئت سے ۔۔۔مغرب میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا سبب وہاں کا “الحاد”ہی ہے ۔آج بھی اگر مغرب کے ایک “ملحد”کے سامنے سنجیدہ ،شستہ ،علمی و عقلی انداز سے اسلام کو پیش کیا جائے ،تو وہ اسے فورا قبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ۔پر مسئلہ یہ ہے کہ آج کی علمی زبان اور اصطلاحات میں اسلام کو مغربی دنیا کے سامنے کتنا پیش کیا گیا ہے ۔یہ ایک المیہ ہے ،امت مسلمہ کے تمام طبقات کا المیہ ،جملہ مکاتب فکر کا المیہ ۔۔

2۔مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کا دوسرا بڑا سبب علوم فلسفہ سے حد سے زیادہ اعتناء اور وسیع پیمانے پر فلسفیانہ افکار کی بازگشت ہے ۔کلیسا سے آزادی حاصل کرتے ہی مغربی اداروں میں”علمی سیلاب “آیااور خآص طور پر “اندلس مرحوم” کے اسلامی علمی ذخیرے کی مغربی زبانوں میں منتقلی اس کا سبب بنی ، اندلس کے “مکتب ابن رشد” کا سارا فلسفیانہ لٹریچر مغربی دنیا میں پھیلا ۔ اس کے علاوہ خود بھی مغربی دنیا میں متنوع علوم خصوصا فلسفیانہ علوم سے شغف کی ایک فضا پیدا ہوئی ،اور فلسفے کی ایک خآصیت ہے کہ یہ حاضر و محسوس کا گرویدہ اور “غائب و مستور”سے بیگانہ کرتی ہے ۔اسلامی تاریخ کے بڑے اور ٹھیٹھ فلاسفہ کے افکار کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو بہت کم خوش قسمت ایسے ملیں گے ،جن کے افکار میں “الحاد ی جراثیم “نہ ہوں،اسلام کے زمانہ عروج میں “تہافت الفلسفہ”جیسی کاوشوں کا سبب یہی “جراثیم”ہی بنے ۔خالص فلسفیوں کو ایک طرف رکھ دیں ،اصولی و دینی علوم کے ماہرین میں سے جس نے فلسفہ کو زیادہ پڑھا ،وہاں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔اس کی مثال ہماری تاریخ میں”اعتزال کا مکتب”ہے ۔۔حق شاید ان دونوں کے درمیان ہے کہ نہ تو علوم عقلیہ پر کلیسا کی طرح مکمل پابندی سے مسئلہ حل ہوگا اور نہ جدید ذہن کی طرح اساسیات مذہب کو بھی تشکیک کی بھٹی سے گزارنے سے فائدہ ہوگا.. ماضی میں ماتریدی مکتب عقل و نقل کے حسین امتزاج کے حوالے سے بہترین مثال ہے۔
اس قسم کے شکار ملحدین کا حل “غزالی کی روش”ہے ۔ان ملحدین کا فلسفہ پر ایمان اسی وقت متزلزل ہوگا جب کوئی “غزالی وقت”فلسفہ کے محل پر “تہافت الفلسفہ”کے مجنیقوں سے “سنگ باری” کرے گا ۔ اس لیے ہمارے راسخ العقیدہ لوگوں کو فلسفہ مغرب سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی ۔ اس حوالے سے “انصاری سکول آف تھاٹ”( ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب اور ان کے تلامذہ و متوسلین سید خالد جامعی ،عبد الوہاب سوری،علی محمد رضوی،مولانا ظفر اقبال اور زاہد مغل صاحب)یہ کام کر سکتا ہے ،اگر ان کی توجہ “اسلامی مفکرین کی ٹھوکروں کی نشاندہی “(جو بذات خود ایک اہم کام ہے )سے ذارا آگے بڑھ کر براہ راست مغربی فلسفہ کی “نارسائی “پر مرکوز ہو جائے۔اس سلسلے مین مغرب کی ریاستی قوت کا غیر معمولی جبر بھی ایک چیلنج ہے۔ جب تک یہ ختم نہیں ہوتا، محض فکری کام اس ساری مہم کا ایک جز ہوگا۔ یونانی فکر کی طرف سے ہمیں کوئی تہذیبی چیلنج نہیں تھا جب کہ آج اس تہذیبی چلینچ کے ریلے میں ہر خاص وعام بہ رہا ہے، حتی کے ہم میں سے بہت سے وہ لوگ بھی “مغربی” ہیں جو “مشرقی” کہلاتے ہیں اور یہ مزاجی سانچے کسی فلسفے نے نہیں بنائے بلکہ تہذیبی بالادستی نے بنائے ہیں۔

3۔مغربی دنیا میں الحاد کا تیسرا سبب چند دہائیوں سے نہایت تیزی سے مقبول ہوتا” فلسفہ مابعد جدیدیت”ہے ۔مابعد جدیدیت کا فلسفہ “جدیدیت”کے رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ۔ جدیدیت انسان کے کبر جبکہ مابعد جدیدیت اس پر ڈھٹائی کا اظہار ہے۔جدیدیت میں انسان کو یہ غرور ہوچلا تھا کہ میں حقیقت وغیرہ خود اپنے بل بوتے پر تلاش کرلوں گا۔ مابعد جدیدیت نے عاجزی کا اظہار کرکے یہ نہیں کہا کہ ہم حقیقت نھیں جان سکتے (جس سے چلو نبی کی گنجائش پیدا ہوجائے) بلکہ وہ یہ کہتی ہے کہ یہ حقیقت، سچ، اقدار وغیرہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے، ایسا کچھ ہے ہی نھیں۔ یہ سرکشی سے بھی آگے کی ڈھٹائی ہے۔
ما بعد جدیدیت کی تعریف ایک فلسفی لیوٹارڈ کے الفاظ میں “مابعد جدیدیت عظیم بیانات پر عدم یقین “ہے ۔مابعد جدیدیت کے علمبرادروں کے نزدیک اس دنیا میں اصول ،نظریات ،روایات ،اقدار،افکار ،آدرشوں اور سچائی و حقیقت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ،اور نہ ہی دنیا میں آفاقی سچائی اور حقیقت مطلقہ کا کوئی وجود ہے ،یہ سب چیزیں اضافی ہیں ،اضافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی ،حقیقت اور حق و خیر کا تعلق محض انفرادی پسند و ناپسند کے ساتھ ہے ۔ہر شخص کی سچائی ،ہر شخص کا خیر اور ہر شخص کا حق الگ الگ ہے ۔اس لئے آفاقی سچائی کا تصور محض ایک دعوی اوردیو مالائی داستان ہے ۔مابعد جدیدیت کے فلسفے کا اثر یہ ہے کہ آج کے انسان کی دلچسپی محض اپنے احساسات ،جذبات اور عملی مسائل کے ساتھ محدود ہو کر رہ گئی ہے ،آج کے انسان کے نزدیک زندگی کی تمام بحثیں مسئلہ اور حل کانام ہیں ،افکار ،نظریات اور آیئڈیالوجی کے مباحث محض نظری ہیں ۔جن کا عملی زندگی کی تشکیل اور مسائل کے حل میں کوئی کردار نہیں ہیں ۔آج کے انسان کے نزدیک اصول ،نظریات ،اقدار ،روایات و افکار ماضی کی باتیں ہیں ۔اس لئے بعض مفکرین نے مووجودہ دور کو “عدم نظریہ کا عہد”کہا ہے۔جبکہ مذہب( خواہ جو بھی ہو ) کی بنیاد ہی مخصوص نظریات ،خآص افکار ،متعین آدرشوں اور محدود خیالات و تصورات پر ہوتی ہے ۔اس لیے مسئلہ اور حل کے خوگر آج کے انسان کے نزدیک مذہب کے عقائد و نظریات “دیومالائی داستانیں “ہیں ۔مابعد جدیدیت کا فلسفہ بعض وجوہ سے تحریک تنویر ،تحریک رومانیت اور مغرب سے پھوٹنے والی پچھلی دو صدیوں کی دیگر فلسفیانہ تحریکوں کی بنیاد پر قائم “جدیدیت”سے زیادہ خطرناک ہے ۔ما بعد جدیدیت کاا ثر صرف مذہب پر نہیں پڑا ،ادب ،ثقافت ،صحافت ،سیاست حتی کے تعلیم تک پر اس کے اثرات پڑے ۔آج اگر ریٹنگ کے چکر میں ہمارے ٹی وی چینل اقدار ،روایات ،اخلاق بلکہ بسا اوقات ملکی قانون کو پامال کرتے ہیں ،ہمارے سیاستدان “چڑھتے سورج کے پجاری “بن گئے ہیں ،اور سال میں دو دو پارٹیاں بدلتے ہیں ،ہمارے صحافی و کالم نگار ایک سال میں بسا اوقات تمام اخباروں کا چکر کاٹ کر واپس پہلے اخبار تک پہنچ جاتے ہیں ،ہمارے ہاں تعلیم کی “خرید و فروخت”کا بازار گرم ہے ،اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ معاشرہ ایک دیانت دار صحافی ،کھرے سیاستدان ،نظریاتی کالم نگار اور ایک مخلص ٹیچر و پروفیسر کو اس حوالےسے “احمق” سمجھتا ہے کہ اس نے اصولوں ،نظریات اور ذہن میں موجود خیالات و تصورات کی بنا پر مال ،دولت اور عزت کو ٹھکرایا ۔آج بھی اچھے خآصے پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ معاشرے کا کامیاب فرد وہی ہے ،جس نے دو چار روپیہ کمایا ،ایکا اچھی سی کوٹھی کھڑی کی ،اونچے عہدوں تک پہنچ گیا ،اور زندگی میں لذت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے ،تو وہ “کامیاب”شخص ہے ،خوواہ اس کے لیے اس نے نظریات ،اصولوں اور اپنے رسوم و روایات کو مکمل طور پر ہی ذبح کیؤں نہ کیا ہو ۔ یہ سب فلسفہ ما بعد جدیدیت کا تباہ کن اثرات ہیں ۔
استفادہ تحریر : سمیع اللہ سعدی

  • Nasir Ali Kamboh
    February 25, 2020 at 6:07 pm

    بہت اعلی اور اہم تحریر ہے۔۔۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو مزید کام کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔۔آمین

    • ایڈمن
      February 27, 2020 at 9:20 am

      آمین

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password