عبادت کی حقیقت

ہر انسان اپنى فطرت كے ساتھ عبادت كرتا ہے، يعنى وہ فطرتى طور پر عبادت كے ليے ہى پيدا ہوا ہے يا تو وہ بغير كسى شريك كے صرف اللہ تعالى ہى كى عبادت كرتا ہے يا پھر اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كى عبادت كرنے لگ جاتا ہے۔ اس کا بڑا عملی مظاہرہ الحاد سے متاثر ان معاشروں میں واضح نظر آتا ہے جو انسان کیلئے ”شتر بے مہار“ جیسی آزادی کے طالب ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اگر خالق کی غلامی پر راضی نہ ہو تب بھی آزاد نہیں رہ پاتا بلکہ عبدیت کے اس باطنی احساس کی تسکین کے لیے طرح طرح کی غلامیاں اختیار کرلیتا ہے۔ وہ کبھی کسی سیاستدان کو، کبھی کسی گلوکار یا فنکار کو، کبھی کسی کھیل یا کاروبار کو اور کبھی اپنی خواہشات نفس کو معبود بنا کر اس کی عبدیت اختیار کرلیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب مخلوق اپنی جیسی مخلوق کی عبادت کرتی ہے تو اس کا نتیجہ پستی، ذہنی انتشار اور روحانی فساد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس کی امیدوں کا محل دیر یا سویر مسمار ہوجاتا ہے۔ اسی لئے علامہ نے کہا تھا
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ایسے ہی دھوکے زدہ انسان کو کلام پاک میں کچھ یوں بیان کیا ہے: اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ. ”کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟“
مذہب کی حقیقت، خدا کی بزرگی کے احساس اور اعتراف کے ساتھ ساتھ اس کے حکم کے سامنے کامل سرافگندگی بھی ہے۔ یہ دونوں چیزیں مجرد جذبات کی صورت میں نامکمل اور خام ہیں، جب تک کہ مخصوص اعمال کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے نہ آئیں۔
شرعى اصطلاح ميں عبادت كا اطلاق دو چيزوں پر ہوتا ہے:
اول:بندے كا فعل جيسے كوئى شخص نماز ادا كرے يا زكاۃ ادا كرے تو اس كا يہ فعل عبادت كہلائے گا، علماء كرام نے اس كى تعريف اس طرح كى ہے:
اللہ تعالى كى محبت ركھتے ہوئے اور اس كا خوف اور اس سے ثواب كى اميد ركھتے ہوئے كوئى فعل كر كے اللہ تعالى كى اطاعت كى جائے يا اس كا حكم مانا جائے اور اس كے منع كردہ كام سے ركا جائے.
دوم:جس كام كا حكم ديا گيا ہے وہ كام عبادت ہے اگرچہ اسے كوئي بھى ادا نہ كرتا ہو جيسے كہ نماز اور زكاۃ ذاتى طور پر ايك عبادت ہيں، علماء كرام نے اس كى تعريف اس طرح كى ہے:عبادت ايسا جامع اسم ہے جو ہر چيز جسے اللہ تعالى پسند كرے اور اس پر راضى ہو چاہے وہ اقوال ہوں يا افعال ظاہرى ہوں يا باطنى.
ان مامورات كو عبادت كا نام اس ليے ديا گيا ہے كيونكہ مكلف اشخاص ان افعال كو عاجزى و انكسارى كے ساتھ اپنے پروردگار كے ليے ادا كرتے ہيں، لھذا اللہ تعالى كى عبادت كرتے وقت اس كى كمال محبت اور اللہ سبحانہ وتعالى كے سامنے مكمل عاجزى و انكسارى كا ہونا ضرورى ہے .اور اللہ سبحانہ وتعالى نے جن و انس كى پيدائش كا مقصد يہ بيان فرمايا ہے كہ وہ صرف اور صرف اس وحدہ لا شريك كى عبادت كريں، اس مقصد كو بيان كرتے ہوئے ارشاد فرمايا :اور ميں نے تو جن و انس كو صرف اور صرف اپنى عبادت كے ليے ہى پيدا فرمايا ہے} الذاريات ( 56 )
لھذا ہم اس غرض و غايت اور اس ھدف تك كيسے پہنچيں گے؟
بہت سے لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ عبادت اس سے آگے نہيں كہ صرف كچھ اسلامى شعائر كے مجموعہ پر عمل پيرا ہو جائيں جن كا حكم اللہ تعالى نے ہميں دے ركھا ہے مثلا نماز، روزہ ، حج اور زكاۃ وغيرہ اس كے اوقات ميں ادا كر ديا جائے تو اسى كو عبادت كہتے ہيں، حالانكہ معاملہ ايسا نہيں جس طرح ان لوگوں نے خيال كر ركھا ہے.لھذا ان اسلامى شعائر اور عبادات كےكاموں ميں دن اور رات كا كتنا حصہ صرف ہوتا ہے؟ بلكہ انسان كى عمر كا كتنا حصہ صرف ہوتا ہے؟اور پھر اس طرح باقى عمر كہاں؟ اور بقيہ طاقت كہاں؟ اور باقى وقت كہاں صرف ہوا؟ يہ سب كچھ كہاں صرف ہوتا اور كہاں جاتا ہے؟
كيا عبادت ميں صرف ہوتا ہے يا پھر كسى اور چيز ميں ؟ اگر تو عبادت كے علاوہ كہيں اور صرف ہوتا ہے تو پھر انسانى وجود كى غرض و غايت كس طرح ثابت ہو سكتى ہے جو اس آيت ميں بيان ہوئى ہے كہ يہ مكمل اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كے ليے ہے؟اور پھر اللہ تعالى كا يہ فرمان كس طرح ثابت ہو گا؟
كہہ ديجئے كہ ميرى نماز اور ميرى قربانى اور ميرى زندگى اور ميرى موت سب كچھ اللہ رب العالمين كے ليے ہے} الانعام ( 162 )
بلا شبہ عبوديت ايك ايسا قضيہ اور معاملہ ہے جو مسلمان كى مكمل زندگى كو شامل ہے، لھذا جب وہ رزق كى تلاش ميں روئے زمين ميں گھومتا پھرتا ہے تو يہ رزق كى تلاش اور اس كا گھومنا بھى عبادت ہے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے اس كا حكم مندرجہ ذيل فرمان ميں ديا ہے:ارشاد بارى تعالى ہے: تم اس كى راہوں ميں چلتے پھرتے رہو اور اللہ كى روزياں كھاؤ اور اسى كى طرف تمہيں جى كر دوبارہ اٹھنا ہے} الملك ( 15 )
اور جب مسلمان شخص نيند كرتا اور سوتا ہے تو اس ليے كہ اللہ تعالى كى عبادت كے ليے اپنى طاقت بحال كر سكے جيسا كہ معاذ بن جبل رضي اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے:” ميں اپنى نيند ميں بھى اسى طرح اجروثواب كے حصول كى نيت كرتا ہوں جس طرح اپنے بيدار ہونے ميں اجروثواب كى نيت ركھتا ہوں” صحيح بخارى حديث نمبر ( 4342)
يعنى جس طرح قيام الليل ميں اجروثواب كى نيت كرتے اسى طرح نيند ميں بھى اجروثواب كے حصول كى نيت كرتے تھے، بلكہ مسلمان شخص تو اس كے علاوہ كسى بات پر راضى ہى نہيں ہو سكتا كہ اس كے نكاح اور كھانے پينے اور نفع حاصل كرنا يہ سب كچھ اس كى حسنات اور نيكيوں ميں شامل ہوں، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نے بھى فرمايا:” اور تمہارے ہر ايك كے ٹكڑے ميں صدقہ ہے ، تو صحابہ كرام نے عرض كي: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا جب كوئى ہم ميں سے اپنى شہوت پورى كرتا ہے تو اس ميں اس كے ليے اجر بھى ہے؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:” اچھا تم مجھے يہ بتاؤ كہ اگر اسے حرام كام ميں استعمال كرے تو كيا اسے گناہ ہو گا؟تو صحابہ كرام نے عرض كيا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:تو اسى طرح اگر وہ حلال كام ميں استعمال كرے تو اسے اجرو ثواب ملے گا” صحيح مسلم حديث نمبر ( 1006 )
اور اس عظيم مرتبہ تك پہنچنے كى راہ يہ ہے كہ بندہ اپنے رب اور پروردگار كو ہر حال ميں اپنے سامنے ركھے اور زندگى ميں وہ جو كام بھى سر انجام دے رہا ہو تو اسے يہ سمجھنا اور اسے يقين ہونا چاہئے كہ اس كا رب اسے ديكھ رہا ہے آيا وہ يہ كام پسند بھى كرتا ہے اور اس سے راضى ہو گا يا ناراض ؟ لھذا اگر وہ كام اللہ تعالى كو راضى كرنے والا ہے اور اسے پسند ہے تو مسلمان كو اس كام پر اللہ تعالى كا شكر اور اس كى تعريف كرنى چاہيے اور خير وبھلائى كے كاموں ميں بڑھـ چڑھـ كر حصہ لے اور زيادہ كام كرے.اور اگر وہ كام اللہ تعالى كى رضا و خوشنودى والا نہيں تو پھر اسے توبہ اور استغفار كرنى چاہيے جيسا كہ متقى اور پرہيز گاروں كا شيوہ اور طريقہ ہے جن كى صفت بيان كرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمايا:
“اور وہ لوگ جب كوئي برائى اور فحش كام كا ارتكاب كر ليتے ہيں يا پھر اپنے آپ پر ظلم كر بيٹھتے ہيں تو اللہ تعالى كا ذكر كرتے اور اپنے گناہوں كى بخشش مانگتے ہيں اور اللہ تعالى كے علاوہ كوئى گناہوں كو معاف كرنے والا نہيں ہے، اور انہوں نے جو كچھ كيا ہے اس پر وہ اصرار نہيں كرتے اور انہيں علم ہوتا ہے، يہى لوگ ہيں جن كا بدلہ ان كے رب كى جانب سے مغفرت اور بخشش اور ايسى جنتيں ہيں جن كے نيچے سے نہريں جارى ہيں وہ اس ميں ہميشہ ہميشہ رہيں گے، اور عمل كرنے والوں كا يہ بہت ہى اچھا بدلہ اور اجروثواب ہے} آل عمران ( 135- 136 )
ہمارے اسلاف صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين اور ان كے بعد ميں آنے والوں كى حس ميں عبادت اسى طرح تھى انہوں نے كبھى بھى تعبدى شعائر كے دائرے ميں اس عبادت كو محصور كر كے نہيں ركھا تھا كہ ان لحظات جن ميں وہ ان دينى پر شعائر كو سرانجام ديتے صرف انہيں ہى عبادت گردانيں اور يہى لحظات عبادت كے ہوں، اور ان كى زندگى كے باقى اوقات عبادت سے خارج ہوں، ايسا نہيں تھا بلكہ ان ميں سے ہر ايك كى مكمل زندگى عبادت تھى، يہ دينى شعائر تو ايسے خاص لحظات ہيں كہ ان كى ادائيگى كے لحظات و اوقات ميں انسان كى ايمانى طاقت ميں اضافہ ہوتا ہے جو اس سے باقى مطلوبہ عبادات كى ادائيگى ميں ممد و معاون ثابت ہوتے ہيں.
شیخ صالح المنجد

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password