مولاناابوالکلام آزادؒ اوردہریت سےایمان کیطرف واپسی کاسفر

ہم جیل میں تھے اور یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھا کہ مولانا اپنے مفصل حالات مجھے لکھا دیں ، ان میں جو مذہبی انقلاب ہو چکا تھا اس کی تفصیل جاننے کی فکر تھی ایک دن عرض کیا “آپ نے پیر گھرانے میں آنکھ کھولی پھر آپ کے مذہبی خیالات میں یہ حیرت انگیز انقلاب کیونکر ہو گیا۔۔؟ کہنے لگے” لکھ کر جواب دوں گا “چند دن بعد ذیل کی تحریر میرے ہاتھ میں دے دی جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے :
آپ کا یہ سوال میرے لئے سب سے زیادہ اہم ہے. میں پیدائشی طور پر مسلمان ہوں لیکن آپ یہ سن کر تعجب کریں گے کہ پیدائشی اور خاندانی ورثے میں مجھے جو مذہب ملا تھا میں اس پر قانع نہیں رہا اور جوں ہی مجھ میں اتنی طاقت پیدا ہوئی کہ کسی چیز کو اپنے سےالگ کر سکوں میں نےاسے الگ کر دیا اور پھر ایک خالی دل و دماغ لے کر طلب و جستجو میں نکلا اس جستجو میں مجھے بہت سی منزلوں سے گزرنا پڑا اور پے در پے کئی ذہنی انقلاب میرے دماغ پر طاری ہوئے بالآخر میں نے اپنا مقصود حاصل کر لیا اور یہ وہی مقام ہے جہاں اپنے آپ کو اب پاتا ہوں بلاشبہ یہ اسلام ہے لیکن وہ اسلام نہیں ہے جو محض رسم و تقلید کا مجموعہ تھا اور مجھے پیدائشی ورثے میں ملا تھا میں ایسا اس لئے مسلمان نہیں ہوں کہ مجھے خاندانی طور پر ایسا ہی ہونا چاہئے، بلکہ اس لیے ہوں کہ میں نے اپنی طلب و جستجو سے اس کا سراغ پایا ہے مجھے یقین اور اطمینان کی تلاش تھی اور وہ مجھے یہی ملا ۔۔۔۔
انسانی دماغ، خاندان، تعلیم، سوسائٹی، اور گردوپیش کے مؤثرات (اثر انداز ہونے والی اشیا) کی مخلوق ہوتا ہے علی الخصوص مذہب کےبارے میں خاندانی تقلید کا اثر اس درجہ قوی ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا کبھی ہمیں وہم و گمان بھی نہیں گزرتا ۔۔۔۔۔ کتنے ہی انسان ہیں جو اپنی شہ زوری میں بڑی بڑی آہنی زنجیروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں گے لیکن وہ اس رشتے کو چھو بھی نہیں سکتے جو آبائی تقلید کا ان کی گردن میں پڑا ہے فی الحقیقت انسان کی تمام غفلت و گمراہی کی اصلی بنیاد یہی ہے، اور میں یقین کی گھاٹیوں میں سرگرداں رہا ۔۔۔۔ عرصے تک میٹیریلزم(مادہ پرستی) اور ریشنلزم(قوم پرستی) کے جلوہ سراب کو آب حیات سمجھتا رہا . اس راہ کی جتنی بیماریاں ہیں، وہ بھی مجھے لگیں اور جتنے نسخے ہیں، وہ بھی میں نے استعمال کیے. بالآخر جب قدم جستجو سے تھک گئے، اور ہمت نے جواب دے دیا، تو اچانک پردہ ظلمت چاک ہوا اور نظر اُٹھائی تو حقیقت گم گشتہ کا چہرہ بے نقاب سامنے موجود تھا .
اس منزل پر پہنچ کر یہ سب سے بڑی بنیادی سچائی مجھ پر کھل گئی کہ مذہب کی راہ عقل و ادراک سے نہیں بلکہ خالص اور بے میل جذبات سے طے کی جا سکتی ہے. اورمذہبی سچائی کا پا لینا اس لیے کٹھن نہیں ہے کہ وہ مشکل ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ بہت ہی آسان ہے، اور انسان کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ وہ سامنے کی آسان اور عام چیزوں کو ہمیشہ نظر انداز کر دیتا ہے۔!
ایک راہ گم کردہ مسافر برسوں تک کوہ و صحرا کی خاک چھان کر بالکل مایوس ہو گیا ہو، اور عالمِ مایوسی میں کسی درخت کے نیچے گر کے بے ہوش ہو گیا ہو، لیکن جب بے ہوشی سے بیمار ہو، تو دیکھے کہ اپنے وطن میں خاص اپنے محبوب گھر کی چھت کے نیچے پڑا آرام کر رہا ہے! یہ دیکھ کر اس کا کیا حال ہوگا؟ یقین کرنا چاہیے. میرا یہی حال ہوا ۔۔
میری پیدائش ایک ایسےخاندان میں ہوئی تھی، جو صدیوں سے مذہبی بزرگی اور پیشوائی رکھتا تھا، اور ہزاروں لاکھوں آدمی اس کے سامنے اطاعت اور تعظیم کا سر جھکاتے تھے. میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے چاروں طرف بزرگی اور تقدس کا جلوہ دیکھا، اور ایک بت کی طرح اپنے خاندان کو معظم و محترم پایا ۔ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ ہزاروں آدمی آتے تھے اور بوجہ پیرزادہ ہونے کے میرے ہاتھ پاؤں چومتے تھے. اپنے بزرگوں کے سوا جس آدمی کو دیکھتا تھا، اپنے آگے جھکا ہوا اور ادب و تعظیم سے مرعوب پاتا تھا. بڑے بڑے قابل اور معمر آدمی آتے تھے اور وہ میرے سامنے (جب کہ میری عمر آٹھ نو برس سے زیادہ نہ تھی) اس ادب و احترام سے بیٹھتے تھے، گویا میں سچ مچ کو ان کا بت ہوں میرے منہ سے جو بات نکلتی، خواہ وہ کتنی ہی فضول اور بے معنی ہوتی، لیکن وہ بڑے ہی اعتقاد اور احترام کے ساتھ سر جھکائے ہوئے سنتے اور ہر بات پر آمنّا اور صدّقنا کرتے۔۔۔۔ !
ظاہر ہے ایسی فضا میں پرورش پانے کا قدرتی اثر میرے دماغ میں کیا پڑ سکتا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میں اپنا خاندانی شان و شکوہ دیکھ کر اسی میں سرشار رہ جاتا اور تحصیل علم کے لیے میرے اندر کوئی طلب و کاوش پیدا ہی نہ ہوئی جیسا کہ بڑے بڑے پیروں اور پیشواؤں کی اولاد اپنے موروثی عزت و احترام کی وجہ سے عموماً بے پرواہ ہوجاتی ہے، اور اکثر صورتوں میں جاہل و اپاہج بن کر رہ گئی ہے. پھر اگر والد مرحوم کی کوشش، خاندانی روایات کا اثر اور ذاتی شوق و طلب کی وجہ سے ایسا نہ ہونے پاتا، جب بھی ظاہر ہے کہ ایسی موروثی اور گہری مذہبی فضا میں کسی نئ فکر اور جستجوؤں کی راہ کا کھلنا، تقریبا محال تھا ۔
اپنی موجودہ حالت سے بلند تر حالت کی طلب جبھی پیدا ہو سکتی ہے، جب کوئی نہایت ہی قوی خارجی محرّک موجود ہو، لیکن یہاں نہ صرف یہ بات تھی کہ کوئی ایسا محرّک موجود نہ تھا بلکہ ایسے محرکات کے لیے اس کی آب و ہوا موافق ہی نہ تھی ۔ میرے خاندان کی تمام پرانی روایات نہایت سخت راسخ الاعتقادی کی چلی آتی تھیں. گھر میں شب و روز ان باتوں کا چرچا اور اعتقاد رہتا تھا، جو ایسے اعتقاد کا لازمی نتیجہ ہیں ۔ والد مرحوم بھی نہایت سخت راسخ الخیال شخص تھے. ۔
“کیوں؟” اور “کس لئے؟” کی اُن کے اعتقاد میں گنجائش ہی نہ تھی ۔ مسلمانوں میں جو مذہبی عقائد کے اسکول آزاد خیال اور اعتقادی امور کو فکرو اجتہاد کے ساتھ قبول کرنے والے ہیں، وہ اُن کے بھی سخت مخالف تھے، اور تمام عمران کے رد میں قلم و زبان سے کام لیتے رہے تھے ۔ ان کی دو تہائی تصنیفات انھی کے رد میں ہیں ۔ میرے تمام استاد جن سے میں نے ابتدا سے لے کر آخر تک تعلیم حاصل کی، ایسے ہی خیالات کے تھے، اور اب میں سوچتا ہوں، تو ان میں سے بعض کی سختی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایک خفیف سے اختلاف رائے پر بھی بالکل کافر، یعنی اسلام سے خارج ہو جانے کا فتوی دے دیتے تھے. جو نصاب تعلیم میں مجھے پڑھایا گیا اور مذہبی علوم کی جن کتابوں کی تعلیم دی گئی، وہ بھی سر تا سر اسی مسلک پر مشتمل تھیں ۔
پس ایسی حالت میں کیونکر امید کی جا سکتی ہے کہ ایک لمحے کے لئے بھی میرا دماغ اس دائرے سے باہر کا کوئی تخیّل کر سکتا، یا کسی مزید طلب اور جستجو کی خلش میرے اندر پیدا ہو سکتی؟ قدرتی طور پر میری بڑی سے بڑی ترقی بھی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی تھی کہ میں اپنی خاندانی روایات کے مطابق ایک اچھا کامیاب پیر اور مولوی ہوتا، جس کے ہاتھ چومنے والوں کا حلقہ بہت دور تک پھیلا ہوا نظر آتا ۔۔
لیکن یہ بات نہایت عجیب سمجھی جائے گی کہ نتیجہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیوں۔ تو میں اِس وقت بھی اِس کا جواب نہیں دے سکتا ۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ ابھی میری تعلیم ختم نہیں ہوئی تھی اور زیادہ سے زیادہ میری تیرہ برس کی عمر تھی کہ میرا دل اچانک اپنی موجودہ حالت اور اردگرد کے منظر سے اُچاٹ ہو گیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں کسی اچھی حالت میں مبتلا نہیں ہوں. یہ بے اطمینانی بڑھتی گئی، حتی کہ مجھے اُن ساری باتوں سے، جو لوگوں کی نظروں میں انتہا درجہ عزت و احترام کی باتیں تھیں، ایک طرح کی نفرت ہو گئی، اور میں اندر ہی اندر اُن باتوں پر شرم اور ذلت محسوس کرنے لگا. اب جو لوگ میرا ہاتھ پاؤں چومتے، تو مجھے محسوس ہوتا کہ گویا ایک بہت ہی سخت بُرائی کا کام ہو رہا ہے۔ چند دن پہلے یہی منظر میرے لئے نہایت ہی فخر و غرور کا باعث تھا۔
چند دنوں کے بعد یہ جذبہ ایک دوسرے رخ پر بہنے لگا. اپنی حالت کے احتساب نے اپنے عقائد و افکار کے احتساب پر توجہ دلائی، اور اب جو میں نے اپنے مذہبی عقائد کا جائزہ لیا، تو اُس بجز آبائی تقلید، دیرینہ رسم پرستی، اور موروثی اعتقاد کے اور کچھ نہ تھا “میں ایسا کیوں یقین کرتا ہوں۔۔۔۔؟ ”
اِس کا جواب مجھے اس کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا کہ “چونکہ ایسا ہی مجھے بتایا گیا ہے” یا “چونکہ ایسا ہی میرے باپ دادا کو اعتقاد تھا” یہ جواب میرے دل میں شک اور اضطراب کا ایک طوفان برپا کر دیتا اور میں اپنے تمام پر شکوہ عقیدوں اور سارے طلسم نما خیالات کے ساتھ بے اختیار بہنے لگتا ۔
کیا فی الحقیقت خدا کا وجود ہے۔؟ اور کیا واقعی مذہب کے تمام بتائے ہوئے عقائد حقیقت رکھتے ہیں۔؟ اگر ایسا ہی ہے تو اتنی بڑی حقیقت اور سچائی میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟ مذہب اگر ہدایت اور امن کے لئے ہے، تو پھر وہی انسان کے تمام اختلافوں اور جھگڑوں بلکہ انتہا درجہ خونریزیوں کا سبب کیوں بن گیا ہے؟ حقیقت ایک ہی ہو سکتی ہے. ایک سے جو زیادہ ہے وہ تو حقیقت نہیں ہے۔
پھر اگر دنیا کے اتنے بے شمار مذہبوں میں سے کسی ایک مذہب کو مان بھی لیا جائے، تو بھی مشکل کہاں ختم ہوتی ہے؟ہر مذہب کے اندر بھی تو بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں، اور بہت سی جماعتوں میں اس کے ماننے والے بٹ گئے ہیں؟ ایک کیوں حق پر ہے اور دوسرا کیوں حق پر نہیں؟ ”
یہ تین سوال تھے، جو 14 برس کی عمر میں مجھ پر اس طرح چھا گئے تھے کہ خون اور گوشت کی جگہ میرے اندر صرف انہی کی گونج بھری ہوئی محسوس ہوتی تھی. گرہ کو جس قدر کھینچا جائے اُتنا ہی اور زیادہ الجھ جاتی ہے ۔اسی طرح میں جس قدر حل کرنے کی کوشش کرتا تھا اتنا ہی زیادہ الجھاؤ بڑھتا جاتا تھا ۔
میں نے ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا. مختلف مذہبوں کی کتابیں بار بار دیکھ ڈالیں. میں اس وقت بمبئی میں تھا. وہاں مجھے متعدد عیسائی، یہودی، پارسی، بہائی، ناستک(دہریہ) اور ہندو عالموں سے ملنے اور بحث و مباحثہ کا موقعہ ملا، لیکن ان کی باتیں میری الجھن کو اورزیادہ کرتی تھیں. ان کے جوابات اور مباحث سن کر مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میری پریشانی اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیئے. جس قدر میں سمجھے ہوا تھا. بالآخر یہ اندرونی تکلیف یہاں تک بڑھی کہ میں بیمار ہو گیا ۔۔
غذا بند ہو گئی نیند اُچاٹ ہو گئی اس اثنا میں میں نے ماڈرن فلاسفی اور سائنس کی مختلف شاخوں کا مطالعہ کیا، جس قدر مطالعہ مشرقی زبانوں کے تراجم سے کر سکتا تھا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کی طرف سے میری بے اطمینانی اور زیادہ گہری ہو گئی. اب مجھ پر وہ دروازہ کھلا، جو اس راہ میں ہمیشہ کھلا کرتا ہے، یعنی مذہب اور عقل کی تطبیق و اتحاد کا طریقہ. اس کے بھی متعدد اسکول ہیں. میں نے سب کا مطالعہ کیا، اور اس سے اتنا ضرور ہوا کہ ایک عارضی سکون مجھے ہو گیا. اسی زمانے میں میں نے سر سید احمد خان مرحوم کی کتابوں کا مطالعہ کیا جس کی نسبت سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے موجودہ زمانے میں مذہب اور ماڈرن سائنس کو ملانے کے لئے ایک نئے اسکول کی بنیاد ڈالی، مجھ پر ان کی تصنیفات کا بہت اثر پڑا، حتی کہ کچھ دن تک میرا یہ حال رہا کہ میں بالکل ان کا مقلد اور پیرو ہو گیا تھا ۔
مگر یہ واقعہ عارضی تھا بہت جلد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلکہ مذہب سے انکار کی ایک نرم اور ملائم صورت ہے. آخری نتیجہ میرے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا تھا ۔ یعنی گو میں زبان سے صاف صاف اقرار نہیں کرتا تھا، لیکن میرے اندر قطعی انکار و الحاد کی آواز گونج رہی تھی. میں اب ایک پکا دہریہ ہو گیا تھا. میٹیریلزم اور ریشنلزم کے اعتقاد پر میرے اندر فخر و غرور تھا. اور مذہب کے نام میں جہل و توہم کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا، تاہم وہ چیز کہاں تھی جس کی ڈھونڈھ میں نکلا تھا؟ یعنی دل کا اطمینان؟ وہ تو اب اور زیادہ دور ہو گئی تھی. میرے اضطراب کی اندھیاری میں تسلی کی ایک ہلکی کرن بھی دکھائی نہیں دیتی تھی!
14 برس سے لے کر 22 برس کی عمر تک میرا یہی حال رہا. میرا ظاہری روپ ایک ایسے مذہبی آدمی کا تھا جو مذہب کو عقل و علم کے ساتھ ساتھ چلاتا ہے. لیکن میرے اندر اعتقاد میں قطعی الحاد تھا اور عمل میں قطعی فسق ۔
یہی منزل میری آخری مایوسی کی منزل تھی، اور اسی کے بعد اچانک امید کی روشنی میرے سامنے چمکی. میں جس طرح اس ہاتھ کو نہیں بتلا سکتا، جس نے مجھے اندھیری میں ڈھکیلا، اسی طرح میں اس ہاتھ کے لیے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، جس نے اچانک مجھے اجالے میں پہنچا دیا، تاہم یہ حقیقت ہے کہ روشنی نمودار ہوئی اور نو برس خاک چھاننے کے بعد میں نے اپنی منزلِ مقصود خود اپنے ہی پاس موجود پائی. تمام شکوک دور ہو گئے. تمام دھوکے مٹ گئے جس یقین اور اطمینان کی تلاش تھی، وہ مجھے حاصل ہو گیا ۔
اب مجھے معلوم ہوا کہ مذہب اور عقل کے میدان بالکل الگ الگ ہیں، اور دونوں کی ایسی پوزیشن نہیں ہے کہ ان کو باہم مخالف سمجھ کر توڑنے یا جوڑنے کی کوشش کی جائے. مادہ اور محسوسات کی راہ ہم ادراک سے طے کر سکتے ہیں، مگر مذہب جس حکم کا پیام لاتا ہے، اس کے لیے ہمارے پاس صرف جذبہ ہے، اور یہ بڑی بھول ہے کہ چاندی سونا تولنے کے کانٹے سے ہوا اور روشنی کا بھی وزن معلوم کرنا چاہیں. مجھے معلوم ہوا کہ جس مذہب کو دنیا اسلام کے نام سے پہچانتی ہے، فی الحقیقت وہی مذہبی اختلافات کے سوال کااصلی جواب ہے۔ اسلام دنیا میں کوئی نیا مذہب قائم نہیں کرتا چاہتا، بلکہ اس کا مشن خود اس کے بیان کے مطابق صرف یہ ہے کہ دنیا میں تمام مذہبوں کے ماننے والے اپنی اصلی اور بے میل سچائی پر قائم ہو جائیں، اور باہر سے ملائی ہوئی جھوٹی باتوں کو چھوڑ دیں. اگر وہ ایسا کریں، تو جو اعتقاد ان کے پاس ہوگا، اس کا نام قرآن کی بولی میں اسلام ہے ۔
قرآن کہتا ہے کہ خدا کی سچائی ایک ہے ابتدا سے موجود ہے، اور تمام انسانوں اور قوموں کے لیے یکساں طور پر آتی رہی ہے. دنیا کا کوئی ملک، کوئی گوشہ نہیں، جہاں خدا کے سچے بندے نہ پیدا ہوئے ہوں اور انھوں نے سچائی کی تعلیم نہ دی ہو، لیکن ہمیشہ ایسا ہوا کہ لوگ کچھ دنوں تک اس پر قائم رہے، پھر اپنے خیال اور وہم سے طرح طرح کی نئی اور جھوٹی باتیں نکال کر اس طرح پھیلا دیں کہ وہ خدا کی سچائی انسانی ملاوٹ کے اندر گم ہو گئی ۔اب ضرورت تھی کہ سب کو جگانے کے لئے ایک عالمگیر صدا بلند کی جائے ۔۔
یہ اسلام ہے وہ عیسائی سے کہتا ہے کہ سچا عیسائی بنے ۔یہودی سے کہتا ہے کہ سچا یہ ودی بنے، پارسی سے کہتا ہے کہ سچا پارسی بنے ۔۔ اسی طرح ہندوؤں سے کہتا ہے کہ اپنی اصلی سچائی کو دوبارہ قائم کر لیں. یہ سب اگر ایسا کر لیں، تو وہ وہی ایک ہو سچائی ہوگی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ سب کو دی گئی ہے. کوئی قوم نہیں کہہ سکتی کہ وہ صرف اسی کی میراث ہے. اسی کا نام “اسلام” ہے اور وہی “دین الفطرۃ” ہے، یعنی خدا کا بنایا ہوا نیچر، اسی پر یہ تمام کارخانۂ ہستی چل رہا ہے. سورج کا بھی وہی دھرم ہے. زمین بھی اسی کو مانے ہوئے ہر آن گھوم رہی ہے، اور کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی ہی اور کتنی زمینیں اور دنیائیں ہیں، اور ایک خدا کے ٹھرائے ہوئے ایک ہی قانون پر عمل کر رہی ہیں ۔۔!!
پس قرآن لوگوں کو ان کے مذہب سے چھڑانا نہیں چاہتا، بلکہ ان کے اصلی مذہب پر ان کو دوبارہ قائم کر دینا چاہتا ہے ۔ دنیا میں بے شمار مذہب ہیں ۔ ہر مذہب کا پیرو سمجھتا ہے کہ سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے، اور باقی سب باطل پر ہیں، گویا قوم اور نسل کی طرح سچائی کی بھی میراث ہے اب اگر فیصلہ ہو تو کیونکر ہو ۔۔؟؟اختلاف دور ہو تو کس طرح ہو؟ اس کی صرف تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
ایک یہ کہ سب حق پر ہیں، یہ ہو نہیں سکتا. دوسری یہ کہ سب باطل پر ہیں. اس سے بھی فیصلہ نہیں ہوتا. کیونکہ پھر حق کہاں ہے؟ اور سب کا دعوٰی کیوں ہے؟ اب تیسری ایک صورت رہ گئی، یعنی سب حق پر بھی ہیں اور سب ناحق پر بھی. یعنی اصل ایک ہے اور سب کے پاس ہے. ملاوٹ باطل ہے. مؤجب اختلاف ہے، اور سب اسی میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔اگر ملاوٹ چھوڑ دیں اور اصلیت کو پرکھ کے صاف کر لیں، تو وہ ایک ہی ہوگی اور سب کی جھولی میں نکلے گی ۔!
قرآن “یہی کہتا ہے، اور اس کی بولی میں اسی مشترک اور عالمگیر اصلیت کا نام اسلام ہے.
شک اور انکار کے بعد یقین اور اعتقاد کے حصول میں میرے نظر و فکر کا کیا عالم رہا اور میرے تمام لاینحل (ناقابل حل )سوالوں کے کیا کیا جواب ملے؟ یہ بہت لمبی داستان ہے اور میری موجودہ تصنیفات انہیں کی شرح ہیں”
حوالہ کتاب ‘ذکر آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی ‘ ، کمپوزنگ سالم فریادی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password