انکارِخداکےفلسفےکی بنیادی دلیل کی معقولیت

اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دکان ایسی ہے جس کا کوئی دکان دار نہیں ہے، نہ کوئی ا س میں مال لانے والا ہے، نہ بیچنے والا اور نہ کوئی اس کی رکھوالی کرتا ہے، دکان خود بخود چل رہی ہے، خود بخود اس میں مال آ جاتا ہے اور خود بخود خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہو جاتا ہے، تو کیا آپ اس شخص کی بات مان لیں گے؟ کیا آپ تسلیم کر لیں گے کہ کسی دکان میں مال لانے والے کے بغیر خود بخود بھی مال آ سکتا ہے، مال بیچنے والے کے بغیر خود بخود فروخت بھی ہو سکتا ہے؟ حفاظت کرنے والے کے بغیر خودبخود چوری اور لوٹ سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے؟ اپنے دل سے پوچھیے ایسی بات آپ کبھی مان سکتے ہیں ؟ جس کے ہوش و حواس ٹھکانے ہوں کیا اس کی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ کوئی دکان دنیا میں ایسی بھی ہو گی؟
فرض کیجیے۔ ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اس شہر میں ایک کارخانہ ہے جس کا نہ کوئی مالک ہے، نہ انجینئر، نہ مستری۔ سارا کارخانہ خودبخود قائم ہو گیا ہے۔ ساری مشینیں خود بخود بن گئی ہیں، خود ہی سارے پرزے اپنی اپنی جگہ لگ گئے ہیں، خود ہی سب مشینیں چل رہی ہیں، اور خود ہی ان میں سے عجیب عجیب چیزیں بن بن کر نکلتی رہتی ہیں۔ سچ بتایئے جو شخص آپ سے یہ بات کہے گا۔ آپ حیرت سے اس کا منہ نہ تکنے لگیں گے! آپ کو یہ شبہ نہ ہو گا کہ اس کا دماغ تو کہیں خراب نہیں ہو گیا ہے؟ کیا ایک پاگل کے سوا ایسی بے ہودہ بات کوئی کہہ سکتا ہے؟
دور کی مثال کو چھوڑیئے، یہ بجلی کا بلب جو آپ کے سامنے جل رہا ہے کیا کسی کے کہنے سے آپ یہ مان سکتے ہیں کہ روشنی اس بلب میں آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے؟ یہ کرسی جو آپ کے سامنے رکھی ہے، کیا کسی بڑے سے بڑے فاضل فلسفی کے کہنے سے بھی آپ یہ باور کر سکتے ہیں کہ یہ خود بخود بن گئی ہے؟ یہ کپڑے جو آپ پہنے ہوئے ہیں، کیا کسی علامۂ دہر کے کہنے سے بھی آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں کہ ان کو کسی نے بنایا نہیں ہے، یہ خود بن گئے ہیں ؟ یہ گھر جو آپ کے سامنے کھڑے ہیں اگر تمام دنیا کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر مل کر بھی آپ کو یقین دلائیں کہ ان گھروں کو کسی نے نہیں بنایا ہے بلکہ یہ خود بن گئے ہیں، تو کیا ان کے یقین دلانے سے آپ کو ایسی لغو بات پر یقین آ جائے گا؟
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے کی ہیں۔ رات دن جن چیزوں کو آپ دیکھتے ہیں انہیں میں سے چند ایک میں نے بیان کی ہیں۔ اب غور کیجیے، ایک معمولی دکان کے متعلق جب آپ کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ وہ کسی قائم کرنے والے کے بغیر چل رہی ہے، جب ایک ذرا سے کارخانے کے متعلق آپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے گا اور کسی چلانے والے کے بغیر چلتا رہے گا تو یہ زمین وآسمان کا زبردست کارخانہ جو آپ کے سامنے چل رہا ہے، جس میں چاند اور سورج اور بڑے بڑے ستارے گھڑی کے پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، جس میں سمندروں سے بھاپیں اٹھتی ہیں، بھاپوں سے بادل بنتے ہیں، بادلوں کو ہوائیں اڑا کر زمین کے کونے کونے میں پھیلاتی ہیں، پھر ان کو مناسب وقت پر ٹھنڈک پہنچا کر دوبارہ بھاپ سے پانی بنایا جاتا ہے، پھر وہ پانی بارش کے قطروں کی صورت میں گرایا جاتا ہے، پھر اس بارش کی بدولت مردہ زمین کے پیٹ سے طرح طرح کے لہلہاتے ہوئے درخت نکالے جاتے ہیں۔ قسم قسم کے غلے، رنگ برنگ کے پھل اور وضع وضع کے پھول پیدا کیے جاتے ہیں، اس کارخانے کے متعلق آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بنانے والے کے بغیر خود بن گیا اور کسی چلانے والے کے بغیر خود چل رہا ہے؟
ایک ذرا سی کرسی، ایک گز بھر کپڑے، ایک چھوٹی سی دیوار کے متعلق کوئی کہہ دے کہ یہ چیزیں خود بنی ہیں تو آپ فوراً فیصلہ کر دیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بھلا اس شخص کے دماغ کی خرابی میں کیا شک ہو سکتا ہے جو کہتا ہے کہ زمین خود بن گئی، جانور خود پیدا ہو گئے، انسان جیسی حیرت انگیز چیز آپ سے آپ بن کر کھڑی ہو گئی۔ آدمی کا جسم جن اجزاء سے مل کر بنا ہے ان سب کو سائنس دانوں نے الگ الگ کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوہا ہے، کچھ کوئلہ، کچھ گندھک، کچھ فاسفورس، کچھ کیلشیم، کچھ نمک، چند گیسیں اور بس ایسی ہی چند اور چیزیں جن کی مجموعی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں جتنے جتنے وزن کے ساتھ آدمی کے جسم میں شامل ہیں، اتنے ہی وزن کے ساتھ انہیں لے لیجیے اور جس طرح جی چاہے ملا کر دیکھ لیجیے۔ آدمی کسی ترکیب سے نہ بن سکے گا۔ پھر کس طرح آپ کی عقل مان سکتی ہے کہ ان چند بے جان چیزوں سے دیکھتا، سنتا، بولتا، چلتا پھرتا انسان، جو ہوائی جہاز اور ریڈیو بناتا ہے، کسی کاریگر کی حکمت کے بغیر خود بخود بن جاتا ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سی فیکٹری میں کس طرح آدمی تیار ہوتا ہے؟ باپ کی کارستانی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ماں کی حکمت کا اس میں کوئی کام نہیں۔ ایک ذرا سی تھیلی میں دو کیڑے جو خوردبین کے بغیر دیکھے تک نہیں جا سکتے، نہ معلوم کب آپس میں مل جاتے ہیں۔ ماں کے خون ہی سے ان کو غذا پہنچنی شروع ہو جاتی ہے۔ وہیں سے لوہا، گندھک، فاسفورس وغیرہ تمام چیزیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایک خاص وزن اور خاص نسبت کے ساتھ وہاں جمع ہو کر لوتھڑا بنتی ہیں۔ پھر اس لوتھڑے میں جہاں آنکھیں بننی چاہئیں وہاں آنکھیں بنتی ہیں، جہاں کان بننے چاہئیں وہاں کان بنتے ہیں، جہاں دماغ بننا چاہیے وہاں دماغ بنتا ہے، جہاں دل بننا چاہیے وہاں دل بنتا ہے۔ ۔ ۔ ہڈی اپنی جگہ پر، گوشت اپنی جگہ پر، غرض ایک ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔ پھر اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ دیکھنے کی طاقت، سننے کی طاقت، چکھنے اور سونگھنے کی طاقت، بولنے کی طاقت، سوچنے اور سمجھنے کی طاقت اور نہ جانے کتنی بے حدوحساب طاقتیں اس میں بھر جاتی ہیں۔ اس طرح جب انسان مکمل ہو جاتا ہے تو پیٹ کی وہی چھوٹی سی فیکٹری جہاں نو مہینے تک وہ بن رہا تھا خود زور کر کے اسے باہر دھکیل دیتی ہے۔ اس فیکٹری سے ایک ہی طریقے پر لاکھوں انسان روز بن کر نکل رہے ہیں۔ مگر ہر ایک کا نمونہ جدا ہے۔ شکل جدا، رنگ جدا، آواز جدا، قوتیں اور قابلیتیں جدا، طبیعتیں اور خیالات جدا، اخلاق اور صفات جدا۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو سگے بھائی تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کرشمے کو دیکھ کر بھی جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ کام کسی زبردست حکمت والے، زبردست قدرت والے، زبردست علم اور بے نظیر کمالات والے خدا کے بغیر ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے، یقیناً اس کا دماغ درست نہیں اس کو عقل مند سمجھنا عقل کی توہین کرنا ہے۔ کم از کم میں تو ایسے شخص کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
تحریر سید مودودی ؒ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password