مقام حضرت ابوبکرتشقیق جدلی کی روشنی میں

۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں روم و ایران کی حکومتیں نہایت طاقتور تھیں جنہیں اس دور کی دو عالمی قوتیں (world powers ) کہا جاسکتا ہے۔ ۹ ہجری میں پیش آنے والے غزوہ تبوک میں مقابلہ رومی حکومت سے تھا۔ مزید برآں طویل سفر ، سخت گرمی اور کھجوروں کی نیم پختہ فصل نے اہل حق کی آزمائشوں میں شدت پیدا کردی تھی ۔ منافقین کا نفاق تو طشت از بام ہونا ہی تھا ، بعض مخلص مسلمان بھی اس غزوے میں شرکت سے گھبرا رہے تھے۔ چونکہ ان کی اصلاح اور تربیت مقصود تھی ، انہیں شرمندہ کرنا اور بدنام کرنا مطلوب نہ تھا لہذا اللہ تعالی نے عتاب آمیز لہجے میں صرف انہی حضرات کو مخاطب نہیں فرمایا بلکہ خطاب کو عام رکھا حالانکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ سارے کے سارے اصحاب رسول جہاد سے جی چرانے والے ہرگز نہ تھے۔ چنانچہ سورہ توبہ کی متعلقہ آیات کا مضمون یہ ہے کہ جب تمہیں قتال فی سبیل اللہ کے لئے کہا جاتا ہے تو تمہیں کیا ہو جاتا ہے کہ تم زمین میں گڑے جاتے ہو۔آخر میں فرمایا کہ اگر تم جہاد کے لئے نہ نکلے تو اللہ تعالی تمہیں عذاب دے گا اور تمہاری بجائے کوئی اور قوم لے آئے گا ویستبدل قوما غیرکم ( التوبہ ۳۹ )۔ چونکہ خطاب عام تھا اس لئے متعلقہ حضرات کی اصلاح طلب بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں پر ستارالعیوب اللہ تعالی نے نہ صرف پردہ ڈال دیا بلکہ ان کی اصلاح بھی اس طرح فرمائی کہ ان کوتاہیوں کے حامل افراد ظاہر نہ ہونے پائیں اور ان کا مقام و مرتبہ بھی بحال رہے۔ چنانچہ اللہ تعالی ان اصحاب رسول کی جگہ کوئی اور قوم نہیں لایا۔ ان کی اصلاح نہ ہوئی ہوتی تو اللہ تعالی یقینا اپنی خبر کو سچا کرتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں غزوہ تبوک آخری غزوہ ہے اور قتال فی سبیل اللہ کے سلسلے میں اللہ تعالی کا یہ عتاب آمیز خطاب بھی آخری خطاب ہے۔ اس عتاب آمیز خطاب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک صحابی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مستثنی رکھا گیا ہے۔ جس سے صدیق اکبر کا انتہائی بلند مقام و مرتبہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ؛ الا تنصروہ فقد نصرہ الله اذ اخرجه الذین کفروا ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبه لا تحزن ان الله معنا فانزل الله سکینته علیه و ایدہ بجنود لم تروھا و جعل کلمة الذین کفروا السفلی و کلمة الله ھی العلیا والله عزیز حکیم ۔( التوبہ ۴۰ )۔ ” یعنی اگر تم اس ( رسول ) کی مدد نہیں کروگے تو بےشک اللہ نے اس کی مدد کی تھی جب اسے کافروں نے ( مکے سے ) نکال دیا تھا وہ دو میں دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی ( ابوبکر ) سے کہہ رہا تھا تو رنج نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ ( اطمینان ) نازل کیا اور اس کی مدد ( ملائکہ کی ) ایسی فوجوں سے کی جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور اس نے کافروں کی بات کو نیچا کر دکھایا اور اللہ کی بات ہی اوپر رہی۔ اور اللہ ( بڑا ) زبردست ہے ( اور ) حکمت والا ہے ( کہ جس طرح اور جس کے ذریعے چاہے اپنے رسول کی مدد کرے )۔”
یہاں درج ذیل امور بالخصوص قابل توجہ ہیں :-
( ۱ ) مذکورہ بالا آیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات لا تحزن ان اللہ معنا ( اے ابوبکر ) تو رنج نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ” سے ثابت ہوا کہ جو معیت الہیہ رسول اکرم کو حاصل ہے اسی میں حضرت ابوبکر صدیق رض کو بھی حصہ عطا ہوا ہے کیونکہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان الله معی و معک ( بیشک اللہ میرے اور تیرے ساتھ ہے ) بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی ہم دونوں کے ساتھ ہے۔ یہ فضیلت کسی اور صحابی رسول کے لئے کتاب اللہ سے ثابت نہیں ۔ کوئی نعمت دو یا دو سے زائد اشخاص میں مشترک ہو تو اس سے ان کے مدارج و مراتب کا یکساں ہونا لازم نہیں آتا۔ بالفاظ دیگر اشتراک نعمت سے مساوات ثابت نہیں ہوتی لہذا یہ شبہہ باطل ہے کہ پھر تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ( معاذاللہ ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہوگئے۔ دیکھئے نبوت اللہ تعالی کی وہبی نعمت ہے اور وصف نبوت تمام انبیاء علیھم السلام میں گو مشترک ہے لیکن ان کے مدارج و مراتب کم و بیش ہیں۔ تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض۔( البقرة ۲۵۳ )” یعنی ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔” دیگر حضرات انبیاء علیھم السلام ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وصف نبوت اور وصف معیت الہیہ دونوں میں شریک ہیں جبکہ حضرت ابوبکر صدیق آپ کے ساتھ وصف معیت الہیہ میں شریک ہیں ۔ لیکن یہ نبیوں والی خاص معیت الہیہ ایسی زبردست نعمت ہے جس میں حضرات انبیاء علیھم السلام کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رض کا کوئی اور شریک نہیں لہذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبیوں والی ولایت کے بعد نہایت بلند مرتبہ ولایت پر قائم ہیں یعنی آپ مقام صدیقیت پر فائز ہیں بلکہ مدارج صدیقیت میں آپ صدیقیت کبری پر قائم ہیں ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تو سب ہی اصحاب مرتبہ صدیقیت یا کم از کم مرتبہ شہادت پر فائز ہیں۔چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: والذین آمنوا بالله ورسله اولئک ھم الصدیقون والشھدآء عند ربھم۔( الحدید ۱۹ )” یعنی جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ اپنے رب کے ہاں صدیقین اور شھداء ہیں۔” ظاہر ہے کہ آیت کے نزول کے موقع پر روئے زمین پر صرف اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی تو مومنین تھے اور وہی اس کا اولین مصداق ہیں۔
( ۲ ) آیت غار میں جس معیت الہیہ کی بات ہو رہی ہے یہ خاص معیت رحمت و قرب ہے ورنہ اللہ تعالی کی معیت عامہ جسے معیت علم بھی کہا جاسکتا ہے ، وہ تو ہر شخص بلکہ ہر چیز کو حاصل ہے یعنی اللہ تعالی کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ وھو معکم این ما کنتم ۔( الحدید ۴ )۔” تم جہاں بھی ہوگے اللہ تمہارے ساتھ ہے۔” وھو معھم اذ یبیتون ما لا یرضی من القول ( النساء ۱۰۸ ) ” وہ ( اللہ ) ان ( منافقین ) کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کے وقت ناگفتنی مشورے اور سازشیں کر رہے ہوتے ہیں۔”
اللہ تعالی کی خاص معیت رحمت کے مستحق صرف متقی اور نیک لوگ ہوتے ہیں، مثلا اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ان الله مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون ( النحل ۱۲۸ )۔” اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہوئے اور جو نیکوکار ہیں”۔ ان رحمت الله قریب من المحسنین ( الاعراف ۵۶ ) ” بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب (ساتھ) ہے۔” آیت غار میں تو عام متقین ہی کی نہیں بلکہ پیغمبروں کے درجے کی خاص معیت رحمت مذکور ہے۔ اگر یہاں محض اللہ تعالی کی معیت علم ہی مراد ہو تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور بشارت یہ فرمانا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ( معاذاللہ ) بیکار ہوگا۔ اللہ کی یہ معیت عامہ اور معیت علم تو سب کو حاصل ہے اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کیا خصوصیت رہی؟؟
( ۳ ) بعض اوقات واحد کے لئے جمع کی ضمیر بطور تعظیم استعمال ہوتی ہے، مثلا اللہ تعالی کا ارشاد ہے: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحفظون ( الحجر ۹ )” ہم نے ہی اس نصیحت ( قرآن کریم ) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “۔ آیت میں صیغہ جمع کا لایا گیا ہے چونکہ ایک سے زائد خداوں کا وجود محالات عقلیہ سے ہے لہذا آیت میں واحد اور لاشریک اللہ تعالی ہی مراد ہے۔ لیکن آیت غار میں ” ان الله معنا ” میں ” معنا ” سے واحد متکلم یعنی صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد کلام ٹھہرانے پر ہرگز کوئی قرینہ موجود نہیں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کو اس معیت الہیہ سے خارج کرنے پر یہ شقیں پیدا ہوں گی کہ حضرت ابوبکر صدیق یا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ تھے یا ( معاذاللہ ) بدخواہ تھے یا آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور بد خواہی سے بے نیاز ہوکر معاذاللہ محض اپنی ہی جان کی فکر میں پریشان اور رنجیدہ تھے۔ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیرخواہ اور ہمدرد تھے تو انہیں معیت الہیہ سے خارج کرنے کا کوئی عقلی جواز ہی نہیں۔ اگر آپ ( معاذاللہ ) بد خواہ تھے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو لاتحزن ( تو رنج نہ کر ) کے کلمات سے مخاطب کرنا بے معنی قرار پائے گا۔ منافقین اصحاب رسول اللہ کے بدخواہ اور دشمن تھے، سامنے آتے تو اپنا مومن ہونا ظاہر کرتے اور تنہائی میں ہوتے تو صحابہ کرام سے بغض و عناد کی بنا پر اپنی انگلیاں غصے سے کاٹتے۔ اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان کے لئے یوں بد دعا کریں۔موتوا بغیظکم ( آل عمران ۱۱۹) ” یعنی تم اپنے غصے میں مر جاو” انہیں لا تحزنوا ( تم رنج نہ کرو) سے مخاطب نہیں کیا گیا۔ اگر مذکورہ بالا تینوں شقوں میں سے تیسری شق اختیار کی جائے کہ حضرت ابوبکر کو معاذاللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی فکر نہ تھی بلکہ اپنی ہی فکر میں مبتلا تھے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو ” لا تحزن ان الله معنا ” ( تو رنج نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ) نہ کہتے، یہاں کوئی ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیھ کا لفظ مثلا کلا بمعنی خبردار ( حرف ردع ) استعمال کرتے اور ” معنا” کی بجائے ” معی ” کہتے تاکہ کوئی ابہام نہ رہتا۔ جب فرعون اور اس کے لشکر نے حضرت موسی علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں ( بنی اسرائیل ) کا تعاقب کیا کہ آگے سمندر اور پیچھے فرعون تھا تو انہوں نے اپنی ہی جانوں کی فکر میں کہا۔ فلما ترآء الجمعن قال اصحب موسی انا لمدرکون۔( الشعرآء ۶۱ )”جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسی کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے”۔ اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے جواب دیا۔ کلا ان معی ربی سیھدین۔( الشعرآء ۶۲ ) ” یعنی خبردار ! بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے عنقریب راہ دکھائے گا۔” جب آخری دونوں شقیں باطل ہو گئیں تو پہلی شق ہی صحیح ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے خیر خواہ ، ہمدرد اور دوست تھے۔ پس آیت میں ” معنا ” جمع کی ضمیر کا مرجع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں ہیں۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل رضامندی سے حضرت ابوبکر صدیق آپ کے رفیق سفر اور یارغار بنے ورنہ امامیہ حضرات کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب بھی تھے آپ ہرگز اس سمت کا رخ نہ فرماتے جہاں راستے میں آپ کا سامنا حضرت ابوبکر صدیق سے ہوتا چنانچہ تاریخی روایات کے مطابق رسول اکرم نے خود حضرت ابوبکر صدیق کو ساتھ لیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص اور خیر خواہ ساتھی تو تھے لیکن ( معاذاللہ ) مومن نہ تھے اس لئے ” معنا ” میں ضمیر جمع متکلم کے مرجع میں شامل نہیں ہیں تو مہاجرین مکہ بشمول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور انصار مدینہ کا قرآن کریم کی رو سے مومن کامل ہونا اور مغفور و مرحوم ہونا قبل ازیں انہی مباحث میں ہم بخوبی واضح کر چکے ہیں لہذا یہ شق بھی باطل ہے۔

 ( ۴ ) کوہ طور پر حضرت موسی علیہ السلام نے دیگر دعاوں کے علاوہ یہ دعا بھی کی تھی کہ اے اللہ ! میرے بھائی ہارون کو بھی میرے ساتھ کر دیجئیے تاکہ وہ میرے شریک کار ہوں اور مجھے ان سے تقویت ملے۔ اللہ تعالی نے فرمایا۔ قد اوتیت سئولک یموسی ( طہ ۳۶ ) ” اے موسی ! تجھے تیری مانگی چیز مل گئی۔” ظاہر ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی دعا کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ہارون علیہ السلام ان کے لئے ” یار خاطر ” بنیں نہ کہ ( معاذاللہ ) ” بار خاطر ” ثابت ہوں۔ اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی تو یقینا یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت ہارون علیہ السلام بلا شبہ اپنے بھائی حضرت موسی علیہ السلام کے لئے ” یار خاطر ” ہی ثابت ہوئے حالانکہ قرآن کریم سے مثلا سورہ طہ سے ثابت ہے کہ جب اللہ تعالی نے ان دونوں حضرات کو فرعون کے پاس جا کر تبلیغ حق کا حکم دیا تو دونوں نے یہ کہا ۔ اننا نخاف ان یفرط علینا او ان یطغی ( طہ ۴۵ )” یعنی ہم دونوں کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ( فرعون ) ہم پر زیادتی نہ کرے یا سرکشی نہ کرے۔” اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسی اور حضرت ہارون علیھما السلام دونوں اپنی اپنی جگہ پر خائف تھے۔ بعد کے سلسلہ واقعات میں جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر تورات لینے گئے اور اپنے پیچھے اپنی قوم بنی اسرائیل پر حضرت ہارون علیہ السلام کو بطور نگہبان چھوڑ گئے تو حضرت موسی علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم میں سے ایک گروہ نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تھی۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور سے واپس آئے تو سخت غصے کی حالت میں تھے۔ آپ نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا کیونکہ آپ کو یہ خیال ہوا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے گوسالہ پرستی کرنے والوں کے مواخذے و محاسبے میں شاید کوتاہی برتی ہے۔ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے یہ کہا کہ اے میری ماں کے بیٹے یعنی اے میرے حقیقی بھائی ! میری داڑھی اور سر نہ پکڑ مجھے تو یہ خدشہ ہے کہ آپ یہ بھی کہہ دیں گے کہ تونے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ہے اور میری بات کا خیال نہیں رکھا۔( طہ ۹۴ )۔ اب اگر کوئی شخص حضرت موسی اور حضرت ہارون ( علیھما السلام ) کے ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ حضرت ہارون نے مصائب و مشکلات میں حضرت موسی علیہ السلام کو سہارا تو نہیں دیا بلکہ وہ خود فرعون سے خائف تھے اور قوم کی گوسالہ پرستی کے معاملے میں تو حضرت موسی علیہ السلام کو ناراض و رنجیدہ ہونا پڑا۔ لہذا حضرت ہارون علیہ السلام ( معاذاللہ ) حضرت موسی علیہ السلام کے لئے یار خاطر نہیں بلکہ بار خاطر ثابت ہوئے، تو اس طرح کا نتیجہ اخذ کرنے والا شخص یقینا گمراہی میں مبتلا ہے ۔ ادہر غار ثور میں کوئی ایسی صورت حال سرے سے پیش نہ آئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراضگی کا اظہار کرنا پڑا ہو۔ جہاں تک حضرت ابوبکر صدیق کے حزن ( رنج و غم ) کا تعلق ہے تو آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پریشان تھے کیونکہ قریش مکہ کا اصل نشانہ اور ہدف رسول اکرم ہی تھے لیکن اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت ابوبکر رض کو اپنی ذات کے لئے پریشانی لاحق تھی تو بھی یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ( معاذاللہ ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ” یار خاطر ” نہیں بلکہ “بار خاطر ” ثابت ہوئے ورنہ اس طرح کا الزام حضرت ہارون علیہ السلام پر تو ( معاذاللہ ) کہیں زیادہ عائد ہوگا جو بذات خود بھی فرعون سے خوف زدہ تھے اور قوم کی گوسالہ پرستی کے واقعے میں تو حضرت موسی علیہ السلام نے ان سے اپنی رنجش کا برملا اظہار فرمایا تھا۔ یہاں یہ کہنا کافی نہ ہوگا کہ بعد میں حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے استغفار کر لیا تھا کیونکہ انہوں نے استغفار صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے بھی کیا کہ ہم دونوں میں سے جس سے بھی اجتہادی خطا سرزد ہوئی ہے اللہ اسے معاف کر دے۔ پس جب فرعون سے خوف زدہ ہونے اور بعد میں گوسالہ پرستی کے معاملے میں ممکنہ خطائے اجتہادی میں مبتلا ہونے کے باوجود یہ کہنا سراسر گمراہی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام اپنے بھائی حضرت موسی علیہ السلام کے لئے بارخاطر ثابت ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق اس طرح کی رائے قائم کرنا بھی گمراہی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر کا نہ تو اپنی ذات کے لئے خوف زدہ یا رنجیدہ ہونا قطعیت سے ثابت ہے اور نہ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے دوران ہجرت کسی بات پر ناراض و رنجیدہ ہوئے۔
( ۵ ) طبعی خوف اور طبعی رنج ( حزن ) چونکہ غیر اختیاری ہوتا ہے لہذا یہ نہ تو قابل مذمت ہے اور نہ ہی قابل مواخذہ ہے۔ ایسے خوف و حزن سے تو حضرات انبیاء علیھم السلام بھی مستثنی نہیں۔ مثلا حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی نادانستہ مارا گیا تو آپ نے وطن چھوڑا اور مدین کے راستے پر ہو لئے، آپ اس وقت خوف زدہ تھے۔ خائفا یترقب ( القصص ۱۸ ) ” یعنی آپ ( نے شہر میں صبح اس حال میں کی کہ آپ ) خوفزدہ تھے ( اور آئندہ کی صورت حال کے ) منتظر تھے۔” جب مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر پہنچے تو حضرت شعیب علیہ السلام نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔ لا تخف نجوت من القوم الظالمین ( القصص ۲۵ )”یعنی ( اے موسی ) نہ ڈر تو ظالم قوم سے نجات پا چکا ہے۔” کوہ طور پر آپ نے بحکم الہی اپنا عصا زمین پر پھینکا اور وہ اژدھا بن گیا تو آپ ڈر کر پیچھے کو مڑے۔ ولی مدبرا ولم یعقب یموسی اقبل ولا تخف انک من الآمنین۔( القصص ۳۱ ) ” یعنی اس ( موسی ) نے پیٹھ پھیری اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ( ہم نے کہا ) اے موسی! آگے آ اور نہ ڈر بیشک تجھے امن حاصل ہے۔” آپ کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاکر اسے اللہ کے دین کی دعوت دو تو آپ نے کہا ۔ فاخاف ان یقتلون ( القصص ۳۳ ) یعنی مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔” آپ کی خواہش پر اللہ تعالی نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی آپ کے ہمراہ کر دیا لیکن دونوں بھائیوں نے یہ کہا ۔ ربنا اننا نخاف ان یفرط علینا او ان یطغی ( طہ ۴۵ ) ” یعنی اے ہمارے رب ! ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ( فرعون ) ہم پر زیادتی نہ کرے یا سرکشی سے کام نہ لے۔” جب جادوگروں نے اپنے ڈنڈے زمین پر پھینکے اور وہ سپولئے بن گئے تو حضرت موسی علیہ السلام نے پہلے پہل اپنے دل میں خوف محسوس کیا ۔ فاوجس فی نفسه خیفة موسی ( طہ ۶۷ )۔ جب برادران یوسف نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام سے درخواست کی کہ یوسف علیہ السلام کو ہمارے ہمراہ جنگل میں بھیج دیجئیے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے خوف اور حزن کا یوں حوالہ دیا ۔ قال انی لیحزننی ان تذھبوا به و اخاف ان یاکله الذئب و انتم عنه غفلون۔( یوسف ۱۳ )۔ ” یعنی ( یعقوب نے ) کہا کہ مجھے یہ بات رنجیدہ کرتی ہے کہ تم اس ( یوسف ) کو لے جاو اور مجھے خوف ہے کہ اسے بھیڑیا کھا جائے گا اور تم اس سے غافل ہو جاوگے۔” خود افضل الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد ہے۔ قد نعلم انه لیحزنک الذی یقولون فانھم لا یکذبونک ولکن الظالمین بآیات الله یجحدون۔ ( الانعام ۳۳ ) ” یعنی ہمیں بلاشبہ اس بات کا علم ہے کہ جو کچھ وہ ( کفار مکہ ) کہتے ہیں اس سے تجھے رنج پہنچتا ہے۔”
دیکھئے اگر حضرت موسی علیہ السلام بیسیوں مرتبہ طبعی خوف کا شکار ہوئے ہوں۔ حضرت ہارون علیہ السلام کو ان کے ہمراہ کیا گیا تو بھی دونوں فرعون کے ہاس جانے سے طبعی خوف محسوس کریں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو خوف و حزن دونوں لاحق ہوں ۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعی حزن ( رنج ) لاحق ہو تو ان حضرات انبیاء علیھم السلام کے مرتبہ نبوت میں ہرگز کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ۔ ہمارے امامیہ حضرات کے خیال میں حضرات ائمہ کرام مدت العمر خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تقیہ و کتمان کے پابند رہے اور بقول ان کے اسی خوف کی وجہ سے امام مھدی غار میں پوشیدہ ہوئے تو زیر بحث آیت غار کی رو سے اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غار ثور میں حزن ( رنج ) لاحق ہوا تو ان کے مرتبہ صدیقیت میں بھی ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں جو فرمایا گیا ہے۔ الآ ان اولیآء الله لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون۔( یونس ۶۴ )۔ ” یعنی اللہ کے اولیا پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ رنجیدہ ہوں گے۔” تو اس آیت میں آخرت کے خوف و حزن کی بات کی گئی ہے کہ آخرت میں اللہ کے اولیاء کو ایسا خوف لاحق نہیں ہوگا جو بعد میں حقیقت میں بدل جائےکیونکہ خوف مصیبت کے واقع ہونے سے پہلے ہوا کرتا ہے۔ جہاں تک حزن ( رنج ) کی بات ہے تو رنج مصیبت کے واقع ہونے کے بعد ہوا کرتا ہے چونکہ آخرت میں اولیاءاللہ پر کوئی مصیبت آئے گی ہی نہیں لہذا رنج کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہی نہیں۔ دنیا میں ایسے خوف اور حزن کی بھی انبیائے کرام علیھم السلام اور ان کے سچے وارثین سے نفی کی گئی ہے جس سے حق گوئی اور حق پر عمل کرنے میں فرق آئے۔ طبعی اور غیر اختیاری خوف و حزن اس سے مستثنی ہے۔
( ۶ ) ہر زبان اور ہر لغت میں ” تو رنج نہ کر ” ” تم رنج نہ کرو ” کے مفہوم کو ادا کرنے والے الفاظ ہمیشہ رنجیدہ اور غمزدہ مخاطب کی تسلی اور دلاسے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح کے خطاب کو ہرگز تہدید و تنبیہ ( ڈانٹ ڈپٹ ) نہیں کہا جا سکتا۔ پورے قرآن کریم میں ہرگز یہ بات نہیں ملے گی کہ اللہ تعالی نے حضرات انبیاء علیھم السلام اور ان کے مخلص ساتھیوں کے مخالفین اور معاندین کفار اور فاسقین و فجار کو لاتحزن ( تو غم نہ کر ) ، لا تحزنی ( تو ایک عورت غم نہ کر ) ، لا تحزنوا ( تم غم نہ کرو ) جیسے کلمات سے کبھی مخاطب کیا ہو۔ اللہ تعالی نے ان کلمات سے ہمیشہ اپنے مقرب و محبوب بندوں کو ہی مخاطب فرمایا ہے۔ درج ذیل قرآنی آیات پر سیاق و سباق کی روشنی میں غور کیجئے؛-
فناداھا من تحتھا الا تحزنی قد جعل ربک تحتک سریا۔ و ھزی الیک بجذع النخلة تسقط علیک رطبا جنیا۔ فکلی واشربی و قری عینا۔( مریم ۲۴-۲۶ ) ” یعنی اس ( مریم ) کو نیچے سے فرشتے نے آواز دے کر کہا کہ تو رنج نہ کر بےشک تیرے رب نے تیرے نیچے چشمہ جاری کیا ہے۔ تو کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا تو تجھ پر تروتازہ کھجوریں گریں گی۔ بس تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔”
فاذا خفت علیه فالقیه فی الیم و لا تخافی و لا تحزنی ( القصص ۷ ) ” یعنی ( اے موسی کی ماں ! ) اگر تجھے اس ( موسی ) کے بارے میں خوف ہو تو تو اسے سمندر میں ڈال دے اور تو نہ خوف کھا اور نہ ہی رنج کر۔”
ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون ( النحل ۱۲۷ ) ” یعنی ( اے پیغمبر ! ) تو ان پر رنج نہ کر اور جو سازشیں اور تدبیریں وہ کرتے ہیں ان کے متعلق تنگی میں مبتلا نہ ہو۔”
وقالوا لا تخف ولا تحزن انا منجوک واھلک الا امراتک ( العنکبوت ۳۳ ) ” یعنی ( فرشتوں نے لوط سے ) کہا تو نہ ڈر اور نہ ہی رنجیدہ ہو بےشک ہم تجھے اور تیرے گھرانے کو سوائے تیری بیوی کے نجات دینے والے ہیں۔”
ولا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین ( آل عمران ۱۳۹ )۔ ” یعنی ( اے مسلمانو ! ) تم سست نہ بنو اور نہ تم رنج کرو تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان والے ہو۔”
تتنزل علیھم الملائکة الا تخافوا ولا تحزنوا و ابشروا بالجنة التی کنتم توعدون ( حم سجدہ ۳۰ )۔ ” یعنی ( بوقت موت ) ان ( نیک لوگوں ) پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ ہی رنج کرو اور اس جنت کی خوشخبری حاصل کرو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔”
پس آیت غار میں بھی لا تحزن ان الله معنا کا مضمون تسلی اور دلاسے کا ہے ، اس سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقرب بارگاہ الہی ہونا بھی ثابت ہوا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ طبعی خوف و حزن غیر اختیاری ہونے کی بنا پر لائق ملامت نہیں ہے۔

 ( ۷ ) حضرت یوسف علیہ السلام نے قید خانے میں اپنے دو قیدی ساتھیوں کو یصاحبی السجن ( اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو !) کے الفاظ سے مخاطب فرمایا کہ سیاق کلام کی رو سے وہ آپ کے ایمان کے ساتھی نہیں تھے بلکہ صرف جیل کے ساتھی تھے۔ آیت غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سیاق کلام کی رو سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب ( ساتھی ) اس معنی میں کہا گیا ہے کہ آپ صرف زمان و مکان کے لحاظ سے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نہیں بلکہ خاص الخاص معیت الہیہ میں آپ کے ساتھ ہیں لہذا ایمان کے اعلی درجہ پر فائز بھی ہیں ۔ پس لفظ ” صاحب ” میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے بشارت اور مدح کا پہلو بخوبی واضح ہے۔
( ۸ ) مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کے موقع پر تاریخی روایات کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے قریش مکہ نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود وہاں سے اس طرح نکلے کہ اللہ تعالی نے دشمنوں کی نظر سے آپ کو محفوظ رکھا۔ بعد میں قریش کو اپنی ناکامی کا علم ہوا تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے مکہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی اور پر ایسا تشدد نہیں کیا جس سے انہیں پتہ چلتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ عام گھریلو معاملات میں تو بیشک حضرت علی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں ہو سکتے ہیں اور اہل بیت میں شامل ہونے کی وجہ سے انہیں ہونا بھی چاہئیے لیکن اس طرح کے حالات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں اور محرم اسرار صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہو سکتے ہیں ورنہ وہ یقینا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تشدد کرتے۔ بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بہادری میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو زیادہ بہادر نہیں تھے کہ اس موقع پر قریش مکہ آپ سے مرعوب و خائف ہوتے۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کا نقصان ہوا تو ایک موقع پر قریش مکہ کے سردار ابوسفیان نے بلند آواز سے کہا تھا۔” کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں ” جواب نہ ملا تو اس نے کہا ” کیا ابوبکر زندہ ہیں؟” جواب نہ ملنے پر اس نے کہا ” کیا عمر زندہ ہیں؟” اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے تھے ” اے دشمن خدا ہم سب زندہ ہیں ” ابو سفیان نے کسی اور صحابی مثلا حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ،حضرت زبیر وغیرہ ( رضی اللہ عنھم ) کا نام نہیں لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفار بھی حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق ( رضی اللہ عنھما ) دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی مقرب ساتھی خیال کرتے تھے۔
( ۹ ) جس کام سے اللہ تعالی اور اسکے رسول نے منع فرمایا ہو ، وہ کام بذات خود کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ، ممانعت سے قبل اس کا ارتکاب معصیت نہیں۔ البتہ ممانعت کے بعد اس کا دیدہ و دانستہ ارتکاب معصیت اور نافرمانی سمجھا جائے گا لہذا یہ شبہ انتہائی لغو ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ” لا تحزن (تو رنج نہ کر )” کے ذریعہ رنجیدہ ہونے سے اس لئے منع کیا گیا کہ ( معاذاللہ ) وہ معصیت میں مبتلا تھے۔ ورنہ اس طرح کا اعتراض تو بشمول حضرات انبیاء علیھم السلام بہت سے دیگر حضرات بلکہ افضل البشر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوگا کیونکہ قرآن کریم میں آپ کو بھی رنجیدہ اور غمگین ہونے سے بسا اوقات منع کیا گیا ہے مثلا ارشاد باری تعالی ہے۔ ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون ( النحل ۱۲۷ )” یعنی ( اے پیغمبر !) تو ان پر رنجیدہ نہ ہو اور نہ ہی ان کی خفیہ تدبیروں کے بارے میں تنگی میں مبتلا ہو ” ۔ جہاں تک لا تحزن ( تو رنج نہ کر ) جیسے الفاظ کا تعلق ہے تو یہاں ممانعت سے قبل بھی رنجیدہ اور غمگین ہونا ہرگز کوئی برا کام تھا ہی نہیں کیونکہ یہ حزن غیر اختیاری ہے جیسا کہ قبل ازیں واضح کیا جا چکا ہے۔ رنج و غم اگرچہ غیر اختیاری ہوتا ہے لیکن محزون و مغموم شخص کو تسلی دی جائے تو اس سے بسا اوقات اس کا رنج دور ہوتا ہے یا ہلکا ہو جاتا ہے تو اس طرح کی تمام آیات تسلیہ ( تسلی اور دلاسہ دینے ) کے مضمون پر مشتمل ہیں۔
( ۱۰ ) آیت کے حصہ فانزل الله سکینته علیه ( تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ یعنی اطمینان نازل کیا ) میں ” علیہ ” کی ضمیر واحد غائب اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف راجع ہے تو آپ کا مقام و مرتبہ از خود واضح ہو گیا۔ اگر اس ضمیر کا مرجع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا جائے تو ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پریشان و رنجیدہ تھے ورنہ آپ پر نزول سکینہ کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟ تو جو بھی اعتراضات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے رنجیدہ اور غمگین ہونے پر کئے جائیں وہ سب کے سب کالعدم ہوگئے۔ اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اللہ تعالی کی طرف سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر براہ راست سکینہ ( اطمینان ) نازل ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سکینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے حاصل ہوا۔ کیونکہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ۔لا تحزن ان الله معنا۔ چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں اس لئے آپ پر سکینہ اللہ تعالی کی طرف سے براہ راست نازل ہوا اور ابوبکر صدیق کو آپ کے ذریعہ یہ سکینہ حاصل ہوا۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پرملال کے موقع پر پہلے پہل تمام اصحاب شدید رنج میں مبتلا تھے چونکہ حضرت ابوبکر صدیق ان سب میں بڑے تھے لہذا اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو سکینہ براہ راست حاصل ہوا اور دیگر صحابہ کرام کو آپ کے توسط سے حاصل ہوا کہ آپ نے اس موقع پر صحابہ سے خطاب کیا اور انہیں تسلی دی تو انہیں بھی اطمینان حاصل ہوگیا۔ اس سے آپ کا افضل الصحابہ ہونا اور آپ کی خلافت بلافصل کا حق ہونا بھی واضح ہوا۔
یہاں ” فانزل الله ” میں ” فا ” کا تعقیب کے لئے ہونا ضروری نہیں یعنی اس ” فا ” سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے سکینہ ( اطمینان ) پہلے حاصل ہوا ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سکینہ اللہ تعالی کی طرف سے بعد میں حاصل ہوا ہو کیونکہ “فا” کا ہمیشہ تعقیب ( موخر ہونا ) کو ظاہر کرنے کے لئے ہونا ہرگز ضروری نہیں مثلا سورہ مائدہ میں نماز کے لئے وضو کا حکم یوں دیا گیا ہے : یاایھاالذین آمنوا اذا قمتم الی الصلوة فاغسلوا وجوھکم الآیة ( المائدہ ۶ ) ” اے مسلمانو ! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوا کرو تو اپنے چہرے دھو لیا کرو آخر آیت تک ” یہاں آیت میں ” فاغسلوا” پر ” فا ” تعقیب کے لئے نہیں ۔ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ نماز پہلے ادا کر لیا کرو اور وضو بعد میں کیا کرو۔ تاہم اگر آیت غار کے مذکورہ متعلقہ حصے کی ” فا ” کے متعلق اصرار کیا جائے کہ یہ تعقیب کے لئے ہے تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ گو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی پریشان اور رنجیدہ تھے لیکن آپ نے اپنی پریشانی کو چھپاتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تسلی دی ، بعد میں اللہ تعالی نے خود آپ پر بھی سکینہ نازل فرما دیا۔ بسا اوقات کسی بڑی مصیبت و آفت کے موقع پر بزرگ حضرات اپنے رنج اور پریشانی کو چھپاتے ہیں اور چھوٹے اعزہ و اقارب کو تسلی دیا کرتے ہیں کیونکہ اگر بزرگ بھی رنج و الم کا اظہار کرنے لگیں تو چھوٹے اعزہ و اقارب کو کون تسلی دے گا ؟ بڑوں کی اس حالت کو دیکھ کر ان کا رنج و غم تو اور بھی بڑھ جائے گا۔
آیت غار اور اس کے متعلقات کو زیر بحث لانے سے اور تمام شبھات و اعتراضات کے ازالے اور ابطال سے واضح ہو گیا کہ ایک طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر” کے مصداق ہیں تو دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خاص الخاص معیت رحمت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک و سہیم ہونے کی بنا پر ” بعد از انبیا بزرگ توئی قصہ مختصر” کے مصداق ہیں۔
تحریر پروفیسر ظفر احمد صاحب دامت برکاتہم

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password