خلفائے راشدین ؓ اور بعد کے خلفاء

) سورہ نور کی آیت استخلاف میں جس خلافت کا اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے اور جس کی طرف واضح اشارہ سورہ حج کی آیت تمکین میں بهی ہے تو بعد میں پیش آنیوالے حالات کے مطابق یہ خاص الخاص خلافت راشدہ صرف اور صرف پہلے چاروں خلفاء رضی اللہ عنهم کے لئے ہے.
کیونکہ اولا سورہ حج کی آیت تمکین میں واضح اشارہ موجود ہے کہ یہ خلافت موعودہ بها ان مہاجرین کے لئے ہے جنہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی تهی. ثانیا سورہ نور کی آیت استخلاف میں کلمات آمنوا و عملواالصلحت فعل ماضی کے صیغے ہیں اگرچہ سیاق کلام کی رو سے ماضی کے صیغوں سے مستقبل کا بهی تعلق ہوسکتا ہے لیکن آیت زیرنظر میں آمنوا کے بعد “منکم” کی ضمیر حاضر نے اسے صرف ان صحابہ کرام رض کے ساتهہ مخصوص کردیا ہے جو نزول آیت کے وقت مدینہ منورہ میں موجود تهے.
ثالثا اگر اس خلافت کا وعدہ بعد کے ادوار کے مومنین صالحین کے لئے بهی ہوتا تو آیت میں کلمہ” منکم” لانے کی قطعا ضرورت نہ ہوتی اور تمام ادوار کے مومنین صالحین کے لئے درمیان میں ” منکم” لائے بغیر ہی وعد اللہ الذین آمنوا و عملواالصلحت کے کلمات ہر لحاظ سے بالکل کافی اور وافی ہوتے.کلام میں کسی بهی لفظ کو بلا ضرورت لانا عیب ہے اور اللہ تعالی اور اس کا کلام ہر عیب سے پاک ہے.
(2)کسی بهی نعمت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالی اس کی پیشگی بشارت دے اور وعدہ فرمائے پس جب یہ کہا جائے کہ آیت استخلاف کے وعدے کے خاص الخاص موعودلهم صرف اولین خلفاء اربعہ ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بعد کے ادوار کے مومنین صالحین کو خلافت راشدہ کی نعمت حاصل ہو ہی نہیں سکتی یا حاصل نہیں ہوگی. فرق صرف یہ ہے کہ بعد کے ادوار کے مومنین صالحین کی خلافت راشدہ بهی راشدہ تو رہے گی لیکن اسے خلافت موعودہ بها نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کی پیشگی خبر یا بشارت اللہ تعالی نے نہیں دی. یہ ایسا ہی ہے جیسے گو سب صحابہ کرام رض جنتی ہیں( یوم لا یخزی اللہ النبی والذین آمنوا معه..) لیکن نام بنام جن صحابہ کرام رض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی وہ صرف دس حضرات ہیں جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے اور ان میں خلفاء اربعہ بهی شامل ہیں.
(3) پس اس اعتبار سے خلافت راشدہ کی دو قسمیں ہیں. خلافت راشدہ موعودہ بہا اور خلافت راشدہ غیر موعودہ بہا. ظاہر ہے کہ جس خلافت راشدہ کے وعدے اور بشارت کا اللہ تعالی نے خاص الخاص اہتمام فرمایا وہ خلافت غیرموعودہ بها سے یقینا افضل و برتر ہے جیسے عشرہ مبشرہ کو جنت کی خصوصی بشارت میں انہیں تمام دیگر صحابہ کرام پر فضیلت عطا فرمادی ہے. اسی لئے خلفاء اربعہ کی خلافت راشدہ جو علی منهاج النبوہ کہا جاتا ہے یہ دراصل خلافت موعودہ بها ہی ہے. الفاظ کا یہ اختلاف محض تعبیر کا اختلاف ہے. آیت استخلاف میں خلافت کا وعدہ اگرچہ نزول آیت کے وقت کے تمام مہاجرین و انصار سے ہے لیکن لسانی محاورات کے مطابق جس نعمت کا فائدہ پوری قوم کو پہنچے اس کی نسبت سب کی طرف کردی جاتی ہے یعنی خلفاءاربعہ خاص الخاص موعودلهم ہیں جو بالفعل منصب خلافت پر فائز ہوئے اور دیگر حضرات بالعموم موعودلهم ہیں کہ وہ اس خلافت موعدہ بها سے مستفید ہوئے. یہ بالکل ایسے ہی ہےجیسے اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے یوں احسان جتایا ، وجعلکم ملوکا ( اور اس نے تمہیں بادشاہ بنایا تها) . اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنی اسرائیل کا ہر فرد بادشاہ ہوگیا تها بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو اسرائیلی بادشاه ہوئے تو سب بنی اسرائیل ان کی بادشاہت سے مستفید ہوئے.
(4) خلفائے راشدین کی خلافت راشدہ کی علت ایمان اور اعمال صالحہ ہے چنانچہ بعد کے ادوار میں اسی علت کی بنا پر جنہیں خلافت راشدہ کی نعمت ملے وہ بهی آیت استخلاف کے یوں مصداق ہوں گے کہ اگرچہ ان کی خلافت غیرموعودہ بها ہے لیکن آیت میں خاص شان نزول کو ہی نہیں دیکها جاتا بلکہ اعتبار عموم کا ہوتا ہے.العبره للعموم لا لخصوص المورد. لیکن جو لوگ بهی کسی بشارت والی آیت قرآنی کا مصداق ہوں (خواہ وہ اس بشارت کا خاص موعودلهم ہوں یا نہ ہوں) تو ان کے مراتب و مدارج کا باہم یکساں ہونا قطعا ضروری نہیں. پس بعد والے خلفائے راشدین جن کی خلافت موعودہ بها نہیں ان کا مرتبہ ان خلفائے راشدین کے برابر نہیں ہوسکتا جن کی خلافت موعودہ بها ہے اگرچہ ایمان اور اعمال صالحہ کی علت سب میں مشترک ہے. بالفاظ دیگر کسی وصف اور علت میں اشتراک سے مدارج و مراتب میں مساوات لازم نہیں آتی. مثلا سورہ اللیل میں ہے..و سیجنبها الا تقی الذی یوتی ماله یتزکی ( اور عنقریب اس آگ سے وہ پرہیزگارترین شخص بچایا جائیگا جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے اللہ کی راه میں دیتا ہے) . شان نزول کے اعتبار سے اس آیت کا خاص مصداق حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں. یہاں آگ سے نجات کی علت انفاق فی سبیل اللہ ہے پس جس فرد میں بهی دیگر متعلقہ شرائط کے ساتهہ یہ علت موجود ہوگی وہ نجات یافتہ تو ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ مرتبے اور فضیلت میں بهی حضرت ابوبکرصدیق رض کے مقام تک جا پہنچے گا. چنانچہ آیت میں لفظ ” اتقی” سے حضرت ابوبکر صدیق رض کے افضل الامہ بعد الانبیاء ہونیکی طرف اشارہ بهی موجود ہے..
ہم نے ان مباحث میں سہولت فہم کے لئے خلافت راشدہ کو دو اقسام خلافت راشدہ موعودہ بها اور خلافت راشدہ غیرموعودہ بها میں جو تقسیم کیا ہے تو صرف اور صرف سورہ حج کی آیت تمکین اور سورہ نور کی آیت استخلاف کے تحت کیا ہے. اس کی رو سے خلفاء اربعہ کی خلافت کو ہم خلافت راشدہ موعودہ بها اور سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور بعد والوں کی خلافت کو خلافت راشدہ غیرموعودہ بها قرار دیتے ہیں. فرق مراتب کے اعتبار سے خلفاء اربعہ کی خلافت راشدہ موعودہ بها کو ہم سیدنا معاویہ رض اور بعد کے حضرات کی خلافت راشدہ غیر موعودہ بها سے افضل و برتر ٹہراتے ہیں اور خلفاء اربعہ کی اسی خلافت راشدہ کو ہم دوسرا نام خلافت راشدہ علی منهاج النبوه کا دیتے ہیں جو محض تعبیر کا اختلاف ہے.
بارہ خلفاء والی صحیح حدیث کو پیش نظر رکهاجائے تو حضرت معاویہ رض کی خلافت اگرچہ آیت استخلاف والی خلافت موعودہ بها نہیں بلکہ غیر موعودہ بها ہے لیکن بارہ خلفاء والی حدیث کے تحت نہ صرف خلفاء اربعہ بلکہ ان کے بعد سیدنا حضرت حسن رض ، سیدنا حضرت معاویہ رض اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کی خلافت بهی اہل حق کے نزدیک خلافت موعودہ بها ہی ہے. یہ سات خلفاء ہوئے ، باقی ماندہ کون سے خلفاء بارہ خلفاء والی حدیث کے تحت آتے ہیں تو اس کے متعلق جن حضرات نے جو نام بهی شمار کئے ہیں تو انہیں اس حدیث کا صحیح مصداق ٹهہرانا یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے. بعض حضرات حضرت امام مهدی رح کو بهی ان میں شامل کرتے ہیں. الغرض قرآن و سنت دونوں کو ملحوظ رکها جائے تو خلافت موعودہ بها کی مزید دو اقسام خلافت موعودہ بها خاصہ اور خلافت موعودہ بها عامہ قرار پاتیں ہیں. خلافت موعودہ بها خاصہ کا حقیقی مصداق خلفاء اربعہ ہیں اور خلافت راشدہ موعودہ بها عامہ کا حقیقی مصداق سیدنا حضرت حسن رض ، سیدنا حضرت معاویہ رض اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رح ہیں. بارہ کے عدد کو پورا کرنے کے لئے باقی حضرات کے جو نام بعض اہل علم نے بیان فرمائے ہیں ان کا صحیح ہونا یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے. اصطلاحات میں اختصار پیدا کرنے لئے اہل علم نے خلفاء اربعہ کی خلافت کو خلافت راشدہ خاصہ اور بعد والے نیک خلفاء کی خلافت کو خلافت راشدہ عامہ قرار دیا ہے. مزید اختصار کے لئے خلفاء اربعہ کی خلافت کو خلافت راشدہ اور اس سے امتیاز کے لئے بعد والے نیک خلفاء کی خلافت کو خلافت عادلہ کا نام دیا. چونکہ حضرت معاویہ رض صحابی بهی ہیں اور تمام صحابہ کرام بموجب قرآن راشدون ہیں اس لئے حضرت معاویہ رض کی خلافت راشدہ عامہ بهی بعد والوں کی خلافت عادلہ سے افضل و برتر ہے.
سورہ حدید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ، جن صحابہ کرام نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راه میں اپنا مال خرچ کیا اور قتال کیا، ان کا درجہ فتح مکہ کے بعد مال خرچ کرنے والوں اور قتال کرنے والوں سے بلندتر ہے، تاہم اللہ تعالی نے ہر ایک سے بهلائی کا وعدہ فرما رکها ہے.(الحدید-10)
خود مہاجرین و انصار میں فرق مراتب فرماتے ہوئے اللہ تعالی نے سورہ توبہ میں سابقون الاولون صحابہ کرام سے رضامندی کا اظہار فرمایا اور بعد میں ان اسلام قبول کرنے والوں مہاجرین و انصار سےبهی رضامندی ظاہر فرمائی جو ان سابقون اولون مہاجرین و انصار کی خوش اسلوبی سے پیروی کریں.
حضرات انبیاءکرام علیهم السلام میں فرق مراتب سے ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) کسی پیغمبر کی توہین مقصود ہو تو یہ تو کفر ہے. اگر صحابہ کرام کے فرق مراتب کے بیان میں کسی صحابی کی توہین مقصود ہو تو یہ گناه کبیرہ ہے. لیکن اگر کوئی فکری لغزش کی بنا پر حفظ مراتب کا خیال نہیں کرتا اور افراط و تفریط سے کام لیتا ہے تو اس کی اصلاح کی پیش نظر فرق مراتب کو بیان کرنا تو عین مطلوب و مقصود ہے، جیسا کہ سورہ توبہ اور سورہ حدید کے متعلقہ مضامین سے واضح بهی ہے.
آیت استخلاف میں اس وقت کے مومنین صالحین سے اللہ تعالی نے تمکین دین کا وعدہ بهی فرمایا ہے. یہاں تمکین دین اور تمکین امارت و حکومت کے فرق کو ملحوظ رکهنا چاہئیے. خلفاء اربعہ کے ذریعہ دین حق یعنی اسلام خوب واضح اور نمایاں ہوا اور اسے کفار پر عسکری و سیاسی غلبہ بهی حاصل رہا ، اس کے باوجود چونکہ اللہ تعالی نے کسی سے تمکین امارت و حکومت کا وعدہ نہیں فرمایا تها لہذا حضرت علی رض کی بیعت اگر بعض صحابہ کرام نے نہیں بهی کی تو اس کے باوجود جب اہل حق کے نزدیک وہ بالاتفاق خلیفہ راشد ہیں تو لامحالہ ان کی خلافت بهی خلافت راشدہ موعودہ بها ہے . سیدنا حضرت معاویہ رض اور بعد کے حضرات کی خلافت راشدہ غیر موعودہ بها سے بدیہی طور پر افضل و برتر ہے. اسی طرح اگرچہ حضرت عثمان رض کی امارت و حکومت باغیوں کے ہاتهوں خلل پذیر ہوئی یہاں تک کہ باغیوں نے انہیں شہید بهی کر ڈالا تو بهی ان کی خلافت راشدہ کا موعودہ بها ہونا قطعا متاثر نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالی نے تمکین دین کا وعدہ فرمایا تها، کسی کی امارت و حکومت کے استحکام کا نہیں.
خلافت راشدہ اور امارت و حکومت میں جو لطیف فرق ہے اسے نظرانداز کرنا بهی فکری لغزش ہے. خلافت راشدہ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح جانشینی کے ذریعے دین حق کی صحیح ترجمانی اور اس کے عملی نفاذ کی صحیح کوشش ہے جو خلیفہ کے لئے امارت و حکومت کا تقاضا بهی کرتی ہے. پس امارت و حکومت خلافت راشدہ کا محض ایک پہلو ہے. یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے رسول اور نبی کے ذمہ مومنین کی تعلیم و تربیت اور ان کا تزکیہ اخلاق اور ان پر شرعی حدود و قوانین کا نفاذ بهی ہے اور یہ ذمہ داری بهی امارت و حکومت کا تقاضا کرتی ہے.لہذا امارت و حکومت کو رسالت کا بهی ایک اہم پہلو قرار دینا ہوگا. امارت و حکومت کا صحیح نہج پر قائم رہنا محکومین کے تعاون پر موقوف ہے. اگر یہ تعان رسول کو حاصل نہ ہو اور اس کی وجہ سے کسی وقت انتظامی امور میں اصلاح احوال رسول کے اختیار میں نہ رہے تو غور کیجئیے اس میں رسول کا کیا قصور ہے؟ اور اس کا وصف رسالت بهلا کیوں خلل پذیر ہوگا؟
مثلا حضرت موسی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی حکم عدولی کرتے ہوئے قوم عمالقہ کے خلاف قتال سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا تها کہ تو اور تیرا رب تم دونوں قتال کرتے رہو ہم تو یہیں بیٹهے رہیں گے. اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی بےبسی کا اللہ تعالی کے سامنے یوں اظہار فرمایا..رب انی لا املک الا نفسی و اخی..یعنی اے میرے رب میں اپنے اور اپنے بهائی کے علاوہ کسی پر اختیار نہیں رکهتا( المائدہ25-24). اس کے برعکس حضرت سلیمان علیہ السلام کی امارت و حکومت نہایت مستحکم ، حدود مملکت نہایت وسیع اور انسانوں کے علاوہ جنات بهی ان کے مسخر تهے. اب اگر سطحی سوچ رکهنے والا کوئی شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کی امارت و حکومت کے استحکام اور مملکت کی وسعت کے حوالے سے ان کے وصف نبوت کا تقابل حضرت موسی اور حضرت هارون ( علیهماالسلام) کے وصف نبوت سے کرنے لگے اور حضرت موسی علیہ السلام کے حق میں تفریط کا شکار ہوجائے تو یقینا ایسا شخص غلطی پر ہوگا. اسی طرح خوب سمجهہ لیجئیے کہ اگرحضرت علی رض کی بیعت کچهہ یا بالفرض بہت سے صحابہ کرام نے نہیں کی تو اس میں حضرت علی رض کا کیا قصور ہے؟ اور ان کا خلافت راشدہ موعودہ بها والا وصف بهلا کیوں خلل پذیر ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی امارت و حکومت حضرت معاویہ رض کی امارت و حکومت کے مقابلے میں غیرمستحکم تهی، جیسے حضرت موسی علیہ السلام کی امارت و حکومت حضرت سلیمان علیہ السلام کی امارت و حکومت کے مقابلے میں کمزور اور غیرمستحکم تهی. یہاں جیسے حضرت موسی علیہ السلام بے اختیار تهے اسی طرح حضرت علی رض بهی بے اختیار تهے. اس سے حضرت موسی علیہ السلام کے وصف رسالت و نبوت میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ امارت و حکومت تو وصف رسالت کا محض ایک پہلو ہے. اسی طرح حضرت علی رض کی خلافت راشدہ موعودہ بها بهی خلل پذیر نہیں ہوتی کیونکہ امارت و حکومت خلافت راشدہ کا بهی محض ایک پہلو ہے.
جس طرح اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے ان کی امارت و حکومت کے استحکام کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا تها بلکہ”کتب اللہ لاغلبن انا و رسلی” کے تحت تمکین دین کا وعدہ تها جو پورا ہوا ، بالکل اسی طرح آیت اسخلاف میں خلفاء اربعہ سے عطائے خلافت اور تمکین دین کا وعدہ تو تها لیکن امارت و حکومت کی تمکین کا وعدہ نہیں تها. چنانچہ تمکین دین کا وعدہ بحمداللہ علی وجہہ الکمال پورا ہوا ، خواہ ان کو امارت و حکومت کا استحکام حاصل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، برقرار رہا ہو یا نہ رہا ہو.
تحریر پروفیسر ظفر احمد

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password