حضرت عمار ؓ بن یاسر کا قتل ، حضرت معاویہ ؓ اور باغی گروہ

کیا  حضرت معاویہ اس باغی گروہ میں شامل تهے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر(رض) کو فرمایا تها کہ تجهے باغی گروہ قتل کرے گا؟؟
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے متعلق احادیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: تقتلک الفئتہ الباغیہ. یعنی تجهے باغی گروہ قتل کرے گا؛ اور بعض روایات میں یہ الفاظ بهی ہیں کہ عمار انہیں جنت کی طرف بلاتا ہوگا اور وہ اسے آگ کی طرف بلاتے ہوں گے. اس سے یہ غلط استدلال کیا گیا کہ چونکہ جنگ صفین میں حضرت عمار(رض) حضرت علی کرم اللہ وجه کی فوج میں تهے اور مشہور تاریخی روایات کے مطابق وہ اس جنگ میں شهید ہوگئے تهے اس لئے حضرت معاویہ(رض) اور ان کے سب ساتهی الفئتہ الباغیہ(باغی گروہ) میں شامل ہیں بلکہ بعض نے مبالغہ کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جهنم کی طرف دعوت دینے والے گروہ میں شامل ہونے کی وجہ سے حضرت معاویہ اور ان کے ساتهی(معاذاللہ) مرتد اور کافر ہیں.

حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کی احادیث کا مصداق کسی بهی جانب کے صحابہ کرام نہیں ہیں بلکہ وہ فتنہ جو اور شریر لوگ اس کا مصداق ہیں جو دونوں طرف شامل تهے. مثلا تاریخی روایات کے مطابق شمر ذی الجوشن وہ اخبث الخبائث شخص ہے جو سانحہ کربلا کا سب سے بڑا شیطانی کردار ہے یہی شمر جنگ صفین میں حضرت علی کے لشکر میں شامل تها یا مثلا عمرو بن جرموز جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں تها اس نے حضرت زبیر (رض) کو شهید کیا اور آپ کے سر مبارک کو لیکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بغرض انعام پہنچا اور ملاقات کا خواستگار ہوا. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابن صفیہ(حضرت زبیر) کے قاتل کو جهنم کی بشارت سنادو اور اسے اپنے پاس آنے نہیں دیا. تو جسطرح شمر ذی الجوشن اورعمربن جرموز جیسے خبیث الفطرت لوگوں کی وجہ سے حضرت علی اور آپ کے مخلص ساتهیوں پر ہرگز کوئی حرف نہیں آتا بعینہہ اسی طرح حضرت معاویہ(رض) کی فوج میں شامل اسی قماش کے لوگوں کی وجہ سے آپ پر اور آپ کے مخلص ساتهیوں پر بهی کوئی حرف نہیں آتا.

حضرت عمار بن یاسر(رض) کے قتل کے متعلق تاریخی کتب مثلا البدایہ والنہایہ میں مرقوم ہے کہ آپ کے دو قاتل ابن جوی سکسکی اور ابو الغاویہ فراری حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کے پاس پہنچے، یہ دونوں باهم جهگڑ رہے تهے کہ حضرت عمار سے چهینے گئے لباس اور ہتهیاروں پر ان کا حق ہے. تو حضرت حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں فرمایا کہ تم دونوں آگ کے بارے میں جهگڑ رہے ہو یعنی تم دونوں قتل عمار کی وجہ سے جهنمی ہو. حضرت معاویہ(رض) نے فرمایا تها کہ ہم نے حضرت عمار کو شهید نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کیا ہے جو انہیں میدان جنگ میں کهینچ لائے ہیں. آپ کا اشارہ فتنہ جو لوگوں مثلا قاتلین عثمان اور ان کے کهلے ہمنواوں کی جانب تها جن کی وجہ سے ان جنگوں تک نوبت آ پہنچی تهی. آپ کا اشارہ ہرگز حضرت علی اور ان کے مخلص ساتهیوں کی طرف نہیں تها. کسی بهی جماعت میں شامل خبیث لوگوں کی وجہ سے پوری جماعت یا گروہ کو ہرگز مطعون نہیں کیا جاسکتا. حضرت عمروبن العاص نے بهی حضرت عماربن یاسر کے قاتل کو جهنم کی بشارت دی تهی. صحابہ کرام کا مرحوم و مغفور ہونا قرآن کریم کی قطعی الدلالتہ اور محکم آیات سے ثابت ہے اور جو روایات خلاف قرآن ہیں وہ قابل قبول نہیں ہوسکتیں.
جہاں تک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے مخلص ساتهیوں خصوصا صحابہ کرام کے(معاذاللہ) مرتد، منافق یا کافر ہونے کا دعوی ہے تو درج ذیل وجوه کی بنا پر باطل ہے.
1۔ اگر حضرت معاویہ اور آپ کے مخلص ساتهی ٹهیک اس باغی جماعت میں شامل ہوتے جو لوگوں کو جهنم کی دعوت دے رہی تهی اور حضرت عماربن یاسر کی شهادت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوتا تو یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پهیل جاتی. حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرگز ہرگز جنگ بند نہ کرتے اور حکمین کے تقرر پر راضی نہ ہوتے خواہ ان پر کتنا ہی دباو کیوں نہ ہوتا.
2۔ بہت سے صحابہ کرام ایسے بهی تهے جنہوں نے ان جنگوں میں حصہ نہیں لیا تها اور کئی ایک نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ہی نہیں کی تهی تو یہ حضرات باغی گروہ کا صاف صاف پتہ چل جانے پر ہرگز غیرجانبدار نہ رہتے بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کهلم کهلا ساتهہ دیتے۔
3۔حضرت ابو موسی اشعری(رض) جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم تهے یقینا وہ حضرت عمار(رض)  کی شهادت کے حوالہ سے حضرت معاویہ (رض) کے حکم حضرت عمروبن العاص پر الزام عائد کرتے اور ہرگز اس امر پر تیار نہ ہوتے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کو معزول کردیا جائے.
4۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت کے آخری دنوں میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہرگز صلح نہ کرتے.
5۔قرآن کریم میں سورہ مائدہ کی آیت قتال مرتدین کی رو سے حضرت علی یقینا حضرت معاویہ پر ایسے ہی غالب آتے جیسے آپ حقیقی باغیوں خورارج پر غالب آئے تهے. یہ خوارج بےمثال شجاعت کے باوجود شرمناک ہزیمت سے دوچار ہوئے تهے. اس آیت میں مرتد ہونیوالوں کو یہ وعید سنائی گئی ہے کہ ان کے مقابلے میں اللہ کے مقرب بندوں کی جماعت ان پر غالب آئیگی. یہاں دونوں فریق حق پر تهے. حق کا حق سے کوئی مقابلہ نہیں ہوا کرتا کہ ایک فریق کو غالب اور دوسرے کو مغلوب قرار دیا جائے.
6۔حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ ہرگز ہرگز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے امت مسلمہ کی قیادت اور منصب خلافت ان کے سپرد نہ کرتے. اس صلح کو ہرگز صلح حدیبیہ سے تشبیہہ نہیں دی جاسکتی. حدیبیہ کی صلح میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اسلامی ریاست کی سربراہی قریش مکہ کے سپرد نہیں کردی تهی.
7۔اس صورت میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جو جنگی مہمات ہوئیں انہیں ہرگز جهاد نہیں کہا جاسکتا. صحابہ کرام ان جنگوں میں مثلا جنگ قسطنطینہ میں ہرگز ہرگز شریک نہ ہوتے یاد رہے کہ اس جنگ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ میزبان رسول بهی شریک ہوئے تهے اور انہی دنوں وہیں ان کا انتقال ہوا اور بموجب وصیت وہیں مدفون ہوئے نیز مورخین نے اس جنگ میں حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے شریک ہونے کو بهی تسلیم کیا ہے.
8۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس صورت میں قرآن کریم کی ان تمام آیات کے مضمون کو (معاذاللہ) جهوٹا قرار دینا ہوگا جن میں فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے مهاجرین و انصار اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے مولفتہ القلوب کے مغفور و مرحوم ہونیکی ایسی محکم خبریں دی ہیں جن میں کسی طرح کے ابہام،اشتباہ کا گزر تک نہیں یعنی یہ قرآنی نصوص قطعی الدلاتہ ہیں.
9۔ جب اہل شام یعنی حضرت معاویہ اور ان کے ساتهیوں کو اپنے ایک گشتی مراسلے میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے مومن قرار دیا ہے تو دوسروں کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف رائےزنی کا حق ہی کب حاصل ہے؟ جنگ صفین کے بعد آپ نے اپنے علاقے کے شهروں میں جو مراسلہ ارسال فرمایا تها اس کا مضمون “نهج البلاغہ” کے مطابق یوں ہے کہ ہمارا اور اہل شام کا مقابلہ ہوا حالانکہ ظاہر ہے کہ ہمارا خدا ایک ہے نبی ایک ہے اور دعوت فی الاسلام ایک ہے، اللہ تعالی پر ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے متعلق نہ ہم ان سے کسی زائد چیز کا مطالبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ ہم سے کوئی مزید مطالبہ کرتے ہیں سوائے اس کے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خون کے معاملے میں ہمارا اختلاف ہے اور ہم اس ( خون ناحق ) سے بری ہیں.
10۔سورہ حجرات میں ہے کہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جنگ ہوجائے تو ان میں صلح کرادیا کرو کیونکہ مومن باہم بهائی بهائی ہوتے ہیں. اس سے ثابت ہوا کہ باہم جنگ کی وجہ سے مسلمان دائرہ اسلام سے ہی خارج نہیں ہوجاتے. نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق فرمایا تها کہ میرا یہ بیٹا سید ہے ممکن ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرادے. اس حدیث کا مضمون قرآنی مدلول کے تقاضوں سے عین ہم آہنگ ہے لہذا قبول کیا جائیگا.

11۔صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کے مطابق خوارج سے جنگ کرنیوالی جماعت اولی الطائفتین بالحق ( حق سے زیادہ قریب) ہوگی. اس سے بہت سے حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف اولی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا خلاف اولی تها. یعنی دونوں فریق حق پر تهے. لیکن اس پر سب سے بڑا اشکال یہ وارد ہوتا ہے کہ وہ دسیوں ہزار صحابہ کرام رض جو ان مشاجرات سے الگ تهلگ رہے تهے وہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے موقف کو یقینا اولی سمجهتے تو نہ صرف قولا بلکہ عملا بهی ان کا ساتهہ دیتے. دوسرا اشکال یہ وارد ہوتا ہے کہ جس جماعت کا موقف خلاف اولی ہو یعنی اختلاف صواب اور خطا کا نہ ہو بلکہ صرف اولی اور خلاف اولی کا ہو تو ایسی جماعت یا گروہ کو طائفہ باغیہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اس لئے حدیث کا صاف اور بےغبار مطلب یہ ظاہر ہورہا ہے کہ جہاں اور بہت سی باتوں میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر سبقت حاصل ہے تو خوارج کے فتنے کو سمجهنے اور حضرت عبداللہ بن عباس کے ذریعے دلائل کی بناء پر ان پر حجت پوری کرنے اور پهر جنگ و جدال اور فتنہ و فساد سے باز نہ آنے پر ان کے خلاف مسلح جہاد کرنے اور ان کی جمعیت اور قوت کو منتشر کرنے میں اور فتنے کو بڑی حد تک کچل دینے میں سیدنا حضرت علی رض حضرت معاویہ رض پر سبقت لے گئے. خوارج دینی گمراہی میں مبتلا تهے اور کهلے عام امت مسلمہ سے کٹ کر الگ ہونے والے پہلے لوگ تهے جن کے خلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بالآخر لشکر کشی فرمائی.

 حدیث زیرنظر کے کلمات اولی الطائفتین بالحق ( دونوں جماعتوں میں سے حق کے زیادہ قریب ) کا دوسرا متفق علیہ مطلب یہ ہے کہ نفس خلافت کے اعتبار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ احق بالخلافہ ہیں چنانچہ بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفائے اربعہ کی خلافت ہی اہل حق کے اجماعی عقیدے کے مطابق خلافت راشدہ خاصہ اور اس کے مقابلے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور بعد والے نیک خلفاء کی خلافت ، خلافت راشدہ عامہ یا خلافت عادلہ ہے.

خلافت کے صحیح ہونیکو تسلیم نہ کرنے اور بیعت خلافت نہ کرنے میں فرق کو ملحوظ رکهنا چاہئیے. اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے برحق ہونیکا ایک لمحے کے لئے بهی انکار ہوتا تو وہ شروع ہی سے اپنی الگ خلافت کا یقینا دعوی اور اعلان کرتے. حالانکہ سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے صلح سے پہلے انہوں نے کبهی بهی اپنی خلافت کا دعوی نہیں کیا. چنانچہ حضرت معاویہ رض کی امارت و حکومت صلح سے پہلے متفق علیہ نہیں تهی لیکن اس کے برعکس حضرت علی کی خلافت راشدہ تو ہمیشہ سے متفق علیہ رہی ہے. اس سے سوائے خوارج کے کسی ایک متنفس نے بهی انکار نہیں کیا. البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کے قصاص کے معاملے میں اختلاف کی وجہ سے حضرت علی رض کی بیعت پر سب کا اتفاق نہ ہوسکا. جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگی بشارت کی بنا پر آپ کے محبوب نواسے سیدنا حضرت حسن رض کی مصالحت اور بهرپور تعاون سے حضرت معاویہ رض کی خلافت کی بیعت پر سب کا اتفاق ہوگیا.

جہاں تک دم عثمان رض کے متعلق حضرت علی رض اور حضرت معاویہ رض میں اختلاف رائے کا تعلق ہے تو حضرت علی رض کو احق بالخلافہ سمجهنے اور انہیں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے کہیں زیادہ افضل و برتر ماننے کے باوجود صحابہ کرام رض کی عظیم اکثریت یہ فیصلہ نہ کرسکی کہ کس کا موقف اولی اور کس کا خلاف اولی ہے. بلکہ وہ دونوں حضرات کو اپنے اپنے مقام پر حق بجانب سمجهتے ہوئے ان کی جنگوں میں شریک نہ ہوئے بلکہ الگ تهلگ رہے. یعنی انہوں نے سکوت اور توقف کو اختیار کیا. غور کیجئیے اللہ تعالی کی حکمت بالغہ کا تقاضا بهی یہی تها کہ وہ ان جنگوں سے الگ تهلگ رہیں کیونکہ وہ قرآن کریم کی نصوص صریحہ کے مطابق باہم بهائی بهائی اور آپس میں ایک دوسرے پر مہربان تهے. اللہ تعالی نے سورہ آل عمران میں صحابہ کرام پر اپنا احسان جتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” تم اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جبکہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تهے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے باہم بهائی بهائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑهے کے کنارے پر کهڑے تهے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا” ( آل عمران 103 ) اس آیت کریمہ کے مخاطب صحابہ کرام کو اللہ تعالی نے جہنم کی آگ سے بچ جانیکی بشارت بهی سنا دی. اس لئے بعد میں باہم تفرقہ بازی پر جو وعید سنائی گئی ہے وہ بعد کے لوگوں کے لئے ہے. آیت کے مخاطب اصحاب رسول سے اس کا تعلق نہیں. فتح مکہ کے ایام میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کو یہ بشارت سنادی کہ ” بہت ممکن ہے کہ اللہ تمہارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہے محبت پیدا کردے اور اللہ قادر ہے اور بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے”( الممتحنہ 27)
اگر کوئی شخص دوسرے پر ایسا احسان جتائے جسے وہ بعد میں واپس لینے کا پہلے ہی سے ارادہ رکهتا ہو تو ہرگز اسے شریف انسان قرار نہیں دیا جاسکتا. اللہ تعالی تو عالم الغیب والشهاده ہے ، کسی فرد یا جماعت کو متعین کرکے وہ ایسا احسان جتائے گا ہی کیوں جسے بعد میں اس نے واپس لے لینا ہو. پس جس کا بهی قرآن کریم پر سچا ایمان ہے اس کا یہ بهی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو باہم الفت و محبت اور مواخات کی جو نعمت عطا فرمائی تهی اور اس کا اس نے احسان جتایا تها وہ نہ تو اس نے ہرگز ہرگز واپس لینی تهی اور نہ ہی واپس لی ، ورنہ احسان جتانا ہی بیکار ہوتا اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے.

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی عظیم اکثریت فتنوں کے زمانے میں باہم لڑائی سے الگ تهلگ رہی. اور جس نہایت ہی قلیل تعداد نے حصہ بهی لیا تو ان کی باہم محبت کا حال بهی سن لیجئیے. فتنے کے ان ایام میں قیصر روم نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلمانوں پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں اور حضرت معاویہ رض کو ہمدردی کا پیغام بهیجتے ہوئے بهرپور تعاون کی پیشکش کی .اس پر حضرت معاویہ رض نے سخت مشتعل ہوکر قیصرروم کو لکها ” اللہ کی قسم اگر تو اس اقدام سے باز نہ آیا اور اپنے علاقوں کی طرف واپس نہ لوٹا تو اے ملعون تو میں اور میرے چچا کے بیٹے( حضرت علی رض) تیرے خلاف باہم صلح کرلیں گے اور میں تجهے تیری آبادیوں سے نکال دوں گا اور زمین کے فراخ ہونیکے باوجود اسے تجهہ پر تنگ کردوں گا ” اس پر وہ خوف زدہ ہوگیا اور اپنے اقدام سے رک گیا اور قاصد بهیج کر صلح کا خواستگار ہوا.( البدایہ والنهایہ8/119 تحت ترجمہ معاویہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ  صفین کے مقتولین سے متعق فرمایا قتلانا و قتلاهم فی الجنتہ. یعنی ہمارے اور ان کے مقتول جنت میں جائیں گے.( مجمع الزواید للهیثمی9/357 سیر اعلام النبلاء للذهبی 3/95 تحت تذکرہ معاویہ بن ابی سفیان)۔
نعیم بن ابی هند نے اپنے چچا سے حضرت علی رض کا قول نقل کیا ہے کہ ہمارے اور فریق مخالف کے مقتولین میں سے جو بهی اللہ کی رضا اور آخرت کا طالب تها وہ جنت میں داخل ہوگا.( السنن سعید بن منصور 3/374 روایت رقم 2968 طبع مجلس علمی کراچی) .

ان روایات سے یہ بهی ثابت ہوا کہ حضرت علی رض ہرگز حضرت معاویہ رض کو اس باغی ٹولے میں شمار نہیں کرتے تهے جو لوگوں کو جہنم کی آگ کی طرف دعوت دے رہا تها. یہ تو سبائیوں اور خوارج کا ٹولہ تها. ابوامامہ الباهلی سے روایت ہے کہ میں صفینق میں موجود تها تو وہ لوگ کسی زخمی کو مزید زخمی نہیں کرتے تهے اور پیٹهہ پهیر جانے والے کا پیچها نہیں کرتے تهے.اور کسی بهی مقتول کا لباس اور ہتهیار سلب نہیں کرتے تهے.( المصنف لابن ابی شیبہ12/424 طبقات ابن سعد 7/132)
جب حضرت معاویہ رض کو حضرت علی رض کی شہادت کی خبر ملی تو آپ آبدیدہ ہوگئے. آپ کی اہلیہ نے کہا کہ آپ تو حضرت علی رض کے خلاف لڑتے رہے ہیں اب آپ کیوں روتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا تجهہ پر افسوس تجهے کیا پتہ کہ لوگ علم اور فقہ سے کس قدر محروم ہوگئے ہیں.(البدایہ والنهایہ8/130)
ضرار الصدائی حضرت علی رض کے قریبی ساتهیوں میں سے تهے. شہادت علی رض کے بعد ایک مرتبہ حضرت معاویہ رض کے پاس آئے . حضرت معاویہ رض کے بار بار شدید اصرار پر ضرار نے حضرت علی رض کے اوصاف بیان کرنا شروع کیے تو حضرت معاویہ رض سن کر رونے لگے اور اتنا روئے کہ ان کی داڑهی تربتر ہوگئی.( درہ نجفیہ شرح نہج البلاغہ صفحہ 360 طبع قدیم ایران ،شرح نہج البلاغہ حدیدی معتزلی شیعی طبع بیروت4/374 شرح نہج البلاغہ ابن میثم البحرانی الشیعی5/476 طبع تہران الاستیعاب لابن عبدالبر3/43 تحت علی بن ابی طالب رض)
اس طرح کی روایات کا انبار لگایا جاسکتا ہے جو کہ قرآنی مدلول کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں لہذا قابل قبول ہیں. ان کی اسناد کی چهان بین کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر یہ روایات بالفرض نہ بهی ہوتیں تو بهی متعلقہ مذکورہ قرآنی مضامین کو کیسے جهٹلایا جاسکتا ہے؟ اگر کتاب اللہ کے مدلول کے تقاضوں کے خلاف لاکهوں روایات بهی ہوں تو وہ دریابرد کئے جانے کے لائق ہیں.

تحریر پروفیسر ظفر احمد

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password