جہاد، شدت پسندی اور جدید ذہن کےاشکالات

جہاد جو آج کے دور کا سب سے ہاٹ ٹاپک ہے، اپنوں اور غیروں نے اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے اسے بری طرح استعمال کیا ہے۔ اسوقت اسلام پر سب سے بڑا الزام جہاد، شدت پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ہی عائد کیا جاتا ہے۔ یہ جو کبھی مسلمانوں کی عزت کا محافظ تھا آج مسلمانوں کے بجائے سامراجی طاقتوں کا ایک اہم اور بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے وہ اسلام کے خلاف میدان جنگ سے لے کر میڈیا تک ہر محاذ پر بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں، جسکی وجہ سے مسلمان قوم اس دور کی مظلوم ترین قوم ہونے کے باوجود ایک دہشت گرد ، دشمن انسانیت قوم سمجھی جارہی ہے۔مسلمانوں کی جدید تعلیم یافتہ نسل اس حوالے سے مایوسی ، احساس ندامت اور افراط و تفریط کا شکار ہے ،ایک آگ ہے جو ناصرف مسلم زمینوں میں لگائی گئی ہے بلکہ مسلم ذہن بھی اسکی تپش سے پریشان ہیں۔ ایک طرف ٹی ٹی پی اور داعش جیسی خارجی تنظیموں کے ذریعے اسلامی جہاد اور منہج سلف پر سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے، لوگوں کو اسلام کی اصل تعلیمات سے گمراہ کیا جارہا ہے دوسری طرف اسکے حل کے لیے جدید معتزلہ کے فلسفے کو سامنے لا کے رکھ دیا گیا ہے کہ اس سے نجات کا راستہ یہی ہے کہ آپ جہاد اور امن کے متعلق ساری شرعی تعلیمات سے تائب ہو کر سامراجی بیانیے کو قبول کر لیجیے ۔ سنت سے منحرف یہ دونوں گروہ بیوقت امت پر مسلط ہیں اور نوجوانوں کو ایک ایسی گھاٹی کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کا انجام دینی اور دنیاوی تباہی ہی ہے۔ ۔
حیرت کی بات یہ کہ ان دونوں کا ’مقدمۂ کبریٰ‘ ایک ہے، اپنی اس اساس میں دراصل یہ دو نہیں بلکہ ایک ہی بیانیہ ہے۔ مثلاموجودہ دور میں دہشتگردی کی اصل بنیاد رکھنے والی مصر کی (شکری مصطفیٰ کی تاسیس کردہ) جماعۃ التکفیر والہجرہ کسی ’سلف‘ وغیرہ کو نہیں مانتی۔ انکے نزدیک ہر وہ شخص جو ائمہ کے اقوال پر چلے یا اجماع پر چلے خواہ وہ صحابہؓ کا اجماع کیوں نہ ہو، یا قیاس پر چلے، یا مصلحہ مرسلۃ یا استحسان وغیرہ سے دلیل لے، وہ ان کے نزدیک کافر مشرک ہے۔(الموسوعۃ المیسرۃ فی الأدیان والمذاھب والجماعات المعاصرۃ، ج 1 ص 336) دوسری طرف جدید بیانیے والوں کا منہج بھی اجماع، سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، مواقفِ صحابہ، اقوال ائمہ وغیرہ ایسی اشیاء کی ہرگز کوئی حجیت نہ ماننے کا ہے؟ دونوں کی حجت صرف کتاب و سنت ہے! منہج سلف سے یہی اعراض اس افراط و تفریط اور انتہاء پسندی کا باعث ہے ۔ ایک کے نزدیک یہود و نصاریٰ اور ہندو بھی کافر نہیں۔ جبکہ دوسرے کے نزدیک میں، آپ، سب نماز پڑھنے والے کافر اور مشرک، اور سب کے جان اور مال مباح! ایک کے نزدیک مرزا قادیانی بھی شاید کافر نہیں۔ جبکہ دوسرے کے نزدیک یہاں کے راسخ العقیدہ ترین مسلمان بھی کافر! عقیدۂ سلف سے یہ اعراض.. کہیں دہشتگردی تو کہیں جدت پسندی کا سبب بن رہا ، ایک جدید معتزلہ کے روپ میں ہے اور دوسرا خوارج کے ۔ لیکن طعنے اور الزام ان دونوں کی طرف سے مسلمانوں کی مین اسٹریم کو ہی مل رہے ہیں۔’جوابی بیانیہ‘ والے مذہبی مین اسٹریم کو ٹی ٹی پی کے قتال و خونریزی کی ذمہ داری اٹھواتے ہیں، اور ٹی ٹی پی والے مین سٹریم کو جدت پسند اور علماء سوء قرار دیتے ہیں۔ پہلے فریق کی نظر میں روایتی علماء امن کی تباہی کے ذمہ دار اور اس سارے فساد کی اصل جڑ جبکہ دوسرے فریق کے حساب سے یہ نفاذِ اسلام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ میڈیا کو دیکھیں تو بھی بیانیے یہی دو ہیں یعنی ’ٹی ٹی پی‘ اور ’المورد‘۔۔ تیسرا یعنی مین اسٹریم کا نیریٹو بھی اگر اسی قوت اور ’ایفیکٹس‘ کے ساتھ سامنے لایا جائے تو یہ دونوں ’متبادل‘ آپ سے آپ لایعنی ہو جاتے ہیں اور قوم کو اس اعتدال کی راہ کی نشاندہی ہو جاتی ہے جس میں بیک وقت اس کا دُنیوی امن و ترقی بھی مضمون ہے اوراُخروی سرخروئی بھی۔۔!!
افسوس اس بات کا ہے وہ مکتبہ فکر جو یہ نعرہ لے کے اٹھا تھا کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق امت کی رہنمائی کرے گا، استعمار اور استشراق کی طرف سے اسلام کو جو فکری چیلنجز درپیش ہیں انکے مقابلے میں اسلام کا دفاع کرے گا ، جدید دور کی مذہبی ضرورت کو پورا کرے گا ۔۔ وہی مکتبہ فکر اسوقت استعمار اور استشراق کی فرنچائز بنا ہوا ہے۔اسلامی ریاست ، شریعت، فقہ، بین الاقوامی قانون ، اسلامی جہاد ، اقلیتوں کے ساتھ برتاو، جزیہ وغیرہ کے حوالے سے وہ تمام اعتراضات اور طعنے جو مسلمانوں کو کبھی مغربی مفکرین ، عیسائیوں ، غیر مسلموں، ملحدوں کی طرف سے ملتے تھے آج اس طبقے کی طرف سے محض اپنی مخصوص تعبیر دین کو قبول کروانے کے لیے دیے جارہے ہیں۔جدید مسلم ذہن ایک طرف مخالفین اسلام کی طرف سے ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیموں کی کاروائیوں کی بنیاد پر اسلام پر اٹھائے گئے اعتراضات کی وجہ سے پریشان ہے دوسری طرف متبادل بیانیے والوں کا پیدا کیا گیا انتشار ہے جو انکی مذہبی فکر پر ہی سوالیہ نشان لگا رہا ہے ۔ سینکڑوں نوجوان مستشرقین و مستغربین کی میڈیا مہم کا اثر قبول کرتے ہوے اپنی تاریخ اور مذہب سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔جہاد کے موضوع پر عوامی حلقوں خصوصا سوشل نیٹ ورکس پر ایک علمی خلا ہے جو ہر حساس نوجوان محسوس کرر ہا ہے ،عرصے سے ریاست اور جہاد متعلقہ موضوعات پر ایسے تحقیقی فکری مواد کی کمی محسوس کی جارہی ہے جو ناصرف جدید اشکالات کا جواب دے بلکہ اعتدال کی راہ کو بھی واضح کردے ۔ یہ سلسلہ اسی کمی کے ازالے کے لیے ہے ، اس میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ریاست ، جہاد ، جزیہ ، اقلیتیں کے حوالے سے اٹھائے گئے جدید اشکالات کو افراط و تفریط سے بچتے ہوئے بالکل تحقیقی انداز میں زیربحث لایا جائے اور موجودہ تشدد پسندی کی صورتحال کے متعلق مین سٹریم مسلمانوں کے مقدمے کو پورے دلائل کیساتھ واضح کر دیا جائے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ کچھ چند دنوں میں ریاست کے موضوع پر تمام بڑے اشکالات زیر بحث لاچکے ہیں ۔ موجودہ سلسلے میں جو چیدہ چیدہ موضوعات جو زیر بحث آئیں گے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1. جہاد، حکم، جواز اور نوعیت
2. حضور ؐ کی جنگوں کی نوعیت: “دفاعی” یا “اقدامی”
3. جہاد ، متبدل مستقل احکامات اور قانون اتمام حجت
4. مشرکین ، اہل کتاب اور جزیہ – ملحدین کے اعتراضات کا جائزہ
5. جہاد اور اسلام کا قانون بین الممالک
6. غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات اور معاہدات
7. جزیہ اور جدید ذہن کے اشکالات
8. اسلامی ریاست میں اقلیتوں کی حیثیت اور جدید اشکالات کا جائزہ
9. “جہاد” کےنام پر مسلم ملکوں میں تخریب کاری-تحقیقی سلسلہ
10. جدید خوارج اور انکے نظریات کا تحقیقی جائزہ
11. خود کش حملوں کی شرعی حیثیت
12. حاکم کے خلاف خروج کا مسئلہ
13. روایتی بیانیے کو داعشی بیانیہ قرار دینے والوں کے دلائل کا جائزہ
14. مدارس میں پڑھائی جانے والی فقہ کا تشدد پسندی کیساتھ تعلق
15. مین سٹریم علماء کی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ
16. المورد کا جدید متبادل بیانیہ اور اسکی فکری بنیادیں

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password