مین سٹریم’اصل’ المورد اور ٹی ٹی پی دومتبادل بیانیے

سیاستِ شرعیہ کے باب میں ایک ہے مسلمانوں کی علمی مین اسٹریم (سوادِ اعظم) کا بیانیہ۔ یہاں کا دیوبندی و اہلحدیث سے لے کر بریلوی اور شیعہ تک کم از کم اِس باب میں ایک پیج پر ہے۔ پاکستان کا معاملہ کچھ خاص ضرور ہے؛ اس لیے کہ خود اِس ملک اور قوم ہی کے معرض وجود میں آنے کا عنوان اسلام ہے۔ البتہ مذہبی مین اسٹریم (سوادِ اعظم) کا یہ موقف صرف پاکستان نہیں پورے جہانِ اسلام کے اندر قائم ہے۔ مسلم دنیا کا حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری یہاں تک کہ زیدی، اِباضی اور جعفری سب اس باب میں ایک سا ”بیانیہ“ رکھتے ہیں: ریاست یا حکمران کو خدا کی تنزیل کا پابند کرنا اور یہاں کی قومی اجتماعی زندگی کو ہر ہر ممکنہ سطح پر محمد ﷺکی شریعت پراستواررکھنےکوفرض جاننا۔مقصود objective کی حد تک یہی ہے اور اس باب میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔ رہ گئی طریق کار یا تعامل procedure / methodology کی بات، تو زیدیہ، اِباضیہ اور جعفریہ کا مفصل مؤقف جان رکھنے کا دعویٰ کرنا میرے لیے مشکل ہے، البتہ یہاں کے دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث سے لے کر دنیا بھر کے شافعی، مالکی، حنفی، حنبلی اور ظاہری تک، پھر صوفی، اشعری، ماتریدی اور اثری سے لے کر اخوانی، جماعتی اور وہابی تک، اسلام کے ان سب مسالک، مشارب اور مکاتب کی علمی شخصیات ”نفاذِ شریعت“ کے اپنے اِس مطالبہ کے ساتھ ”فی زمانہ امکانات“ کی قید رکھتی ہیں۔ اس قید کے تحت ہی یہ ’نیشن اسٹیٹ‘ وغیرہ فنامنا کے ساتھ الجھنے کے بجائے اس کو دستورِ شریعت کا پابند کرتی ہیں۔ بلکہ بڑی دیر سے یہ مسئلہ حل کر چکیں؛ یہاں تک کہ کئی ’نیشن اسٹیٹس‘ میں یہ اس بنیاد پر اسلامی دستور تک پاس کروا چکیں اور مسئلہ کسی حد تک ”عمل“ سے متعلق باقی ہے۔
تعبیرات کے فرق کو کچھ دیر کےلیے نظرانداز کر دیں تو ’جمہوریت‘ وغیرہ کے ساتھ بھی عین یہی معاملہ کرتے ہوئے یہ اسے شریعت کا پابند کرنے تک رہتی ہیں؛ اس کے سوا کسی مسئلہ کو (خواہ علمی تحقیق اور نقد میں یہ اسے جس طرح بھی لیتی ہوں) عوام میں لانے کی روادار نہیں۔ یعنی اسے’مسئلہ‘ بنانے کےلیے تیار نہیں۔ کہیے کبھی آپ نے ان (مین اسٹریم علماء) کو دیکھا ہو یہ ”مسلمانوں کا نظم پورے جہان میں ایک“ کرنے کی تحریک اٹھا رہے ہوں یا ”نیشن اسٹیٹ کے خلاف“ کوئی کیمپین انہوں نے لانچ کر رکھی ہو؟ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے کہ یہ تمام اہل سنت فقہاء ”سماجیات“ کے باب میں مثالیت کے بجائے معروضیت کو لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں؛ اور یہی وہ ایک چیز ہے جس میں زمانۂ قدیم میں بھی خروج کی دعوت دینے والے ”خوارج“ کے ساتھ ان کا ایک اصولی و بنیادی اختلاف رہا اور زمانۂ حاضر میں بھی۔ یہ ایک وسیع باب ہے، جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔
مختصر یہ کہ: بہت کچھ جو ویسے کسی صورتحال میں واجب تک ہو سکتا ہے، ایک ”دی ہوئی صورتحال“ میں in a given situation ان کے یہاں قطعی غیر واجب ہوتا ہے؛ اور اس پر اصرار ناقابلِ قبول۔ فقہ و اِفتاء کے یہ مسائل اِن (فقہاء) کے یہاں خود اِن کے اپنے ہی طریقے سے لیے جاتے ہیں اور کسی کی ’چونکہ، چنانچہ، لہٰذا اور گویا‘ اِن کے مواقف کا تعین اور تشکیل نہیں کر سکتی۔
عالم اسلام کے مذہبی سوادِ اعظم کا بیانیہ پس ان دو واضح پوائنٹ پر کھڑا ہے۔ پہلا ”مقصود“ سے متعلق، اور دوسرا ”تعامل“ سے متعلق:
مقصود ہے: شریعت کی حاکمیت ہر حال میں اور ہر صورت میں۔ (لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃ)
جبکہ تعامل: سماجی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فی زمانہ امکانات کے اندر رہنا۔ (وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ)
اسی چیز کو ہم اختصار کے ساتھ کہتے ہیں: ”شریعت کا قیام، سماجی امکانات کی راہ سے“۔ غرض یہ دو باتیں مین اسٹریم کےلیے ”باٹم لائن“ bottom line ہیں۔ یعنی یہ ہر حال میں ہوں گی اور کبھی بھی مین اسٹریم کا بیانیہ اِن دو باتوں کے بغیر نہ ہوگا۔ نہ ہی یہ (مین اسٹریم) ان میں سے کسی ایک بات سے کسی بھی وقت اور کسی بھی قیمت پر دستبردار ہوگا۔ البتہ اِن دو باتوں کے سوا باقی سب کچھ منحصر (depends) ہے اور کسی خاص شکل و صورت کے اندر قید نہیں ہے۔ نیز وہ (باقی سب کچھ) ان ہی دو باتوں کی ذیل میں لاکر سمجھا اور ان ہی کے تابع رکھ کر قبول کیا جائے گا۔ پس یہ سادہ اور واضح بیانیہ ان ہی دو باتوں کے اجتماع combination سے ہے:
”شریعت کی بالادستی“، اور اس مقصد کے لیے ”سماجی طور پر قابل عمل راستے“، یعنی امت کو مشقت اور حرج میں جھونکنے سے احتراز۔ ان ہی دو باتوں کا عوامی ترجمہ: ”ایک پُراَمن نفاذِ اسلام“، خواہ وہ جب بھی ہو اور لمحۂ حاضر میں اس کا جتنا بھی حصہ قابلِ تحصیل achievable ہو۔
یہ ہے ”اصل“۔ یعنی مین اسٹریم کا نیریٹو۔ جس کے ”متبادل“ کے طور پر یہاں دو شاذ eccentric بیانیے آئے۔
پہلے نے کہا اس سے ”پُراَمن“ والی بات نکال دو، باقی ٹھیک ہے۔ دوسرے نے کہا اس سے ”ریاست کو اسلام کا پابند کرنے“ والی بات نکال دو، باقی ٹھیک ہے۔ یعنی اِن دونوں کی سن لیں تو آپ اپنے پورے بیانیے سے فارغ! اور اگر ایک کی سن لیں تو بھی آپ کا وہ متوازن بیانیہ دریا برد؛ اب یہ کسی اور کا بیانیہ ہے، ادھورا اور ایک جانب کو لڑھکا ہوا بلکہ اس کا ایک حصہ مرا ہوا۔ میڈیا کو دیکھیں تو بیانیے ہی یہ دو ہیں ’ٹی ٹی پی‘ اور ’المورد‘؛ تیسرا یعنی مین اسٹریم کا نیریٹو بھی اگر اسی قوت اور ’ایفیکٹس‘ کے ساتھ سامنے لے آیا گیا تو یہ دونوں ’متبادل‘ آپ سے آپ لایعنی ہو جاتے ہیں اور قوم کو اس راہ کی نشاندہی ہو جاتی ہے جس میں بیک وقت اس کا دُنیوی امن و ترقی بھی مضمون ہے اوراُخروی سرخروئی بھی۔
حیرت کی بات یہ کہ یہ دونوں ”متبادل“ اپنی توجیہ rationale پانے میں ایک دوسرے پر کلی سہارا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان دونوں کا ’مقدمۂ کبریٰ‘ ایک ہے۔ اپنی اس اساس میں دراصل یہ دو نہیں بلکہ ایک ہی بیانیہ ہے کہ ”پراَمن راستے چلنا“ اور ”ریاست کو اسلام کا پابند رکھنا“ دو باہم متعارض چیزیں ہیں لہٰذا ان دو میں سے ایک بات کو لازماً ترک کرنا ہے: ”امن“ درکار ہے تو یہاں آپ ”ریاست کو اسلام کا پابند“ کرنے والی سوچ کو جڑ سے ختم کر کے آئیے اور اگر ”ریاست کو اسلام کا پابند“ کرنے پر اصرار ہے تو ”امن“ کی تباہی قبول فرمائیے۔ اپنے اِس بنیادی مضمون کی حد تک یہ دونوں بیانیے ایک ہیں۔ غرض ریاست کے ”امن“ اور ”اسلامیت“ کے مابین فرض ٹھہرا لیا گیا یہ تعارض ان دونوں کا مقدمۂ کبریٰ ہے۔ فرق آگے چل کر آتا ہے جہاں اِس ”تعارض“ کو رفع کرتے ہوئے اِن میں سے ایک ریاست کے ”امن“ پر چھری چلا دیتا ہے اور دوسرا ریاست کی ”اسلامیت“ پر! جبکہ مین اسٹریم کے اُس معتدل متوازن بیانیہ کی خوبصورتی ہی ان دو مطالب کے امتزاج سے قائم تھی۔ پس وہ اصل نقطہ جس پر یہ دونوں ”متبادل“ اس ”اصل“ کے ساتھ الجھ رہے ہیں وہ یہ ”امتزاج“ ہی ہے جو یہ ”اصل“ (یعنی مین اسٹریم) اپنے بیانیے کے ان دو بنیادی مطالب کے مابین قائم رکھے ہوئے ہے:
شریعت کو انسانی معاشروں پر حاکم ماننا۔ جس قدر بھی وقت اور محنت لگے معاشروں کو خدا کی شریعت پر ہی لانا اور اس سے کسی قیمت پر دستبردار نہ ہونا۔
شریعت کو انسانی معاشروں پر لاگو کرنے میں البتہ یہاں کی عمرانی حقیقتوں کے ساتھ ٹکرانے کے بجائے ان کو شریعت کی موافقت میں لانا۔ شریعت کو اس سے ارفع جاننا کہ یہ سماجی عمل میں کسی تعطل یا فساد لانے کا موجب ہو۔ مختصراً؛ سماجی امکانات کے دائرے میں رہنا اور عُنف violence سے دور رہنا۔
بس یہ ایک امتزاج combination ہی جو اِن دو خوبصورت مطالب کے مابین ہے ختم کروا دیجیے، مین اسٹریم کا بیانیہ خودبخود نابود ہو جاتا ہے۔ یہاں؛ ایک گروہ نے آ کر اس کا دوسرا حصہ حذف کروانے کی تحریک چلادی اور ملک کا امن تہہ و بالا کر دیا۔ تھوڑی دیر میں ایک دوسرا گروہ اٹھا جس نے کہا اس مقدمہ کا پہلا حصہ حذف کرنے کا تھا اور اگر آپ یہ بہت پہلے کر چکے ہوتے تو دوسرے کی بابت فکر کرنے کی نوبت ہی نہ آتی لہٰذا اِسی کو ختم کرواؤ؛ اور یہ ریاست کی اسلامی بنیادوں کے پیچھے پڑ گیا۔ یہاں؛ اگر آپ اپنے ہی مقدمے پر قائم رہتے ہیں۔۔۔ یعنی ان دونوں مطالبِ حق کو ایک ساتھ رکھنا اور اِس پر پیش آنے والے ہر ایذاء پر صابر رہنا۔۔۔ تو ان میں سے ایک فریق کے حساب سے، آپ نفاذِ اسلام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ جبکہ دوسرے فریق کے حساب سے، آپ یہاں امن کی تباہی کے ذمہ دار اور اس سارے فساد کی اصل جڑ! ستم ظریفی؛ یہ دونوں طعنے اِس (مین اسٹریم) کو بیک وقت پڑتے ہیں!
یہ کہانی جس قدر بھی حیران کن ہے، فرقوں کی تاریخ میں البتہ نئی نہیں۔ اکثر مسائل پر یہاں عموماً دو انتہائیں پائی گئیں، جن میں سے ہر ایک ”وسط“ میں کھڑے مین اسٹریم کو دوسری طرف کے ساتھ جوڑتی آئی ہے۔ اصل غلطی آپ یہ ’لینڈسکیپ‘ بنانے میں کرتے ہیں، باقی مسئلہ پھر ’منطقی‘ ہوتا ہے: مشرق والے کو ”درمیان والے“ ہمیشہ مغرب میں نظر آئیں گے جبکہ مغرب والے کو عین یہی لوگ اپنی اسی پوزیشن پر کھڑے اور یہاں سے ایک انچ ہٹے بغیر مشرق میں نظر آئیں گے! اس لحاظ سے ”وسط والوں“ پر ہر جہت صادق آئے گی؛ انحصار depend کرتا ہے آپ ان کو کس ’طرف‘ سے کھڑا ہو کر دیکھ رہے ہیں۔ وہ البتہ بیک وقت مشرق میں بھی دیکھے جائیں گے مغرب میں بھی، شمال میں بھی اور جنوب میں بھی۔ کیونکہ ”اعتدال“ میں سبھی سمتوں کا پایا جانا آتا ہے۔ یا یہ کہ ان سبھی سمتوں کا اندماج consolidation ہی دراصل اعتدال ہے؛ اور ان کا بکھر جانا اِفراط۔ البتہ جس کسی کے ہاں سمت ہی ایک ہو اور وہ ’پیچیدگیوں‘ سے ہلکاپھلکا (واضح رہے بہت سی بدعتیں تبسیط مفرَط over-simplification کی ایک مخلصانہ کوشش سے جنم لیتی ہیں) اپنی اسی ایک سمت میں رواں دواں رہنا چاہتا ہو، اس کےلیے اعتدال اور توازن سے بڑھ کر کوئی “تناقض” contradiction نہ ہو گا؛ اور وہ اپنی صحافت اور ادبیات سے یا پھر اپنی بندوق اور بم سے اس کی ’غیر منطقیت‘ ثابت کرنے چل دے گا۔ یہ ایک طُرفہ مسلمانوں کی تاریخ میں بارہا ہو چکا:
”تقدیر“ کے باب میں: قدریہ کا فرقہ اِسی (مین اسٹریم) کو ”جبریہ“ کے ساتھ ملاتا رہا جبکہ جبریہ اِسی (مین اسٹریم) کو ”قدریہ“ کے ساتھ جوڑتا رہا۔ اس لیے کہ یہ ان میں سے کسی ایک جانب لڑھکنے پر آمادہ نہیں! (علمائے سنت اِس سوادِ اعظم کے حق اور وسط ہونے کی ایک ظاہری علامت ہی یہ قرار دیتے ہیں کہ ایک مسئلے پر ہر دو طرف کی بدعت – بیک وقت – اس طائفۂ حق کو اپنے مخالف سے جوڑتی ہے)۔
”مسائلِ ایمان“ کے باب میں: خوارج کا گروہ ان ہی اہل سنت کو ”اِرجاء“ کا طعنہ دیتا رہا جبکہ مرجئہ اسی اہل سنت عقیدہ کو ”خارجیت“ اور ”تکفیری“ ہونے کا!
”صحابہ و اہل بیت“ کے مسئلہ میں ایک فریق اسی اہل سنت عقیدہ کو ”تشیع“ قرار دیتا رہا اور دوسرا فریق عین اسی عقیدہ کو ”ناصبیت“!
علیٰ ھذا القیاس۔ فرقوں کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔ یکطرفہ نظر اور معاملے کو حد سے زیادہ سادہ کرنے کی خواہش عموماً دانش کو یہ راہ دکھاتی ہے۔ چیزوں کو ’بلیک اینڈ وائٹ‘ دیکھنا، پھر اسی کا نتیجہ۔ ساتھ میں تحکم ہو تو معاملہ گھمبیر تر ہو جاتا ہے۔ اور یہاں؛ دنیا کا آپ کی شرطوں پر آنا منطق کا تقاضا!جارج بش کا وہ اصول انٹلیکچول دنیا میں بھی کچھ کم مقبول نہیں کہ ’یا تم میرے ساتھ؛ ورنہ لامحالہ میرے مخالف کے ساتھ‘! عدل اور رحمت صرف اہل وسط کو نصیب ہے جو صحیح معنوں میں اِس امت کے تاریخی دھارے the intellectual main-stream of this Divine Ummahکو ہی حاصل ہے کیونکہ یہ وحی کی خالص اتباع کے بغیر ممکن نہیں۔

٭٭٭٭
چند باتیں ان ”دس نکات“ پر جن کا ملک کے ایک معروف و نامور صحافی جناب خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں علمائے اسلام سے ”دو اور دو چار کی طرح“ جواب طلب فرمایا ہے۔ ہم علماء میں نہیں آتے لہٰذا ان نکات کا جواب تو ظاہر ہے علماء ہی اگر ضروری جانیں تو دیں گے۔ ویسے ان میں سے اکثر محوری باتوں کا جواب جناب مفتی منیب الرحمن نے چند ہفتے پہلے شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں مختصر مگر کافی اور شافی انداز میں دے رکھا ہے؛ جس میں اصحابِ نظر کےلیے یقیناً بہت کچھ ہے۔ کئی علمی حلقوں کی جانب سے اس کی ستائش اور تائید بھی آ چکی۔ لیکن چونکہ یہ وہ جواب نہیں جو اس ’جوابی بیانیے‘ کی مانگ ہے لہٰذا بعید نہیں یہ سوال ابھی باربار ہوں! سادہ طور پر؛ وہ ’جوابی بیانیہ‘ ہی درحقیقت ان سوالوں کے ذریعے مکرّر نشر کرایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے مفتی تقی عثمانی ایسے علمی پائے کی شخصیات اس مکتب فکر کے متعدد اشکالات کا ازالہ فرما چکیں۔ ہماری نظر میں، یہ مین اسٹریم کا متبادل بننے والے دو بیانیوں میں سے ایک کی جانب سے روٹین کی ابلاغی کارروائی ہے۔ آئے روز گلہ کہ علماء ان حضرات کی تشفی کرا دینے پر آمادہ نہیں؛ لہٰذا دال میں کچھ کالا ضرور ہے! سوالات کے پردے میں جوابات؛ اور دراصل ’جوابی بیانیہ‘ کی تقویت reinforcement of the ‘counter-narrative’! اس پر ہمیں ایک سائل یاد آیا جو کچھ جنسی مسائل سے متعلق اپنے استفسارات ہمارے فیس بک پیج سمیت بہت سوں کے آگے رکھ چکا۔ اس کا اپنا بتانا ہے کہ بہت سے دارالافتاء اس کا جواب دے چکے لیکن وہ مسلسل جواب کا متلاشی ہے! ”جواب“ سے مراد ظاہر ہے اگر وہ بات ہے جو خود اُسے مرغوب ہے تو یقینی طور پر اس کا جواب علماء کے پاس نہیں ہے! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اصحابِ جوابی بیانیہ بتائیں مفتی منیب صاحب کے جوابات میں کیا سقم ہے تاکہ مین اسٹریم کی نمائندگی میں وہ اس کا ازالہ فرما دیں اور بات آگے بڑھے؛ آخر یہی مسئلے تو مفتی صاحب کے مضمون میں زیربحث آئے ہیں (اور اپنے مدمقابل کو باقاعدہ مخاطب کر کے آئے ہیں)! لیکن نہیں۔ ہر بار یہ سوالات یوں آئیں گے گویا کسی نے ان کا جواب دینا تو درکنار ان پر غور تک نہیں کیا!
جناب خورشید ندیم نے اپنے یہ دس نکات اس مہارت سے گوندھے ہیں کہ داعش یا ٹی ٹی پی ایسا ایک علم اور حلم سے تہی بیانیہ یہاں کی علمی مین اسٹریم کے بیانیہ کے ساتھ جابجا اوورلیپ overlap کرتا نظر آئے۔ علم اور دانش سے وابستہ کوئی شخص ظاہر ہے ان کے بنائے ہوئے دس کے دس لقموں میں سے ایک بھی لقمہ as it is لینے کا روادار نہ ہوگا؛ اور لامحالہ تفصیل کرنے کی ضرورت جانے گا۔ یعنی اس باریک معجون کے اجزاء کو الگ الگ کرنا اور پھر جب اس میں گوندھی گئی کسی حق بات کو اس میں خلط یا پراسیس کر دی جانے والی بہت سی باطل باتوں سے علیحدہ کر لیا جائے تو خورشید ندیم صاحب کی ”دو اور دو چار“ والی شرط پورا ہونے سے خودبخود رہ گئی! نتیجتاً ”تشفی“ کی نعمت معلق رہی؛ کیونکہ اس پورے کے پورے لقمے کو نہ تو اگل کر دکھایا گیا اور نہ نگل کر؛ جبکہ آپشن یہی دو! ظاہر ہے یہ معجون عین اسی ترکیب کے ساتھ اگر آپ نے نگل لیا تو آپ داعش اور ٹی ٹی پی ہوئے۔ اور اگر پورا اگل دیا تو آپ ’جوابی بیانیہ‘۔ اور اس صورت میں کلاسیکل اسلام کے بہت سے ابواب بھی جو اس ملغوبے میں ٹھونسے گئے تھے، خودبخود ٹریش میں جا پڑے! تیسرا کوئی آپشن ہی نہیں چھوڑا گیا؛ اور یہی اس گندھائی کی مہارت ہے!
اس کا سادہ حل ہمارے خیال میں یہی ہے کہ مین اسٹریم اپنا مقدمہ خود اپنے انداز میں اور اپنے فارمیٹ کے ساتھ بیان کرے اور آپ بتائیں کہ آپ کی کس بات کا جواب آپ کو نہیں ملا۔ ہماری درخواست ہوگی کہ اصحابِ ’جوابی بیانیہ‘ مفتی منیب صاحب کے ارشادات پر ایک بار پھر غور فرمائیں اور اپنے ان اعتراضات کو سامنے لائیں جو ان کے خیال میں مفتی صاحب کے بیان پر وارد ہوتے ہیں۔ یقیناً بات اگر مفتی صاحب کے کسی بیان پر استدراک سے آگے بڑھتی ہے تو مفتی صاحب کچھ مزید جوابات دینے کی پوزیشن میں ہوں گے، جس کی روشنی میں ایک مفید مکالمہ سامنے آ سکتا ہے۔ البتہ ان سوالات کو ایک معصومانہ انداز میں ہر بار ایک نئے سرے سے اٹھانا گویا کسی عالم نے ان کو کبھی ایڈریس نہیں کیا، نیز سب کو اپنے ہی فارمیٹ پر ”دو اور چار“ کی طرح لانا، ہماری نظر میں ایک تجاہل عارفانہ ہے اور اپنے مخصوص ’بیانیہ‘ کے حق میں محض ایک ابلاغی جدوجہد؛ جس کا آپ کو حق ہے مگر مکالمہ ہم اس کو نہیں کہیں گے جبکہ سوالات بظاہر ایک مکالمہ ہی کی دعوت دے رہے ہیں۔
مکالمہ dialogue کے بجائے چونکہ یہ ایک گردان rhetoric زیادہ بنتی دکھائی دیتی ہے، جبکہ خاموشی ”بیان“ اور ”بیانیہ“ ہر دو کے منافی؛ لہٰذا ایک نہایت اہم امر کی جانب یہاں ہم اپنے مین اسٹریم لکھاریوں کی توجہ لینا چاہیں گے اور جوکہ پیش ازیں ہمارے مضمون ”مفتی منیب، جاوید غامدی اور عالمی سٹیٹس کو“ میں تعبیر کے ذرا فرق کے ساتھ کہی جا چکی ہے:
’جوابی بیانیہ‘ ہماری مذہبی مین اسٹریم کو ٹی ٹی پی کے قتال و خونریزی کی ذمہ داری اٹھواتے ہوئے، کوئی علمی دلیل قائم کرنے کی بجائے محض ایک ایفیکٹس effects ، پراپیگنڈا propaganda اور ریٹرک rhetoric کی چال چلتا ہے، خصوصاً جبکہ میڈیا کا مائیکروفون اس کو بسہولت دستیاب ہے۔ ”اسلامی ریاست“ یا ”شریعت کی حکمرانی“ وغیرہ ایسے عناوین کے تحت یہاں دینی جماعتوں کا جو ایک دیرینہ مقدمہ چلا آیا ہے، ’جوابیہ بیانیہ‘ اس کے اور ٹی ٹی پی کے اٹھائے ہوئے فساد و خونریزی کے مابین ایک ’تلازم‘ قائم کرتا ہے (یعنی اس کے خیال میں یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں)۔ اس کا خلاصہ یوں کہ جب آپ نے ”اسلامی ریاست“ یا ”شریعت کی حکمرانی“ کو اپنے مطالب میں جگہ دی تو اس کا یہ نتیجہ تو ہونا تھا کہ کوئی کبھی نہ کبھی اس کےلیے ہتھیار بھی اٹھا لے لہٰذا اس کی ذمہ داری خود آپ پر آ گئی جو ایسے کسی گروہ کے ہتھیار اٹھانے سے پہلے ”اسلامی ریاست“ کا مقدمہ پیش کرتا آیا تھا چاہے آپ اس مقصد کےلیے پُراَمن طریقوں کے کتنے ہی بڑے داعی اور مسلح راستہ چلنے کے کتنے ہی بڑے مخالف کیوں نہ رہے ہوں؛ اصل جرم آپ بہرحال کر چکے جب آپ نے ”اسلامی ریاست“ یا ”شریعت کی حکمرانی“ کی خالی بات کی!
مین اسٹریم کے لکھاری ہم سے بہت بہتر تعبیر کے ساتھ عوام اور خواص ہر ہر سطح پر اس rhetoric کا جواب یہ دے سکتے ہیں کہ:آپ کی اس بات سے اصول یہ نکلا کہ دنیا میں تبدیلی کی ہر صدا پر پابندی لگا دی جائے۔ پُراَمن سے پُراَمن انداز میں بھی ایک سٹیٹس کو status quo کو بدل دینے کی بات کرنا جرم ٹھہرا دیا جائے؛ کیونکہ کچھ معلوم نہیں کل کوئی سرپھرا (یا اس دعوت کو خراب کرنے اور پٹڑی سے ہٹانے کا باقاعدہ مقصد لے کر آنے والا) عین وہی نعرہ لگا کر کچھ سرپھروں کو ہتھیار اٹھوا دے۔ یہ اگر کوئی اصول ہے تو اس کا بوداپن آپ سے آپ عیاں ہے (ضرورت اس امر کی ہے کہ خود ان ہی سے کہیں کہ اپنے اس مزعومہ ”تلازم“ سے ہمیں کوئی ”اصول“ اخذ کر کے دیں، امید ہے خود جھینپ جائیں گے)۔
اس کے بعد ان پر اس مضمون کے اِلزامی سوالات بھی وارد کیے جا سکتے ہیں کہ کسی ملک میں سٹیٹس کو اگر آمریت اور مارشل لاء پر کھڑا ہو تو کیا وہاں پر جمہوریت کےلیے ایک پُراَمن صدا اٹھانا بھی حرام ہو جائے گا کیونکہ کل کوئی ’الذوالفقار‘ اس آمریت کے خلاف مسلح کارروائیوں کا آغاز کر سکتی ہے؟ بادشاہت کے خلاف اگر کچھ لوگ پُرامن آواز اٹھاتے رہے ہوں تو کیا ان کو انقلابِ فرانس میں ہونے والی خونریزی کا مؤید بھی آپ کے اس مزعومہ ”تلازم“ کی رُو سے ٹھہرایا جائے گا؟ سرمایہ داری ظلم کے خلاف ایک پُرامن بیانیہ رکھنے والوں کو کمیونسٹوں کے تمام تر ظلم اور خونریزی کی ذمہ داری بھی اٹھوا دی جائے گی؟ یا یہ قاعدہ صرف اسلامی تبدیلی کی پُراَمن صدا بلند کرنے والوں پر لاگو کیا جائے گا اور ان کو ”اسلامی ریاست“ کا لفظ ہی زبان پہ لے آنے پر گردن زدنی ٹھہرا دیا جائے گا؟ اور اگر ایسا ہے تو جناب نادر عقیل انصاری (المورد کے سابقہ صدر) کے الفاظ میں اس کو جوابی ’بیانیہ‘ کے بجائے ’استعماریہ‘ کہنے میں کیا غلطی ہے؟
تحریر حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password