خوارج اور انکا فکری منہج

امت مسلمہ میں جس گروہ نے سب سے پہلے سنت نبویؐ اور تعامل صحابہؓ کو نظر انداز کر کے قرآن کریم کو براہ راست سمجھنے اور اپنے فہم و استدلال کی بنیاد پر قرآن کریم کے احکام و قوانین کے تعین کا راستہ اختیار کیا وہ ’’خوارج‘‘ کا گروہ ہے۔ خوارج کے بارے میں خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی موجود ہے کہ میری امت میں ایک گروہ ایسا آئے گا جو قرآن کریم کی بہت زیادہ تلاوت کرے گا، اس کی نمازیں اور روزے بھی عام مسلمانوں کو تعجب میں ڈالنے والی ہوں گی، لیکن قرآن کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ قرآن کریم کے نام پر لوگوں کو گمراہ کریں گے۔
مسلم شریف میں حضرت جابر بن عبد للہ انصاریؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایات منقول ہیں جن کے مطابق جناب نبی اکرمؐ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر واپس تشریف لاتے ہوئے مکہ مکرمہ سے بیس میل دور جعرانہ کے مقام پر قیام پذیر تھے اور اپنے ساتھیوں میں مال غنیمت کے حصے تقسیم فرما رہے تھے۔ آپؐ فتح مکہ اور غزوہ حنین کے موقع پر نئے مسلمان ہونے والوں کو ان کی تالیف قلب کے لیے ترجیح دیتے ہوئے مال غنیمت کا زیادہ حصہ دے رہے تھے جس پر بنو تمیم کے ایک صاحب ذوالخویصرہ نے اعتراض کر دیا کہ جناب آپ عدل سے کام لیں۔ حضورؐ نے سخت غصے کی کیفیت میں جواب دیا کہ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون ہے جو عدل کرے گا؟ حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے جناب رسول اللہؐ سے اس شخص کا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی تو رسالت مآبؐ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس طرح لوگ کہنے لگیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔
اس کے بعد جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس شخص کی قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کریم کی تلاوت اور نماز و روزہ کا بہت زیادہ اہتمام کریں گے لیکن دین ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے ایسے نکل چکے ہوں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے۔ یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی جب ۳۷ھ میں حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی فوجوں میں صفین کے مقام پر جنگ ہو رہی تھی تو حضرت معاویہؓ نے پیشکش کر دی کہ آپس میں لڑنے اور خون بہاتے چلے جانے کی بجائے قرآن کریم کے مطابق کسی کو حکم اور ثالث مقرر کر کے ان کے ذریعہ ہم اپنے تنازعات طے کر لیں۔ حضرت علیؓ کے لیے اس پیشکش کو مسترد کرنا مشکل تھا اس لیے انہوں نے اسے قبول کر کے جنگ بندی کا اعلان کر دیا، مگر ان کی فوج میں شامل بنو تمیم کے لوگوں نے حضرت علیؓ کے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ ان الحکم الا للّٰہ سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ حکم دینا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور انسانوں میں سے کسی کو حکم اور ثالث مقرر کرنا کفر ہے، اس لیے حضرت علیؓ نے یہ فیصلہ کر کے ان کے نزدیک کفر کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا وہ اس کفر سے توبہ کریں ورنہ ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ حضرت علیؓ نے یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس پر ان کے لشکر سے چھ ہزار افراد الگ ہوگئے جن میں سے زیادہ افراد کا تعلق بنو تمیم سے تھا۔ انہوں نے ’’حروراء‘‘ کے مقام پر پہنچ کر پڑاؤ کیا اور عبد اللہ بن وہب راسی کو اپنا امیر منتخب کر لیا۔ چونکہ اس گروہ نے امیر المومنین حضرت علیؓ کی اطاعت سے نکلنے کا اعلان کیا اس لیے انہیں ’’خارجی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور انہوں نے حروراء کے مقام پر اپنا امیر منتخب کر کے باقاعدہ گروہ کی شکل اختیار کی اس لیے انہیں ’’حروریۃ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
خارجیوں نے حضرت علیؓ کے لشکر سے الگ ہو کر صرف سیاسی بنیادوں پر علیحدہ تشخص اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے افکار و خیالات کو باقاعدہ عقائد کی شکل دے کر ایک نئے مذہبی گروہ اور مکتب فکر کے طور پر سامنے آئے اور صدیوں تک امت مسلمہ کے لیے پریشان کن مسئلہ بنے رہے۔ ان کے عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے سے مسلمان کافر اور واجب القتل ہو جاتا ہے۔ اس بنیاد پر جہاں بھی ان کا اقتدار قائم ہوا انہوں نے بے شمار مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیفہ برحق صرف دو بزرگ تھے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ۔ ان کے بعد حضرت عثمانؓ صرف چھ سال برحق خلیفہ رہے لیکن جب ان پر لوگوں کی طرف سے اعتراضات شروع ہوگئے تو وہ خلیفہ برحق کے منصب سے معزول ہوگئے۔ خارجیوں کے نزدیک حضرت علیؓ بھی جنگ صفین تک خلیفہ برحق تھے اس کے بعد جب انہوں نے تحکیم قبول کر لی تو وہ بھی خلیفہ نہ رہے بلکہ (نعوذ باللہ) انہوں نے ایسا کفر کیا کہ توبہ کے بغیر وہ اپنی پہلی پوزیشن پر واپس نہیں آسکتے تھے۔
خارجیوں کے ایک فرقہ ’’ازارقہ‘‘ کے نزدیک کسی مسلمان کے لیے کبیرہ گناہ کا ارتکاب اتنا سخت جرم ہے کہ وہ اس سے مرتد قرار پاتا ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔ اور ان کے ہاں شرعی حکم یہ ہے کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا مسلمان کافر ہوگیا ہے، اس نے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہنا ہے اور اس کے لیے شفاعت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ خارجی قرآن کریم کی بعض آیات مبارکہ کے ظاہری مفہوم سے استدلال کرتے ہوئے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کسی بھی نبی، ولی یا بزرگ کی شفاعت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
حضرت علیؓ نے صفر ۳۸ھ میں خوارج کے خلاف نہروان کے مقام پر لشکر کشی کرتے ہوئے انہیں شکست دی جس میں ان کا پہلا امیر عبد اللہ بن وہب بھی مارا گیا۔ لیکن اس گروہ کا خاتمہ نہ ہو سکا اور اس نے مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں تسلط حاصل کیا اور حکومت قائم کی۔ حضرت علیؓ خارجیوں کی سازش کا شکار ہو کر اسی گروہ کے فرد عبد الرحمان بن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ خارجیوں نے ۱۴۴ھ میں مراکش اور الجزائر کے علاقہ میں ’’تاہرت‘‘ نامی شہر آباد کر کے ’’سلطنت رستمیہ‘‘ کی بنیاد رکھی اور ایک ایرانی النسل عبد الرحمان بن رستم کو پہلا امام چنا۔ یہ سلطنت کم و بیش ڈیڑھ سو سال تک قائم رہی اور ۲۹۶ھ میں فاطمیوں کے ایک پرجوش داعی ابو عبد اللہ کے ہاتھوں اس سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
خوارج سخت جنگ جو تھے اور چھاپہ مار جنگ کے ماہر تھے۔ وہ قرآن کریم کی تلاوت، نماز، روزہ کی پابندی اور شب زندہ داری میں اس قدر معروف تھے کہ عبادت و ریاضت میں انہیں بطور مثال پیش کیا جاتا تھا۔ ان کا ایک فرقہ ’’اباضیہ‘‘ کہلاتا ہے جو یمامہ کی ایک بستی اباضہ کے رہنے والے خارجی شیخ عبد اللہ بن اباض کی طرف منسوب ہے۔ یہ فرقہ وہی عقائد رکھتا ہے جو دوسرے خارجیوں کے ہیں لیکن طرز عمل میں دوسرے گروہوں سے نسبتاً نرم اور معتدل سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرقہ آج تک موجود ہے، خلیج عرب کی ریاست ’’سلطنت آف عمان‘‘ میں اسی گروہ کی حکمرانی ہے اور مسقط اس ریاست کا دارالحکومت ہے۔
خوارج نے چونکہ حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں الگ تشخص قائم کر لیا تھا اس لیے متنازعہ مسائل پر بعض صحابہ کرامؓ سے ان کی گفتگو ہوئی اور بحث و مباحثہ کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور ان کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور امام اعظم ابوحنیفہؒ کے ساتھ ہونے والے ان کے مباحثوں کی کچھ تفصیل یہاں پیش کی جا رہی ہے۔(متجددین حضرات جدید خوارج کی فکر کو مین سٹریم اسلام کے ساتھ جوڑتے اور مدارس کو یہ کہہ کر اسکا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ یہ اسی فکر کا مولود فساد جو مدارس میں پڑھایا جاتاہے، اس طرح کے کئی سطحی دلائل کا سہارا لے کر علماء و مدارس کو مطعون کیا جاتا ہے۔ان مناظروں میں خوارج اور مین سٹریم اسلام کی فکر میں فرق کھل کے سامنے آئے گا۔ ایڈمن)

٭حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ
امام نسائیؒ کی ’’سنن کبریٰ‘‘ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصیات کے تذکرہ میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ جب جنگ صفین میں حضرت علیؓ نے جنگ بندی کر کے حضرت معاویہؓ کے ساتھ تنازعات طے کرنے کے لیے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو حکم اور ثالث تسلیم کر لیا، اور اس پر ان کے لشکر کے چھ ہزار افراد نے باغی ہو کر حروراء کے مقام پر اپنا الگ کیمپ لگا لیا تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے حضرت علیؓ سے ان کے پاس جا کر گفتگو کرنے کی اجازت مانگی، اور ان سے اجازت لے کر وہ باغیوں کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا خیرمقدم کیا اور پوچھا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ میں تمہارے پاس جناب رسول اللہؐ کے صحابہ کرام مہاجرین و انصار کی طرف سے آیا ہوں اور نبی اکرمؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد کی طرف سے آیا ہوں۔ قرآن کریم ان کی موجودگی میں نازل ہوا ہے اور وہ قرآن کریم کے معانی و مقاصد کو تم سے بہتر جانتے ہیں۔ جبکہ تمہارے درمیان ان صحابہ کرامؓ میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ میں تم سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ تمہیں حضرت علیؓ اور صحابہ کرامؓ پر کیا اعتراض ہے جو تم انہیں چھوڑ کر چلے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں پر ہمارے تین اعتراض ہیں۔
1. پہلا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے دین کے بارے میں انسانوں کو حکم اور ثالث تسلیم کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ حکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔
2. دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے جمل اور صفین کی جنگیں لڑی ہیں مگر نہ مخالفین میں سے کسی کو قیدی بنایا ہے اور نہ ہی ان کے اموال کو غنیمت کے مال کے طور پر تقسیم کیا ہے۔ اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے خلاف جنگ لڑنا جائز نہیں تھا، اور اگر وہ کافر ہیں تو ان کے اموال کو غنیمت اور قیدیوں کو غلام کیوں نہیں بنایا گیا؟
3. تیسرا اعتراض یہ ہے کہ حکم اور ثالث تسلیم کر کے حضرت علیؓ نے خود کو امیر المومنین کے منصب سے الگ کر لیا ہے اور اس کا اختیار ثالثوں کو دے دیا ہے کہ وہ جسے چاہیں امیر المومنین بنالیں۔ اس لیے اگر وہ امیر المومنین نہیں رہے تو لامحالہ امیر الکافرین ہوگئے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ اس کے علاوہ اور کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بس یہی تین اعتراض ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اگر میں قرآن کریم اور سنت رسولؐ کی روشنی میں ان تینوں کا جواب دے دوں تو کیا تم واپس جانے کو تیار ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ایسی صورت میں ہم واپس جانے کو تیار ہیں۔
1. حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ تمہارا پہلا سوال انسانوں کو حکم بنانے کے بارے میں ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں میاں اور بیوی کے تنازعہ کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اگر جھگڑا بڑھ جائے تو خاوند اور بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک ثالث مقرر کیا جائے جو دونوں کا جھگڑا طے کرائے۔ اسی طرح احرام کی حالت میں جانور کا شکار کرنا منع ہے، اگر کسی حاجی یا عمرہ کرنے والے نے احرام کی حالت میں کوئی جانور شکار کر لیا تو اس کے برابر کا جانور بطور کفارہ ذبح کرے، اور اگر اس کے برابر یا مثل کا کوئی جانور نہ ہو تو شکار ہونے والے جانور کی قیمت صدقہ کرے، جبکہ اس قیمت کا تعین دو عادل آدمی کریں گے۔ چنانچہ اگر میاں بیوی کا جھگڑا طے کرنے اور ایک خرگوش جیسے جانور کی قیمت طے کرنے کے لیے حکم مقرر کرنا جائز ہے تو مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں خونریزی رکوانے کے لیے حکم اور ثالث بنانا کیوں جائز نہیں؟
2. تم نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ حضرت علیؓ نے جمل اور صفین کی جنگ میں مخالفین کو قیدی کیوں نہیں بنایا اور ان کے اموال کو غنیمت میں تقسیم کیوں نہیں کیا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ ان میں ام المومنین حضرت عائشہؓ بھی ہیں جنہیں قرآن کریم کی نص قطعی میں مومنوں کی ماں قرار دیا گیا ہے تو کیا تم انہیں قید کر کے (نعوذ باللہ) لونڈی بنانے کے لیے تیار ہوگے؟ اگر تم ایسا کرو گے تو خود کفر کا ارتکاب کرو گے۔
3. تمہارا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے حکم اور ثالث تسلیم کر کے امیر المومنین کے منصب سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ یہ تمہاری غلطی فہمی ہے کیونکہ یہ معاملہ ایسے ہے جیسے صلح حدیبیہ میں جناب نبی اکرمؐ قریش مکہ سے مذاکرات کر رہے تھے تو آپ نے معاہدہ اس طرح لکھوایا کہ یہ محمد رسول اللہ اور قریش مکہ کے درمیان طے پانے والا معاہدہ ہے۔ اس پر قریش کے نمائندہ نے اعتراض کر دیا کہ اگر ہم معاہدہ میں آپ کو رسول اللہ تسلیم کر لیں تو سرے سے کوئی جھگڑا ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اس لیے رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر معاہدہ کا عنوان اس طرح لکھا جائے کہ یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبد اللہ اور قریش مکہ کے درمیان طے پایا۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے حدیبیہ کے معاہدہ میں اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ کا جملہ کٹوا کر محمد بن عبد اللہ کا جملہ تحریر کرایا تب جا کر قریش کے نمائندہ نے اس معاہدہ کی عبارت کو قبول کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اگر رسول اللہ کا لفظ آپؐ کے نام کے ساتھ لکھے جانے کے بعد کٹوانے سے کوئی فرق نہیں پڑا اور نبی اکرمؐ رسالت کے منصب سے (نعوذ باللہ) معزول نہیں ہوگئے تو معاہدہ اور صلح کی خاطر حضرت علیؓ کی طرف سے امیر المومنین کی اصطلاح کو وقتی طور پر اپنے نام سے الگ کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ امیر المومنین کے منصب سے معزول نہیں ہوگئے۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس وضاحت کے بعد ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا میں نے تمہارے اعتراضات کا جواب دے دیا ہے؟ جواب میں اجتماعی آواز آئی کہ ہاں آپ نے جواب دے دیا ہے۔ چنانچہ اس گفتگو کے بعد چھ ہزار باغیوں میں سے دو ہزار نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور حضرت علیؓ کے لشکر میں واپس آگئے۔ جبکہ باقی چار ہزار اپنی ضد پر اڑے رہے اور ایک سال بعد حضرت علیؓ نے خود لشکر کی کمان کرتے ہوئے نہروان کی جنگ میں انہیں شکست دی۔
صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس موقع پر نہ صرف خوارج کی سطحی ذہنیت اور کھوکھلے اعتراضات کو بے نقاب کیا بلکہ بطور اصول یہ بات بھی سمجھا دی کہ قرآن کریم کی صرف ایک دو آیات کو سامنے رکھ کر ان کے ظاہری مفہوم سے حتمی نتیجہ قائم کر لینا درست طرز عمل نہیں ہے۔ بلکہ تمام متعلقہ آیات کریمہ اور احادیث نبویہؐ کی روشنی میں قرآن کریم کے معنی و مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ مرحلہ حضرات صحابہ کرامؓ کے ارشادات و تعلیمات کی روشنی میں طے کیا جائے۔ کیونکہ قرآن کریم ان کی موجودگی میں نازل ہوا ہے اور وہ قرآن کریم کے مفہوم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا و مراد کو باقی ساری امت کی بہ نسبت بہتر سمجھتے ہیں۔

٭حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ
دارالعلوم دیوبند کے استاد الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علیؒ نے ’’نفحۃ العرب‘‘ میں ہیثم بن عدیؒ کے حوالہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جب منصب خلافت سنبھالا تو خوارج نے جزیرہ میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور شوذب خارجی ان کا سربراہ تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے محمد بن زبیرؒ اور عون بن عبد اللہ بن مسعودؒ کو اپنا نمائندہ بنا کر اور خط دے کر ان کے پاس بھیجا۔ اس کے جواب میں خارجیوں نے دو نمائندے روانہ کیے، ایک بنو شیبان قبیلے سے تھا اور دوسرا حبشہ کا معلوم ہوتا تھا جس کا نام شوذب تھا۔ یہ نمائندے جب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے پاس پہنچے تو امیر المومنینؒ ایک بالاخانے میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے انہیں اندر بلانے سے قبل ان کی تلاشی لینے کا حکم دیا تاکہ ان کے پاس کوئی ایسا ہتھیار نہ ہو جس سے وہ امیر المومنین کو نقصان پہنچا سکیں۔ پھر انہیں بالاخانے میں پہنچا دیا گیا جہاں امیر المومنین کا بیٹا عبد الملک اور دربان مزاخم بھی موجود تھے، اور وہ دو نمائندے بھی ساتھ تھے جنہیں خارجیوں کے پاس بھیجا گیا تھا۔
سلام و جواب کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ان سے سوال کیا کہ تم لوگوں نے میری حکومت کو کیوں تسلیم نہیں کیا؟ تمہارا مجھ پر کیا اعتراض ہے؟ ان میں سے جو حبشی تھا اس نے جواب میں کہا کہ ہمیں آپ کی سیرت، انصاف پسندی، عدل اور دیانتداری پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ایک اشکال ہے اگر آپ اس کا حل پیش کریں تو ہم آپ کی اطاعت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اشکال یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے طرز عمل کو تبدیل کر دیا ہے، ان کے طریقہ کے مخالف چل رہے ہیں، اور ان کے بہت سے معاملات کو آپ نے ظلم قرار دیا ہے۔ اگر آپ کا یہ طرز عمل درست ہے اور وہ لوگ واقعی ظالم تھے تو آپ ان پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ بس آپ کی یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور یہی آپ کے ساتھ ہمارے اختلاف کی بنیادی وجہ ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ میرا خیال یہ ہے کہ تم لوگوں نے یہ طرز عمل کسی دنیاوی غرض سے اختیار نہیں کیا بلکہ آخرت کی بہتری تمہارا مقصد ہے لیکن تم بات سمجھنے میں غلطی کر گئے ہو۔ اس لیے میں اس کی وضاحت کر رہا ہوں تاکہ تمہاری غلط فہمی دور ہو جائے۔ میرا تم سے سوال یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ کیا تم انہیں اپنے اچھے بزرگ اور نجات پانے والے سمجھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم انہیں ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا کہ یہ تمہیں معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تو حضرت صدیق اکبرؓ نے ان کے خلاف جنگ لڑی اور انہیں شکست دے کر ان کے اموال غنیمت اپنے قبضہ میں کر لیے اور قیدیوں کو غلام بنا لیا۔ لیکن جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے وہ تمام قیدی ان کے خاندانوں کو واپس کر دیے۔ تو کیا حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ سے برات کا اعلان بھی کیا تھا؟ یا تم لوگ ان میں سے کسی سے برات کا اعلان کرتے ہو؟ خوارج کے ان نمائندوں نے جواب دیا کہ ہم ایسا نہیں کرتے۔
پھر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے دریافت کیا کہ نہروان میں تمہارے بڑے جمع تھے اور وہ تمہارے بزرگ اسلاف ہیں، ان کے خلاف جب اہل کوفہ نے بغاوت کی تو انہوں نے کوئی تعرض نہیں کیا، نہ کسی کا خون بہایا، نہ کسی کو خوف زدہ کیا، اور نہ ہی کسی کا مال لوٹا۔ لیکن جب اہل بصرہ نے خروج کیا تو تمہارے انہی بزرگوں نے ان کا قتل عام کر ڈالا۔ حضرت عبد اللہ بن خباب بن حارثؓ جیسے بزرگ کو ان کی لونڈی سمیت قتل کر دیا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔ حتیٰ کہ عورتوں اور بچوں کو ابلتے اور جوش مارتے ہوئے دودھ کی کڑاہیوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ کیا ایسا ہوا؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں ہوا ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا تو کیا کوفہ والوں نے بصرہ والوں سے برات کا اعلان کیا؟ یا تم ان دونوں سے کسی سے برات کا اعلان کرتے ہو اور ان پر لعنت بھیجتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا کہ کیا دین ایک ہے یا دو ہیں؟ کیا تمہارے لیے ان لوگوں پر لعنت نہ کرنے کی گنجائش موجود ہے اور میرے لیے نہیں کہ میں اپنے خاندان کے بزرگوں کے بارے میں خاموشی اختیار کر سکوں؟ پھر میں تم سے پوچھتا ہوں کہ فرعون سب سے ظالم حکمران تھا جس نے یہ دعویٰ کر رکھا تھا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔ تو کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تم نے زندگی میں کتنی بار فرعون پر لعنت کی ہے؟ خارجی نے جواب دیا کہ مجھے تو یاد نہیں ہے کہ میں نے فرعون پر کبھی لعنت کی ہو۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ افسوس ہے تم پر کہ اپنے لیے تو یہ گنجائش رکھتے ہو کہ فرعون پر بھی لعنت نہ کرو اور مجھ پر یہ ضروری قرار دیتے ہو کہ میں اپنے خاندان کے بزرگوں پر لعنت بھیجوں اور ان سے برات کا اعلان کروں۔
امیر المومنین نے کہا کہ پھر میرے اس سوال پر بھی غور کرو کہ جناب رسول اللہؐ کی سنت مبارکہ تو یہ ہے کہ انہیں بت پرستوں کی طرف بھیجا گیا تھا، آپؐ نے انہیں دعوت دی کہ وہ بت پرستی کو ترک کر کے ایک اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ اور جس شخص نے بھی بت پرستی اور شرک چھوڑ کر لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا، نبی اکرمؐ نے اسے امن دے دیا اور اس کی جان و مال سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جنہوں نے بت پرستی ترک کر کے جناب محمد رسول اللہؐ کا کلمہ پڑھا ہے اور وہ تمہارے سامنے کلمہ پڑھتے ہیں مگر تم ان کے خون کو بھی حلال سمجھتے ہو اور ان کے مالوں پر قبضہ کر لیتے ہو۔ لیکن اگر تمہارے پاس یہودی یا عیسائی آجائیں اور دوسرے دینوں کے لوگ آجائیں تو ان کی جان و مال کو محترم قرار دے کر ان کی حفاظت کرتے ہو۔ کیا تمہارے لیے ساری گنجائشیں موجود ہیں اور میرے لیے تم کوئی گنجائش دینے کے لیے تیار نہیں ہو۔
روایت کے مطابق امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی یہ باتیں سن کر خوارج کے دو نمائندوں میں سے ایک (حبشی) نے کہا کہ میں نے آج جیسی مدلل اور ٹھوس بات کبھی نہیں سنی۔ اس لیے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حق پر ہیں اور میں آپ کی مخالفت ترک کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ جبکہ دوسرے نمائندے نے جو بنو شیبان میں سے تھا کہا کہ آپ کی بات تو واضح ہے مگر میں تنہا کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہوں، اس لیے واپس جا کر ساتھیوں سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ روایت میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ وہ حبشی توبہ کر کے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے پاس ہی ٹھہر گیا اور وفات تک وہیں رہا۔ مگر دوسرا شخص واپس چلا گیا اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی وفات کے بعد ایک جنگ میں خارجیوں کے ساتھ مارا گیا۔
گویا امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے یہ اصول سمجھا دیا کہ کسی شرعی حکم یا ضابطہ کے تعین کے لیے قرآن کریم یا سنت نبویؐ کے ظاہری مفہوم کو سامنے رکھنا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے طرز عمل کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ انہوں نے ان آیات اور سنتوں کا کیا مطلب سمجھا ہے اور ان پر کیسے عمل کیا ہے؟ کیونکہ صحابہ کرامؓ قرآن کریم کے نزول اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ کے عینی گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے ان دونوں سرچشموں پر عمل کا معیار اور کسوٹی بھی ہیں۔ اور اس کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی کسی اصول یا قانون کے کھرا یا کھوٹا ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے

حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ
خوارج نے ایک دور میں کوفہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی وفات کے بعد ان کے فرزند عبد اللہ عمرؒ کو کوفہ کا والی مقرر کیا گیا تھا، انہی کے دور میں خارجیوں نے ضحاک کی قیادت میں بغاوت کی اور عبد اللہ بن عمرؒ کو شکست دے کر کوفہ پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت امام اعظم ابوحنیفہؒ کوفہ میں مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی راہ نما کی حیثیت سے موجود تھے۔ ضحاک خارجی کے حکم پر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ضحاک کے سامنے پیش کیا گیا۔ خارجی چونکہ عام مسلمانوں کو گمراہ سمجھتے تھے اس لیے ہر مسلمان سے توبہ کراتے تھے۔ حتیٰ کہ حضرت علیؓ سے بھی ایک موقع پر انہوں نے یہ کہہ کر توبہ کا مطالبہ کیا تھا کہ جس طرح ہم کہتے ہیں اس طرح تم بھی توبہ کرو۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ’’حضرت امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘ میں اس واقعہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ امام صاحبؒ کو جب ضحاک خارجی کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ تب یا شیخ من الکفر کہ بڑے میاں کفر سے توبہ کرو۔ امام ابوحنیفہؒ دانا و حکیم بزرگ تھے، جواب میں فرمایا انا تائب من کل کفر کہ میں ہر قسم کے کفر سے تائب ہوں۔ خارجیوں کے سربراہ نے یہ سن کر امام صاحبؒ کو رہا کر دیا مگر ان کے جانے کے بعد کسی نے کہا کہ امام ابوحنیفہؒ نے تو اس جملہ میں تمہارے کفر سے توبہ کا اظہار کیا ہے۔ یہ سن کر امام صاحبؒ کو پھر واپس بلایا لیا گیا اور سوال ہوا کہ ہم نے سنا ہے کہ جس کفر سے تم نے توبہ کی ہے اس سے مراد ہمارے عقائد ہیں۔ امام صاحبؒ خارجیوں کی نفسیات اور طرز استدلال سے واقف تھے اس لیے انہی کی زبان میں دریافت کیا کہ تم نے میرے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کا تمہیں یقین ہے یا محض گمان ہے؟ ضحاک نے جواب دیا کہ یقین نہیں بلکہ ظن ہے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ان بعض الظن اثم بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس لیے تم نے گمان کر کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور خود اپنے عقیدہ کے مطابق تم کبیرہ گناہ کر کے کافر ہوگئے ہو۔ اس لیے پہلے تم کفر سے توبہ کرو۔ اس نے جواب میں تسلیم کیا کہ ہاں مجھ سے گناہ ہوا ہے اس لیے میں کفر سے توبہ کرتا ہوں، اب تم بھی کفر سے توبہ کرو۔ یہ سن کر امام صاحبؒ نے پھر وہی جملہ دہرا دیا کہ میں ہر کفر سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ خارجیوں کے سردار نے اس کے بعد امام صاحبؒ کو رہا کر دیا۔
لیکن اس کے بعد ایک اور طوفان کھڑا ہوگیا۔ خارجیوں کے سردار ضحاک نے کوفہ کی جامع مسجد میں آکر اعلان کر دیا کہ کوفہ کے جو عام مسلمان خارجیوں کے عقائد نہیں رکھتے وہ کافر ہیں اس لیے انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بیوی بچوں کو غلام اور لونڈیاں بنا لیا جائے۔ اس سے پورے کوفہ میں سراسیمگی پھیل گئی۔ خارجی سخت جنگ جو اور نڈر لوگ تھے اور ان سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ یہ سب کچھ کر گزریں۔ ادھر شہر میں کسی کو یہ ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ خارجیوں کے سردار ضحاک یا کسی اور ذمہ دار سے اس بارے میں گفتگو کر سکے۔ امام ابوحنیفہؒ چونکہ پہلے اس کے سامنے پیش ہو چکے تھے اور آپس میں گفتگو بھی ہو چکی تھی اس لیے امام صاحبؒ نے ہمت سے کام لیا اور ضحاک کے پاس چلے گئے جو ننگی تلوار ہاتھ میں لیے جامع مسجد میں جا بیٹھا تھا۔ امام صاحبؒ نے ضحاک کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ میں ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے پوچھنے کی اجازت دی تو فرمایا کہ کوفہ والوں کے قتل عام کا حکم کس وجہ سے دیا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ چونکہ یہ لوگ مرتد ہیں اس لیے ان کا قتل ہم پر واجب ہے۔ امام صاحبؒ نے پوچھا کہ مرتد ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا انہوں نے سابقہ مذہب ترک کر کے کوئی نیا مذہب اختیار کر لیا ہے یا بدستور اپنے پہلے مذہب پر ہی قائم ہیں؟ امام صاحبؒ کا مطلب یہ تھا کہ ارتداد تو دین سے پھر جانے کو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص ایک دین کو ترک کر کے دوسرا دین اختیار کر لے۔ جبکہ کوفہ والوں نے تو دین تبدیل نہیں کیا اور بدستور پہلے مذہب پر قائم ہیں اس لیے ان پر مرتد ہونے کا اطلاق کس طرح کیا جا سکتا ہے؟
امام صاحبؒ کا یہ سوال سن کر ضحاک خارجی چونکا اور کہا کہ اپنی بات ایک بار پھر دہرائیے۔ امام صاحبؒ نے سوال دوبارہ بیان کر دیا۔ اب یہ امام صاحبؒ کا طرز استدلال تھا یا ان کی شب زندہ داری اور درد دل کا کرشمہ کہ ضحاک نے ان کی بات سنتے ہی زور سے کہا اخطئنا کہ ہم سے غلطی ہوگئی۔ یہ کہہ کر اس نے تلوار میان میں ڈال لی، اسے دیکھ کر جامع مسجد کے صحن میں پھیلے ہوئے اس کے ہزاروں ساتھیوں نے بھی اپنی اپنی تلواریں میان میں کر لیں۔ اور یوں امام ابوحنیفہؒ کی جرات اور تدبر کی بدولت اہل کوفہ کی جان بخشی ہوگئی۔ مولانا گیلانیؒ نے اس موقع پر حضرت ابو معاذ بلخیؒ کا یہ مقولہ بھی نقل کیا ہے کہ ’’کوفہ کے سب لوگ امام ابوحنیفہؒ کے آزاد کردہ غلام ہیں اس لیے کہ ان کی جانیں امام صاحبؒ کی وجہ سے ضحاک خارجی کی تلوار سے بچی ہیں‘‘۔
الغرض خوارج نے سنت نبویؐ اور اسوۂ صحابہؓ کو نظر انداز کرتے ہوئے قرآن کریم سے براہ راست استدلال کر کے شرعی قواعد و اصول خود وضع کرنے کی جو روش اختیار کی تھی، اور اس کے ساتھ بے جا تشدد اور سطحیت کے اظہار کے ساتھ دین کو جس من پسند طریقہ سے پیش کرنا چاہا تھا اس سے امت کو فتنہ و فساد اور خونریزی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کے برعکس اہل السنۃ والجماعت کی بنیاد ہی سنت نبویؐ اور اسوۂ صحابہؓ کے دو بنیادی اصولوں پر ہے۔ اور اہل السنۃ والجماعت سے مراد اہل حق کا وہ طبقہ ہے جو قرن اول سے اب تک اس اصول پر قائم ہے کہ دینی راہ نمائی، شرعی قوانین و احکام، اور قرآن فہمی کا مدار دو چیزوں پر ہے۔ ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد و عمل اس بارے میں کیا ہے، دوسری یہ کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے اسے کیسے سمجھا ہے اور اس پر کس طرح عمل کیا ہے۔ قرآن کریم کے مقصد و منشاء تک رسائی کے یہی دو فطری اور صحیح راستے ہیں، ان سے ہٹ کر جو راستہ اختیار کیا جائے گا اور جو اسلوب وضع کیا جائے گا اس سے گمراہی اور فکری انارکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
تحریر مولانا زاہد الراشدی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password