جہاد کی علت یا فرضیت کی وجوہات-2

۔

4۔لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنے کے لیے ان پر ظلم٭
ظلم اور فساد کی ایک اور نوعیت جس کے خلاف جہاد واجب ہوجاتا ہے یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے جبراَ روکا جائے، انہیں ان کے ضمیر کے فیصلے کے خلاف ان پر غلط رائے ٹھونسی جائے اور جو لوگ اسلام قبول کریں انہیں اذیتیں پہنچائی جائیں ۔ اس قسم کے ظلم کو قرآن مجید کی اصطلاح میں ” فتنہ” کہا گیا ہے ۔ سورۃ البروج، جو کہ مکہ سورۃ ہے، میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: [اور وہ ان کو صرف اسی بات کی سزا دے رہے ہیں کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اللہ پر جو غالب اور ستودہ صفات ہے، جس کے لیے زمین اور آسمان کی بادشاہت ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ یقینا جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں پر مظالم ڈھائے اور پھر توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب اور جلانے والا عذاب ہے-]﴿سورۃ البروج آیت، 8-9-10﴾
سورۃ الحج کی مندرجہ ذیل آیات، جن میں پہلی دفعہ جنگ کی اجازت دی گئی، میں اس اجازت کا سبب ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے:
اب جن (مسلمانوں سے کافر) لڑتے ہیں ان کو بھی (لڑنے کی) اجازت ہے کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ انکی مدد کرنے پر قادر ہے ۔وہ لوگ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے صرف اس کہنے پر کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو تکیئے اور مدرسے اور عبادت خانے اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔﴿سورۃ الحج، آیت نمبر 39-40﴾
اسی طرح سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوتا ہے:
اور ان کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی مکے سے) وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو اور (دین سے گمراہ کرنے کا) فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے۔[سورۃالبقرۃ، آیت 191]
آگے ارشاد ہوتا ہے:
[اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے] [سورۃالبقرۃ،آیت، 193]

5۔ اسلام کے خلاف محاربہ٭
جس طرح دارالاسلام یا مسلمانوں کے خلاف محاربے کی صورت میں جہاد واجب ہوجاتا ہے اسی طرح اسلام کے خلاف محاربے کی بعض صورتوں میں بھی جہاد لازم ہوجاتا ہے۔ اسلامی قانون نے انسانوں کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ چاہیں تو اسلام قبول کریں اور چاہیں تو کفر پر ہی قائم رہیں۔ کسی کو اس کے کفر کی وجہ سے دنیوی سزا نہیں دی جاسکتی اگرچہ اخروی سزا ملے گی۔
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴿سورۃ البقرۃ، آیت 256﴾
(دین اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف) طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہوچکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کچھ ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور جانتا ہے۔
وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ١ۙ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا١ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا١ؕ ﴿سورۃ الکہف، آیت نمبر 29﴾
[اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انکو گھیر رہی ہوں گی۔]
اسی طرح اسلامی قانون کے تحت یہ کوئی جرم نہیں کہ کوئی شخص اسلام کے کسی حکم کو نہ سمجھے تو اس کے متعلق سوال کرے، یا اس کی وضاحت طلب کرے۔ ایسی صورت میں اس کے لیے اس کی وضاحت کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہوجاتی ہے۔ تاہم اگر وہ اسلام کا مذاق اڑائے یا اس کے شعائر کے خلاف ہرزہ سرائی کرے تو اس کام کو مسلمانوں کے خلاف محاربہ تصور کیا جائے گا۔ چنانچہ قرآن مجید نے عہد رسالت کے یہود کے جرائم کی فہرست میں اس جرم کا بھی ذکر کیا ہے:
[اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اسے بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ سمجھ نہیں رکھتے۔]﴿سورۃ المائدہ، آیت 58﴾
اس قسم کی گستاخیوں میں سب سے سنگین نوعیت کی گستاخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کی جانے والی گستاخی ہے۔ چنانچہ سورۃ التوبہ میں مشرکین کے خلاف اقدام کے جو جواز ذکر کیے گئے ہیں ان میں “طعن فی الدین” ہے۔
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ﴿سورۃ التوبۃ آیت12﴾
[اور اگر وہ تم سے معاہدہ کرنے کے بعد اسے توڑ دیں اور تمہارے دین میں عیب لگائیں تو کفر کے ان پیشواوَں سے لڑو، ان کے معاہدے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، تاکہ یہ باز آجائیں۔]
یہود جب ” راعنا ” کا لفظ منہ بگاڑ کر بولتے تھے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے تھیں تو سورۃ النساء میں اسے “طعن فی الدین” قرار دیا گیا ہے اور اسے باقاعدہ جنگی اقدام اور دشمنی کا سبب قرار دیا گیا ہے:
” تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ۔ اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور خدا ہی کافی کارساز اور کافی مددگار ہے۔ اور یہ جو یہودی ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا اور سنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ (تم سے گفتگو کے وقت) راعنا کہتے ہیں اور اگر یوں کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظرنا (کہتے) تو انکی حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی درست ہوتی لیکن خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں۔﴿سورۃ النساء آیت 46﴾

پس اگر اس گستاخی کا ارتکاب کوئی ایسا شخص کرے جو دارالاسلام سے باہر مقیم ہو اور وہاں کی حکومت اس کی سرپرستی کرے تو یہ گویا اس حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام ہوگا اور مسلمانوں پر اس کے خلاف جہاد واجب ہوگا۔ اسی طرح اگر اس کا رتکاب دارالاسلام کے اندر مقیم کوئی شخص کرے تو مسلمانوں کی حکومت کو اختیار ہوگا کہ اسے سزا دے۔ اگر وہ غیر مسلم ذمی یا مستامن ہو تو اسے مسلمانوں کی حکومت اس جرم کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئےبعض حالات میں سزائے موت بھی دے سکتی ہے ۔ اس قسم کی سزائے موت کو فقہائے احناف ” سیاسۃ” قرار دیتے ہیں [ ابن عابدین شامی، رد المحتار، ج3، ص305۔ مزید تفصیل کے لیے ان کا رسالہ دیکھیے جو انہوں نے خاص اسی موضوع پر لکھا ہے:
تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الاَنام اَو احد اَصحابہ الکرام علیہ ولیہھم الصلاۃ والسلام، فی مجموعۃ رسائل ابن عابدین {دمشق: المکتبۃ الھاشمیۃ، 1325 ھ} ج1، ص314-371]
سیاسۃ سے مراد مسلمانوں کی حکومت کا وہ اختیار ہے جو فساد کے خاتمے کے لیے شریعت نے اسے دیا ہے۔ [ردالمحتار، کتاب المحدود، ج3، ص 162] اگر اس کے برعکس اس شنیع جرم کا ارتکاب کوئی ایسا شخص کرے جو مسلمان ہونے کا دعویدار ہو تو اس سے وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اسے مرتد کی سزا بطور حد دی جائیگی ۔ [ تنبیہ الولاۃ والحکام، ص 316-352]
یہیں سے یہ بات نکل آتی ہے کہ ارتداد بھی محاربے کی ایک صورت ہے۔ پس اسلامی شریعت نے مرتد کے لیے جو سزا تجویز کی ہے، اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ اگر معاصر بین الاقوامی نظام میں “ریاست” کو اساسی حیثیت حاصل ہے اور اس کے خلاف غداری کا ارتکاب کرنے والے کو سزائے موت دی جاسکتی ہے تو اسلامی قانون کے تحت “دین” کو جو اساسی حیثیت حاصل ہے، اس کو مدنظر رکھتےہوئے دین کے خلاف محاربہ کرنے والے کی سزائے موت پر کیا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟
ارتداد کا ذکر اسی وجہ سے فقہاء “کتاب السیر” میں کرتے ہیں ۔ پھر ارتداد کبھی انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے اور کبھی ایک پورا گروہ اس کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ اول الذکر شخص سے نمٹنے کے لیے اسلام کا فوجداری اور عدالتی قانون حرکت میں آتا ہے، جبکہ ثانی الذکر صورت میں جہاد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے، یعنی اس گروہ کے خلاف باقاعدہ جنگی اقدام کیا جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، اس کو بغاوت قرار دیا جاتا ہے ۔ پھر جس طرح بغاوت کی صورت میں باغیوں کی سزا صرف اس وقت معاف ہوسکتی ہے جب وہ بغاوت ترک کرکے حکومت کی اطاعت کریں، اسی طرح مرتد کی سزا صرف اسی صورت میں معاف ہوسکتی ہے جب وہ دین کے خلاف بغاوت یعنی ارتداد ترک کرکے واپس اسلام قبول کرلے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کیوں فقہاء ارتداد کی بحث میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر مرتد نے ارتداد کے بعد دارالاسلام کی سکونت ترک کرکے دارالحرب میں اقامت اختیار کرلی تو کیا ہوگا؟ ارتداد اور دارالحرب میں اقامت میں گویا براہ راست تعلق تھا۔ [ عموما ایسے بد بختوں کو کفار کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے، وہ گستاخی کرنے کے بعد کفار کی گود میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں، جیسا کہ آجکل ملحدین امریکہ اور یورپ بھاگ رہے ہیں اور پھر وہاں سے بیٹھ کر پہلے سے بڑھ کے گستاخیاں کرتے ہیں]
فقہاء نے قرار دیا ہے کہ اگر عدالت نے فیصلہ سنادیا کہ وہ ارتداد کے بعد دارالحرب چلا گیا ہے تو پھر اسے قانونا مردہ فرض کیا جائے گا۔ اس کی بیوی کو نئے نکاح کی اجازت مل جاتی ہے اور اس کا مال ، جس کا مالک وہ اس وقت بنا تھا جب وہ مسلمان تھا، اس کے ورثاء میں تقسیم کردیا جائیگا۔ [الھدایۃ، کتاب السیر، باب احکام المرتدین، ج2، ص408]

6۔ دارالاسلام کے اندر فساد٭
جس طرح دارالاسلام، مسلمانوں یا اسلام کے خلاف محاربے کا ارتکاب دارالاسلام سے باہر ہوسکتا ہے اسی طرح اس کا ارتکاب دارالاسلام کے اندر بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی تین صورتیں اوپر ذکر کی گئیں :
1- دینی شعائر کی بے حرمتی، بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی،2- ارتداد اور3- اہل ذمہ کی جانب سے عقد ذمہ کا نقض۔
ان میں سے اس موَخر الذکر صورت کو اسی صورت میں “بغاوت” قرار دیا جاتا ہے جب اس کا ارتکاب کوئی ایک فرد یا گنتی کے چند افراد نہ کریں، بلکہ ایک پورا گروہ کرے جسے “منعۃ” حاصل ہو، اور جب ان کے ساتھ مسلمان بھی اپنی حکومت کے خلاف کاروائی میں حصہ لیں [اس صورت میں اہل ذمہ کو مسلمان باغیوں کا تابع سمجھا جاتا ہے]۔ اگر صرف اہل ذمہ کا کوئی گروہ دارالاسلام کے کسی حصے میں مرکزی حکومت کے خلاف قبضہ قائم کرلے تو اس کے خلاف جنگی اقدام کی صورت میں بغاوت کے احکام کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ اس صورت میں جہاد کے عام احکام کا ہی اطلاق ہوگا۔
دارالاسلام کے اندر فساد کی ایک نوعیت دیگر جرائم کی صورت میں بھی ہوسکتی ہےجن سے نمٹنے کے لیے ایک جانب شریعت نے حدود، قصاص اور تعزیر کے احکام دیے ہیں تو دوسری طرف “سیاسۃ” کے قاعدے کے تحت مسلمانوں کی حکومت کو قانون سازی اور سزاوَں کے لیے اہم اختیارات دیئے ہیں۔ [لیکن یہ اختیار صرف ان سزاوَں میں ہے جنکی سزا شریعت نے مقرر نہ کی ہو یا متعدد سزاوَں میں سے کسی ایک سزا کی تعیین نہ کی ہو بلکہ اسکو مطلق ذکر کردیا ہو جیسا کہ ڈاکے کی سزا]چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رہزنی اور ڈاکے کی ایک مخصوص صورت کو قرآن مجید نے “محاربہ” قرار دیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے سخت ترین سزائیں تجویز کی ہیں:
[جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں][سورۃالمائدۃ،آیت 33]
قرآن مجید نے سرقہ [چوری] کے جرم کو بھی فساد فی الارض میں شمار کیا ہے:
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كُنَّا سٰرِقِیْنَ﴿سورۃ یوسف، آیت 73﴾
[وہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم تم کو معلوم ہے کہ ہم (اس) ملک میں اس لئے نہیں آئے کہ خرابی کریں اور نہ ہم چوری کیا کرتے ہیں۔]
اسی طرح اس نے سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۲۷۸فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ﴿سورۃ البقرۃ آیت نمبر 278-279﴾
[ مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجاوَ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جو امن معاہدہ کیا تھا اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ وہ سود نہیں کھائیں گے۔ [سنن ابی داوَد، کتاب الخراج، والفئ و الامارۃ، باب اخذ الجزیۃ، رقم حدیث 2644] اسی لیے امام سرخسی رح نے امن معاہدات کی بحث میں اسلامی قانون کا یہ اہم قاعدہ ذکر کیا ہے کہ:
و اما الربا فھو مستثنی من کل عھد – [ المبسوط، کتاب الحدود۔ ج9، ص56][سود ہر معاہدے سے مستثنیٰ ہے۔ ]

اخیرا، کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دارالاسلام کے اندر مسلمانوں کا کوئی گروہ مرکزی حکومت کے خلاف جنگی اقدام کرے اور کسی علاقے پر اپناتسلط قائم کرلے۔ اس موَخر الذکر صورت کو خالصتا ” بغاوت” کی صورت کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصولیاحکام سورۃالحجرات میں ذکر کیے گئے ہیں:
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم رحمت کی جائے۔﴿سورۃ الحجرات آیت 9-10﴾
اسی طرح احادیث میں مزید رہنمائی ملتی ہے۔ تاہم اس کا تفصیلی ضابطہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سےاخذ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ کتاب السیر کےباب البغی میں تقریبا تمام احکام ان کے قول یا فعل کو مد نظر رکھتے ہوئے مستنبط کیے گئے ہیں۔ امام سرخسی باغیوں کے سر کاٹ کر شہر شہر پھرانے کی ممانعت کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے باغیوں کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار نہیں کیا:
و ھو المنبع فی ھذا الباب۔ [المبسوط،کتاب السیر، باب الخوارج، ج10، ص139][ اور اس باب میں انہی کے طرز عمل کی پیروی کی جاتی ہے۔]

7۔ اسلام کی راہ میں رکاوٹ٭
اسلام کے خلاف محاربے میں یہ صورت بھی ہے کہ غیر مسلم ریاست ، یا نظم اجتماعی، اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ڈالے یا لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکے۔
اگر غیر مسلموں کا نظم اجتماعی اسلام کی دعوت کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے یا وہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے روک رہا ہے، تو اس رکاوٹ کا دور کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اگر اور کوئی راستہ نہ ہوتو اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے طاقت بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ اسلام کو دین برحق ماننے کا لازمی تقاضہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ معاصر دنیا میں حقوق انسانی کی پامالی، عالمی امن کو خطرہ، جمہوریت کے فروغ اور اس طرح کے دیگر مغربی تصورات کی بنیاد پر اقوام متحدہ اور طاقتور ریاستیں اپنے لیے اسے جائز سمجھتی ہے کہ وہ ان اقدار کی راہ میں رکاوٹ بننے والی حکومتوں کا خاتمہ کردیں، بلکہ اگر کوئِ اور راستہ نہ ہو تو ریاستوں کی نئی تشکیل کردیں۔
مولانا مودودی نے “الجہاد فی الاسلام” میں یہ موَقف اختیار کیا ہے کہ کافرانہ نظام حکومت ہی بذات خود تمام برائِوں کی جڑ ہے اور اس وجہ سے اس کے خاتمے کے لیے “مصلحانہ جہاد” ضروری ہوجاتا ہے۔ [ مولانا مودودی، الجہاد فی الاسلام، ص117-118] مولانا مودودی نے کافرانہ نظام حکومت کے خاتمے کو مقصود بالذات قرار دیا ہے ، اس کے برعکس فقہاءکی رائے یہ ہے کہ کافرانہ نظام حکومت بذات خود محاربہ کے مترادف نہیں ہے ، بلکہ جب یہ نظام حکومت لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچنے میں رکاوٹ بن جائے اور اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اور کوئی راستہ نہ ہو تو پھر ضرورت کی حد تک طاقت استعمال کی جاسکتی ۔ فقہائے کرام تبھی جنگ کے جواز کے قائل ہوتے ہیں جب یہ بات محض مفروضہ نہ رہے بلکہ عملاً نظر آئے کہ کوئی حکومت اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہے ؛ اس رکاوٹ کو دور کرنے کا راستہ صرف جنگ ہی کی صورت میں ہے ؛ اور مسلمانوں میں جنگ کی استطاعت بھی ہے۔
جدید ذہن کی طرف سے اسلامی نظریے /اقدار کی اشاعت کے حق کے لیے جنگ کے جواز پر بہت سے اشکالات اٹھائے جاتے ہیں، اس موضوع پر اہل علم کے درمیان ہونے والا ایک مکالمہ آگے اک تحریر میں پیش کیا جارہا ہے، اس میں اس حوالے سے تمام اشکالات زیربحث آئیں گے ۔
استفادہ کتاب، جہاد مزاحمت اور بغاوت بین الاقوامی قانون کی روشنی میں از ڈاکٹر مشتاق ، چیئرمین شعبہ قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password