جماعۃ التکفیر والہِجرۃ

’’تکفیری بیانیہ‘‘ کی نقاب کشائی کےلیے اس گمراہ فکر کی اصل خالق مصر کی جماعۃ التکفیر والہجرۃ پر ایک مضمون پیش ہے۔ یہ مضمون بعض عرب اہل علم کی جانب سے دورِحاضر کے گمراہ افکار و فرقہ جات پر تیارکردہ ایک انسائیکلوپیڈیا ’’الموسوعۃ الـمُیَسَّرَۃ فی الأدیان والمذاھب والأحزاب المعاصرۃ‘‘ سے ایک فصل تھی جو اردو استفادہ کی صورت ایقاظ میں پیش ہوئی تھی، اور باقاعدہ حوالہ کے ساتھ۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اس کا صحیح اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے اور یہ کس پر بولا جاسکتا، عرب علمائے سنت’تکفیری‘ کا لفظ بنیادی طور پر انہی طبقوں کےلیے بولتے ہیں جو ’’الموسوعۃ الـمُیَسَّرَۃ‘‘ میں محوَّلہ جماعۃ التکفیر والہجرۃ ایسی فکر پر یا اس کے کچھ قریب ہو۔ایڈمن
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نام: ’جماعت المسلمین‘ جوکہ یہ خود اپنے لئے استعمال کرتی ہے، ’جماعۃ التکفیر والہجرۃ‘ جوکہ ذرائع ابلاغ میں اِس کے لئے استعمال ہوا۔اسلام کے نام پر بننے والی یہ ایک غالی جماعت ہے، جوکہ معصیت کی بنیاد پر تکفیر کرنے میں خوارج کا منہج اختیار کرتی ہے۔ ابتدائے اَمر میں مصر کی جیلوں کے اندر پروان چڑھی۔ اِس کے افراد کی رہائی ہوجانے کے بعد اس کے افکار نکھر کر سامنے آنے لگے۔ مصر کے علاقہ ’صعید‘ میں اس کو پیروکاروں کی خاصی تعداد ملی، خصوصاً یونیورسٹیوں کے طلبہ میں سے۔
٭جماعت کی تاسیس اور نامور شخصیات:
’جماعۃ المسلمین‘ جوکہ بعد ازاں ’جماعۃ التکفیر والہجرۃ‘ کے نام سے جانی گئی، کے افکار و نظریات مصر کی جیلوں میں پروان چڑھے، خصوصا 1965ءکی گرفتاریوں کے بعد، جن کے نتیجے میں سید قطب اور ان کے کئی ایک ساتھیوں کو پھانسی بھی ہوئی تھی، اور جوکہ اس وقت کے حاکمِ مصر جمال عبد الناصر کے حکم سے ہوئی تھیں۔- مصر کے دیندار مسلم نوجوانوں کو جیلوں کے اندر تشدد کے ایسے ایسے مرحلوں سے گزارا گیا، جن کو سننے سے ہی بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ بہت سے لوگ اس کی تاب نہ لا سکے۔ بہت سے شہید ہوئے۔ مگر سخت دل جابروں کے کان پر جوں تک نہ رینگھی۔ اِس دل دہلا دینے والی فضا میں غلو نے جنم لیااور ’تکفیر‘ کا پودا اگ آیا، جس کو جلد ہی پزیرائی ملنے لگی۔ 1967ءمیں سیکورٹی فورسز کے حکام نے تمام نظر بند داعیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صدر جمال عبد الناصر کی تائید کا اعلان کریں، جس کے جواب میں نظر بنداسلام پسندوں کی متعدد اقسام سامنے آئیں:
1۔ نظربند افراد کی ایک تعداد ایسی تھی جس نے اِس حکومتی مطالبہ پر عمل درآمد میں ذرا دیر نہ کی اور رہائی پانے اور اپنی ملازمتوں پربحال ہونے کی امید میں صدرِ مملکت کی تائید کا اعلان کیا ، بلکہ اِس انداز میں یہ بیانات صادر کئے کہ گویا یہ سب نظربند داعیوں کے ہی نمائندہ وترجمان ہیں۔ ان میں کئی ایک علمی شخصیات بھی تھیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ زیادہ تر یہ اسلامی تحریک میں پایا جانے والا ففتھ کالمسٹ عنصر تھا۔ ان میں ایک تعداد ان لوگوں کی تھی جو باقاعدہ ایجنٹ تو نہ تھے، البتہ وہ سیاست کے آدمی تھے جوکہ اپنے کچھ خاص مقاصد حاصل کرنے کیلئے اِس تحریک کے ساتھ ابتداءمیں کسی وقت جڑ گئے تھے۔
2۔تاہم نظر بند داعیوں کی بڑی تعداد اِس پر کسی بھی قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنے سے باز رہی۔ اِس نے نہ اس کے خلاف بولنے کی ضرورت جانی اور نہ اس کے حق میں، اور اِس حالت اکراہ میں کسی بھی طرزِ عمل کو ظاہر کرنے سے اجتناب کو ہی ترجیح دی۔
3۔البتہ نوجوانوں کی ایک تھوڑی سی تعداد ایسی تھی جس نے نہ صرف حکومت کا یہ مطالبہ رد کیا بلکہ صدر جمہوریہ اور اس کی حکومت کی تکفیر کی۔ پھر یہ نوجوان اِس پر بھی نہ رکے بلکہ اپنے نظر بند ساتھیوں میں سے جس جس نے حکومتی مطالبے کی تائید کی تھی اُن کو بھی ’اسلام سے مرتد‘ قرار دیا، نہ صرف یہ بلکہ جو (ان کے قرار دیے ہوئے) کافر کو کافر نہ جانے اس کو بھی کافر قرار دیا۔ معاشرے کو بسمیت اس میں پائے جانے والے افراد کافر قرار دیا کیونکہ معاشرے کے لوگ حکمرانوں کے ساتھ ولاء رکھتے ہیں۔ نہ اِن سب لوگوں کی اِس جماعت کی نظر میں نماز معتبر تھی اور نہ روزہ۔ اِس گروپ کا قائد اور اِس کے نظریات کا موجد شیخ علی اسماعیل تھے۔
٭جماعت کی نامور شخصیات:
شیخ علی اسماعیل: جیل میں نوجوانوں کے اِس گروپ کے راہنما شیخ علی اسماعیل تھے۔ یہ جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل تھے، اور شیخ عبد الفتاح اسماعیل جوکہ سید قطب کے ہمراہ پھانسی پانے والی چھ شخصیات میں سے ایک تھے کے سگے بھائی۔ تب شیخ علی اسماعیل وہ شخصیت ہوئے جس نے جماعت کے اندر ’تکفیر‘ اور ’عزلت‘ ایسے نظریات کی بنیاد رکھی اور ان کو شرعی بنیادیں فراہم کیں، یہاں تک کہ دیکھنے والے کو محسوس ہوتا کہ یہ کچھ شرعی مفہومات ہیں اور کتاب وسنت سے اور سیرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی ومدنی ادوار سے اس کے باقاعدہ دلائل پائے جاتے ہیں، جبکہ وہ اس موضوع پر خوارج کے افکار سے متاثر تھے۔ تاہم بعد ازاں شیخ علی اسماعیل حق پا گئے اور رشد وہدایت کی جانب لوٹ آئے اور اپنے ان افکار سے جن کی جانب وہ دعوت دیتے رہے تھے، براءت کا اعلان کیا۔
شکری مصطفی (ابو سعد): پیدائش 1942ءموضع: الحواتکۃ، صوبہ اَسیوط۔ یہ نہایت کم سن نوجوان، جوکہ گرفتاری کے وقت محض تیئیس برس کا تھا، الاخوان المسلمون کے ان نوجوانوں میں سے ایک تھا جو الاخوان سے تعلق رکھنے کی بنا پر 1965ءمیں قید کئے گئے تھے۔ الازہر کے فارغ التحصیل شیخ علی اسماعیل نے جماعت کے ان افکار سے، جن کے وہ مؤسس تھے، اظہارِ براءت کر دیا تو جماعت کی قیادت اِس نوجوان کو ملی جوکہ زراعت کی فیکلٹی سے بیچلر کے درجے میں فارغ التحصیل تھا۔ شکری مصطفی کو 1971ءمیں جیل سے رہائی ملی، جس کے ساتھ ہی وہ جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کے عمل میں جت گیا۔ تب شکری مصطفی کی بیعت ہوئی اور اس کو امیر المومنین اور امام جماعت المسلمین قرار دیا گیا۔ شکری نے مختلف صوبوں اور علاقوں میں امراءمتعین کئے۔ جماعت کے خفیہ ٹھکانے قائم کرنے کیلئے قاہرہ، اسکندریہ، جیزہ اور کچھ دیگر علاقوں میں کرائے کے فلیٹ حاصل کئے گئے۔
ستمبر 1973ءمیں شکری مصطفی نے جماعت کے افراد کو حکم دیا کہ وہ صوبہ منیا کے علاقہ ابو قرصاص کے پہاڑی علاقوں میں جا بسیں۔ شکری کے پیروکاروں نے اپنی جائدادیں اور اپنے مال اسباب بیچ ڈالے، ضروری اشیاء بشمول سفید ہتھیار (خنجر چھریاں وغیرہ) حاصل کئے اور ’ہجرت‘ سے متعلق اپنے جماعتی مفہوما ت پر عمل پیرا ہونے کیلئے امیر کی ہدایات پر عمل کیا۔بعد ازاں شکری نے اپنے پیروکار افراد کے کچھ چھوٹے چھوٹے مجموعے ملک سے باہر بھیجے، جس کا مقصد ابتدائی طور پر مالی وسائل کا حصول تھا۔ گو اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ یہ دعوت مصر سے باہر بھی پھیلنے لگی۔شکری نے اپنے پیروکاروں کیلئے جو تنظمیب اور تربیتی نظام رکھا اُس کی رو سے ایک فرد کو اپنے ایک خاص ماحول ہی کے اندر محصور رہ جانا ہوتا تھا۔ باقی معاشرے سے مکمل طور پر کٹ جانا ہوتا۔ بلکہ اپنی سب احتیاجات میں جماعت پر ہی کلی انحصار کرنا ہوتا تھا۔ تقصیر ہوجانے پر جماعتی سزائیں ملتیں۔ جماعت سے نکل جانے والا شخص دین سے ہی نکل جانے والا اور کافر شمار ہوتا۔ مرتد سمجھا جانے کی بنا پر اس کا پیچھا کیا جاتا اور یہاں تک کہ اس کو صاف کر دیا جاتا۔
مصری حکام نے اِس جماعت پر ایک آہنی ہاتھ اس وقت ڈالا جب اس جماعت نے مصر کے وزیر اوقاف شیخ حسین ذہبی (جوکہ ایک دینی شخصیت تھی) کو اغوا کیا اور بعد ازاں قتل بھی کردیا۔تب اس جماعت کے ساتھ نہایت شدید جھڑپیں ہوئیں اور بالآخر سینکڑوں کی تعداد میں جماعت کے افراد کو حراست میں لے لیا گیا اور مقدمہ چلانے کیلئے عدالتوں کے اندر پیش کیا گیا۔ 1977ءمیں جماعت کے پانچ افراد کیلئے عدالت نے پھانسی کا فیصلہ دیا، جن میں سرفہرست شکری مصطفی اور ماہر عبد العزیز بکری کا نام تھا۔ ماہر عبد العزیز، شکری کا سگا بھانجا تھا اور ’الہجرۃ‘ نامی کتاب کا مؤلف تھا۔- 30 مارچ 1978ءکی صبح کو اِس گروپ کو پھانسی دے دی گئی۔ پے در پے ضربیں لگنے کے بعد، تب اِس جماعت نے خفیہ سرگرمیوں کی پالیسی اپنائی۔ یوں بھی اب کئی ایک دینی طبقوں نے اس جماعت کے ساتھ شامل افراد کی اصلاح کیلئے سرگرمیاں تیز کردی تھیں۔ جیلوں کے اندر اِن (تکفیریوں) کے لوگ بھی جاتے اور سلفی منہج کے حامل افراد بھی، جہاں بحثوں اور مناظروں کے نتیجے میں تکفیری جماعت کے افراد کی ایک کثیر تعداد اُن نظریات سے تائب ہوگئی۔ جماعت کے زیرزمین چلے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اِس کے افراد سلفی داعیوں کے ہاتھ نہ چڑھیں!
٭جماعت التکفیر کے نظریات:
1. ان کے نزدیک: ہر مرتکبِ کبیرہ، جو کبیرہ پر اصرار کرنے والا ہو اور کبیرہ گناہ سے تائب نہ ہوا ہو، کافر ہے۔ حکام جو ما انزل اللہ کے مطابق فیصلے نہ کریں، کسی بھی مزید تفصیل میں جائے بغیر، علی الاطلاق کافر ہیں۔ علماء کافر ہیں کیونکہ نہ تو کبائر کے مرتکب کی تکفیر کرتے ہیں اور نہ ہر ہر اس شخص کی جو حکم بغیر ما انزل اللہ کرتا ہے۔ ہر وہ شخص جس کے سامنے یہ اپنی فکر پیش کریں اور وہ اسے قبول نہ کرے، یا قبول کر بھی لے مگر ان کی جماعت میں شامل نہ ہو اور ان کے امام کی بیعت نہ کرے، وہ کافر ہے۔ البتہ وہ شخص جو ان کی جماعت میں شامل ہوجانے کے بعد اس کو چھوڑ گیا ہو تو وہ مرتد ہے اور اس کا خون مباح ہے۔ بنا بریں سب دینی جماعتیں جن تک ان کی دعوت پہنچ چکی ہے مگر وہ اِن کے امام کی بیعت کرنے نہیں آئیں وہ کافر ہیں اور دین سے خارج۔
2. ایک عام شخص کیلئے بطورِ فرد اِن کے ہاں توقف اور تبین کا قاعدہ بھی مستعمل رہا ہے، یعنی اس کے حال سے واقفیت تک اس کی بابت توقف کرنا۔
3. اللہ اور رسول کے سوا کسی کی بات ماننا شرک ہے۔ بنا بریں، ہر وہ شخص جو اقوالِ ائمہ یا اجماع کو مانتا ہے، حتیٰ کہ وہ صحابہ کا اجماع کیوں نہ ہو، یا جو قیاس کو مانتا ہے، یا مصالح مرسلہ یا استحسان وغیرہ ایسی ادلہ کو مانتا ہے، ان کی نگاہ میں مشرک کافر ہے۔
4. چوتھی صدی ہجری کے بعد کے اسلامی ادوار اِن کے نزدیک کافر اور جاہلی ادوار ہیں۔ کیونکہ یہ __ اِن کے بقول __ ’تقلید کے بت‘ کو پوجتے رہے ہیں، اور جوکہ خدا کو چھوڑ کر پوجا جاتا رہا ہے۔ بنا بریں ایک مسلمان پر __ اِن کے بقول __ واجب ہے کہ وہ احکامِ شریعت کو ادلہ کے ساتھ ہی جانے۔ اِن کے ہاں امور دین میں سے کسی بھی امر میں تقلید جائز نہیں۔
5. صحابی کا قول یا فعل حجت نہیں، خواہ وہ خلیفہء راشد کیوں نہ ہو!
6. ’ہجرت‘ اِن کے فکر کا دوسرا بڑا عنصر ہے۔ اِس سے اِن کی مراد ہے: جاہلی معاشرے سے شعوری طور پر علیحدہ ہوجانا۔ آج اِس وقت کے سب معاشرے ان کے نزدیک جاہلی معاشرے ہیں۔ ان معاشروں سے عزلت اختیار کر جانا ان کے نزدیک مکانی بھی ہے اور شعوری بھی۔ جماعت کو ایک ایسے ماحول میں رہنا ہے جہاں اِن کے نقطہء نظر سے اسلامی زندگی حقیقت پزیر ہوتی ہو اور یہ اس طرح گزاری جائے گی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکی مرحلے کے اندر رہتے رہے۔
7. دورِ استضعاف کے اِس حالیہ مرحلہ میں، ’مسلمین‘ پر واجب ہے کہ فی الحال وہ شعوری مفاصلت ہی زیادہ سے زیادہ اختیار کر کے رکھیں، تاکہ اِس عمل سے ’جماعتِ مسلمین‘ (تکفیر والہجرۃ) کیلئے ان کی ولاء زیادہ سے زیادہ قوت کے ساتھ سامنے آئے۔ اِس مرحلہ میں ان کے نزدیک جہاد سے بھی دستکش رہنا ضروری ہے تاآنکہ مطلوبہ قوت مہیا ہو جائے۔
8. ’تاریخ‘ ان کی نگاہ میں آخری حد تک ایک بے وقعت چیز ہے۔ تاریخ اگر کوئی ہے تو ان کے نزدیک بس وہی جو قرآن میں آچکی۔
9. ان علماءکے قول کی بھی ان کے ہاں کوئی وقعت نہیں جو علمی مسائل میں تحقیق پر دسترس رکھتے ہیں، نہ ہی ان امہات الکتب کی ان کے ہاں کوئی وقعت ہے جو تفسیر اور عقائد وغیرہ ایسے موضوعات پر پائی جاتی ہیں۔ بیشتر کبار علماءجو اِن کتب کے مصنف ہیں وہ ویسے ہی ان کے نزدیک مسلم ثابت نہیں ہوتے۔
10. صرف کتاب اور سنت کی حجیت کے قائل ہیں۔ لیکن دیگر بدعتی گروہوں کی طرح، یہ بھی پہلے ایک رائے گھڑتے ہیں، پھر قرآنی الفاظ کو اپنی اُس رائے پر محمول کرتے ہیں، پھر سنت میں سے جو چیز ان کے اقوال کے موافق ہو اس کو مانتے ہیں اور جو ان کو موافق نہ بیٹھتی ہو اس کو رد کردینے کا کوئی طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں، یا پھر کہتے ہیں ’اس کا یہ مطلب نہیں جو سمجھ لیا گیا ہے‘!
11. ناخواندگی کے داعی ہیں۔ اس حدیث کو خاص اپنے مفہوم کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ نحن اُمۃ اُمیۃ یعنی ”ہم ایک ان پڑھ امت ہیں“۔ ان کی دعوت میں یہ شامل رہا ہے کہ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم لوگ یونیوسٹیاں چھوڑ آئیں۔ کوئی شخص کسی یونیورسٹی، کسی کالج، کسی سکول، کسی مدرسے میں داخلہ نہ لے، خواہ وہ اسلامی ادارہ ہو یا غیر اسلامی، کیونکہ سب طاغوتی ادارے ہیں، اور ’مسجدِ ضرار‘ کے حکم میں آتے ہیں!
12. ان کے نزدیک ناخواندگی کے خاتمہ کی دعوت مطلق طور پر ایک یہودی دعوت ہے، جس کا مقصد لوگوں کو اسلام کے علم سے ہٹا کر علومِ کفر میں مشغول کر دینا ہے۔ ’علم‘ ان کے نزدیک صرف وہ ہے جو خاص ان کے حلقات میں دیا جاتا ہے۔
13. عام مساجد میں جمعہ وجماعت ادا کرنے سے منع کرتے ہیں، کیونکہ سب مساجد ان کے ہاں مسجد ضرار کا حکم رکھتی ہیں اور ان کے امام کافر، سوائے چار مسجدوں کے: ایک مسجد حرام، دوسری مسجد نبوی، تیسری مسجد قباءاور چوتھی مسجد اقصیٰ، مگر ان مسجدوں میں بھی نماز نہیں پڑھتے الا یہ کہ امام انہی میں سے ہو!
14. عام مساجد کیلئے ان کے ہاں ’جاہلیت کے معبد‘ کا لفظ بھی مستعمل رہا ہے!
15. یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا امیر شکری مصطفی ہی اس امت کا مہدی منتظر ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اسی کی جماعت کے ہاتھ پر اسلام کو زمین کے سب ادیان پر وہ نصرت دلائے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بھی نہیں دلائی۔
16. اور یہ کہ اس جماعت کا اصل کردار اس وقت سامنے آئے گا جب امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ایک عالمگیر جنگ کے نتیجے میں سب جدید اسلحہ مانند میزائل و طیارے وغیرہ ختم ہو جائیں گے اور جنگیں دوبارہ سفید ہتھیاروں مانند تلوار ، تیر اور نیزہ سے ہی لڑی جانے لگیں گی۔
17. ان کی جماعت کے قائدین کا کہنا رہا ہے کہ وہ درجہء امامت اور اجتہادِ مطلق کے درجے پر فائز ہیں، اور یہ کہ وہ اس بات کے مجاز ہیں کہ جس چیز پر امت نے سلف تا خلف اجماع کئے رکھا ہے یہ اس کے بھی مخالف قول اختیار کر سکتے ہیں۔
18. سب سے اہم کتاب جو ان کی دعوت اور ان کے عقیدہ کے سب اَسرار بیان کرتی ہے وہ ہے ”ذکریات مع جماعۃ المسلمین – التکفیر والہجرۃ“ یعنی ”جماعۃ المسلمین، تکفیر والہجرۃ کے ساتھ میری یادداشتیں“، جس کا مصنف اس جماعت کا ایک فرد عبد الرحمن ابو الخیر ہے جس نے کہ بعد ازاں اِس جماعت کو چھوڑ دیا تھا۔
اصل عربی مضمون پڑھنے کیلئے:
بشکریہ سہ ماہی ایقاظ

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password