اباجیت پسندی کا بیانیہ بجواب انتہاء پسندی کا بیانیہ

علم کی دنیا دیانت داری، غیر جانبداری اور حقیقت کی مکمل تصویر کشی کی دنیا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے straw-man fallacy یعنی مخالف نظریات کو پہلے ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنا اور پھر اُن کا بطلان کرنا ایک عام رویہ ہے۔کچھ عرصہ پہلے المورد کے سند یافتہ صحافی و دانشور جناب خورشید ندیم صاحب نے اپنے کالم میں اپنے “دس قضایا” کا ایک “مکمل پیکج” فرض کیا اور اسی کا نام انہوں نے “روایتی بیانیہ” رکھ کر علماء کے سر منڈھ دیا ہے۔ انکی تحریر یہاں دیکھیے۔
حالانکہ معاملے کی نوعیت یہ ہے کہ ان دس کے مابین بہت سے کمبینیشن بنانا ممکن ہیں اور روایتی علماء کی عمومی پوزیشن ایک مختلف کمبینیشن کا نام ہے۔ مثلا وہ علماء سے بار بار اس سوال کا جواب مانگتے ہیں کہ “بتائیے مذھبی بنیاد کے بنا قائم شدہ قومی ریاست پر آپ کی رائے کیا ہے؟” (علماء کا جواب اس پر کیا ہے فی الوقت اس تناظر میں گفتگو مقصود نہیں)۔ اب یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص قومی ریاست کو غلط کہے مگر حکمرانوں کو مرتد نہ کہے اور یا پھر ہتھیار کے بجائے دیگر طرق سے اصلاح کا قائل ہو وغیرہ۔ مگر انہوں نے نہایت سادگی سے یہ فرض کرلیا کہ جو اس سوال کے بارے میں ان کا مفروضہ جواب نہیں دے گا وہ پھر حکمرانوں کو مرتد بھی مانے گا اور قتل و غارت کی حمایت بھی کرے گا۔ اب اس قسم کے استدلال کو “سادہ لوحی” پر محمول کیا جائے یا چالاکی پر، اس کا فیصلہ آپ خود کرلیں۔ اسی انداز میں متبادل بیانئے کے شوقین حضرات کو جب کہا جائے کہ آپ لوگوں کا نظریہ دراصل سیکولرانہ ہے تو پلٹ کر کہتے ہیں کہ “نہیں بھائی آپ ہماری بات سمجھ نہیں رہے، ہماری بات پر غور کیجئے، ذرا تہہ میں اترئیے، ہم وہ نہیں کہہ رہے جو آپ ہم سے منسوب کررہے ہو، ہمارا نظریہ تو سیکولرازم سے یوں اور وہ مختلف ہے۔”جب اپنی باری آتی ہے تو سامنے والے سے “منطق کی باریک بینی” میں غوطہ زن ہونے کا تقاضا کرتے ہیں اور جب دوسروں پر الزام تھوپنے کی باری آتی ہے تو یوں گفتگو کی جاتی ہے گویا سب علماء یک زباں ہوں کہ “دنیا میں جہاں کہیں غیر اسلامی آئین پر مبنی کوئی ریاست قائم ہے سب مسلمانوں پر اس کے خلاف جہاد فرض ہے، چلو آؤ ہماری آواز پر لبیک کہو اور نکلو گھروں سے”۔
المورد والے دوست کہتے ہیں کہ روایتی علماء مخالف پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔ عرض ہے کہ جناب آج کل کے اس جمہوری دور میں کفر کے فتوے میں وہ دم خم کہاں جو “دہشت گردی کا فتوی” لگانے میں ہے۔ اب خود ہی دیکھ لیجئے کہ موجودہ حالات کو اپنے فائدے میں ایکسپلوائیٹ کرنے کے لئے کون زیادہ ہوشیاری (“عقلمندی”) سے کام لے رہا ہے۔ سیکولروں ، ملحدوں اور المورد والوں کی شدید ترین خواہش ہے کہ مسلم گلیوں محلوں میں بم دھماکے کر کے مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کو اسلام کا اصل نمائندہ قرار دیا جائے اور یہ شدت پسند جو مسلم گلیوں اور محلوں میں بم دھماکے کرتے ہیں ان کی بھی خواہش یہی ہے کہ انہیں اصل اسلام کا نمائندہ مانا جائے۔المورد کے ایک “قانونی نمائندے” فرماتے ہیں کہ آپ ہمیں سیکولرازم کے ساتھ نتھی کرکے ہم پر الزام لگاتے ہیں، کیا ایسی بات لکھتے ہوئے آپ کا ھاتھ نہیں کپکپاتا؟عرض کی بھائی کہ یہ کیسا عجیب و غریب عدل ہے کہ اگر آپ حضرات اپنے فہم و تجزئیے کی بنا پر امت کی فقہی روایت کو دہشت گردی کا پشت پناہ قرار دیں تو یہ تو ہوا “علم”، مگر دوسرا شخص اپنے فہم و تجزئیے کی بنا پر آپ حضرات کی سیاسی فکر کو سیکولرازم کا پشت پناہ قرار دے تو یہ ہوا “الزام”۔ لینے اور دینے کے پیمانوں میں یہ فرق آخر کیوں؟ اپنے علمی زعم میں امت کی فقہی روایت کو دھشت گردی کا بنیادی سبب قرار دیتے ہوئے کبھی آپ لوگوں کی زبان لڑکھڑائی اور دل لرزا؟ کیا “علمی تجزیوں” پر آپ حضرات ہی کی اجارہ داری ہے؟ ہم یہ بات الزام کے طور پر نہیں کہتے بلکہ اسی قسم کی دلیل کی بنا پر کہتے ہیں جیسی آپ رکھتے ہیں۔
غامدی صاحب اور اصحاب المورد ذوق و شوق سے ہر فورم پر بیٹھ کر علماء و مدارس کو دھشت گردی کا سبب قرار دینے کے تجزئیے فرماتے ہیں جبکہ پاکستان کے ہر مکتبہ فکر کے علماء کی طرف سے بارہا انہیں جواب دیا گیا کہ جناب ان دونوں رویوں کے مقدمات اور نتائج میں واضح فرق ہے لہذا انہیں مکس نہ کیا جائے، مگر ان لوگوں کی طرف سے “زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد” کا ہی معاملہ رہا۔ اب جب ان کی فکر کو سیکولر طبقے کے ساتھ بریکٹ کیا گیا ہے تو ان کی چاہت یہ ہے کہ “باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ہماری فکر کو اس سے ممیز کیا جائے، دیکھئے ناں غامدی صاحب نے فلاں فلاں جگہ پر سیکولرازم کے بارے میں یہ بات لکھی ہے، تو اسے کیوں نہیں دیکھتے آپ”۔ جناب یہی بات جب پہلے علماء کی طرف سے کہی جارہی تھی تو آپ کو کیوں نہیں سمجھ آرہی تھی اور اب کیوں اسی کی دھائی دے رہے ہیں؟ اپنے سامنے والوں پر ایک ہی جھاڑو پھیرنے کے بعد خود یہ امید رکھنا کہ ہماری باری میں ہر تنکے کو الگ الگ تولا جائے، اسے خیانت کہتے ہیں نہ کہ علمیت۔
یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ آخر بعض نتائج کی مماثلتوں کی بنا پر کسی گروہ کی فکر کو سیکولرانہ کہنا کیسے جائز ہوگیا؟ یہ سوال خاصا صائب ہے اور اسکے جواب پر یقینا غور ہونا چاہئے. ہم کہتے ہیں کہ اس غور و خوض کے عمل میں غامدی صاحب اور اصحاب المورد کو بھی شامل کیا جانا چاہئے کہ آخر دلیل کی بعض مماثلتوں کی بنیاد پر دھشت گردی کے نتائج کی کلی یکسانیت کا نتیجہ اخذ کرنا کیسے جائز ہوا تھا؟ اس کے جواب میں وہ جو فرمائیں اس سے شاید دوسروں کا موقف سمجھنے میں بھی کچھ مدد مل سکے. اسی قسم کے سوالات کچھ عرصہ قبل روایتی بیانئے والے کررھے تھے مگر مجال ھے ان پر غور کیا جاتا. چلیں اب یہ سوالات تو سمجھ آگئے۔
ذرا سوچیں کہ کسی فکر پر “دھشت گردی” کا یہ الزام کس قدر سنگین نوعیت کا ہے جس کا سیدھا سیدھا مطلب ہزاروں بے گناہوں کے خون کا الزام کسی کی فکر کے سر تھونپنا ہے مگر جب یہ سب کہا جاتا ہے تب اسے “علمی تجزیے” کے حق کا نام دے کر نہایت مزے لے کر بیان کیا جاتا ہے اور جب اپنی باری آئی تو اس قدر حساسیت کا مظاہرہ کیا گیا کہ سامنے والے کی ذہنی کیفیت ہی قابل رحم دکھائی دینے لگی۔ کیا کسی گروہ کی فکر کو سیکولرانہ کہنا دھشت گردی سے بڑی چیز ہے؟ دھشت گرد قرار دے کر ڈسکریڈٹ کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوکر پھر “ڈسکریڈٹ کرنے” کے عمل پر واویلا کرنا، یہ مناظرانہ چالاکیاں کسی اور کے سامنے کی جائیں۔ محاورہ ہے کہ “کلموا الناس علی قدر عقولہم”، یعنی لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق ہی گفتگو کرنا چاہئے، سو ہم نے بھی یہی کیا اور سامنے والے کو بات سمجھ آگئی۔
متبادل بیانیہ یا اباحیت پسندی کا بیانیہ:
انتہاپسندی کے بیانیے پر خورشید صاحب نے بھی اپنے کالم میں اسی بنیادی غلطی کو پھر سے دہرایا ہے جو ’’متبادل بیانیہ‘‘ پیش کرنے والے شوقین احباب سالہا سال سے کہتے آرہے ہیں اور جس کا متعدد بار جواب دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس بار مناسب یہ لگتا ہے کہ ان حضرات کو جواب انہی کی منطق پر دیا جائے۔ تو لیجیے، اب اپنے متبادل بیانیے اور اباحت پسندی کے مابین اسی قسم کا ’’منطقی ربط‘‘ پڑھیے اور پھر اگر دل چاہے تو ہماری ہی طرح سر دھنیے کیونکہ ہم بھی اس منطق پر یہی کرتے ہیں۔
1. خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں اور نہ ہی دین کو یہ مطلوب ہے کہ تمام مسلمان مل کر ایک نظام اجتماعی کے تحت زندگی بسر کریں۔
2. اسلام میں ریاست و حکومت نامی شے قائم کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا، یہ گمراہ کن تصور بیسویں صدی کی پیداوار ہے اور بدعت ہے۔
3. انسانوں کی وحدت کی فطری بنیاد تاریخ و ثقافتی وحدت وغیرہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو بھی اسی قانون فطرت کو ماننا چاہیے۔
4. قومی ریاست اسی فطری انسانی معاشرت کا اظہار ہے، جو اسے نہیں مانتا وہ ناسمجھ و احمق ہے کیونکہ فطرت کا انکار حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
5. جمہوریت ہی فطری طریقہ حکومت ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے طریقے سے حکومت کا حصول شرعا ناجائز و حرام ہے۔
6. کیونکہ قیام ریاست کا فطری طریقہ جمہوریت ہے اور جمہوری ریاست کی نظر میں تمام افراد مساوی ہوتے ہیں، لہذا ریاست کی نظر میں افراد کے تصور خیر مساوی ہونے چاہییں۔
7. اس قسم کی ریاست تب ہی قائم ہوسکتی ہے جب ریاست سیکولر ہو۔ چنانچہ سیکولر ریاست کا قیام ہی اسلام اور عقل کا مقصد و مطالبہ ہے۔
8. اب اگر جمہوری ریاست میں کوئی مرد یا عورت برہنہ گھومنا چاہے یا ایک شخص انبیاء کو گالیاں دینا چاہے یا لوگ کفر کو پھیلانا چاہیں وغیرہ، تو یہ سب ان کا جمہوری حق ہے، آپ اپنے نظریے کی تبلیغ وغیرہ کریں (ویسے بھی ریاست تو محض دو ہی ایجابی کاموں پر کوئی جبر کرسکتی ہے اور رہی انبیاء کی گستاخی وغیرہ، تو یہ ویسے بھی کوئی قابل سزا شرعی جرم نہیں).
9. جو کوئی ایسی جمہوریت کا انکار کرکے خلافت نامی کسی نظام کی بات کرتا ہے، وہ دہشت گرد ہے اور جمہوری ریاستوں کا فرض ہے کہ ایسے عناصر کی بیخ کنی کریں.
10. اگر ان مقامی قومی جمہوری ریاستوں کے پاس یہ صلاحیت نہ ہو تو پھر عالمی امن قائم کرنے والے اداروں (نیٹو) اور امریکہ کو یہ فرض نبھانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے پچھلی ڈیڑھ دہائی سے امریکہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ نہایت قابل قدر ہے، اور مسلمانوں کو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اصلی جہاد امریکہ کر رہا ہے.
یہ ہے وہ بیانیہ جس نے مسلم معاشروں میں اباحیت پسندی، ارتداد و الحاد کے بیج بوئے۔ اس بیانیے کو پیش کرنے والوں کو چاہیے کہ ان سب باتوں پر اپنی وضاحت پیش کریں۔ عوام کو بتائیں کہ کیا وہ خلافت کو کوئی دینی اصطلاح مانتے ہیں یا نہیں؟ (اور اگر نہیں مانتے تو اس کا مطلب یہی ہو اکہ وہ درج بالا باقی سب باتوں کا بھی اقرار کرتے ہیں)۔ پھر جب وہ ان سب کا اقرار کرچکے تو انہیں چاہیے کہ اپنی فکر کے پشتی بان امریکہ کی کھل کر حمایت و نصرت کریں۔
“یہی منطق” یہ بتاتی ہے کہ جو بھی لوگ ریاست کو مذہب سے لاتعلق بتاتے ہیں وہ سب دراصل ملک پاکستان کی مذہبی شناخت سے نالاں ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہیں کسی حد تک مذھب ہی سے چڑ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں سیکولرازم و الحاد کا دور دورہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام حلقے اسلامی نظام و ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جب ریاست اسلامی نہیں ہوگی تو وہ سیکولر و الحادی ہی تو ہوگی۔ اب وہ سب لوگ جو ریاست کو مذہب سے لاتعلق کرنا چاہتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ آخر یہ مذھب مخالف اور الحاد پسند کیوں ہیں؟اب سے “یہی والی منطق” چلے گی۔ “اس منطق” پر صرف آپ ہی کے اجارہ دارانہ حقوق تھوڑی ہیں۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password