غامدی صاحب کےنظریہ اتمام حجت ،نظریہ کفروظلم کاابہام

غامدی صاحب بڑے دلچسپ مفکرھیں، جب اور جہاں چاھتے ہیں اپنے مطلب کے نتائج نکالنے کیلئے ایک اصول وضع کرلیتے ہیں اور چونکہ اصول یہ خود وضع کرتے ہیں اور اسکے لئے کسی کے پابند بھی نہیں لہذا انہیں اپنی مرضی کے نتائج نکالنے کیلئے اصول بنانے میں کبھی دقت پیش نہیں آتی۔ انکے یہاں ایسے ہی دو اصول درج ذیل ہیں۔
1۔پہلے اصول کے مطابق انقطاع وحی کے بعد اب کسی کو کافر کہنا جائز نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ کفر سمجھ بوجھ کر حق کے انکار کرنے سے عبارت ھے، لہذا اب دو وجوہ سے کسی کو کافر کہنا جائز نہیں: (الف) جب بے شمار خلق خدا کے سامنے حق (اسلام) مکمل طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا تو انکا انکار حق متحقق نہیں ھوا لہذا یہ کافر نہیں (ب) اور اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کے سامنے حق پیش کر بھی دیا گیا ھے تب بھی یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ اسنے حق کو سمجھ کر جانتے بوجھتے اسکا انکار کیا یا محض ناسمجھی وغیرہ کی وجہ سے اور چونکہ یہ قلبی معاملہ ھے جس تک رسائی اللہ اور اسکے بتانے سے اسکے رسول کے سواء کسی کو نہیں ھوسکتی لہذا ھم انہیں بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔
نتیجہ: چاھے کسی کے سامنے اسلام پیش کردیا گیا ھو یا نہ کیا گیا ھو کسی صورت اسے کافر نہیں کہا جا سکتا (چونکہ غامدی صاحب کے نزدیک کسی کو کافر کہنا جائز نہیں لہذا انکے نزدیک کفر جہاد کی علت بھی نہیں کہ جو شے متحقق نہیں ھوسکتی اسکی بنا پر کیسا جہاد، لہذا یہ جہاد کی علت ظلم وغیرہ میں تلاش کرتے ہیں، خیر یہ الگ موضوع ھے)۔ مزے کی بات یہ ھے کہ اگر کسی کافر کو کافر کہنا جائز نہیں تو کسی مسلمان کا کافر ھونا تو بالکل ہی ناممکن الوقوع شے ھوا، چاھے وہ ختم نبوت کا انکار کرے، سرے عام رسول اللہ (ص) کو گالیاں نکالتا پھرے، کیا پتہ غلط فہمی ہی کی بنا پر ایسا کررھا ھو، ھم کوئ دلوں کے حال تھوڑی جانتے ہیں (یہ بھی ایک الگ موضوع ھے، ہم اس سلسلے میں صرف نظریہ جہاد تک محدود رہیں گے )۔
2۔دوسرے اصول کے مطابق رسول اللہ اور خلفاۓ راشدین کے دور میں غلبہ اسلام کیلئے جتنا بھی جہاد ھوا اسکا تعلق ان مخصوص اقوام تک محدود تھا جو نبی کے براہ راست مخاطبین تھے۔ چنانچہ جب ان اقوام پر اتمام حجت ھوچکی تو خدائ سنت کے مطابق انہیں بذریعہ جہاد عذاب الہی کا مزہ چکھایا گیا جسکے نتیجے میں یا تو وہ قتل کر دئیے گئے اور یا پھر مغلوب ھوگئے۔ چونکہ یہ جہاد اتمام حجت کی خدائ سنت کے باب میں سے تھا نہ کہ استیصال فتنہ، فساد و کفر، لہذا غلبہ اسلام یا استیصال فتنہ وغیرہ کی بنیاد پر کوئی جہاد جائز نہیں (البتہ ‘ظلم’ کی مفروضہ آفاقی قدر کی خلاف ورزی کی بنیاد پر غامدی صاحب آفاقی جہاد کے قائل ھیں مگر یہ کبھی نہیں بتاتے کہ ماوراء اسلام تعین ظلم کی علمی بنیاد آخر کیا ھے، خیر یہ بھی الگ موضوع ھے)۔
اگر یہ دونوں اصول درست ہیں تو سوال پیدا ھوتا ھے کہ جن عجمی اقوام (مثلا فارس و روم وغیرھم) پر اسلامی لشکروں نے تابڑ توڑ حملے کئے ان پر اتمام حجت کیسے قائم ھوئی؟ مان لیا کہ عرب کے لوگوں پر اتمام حجت ھوگئ کہ رسول بنفس نفیس وھاں سالہا سال تک دعوت و تبلیغ کے کام پر مامور رھا، انہیں ھر طرح کی خدائ نشانیاں دکھادیں۔ مگر ان عمجی لوگوں پر اتمام حجت کی بنیاد ان چند خطوط کے سواء اور کیا ھے جسکا مخاطب صرف انکا بادشاہ تھا؟ ایک نے تو وہ خط پڑھ کر غصے سے پھاڑ ہی ڈالا تھا اور اسکی قوم تو کجا محل کے اکثر درباریوں تک کسی کو اس خط کی بابت خبر نہ ھوئی ھوگی (وہ کوئ میڈیا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور تھوڑی تھا کہ ھر بات خبر بن کر اڑتی پھرتی ھو اور نہ ہی وہ بادشاہ کوئ عوام کا جمہوری نمائندہ تھا کہ اسکا خط پھاڑنا پوری قوم کی طرف سے فرض کیا جاسکے)۔ تو سوال یہ ھے کہ ان اقوام پر اتمام حجت کیسے ھوئی؟ نہ کسی نبی کی آمد، نہ کسی معجزے و نشانی کا ظہور، بس ایک خفیہ خط اور ھوگئ اتمام حجت؟ پھر یہ کیسی ” حجت کا اتمام ہے کہ مکہ والوں کے لئے تو 23 برس اور روم شام اور ایران کے لئے فقط ایک عدد خط؟؟؟؟ (اگر کسی کا خیال یہ ھے کہ چونکہ وہ خط نبی کی طرف سے تھا لہذا نبی کا خط ہی اتمام حجت کیلئے بہت کافی تھا تو آج اسی نبی کے موۓ مبارک، نعلین پاک کا نقش یا کوئی اور نشانی، سب سے بڑھ کر قرآن، دکھا کر اگر کوئ اتمام حجت ھوجانے کا دعوی داغ دے تو کیسا رھے گا؟) پہلے اصول کے تحت پیش کیا گیا موقف دیکھیے کہ کس قدر نامعقول اصول ہے۔
دیکھئے ایک قوم پر اتمام حجت کا دعوی اپنے نتیجے کے اعتبار سے کوئ معمولی بات تو نہیں، اسکے بعد وہ خدائی عذاب کے مستحق ھونے والے تھے۔ یہ تو کسی کو کافر کہہ دینے سے بھی بڑھ کر ایک دعوی ھے۔ تو اگر اسقدر صریح و عظیم کفر کا دعوی خفیہ خطوط کی بنا پر متحقق ھوجاتا ھے تو آج کسی کا کفر کیوں متحقق نہیں ھوسکتا؟ بلکہ آج دنیا گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد تو تحقق کفر کے مواقع مزید بڑھ چکے ہیں جناب، کیسے مان لیا جاۓ کہ کسی کو اسلام کا پتہ ہی نہیں چلتا؟ حج و نماز تراویح کی ادائیگی پوری دنیا میں نشر ھورہی ھے مگر کسی کو معلوم نہیں ھورہا کہ یہ کس مذھب کے شعائر ہیں؟ مسلمان جگہ جگہ کٹ مررھے ہیں اور یہ خبریں پوری دنیا میں چل رہی ہیں مگر کسی کو خبر ہی نہیں ھورہی کہ اسلام نامی کسی نظرئیے کے ماننے والے لوگ بھی اس دنیا میں بستے ہیں؟ مسلمانوں کی دعوتی و تبلیغی جماعتیں دنیا بھر میں گھوم پھر رہی ہیں مگر کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ انکا مسئلہ کیا ھے؟ بس سوچتے جائیے اور آپ کا دماغ چکرا جاۓ گا کہ ایک ھنگامہ برپا ھے مگر کسی کو کان و کان خبر نہیں ھورہی کہ اسلام نامی کوئ نظریہ بھی وجود رکھتا ھے اور نہ ہی کسی میں اسکی طرف تحریک پیدا ھورہی ھے، لہذا کسی کو کافر کہنا جائز نہیں۔ مگر دوسری طرف ایک ‘خفیہ خط’ اتمام حجت کا خدائی کوڑا برسنے کیلئے کافی۔۔۔ھیں نا مزے کے اصول

نظریہ “شھادت علی الناس و اتمام حجت کے ملاپ” سے جھاد کا دائرہ کار متعین کرنے کے استدلال پر چند سوالات:
غامدی مکتبہ فکر نے “شھادت علی الناس” و “رسول کے براہ راست مخاطبین کو اتمام حجت” کے بعد سزا ملنے کے قانون کے ملاپ سے جھاد کے دائرہ کار کو متعین کرنے (خصوصا اسے ایک مخصوص گروہ تک محدود قرار دینے) کے لئے جو استدلال وضع کیا ھے، اس ضمن میں چند قابل غور سوالات اھل علم کی خدمت میں گوش گزار کئے جاتے ھیں:
1۔ کیا “شھادت علی الناس” کا تعلق یوم آخرت کی شھادت سے ھے یا دنیا کی شھادت سے؟ چنانچہ شھادت علی الناس کے اسی قرآنی فلسفے کے تحت ایک اور قرآنی آیت “یوم نبعث من کل امۃ الخ” میں لفظ “یوم” سے اس بارے میں واضح اشارہ ملتا ھے کہ اسکا تعلق آخرت سے ہے اسی طرح اس ضمن میں روایات سے رھنمائی ملتی ھے؟ (مثلا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کہ آپ سورۃ النساء کی اس آیت پر رو پڑے، نیز بخاری میں اس آیت کے تحت جو روایت نقل ھوئی ھے اسکا تعلق بھی آخرت سے ھے وغیرہ)۔ اگر شھادت علی الناس کا تعلق یوم آخرت سے ھے، جیسا کہ اکثر و بیشتر آئمہ تفسیر سے بھی منقول ھے، تو اس صورت میں اس استدلال کے ذریعے جھاد کے دائرہ کار کو متعین کرنے کی بنیاد کیا رہ جاتی ھے؟ اس صورت میں یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے کہ اگر شھادت علی الناس کا تعلق یوم آخرت کی شھادت سے ھے تو پھر شھادت علی الناس اور اتمام حجت کا ملاپ کس طور پر درست ٹھرے گا؟
2۔ کیا اتمام حجت کے قانون کا تعلق قانون جھاد و شریعت کے منھاج سے ھے یا جن لوگوں سے جھاد کیا گیا ان (مخصوص مکلفین) سے تھا؟ دوسرے لفظوں میں کیا اتمام حجت کا تعلق حکم سے ھے یا محکوم بہ سے؟ اگر اتمام حجت کے قانون کا تعلق جھاد سے نھیں بلکہ “اضافی طور پر” ایک مخصوص گروہ (نبی کے براہ راست مخاطبین) سے تھا (کہ ان لوگوں کے لئے غلبہ دین کے نتیجے میں دو کے سواء کوئی تیسرا آپشن نھیں ھوگا جبکہ دیگر اقوام کے لئے اس کے سواء بھی آپشن ممکن ھیں جیسا کہ خود سورہ توبہ میں موجود ھے (نیز روایات سے بھی اسکی تصریح ھوتی ھے) تو اس صورت میں اتمام حجت کے قانون کے تحت جھاد کے دائرہ کار کو ایک مخصوص گروہ تک محدود کرنے کے لئے اسے “بطور منھاج” استعمال کرنا کیسے جائز و درست ھوگا؟
3۔ اتمام حجت کو محکوم بہ کے بجائے حکم سے متعلق قرار دینے کی دلیل کیا ھے؟ کیا اسے حکم سے متعلق قرار دینا قرآنی آیت “لاتکون فتنۃ” میں بیان ھونے والی جھاد کی غایۃ کے خلاف معلوم نھیں ھوتا؟ کیا قرآن مجید میں ایسی کوئی براہ راست نص موجود ھے جس کے “الفاظ میں” جھاد کی غایۃ کو اتمام حجت سے کسی طور پر متعلق قرار دیا گیا ھے؟
ایک ایسی بات جسکا تعلق “محکوم بہ” سے اضافی طور پر تھا، اس مکتبہ فکر نے اسے شریعت کا ایک آفاقی منھاج بنا کر اسے حکم سے متعلق قرار دے کر اسکی تحدیدات کرنا شروع کردیں۔ یہی انکے استنباط کی بنیادی غلطی ھے اور اپنے اس استنباط پر اس طرح جامد ہیں گویا یہ قران کے الفاظ میں کہیں لکھا ھوا ھو۔

غامدی صاحب کا نظریہ جہاد اور ظلم کی اصطلاح :

غامدی صاحب کا دعوی ھے کہ رسول اللہ (ص) اور خلفائے راشدین کے دور میں جتنے جہاد ھوئے وہ سب اتمام حجت کے باب سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا اسکے بعد کسی کیلئے جائز نہیں کہ کوئی شخص دین اسلام کیلئے جہاد کرتا پھرے کیونکہ انکے نزدیک غلبہ اسلام سرے سے جہاد کی علت ھے ہی نہیں۔
چلئے غلط طور پر مان لیتے ہیں کہ ایسا ھی ھوگا، مگر پھر سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا مسلمان کیلئے کسی بنیاد پر کسی سے لڑنا جائز ھے، یعنی کیا آج جہاد کی کوئی اطلاقی صورت ممکن ھے، اور اگر ھے تو اسکی بنیاد کیا ھے؟ اس کے جواب میں وہ فرماتے ہیں کہ جہاد کی علت ‘ظلم’ ھے اور یہ بنیاد انکے نزدیک آفاقی نوعیت کی ھے (یعنی قیامت تک کھلی رھے گی)۔
پس اگر کوئی کسی مسلمان یا کسی اور کے خلاف کے خلاف ظلم کررہا ھے تو اسکے لئے جائز ھے کہ ظلم کے خاتمے کیلئے لڑے نیز دوسروں کو بھی حسب توفیق ایسے ‘مجاہدین ظلم’ کا ساتھ دینا چاھئے۔ (اس نظرئیے پر جہاد کی موجودہ نظیر غامدی صاحب کے ایک شاگرد کے مطابق امریکہ اور نیٹو افواج کا ظلم کے خلاف لڑنا ھے، یعنی امریکہ اور اسکے اتحادی فی الوقت اصل قرآنی جہاد میں مصروف ہیں، غامدی صاحب ھوسکتا ھے اپنے اصول کے اس اطلاق کے قائل نہ ھوں، خود غامدی صاحب کے مطابق امریکہ کی افغانستان پر بموں کی بارش اور اس میں شہریوں کا مرنا دہشت گردی نہیں۔کشمیری یا افغانی شہری اگر ردعمل دیتے ہیں تو وہ ناجائز ہے۔تفصیل اس لنک پر دیکھیے۔  یہ مثال انکے نظریہ جہاد کی نوعیت کو سمجھنے میں کافی مدد دیتی ھے)۔
مگر اس ساری کہانی میں بنیادی ابہام یہ ھے کہ یہاں فرض کرلیا گیا ھے گویا ‘ظلم’ اسلام و شرع سے ماوراء کسی معلوم شے کا نام ھے۔ غامدی صاحب کی چابکدستی یہ ھے کہ وہ ظلم کو علت جہاد تو قرار دیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ آخر ‘ظلم کیا ھے اسکا تعین کس طرح ھوتا ھے؟’ غامدی صاحب نے بس فرض کررکھا ھے کہ جس طرح فطرت حلال و حرام کا تعین کرلیتی ھے (معلوم نہیں کیسے) اسی طرح ظلم کا آفاقی ھونا بھی ایک معلوم شے ھے۔ لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ علم کی دنیا میں محض مفروضوں ہی کو دلیل نہیں مانا جاتا۔
چنانچہ اگر اسلام کے بجائے ظلم جہاد کی علت ھے تو لازم آتا ھے کہ ظلم اسلام سے باہر اور اس سے ماوراء کہیں ڈیفائن ھورھا ھے، تو ھمارا غامدی صاحب اور انکے تلامذہ سے سوال ھے کہ ”ظلم کیا ھے ذرا اسکی وضاحت فرمادیں” (اور خدا کے واسطے ‘یونیورسل اخلاقیات’، ‘انسان کا اجتمای شعور’ جیسی بھاری بھرکم مگر مبہم اصطلاحات استعمال کرنے کے بجائے ظلم کی تعریف بتانے پر توجہ دی جائے)۔ اور اگر عدل و ظلم کی کوئی تعریف ماوراء شرع ممکن ہی نہیں تو پھر ”جہاد کی علت اسلام نہیں ظلم ھے” سے زیادہ بے معنی بات کوئی ھوسکتی ھے؟
غامدی صاحب اور انکے تلامذہ کی مشکل ”آسان” کرنے نیز غور و فکر کے زوائیے کھولنے کیلئے اشارتا عرض ھے کہ ظلم کی متعدد بلکہ درجنوں تعریفات ہیں (چند مشہور مثلا لبرل،لبرٹیرین،سوشلسٹ، نیشنلسٹ، فیمینسٹ، ھندو، عیسائی، بدھ تصورات ظلم ایک دوسرے مختلف ہیں)۔

ان لوگوں کا مسئلہ یہ ھے کہ ان کی اکثریت نے نہ تو اخلاقیات کے جدید مسائل صحیح سے پڑھے ہیں، نہ ہی قدیم علم کلام کے مباحث ہی کو غور سے پڑھا ھے، بس ان لوگوں نے غامدی صاحب سے چند الفاظ سن کر انکے بارے میں چلتے ھوئے نظریات کی بنا پر ایک مفروضہ رائے قائم کرلی ھے اور یہ فرض کرلیا ھے کہ فطرت، اخلاق وغیرہ کسی آفاقی طور پر معلوم شے کا نام ھے۔ مگر جونہی ان سے یہ بنیادی سوال پوچھا جائے کہ ”اچھا بتاؤ ان چیزوں کا تعین ماورائے شرع کیسے ھوتا ھے” تو چونکہ یہ رائے کسی علمی نظرئیے کے بجائے غیر شعوری طور پر چلتے ھوئے تصورات کی بنا پر قائم کی گئی ھوتی ھے تو سوال کا جواب دینا ممکن نہیں ھوتا لہذا جواب کے بجائے غیر متعلقہ باتیں کرکے فرض کرتے ہیں کہ ظلم کو انسانی ضمیر پہچانتا ہے ۔یہ اس سے بھی مبہم بات ہے کس کا ضمیر ٹھیک بتاتا ھے اور کس کا نہیں؟ یہ کس اصول سے طے ھوتا ھے؟کس کا ضمیر زندہ ھے اور کس کا مردہ یہ کیسے طے ہوگا؟مثلا ایک مارکسسٹ کا ضمیر کہتا ھےکہ بہن سے شادی کرنی چاہئے، اسکا ضمیر کہتا ھے کہ نجی ملکیت ظلم ھے، ایک لبرل کا ضمیر کہتا ھے کہ فرد کو ذاتی اغراض کا غلام ھونا چاھئے، لبرل کا ضمیر کہتا ھے کہ نجی ملکیت عدل ھے ۔۔۔۔ یہ لسٹ نہ ختم ھونے والی ھے بتائیے کس کے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا چاہئے؟ یہ لوگ صرف ھوا میں باتیں کرتے ہیں، کبھی اصول نہیں بتاتے۔ عدل و ظلم کا اصول کیا ھے، اسکا کنٹنٹ کیا ھے، اسکا جواب نہیں دیں گے، بس ‘بحیثیت مجموعی انسانوں کی تاریخ بتاتی ھے کہ اسے پتہ ھے’ کا دعوی کرتے رہتے ہیں۔ گویا انسانی تاریخ کا بھی کوئی ایک ہی تصور پایا جاتا ھے، فلاسفی آف ہسٹری پڑھیے تو تاریخ ایک نہیں بے شمار ہیں (ان معنی میں کہ تاریخ کیا ھے اس کا تعین بھی تناظر سے ھوتا ہے)ابن خلدون، کامٹے، ہیگل، مارکس، فوکو الغرض مختلف لوگوں کے نظریات کے نتیجے میں بذات خود تاریخ کا ایک مختلف تصور ابھر کر سامنے آتا ہے۔اب اگر تاریخ سے فیصلے کرنے ہیں تو کس کی تاریخ یہاں قول فیصل مانیں گے؟
غامدی صاحب کا مسئلہ یہ ھے کہ انہوں نے ایک غلط اصول قائم کرلیا ھے کہ ‘اخبار احاد سے دین ثابت نہیں ھوتا’ اور اسے بچانے کیلئے ایک کے بعد دوسرا ھوائی دعوی کرتے رہتے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ھوتی ھے کہ یہ حضرات ایسی ایسی حدیث رسول جسے امت کے ھر گروہ نے قابل حجت مانا ھو اسے تو ظنی ماخذ قرار دیکر ایک طرف رکھ دیتے ھیں مگر دوسری طرف “اپنے فھم” کو قطعی قرار دے کر “قطعی ماخذ” بنا لیتے ھیں۔

٭دین کیلئے آج جہاد نہیں-”دور غلامی” میں پلنے والی مسلم ذھنیت کی ‘فقہ العبید’ میں جہاد کو منسوخ قراردینے والے عمومی دلائل:
– کچھ نے کہا کہ آخری کے بعد نئے نبی نے آکر دین کیلئے جہاد منسوخ کردیا ۔۔۔۔۔ مگر ”آخری کے بعد نیا نبی” چہ معنی دارد؟
– کچھ نے کہا کہ جہاد صرف دفاع کیلئے مشروع ھوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس مقصد کے لئے اسے مشروع کرنے کی ضرورت ہی کیا ھے، اپنے بچاؤ کی تدبیر تو کمزور سے کمزور جانور و کیڑا بھی کرتا ھے
– کچھ نے کہا کہ دین کیلئے جہاد کرنے کا حق صرف نبی کا تھا، اس کے بعد کسی کا نہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر جن غیر مشرکین اقوام کے خلاف یہ جہاد، بقول انکے، اتمام حجت کے باعث ھوا انہیں فتح تو خلافت راشدہ کے بھی بہت بعد والوں نے کیا؟
– کچھ نے کہا کہ جہاد (ماورائے مذھب تصور) ظلم کے خاتمے کیلئے ھے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس تصور ‘ظلم’ کی تشریح کیا ھے؟
– کچھ نے کہا کہ دین کیلئے جہاد مان لیا گیا تو دنیا میدان جنگ بن جائے گی ۔۔۔۔۔ گویا فی الوقت تو دنیا امن کا گہورا ہی ھے
– کچھ نے کہا کہ جہاد کی اب ضرورت نہیں، اب صرف دعوت ھوگی ۔۔۔۔۔۔ مگر قوت کے مقابلے میں نصیحت چہ معنی دارد؟
٭ نوٹ: پوسٹ کا مقصد یہ نہیں کہ سب کام چھوڑ کر بس جہاد کرنے نکل کھڑے ھو یا کرنے کا کام بس یہی ھے باقی سب فضول ھے وغیرہ۔

  • جہاد | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    June 1, 2019 at 8:21 am

    […] غامدی صاحب کےنظریہ اتمام حجت ،نظریہ کفروظلم کاابہام […]

  • ڈاکٹر محمد عمران ثاقب
    October 12, 2020 at 11:10 pm

    اگر جہاد کی علت محاربہ ہے تو اس کے اصول بھی تو طے کئے جا رہے ہیں(جمہور فقہا کے مطابق ). تو بلکل اسی طرح اسلامی نظام کی روشنی میں ظلم کے میعار اور ظابطے مقرر کئے جا سکتے ہیں جن کے خلاف اسلامی نظام جہاد کر سکتا ہے. اسلام کا نقطہ نظر متعین کرے گا ظلم کے ظابطے نہ کہ لبرازم, مارکسزم یا کوی اور فلسفہ.

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password