پاکستانی دستوراورحکمرانوں کی شرعی حیثیت

پاکستان دارالسلام ہے!
پاکستان میں شامل علاقے یقیناًدارالاسلام کی تعریف پر پورا اترتے ہیں ۔یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے ۔جنہوں نے باہمی معاہدے کے ذریعے یہ بھی طے کیا ہوا ہے کہ اس کا سربراہ مسلمان ہو گا ۔اگر بعض لوگوں کے خیال میں اس معاہدے کی بعض شقیں یا دیگر قوانین کی بعض جزئادت ’’ ظہور احکام کفر ‘‘کے ضمن میں آتی ہیں تو اس کے باوجود دارالاسلام کے دارلکفر میں تبدیل ہونے کے لئے دو مزید شرطیں درکار ہیں وہ یہاں نہیں پائی جاتیں ۔یہاں غلبہ اور قہر مسلمانوں کا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ مسلمانوں کو ہی منسوب ہے اور دارلکفر کی متاخمت کی شرط بھی بدیہی طور پر مفقود ہے ۔ان امور کی مزید وضاحت کے لئے درج ذیل نکات پر غور کریں ۔
۱۔۱۹۴۹ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کی ۔جس کی رو سے یہ طے پایا کہ پاکستان میں اسلامی قانون کو بالا دستی حاصل ہو گی ۔اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کے دستوری نظام کے بنیادی مقاصد کا تعین کیا گیا ۔یہ قرار داد پاکستان کے تینوں دساتیر ۱۹۵۶ء،۱۹۶۲ء،اور۱۹۷۳ء میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی۔پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے۱۹۸۵ء میں اسے د فعہ ۲ الف کے تحت دستور کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا ۔اعلیٰ عدالتوں نے کئی فیصلوں میں اس قررداد کو انتہائی مقدس دستاویز قرار دیا ہے ۔یہاں تک کہ دستور سے انحراف کے دور میں بھی قرارداد مقاصد کو ناقابل تنسیخ و تعطیل سمجھا گیااور اسی بناء پر عاصمہ جیلانی کیس ۱۹۷۲ء میں قرار دیا گیا کہ مارشل لاء کا نظام ناجائز ہے اور حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ مارشل لاء ختم کر کے دستوری نظام بحال کر لے ۔
۲۔ ۱۹۵۲ء میں پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے اکرام نے دستور کی اسلامی حیثیت ماننے کے لئے بائیس نکات دئے ۔پاکستان میں تمام دساتیر میں ان بائیس نکات کی روشنی میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں ۔مثال کے طور پر سربراہ ریاست کے لئے مسلمان ہونے کی شرط ضروری قرار دی گئی۔۱۹۷۴ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے ’’مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی دستور میں شامل کی گئی ۔جس کے تحت نہ صرف قادیانی بلکہ بہائی بھی غیر مسلم قرار پائے۔دستور کی دفعہ ۲ کے تحت قرار دیا گیا کہ اسلام پاکستان کا ’’ریاستی مذہب ‘‘ہے۔دفعہ ۲۲۷کے تحت قرار دیا گیا کہ تمام قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق کیا جائے گا اور تمام غیر اسلامی قوانین ختم کر دئے جائیں گے۔اس مقصد کے لئے پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل بھی تشکیل دی گئی۔
۳۔۱۹۷۷ء کے انقلاب کے بعد عدالت ہائے عالیہ میں شریعت بنچ قائم کئے گئے بعد میں یہ بنچ ختم کر کے ان کی جگہ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اسلامی شریعت سے متصادم قوانین کو تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے ۔وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت کے لئے خصوصی شرعت اپیلیٹ بنچ قائم کی گئی ہے ۔وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ دونوں میں علماء جج بھی تعینا ت کئے جاتے ہیں ۔واضح رہے کہ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ ہو تو پھر اس فیصلے کی پابندی سپریم کوٹ پر بھی لازم ہوتی ہے ۔
۴۔وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے ابتداء (۱۹۸۰ء)میں چار قوانین خارج کئے گئے :۱لف۔دستورب۔ عدالتوں کے طریق کار سے متعلق قوانین۔ ۔مسلم شخصی قوانین۔د۔ مالیاتی امور سے متعلق قوانین۔یہ ایک انتظامی قسم کا فیصلہ تھا اور اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ یہ قوانین شریعت پر بالا دست ہیں ۔نیز ان استثناء ا ت کی تعبیروفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے اس طور پر کی ہے کہ بہت ہی کم قوانین اب استثناء ات کے ذیل میں آتے ہیں ۔مثال کے طور پر ملکیت زمین کی تحدید کے مسئلے کو ابتداء میں وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ سماعت سے باہر قرار دیا گیا کیونکہ زمینی اصلاحات کو ایک قسم کا دستوری تحفظ حاصل تھا ۔تاہم قزلباش کیس(۱۹۸۹ء)میں سپریم کوٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے اس خیال کو مسترد کر دیا ۔اس طرح شفعہ سے متعلق قانون کو ابتداء میں عدالتی طریق کار سے متعلق قوانین میں شامل سمجھا گیا لیکن سید کمال شاہ کیس (۱۹۸۶ء)میں اس کی نفی کی گئی ۔مسماۃ فرشتہ کیس (۱۹۸۰ء)میں شخصی قوانین کی ایسی تعریف پیش کی گئی جس کی رو سے مسلم عائلی قوانین آرڈینیس ۱۹۶۱ء بھی وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ سے باہر سمجھا گیا۔تاہم ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل کیس(۱۹۹۳ء)میں سپریم کوٹ نے شخصی قوانین کی ایک اور تعریف پیش کی جس کے بعد یہ آرڈی نینس وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ سماعت میں آگیااور اس نے اللہ رکھا کیس (۲۰۰۰ء)میں اس کی کئی شقوں کو اسلامی شریعت سے متصادم قرار دیا۔اس فیصلہ کے خلاف اپیل کا فیصلہ ابھی نہیں ہو سکا ۔مالیاتی امور سے متعلق قوانین کو ابتداء میں ۲ سال پھر ۵ سال اور پھر ۱۰ سال کے لئے وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ سماعت سے باہر کیا گیا ۔یہ مدت ۱۹۹۰ء میں پوری ہو چکی ہے۔اس لئے عدالت اب ان قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے۔نیز اس دوران میں عدالت نے اس اصطلاح کی ایسی تعبیر پیش کی جس کی رو سے کئی قوانین مالیاتی قوانین کی تعریف سے باہر ہو کر عدالت کے دائرہ سماعت میں آگئے۔

۵۔پاکستان کے حکمرانوں اور عدالتوں کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق ایک اہم دستاویز وہ فتویٰ ہے جس کا اصل موضوع تو رویت ہلال کا مسئلہ ہے لیکن ااس سے زیر بحث مسئلہ میں بھی واضح رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔قیام پاکستان کے بعد رویت ہلال کے سلسلہ میں عمومی اتفاق قائم کرنے کی ایک اہم کوشش مولانامفتی محمد شفیع نے کی۔انھوں نے پہلے ایک سوالنامہ مرتب کر کے ہندو پاک کے ممتاز علماء کے ہاں بھجوایا۔پھر ستمبر ۱۹۵۴ء قاسم العلوم ملتان میں جید علماء اکرام کا اہم اجتماع منعقد کروایاجس میں دو دن کے تفصیلی مباحثہ کے بعد زبدۃ المقال فی رویۃ الھلال کے عنوان سے ایک متفقہ فتویٰ تیار کیا گیا ۔اس فتویٰ میں پاکستانی حکومت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق جو سوالات قائم کئے گئے ہیں اور ان کے جو جوابات دئے گئے ہیں ،وہ زیر بحث مسئلہ میں قول فصیل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس لئے یہاں اس فتویٰ سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔پاکستانی حکمرانوں اور عدالتوں کی شرعی حیثیت کے تعین کے لئے اس فتویٰ میں تین سوالات قائم کئے گئے ہیں ۔
’’پہلا سوال یہ ہے کہ جو شخص قوت کے بل بوتے پر اقتدار پر غالب ہو جائے اور ارباب حل و عقد اس کی حکمرانی پر راضی نہ ہوں تو کیا اس کی حکومت صحیح ہے اور اس کی جانب سے قا ضیوں کی تقرری جائز ہے ؟
دوسرا یہ کہ کیا فاسق قضاء کے لئے اہل ہے ؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ احکام شرعیہ سے عدم واقفیت کسی قاضی کی اہلیت قضاء ختم کر دیتی ہے؟‘‘
ان میں سے پہلے سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگرچہ احادیث نبویہ ا ور عبارات فقہیہ کے بموجب اصولاً حکمران کا ارباب حل و عقد کے مشورہ سے مقرر کرنا ضروری ہے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص طاقت کے بل بوتے پر حکومت پر قابض ہو جائے تو جائز امور میں اس کی اطاعت سب مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے اور اس کی ماتحتی میں قضاء اور دیگر مناصب کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہوتا ہے ،خواہ مسلمانوں کے اہل علم میں کسی ایک نے بھی اس کی بیعت نہ کی ہو ،جب تک کہ وہ کفر بواہ کا مرتکب نہ ہو جائے۔اس کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کے تناظر میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں حکام کئی معاملات میں شرعی قوانین پر عمل کر سکتے ہیں اور اس قسم کے فیصلے شرعاًصحیح اور نافذ ہوں گے کیونکہ قاضی کے ہر فیصلہ کا شرعی حکم الگ ہے(بعض صحیح اور نافذ ہوں گے اور بعض غیر صحیح اور غیر نافذ ہوں گے)۔
دوسرے سوال کے جواب میں واضح کیا گیا کہ فقہا کے نزدیک قضاء کے لئے عدل شرط جواز نہیں بلکہ شرط اولوی ہے یعنی اس صفت کا قاضی میں موجود ہونا بہتر ہے اگرچہ اس کے بغیر بھی قاضی کے منصب پر تعنیناتی جائز ہے۔یہاں ابن عابدین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ فاسق قضاء کا اہل نہیں تو بالخصوص ہمارے دور میں قضاء کا کام سرے سے ناممکن ہو جائے گا ۔اس کے بعد ابن الھمام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جسے سلطان کی جانب سے قضاء کا منصب سونپ دیا گیا اس کے فیصلے نافذ ہوں گے خواہ وہ جاہل ہو یا فاسق ۔البتہ ایسے قاضی کو دوسروں کے فتویٰ پر فیصلہ دینا چاہئے ۔
تیسرے سوال کے جواب میں پھر ابن الھما م کے مذکورہ بالا قول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں صراحتاً قرار دیا گیا ہے کہ جاہل کے فیصلے نافذ ہوں گے۔
واضح رہے کہ یہ فیصلہ ان علمائے اکرام نے ۱۹۵۴ء میں اس وقت دیا تھا جب ابھی پاکستان کا پہلا دستور بھی نہیں لکھا گیا تھا۔۱۹۵۶ء میں پاکستان نے دستوری طور پر ’’اسلامی ریاست ‘‘ ہونے کا اعلان کر لیا اور قرار دیا کہ پاکستان میں تمام قوانین اسلامی احکام کے مطابق ہوں گے۔۱۹۶۲ء کے دستور میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا اور قوانین کو اسلامیانے کے لئے دو ادارے اسلامی مشاورتی کونسل اور ادارہ تحقیقات اسلامی تشکیل دئے گئے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں ’’مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی شامل کی گئی جس کی رو سے ختم نبوت کے منکرین غیر مسلم قرار پائے۔۱۹۷۷ء کے انقلاب کے بعد بڑے پیمانے پر قوانین میں تبدیلیاں لائی گئیں اور کئی قوانین کو اسلامی شریعت کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں ۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کوٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے علاوہ سپریم کوٹ اور عدالت ہائے عالیہ نے پچھلے چونسٹھ برسوں میں کئی اہم فیصلے دئے جنھوں نے پاکستان کے قانونی نظام کے اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پس اس امرمیں کوئی شبہ نہیں ہےکہ پاکستان دارالاسلام ہے۔

پاکستان کا دستورکفریہ نہیں ہے :

٭ اولا:پاکستان دارالسلام ہے۔تفصیل اوپر پیش کی گئی۔
٭ثانیاً : دستورِ پاكستان كی حیثیت مسلمانوں كے مابین ایك معاہدے كی ہے جو اصلاً صحیح، نافذ اور لازم ہے۔
1 – دستورِ پاكستان كی حیثیت یہاں كے مسلمانوں كے درمیان ایك معاہدے كی سی ہے۔
2 – پس اس پر معاہدے سے متعلق قواعد لاگو ہوں گے جن میں سے ایك یہ ہے كہ معاہدے اور اس كی شقوں كو اصولاً صحیح مانا جائے گا۔
3 – جہاں كہیں كوئی شق اسلامی قانون كی رو سے غیرصحیح ہو اس كی ایسی تاویل كی جائے گی جو اسے اسلامی قانون كے مطابق كردے۔
4 – اگر كسی شق كی ایسی تاویل ممكن نہ ہو تو وہ باطل ہے اور اس پر عمل جائز نہیں ہے، خواہ معاہدے میں صراحتاً یہ بات لكھی گئی ہو كہ اس شق پر عمل واجب ہے، اور خواہ اس شق پر عمل كو عدالتوں نے بھی واجب قرار دیا ہو۔ اسلامی قانون كا مسلّمہ اصول ہے كہ قاضی كا فیصلہ اگر نصِ قطعی یا اجماع كے خلاف ہو تو وہ نافذ نہیں ہوگا۔

٭ثالثاً : مسلمانوں كے لیے شریعت كے كسی حكم پر عمل عدالت كے فیصلے سے مشروط نہیں ہے
1 – مسلمانوں كے لیے شریعت كے كسی حكم پر عمل اس سے مشروط نہیں ہے كہ پہلے اس حكم كے متعلق عدالتی فیصلہ آئے۔ اس لیے اگر بینك كا انٹرسٹ كسی كے فہم كے مطابق رہا ہے (اور میرے نزدیك یقیناً ہے) تو وہ یہ نہیں كہہ سكتا كہ اس انٹرسٹ سے میں اس لیے اجتناب نہیں برت سكتا كہ ابھی اس كا معاملہ عدالت میں زیرِسماعت ہے، بلكہ اس پر واجب ہوگا كہ وہ اس سے اجتناب كرے۔
2 – پاكستان میں سودی نظام كے بقا كی وجہ یہ نہیں كہ عدالت نے اسے ناجائز ٹھہرانے سے انكار كیا ہے، بلكہ اس كی وجہ صرف اور صرف یہ ہے كہ لوگوں كی اكثریت اس معاملے میں یا تو بے حس ہے اور یا بے خبر۔ بلكہ میں تو یہاں تك كہوں گا كہ عدالت میں جن ججوں نے اس معاملے میں تساہل اور مداہنت كا مظاہرہ كیا ہے وہ بھی انہی میں سے كسی ایك یا دونوں اسباب كی بنا پر كیا ہے۔ پس اصل مسئلہ لوگوں كے فہم اور دینی حس كا ہے۔
3 – جہاں تك دارالاسلام میں سودی لین دین كا تعلق ہے وہ بہرصورت ناجائز ہے، خواہ مسلمانوں كی اكثریت اس میں مبتلا ہو، خواہ انھوں نے معاہدے میں قرار دیا ہو كہ اس پر پابندی لگانے میں ابھی كچھ دیر ہے، اور خواہ وہاں كی عدالت نے اسے ناجائز كہنے میں توقف كیا ہو۔ اس لیے اگر كسی ماتحت عدالت كے كسی جج كے سامنے سودی لین دین كا تنازعہ آئے تو اس پر واجب ہے كہ سود كو باطل قرار دے۔ لیكن كتنے جج ہیں جو ایسا كرسكیں گے؟ اور جو نہیں كرسكیں گے تو وہ كس وجہ سے نہیں كرسكیں گے؟ كیا وہ یہ كہیں گے كہ اگرچہ قرآن و سنّت میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے مگر ہم پر قرآن و سنّت كے بجائے دستور اور اعلیٰ عدالتوں كے فیصلے كی اتباع واجب ہے؟ اگر وہ ایسا كہیں گے تو ظاہر ہے كہ وہ كفر كا ارتكاب كریں گے۔ اس لیے ان میں كچھ اسے سود قرار دینے میں تامل كریں گے، كچھ اسے سود قرار دیتے ہوئے اپنی كمزوری كا اعتراف كریں گے، اور كچھ سرے سے اس بحث سے ہی كنارہ كشی كریں گے۔ ان تینوں گروہوں كو كچھ بھی كہا جائے مگر ان كا حكم پہلے گروہ سے مختلف ہوگا۔

٭رابعاً : پارلیمنٹ كا قانون سازی كا اختیار مطقك نہیں ہے۔
1 – یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے كہ خواہ دستور میں قرار دیا گیا ہو كہ پارلیمنٹ كا قانون سازی كا اختیار مطلق ہے اس كے باوجود وہ مطلق نہیں ہے۔ ایك تو اس وجہ سے كہ پارلیمنٹ اقتدار اعلیٰ كی حامل نہیں ہے۔ دوسرے اس وجہ سے كہ پارلیمنٹ كے اركان كی غالب اكثریت مسلمانوں كی ہے۔ پس اگر اس پارلیمنٹ نے كوئی ایسا قانون منظور كیا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو تو اس قانون پر سرے سے عمل جائز نہیں ہوگا كیونكہ یہ پارلیمنٹ نے اپنے جائز اختیارات سے تجاوز كیا ہوگا۔ بلكہ اگر پارلیمنٹ دستور میں ترمیم كے ذریعے اس سے تمام اسلامی دفعات كا خاتمہ كرے، تب بھی وہ ترمیم ہی سرے سے ناجائز ہوگی۔
2 – اس كی وجہ صرف یہ نہیں ہوگی كہ ججز كیس (١٩٩٦ء) میں سپریم كورٹ نے طے كیا ہے كہ پارلیمنٹ دستور سے اسلامی دفعات كا خاتمہ نہیں كرسكتی، بلكہ اس كی اصل وجہ یہ ہوگی كہ اسلام كے دعویدار ہوتے ہوئے اركانِ پارلیمنٹ ایسا كر نہیں سكتے۔
3 – اگر انھوں نے ایسا كیا بھی، تو اسلام كے دعویدار ججز پر لازم ہوگا كہ اسے كالعدم قرار دیں۔
4 – اگر انھوں نے بھی اسے كالعدم قرار دینے سے انكار كیا تو پاكستان كے شہریوں پر، جن كی غالب اكثریت اسلام كی دعویدار ہے، لازم ہوگا كہ اسے ماننے سے انكار كریں۔
5 – اگر بفرضِ محال انھوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار كی، تب بھی اس كا ماننا ان كے لیے جائز نہیں ہوگا۔
(یہ آخری صورت تركی میں مسلمانوں نے اختیار كی جب مصطفیٰ كمال نے تركی كو سیكولرائز كیا)۔
6 – ہاں، اگر انھوں نے اسے جائز قرار دیا تب یہ امكان پیدا ہوسكتا ہے كہ پاكستان دارالاسلام نہ رہے۔ تاہم، جیسا كہ واضح ہے، یہ آخری صورت تبھی ممكن ہوسكے گی جب یہاں كے لوگوں كی اكثریت مرتد ہوجائے، والعیاذ باللہ!
(واضح رہے كہ جب بھارت میں پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم كركے صراحتاً قرار دیا كہ وہ دستور كی كسی بھی شق كو ختم یا تبدیل كرسكتی ہے تو وہاں كی سپریم كورٹ نے اس پر فیصلہ سناتے ہوئے پھر قرار دیا كہ ترمیم كا یہ اختیار مطلق نہیں ہے! اگر وہ اپنے سیكولر نظام كو بچانے كے سلسلے میں اتنی غیرت كا مظاہرہ كرسكتے ہیں تو ہم مسلمان ہوتے ہوئے كیوں معذرت خواہانہ رویّہ اپنائیں؟ ہم پر تو شرعاً واجب ہے كہ پارلیمنٹ كے اس مطلق اختیار كی نفی كریں (اگرچہ مطقا اختیار اس كے پاس ویسے بھی نہیں ہے، جیسا كہ پیچھے واضح كیا گیا۔))
7 – یہی كچھ عدالتوں كے متعلق بھی كہا جائے گا۔ جج اگر مسلمان ہیں تو وہ ایسا نہیں كرسكتے اور اگر انھوں نے ایسا كیا تب بھی اس فیصلے كا ماننا پاكستان كے مسلمانوں كے لیے ناجائز ہوگا۔ پس تكفیر و خروج كے قائلین جس امكان كا ذكر كرتے ہیں، وہ اتنا موہوم ہے كہ اس پر اس مسئلے كے حكم كا بنا كرنا كسی طور مناسب نہیں ہے۔

٭خامساً : شرعی عدالت كے اختیارِ سماعت سے جو قوانین باہر ہیں وہ شریعت سے بالاتر نہیں ہیں۔
1 – جہاں تك شرعی عدالت كے اختیارِ سماعت سے بعض قوانین كے اخراج كا معاملہ ہے تو وہ ایك انتظامی فیصلہ ہے۔ اگر یہ عدالت عائلی قوانین كے متعلق فیصلہ نہیں سنا سكتی تو اس سے یہ لازم نہیں آتا كہ یہ قوانین شریعت پر بالادست ہوگئے۔ اگر یہ مسلمانوں كا علاقہ ہے اور یہاں منعة اور ولایة مسلمانوں كے پاس ہے تو دستور سمیت یہاں كے تمام قوانین شریعت كے ماتحت ہیں، اور رہیں گے، خواہ كوئی عدالت ان كے خلافِ شریعت ہونے كا فیصلہ كرسكے یا نہ كرسكے۔ بالكل اسی طرح جیسے كسی قانون كو اگر یہ عدالت خلافِ شریعت قرار دے تو وہ فیصلہ اس كو مستلزم نہیں كہ وہ قانون واقعتاً خلافِ شریعت ہے۔
2 – باقی رہا اپیل كا معاملہ تو وہ صرف اس وجہ سے ہے كہ عدالت كا فیصلہ بہرحال انسانی كاوش ہے۔ اس لیے اس پر بعض دیگر انسان مزید غور و فكر كریں تو غلطی كا احتمال كم ہوجاتا ہے۔ اگر اس اختیار كو بعض لوگوں نے غلط استعمال كیا ہے تو كونسا ایسا جائز كام ہے جسے ناجائز كام كے لیے استعمال نہیں كیا جاسكتا؟ تو كیا اس بنا پر ہر جائز كام كو ناجائز قرار دیا جائے گا؟

٭سادساً : پارلیمنٹ كو اسلامی نظریاتی كونسل كی سفارشات كا پابند نہیں كیا جاسكتا۔
1 – اسلامی نظریاتی كونسل كی حیثیت ’’ریاستی مفتی‘‘ كی ہے اور اس وجہ سے حكومت پر اس كی ’’تجاویز‘‘ كو ماننا لازم نہیں ہے۔ جب ہارون الرشید مختلف ائمہٴ كرام كو اكٹھا كركے ان سے استفتا كرتا تھا تو اس كے بعد ان میں كسی كی رائے پر عمل كرنا اس نے خود پر لازم قرار دیا تھا یا حتمی فیصلہ اسی كا ہوتا تھا؟
2 – نیز كیا ان نتائج پر بھی غور كیا گیا ہے جو اس كونسل كے فیصلے كو لازم قرار دینے سے پیدا ہوتے ہیں؟ اس فیصلے كو لازم كردینے سے قبل آپ كو یہ بھی سوچنا پڑے گا كہ اس كونسل كے اركان كون ہوں گے؟ كیا وہ حكومت كے نامزد كردہ ہوں گے؟ یا ان كا بھی انتخاب كیا جائے گا؟ اگر انتخاب كے مسئلے كو ’’قدرتی چناو‘‘ كے سپرد كردیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے كہ كیا قدرتی چناو كا عملاً مطلب یہ نہیں ہوگا كہ معاملہ حكمران كی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا؟ قبائلی اور بدوی زندگی میں قدرتی چناو اتنا دشوار نہیں ہوتا جتنا شہری اور متمدن زندگی میں ہوتا ہے۔ پس آخرالامر معاملہ حكمران كی صوابدید پر ہی جا ركتا ہے!
3 – بہرحال اركان خواہ كسی طرح چنے گئے ہوں، مزید سوال پیدا ہوتا ہے كہ كیا سعودی عرب كی ھیئة كبارالعلماء كے اركان كی طرح وہ تاحیات اس كے ركن رہیں گے یا كسی مقررہ مدت تك؟ ایران میں مجلسِ بزرگان كے فیصلوں كو اگر لازمی حیثیت دی گئی ہے تو وہ اس لیے قابلِ فہم ہے كہ وہاں شیعہ مذہب كے اثرات كی وجہ سے امامت كے تصور كے ضمن میں علما كا ایك شجرہ وجود میں آ گیا ہے، جن میں مختلف درجات باقاعدہ متعین ہیں۔ اس لیے یہ معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں ہے جتنا اس كو سمجھا جا رہا ہے۔

٭سابعاً : اسلامی نظریاتی كونسل اور شرعی عدالت مثالی ادارے نہیں ہیں مگر صحیح سمت میں اہم پیش رفت ہیں۔
1 – اسلامی نظریاتی كونسل كی سفارشات كے برعكس وفاقی شرعی عدالت كے فیصلے لازمی حیثیت ركھتے ہیں كیونكہ اس كی حیثیت ’’ریاستی قاضی‘‘ كی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ نے بعض غیراسلامی قوانین كے خاتمے اور بعض نئے اسلامی قوانین كے اجرا كے سلسلے میں اہم كردار ادا كیا ہے۔ اسی طرح ان عدالتوں نے شرعی قوانین كی توضیح اور تنفیذ كے سلسلے میں بعض اہم فیصلے سنائے ہیں۔ مجموعی لحاظ سے ان كی كاركردگی مثالی اور معیاری نہ سہی لیكن انہیں صحیح سمت میں پیش رفت كا نام ضرور دیا جاسكتا ہے۔ مثلاً شرعی عدالت كے اختیارِ سماعت سے جن قوانین كو استثنا دیا گیا ہے ان كو بھی اس كے دائرہٴ اختیار میں لانا چاہیے۔ بلكہ زیادہ مناسب صورت تو یہی تھی كہ عدالت ہاے عالیہ میں شریعت بنچ ہوں۔
2 – تاہم محض شریعت بنچوں یا شرعی عدالت سے كام نہیں چلے گا بلكہ ابھی بہت كام كی ضرورت ہے۔ نہ ہی اس سے كام چلے گا كہ ان عدالتوں میں ’’علما‘‘ كی تعداد بڑھائی جائے۔ ان علما میں كتنے ہیں جو معاشرتی سطح پر قانون كی تنفیذ كی پیچیدگیوں كا ادراك ركھتے ہیں؟ پھر ان میں كتنے ایسے ہیں جو وضعی قانون كی اصل خامیوں، كمزوریوں اور مفاسد سے واقف ہیں؟ اور ان میں كتنے ایسے ہیں جو عصرِ حاضر كے اسلوب میں شریعتِ اسلامی كی صحیح تعبیر پیش كرسكتے ہیں؟ نیز ججوں اور قانون دانوں میں كتنے ایسے ہیں جو شریعت كی اساسیات سے ہی واقف ہیں؟

٭ثامناً : پاكستانی دستور نے پُر امن تبدیلی كا راستہ كُھلا ركھا ہے
1 – جو لوگ موجودہ حكمرانوں یا طرزِ حكومت سے نالاں ہیں اور اس لیے نظام كی تبدیلی اور انقلاب كے نعرے بلند كركے لوگوں كو خروج كی طرف دعوت دیتے ہیں انھیں یہ بات مدِنظر ركھنی چاہیے كہ خروج كے جواز كے لیے ایك بنیادی شرط پاكستان میں مفقود ہے كیونكہ تبدیلی پُرامن ذرائع سے ممكن ہے۔
2 – اسلامی شریعت نے غیر مسلموں كے خلاف جنگ كی اجازت بھی صرف اس صورت میں دی ہے جب بالكل ہی ناگزیر ہوجائے تو مسلمانوں كے خلاف ہتھیار اٹھانے كا مسئلہ تو اس سے بدرجہا سنگین ہے۔ اس لیے اس كی اجازت اس صورت میں قطعاً نہیں دی جاسكتی جب تبدیلی و اصلاح كے لیے پُرامن ذرائع میسر ہوں۔

٭تاسعاً : موجودہ حالات میں خروج بڑے فساد كا باعث ہوگا
امام ابو حنیفہ اگرچہ اپنے معاصر اموی خلفا اور ان كے بعد عباسی خلفا كی نااہلیت كے قائل تھے اور ان كے شدید ناقدین میں تھے، نیز آپ تبدیلی كے حامی بھی تھے اور اصولاً خروج كے جواز كے قائل بھی تھے۔ اس كے باوجود انھوں نے خروج كا راستہ اختیار كرنے سے گریز كیا اور جب خراسان كے مشہور فقیہہ ابراہیم الصائغ نے انھیں خروج كے لیے قائل كرنے كی كوشش كی تو آپ نے فرمایا:
’’یہ كام ایك آدمی كے بنانے سے نہیں بن سكتا۔ انبیا بھی اس كے كرنے كی طاقت نہیں ركھتے تھے جب تك وہ اس كام كے لیے آسمان سے مامور نہ كیے جاتے۔ یہ فریضہ دیگر فرائض كی طرح نہیں ہے جنھیں كوئی بھی شخص تنہا ادا كرسكتا ہے۔ یہ كام ایسا ہے كہ تنہا آدمی اس كے لیے كھڑا ہوگا تو اپنی جان دے گا اور خود كو ہلاكت میں ڈالے گا، اور مجھے اندیشہ ہے كہ وہ اپنے قتل میں اعانت كا ذمہ دار ٹھہرے گا۔ پھر جب ایك ایسا شخص قتل كیا جائے گا تو پھر كوئی دوسرا اس كام كے لیے اپنی جان ہلاكت میں ڈالنے كی ہمت نہیں كر پائے گا۔‘‘
خروج كے داعیوں سے یہی گزارش ہے كہ امتِ مسلمہ كے ذہین اور مخلص نوجوانوں كو خروج كی راہ دكھا كر وہ غیروں كا نہیں بلكہ اپنوں كا ہی نقصان كر رہے ہیں۔

٭عاشراً : ایسے ذہین افراد كی ضرورت ہے جو شریعت اور قانون دونوں میں مہارت ركھتے ہوں اور اس كا واحد طریقہ تعلیم اور تربیت كا ہے
ان لوگوں كی اسلامی تربیت، اسلامی قانون كی عصری اسلوب میں صحیح تعبیر اور عصرِ حاضر كے چیلنجز كے حل كے لیے اسلامی قانون كی رہنمائی كی توضیح بہت زیادہ محنت كا كام ہے۔ اس لیے ہتھیلی پر سرسوں جمانے كی بجائے اس كام كے لیے باصلاحیت لوگوں كو آگے بڑھ كر كام كرنا چاہیے۔ یہ ایك فرضِ كفائی ہے جس كی ادائیگی كے لیے ’’كافی‘‘ لوگ دستیاب نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ كام كرسكتے ہیں وہ اور كاموں میں الجھے ہوئے ہیں، اور جن كا یہ كام نہیں ہے وہ خود كو اس كے ماہر قرار دے كر اپنی عاقبت بھی خراب كر رہے ہیں اور دوسروں كا بھی بیڑہ غرق كر رہے ہیں۔ فالی اللہ المشكی!
استفادہ کتاب: جہاد، مزاحمت اور بغاوت، اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، چئیرمین شعبہ قانون، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password