نفادِشریعت-کیا،کیوں اور کیسے؟

آج کا موضوع ہمارے لیے ایک تقدیری اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی اس موضوع کے جو گوشے اور جو پہلو سوالات کی صورت میں اظہارِ خیال کے لیے منتخب کیے گئے ہیں اُن کے بارے میں اپنا ذہن واضح کئے بغیر ہم موجودہ تاریخ کی جاری معاندانہ یلغار کے سامنے خود کو ثابت قدم نہیں رکھ سکتے۔ یہ موضوع ہماری پوری صورتِ حال کا احاطہ کرتا ہے۔ اس پر غور کیے بغیر، ایک واضح موقف اختیار کیے بغیر اور اس پر اپنی مجموعی حکمتِ عملی ترتیب دیئے بغیر ہم اپنے وجود کی بقاء کے اسباب دریافت نہیں کر سکتے۔
سب سے پہلے یہ ادراک ضروری ہے کہ اس وقت تاریخ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ ہمیں اُکھاڑنے کی طرف یکسو ہو چکی ہے۔ ایسی مخاصمانہ اور نا موافق صورتحال کا ہم نے تاریخِ اسلام میں غالباً پہلی مرتبہ تجربہ کیا ہے۔ اس مسئلے کے سنگینی کو نہ سمجھنا، یا اس سنگینی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے محض جذبات کی بنیاد پر صورتحال کا تجزیہ کرنا اور اس سے نکلنے کی غرض سے قوّت فراہم کرنا تاریخ کے اس معاندانہ عمل کو تیز کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
میرے خیال میں اس موضوع کا پہلا حصہ ہے، “نفاذ شریعت کیوں؟” یا “نفاذِ شریعت سے کیا مراد ہے؟” ـــــــ پہلے سوال کا ایک مختصر، مجموعی اور اصولی جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ شریعت کا اوّلین مطالبہ ہے کہ ہم بندگی کے اسٹرکچر کو زندگی کے تمام شعبوں اور دائروں میں قائم کریں اور استوار رکھیں۔ شریعت یا دین کا اوّلین مقصد بندگی کی حقیقت کو فعال اور دائمی مظاہر فراہم کرنا ہے۔ “نفاذِ شریعت کیا ہے؟” کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے جوہرِ تسلیم اور مادّہَ تعمیل کی بنیاد پر شریعت کے مطالبات کو اپنی باطنی اور خارجی زندگی کے بنیادی اقدار میں منقلب کر کے دکھائیں، تو یہ نفاذِ شریعت ہے۔ شریعت کا کوئی مطالبہ اُس وقت تک تکمیل پانے کے راستے پر نہیں پڑتا جب تک ہم ایک ایسا نظمِ کلی نہ دریافت کر لیں، ایک ایسا قابلِ عمل تصوّرِ حیات نہ حاصل اور فراہم کر لیں، جس میں احکام اقدار بن جائیں۔ شریعت کا بہت بڑا مقصود یہ ہے کہ شریعت جن ابدی احکام اور مستقل مطالبات کا مجموعہ ہے ہم زندگی کو اُس کے ناگُزیر تغیرات کے ساتھ اُن احکام { اور مطالبات} سے بننے والی اقدار پر قائم کر کے دکھائیں۔
اگر اس طرح سے دیکھا جاۓ تو یہ ایک نازک کام ہے جس کی Over Simplification نہیں کرنی چاہیے۔ یقیناً ‏یہ سننے میں بہت اچھا لگتا ہے، اور بہت ضروری ہے کہ ہمارا ذہن اس پوائنٹ پر Crystallized ہو کہ شریعت کا نفاذ ہماری تمام ذمہ داریوں میں سب سے بڑی ذمہ داری ہے؛ لیکن اس ذمہ داری کو شریعت میں کار فرما حکمتوں کے ساتھ انجام کیسے دیا جائے، اس میں بہت پیچیدگیاں اور نزاکتیں ہیں؛ اور وہ نزاکتیں اور پیچیدگیاں اُس وقت تک حل نہیں ہو سکتیں جب تک ہمارا جوہرِ تسلیم زندگی اور اس کے تصورات کو بنانے اور سنوارنے والی تمام حاضر قوتوں پر غالب نہ آجاۓ۔ جب تک ہمارا مادّہَ تعمیل قانون کے اخلاقی مقاصد کو Operate کرنے کے لائق نہ ہو جائے، اُس وقت تک ہم اپنی یہ سب سے بڑی ذمہ داری کسی بھی ذریعے سے پوری نہیں کر سکتے۔ میری رائے میں اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم شریعت کی قانونی ساخت کو اُس کی اصل اخلاقی ساخت کے ایک ذریعے کی حیثیت دیں۔
شریعت میں قوانین کا نقطئہ کمال یہ ہے کہ وہ اخلاق بن جائی، ورنہ قانون محض جبر ہے چاہے وہ کسی کا بنایا ہوا ہو۔ قانون میں جبر کے اس پہلو کو زائل کرسکنے کا اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہر حکم کو کسی خارجی دبائو کی حیثیت دینے کے بجائے اپنے فطری اقتضا کا وہ اظہار سمجھا جائے جس پر قادر نہیں ہوا جا سکتا؛ یعنی احکامِ شریعت دراصل ہمارے فطری اقتضا کا ایسا اظہار ہیں جو اگر ہمارے سپرد ہوتا تو شاید ہم کبھی اس پر قادر نہ ہو سکتے۔ اس خاص اینگل (Angle) اور اس نقطۂ نظر سے شریعت کو نہ دیکھنا کچھ ہنگامی نتائج پیدا کرنے کے علاوہ کسی صورت میں منتج نہیں ہو سکتا۔ جب تک شریعت کے احکام ہماری کوششوں اور دین کے ساتھ ہماری وابستگی کی صداقت کے نتیجے میں ہماری زندگی کی مستقل بنیادیں بننے کی حالت پیدا نہیں کریں گے، اُس وقت تک ان احکام کو چند جبری مظاہر کی صورت میں نافذ کر دینا میری راۓ میں مقاصدِ شریعت کی تکمیل کے لیے نہ صرف ناکافی ہو گا، بلکہ ہر نئے Step پر اس نفاذ کو دشوار سے دشوار تر بناتا جائے گا۔ تو میرا خیال ہے کہ “نفاذِ شریعت کیا ہے؟” کا جواب یہی ہے کہ ہم اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکام کو اپنے احوال اور اپنے حالات کی بنیادی اقدار بنالیں؛ یعنی میرے تمام باطنی اور ذہنی احوال شریعت کے منشاء کی تعمیل اور تسلیم میں صرف ہوں، اور میرے تمام خارجی حالات شریعت کی قبولیت کا ایک تیار شدہ میدان بن کے رہ جائیں۔
میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس کے لیے درکار تیاری صرف دعوتی قوت سے نہیں ہو سکتی، لیکن دوسری طرف وہ صرف تحریکی جذبے سے بھی نہیں ہو سکتی؛ کہ تحریکیں ناقص اور خام نتائج پر قناعت کر لیتی ہیں، جبکہ دعوتیں صرف کسی پیغام کے منتقل کر دینے کے عمل پر راضی ہو جاتی ہیں۔ یہ دونوں طریقے اگر ایک دوسرے سے منقطع حالت میں نفاذِ شریعت، یعنی بندگی کے اسٹرکچر کی مکمل تعمیر کا فریضہ لے کر اُٹھیں گے تو دونوں ایک دوسرے کی کُمَک کے بغیر چند عارضی بلکہ ضمنی نتائج تک محدود رہ جائیں گے۔ میری رائے میں یہ دین اپنے پھیلائو اور اپنے قیام کے دو اسالیب رکھتا ہے، جن میں سے کوئی ایک اسلوب بھی اگر منہا ہو جائے تو ہمارا تعلق با الدین نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا اور ہماری بندگی سے عاٰئد ہونے والی ذمہ داریاں بہ احسن الوجوہ پوری نہیں ہو سکتیں۔ وہ دو اسالیب ہیں ‘معاشرہ’ اور ‘ریاست’؛
یعنی ہمارا دین اپنی موجودگی کے آثار کو Established، محکم اور جاری رکھنے کے لیے دو ادارے، دو ذرائع یا دو قوتیں پیدا کرتا ہے؛ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دین ہماری زندگی کے نظمِ اجتماعی کو دو حصّوں میں بانٹ کر اُن دونوں حصوں کو اپنا مظہر بناتا ہے، اور وہ دو حصے ہیں ‘معاشرہ’ اور ‘ریاست’۔ جب تک ہم ان دونوں اداروں کو ــــ اپنے نظمِ اجتماعی کی ان دونوں روایتوں کو ــــ دین کا مظہر بننے کے قابل نہیں بنائیں گے اُس وقت تک ہم دین کا نام لے کر اور دین کے نفاذ کو اپنا مقصود بنا کر جو بھی نتائج نکالنے میں کامیابی حاصل کریں گے وہ نتائج جزوی بھی ہوں گے اور عارضی بھی۔ دین کا دعوتی کردار معاشرے کی اسٹرکچرنگ (structuring) ہے، جس کے بغیر اس دین کے قیام کا فطری سبب پیدا نہیں ہو سکتا، اور دین کے غالب ہونے کی جہت اُس کے ریاستی مظاہر میں ہے۔ ریاست دین کے غلبے کو قائم کرتی ہے اور معاشرہ دین کی قبولیت اور پھیلائو کا سامان بنتا ہے۔
یہ ہے اپنے حقیقی معنوں میں وہ نفاذِ شریعت کہ معاشرہ اللہ کی رضا کے مطابق Restructure ہو جاۓ اور ریاست اللہ کے حکم کی تعمیل میں ایک محافظ اور دفاعی قوت بن جائے۔ ہمارے یہاں یہ دونوں کام ایک دوسرے سے بیگانگی کی حالت میں ہو رہے ہیں، یعنی جن لوگوں کا رُخ معاشرے کی طرف ہے، جن کا انداز دعوتی ہے، وہ ریاست کے ناگزیر کردار کو سمجھنے پر مائل نہیں ہیں؛ اور جن لوگوں کا رُخ ریاستی نظام کی تبدیلی کی طرف ہے وہ معاشرے کو بہت قرار واقعی اہمیت دینے پر راضی نہیں ہیں۔ نفاذِ دین یا نفاذِ شریعت کیا ہے؟ وہ یہی ہے کہ ہمارا نظمِ زندگی اپنے پورے مکینیزم (Mechanism) میں، اور اپنی تمام اندرونی اور بیرونی تفصیلات میں دین کے مطالبات کو بنیادی اقدار بنا کر پورا کرے۔ اس کے علاوہ نفاذِ شریعت کا کوئی لائقِ اعتبار مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔
میں یہ عرض کروں گا کہ “نفاذِ شریعت کیوں؟” کا جواب ہے “خود دین کیوں!؟”۔
اگر میں خود کو اس بات پر قائل اور ثابت قدم کر چکا ہوں کہ: (۱)۔ میری حقیقت بھی بندگی ہے اور میری غایت بھی بندگی ہے، یعنی میرا اصلی ماضی بھی بندگی ہے اور میرا حقیقی مستقبل بھی بندگی ہے، اور (۲)۔ یہ کہ یہ زندگی اگرچہ میرے Span Of Existenceکا بہت چھوٹا سا حصہ ہے، لیکن اگر یہ چھوٹا سا حصہ میری حقیقت اور غایت سے غیر متعلق رہ گیا تو میں گویا اپنے ماضی یعنی اپنی حقیقت اور اصل سے بھی منقطع رہوں گا اور اپنے مستقبل یعنی اپنی غایت اور مقصودِ اعلیٰ سے بھی بیگانہ اور منقطع رہوں گا، تو “نفاذِ شریعت کیوں؟” کا جواب نہ کوئی ترقی یافتہ زندگی ہے نہ کسی فلاحی ریاست یا کسی خاص نوع کے معاشرے کا قیام ہے؛ نفاذِشریعت کیوں کا واضح جواب ہے اپنی حقیقت اور غایت کو عمل میں لانا! ـــ اپنی بندگی کو اپنی زندگی کا واحد تشخص بنانا! ـــ اپنی دنیا کو اپنی بندگی کے اظہار کا واحد ظرف بنانا! ـــ دنیا میرے لیے کسی اور کام کے لیے نہیں ہے؛ صرف اس لیے ہے کہ میں اپنی بندگی کو میڈیم (medium) بنا کر اللہ کے امر کے غلبے کا ذریعہ بن کے رہوں۔ اس کے علاوہ نہ میری کوئی زندگی ہے، نہ میرا کوئی تصوّر ہے، اور نہ ہی میرا کوئی مقصد ہے۔ تو نفاذِ شریعت کیوں کا جواب ذرا دوسری اصطلاحوں میں یہ ہے کہ نفاذِ شریعت یوں کہ اس کے بغیر ہم ایک ایسے وجودی خلا میں چلے جائیں گے جہاں ہمارے لیے خود کو کوئی معنی دینا محال ہو کر رہ جائے گا؛ یعنی اگر ہم اپنی حقیقت اور غایت سے منحرف ہو جائیں تو ہماری معنویت کا پورا نظام باطل ہو کر رہ جائے گا، جو کہ ہماری بندگی پر ہی قائم ہے اور ہماری بندگی ہی سے مشروط ہے۔ تو نفاذِ شریعت کیوں؟ تا کہ میں اپنی بندگی کی حقیقت کو لائقِ اعتبار مظاہر فراہم کر کے اپنے اندر اور اپنے باہر کی دنیا میں فنکشنل (functional) کر سکوں۔ میرے لیے ” نفاذِ شریعت کیوں؟” کا اس سے بڑا قابلِ تسلیم جواب موجود نہیں ہے۔
نفاذِ شریعت کیسے ہو؟
اس موضوع [کا تیسرا سوال فکری طور پر تو شاید نہیں لیکن عملی طور پر اب بہت نزاکت اختیار کر چکا ہے؛ ہمارے تصورِ دین اور ہمارے طرزِ عمل کی ہر جہت “نفاذِ شریعت کیسے ہو؟” کے جواب پر منحصر ہے۔ میری رائے میں نفاذِ شریعت کیسے ہو کا جواب دیتے ہوئے سب سے پہلے یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے دور میں اس وقت جو متداول اور مروّج صورتیں ہیں، یا جو نفاذِ شریعت کی Prevailed Form ہے، اُس کا انکار کیا جائے! ـــــ
نفاذِ شریعت کے نام سے جن جارحانہ جذبات کی تسکین کی جا رہی ہے، جس سنگدلی کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کم تر درجے کے ذہن کو غالب کیا جا رہا ہے اور زندگی کے بارے میں جن پسماندہ ظواہر کو شریعت کی مراد سمجھ کر پھیلانے کی بزور کوشش کی جا رہی ہے، میں رسول اللہﷺ کا غدار ہوں گا اگر ان کا اپنی پوری قوّت سے انکار نہیں کروں گا۔ دین کے بارے میں کوئی درست انداز سے نتیجہ خیز کام رسول اللہﷺ کے مزاجِ اقدس کو نظر انداز کر کے نہیں ہو سکتا۔ وہ جس کو ہم دین کی روح یا اسلام کی روح کہتے ہیں وہ کوئی تصور نہیں ہے ـــ وہ ہماری استخراج کردہ حکمت نہیں ہے ـــ وہ رسول اللہﷺ کا مزاجِ اقدس ہے! ـــ دین کی تمام تر روح آپﷺ کے مزاجِ اقدس سے Express ہوتی ہے، اور دین کی روح سے وابستہ رہنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم دین کے ساتھ اپنے تعلق کی ہر جہت کو رسول اللہﷺ کے مزاج کے رنگ میں رنگین ہو کر اختیار کریں۔ ہمارے یہاں سوات وغیرہ میں جو اسلام کے نام پر ایک Modern Militancy شروع ہوئی تھی، مجھے اُس میں سب سے پہلی چیز رسول اللہﷺ کے مزاجِ مبارکہ کی اہانت اور انکار لگی تھی۔ یہ پوری تحریکیں اپنی بناوٹ میں، اپنے Temperamental Structure میں رسول اللہﷺ کے مزاج پر اُس بدوی مزاج کو غلبہ دینے کا عمل ہے جس کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا۔
اسلام میں جہاد بھی جارحانہ جذبے سے نہیں ہوتا؛ رقّتِ قلبی سے ہوتا ہے! رقّتِ قلبی اسلام کے پیدا کیے ہوئے مزاجی اسٹرکچر کا سنگِ بنیاد ہے۔ جس کا دل نرم نہیں ہے وہ رسول اللہﷺ کے مزاجِ اقدس سے قریب ہونے کا ہر راستہ گنوا چکا ہے۔ رسول اللہﷺ سے مناسبت اور آپﷺ کی متابعت کے واقعی حق کو ادا کرنے کا گامِ اولین نرم دلی ہے؛ اور یہ تمام سرگرمیاں پہلے قدم پر جس تصور کو متاثر کرتی ہیں وہ یہی ہے کہ یہ لوگ سنگدل ہیں، اور بہت کم تر ذہن کے ساتھ رسول اللہﷺ کے دین میں پنہاں حقائق کے واحد ترجمان بننے کی ضد کر رہے ہیں۔
آدمی کی سب سے بڑی ضرورت دو چیزوں کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی؛ ]یعنی [ دو اوصاف اگر نہ ہوں تو بنیادی جوہرِ آدمیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی: وہ اوصاف ہیں ذہانت اور اخلاق۔ جس کی ذہانت پست ہو، جس کے اخلاق مست ہوں، وہ بات چاہے کتنی ہی صحیح کرے اُس کا نتیجہ ہمیشہ اس کی اخلاقی پستی اور ذہنی فروتری سے برآمد ہو گا نہ کہ اُس بات سے جس کو یہ زبان سے کہہ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے زوال کی تقریباً تمام قسمیں اگر کسی ذریعے سے ٹل سکتی ہیں تو وہ ذریعہ اخلاص کے بعد موجودہ معیارِ ذہانت پر غالب آنے اور موجودہ معیارِ اخلاق سے آگے بڑھ جانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ مجھے یہ سُن کر ہول لگ جاتا ہے کہ اُس ماحول کے فلاں مولوی صاحب کسی دہریے سے بات کرنے جا رہے ہیں، یا اُس تحریک کے فلاں لیڈر کسی پڑھے لکھے آدمی کو قائل کرنے جا رہے ہیں؛ ایک عجیب سی فکر مندی لگ جاتی ہے کہ یا اللہ اس دین کی حفاظت فرمانا جس کا یہ زبردستی ترجمان بن گیا ہے۔ لہٰذا جب تک ہم نفاذِ شریعت کے نام پر چلنے والی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر زبردستی قبضہ کر لینے والے ان لوگوں کو اس ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹا نہیں دیتے اُس وقت تک نفاذِ شریعت کیسے کا سوال ایک نا ممکن مطالبہ نظر آتا رہے گا۔ ابھی شاید ہی لوگوں کو اندازہ ہو کہ ان چند واقعات کی وجہ سے اسلام کے پھیلائو کا عمل کس درجے متاثر ہو چکا ہے۔ ابھی ہمارے ہاں کوئی ایسا سروے نہیں ہوا جو ہمیں یہ دکھائے کہ ان مہم جوئیوں سے جو لوگ کنارے پر کھڑے ہوئے تھے وہ کتنی تیزی سے ارتداد کی طرف چلے گئے ہیں ۔ تمام دشمنانِ اسلام کو اگر سب سے زیادہ قوّت کسی ذریعے سے حاصل ہو رہی ہے تو وہ وہی ذریعہ ہے جو اس وقت سوات میں رسول اللہﷺ کا زبردستی وارث بنا بیٹھا ہے۔
میرے خیال میں “نفاذِ شریعت کیسے” کا تقاضا ہے کہ تمام دستیاب معروف ذرائع کو استعمال کیا جاۓ مگر اُن میں Built-in ضرر کو ختم کر کے۔ جو لوگ جمہوریت کے حوالے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوریت تبدیلی کا ایک معروف ذریعہ ثابت ہوئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ چیز بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جہاں بھی جمہوریت نے ایک واحد اور موَثر نظامِ حکمرانی کی حیثیت حاصل کی ہے وہاں سب سے پہلے جو چیز رخصت ہوئی ہے وہ دین اور دینی اقدار ہیں؛ جمہوریت کسی بھی قوم کو اس کی نظریاتی اساس سے ہٹانے والی سب سے کارگر قوّت ثابت ہوئی ہے۔ اس ضرر کو نظر انداز کیے بغیر اگر اس کے استعمال کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو وہ ضرور اختیار کرنا چاہیے، لیکن خود جمہوریت سے نظریاتی امیدیں باندھ لینا میرے خیال میں نہ صرف قبل از وقت ہو گا بلکہ شاید خطرناک بھی ہو۔
تحریر احمد جاوید صاحب، بشکریہ دانش ڈاٹ پی کے

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password