کیاتمام ٹیکس دہندگان مقاتلین (جنگ لڑنےوالے)شمارہونگے ؟

عموما جنگ میں براہ راست حصہ لینے والوں کو مقاتلین شمار کیا جاتا ہے ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ” جنگ میں براہِ راست حصہ لینے”سےکیا مراد ہے؟بعض لوگوں کی جانب سے یہ رائے سامنےآئی ہےکہ چونکہ فوج کےاخراجات ان ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے ہیں جو حکومت اپنے شہریوں پرلگاتی ہے اس لیےہروہ شخص مقاتل ہے جو ٹیکس اداکرتاہے کیونکہ اس طرح وہ مال کے ذریعےقتال میں حصہ لے رہاہے۔اسی طرح ان لوگوں کے نزدیک وہ تمام دانشور، ماہرین اور اہلِ علم بھی مقاتل شمار ہونگےجن کی آراءیانظریات کسی طور جنگ میں ممدومعاون ہوں۔حقیقت یہ ہےکہ اگر اس رائے کو تسلیم کیا گیا توپورےاسلامی آداب القتال کا حلیہ ہی تبدیل ہوجائےگا۔ رسول اللہ ﷺکےزمانے میں بھی جنگوں کےلئے سرمائےکی ضرورت ہوتی لیکن کیا آپ ﷺ نےہراس شخص کو مقاتل قراردےدیا جس نے جنگ کےلئےفنڈ میں ذراسابھی فنڈ میں حصہ ڈالاہو؟ہرشخص جانتاہےکہ غزوہء بدر میں شکست کے بعد اہلِ مکہ کےہرمردوعورت نےبدلے کےلئے تیاری میں بھرپور حصہ لیا اور غزوہءاحد کےلئےباقاعدہFund Rising ہوئی۔خودقرآن کریم اس پر گواہ ہے: [(مفہوم)کفر کرنےوالےاپنامال اس مقصد سے خرچ کررہےہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں۔پس وہ اسے خرچ توکرلیں گے،پھریہ ان کےلئےسرمایہء حسرت بنے گا،پھروہ مغلوب ہوجائیں گے۔](سورہ انفال،آیت36)
اس سے بھی آگے مشرکین کی عورتیں اپنے مردوں کا حوصلہ بڑھانے کےلئےمیدانِ جنگ میں بھی آئیں اور شعر اور نغمات گاگا کر مردوں کے جذبات کوبرانگیختہ کرتی رہیں۔اسکے باوجود بھی رسول اللہ ﷺ نے عورتوں پر حملہ کرنے سے منع فرمایا۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہےکہ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کےلئے مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کےلئے باقاعدہ منصوبی بندی کرنی پڑتی ہےلیکن سوال یہ ہےکہ شریعت نے مباشر اورمتسبب میں فرق کیاہےیا نہیں؟پھر دوسراسوال یہ ہےکہ اگرایک سبب کے وجود آنےکےبعد نتیجہ نمودار ہونے سے پہلے درمیان میں ایک اور سبب طاری ہوجائے تو فعل کی نسبت کس کی طرف کی جائےگی؟اگرایک سبب کا کوئی نتیجہ برآمدہو اور وہ نتیجہ ایک اورفعل کاسبب بنے تو یہ آخری فعل سببِ اول کی طرف منسوب ہوگا یا سببِ ثانی کی طرف؟کیا نتیجہ اور سبب کے درمیان رابطہء سببیہ(Casual Link)ثابت کرنا ضروری ہے یا نہیں؟اسباب کایہ سلسلہ کہاں روکاجائےگا؟کیا شہد کی مکھی کے باغ میں داخل ہونےکو پروانے کے خونِ ناحق کا اس بنا پرسبب قرار دیاجاسکتاہےکہ نہ وہ باغ میں داخل ہوتی،نہ رس چوستی،نہ اس سے موم بنتا،نہ موم بتی وجود میں آتی،نہ موم بتی جلائی جاتی،نہ ہی پروانے اس پر نثار ہوتے؟
پس جن لوگوں کا جنگ کی تیاری میں براہِ راست حصہ ہو،جنہیں جگی کا”متسبب”قراردیاجاسکے،جن کے فعل اور جنگ کےدرمیان رابطہء سببیہ ثابت کیاجاسکے،جن کے فعل اور جنگ کےدرمیان کوئی اور قوی سبب طاری نہ ہوا ہو،ان کویقیناََ جنگ کےلئے ذمہ دار ٹھہرایاجاسکتاہے خواہ انہوں نے باقاعدہ ہتھیار نہ اٹھائے ہوں۔کعب بن الاشرف کو مقاتل قراردیاگیا تو محض اس وجہ سے نہیں کہ اس نے غزوہءبدر میں قریش کے مقتولین کےلئے مرثیہ کہاتھا، بلکہ دراصل اس نے اپنی اس شاعری اور خطابت کے زورپر مشرکینِ مکہ کو رسول اللہ ﷺ پر حملہ کرنے کےلئےابھاراتھااوراس کےلئےباقاعدہ مہم چلائی تھی اور منصوبہ بندی میں حصہ لیا۔(صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر،باب قتل کعب بن الاءشرف طاغوت الیھود۔سنن ابی داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والفیء،باب کیف کان اخراج الیھود من المدینۃ،حدیث رقم2606)۔
نیز اس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخیاں بھی کی تھیں جو نصِ قرآنی کے بموجب”طعن فی الدین”ہونے کے سبب سے قتال کی علت میں شامل ہے۔ (سورۃالنساء کی آیت46 کے بموجب رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی”طعن فی الدین”ہے اورسورۃ التوبۃ کی آیت13کے بموجب قتال کاایک سبب طعن فی الدین ہے)
اسی سبب سے ابوعزہ شاعر کوسزائےموت سنائی گئی کہ وہ قریہ قریہ جاکراپنے اشعار کےذریعےلوگوں کوجنگ کےلئےاکھٹا کرتا رہا اورساتھ ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے ہجو میں شعر کہتا۔[ابوعزہ عمرو بن عبداللہ الجمحی نامی اس شاعر کو غزوہءبدر میں گرفتاری کے بعدرسول اللہ ﷺ نے احساناََ رہاکیا اوراس سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ ایسی حرکتیں نہیں کریگا۔تاہم وہ رہائی کےبعد مزید زوروشور سےآپﷺکے خلاف اشعارکہتارہا اور مشرکین کو آپﷺ کے خلاف ابھارتا رہا۔غزوہءاحد میں دوبارہ گرفتار ہوا تواسے قتل کردیاگیا(نصب الراءیۃ لاحادیث الھدایۃ،ج3 ص409)،یہ بھی واضح ہےکہ وہ دونوں مرتبہ جنگ میں پکڑاگیا، جسکا مطلب یہ ہےکہ اس کی شاعری سے قطع نظر کیا جائے تب بھی وہ مقاتل تھا۔]
اسی طرح عمررسیدہ درید ابنالصمۃ کومقاتل شمار کیاہے کیونکہ اس نے جنگ کی منصوبی بندی میں حصہ لیا تھا اور جنگ کی ابتداء میں مسلمانوں کوجوسخت جانی نقصان ہوا اس میں درید کے مشوروں نے اہم کرداراداکیاتھا۔ [درید ابن الصمۃ ایک نہایت عمررسیدہ(بعض روایات کے مطابق غزوہء حنین کے موقع پرایک سو ساٹھ سال کی عمر کا) تھا۔اس نے غزوہء حنین کی منصوبہ بندی میں اہم کردار اداکیاتھا۔یہ قبیلئہ جشم کا سردارتھا اوراسکی شاعری کےعلاوہ بہادری کے قصےبھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتے تھے۔مزید برآں،وہ ہزاروں کی جمعیت لیکر جنگ میں شرکت کےلئے اوطاس آیاتھا۔(مزید تفصیلات کےلئےدیکھئے:علامہ شبلیؒ؛سیرت النبیﷺ،ج1 ص 305۔311)]
پس مقاتلین میں کچھ تو وہ لوگ شامل ہیں جنھیں “مباشر”کی حیثیت حاصل ہے،یعنی جنگجویافوجی،اور کچھ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں “متسبب”کی حیثیت حاصل ہے۔اس ثانی الذکر گروہ میں صرف انہیں کوشامل کیاجاسکتاہے جن پرجنگ کی براہِ راست ذمہ داری ڈالی جاسکے۔یہی اصول بین الاقوامی قانون کا بھی ہے۔مثال کے طور پر ریاست کاسربراہ جنگ میں فوجی کےطور پر حصہ نہیں لیتالیکن اسکے باوجود جنگ کے شروع کرنے اور جنگ کےدوران میں کئےجانےوالے بعض کاموں کےلئےاس کو ذمہ دار ٹھہرایاجاتاہےاور بعض کےلئے ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جاتی۔
یہ بھی حقیقت ہےکہ حکومت کوجو ٹیکس اداکیاجاتاہے وہ خالصتاََ جنگ کےلئےنہیں ہوتا بلکہ اس پر حکومت اورریاست کا پورا نظام چلایاجاتاہےاوراس کا کچھ ہی حصہ جنگ کے مصارف پر خرچ کیاجاتاہے۔جولوگ ٹیکس دیتےہیں وہ لازماََ اس نیت سے نہیں دیتے کہ اس کو جنگ ہرخرچ کیاجائے۔بلکہ ان میں سے کئی لوگ جنگ کے مخالف بھی ہوتےہیں۔عراق میں حملے کے خلاف جتنے بڑے مظاہرےخود امریکہ میں ہوئے اس کے عشرعشیر کے برابر بھی پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک میں نہیں ہوئے۔کیا ان جنگ کے مخالفین کو بھی “مقاتلین”میں شمارکیاجائےگاکیونکہ یہ جب ٹیلی فون کا بل اداکرتےہیں تواس ضمن میں حکومت کوٹیکس بھی اداکرتےہیں؟پس عام شہریوں کو محض اس بنا پر مقاتلین میں شمارکرنا کہ وہ حکومت کوٹیکس اداکرتےہیں بدیہی طور پر غلط ہے۔
مزید: جنگ میں براہ راست اور بالواسطہ حصہ لینےوالےکاقتل 

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password