اعتراض:جزیہ صرف اہل کتاب کیلیےہےباقی کافروں کوقتل کرنےکاحکم ہے

ملحدین کی ایک مشہور سائیٹ کی ایک تحریر کا اقتباس پیش ہے :
جزیہ صرف اہل کتاب سے ہے جبکہ دیگر مذاہب والوں کا قتل ہے اور عورتوں کو غلام بنانا ہے :اس بڑی غلط فہمی کو دور کیجئے کہ جزیہ سب غیر مسلموں کے لیے ہے۔نہیں، جزیہ دے کر زندہ رہنے کا حق صرف اہل کتاب کو ہے جبکہ دیگر تمام مذاہب (مثلاً بدھسٹ، یزدی، ایتھیسٹ وغیرہ) کے لیے واحد آپش یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں، نہیں تو انہیں ہر حال میں قتل کر دیا جائے گا اور انکی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ شروع اسلام میں حکم تھا (یعنی دین میں جبر نہیں) پھراللہ تعالی نے قتال وجہاد کو فرض کر کے اس آیت کو منسوخ کردیا ، توا ب جو اسلام قبول کرنے سے انکارکرے اس سے جہاد کر کر قتل کیا جاۓ گا حتی کہ وہ اسلام قبول کرلے یا پھر اگر وہ اہل جزیہ میں سے ہے تو جزیہ دینا قبول کرے ، اور اگر کفار سے جزیہ نہیں لیا جاتا تو ان پر اسلام لازمی ہے (وگرنہ قتل ہے) ۔۔۔ لیکن اگر وہ اہل کتاب میں سے ہوں مثلا یھودی اور عیسائ اور مجوسی ، تو ان تین گروہوں کو شریعت نے اختیار دیا ہے کہ یا تو وہ اسلام قبول کرلیں یا پھر ذلیل ہو کر جزیہ دینا قبول کریں ۔۔۔

اعتراض کے جواب میں وضاحت طلب نکات:
جزیہ کیا ہے؟
کیا جزیہ صرف اہل کتاب سے لیا جاسکتا ہے باقی سب غیرمسلموں کے لیے اسلام یا تلوار کی ہی آپشن ہے ؟
عرب کے بت پرستوں کے لیے خصوصی حکم اور اسکی وجہ

٭جزیہ :
جزیہ کے لیے آج ٹیکس کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یہ ان غیر مسلم اقوام سے لیا جاتا جو اسلامی ریاست میں اسلام قبول کیے بغیر رہنا چاہتے ہوں۔ خواہ یہ مسلمانوں کی مفتوحہ قوم ہوں یا کسی اسلامی ریاست میں بطور ذمی رہتی ہو جسے آج کی زبان میں اقلیت کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس مسلمان ریاست کے ان غیر مسلم شہریوں سے لیا جاتا ہے جو لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، چناچہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور تارک الدنیا مذہبی پیشواؤں سے جزیہ نہیں لیا جاتا۔ٓ۔ اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ غیر مسلموں سے مسلمانوں کی طرح زکوٰۃ وصول نہیں کی جاتی، لیکن وہ ریاست کے تمام شہری حقوق میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اس لیے بھی ان پر یہ خاص نوعیت کا ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اور احادیث میں مسلمان حکمرانوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ غیر مسلم باشندوں کے حقوق کا پورا خیال رکھیں اور ان پر اتنا ٹیکس عائد نہ کریں جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ چناچہ اسلامی تاریخ کے تقریبا ہر دور میں جزیہ کی شرح بہت معمولی رہی ہے۔ (الفاروق۔ شبلی نعمانی ١٩١)

٭جزیہ کن سے وصول کیا جائے گا؟
اسلامی تاریخ میں جزیہ عرب و عجم کے تمام غیر مسلموں سے قبول کیا گیا۔صرف مشرکینِ عرب کے متعلق خصوصی حکم تھا کہ ان سے جزیہ لے کر انکوعرب میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ ان کے لیے بظاہر دو ہی آپشن رکھی گئیں کہ یا وہ اسلام قبول کرلیں یا عرب میں رہنے کے لیے جنگ کرلیں۔ جنگ کی بات بنیادی طور پر ایک دھمکی تھی جو انکو جزیرہ عرب سے نکالنے کے لیے دی گئی ۔ (مشرکین عرب کو زبردستی عرب سے نکالنے کی کیوں کوشش کی گئی؟ تفصیل آگے آئے گی ) ۔ سورة التوبہ کی آیت ٥ کی رو سے مشرکین عرب کو جو مہلت یا امان دی گئی تھی اس مدت کے گزرنے کے بعد ان کے لیے تو کوئی اور راستہ (option) اس کے علاوہ نہیں تھا کہ یا وہ ایمان لے آئیں یا وہ جزیرہ نمائے عرب چھوڑ کر چلے جائیں۔
باقیوں کے لیے سورت التوبہ آیت ٢٩ میں حکم آیا۔

(قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۔ ترجمہ : لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ حرام جانتے ہیں اس کو جسکو حرام کیا اللہ نے اور اس کے رسول ؐ نے اور نہ قبول کرتے ہیں دین سچا ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں’ یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر۔ (سورت التوبہ آیت 29)

اہل کتاب کا تصریحی ذکر صرف ان کے شرف مرتبہ اور ان کی امتیازی خصوصیات کی بنا پر ہے۔(قرطبی) (آیت) اس آیت میں جو صفات بیان کی گئی ہیں مثلا وہ دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے، وہ چونکہ تمام غیر مسلموں میں پائی جاتی ہے، اس لیے جزیر ہ عرب سے باہر یہ حکم باجماع امت تمام غیر مسلموں کو شامل ہے۔ چنانچہ رسول اللہ نے مجوس سے بھی جزیہ لیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاسکتا ہے ۔ حدیث میں بھی کسریٰ شاہ ایران سے جزیہ کے مطالبہ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ سورج پرست اور آتش پرست تھے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ مع اہل الذمۃ والحرب)۔
بت پرستوں کے لیے جزیرہ عرب میں مستقل رہائش ممنوع کردی گئی تھی لیکن اہل کتاب کے لیےشروع میں یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ وہ عرب میں غیر مسلم شہری کی حیثیت میں جزیہ ادا کر کے رہ سکتے ہیں۔ یہ رعایت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں برقرار رہی لیکن آپ نے وفات سے پہلے یہ وصیت فرمائی تھی کہ یہود اور نصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکال دینا (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 3053) چناچہ بعد میں حضرت عمر (رض) نے اس وصیت پر عمل فرمایا۔ جزیرۃ العرب قیامت تک کے لئے توحید کا جغرافی مرکز قرار دیا گیا اس کے حدود کے اندر کفر وشرک کی اجازت ممنوع ٹھہرا دی گئی۔ اس لیے یہ حکم صرف جزیرہ عرب کے ساتھ مخصوص تھا۔ جزیرہ عرب کے باہر جہاں کہیں اسلامی حکومت قائم ہو، وہاں اب بھی نہ صرف اہل کتاب، بلکہ دوسرے تمام غیر مسلم اسلامی ریاست کے شہری کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں، جہاں انہیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے۔ بشرطیکہ وہ ملکی قوانین کی پابندی کریں۔
باقی دنیا کے مشرکین کے متعلق تاریخ اسلام میں مشرکین عرب والے سلوک کا کہیں ذکر نہیں، مثلاً ہندو، بدھ اور دوسرے بت پرست وغیرہ۔ مسلمانوں نے برصغیر میں انھیں اپنی رعایا بنا کر ان سے بہترین سلوک کیا۔ اگر اسلامی لڑائی کا مقصد لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو ہزاروں سال کی حکومت کے بعد بھی نا اندلس میں مسلمان اقلیت میں ہوتے نا برصغیر میں ، بلکہ سارا ہند مسلمان ہوتا اور یہاں کفار کا نام و نشان تک نہ ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا، ارشاد ہوتا ہے : (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” دین میں زبردستی نہیں۔ “ جو مسلمان ہو سوچ سمجھ کر مسلمان ہو.

٭المذاہب فی الجزیہ:
احناف کے نزدیک بشمول امام ابویوسف رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہےکہ اہل کتاب اور مجوس سے مطلقا خواہ عرب ہوں یا عجم جزیہ قبول کیا جائے گا ، مشرکین عجم سے جزیہ قبول کیا جائے گا ،جزیرہ العرب کے مشرکین سے اور مرتد سے مطلقا جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف دو آپشن ہیں اما الاسلام واما السیف۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ اولین ص594 میں ہے” توضع الجزیہ علی اھل الکتاب والمجوس وعبدة الاوثان من العجم ولا توضع علی عبدة الاوثان من العرب والمرتدین۔ (اہل کتاب ، مجوس پہ مطلقا (یعنی سب پہ) نیز عجم کے بت پرستوں پر بھی جزیہ ہوگا ہاں عرب کے بت پرستوں اور مرتدین پہ جزیہ نہ ہوگا)
صاحب العنایہ” علی اہل الکتاب والمجوس” کے بعد لکھتے ہیں “سواء کانوا من العرب او العجم”( خواہ عرب ہوں یا عجم)( شرح سیر کبیر ج 1 ص 189 مبسوط ج 10 ص 7 شرح مختصر الطحاوی ج 7 ص12 )ان تمام جگہوں میں احناف کا مسلک یہی مذکور ہے۔ صاحب اعلاء السنن نے باب ہی قائم کیا ہے” توضع الجزیہ علی اھل الکتاب والمجوس مطلقا و علی عبدة الاوثان من العجم ” اہل کتاب ، مجوس پہ مطلقا (یعنی سب پہ) نیز عجم کے بت پرستوں پر بھی جزیہ )۔حنیفہ کا مسلک اس باب میں یہی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور یہی ظاہر الروایہ ہے۔
امام ابویوسف رحمہ اللہ کا مسلک بھی اس باب میں یہی ہے اور وہ جسے موفق نے المغنی میں بیان کیا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک عرب سے مطلقا جزیہ نہیں لیا جائے گا یہ انکی ایک روایت ہے مذہب نہیں بلکہ ان کا مذہب بھی وہی ہے جو ہم نے ماقبل میں ذکر کیا ہے اور اس پہ دلیل امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب الخراج کی یہ عبارت ہے” جمیع اہل الاوثان من المجوس وعبدة الاوثان و عبدة النیران والصائبین والسامرہ توخذ منہم الجزیہ ماخلا اہل الردہ من الاسلام واھل الاوثان من العرب” ترجمہ: اسلام سے پھر جانے والوں یعنی مرتدین اور عرب میں بسنے والے بت پرستوں کے علاوہ ان سب بت پرستون سے جزیہ وصول کیا جائے گا خواہ مجوسی ہوں یا دیگر پرست ، آتش پرست، صابی اور سامری دیں والے وغیرہ ( کتاب الخراج ، ص 154) اس عبارت سے صاف طریقہ پہ واضح ہورہا ہے کہ ان کا مسلک بھی یہی ہے ورنہ تو وہ” عبدة الاوثان من العرب” کا عرب کا استثاء کرنے کے بجائے مطلق عرب کا استثاء کرتے۔ اسی بات کو صاحب اعلاء السنن نے اعلاء السنن میں بیان کیا ہے ۔( اعلاء السنن ج 12 ص 470 تا 478)
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا مسلک موفق نے المغنی ج 1 ص571 پہ نقل کیا ہے کہ اہل کتاب اور مجوس سے جزیہ قبول کیا جائے گا اور ان کے علاوہ مشرکین سے مطلقا خواہ عرب ہوں یا عجم جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور یہی انکا ظاہر مذہب ہے اور المغنی ہی میں ایک روایت حسن بن ثواب کی امام شافعی رحمت اللہ علیہ کی ہمارے موافق ہے لیکن ان کا مذہب وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ امام شافعی کی دلیل انکی دلیل قرآن پاک کی آیت فاقتلوا المشرکین حیث ثقفتموہم (مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو)ہے یہ آیت بوجہ امر ہونے کے جمیع مشرکین کے قتال کی موجب ہے مگر یہ کہ اہل کتاب آیت قرآنی اور مجوس حدیث نبوی کی وجہ سے اس حکم سے مستثنی ہیں اور دیگر مشرکین کے بارےمیں چونکہ یہ استثاء نہیں ہے اسلئے وہ اس عموم میں داخل رہیں گے پس ان سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
امام اوزاعی (رح) نے لکہا ہے : بتوں کی عبادت کرنے والے، آتش پرست، منکر اور جھٹلانے والے سبھی سے ہی جزیہ لیا جائے گا اور اسی طرح امام مالک (رح) کا مذہب ہے ‘ کیونکہ ان کی رائے یہ ہے کہ شرک اور انکار کی تمام اجناس سے جزیہ لیا جائے گا چاہے وہ عربی ہو یا عجمی ‘ تغلبی ہو یا قریشی ‘ جو بھی ہو سوائے مرتد کے (سبھی سے جزیہ لیا جائے گا) (الجامع لاحکم القرآن جز ٨ ص ٤٥ ) امام زہری سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب کے علاوہ دیگر تمام بت پرستوں سے جزیہ پر صلح کرلی۔ (عبدالرزاق فی تفسیرہ)۔
ابو عبید المتوفی ٢٢٤ ھ کی کتاب الاموال میں جو اسلام کے مالیاتی نظام پر نہایت مشہور اور مستند کتاب ہے لکھتے ہیں : ” رہے عجمی (غیر عرب) تو ان سے جزیہ لیا جاسکتا ہے اگرچہ وہ اہل کتاب نہ ہوں اس قاعدہ کی بنا پر جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجوسیوں کے معاملہ میں اختیار فرمایا تھا حالانکہ وہ اہل کتاب نہیں ہیں “۔ (ص ٣٠) ۔

عام مشرکین سے قبول جزیہ کے جواز مشرکین عرب کے اس حکم سے استثناء کے دلائل :
دلیل 1 : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین میں ایک جگہ ہے ہجر وہاں کے مجوس سے جزیہ لیا تھا اور علاء بن حضرمی کو وہاں کا عامل مقرر کیا تھا یہ بات صحیحین میں ہے نیز تمام امت کا اجماع ہے کہ مجوس سے جزیہ لینا درست ہے ۔ اب چونکہ مجوس مشرک ہیں اہل کتاب نہیں اس لئے جب ان سے جزیہ لینا درست ہے تو سب مشرکین سے لینا درست ہوگا البتہ مشرکین عرب اس حکم سے مستثنی ہیں ۔

امام ابن تیمیہ ؒ کا موقف تو یہ ہےکہ مجوس کا شرک اہلِ عرب کے شرک سے زیادہ سنگین اور گھناؤنی قسم کا تھا۔” مجوس توحید کے معاملے میں مشرکینِ عرب سے زیادہ گھناؤنے شرک کا ارتکاب کرتے تھے کیونکہ عرب اس کا اقرار کرتے تھے کہ عالم کا ایک خالق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کے متعلق کئی مقامات پر خبر دی ہے۔عرب مشرکین نے یہ نہیں کہا کہ اس عالم کے دو صانع ہے۔اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے تھے اور کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔تاہم وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تخلیق کے کام میں شریک ہے، بلکہ وہ مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انکے اعترافات کا ذکر کیا ہے، لیکن وہ اپنی دیویوں کو اپنا سفارشی اور اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔۔اسکے برعکس مجوس اصلاََ دو خداؤں کے ماننے والے تھے؛روشنی اور تاریکی،اور کہتے تھے کہ تاریکی نے شر کوپیدا کیا اور روشنی نے خیر کو۔پس یہ عربوں کی نوعیت سے زیادہ سنگین شرک تھا،اوراس قسم کاشرک عربوں میں غیر معروف تھا۔ (دیکھیے تقی الدین ابن شہاب الدین ابن تیمیہ،”قاعدہ فی القتال ا لکفار”(رسالۃ القتال)،فی الجوبۃ المسائل (القاہرہ:مطبعۃ السنۃ المحمدیہ 1949ء) ص 132، 133۔)
تاہم چونکہ رسول اللہﷺ نے بعض مجوس سے جزیہ لیا تھا اور اسی طرح انہوں(ﷺ)نے صحابہ کو ہدایت کی تھی کہ ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبائح کی حرمت کے ماسوا دیگر امور مجوس کے ساتھ اہلِ کتاب کا سا سلوک کیاجائے۔(صحیح البخاری،کتاب الجزیہ،باب الجزیہ والموادعۃ مع اھل الحرب،حدیث رقم 2923)۔ اس سے ثابت ہوا کہ جزیہ نا لینے کا حکم مشرکین عرب کیساتھ خاص تھا ۔

بعض روایات میں آپ ﷺ کی یہ ہدایت بھی مذکور ہوئی ہےکہ نکاح اور ذبیحے کی حرمت کے ماسوا دیگر امور مجوس کے ساتھ اہلِ کتاب کا سا برتاؤ کیاجائے۔(ابوعبید قاسم بن سلام، کتاب الاموال(القاہرہ:دارالفکر 1953ء) ص 30، مصنف ابن شیبۃ،ج3،ص 488)ان روایات پر اگر چہ سند کے لحاظ سےبعض لوگوں نے کلام کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں تلقی بالقبول حاصل ہےکیونکہ ان میں بیان شدہ حکم دیگرنصوص کے عین موافق ہے۔چنانچہ امام محمد بن الحسن الشیبانی نے اسکوثابت شدہ سنت کے طور پر پیش کیا ہے۔السنۃ ان تؤخز الجزیۃ من المجوس من غیر ان تنکح نساؤھم ولا تؤکل ذبائحھم۔(موطاءالامام محمد ، باب الجزیۃ،حدیث رقم334)۔
اسی بناء پر شافعی فقہاء نے یہ رائے اختیار کی اہلِ مجوس بھی اہلِ کتاب میں شامل ہیں۔چنانچہ انھوں نے یہ قاعدہ عامہ وضع کیا کہ جزیہ صرف اہلِ کتاب یا شبہِ اہلِ کتاب سے ہی لیا جاسکتاہےاور مجوس بھی اصلاََ اہلِ کتاب تھے لیکن ان کی کتاب ضائع ہوگئی۔ (کتاب الام،ج،ص: ابواسحاق ابراہیم بن علی الشیرازی،المھذب فی فقہ الشافی ؒ(بیروت؛دارالمعرفۃ 2003ء) کتا ب السیر،باب الجزیۃ،ج3،ص483، 484۔)اس کے برعکس حنفی فقہاء کی رائےیہ ہے کہ مجوس کواہلِ کتاب نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قرآن و حدیث میں”اہلِ کتاب”کی ترکیب صرف یہود اور نصاریٰ کے لیے استعمال کی گئی ہے۔مثال کے طور پر سورۃ الانعام میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ:کہ تم یہ نہ کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر نازل کی گئی اورہم تو انکے پڑھنے پڑھانے سے بےخبر تھے۔(آیت،156)
حافظ ابن حجر عسقلانی درایہ فی تخریج احادیث الھدایہ میں لکھتے ہیں ” کہ عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ نے حسن بن محمد بن حنفیہ کے طریق سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھجر (بحرین میں ایک مقام کا نام ہے ) کے مجوس کے پاس لکھا ان پر اسلام کو پیش کیا جائے ان میں سے جو اسلام لائے تو قبول کرلیا جائے اور جو اسلام نہ لائے تو اس پہ جزیہ لگایا جائے مگر یہ انکی عورتوں سے نکاح نہ کیا جائے اور نہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے “

مذکور حدیث سے معلوم ہوا کہ مجوس سے نکاح جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان کا ذبیحہ درست ہے جبکہ قرآن پاک کی آیت حدیث مبارک اور اجماع امت سے اہل کتاب سے نکاح کا جواز اور انکے ذبیحہ کی حلت ثابت ہے پس اگر یہ اہل کتاب ہوتے تو ان سے بھی نکاح جائز ہوتا ان کا بھی ذبیحہ حلال ہوتا جبکہ حدیث مبارک سے انکے ساتھ نکاح کی حرمت معلوم ہوتی ہے اسی طرح حافظ ابن عبدالبر مالکی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ مجوسیہ سے نکاح جائز نہیں ہے پس معلوم ہوا کہ یہ اہل کتاب نہیں ہے پس جب مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ اہل کتاب نہیں بلکہ مشرک ہیں اور جب یہ اہل کتاب نہیں مشرک ہوئے اسکے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جزیہ قبول کیا ہے تو یہ بات ثابت ہوئی کہ تمام مشرکین سے خواہ بت پرست ہوں یا کوئی اور جزیہ لینا درست ہے سوائے عرب کے مشرکین کے۔

دلیل نمبر 2 : حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنھما اپنے والد سے راوی ہیں، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو سریہ کے لیے روانہ فرماتے تھے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام اس شخص سے فرماتے ” جب تمہیں اپنے مشرک دشمن کا سامنا ہو تو انہیں تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دینا” لمبی حدیث ہے ۔۔۔ پس اگر وہ اسلام میں داخل ہونے سے انکاری ہوں تو ان سے جزیہ کی ادائی کا سوال کرنا۔۔ اور ایک روایت میں ہے جزیہ کا سوال کرنا(رواہ احمد و مسلم وابن ماجہ والترمذی وصححہ یہ حدیث صحیح مسلم ج2 ص82 طحاوی شریف ج 2 ص 113 پہ بھی مختلف اسانید سے مذکور ہے)اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے علامہ شوکانی نیل الاوطار ج7ص133 پہ لکھتے ہیں”حدیث میں مشرک سے جزیہ قبول کرنے کی بات ہے اور لفظ مشرک عام ہے جو کہ ہر طرح کے مشرکین خواہ مجوسی ہو یا غیر مجوسی سب کو شامل ہے پس اس حدیث صحیح سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تمام مشرکین سے خواہ بت پرست ہوں یا مجوس عرب کے ہوں یا عجم کے جزیہ لینا درست ہے۔ چنانچہ امام نووی شافعی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ اس سے مجوس اور غیر مجوس ہر طرح کے مشرکین سے جزیہ لینے کے قائلین استدلال کرتے ہیں۔ اسی طرح علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ ظاہر حدیث کا تقاضہ یہی ہے کہ ہر مشرک سے خواہ مجوسی ہو یا غیر اسکے علاوہ کوئی اور عربی ہو یا غیر عربی جزیہ لینا جائز ہو، اسی طرح علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں” ان الحدیث حجة فی ان قبول الجزیہ لایختص باھل الکتاب” تو اس حدیث صحیح سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ جزیہ اہل کتاب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ حکم ہر مشرک کو عام ہے خواہ مجوسی ہو یا وثنی عربی (مشرکین عرب)ہو یا عجمی لیکن عربی وثنی کو ہم نے اس حکم سے خاص کرلیا ہے کہ اس سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے دو باتوں میں سے ایک بات قبول کی جائے گی اما الاسلام واما السیف اس دلیل کی بناء پہ جس کو ہم ذکر کریں گے۔

٭عربی وثنی(مشرکین عرب) کے اس عام سے تخصیص کی دلیل:
1۔ ابوبکر جصاص نے اس تخصیص پہ اپنی کتاب شرح مختصر طحاوی ج2 ص 13 پہ دلیل دی ہے قول اللہ تعالی ” فاذا انسلخ الاشہر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم وخذوہم واحصروہم واقعدوا لھم کل مرصد فان تابوا واقاموا الصلوۃ وآتوا الزکاة فخلوا سبیلہم ” امام جصاص فرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین عرب کے بارےمیں اتری ہے دلیل اس پر اللہ تعالی کا فرمان ” فاتموا الیہم عھدہم الی مدتہم ” ہے اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت معاہدہ صرف مشرکین عرب سے تھا پس معلوم ہوا کہ مشرکین عرب سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بس صرف اسلام یا تلوار قبول کیا جائے گا ۔
2۔حضرت حسن بصری مرسلا روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عرب سے اسلام پہ قتال کیا جائے اور ان سے اسلام کے علاوہ قبول نہ کیا جائے اور اس بات کا حکم دیا کہ اہل کتاب سے قتال کیا جائے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ جزیہ دیں(۔ رواہ ابو عبید فی الاموال) ” اس حدیث سے واضح طور پہ یہ بات ثابت ہوئی کہ مشرکین عرب سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان سے صرف اور صرف اسلام قبول کیا جائے گا البتہ اس حدیث پر یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ یہ تو مرسل ہے اور مراسیل حجت نہیں تو اس کا جواب یہ ہےکہ جمہور کا مسلک یہ ہےکہ ثقہ تابعی جسکی عادت ثقات سے ہی ارسال کرنے کی ہو اس کی روایت حجت ہوتی ہے اور حضرت حسن بصری کا معاملہ ایسا ہی ہے لہذا انکی روایت حجت ہوگی۔
3۔ ابن حزم ظاہری نے اپنی کتاب “المحلی” ج11ص196 پہ لکھا ہے کہ کسی بھی مسلمان کا اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب وثنیین سے صرف اسلام یا تلوار قبول کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ فرماگئے۔

القصہ مختصر قرآن پاک کی آیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ وثنیین عرب سے صرف اسلام یا تلوار قبول کیا جائے گا یا وہ عرب کو چھوڑ کے کہیں اور چلیں جائیں ۔ وہ ماقبل میں ذکر کئے گئے جزیہ کے حکم سے مستثنی ہیں۔

٭مشرکین و مرتدین کے لیے خصوصی حکم کی وجہ :
سوال مجوس نے شرک کو اس طرح دین بنالیاتھا جیسے مشرکینِ عرب نے کیا تھا بلکہ جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے وضاحت کی ،ان کا شرک زیادہ گھناؤنی قسم کا تھا۔پھر ان کے ساتھ روا رکھے گئے اس مختلف طرزِ عمل کی توجیہہ کیا ہے؟ مشرکین عرب کو بھی جزیہ دے کر رہنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟
اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ جزیرۃ العرب قیامت تک کے لئے توحید کا جغرافیائی مرکز اور قلب اسلام ہے اس سرزمین میں کسی طرح بھی بت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔
دوسری یہ کہ عرب میں آنحضرت سلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا ظہور ہوا اور دلائل نبوت اور براہین رسالت حد اعجاز کو پہنچ گئے اس لیے وہاں اللہ کی حجت پوری ہوگئی۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب الھدایۃ میں مشرکینِ عرب سے متعلق ہے:اما مشرک العرب فلان النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نشا بین اظھرھم، والقرآن نزل بلغتھم، فالمعجزۃ فی حقھم اظھر۔
ترجمہ :جہاں تک مشرکینِ عرب کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان پلے بڑھےاور قرآن ان کی زبان ہی میں نازل ہوا اس لئے ان کے حق میں معجزہ زیادہ واضح تھا۔)برھان الدین المرغینانی، الھدایۃ فی شرح البدایۃ المبتدی(بیروت؛دارالفکر،تاریخ ندارد) کتا ب السیر،باب الجزیۃ،ج 2، ص402۔)
اسکی مزید توضیح میں شارح الھدایۃ جلال الدین الخوارزمی کہتے ہیں:ترجمہ:کیونکہ آپ ﷺ ان کے درمیان پلے بڑھے تھے پس وہ بعثت سے پہلے بھی ان کی حالت سے بخوبی واقف تھے یہاں تک کہ انھوں نے آپﷺ کو امین کا نام دیا تھا،اور وہ یہ بھی جانتے تھے آپﷺجھوٹ سے خود کو بچانے کا حد درجہ اہتمام کرتے ہیں۔پس جو شخص بندوں کے متعلق جھوٹ بات نہ گھڑتا ہو ،وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت نہیں کرسکتاتھا۔پھر قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ،پس وہ اس کے معانی کوزیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے تھے اور اس کی بلاغت اور اعجاز سے دوسروں کے بہ نسبت زیادہ اچھی طرح واقف تھے۔پس انکے حق میں حجتِ قطعی تھی۔ ( الکفایۃ علی ھامش فتح القدیر،ج5،ص292۔)
ہدایہ میں مرتدین سے جزیہ نہ لینے کے حکم کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:واما المرتد فلانہ کفر بربہ بعد ما ھدی الاسلام ووقف علی محاسنہ۔ترجمہ:اور جہاں تک مرتد کا تعلق ہےتو اس سے جزیہ نہ لینے کی وجہ یہ ہےکہ اس نے اسلام کی ہدایت پانے اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہونے کے بعد اپنے رب کا انکار کیا۔۔(الھدایۃ، کتا ب السیر،باب الجزیۃ،ج 2، ص402۔)
اس لیے مشرکینِ عرب اور مرتدین کے ماسوا تمام غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاسکتاہے۔

٭کیا کسی مشرک کو زبردستی گھر سے نکالا یا جلاوطن کیا گیا ؟
تمام کفار سے خواہ وہ اہل کتاب نہ ہوں جزیہ لیکر صلح کرلینا شرعاً جائز قرار دیا گیا لیکن عرب کے بت پرستوں کے سامنے آخر میں یہی آپشن تھیں اسلام یا تلوار یا جلاوطنی۔ لیکن اسکی بھی نوبت نہیں آئی ، جیسا کہ مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ مشرکین عرب تو ان کا سوال عملا پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ سورة براءۃ کے نزول کے بعد تمام مشرکین عرب مسلمان ہوچکے تھے اور اس شرط میں حکمت الٰہی یہی تھی کہ جاہلیت عرب کا شرک پھر یہاں سر نہ اٹھائے ۔آپ کی زندگی میں تمام قبائل عرب مسلمان ہوچکے تھے پھر اگر بت پرستی ہوسکتی ہے تو صرف ارتداد سے مرتد بھی باتفاق ائمہ دین جزیہ دے کر قتل سے نہیں بچ سکتا۔
استفادہ تحریرمولانا عبداللہ اعظمی

  • Usman
    June 9, 2019 at 7:44 pm

    لیکن سر میں نے اسلام کی معتبر ویب سائٹ سے بھی پتہ کیا ہے وہ کہتے ہیں اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جہاد بھی انھیں صورتوں میں نافذ ہوگا کہ یا تو دین قبول کرو یا قتل ۔۔ وہ کہتے ہیں امام شعافی کا ہی قول راجح ہے ؟
    کیا وہ لوگ اس معاملے میں غلط ہیں یا صیح ؟؟ اور امت کا اجماع کس پہ ہے ؟ اگر اس پہ اجماع ہوگا تو پھر آپ کی بات کیسے ٹھیک ہے ؟ یا پھر ایسا ہو سکتا ہے چار اماموں میں سے سب کے الگ قول فعل ہو سکتے ہیں اور اس میں گنجائش ہوتی ہے ؟؟ ان صورتوں میں ملحدین کو کیسے جواب دیا جائے ؟؟؟؟؟

    • ایڈمن
      July 2, 2019 at 1:16 pm

      امام شافعی کی رائے مختلف تھی ، لیکن ہر دور کے حکمرانوں، سپہ سالاروں اور علماء نے احناف کی رائے پر ہی اعتماد کیا اور اسے قرآن و سنت کے قریب سمجھ کر اس پر عمل کیا، اوپر تحریر میں بھی جو انکی طرف سے جو دلائل دیے گئے ہیں انکا راجح ہونا واضح ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ ، اندلس سلطنت سے لے کر مغلیہ سلطنت تک کبھی کسی کو دین قبول نا کرنے کیوجہ سے قتل کیا گیا اور نا جزیہ کیوجہ سے ۔ ہم نے اس پر تاریخ مسلم ہندوستان کے سلسلے میں بھی تفصیلی بات کی ہوئی اور جزیہ کے سیکشن میں بھی ۔ آپ انکو بھی دیکھ سکتے ہیں، ۔
      لیٹ رپلائی پر معذرت

      • usman
        November 9, 2019 at 4:48 pm

        جزاک اللّه خیر ۔
        ایک سوال اور ہے میرا ۔ حدیث پاک میں ہے کہ کسی مسّلم کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ اس پر بھی امام ابو حنیفہ کے علاوہ باقی تینوں اماموں کا ماننا ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ اس پر راجح بات کونسی ہے ؟ اگر کوئی زمی کو قتل کردے تو کیا قانون ہوگا ؟

  • usman
    November 9, 2019 at 5:04 pm

    یا آج کل زمی نہیں بلکہ ملک سب برابر مانے جاتے ہیں جیسے پاکستان میں سب کے لئے ایک طرح کا قانون ہے کہ اگر کوئی کسی کا بھی قتل کرے خواہ مسلمان ہو یا کافر سزا ملتی ہے پھانسی وغیرہ کی ایسی صورت میں حدیث پاک کو کیسے نافذ کیا جائے کہ مسلمان کافر کے بدلے نہیں مارا جائے گا ؟ اور اگر کوئی کسی کافر عورت کے ساتھ زیادتی کر کے مار دے تو اس کی سزا کیا ہوگی ؟ جزاک اللّه

    • ایڈمن
      November 11, 2019 at 3:39 pm

      اسلامی قانون کی نظر میں ایک ذمی کے خون کی بھی وہی قیمت ہے جو ایک مسلمان کے خون کی ہے لہٰذا اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو ناحق قتل کر دے تو اس کے قصاص میں اس کے قاتل مسلمان کو قتل کرنے کا ہی حکم ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ کچھ روایات میں آیا ہے کہ کافر کے قصاص میں مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا، امام کے نزدیک یہاں ” کافر ” سے مراد حربی کافر ہے نہ کہ ذمی چنانچہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک کسی مسلمان کو حربی کافر کے قصاص میں تو قتل نہ کیا جائے لیکن ذمی کے قصاص میں قتل کیا جائے ، امام شافعی کی رائے اس سے برعکس ہے لیکن اس معاملے میں بھی مسلم دنیا میں قبولیت ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو ہی ملی ۔ حضرت عمر و علی کے متعلق بھی کچھ روایات ملتی ہیں جن میں انہوں نے ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password