جہادکےمتعلق ایک آیت اورحدیث پراعتراض

آیت السیف سورۂ توبہ آیت نمبر5:
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ١ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ١ؕ﴾
’’تو جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور اُنھیں گھیرو اور ان کے لیے ہرگھات کی جگہ بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو اُن کا راستہ چھوڑدو۔‘‘

اعتراض :
محمد تو یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے اس وقت تک کافروں سے لڑنے کا حکم دیاگیا ہے، جب تک وہ سب کے سب اسلام قبول نہ کرلیں،تو پھر یہ مصالحت اور کافروں کو اپنے مذہب پر برقرار رکھنے والی بات کیسے مان لی جائے ؟درحقیقت یہ آیت نہ صرف مسلمانوں کے فرضِ منصبی کو واضح کرتی ھے بلکہ غیر مسلموں کے انجام کا بھی اعلان کرتی ھے ، نیز یہ آیت اپنے سے پہلے نازل ھونے والی ان تمام آیات کو منسوخ کر دیتی ھے جن میں حکمت کے ساتھ دعوت دینے ، صبر جمیل کرنے ، جو چاھے وہ ایمان لائے اور جو چاہے کفر کر ے ، جو چاھے ھدایت اختیار کرے ورنہ گمراھی میں پڑا رھے ۔اس آیتِ شمشیر نے ان تمام لوگوں کا کھلا بلیک وارنٹ جاری کر دیا ھے جو مسلمان نہیں ھیں اگرچہ وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی برا ارادہ نہ رکھتے ھوں ، ان کا غیر مسلم ھونا ھی ان کا خون مباح کرنے کے لئے کافی ھے –

تبصرہ :
سورۃ التوبہ کی پہلی پانچ آیات کے متعلق گزشتہ تحریر میں اس آیت کے تفسیر بھی پیش کی جاچکی ہے کہ یہ بیان مشرکین عرب کے متعلق تھا ۔ در حقیقت ناقدینِ اسلام اس آیت کا حوالہ سیاق و سباق سے ہٹ کردیتے ہیں۔ آیت کے سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اس سورت کا مطالعہ آیت نمبر 1 سے شروع کیا جائے۔ جو یہ ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جو معاہداتِ امن ہوئے تھے، ان سے براءت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس براءت( معاہدات کی منسوخی )سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود عملاً خلاف قانون ہوگیا کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نظم و ضبط میں دے دیں۔ مشرکین کو اپنا رویہ بدلنے کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا۔
امام ابوبکر جصاص نے اسی تخصیص پر اپنی کتاب شرح مختصر طحاوی ج2 ص 13 پر لکھا ہے : یہ آیت مشرکین عرب کے بارےمیں اتری ہے دلیل اس پر اللہ تعالی کا فرمان اس سے پچھلی آیت” فاتموا الیہم عھدہم الی مدتہم ” “ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی مدت کو پورا کرو (التوبہ ، آیت 4)ہے اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت معاہدہ صرف مشرکین عرب سے تھا۔ قرآن کے اِسی حکم کو اللہ کے رسول ﷺنے((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ))کے الفاظ سے بیان کیا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔ اسکو بھی مخالفین سارے سیناریو سے ہٹ کے پیش کرتے ہیں ۔
((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وُیُـؤْتُوا الزَّکٰوۃَ ‘ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَائَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلاَّ بِحَقِّ الْاِسْلَامِ‘ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ))
’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اُس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد‘ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم نہ کریں اور زکوٰۃ ادانہ کریں۔پس جب وہ یہ کر لیں گے ‘تو اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں گے‘ سوائے اسلام کے حق کے‘اور اُن کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابو واقومواالصلوٰۃ وآتوا الزکٰوۃ،حدیث رقم 24،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الامر بقتال الناس حتیٰ یقول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،حدیث رقم 31(
اِس حدیث مبارکہ میں((الناس))سے مراد مشرکین ہیں چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ((اَنْ اُقَاتِلَ الْمُشْرِکِیْنَ))کے الفاظ آئے ہیں۔یہ حکم خصوصی طور پر مشرکین عرب کے متعلق ہے ، اسکا تاریخی ثبوت مشرکین ہند کے ساتھ دوسری صدی ہجری میں محمد بن قاسم کا رکھا گیا برتاو ہے, مشرکین ہند کو اس وقت سے لے کر مغلیہ دور تک جزیہ(ٹیکس)لے کر رعایا کے طور پر قبول کیا جاتا رہا۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password