موجودہ دورمیں خلافت کےقیام کی عملی صورتیں

خلافت کا قیام اور مسلم مکاتب فکر:
نفاذ اسلام تو دنیا بھر کے اکثر مسلمانوں کی دلی خواہش ہے اور اس کے لیے بیسیوں ممالک میں کسی نہ کسی درجے میں محنت بھی ہو رہی ہے، لیکن بعض بنیادی امور پر ذہن واضح نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مقامات پر یہ محنت اور جدوجہد وہ ثمرات نہیں دے رہی جن کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں اسلامی ریاست اور شرعی حکومت کے حوالے سے کام کرنے والے حلقوں کو چند مختلف دائروں میں تقسیم کر کے اس صورت حال کا زیادہ بہتر طو رپر تجزیہ کیا جا سکتا ہے:
مسلم ممالک کی قومی سیاست میں ایک طبقہ جو اس وقت سب سے زیادہ موثر، فعال اور با وسائل ہے، ان لوگوں پرمشتمل ہے جو مسلمان ہونے کے ناتے سے اسلام کا نام ضرور لیتے ہیں، لیکن ان کے ذہن میں اسلام کے ایک نظام ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، بلکہ نفاذ اسلام یا کسی اسلامی قانون کی ترویج کے مطالبہ پر انھیں تعجب ہوتا ہے اور وہ اسے ’’بے وقت کی راگنی‘‘ سمجھتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران طبقات زیادہ تر ایسے ہی افراد پر مشتمل ہیں اور ایک اسلامی ریاست کی تشکیل یا کسی مسلمان ملک میں قرآن وسنت کے قوانین کے عملی نفاذ کی راہ میں وہ ایک مضبوط رکاوٹ ہیں۔
ایک طبقہ وہ ہے جو نفاذ اسلام کے عنوان سے گھبراتا تو نہیں، لیکن اس کے نزدیک اسلام صرف چند اسلامی عبادات وشعائر کا نام ہے اور وہ عبادات واخلاق کے دائرے سے ہٹ کر نفاذ کے درجے میں اسلامی قانون اور شریعت کے کسی ضابطے کو رو بہ عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ مسلم ممالک کی قومی سیاست میں ایسے افراد بھی بکثرت موجود ہیں اور بد قسمتی سے سیکولر حلقوں کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو ہی اسلامی حلقے تصور کر کے عام مسلمان ان سے اس قسم کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو پوری نہ ہونے پر مایوسی پھیلتی ہے۔
ایک طبقہ وہ ہے جو فی الواقع نفاذ اسلام کا خواہاں ہے اور یہ لوگ ملک کے دستور وقانون میں قرآن وسنت کی بالادستی اور اس پر عمل درآمد پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے، رولنگ کلاس کی ذہن سازی، نفاذ اسلام کے لیے ضروری رجال کار کی تیاری اور نفاذ اسلام کے سلسلے میں جدید ذہن کے اشکالات واعتراضات کا منطقی طور پر جواب دے کر اس کی تشفی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس کی وجہ سے انھیں کسی جگہ بھی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔
ایک طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو رائے عامہ، ووٹ اور سیاسی عمل کے ذریعے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو ’’کارِ بے کاراں‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد اس سارے کام سے کنارہ کش ہو کر خود کو عبادت وریاضت میں مشغول رکھے ہوئے ہے اور نفاذ اسلام کے سارے کام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدیؓ کے ظہور کے ساتھ متعلق سمجھ کر ان کے انتظار میں شب وروز مصروف ہے، جبکہ ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو ان ساری رکاوٹوں اور کوتاہیوں کے رد عمل میں جذباتیت کا شکار ہو کر ہتھیار بکف ہیں اور ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق شہادتوں اور قربانیوں کو اس جدوجہد کا واحد راستہ سمجھے ہوئے ہیں۔
اسلامی نظام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے بھی اسی طرح کی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ وہ ہیں جو جدید سیاسی اور معاشرتی نظریات وافکار کو بالکل مسترد کرتے ہوئے نفاذ اسلام کے عمل کو اب سے صدیوں قبل کے ڈھانچے اور اسٹرکچر کے ساتھ دوبارہ مسلم معاشرے میں لانا ضروری سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اس ناگزیر فرق کو سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ آج کے دور میں نہ تو محض طاقت کو حق حکمرانی کا جواز قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی خاندانی تقدس ووجاہت کسی کے حق حکمرانی کی وجہ بن سکتا ہے، جبکہ آج کا دور حق حکمرانی کے حوالے سے خلافت راشدہ کے نکتہ آغاز کی طرف واپس جا چکا ہے کہ حق حکمرانی صرف اس کو حاصل ہوگا جسے عوام کے اعتماد وقبول کی سند حاصل ہوگی۔
نفاذ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو ان لوگوں کی تکفیر کو ضروری سمجھتی ہے جو ان کے تجویز کردہ نقشے اور طریق کار سے اتفاق نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے خیال میں نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ان کی جدوجہد میں کسی سطح پر مزاحم ہوتے ہیں یا ان کا اس طرح ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس طرح وہ چاہتے ہیں اور بات صرف تکفیر تک نہیں رکتی، بلکہ تکفیر کے بعد انھیں راستے سے ہٹا دینا بھی جہاد کا لازمی حصہ قرار پاتا ہے۔
مغربی فکر وفلسفہ کو بالکل مسترد کر دینے یا کلیتاً قبول کر لینے کی دو انتہاؤں کے درمیان ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ کا قائل ہے، لیکن جدید سیاسی نظریات اور اسلام کے سیاسی نظام کے درمیان مطابقت وموافقت اور مخالفت وتفاوت کو واضح کرنے کے لیے جس علمی محنت اور جگر کاوی کی ضرورت ہے، وہ بالکل مفقود دکھائی دیتی ہے۔

خلافت کے قیام کی قابل عمل صورت:
بنیادی طور آج کے دور میں خلافت کے قیام کی قابل عمل صورت اور نفاذِ اسلام کے حوالہ سے دو ذہن پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی عمل اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ اسلام نافذ ہو جائے گا، اور دوسرا یہ کہ ہتھیار اٹھائے بغیر اور مقتدر قوتوں سے جنگ لڑے بغیر اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف صرف پارلیمانی قوت پر انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہتھیار اٹھا کر عسکری قوت کے ذریعہ مقتدر قوتوں سے جنگ لڑنے کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے، میری طالب علمانہ رائے میں یہ دونوں طریقے ٹھیک نہیں ہیں۔ صرف الیکشن، جمہوریت اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ نفاذ اسلام اس ملک میں موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے، اور ہتھیار اٹھا کر حکمران طبقات کے ساتھ جنگ کرنا اس کے شرعی جواز یا عدم جواز کی بحث سے قطع نظر بھی عملاً مؤثر اور نتیجہ خیز نہیں ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ کسی مسلم ریاست میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی شرائط فقہاء کرامؒ نے کیا بیان کی ہیں، اور خاص طور پر جمہور فقہائے احناف کا موقف اس سلسلہ میں کیالکھا ہے۔ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عسکری گروپوں کے لیے ملک کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے جنگ لڑ کر کوئی علاقہ حاصل کر لینا اور اس پر قبضہ برقرار رکھ کر اس میں کوئی نظام نافذ کر لینا ممکن بھی ہے؟؟
میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ہوش مند شخص اس سوال کا جواب اثبات میں دے گا، اس لیے ہمیں اس سلسلہ میں جدوجہد کے طریق کار کی حد تک ہمیں ایران کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایران کی مذہبی قیادت نے شاہ ایران کی قیادت سے انحراف کر کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ذہن سازی اور فکری بیداری کی جولانگاہ بنایا، مسلسل سترہ برس تک محنت کے ذریعے اگلی نسل کو اس کے لیے تیار کر کے اسے اپنی قوت بنایا، اور اس قوت کے ذریعہ ہتھیار اٹھائے بغیر سٹریٹ پاور اور تحریکی قوت کے نتیجے میں شاہ ایران کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔میں ایرانیوں کے مذہب کی نہیں بلکہ ان کی جدوجہد کے طریق کار کی بات کر رہا ہوں کہ ان کے کامیاب تجربہ کو سامنے رکھ کر کیا ہم اپنی جدوجہد کا طریق کار طے نہیں کر سکتے؟ اگر کچھ دوستوں کو یہ حوالہ میرے قلم سے پسند نہ آرہا ہو تو میں امریکہ کے سیاہ فاموں کی اس جدوجہد کا حوالہ دینا چاہوں گا جو اب سے صرف پون صدی قبل کالوں کو گوروں کے برابر شہری حقوق دلوانے کے لیے منظم کی گئی تھی۔ ایک مذہبی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فاموں کی سٹریٹ پاور کو منظم کیا، پرُ امن احتجاجی تحریک کو آگے بڑھایا اور صرف دو عشروں کی جدوجہد سے ۱۹۶۴ء میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے سیاہ فام آبادی کے لیے سفید فاموں کے برابر شہری حقوق کی دستاویز پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوگیا۔
میں نے دونوں تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے، دونوں کے مراکز میں گیا ہوں، ان کے راہ نماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے واقف ہوں۔ میں افغانستان بھی گیا ہوں، بار بار گیا ہوں، روسی استعمار کے خلاف جہاد میں مختلف جنگی محاذوں پر حاضری دی ہے، افغان مجاہدین کی روسی استعمار کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں شریک ہوا ہوں، امریکی استعمار کے خلاف ان کی جنگ کو بھی جہاد سمجھتا ہوں اور حتی الوسع اسےاخلاقی اور سیاسی طور پر سپورٹ کرتا ہوں۔ اس کے باوجود پورے شرح صدر اور دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ دینی تصلب اور حمیت و غیرت میں تو بلاشبہ افغان مجاہدین اور افغان طالبان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد کے طریق کار کے حوالہ سے ہمیں ایران کی مذہبی تحریک کا مطالعہ کرنا ہوگا اور مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر پُر امن عوامی تحریک اور رائے عامہ کی منظم قوت کے ذریعہ ’’امامت‘‘ کو دستوری شکل دے کر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے تو ’’خلافت‘‘ کے احیاء و قیام کے لیے یہ قوت آخر کیوں کام میں نہیں لائی جا سکتی؟
تحریر: مولانا زاہد الراشدی صاحب

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password