خلافت-فکرفراہیؒ واصلاحیؒ کی روشنی میں

12اپریل 2017ء کے ایک کالم میں جناب خورشید احمد ندیم نے محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے جوابی بیانیے کے الفاظ کو نکات کی شکل میں ملخص کر کے پیش فرمایا ہے۔ بات پرانی ہے، اس پر لکھا بھی بہت کچھ جا چکا ہے۔ ان سطور میں پہلے سوال پر گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیا خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے؟ ”دینی اصطلاح“ ہونے کا تعلق ظاہر ہے قرآن وسنت کے فہم سے عبارت ہے جسے وحی کا دروازہ بند ہونے کے بعد انسان سمجھ کر اخذ کرتے ہیں۔ ان میں کچھ چیزیں تو ایسی بدیہی ہوتی ہیں کہ ان کا انکار ممکن نہیں ہوتا، جب کہ کچھ چیزیں فہم و استنباط سے تعلق رکھی ہیں؛ البتہ اگر فہم و استنباط کو ہر عصر و مصر میں پذیرائی مل چکی ہو تو یہ اس فہم کے نہایت مضبوط ہونے کا ایک قرینہ ہوتا ہے، کیوں کہ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ میری امت گم راہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ خلافت کے دینی اصطلاح ہونے پر مسلم فکری روایت میں تو کافی کچھ موجود ہے، البتہ یہاں خود اس مدرسۂ فکر میں تصورِ خلافت پر جو کچھ موجود ہے، اسے ان سطور میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس مدرسۂ فکر کو محترم جاوید صاحب ”دبستانِ شبلی“ کا نام دیتے ہیں۔ (مقامات، ص 54) وہ فرماتے ہیں کہ ”اس دبستان میں جس شخص کو امام العصر کہنا چاہیے، وہ تنہا حمید الدین فراہی ہیں۔ ”اور“ آنے والے دور کی امامت دبستان شبلی کے لیے مقدر ہے۔ تاریخ کے مرسح پر اب پس پردہ اسی کے ظہور کی تیاری ہو رہی ہے۔“ (ص 60)
سورۂ عصر کی تفسیر میں مولانا حمید الدین فراہی ایک عنوان قائم کرتے ہیں:
لفظ وتواصوا سے خلافت کا وجوب“؛ اس کے تحت انھوں نے لکھا ہے: ”انسان کی عام نامرادی بیان کرنے کے بعد ان لوگوں کی خصوصیات بیان کیں جو اس حیات چند روزہ کے بدلے ابدی مسرت و کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ان لوگوں کی تین خصوصیتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایمان، عملِ صالح اور تواصی۔ ان تین صفتوں نے اپنے اندردنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹ لی ہیں۔ جو لوگ اس کلام پر غور کریں گے، وہ محسوس کریں گے کہ باجود غایت ایجاز ان الفاظ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ نیکی اور بھلائی کی قسم کی کوئی بات ان کے دائرہ سے باہر نہیں رہ گئی ہے۔ ایمان تمام عقائد کا شیرازہ ہے۔ عمل صلاح تمام شعیرت کا مجموعہ ہے اور توااصی ایک رتبہ کمال و فضیلت ہے جو اللہ تعالی نے اس امت کے لیے مخصوص فرمایا اور اس امت میں سے بھی خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اس کے رنما ہیں، کیوں کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اصل ذمہ داری انہی پر ہے۔ اس تواصی کے ذریعے اللہ تعالی نے اس امت کی شیرازہ بندی فرمائی ہے اور ان کو اختلاف و نزاع کے تامم خطروں سے محفوظ کر کے بھائی بھائی بنا دیا ہے۔ جب تک امت کے اندر یہ نظام باقی رہا، اس کے قدم برابر ترقی کی راہوں میں بڑھتے رہے، جیسا کہ اوائل خلافت میں ہم دیکھتے ہیں لیکن جب یہ نظام درہم برہم ہو گیا، تو دفعتا بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔ قرآن کی آیتِ ذیل میں اس فریضہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ امَّۃ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاولَئِكَ ھمُ الْمُفْلِحُونَ (104)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس امت کے اہم فرائض میں سے ہے۔ چناں چہ اس کے متعلق دوسری آیات بھی وارد ہیں۔ لیکن یہ امر واضح رہے کہ اس کی اصلی ذمہ داری، جیسا کہ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ امۃ سے متبادر ہوتا ہے، امت کے لیڈروں پر ہے۔ البتہ تواصی فرضِ عام ہے جس میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ اس سے معاملہ کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملِ صالح کریں، پھر اداے حقوق کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست کے ناممکن ہے، اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں اور خلافت کا قیام چوں کہ اطاعتِ امیر پر منحصر ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر اطاعت بھی موجود ہو۔“ (مجموعہ تفاسیر فراہی، 342- 344)
مذکورہ بالا آیت سے پہلے اور مابعد کی آیات کو چوں کہ مولانا فراہی نے فریضۂ خلافت کی قرآنی اصل قرار دیا ہے، اس لیے مولانا امین احسن اصلاحی نے ان آیات کے تحت جو کچھ لکھا ہے، اس پر مولانا اصلاحی کی ان آیات کی تفسیر سے صحیح روشنی پڑتی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
خلافت کے قیام کا بنیادی مقصد: یہ، امت کو اس اہتمام و انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل اللہ پر قائم رہنے، اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات و منکرات ہیں اور ان کے لیے امر و نہی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے بلکہ اختیاراور قوت سے اس کو نافذ کرنا ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ امت کی طرف سے سیاسی اقتدار و اختیار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مدنظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے “یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ کے الفاظ کافی تھے۔ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ؛ (الآیہ) کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے نزدیک اس آیت سے اس امت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلا کام جو کیا وہ خلافت علی منہاج النبوت کا قیام تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اس امر کی نگرانی کرے کہ مسلمان اعتصام باللہ کے نصب العین سے ہٹنے نہ پائیں۔ اس کے لیے جو طریقے اس کو اختیار کرنے تھے وہ اصولی طور پر تین تھے۔ دعوت الی الخیر، امر بالمعروف، نہی عن المنکر۔ انہی تین سے خلاف راشدہ کے دور میں وہ تمام شعبے وجود میں آئے جو ملت کی تمام داخلی و خارجی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کا ذریعہ بنے۔ وَاُولٰئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ کا تعلق صرف اس مخصوص گروہ ہی سے نہیں ہے بلکہ یہ اشارہ پوری امت کی طرف ہے کہ جو امت اعتصام باللہ کے لیے یہ اہتمام کرے گی وہی دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل کرنے والی بنے گی۔“(تدبرقرآن )
سورۂ صافات کی آیت 167 میں مولانا اصلاحی ایک گروہ پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” آج کتنے لوگ ہیں جو بڑے طنطنہ کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ میں حکومت کی باگ پکڑا دی جائے تو وہ دنیا کو خلافت فاروقی کا جلوہ ازسرنو دکھا دیں گے لیکن جب ان کا امتحان ہوتا ہے تو وہ پہلے ہی قدم پر بالکل نالائق، خائن اور چور ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم نکلتے ہیں جو اس ذمہ داری کے اہل ثابت ہوں اور ان لوگوں کے اندر تو ایک بھی اہل نہیں نکلتا جو بڑے بلند بانگ دعاوی کے ساتھ اس کے مدعی بن کر اٹھتے ہیں۔ اس دنیا کی پوری تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے۔“ یہاں بھی ”جو اس ذمہ داری کے اہل“ کے الفاظ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی “ذمہ داری“ بہرحال ہے۔
سورۂ اعراف کی آیت 69 میں ہے:وَاذْكُرُوا اذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ۔
اس کی تفسیر میں مولانا اصلاحی لکھتے ہیں: ”قوم نوحؑ کے بعد عاد کو خلافت دیے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو بعینہٖ اسی علاقے میں اقتدار حاصل ہوا جس میں قوم نوح کو حاصل ہوا۔ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ قوم نوحؑ بالکل شمال میں تھی اور عاد کا علاقہ عرب کا جنوبی علاقہ تھا۔ اس خلافت کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح قوم نوحؑ کو اقتدار و تمکن حاصل ہوا اسی طرح ان کے بعد تم کو حاصل ہوا۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں جو لفظ ”خلفاء“ آیا ہے، اس کی وضاحت مولانا اصلاحی کے نزدیک سیاسی تمکن اور اقتدار ہی ہے۔
سورۂ انبیاء میں ہے:وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ اذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ اذْ نَفَشَتْ فِيہِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِھمْ شَاھدِينَ۔
اس کی وضاحت میں مولانا اصلاحی نے لکھا ہے:
”یعنی ہم اس خاندان کے لوگوں کو اپنی زمین میں حکومت دے کر بالکل الگ تھلگ نہیں جا بیٹھے تھے بلکہ دیکھتے رہے تھے کہ وہ کیا بناتے ہیں، رعایا کے اندر امن و عدل قائم کرنے کا ان کو کتنا احساس ہے، اور اپنی ذمہ داریوں کے معاملے میں وہ کتنے زیرک، کتنے محتاط اور کتنے بے نفس اور غیر جانب دار ہیں۔ چنانچہ ان باپ بیٹے نے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں اس منصب کے پوری طرح اہل ہیں۔ بیٹے نے جونہی محسوس کیا کہ باپ سے درباب عدل لغزش ہوئی اس نے اپنا حق نصیحت ادا کیا اور باپ نے جونہی محسوس کیا کہ بیٹے کی رائے زیادہ قرین عدل ہے بے چون و چرا اس نے حق کے آگے اپنے آپ کو جھکا دیا۔ یہی کردار حکمرانی کا اصل جوہر ہے اور اللہ تعالیٰ جن کو اپنی زمین میں خلافت دیتا ہے اسی جوہر کر پرکھنے کے لیے دیتا ہے۔“
تفسیر کا سیاق وسباق واضح طور پر بتاتا ہے کہ یہاں مولانا اصلاحی خلافت کو حکمرانی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
سورۂ بقرہ میں قتلِ جالوت کی آیت (بقرہ:251) کے ضمن میں مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:
”یہ ان انعامات کا بیان ہے جو اس واقعے کے بعد حضرت داؤد پر ہوئے۔ اس کے بعد وہ طالوت کے داماد بھی ہو گئے اور پھر بنی اسرائیل کے بادشاہ بھی۔ علاوہ ازیں ان کو حکمت کا وہ خزانہ بھی عطا ہوا جس کا مظہر زبور ہے۔ درحقیقت یہی حکمت ہے جس کا جوڑ جب بادشاہی کے ساتھ ملتا ہے تو وہ بادشاہی زمین میں خدا کی خلافت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ یہ نہ ہو تو بادشاہی چنگیزی ہے۔ بادشاہی اور درویشی کا یہی امتزاج ہے جو اللہ کی نظروں میں پسندیدہ ہے۔ اور حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سب درویش بادشاہ تھے اس لیے کہ ان کی بادشاہی کا تخت و تاج سونے چاندی سے نہیں بلکہ حکمت کے لعل و گہر سے آراستہ ہوا تھا۔“
یہاں یہ الفاظ پھر سے ملاحظہ کیجیے:
”درحقیقت یہی حکمت ہے جس کا جوڑ جب بادشاہی کے ساتھ ملتا ہے تو وہ بادشاہی زمین میں خدا کی خلافت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔“ ان الفاظ سے بہت واضح طور پر یہ سامنے آتا ہے کہ ”بادشاہی“ کے مقابلے میں ”خلافت“ وہ چیز ہے جو اللہ کے مطلوبہ اوصاف کی حکمرانی ہے۔ ”خدا کی خلافت“ کے الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی کے نزدیک یہ محض سیاسی اصطلاح نہیں۔
”تدبرِ قرآن“ کے علاوہ مولانا اصلاحی نے اپنی کتاب ”اسلامی ریاست“ اور ”تزکیۂ نفس“ (جسے مولانا اصلاحی نے اپنی دینی فکر کا لبِ لباب قرار دیا ہے۔) میں بھی اسلام کے نظمِ اجتماعی کی وضاحت میں یہی توجیہات اپنائی ہیں۔
مولانا فراہی اور اصلاحی کی یہ تصریحات بتاتی ہیں کہ تصورِ خلافت، چمنِ اسلام میں کوئی ایسا اجنبی پودا نہیں، جسے ”فتنۂ عجم کی باقیات“ نے ”اپنی کارگاہِ اوہام“ میں تخلیق کر کے انسانیت کواس کے بارے میں ”شَجَرَۃ مُّبَارَكۃ زَيْتُونَۃ لَّا شَرْقِيَّۃ وَلَا غَرْبِيَّۃ“ ہونے کا تاثر دیا ہو؛ بلکہ یہ ”دبستان شبلی“ کی صدا بھی ہے، جس کے لیے ”تاریخ کے مرسح پر پس پردہ ظہور کی تیا ری ہو رہی ہے۔“ معلوم نہیں یہ ”دبستان شبلی“ حقیقت میں وہی مراد ہے جس کے افراد میں مولانا فراہی اور اصلاحی شامل ہیں یا اس کی وہ صورت (کافی حد تک مسخ اور تغیر شدہ) جو محترم جاوید صاحب کے ہاں ملتی ہے۔
اب محترم جاوید صاحب کا یہ کہنا کہ ”خلافت“ سرے سے کوئی دینی اصطلاح ہی نہیں، ظاہر ہے کہ کوئی وحی پر مبنی بات نہیں جس پر اصرار فرمایا جائے، بلکہ ان کا ذاتی فہم ہے۔ اس فہم میں انھیں مخلص بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ایک علمی راے کے طور پر اس کا احترام بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ کہ اس پر اصرار کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اس کے مخالف راے بالکل غلط ہے، وہ سرے سے کوئی دین ہی نہیں، ایک نا مناسب تحکم اور جبر ہوگا۔ جیسا کہ بارہا عرض کیا گیا ہے کہ یہ فہم اور بیانیہ ”قرآن وسنت کے بے لاگ“ مطالعے کے بجائے اصلاً حالات کے جبر، خاص طور پر پوسٹ نائن الیون دور کے حالات کا نتیجہ ہے، لیکن اس کو ”اسلام کا بے غبار فہم“ سمجھنا کافی مشکل ہے۔
اس وقت جو کرنے کا کام ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ کی مہم سے ہٹا کر پرامن جدوجہد کی راہ پر ڈالا جائے۔ تعلیم، فکر، تربیت وتزکیہ کے میدانوں میں وہ خاموشی سے تعمیری مہم پر لگ جائیں۔ ہمارے برصغیر کی تاریخ میں یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مختلف حالات کے تناظر میں “جوابی بیانیہ” کے بجائے “جوابی اقدام” کا ذہن پورے طورپر موجود رہا ہے۔
علماے بنگال میں سے مولانا کرامت علی جونپوری (1800ء- 1873ء) سید احمد شہید کے مرید اور جلیل القدر خلفاء میں سے تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کے فتوے (شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ) کو سختی سے رد کیا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فرائصی تحریک کو ان کے انقلابی سیاسی نظریات خصوصا ان کے تصورِ دارالحرب کی بنا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور انھیں بنگال کے خوارج قرار دیا، اور ہندوستان کو دارالامان اور دارالاسلام قرار دیا۔ جہاد شاملی کے موقع پر علماے دیوبند میں مولانا محمد تھانوی کا مؤقف اس شرکت کے حق میں نہ تھا کہ ہم اس طاقت کے مقابلے میں تیاری نہیں رکھتے۔ ان کے اس مؤقف کی تائید برصغیر کے نہایت جلیل القدر عالمِ دین مولانا احسن صدیقی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی، جس پر ان کی کافی مخالفت بھی ہوئی۔ یہ مواقف اس وقت اگرچہ جمہوری تائید حاصل نہ کر سکے، لیکن موجودہ حالات کی نزاکت میں ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، تاہم دینی تصورات کی ایسی آئیڈیالوجی جس سے امت چودہ سو سال میں آشنا نہ رہی ہو، قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ جہاد کو جب اصول فقہ میں ”حسن لغیرہ“ کہا گیا ہے تو عملی حالات کے تناظر میں اس کے حوالے سے اجتہادی زاویۂ نظر اپنایا جا سکتا ہے۔ برصغیر میں تحریک خلافت جیسی پرشور تحریکوں کے زمانے میں مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ جیسے داعی نے امت کے اصل مرض کی پہچان کر کے پرامن طریقے سے محبت اور انسانیت کے احترام کی اساس پر دعوت کا کام شروع کیا، جس نے آج تک کئی انسانوں کی زندگیوں کو بدلا ہے۔ یہ دعوت بنیادی طور پر ٹکراؤ کی مہم کے بجائے اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کی اساس پر استوار ہوئی ہے، لیکن اس کے اکابر نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مسلم روایت کا فہم اسلام غلط ہے اور اس کے مقابلے میں نئی آئیڈیالوجی پیش کی جائے۔ اصل متوارث دینی فکر کو باقی رکھ کر بھی ہم پرامن اور محبتیں پھیلانے والے ہو سکتے ہیں۔ خوارج نے پرتشدد بیانیہ براہ راست قرآن سے کشید کیا تھا۔ اس کی اساس “مدرسوں میں پڑھائی جانے والی فقہ” نہیں تھی۔
تحریر سیدمتین احمد

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password