جدیددورکوقرون اولی سےبہترسمجھنےوالی ذہنیت کی درماندگی

آج دنیا میں جس پیمانے پر غربت، افلاس، عدم مساوات و استحصال پایا جاتا ھے اسکی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پائے جانے والی غربت، افلاس و عدم مساوات کوئی حادثہ نہیں بلکہ غالب سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا منطقی نتیجہ ھے۔ مگر جدید انسان کا المیہ یہ ھے کہ یہ ایک ایسے نظام کو جو انسانیت کی ایک عظیم اکثریت کو ظلم کی چکی میں پیس رھا ھے اس پرفدا ھوا چلا جارھا ھے اور اسے ہی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے بیٹھا ھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جدید دور کو انسانی تاریخ کا بہترین دور بھی گردانتا ھے۔
سرمایہ داری اور غربت و افلاس کے اس تعلق کی چند بنیادی وجوھات ہیں:
1) مارکیٹ نظم معاشرے کی روایتی اجتماعیتوں کو تحلیل کرکے معاشرتی زندگی کو فرد پر منتج (individualize) کردیتا ھے، یوں عمل صرف انفرادی ھوجاتا ھے
2) مارکیٹ نظم میں ایک فرد کا کل پیداوار میں حصہ اس بنیاد پر متعین ھوتا ھے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی) کی کتنی صلاحیت رکھتا ھے۔ مارکیٹ صرف مستعد (efficient) لیبر ہی کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ھے
3) نفع خوری پر مبنی مارکیٹ نظم کا پابند پیداواری نظام ذرائع کو انہی اشیاء کی پیداوار کیلئے استعمال کرتا ھے جن سے حصول نفع ممکن ھو، لہذا مارکیٹ نظم معاشرے کے اسی طبقے کی خواہشات و ترجیحات کی تسکین کا سامان پیدا کرتا ھے جو زیادہ قیمت ادا کرنے لائق ھوں (مثلا یہ نظام ہر سال امریکی و یورپی عوام کے کتوں اور بلوں یعنی پیٹس (pets) کیلئے اربوں ڈالرز کے کھلونے پیدا کرتا ھے مگر افریقہ اور ایشیا کے غریبوں کیلئے گندم نہیں)
4) سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ سرمائے کی باجگزار ریاست ھوتی ھے لہذا وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ھے جس سے سرمایہ بڑی بڑی کارپوریشنز، صنعتوں اور شہروں میں مرتکز ھوتا چلا جائے

ان سب کے درج ذیل نتائج نکلتے ھیں:
1) آبادی کی وہ اکثریت جو efficient نہ ھونے کی بنا پر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پاتی انکے روزگار کے مواقع ناپید ھوجاتے ہیں، مارکیٹ نظم اور سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع کے عظیم ترین حصے کو بڑے شہروں میں منتقل کردیتی ھے (اور جس کا حصہ بننے کی کوشش میں روایتی اجتماعیتیں تحلیل ھوجاتی ہیں)، یوں معاشی و معاشرتی ناہمواری کو فروغ ملتا ھے
2) عمل صرف کے انفرادی ھونے نیز خاندان اور روایتی اجتماعیتوں کی حفاظت نہ ھونے کی بنا پر یہ عظیم اکثریت غربت و افلاس کا شکار ھوگئ۔ روایتی مذہبی معاشروں میں عمل صرف ہمیشہ اجتماعی (خاندان کے لیول پر مبنی) رھا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا عمل صرف کے لئے سب اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے۔ اسکی جھلک ہمارے موجودہ محدود تصور خاندان (میاں بیوی اور بچے) میں بھی موجود ھے کہ گھر کے کمانے والوں (مثلا باپ یا بڑا بھائی) اور نہ کمانے والوں کا معیار زندگی یکساں ھوتا ھے، ایسا نہیں ھوتا کہ باپ تو مرغ کھاتا ھے مگر بچے دال
3) چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت ھوتا ھے لہذا سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقسیم دولت میں بھی زبردست عدم مساوات پائی جاتی ھے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی چلی جاتی ھے (جو لوگ ایک سائیکل میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ efficient ھوتے ہیں دوسرے سائیکل میں ان دونوں کا فرق بڑھنا لازم بات ھے)
4) ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی اسی طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ھوجاتی ھے جسکے ذریعے یہ پالیسی سازی پر اثر انداز ھوتا ھے۔ یوں کارپوریشنز اور بڑے کاروباری طبقے کے ہاتھ کروڑوں مزدوروں کے استحصال کی قوت آجاتی ھے

درحقیقت غربت، افلاس، استحصال اور سرمایہ داری کا چولی دامن کا ساتھ ھے، یہ ھوہی نہیں سکتا کہ دنیا میں سرمایہ داری عام ھو مگر غربت، افلاس اور استحصال میں اضافہ نہ ھو۔ سرمایہ داری قائم ہی ظلم و بربریت پر ھوتی ھے، یہی اسکی تاریخ ھے۔ مگر اس رویے کا کیا کیا جائے کہ جدید مسلم مفکرین نہ صرف یہ کہ اس دور کو کسی معنی میں قرون اولی سے برتر سمجھ رھے ھیں بلکہ اسی کے اندر اور اسی کے تناظر میں اسلام کی ‘قابل عمل’ تشریح کرنے کا خواہش مند بھی ھیں۔

پھر یہ تماشا بھی دیکھئے کہ ایک ایسا نظام جو ”عملا” انسانی تاریخ کی بدترین عدم مساوات و معاشرتی ناہمواری کو فروغ دیتا رھا اور دے رھا ھے جدید ذھن اسکے ‘فروغ مساوات’ کے ”اصول” پر اس قدر راسخ یقین رکھتا ھے کہ اسی نظام کے فروغ سے اس وعدے کی تعبیر کی امید لگائے بیٹھا ھے۔
اسے کہتے ہیں ”ایمان” جو نظام کا جبر عام لوگوں میں پیدا کرتا ھے۔ جو مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو ختم کئے بغیر عوام الناس کو جوق در جوق اسلام کی طرف راغب کرنا ممکن ھے وہ خیالی جنت میں رھتے ہیں۔
تحریر : زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password