کیاسنت صرف ‘تواترعملی’ سے ثابت ہے؟

فکر ِاصلاحی وغامدی کا تجزیہ:
حدیث و سنت کے حوالے سے مولاناامین احسن اصلاحی وغامدی صاحبان کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ سنّت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کی وہ تفصیل ہے جو قرآن کی طرح تواتر ِعملی سے ثابت ہوتی ہے، لہٰذا قطعی الثبوت ہے، قرآن کی طرح اہم، اس کے قالب کیلئے مثل روح اور اسی کی طرح حجت ہے۔ اس کا انکار قرآن کا انکار ہے اور وہ حدیث پر مُہیمن ہے۔باقی حدیث ان کے نزدیک سنت کا تحریری ریکارڈ ہے جو تواتر سے ثابت نہ ہونے کی بنا پر ‘ خبر واحد’ کا درجہ رکھتی ہے ۔ ظنی الثبوت ، مجموعہ رطب و یابس اور صحت کے لحاظ سے ناقابل اعتماد ہے لہٰذا فہم قرآن کے حوالے سے بنیادی اور کلی طور پر اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا ۔ (مولانا امین احسن اصلاحی ، مبادیٴ تد بر حدیث ، باب اول و دوم خصوصاً ص ۱۹ ،۲۸ ،۳۸ ،۴۱ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور ، ۲۰۰۰ء … مولانا امین احسن اصلاحی ، مبادیٴ تدبر قرآن ، ص ۵۲ ، ۱۶۹ و مابعد ، دارالاشاعت الاسلامیہ لاہو ر ، ۱۹۷۱ء … مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن ، جلد اوّل مقدمہ ، ص ب و مابعد ، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور ، ۱۹۷۶ء)
زمینی حقائق یہ ہیں کہ سنت محض ‘ تواتر عملی’ سے ثابت ہی نہیں ہوتی لہٰذا جس چیز کو یہ ‘ سنت’ کہہ رہے ہیں وہ محض ایک نظری بات ہے اور نظری لحاظ سے تو سنت کی حجیت پرساری اُمت متفق ہے کہ اس پر تو مدارِ ایمان ہے کہ خود قرآن کی رو سے حضور کی اطاعت واجب ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال فرما جانے کے بعد آپ کی وہ سنت کہاں ہے جس کی اطاعت کی جائے ؟اس بارے میں جمہور اُمت کا موقف یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جاننے کا ذریعہ وہ صحیح احادیث ہیں جو ثقہ راویوں سے مروی ہیں، جب کہ کچھ منکرین حدیث اور ہمارے یہ متجددین ایسا نہیں سمجھتے ۔یہ حدیث کو خبر واحد ، ظنی الثبوت اور مجموعہ رطب و یابس کہہ کر اسے اہمیت نہیں دیتے اور سنت اسی کو مانتے ہیں جو صرف تواتر عملی سے ثابت شدہ ہو۔

سنت کا ثبوت – تواتر عملی کی پہیلی :
سنت کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے ؟غامدی صاحب کے استاد اصلاحی صاحب کے نزدیک اس کا جواب ہے’ تواتر عملی’ … وہ لکھتے ہیں
“جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے مثلاً ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تمام تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیارکیں کہ ان کو چند راویوں نے بیان کیا بلکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے، ان سے تابعین پھر تبع تابعین نے سیکھا ۔ اس طرح بعد والے اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے ۔( اصلاحی ، مبادیٴ تدبر حدیث ، ص ۲۸)
مولانا نے نماز اور حج کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تواتر عملی سے ثابت ہوتے ہیں ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ نماز اور حج کے بارے میں بنیادی احکام تو قرآن مجید میں بھی موجود ہیں ، ہمیں نشاندہی کی جائے کہ وہ کون سے تفصیلی (فروعی) احکام ہیں جو تواتر عملی سے ثابت ہوتے ہیں ؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ پچھلی صدیوں میں مسلمانوں نے نماز اور حج کے بارے میں جو بدعتیں ایجاد کر لی ہیں اور جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں کیا وہ بھی سنت ِثابتہ ہیں ؟( کہ آپ کی تعریف کی رو سے تو وہ سنت ثابتہ ہی ہونی چاہئیں!) اور اگر وہ سنت ثابتہ نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں ؟ اور اس امر کی وضاحت بھی کی جائے کہ سنت ثابتہ اور بدعت میں فرق کیسے کیاجائے گا ؟۔
مولانا چونکہ ذہین آدمی تھے اس لیے انہوں نے خود ہی محسوس کر لیا کہ ‘ تواتر عملی’ کی جو تعریف انہوں نے کی ہے، اس میں وہ پھنس جائیں گے لہٰذا انہوں نے اگلے پیرا گراف میں اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کی اور کہا
” یہاں اس امرکو بھی ذہن نشین رکھیے کہ امت کے عملی تواتر سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاے راشدین اور صحابہ کا عمل ہے جیسا کہ ارشاد ہے “« فعليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين»”(کہ دین کا مرکز یہی گروہ ہے۔ اس وقت جو بھیڑ ایسے اعمال کی حامل ہے جو قرآن و سنت سے صریحاً متناقض ہیں تو یہ سب اہل بدعت ہیں”۔( ایضاً: ص ۲۹)
لیجئے پچھلے پیراگراف میں تواتر عملی کی جو صورت انہوں نے بیان کی تھی، اس پیراگراف میں انہوں نے اس کی خود ہی تردید کر دی۔ یہ صریح تناقض ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی ۔ پچھلے پیرا گراف میں انہوں نے کہا تھا کہ سنت قرآن کی طرح تواتر عملی سے ثابت ہے جسے آپ سے صحابہ کرام نے ان سے تابعین پھر تبع تابعین نے اور اس طرح ہر نسل پہلی نسل سے قرآن کی طرح لیتی رہی ۔ اب بعد والے پیراگراف میں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ بعد والی نسلوں میں تو بدعات داخل ہو گئی تھیں لہٰذا سنت کا تواتر ِعملی صرف ‘ ایک نسل ‘ تک محدودہے یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ تک اور سارے صحابہ تک بھی نہیں صرف خلفاءِ راشدین تک اور اس کی دلیل بھی کیا دی ؟ فعليکم بسنتی… الحديث یعنی ایک خبر واحد جو ظنی الثبوت اور ان کے نزدیک ناقابل اعتماد ہے۔
یعنی تاثر آپ نے یوں دیا کہ ‘ تواتر ِعملی’ گویا ایک سمندر ہے پھر جب بات کا پیچھا کیا تو بات دریاؤں ، نہروں ، ندی نالوں سے ہوتی ہوئی اس منبع تک پہنچ گئی جہاں سوئی کی طرح ایک دہانے سے پتلی سے دھار نکل رہی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اگر’ تواتر عملی’ محض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ بلکہ صرف خلفاء راشدین تک محدودہے تو اسے قرآن کے تواتر عملی کی طرح حجت کیسے کہا جا سکتا ہے؟ کہ قرآن کا تواتر تو آج بھی جاری ہے۔ پھراس ایک نسل یا چند افراد کے تواتر پر وہ نتائج کیسے مرتب ہو سکتے ہیں جو قرآن کے نسل درنسل تواتر پر مرتب ہوتے ہیں ؟
اہم ترین سوال یہ کہ اگر یہ تواتر صرف عہد ِصحابہ تک محدود تھا تو پھر آج یہ تواتر ہمیں کیسے معلوم ہو گا ؟ اس تواتر کی ہم تک منتقلی کا ذریعہ کیا ہے ؟ تواتر عملی کی سند کہاں ہے؟ چودہ صدیوں میں ایک عمل ہر صدی میں امت مسلمہ میں رائج رہا ہے اور میں اور آپ اس وقت چودھویں صدی میں ہیں تو ہمارے پاس پہلی تیرہ صدیوں میں جھانک کر دیکھنے کا کیا ذریعہ ہے کہ یہ عمل ان صدیوں میں بھی امت مسلمہ میں رائج تھا یا نہیں؟ اور اگر اس میں بدعتیں رائج ہوئیں تو اب ان میں تفریق کرنے کا ذریعہ یا معیار کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ تواتر عملی کو جانے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے خبر کا ذریعہ۔ آپ اسے تاریخ کہہ لیں یا روایت اس سے آپ کی جان نہیں چھوٹنے والی۔کسی عمل کا تواتر علمی سے ثابت ہونا بغیر خبر کے ممکن ہی نہیں ہے۔ لہذا جو حدیث کی خبر سے بھاگے ہیں، ان کے گلے تاریخ پڑ گئی ہے اور اب تواتر عملی تاریخ سے ثابت کرنے چلے ہیں۔ تو جناب خبر اصل ہوئی یا آپ کا تواتر عملی؟!!
پھر اس سے بڑھ کر یہ لوگ اس سنت کو جو ان کی مزعومہ ‘ تواتر عملی’ سے ثابت ہو، احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مہیمن(نگران) قرار دیتے ہیں۔ اصلاحی صاحب کے الفاظ میں
” اگر روایات کے ریکارڈ میں ان (سنن ثابتہ) کی تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے ۔ اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر دونوں میں فرق ہے تو ترجیح بہرحال اُمت کے عملی تواتر کو حاصل ہو گی۔”
اور بات صرف ترجیح کی نہیں ، بلکہ اگر کسی حدیث کامضمون ان کی رائے میں اس ‘سنت ِثابتہ’ کے خلاف ہو تو اسے ردکر دیا جائے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں
” اگر کسی معاملے میں اخبارِ احاد ایسی ہیں کہ عملی تواتر کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں ہو رہی ہے تو ان کی توجیہ تلاش کی جائے گی ۔ اگر توجیہ نہیں ہو سکے گی تو بہرحال انہیں مجبوراً چھوڑا جائے گا اس لیے کہ وہ ظنی ہیں اور سنت ان کے بالمقابل قطعی ہے (مبادی ٴتدبر حدیث ، ص ۲۸)
‘ سنت ِثابتہ’ اور ‘تعامل اُمت’ کو احادیث پر مُہیمن بنانے کی زَد بالآخر کہاں پڑتی ہے اس پر بھی ذرا غور فرما لیجئے ۔ اس وقت مسلم معاشرے میں مختلف دینی شعبوں میں بہت سے بدعتیں رائج ہیں اور بہت جگہ اکثریت ان میں مبتلا ہے ۔اب حدیث کوحجت ِشرعی سمجھنے والوں کے پاس تو ان بدعات کو ردّ کرنے اور سنت کو پہچاننے کے لیے ثقہ راویوں کی روایت کردہ صحیح احادیث موجود ہیں لیکن تواتر عملی اور تعامل امت کو ہی سنت کے جاننے کا ذریعہ سمجھنے والوں کے پاس ایسا کوئی پیمانہ موجود نہیں ۔ انکے اس فلسفے کی بنا پر یہ تمام بدعتیں حجت ِشرعی ٹھہرتی ہیں اور حدیث سے باہر ان کو پرکھنے کی ان کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ
1۔ احادیث و سنن ( جو ثقہ راویوں سے مروی اور صحیح المتن ہوں (آسان الفاظ میں صحیح کی شرائط پر پوری اتریں)) وہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان پر عمل ضروری ہے ۔
2۔ محض تواتر عملی یا تعامل امت سے کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ تواتر عملی سے سنت کا اثبات محض ایک یوٹوپیا (تخیل) ہے اور اُمت میں کبھی کسی نے یہ موقف نہیں اپنایا ۔
3۔ مولانا اصلاحی/غامدی صاحبان کا یہ موقف جمہور اُمت کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔ جمہوراُمت کا موقف یہ ہے کہ وہ حدیث و سنن کے صحیح اورثقہ راویوں سے مروی ریکارڈ کو سنت کا مظہر سمجھ کر متبرک اور مقدس گردانتی ہے۔ وہ اسلاف کی ان محنتوں کی قدر کرتی ہے جو انہوں نے اسماء الرجال ، جرح و تعدیل ، تدوین حدیث اور روایت و درایت کے اُصولوں کو مرتب کرکے کی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اس سارے قیمتی ذخیرہٴ علم کی بنا پر قابل اعتماد راویوں سے روایت کردہ صحیح احادیث سے سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم معلوم ہو جاتی ہے لہٰذا ان احادیث پر عمل ضروری ہے ۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password