مذہبی پیشوائیت/ملاازم اور غلام احمد پرویز

پریسٹ ہڈ(Priesthood) یعنی ‘مذہبی پیشوائیت’اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے اسلام کے علاوہ دیگر ادیان، مثلاً نصرانیت، ہندومت اور یہودیت کا تصور ہے۔ لیکن ہمارے ‘مفکر ِقرآن’ جناب چوہدری غلام احمد پرویز صاحب نے مذاہب ِباطلہ سے اس کا تخم لے کر، اسے سرزمین اسلام میں کاشت کیا، اور پھر اس کا ترجمہ’مُلَّا اِزم’ کرتے ہوئے علماے امت، محدثین ِکرام اور فقہاے عظام کو مطعون کرنے کا ذریعہ بنایا۔

پرویز صاحب کا اعتراف:

حالانکہ خود طلوعِ اسلا م میں اس بات کا بارہا اعتراف کیا گیا ہے کہ ‘مذہبی پیشوائیت’ نا م کی کوئی چیز اسلام میں موجود نہیں ہے ۔ مثلا:
”اس مذہب (اسلام) میں نہ رسومات ہیں ، نہ بت پرستی، نہ پیشہ ور مقتدایا نِ مذہب ہیں ، اور نہ کوئی ایسا دینی راہنما جو گناہ اور معصیت سے مبرا ہو۔ یہاں کوئی مجلس بھی مسیحیت کی طرح، چرچ کونسل کی مانند نہیں جو اختلافات و نزاعات کا فیصلہ کرے۔( طلوع اسلام، اپریل، مئی 1958ء،ص 60)
پریسٹ ہڈ یا تھیاکریسی (Theocracy) اصلاً عیسائیت کا تصور ہے، جس نے اسے ایک نظام اور ادارے کے طور پر اختیار کررکھا تھا ، بقولِ پرویز:”تھیا کریسی کا تصور تو پرانا ہے، لیکن اسے بطور نظامِ حکومت، عیسائی کلیسا (چرچ) نے یورپ میں رائج کیا ہے۔( طلوع اسلام، دسمبر1980ء ،ص 61)
ایک اور مقام پرتھیاکریسی کو عیسائیت کا تصور قرار دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ”ازمنہ متوسطہ میں ایک اندازِ حکومت ظہور میں آیا تھا جسے تھیاکریسی کہتے ہیں ۔ اس طرزِ حکومت میں اقتدارِ اعلیٰ مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں رہتا تھا جو خدا کے نام پر لوگوں سے اپنی اطاعت کراتے تھے۔ جب یورپ ان خدائی فوجداروں سے تنگ آگیا تو وہاں (اس طرزِ حکومت کے خلاف) ایک جدید اندازِ حکومت وضع ہوا جس میں مذہبی پیشواؤں کا عمل دخل نہ تھا۔ اس اندازِ حکومت کوسیکولر کی اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ۔( طلوع اسلام،جولائی 1959ء،ص 73)
طلوعِ اسلام، جون 1966ء کے صفحہ نمبر 10 پر واقع اقتباس میں اس تصور کو ہندومت کا تصور بھی قرار دیا گیا ہے۔

‘مذہبی پیشوائیت’ کے تصور کی برآمد کی وجہ :
سوال یہ ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کو ‘ملا ازم’،’مذہبی پیشوائیت’، ‘تھیاکریسی’ یا ‘پریسٹ ہڈ’ کا یہ کھوٹا سکہ اَدیانِ باطلہ سے لے کر بازارِ اسلام میں کیوں لانا پڑا؟ اسکی بہت سی وجوہات تھیں جو اس ساری بحث سے واضح ہونگی ۔
‘مفکر ِقرآن’ صاحب کے تصورِ اسلام اور علماے اُمت کے تصورِ اسلام میں مشرق و مغرب کا سا بعد پایا جاتا ہے۔ علماے کرام کا تصورِ اسلام، قرآن وسنت پر مبنی ہے لیکن ہمارے ‘مفکر قرآن’ صاحب نے سنت ِرسولؐ کی سندیت اور حدیث ِنبوی ؐ کی حجیت سے انکار کرتے ہوئے قرآنِ کریم سے وہ ‘انقلابی اسلام’ ڈھونڈ ڈالاجس کے اجزا سرمایہ دارانہ تہذیب اور اشتراکی تمدن میں بغیرکسی قرآن کے پہلے سے موجود ہیں ۔ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کے نزدیک یہی ‘قرآنی دین’ اور ‘انقلابی اسلام’ ہے۔چونکہ علمائے اسلام پرویز صاحب کے پیش کردہ اس عجمی دین کے منکر اور مخالف ہیں اس لئے انتہائی تحقیر آمیز اور معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے تمام دنیا وجہان کی سمیٹی ہوئی برائیوں کو لفظ ‘ملاَّ’ یا ‘مولوی’ میں سمو کر اسے علما سے منسوب کرتے رہنا ‘مفکر ِقرآن’ کا مستقل شیوہ رہا ہے۔
اس ‘انقلابی عجمی اسلام’ کو متعارف کروانے سے پہلے دین کے پہلے سے موجود تصور اور اسکے حاملین کوبدنام کرنا پرویز صاحب کی مجبوری بھی تھی، اس کے لئے اُنہوں نے ایک ایسی ٹیکنیک اختیار کی جس کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ علما حضرات کو خوب کثرت سے نشانہ بنایا جائے۔ اس مقصد کے لئے اُنہوں نے مُلا کا لیبل تراشا اور سارے جہاں کی نفرتوں کو اسی لفظ میں سمیٹتے ہوئے ہر اس عالم دین پر اس لیبل کو چپکا دیا جو قرآن و سنت کا داعی تھا۔پرویزی مخالفت ِعلما کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ حدیث وسنت کو بھی نشانہ بناکر اسے مشکوک قرار دیتے ہوئے ساقط الاعتبار ٹھہرایا جائے اسکے بعد قرآن کی اپنی پسند اور جدید تہذیب کے معیار کی تشریحات کرنا ممکن ہوجائے گا۔ جہاں تک پہلے کا تعلق ہے، ‘مفکر قرآن’ نے لیبل تراشی کرتے ہوئے لفظ ‘ملا’ کا پیکر ان الفاظ میں پیش کیا ہے :
1. ‘ملا’ کے پیکر کا خمیر ہی نفرت اور خوف سے مرکب ہوتا ہے او ریہ خصوصیت مسلمانوں کے ‘ملا’ ہی کی نہیں ، بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے ‘ملا’کی ہی خصوصیت ہوتی ہے۔ ( طلوع اسلام، مارچ 1967ء ،ص 13)
2. ‘ملا’ کے پاس نہ علم ہوتا ہے، نہ بصیرت؛ نہ دلائل ہوتے ہیں ، نہ براہین۔ ( طلوع اسلام 5 فروری 1955ء،ص 4)
3. حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں اور جس چیز کو یہ قرآن کہہ کرپیش کرتے ہیں ، اس میں قرآن کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ( طلوع اسلام، جون 1956ء،ص 6)
4. یہ لوگ قرآن کے عملاً منکر ہوتے ہیں ۔( طلوع اسلام، فروری 1953ء،ص 10)
مولانا مودودی رحمہ اللہ کے بارے میں ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کا خاص طور پریہ اعلان تھا:
”پاکستان میں ملائیت کے منظم ادارے کے سرخیل سید ابوالاعلیٰ مودودی ہیں ۔( طلوع اسلام، فروری 1953ء،ص 15)
انہی سیدابوالاعلیٰ مودودی کے متعلق کبھی طلوع اسلام نے بقلم پرویز یہ بھی لکھا تھا:
”خدا تعالیٰ نے مولانا موصوف کو اس زمانہ میں اسلام کی خدمت اور ملت ِکی تجدید کے لئے بہرۂ وافر عطا فرمایاہے اور وہ شرحِ صدر، وہ اسلامی بصیرت اور تفقہ فی الدین دیاہے جو مغربی الحاد کے دور میں ہر چیز کا صحیح اِدراک کرکے قرآنِ کریم کی روشنی میں ہر مرض کا تریاق مہیا کرتا ہے۔ ‘ترجمان القرآن’ کاموضوع قرآنِ حکیم ہے۔ ایک طرف وہ قرآن حکیم کی روشنی میں تاریک دلوں کو منور کررہا ہے اور دوسری طرف فرنگی اور مغربی الحاد کے خلاف مسلسل جہاد کرکے مغربی فلسفہ کا رعب دلوں سے نکال رہا ہے۔ قرآنِ حکیم کو منشاے الٰہی کے مطابق صحیح سمجھنا، صحیح اُصولوں پر اس کی نشرواشاعت کرنا، اسلام کے خلاف باطل سرچشموں کا پتہ لگانا او ر اُن کو عقل سلیم کی حجت سے بند کرنا، اسلام کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی مخالفت سے مرعوب نہ ہونا، ذہنیتوں میں یکسر انقلاب پیدا کردینا اور وقت کی مناسبت سے جملہ مشکلات کا حل قرآنِ کریم سے پیش کرنا وغیرہ،وہ خصوصیات ہیں جو بحمداﷲ رسالہ ‘ترجمان القرآن’ کو حاصل ہیں ۔ ہندوستان میں آج کل سیاست کے نام سے جو گمراہی پھیلائی جارہی ہے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اس سے غافل نہیں ہیں او رکتاب وسنت کی روشنی میں مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی بھی فرما رہے ہیں ۔( طلوع اسلام، جولائی 1938ء،ص 73)
لیکن جب پرویز صاحب نے نیا اسلام وضع کیا اور مولانا مودودی سے اس نوساختہ اسلام کے انکار کا جرم سرزد ہوا تو ‘مفکر ِقرآن’ ان کے شرف و امتیاز کو خاک میں ملانے کے لئے یہ کہنے لگے :
”حقیقت یہ ہے کہ مولوی نہ کسی شخص کا خطاب ہے او رنہ کسی زمانہ سے مختص۔یہ ایک ذہنیت ہے۔ پرانا مولوی جو کچھ کہے گا اور کرے گا، ماڈرن مولوی اس سے بہتر مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ البتہ اس کے ہاں انگریزی کے بعض الفاظ کا استعمال ہوگا۔( طلوع اسلام، مئی 1950ء،ص 29)
آگے لکھتے ہیں
”ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اگرچہ تعلیم یافتہ کہلاتا ہے،لیکن ابتدائی تعلیم وتربیت او رماحول کے اثرات اور اپنی فکری صلاحیتوں کے فقدان کے باعث مذہب کے معاملہ میں بالکل عوام جیسا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کا ظاہر ماڈرن ہے، لیکن باطن، اسی دقیانوسی ملائیت کا حامل ۔ ۔ ۔ یہ جماعت، دقیانوسی ملائیت کی پیکر ہے لیکن اُنہوں نے اُسلوبِ نگارش ماڈرن رنگ کا اختیار کررکھا ہے۔ چنانچہ یہ طریق پرانے مولویانہ طریق سے مختلف ہے۔ اس لئے یہ لوگ محض اُسلوبِ بیاں اور طریق استدلال کے فرق کی بنا پر یہ خیال (Impression)عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا پیش کردہ مذہب ملائیت سے مختلف ہے۔اس سے وہ تعلیم یافتہ طبقہ یعنی سوٹ پہننے والاملا ان کا ہم نوا ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے ان کی ظاہری ماڈرنز م بھی قائم رہ جاتی ہے اور قلبی ملائیت کی بھی تسکین ہوجاتی ہے۔( طلوع اسلام، اگست و ستمبر 1952ء،ص 13)

اس سے دو باتیں بالکل واضح ہیں :
اوّلاً یہ کہ ‘مفکر قرآن’ صاحب کے نزدیک مُلّا ہر وہ شخص ہے جو ان کی فکر کو قبول نہیں کرتا، قطع نظر اس کے کہ وہ جدید تعلیم یافتہ ہے یا نہیں ۔ وہ اپنی فکر سے بیگانہ افراد کو خواہ ان کا اُسلوبِ تحریر جدید انداز کا ہو یا قدیم، اس خود ساختہ لیبل کا مستحق گردانتے ہیں ۔ اس کے برعکس ہر وہ شخص مُلّا نہیں ہے جو قرآن کے نام پر ان کے خود ساختہ دین کو قبول کئے ہوئے ہے۔ خواہ وہ جدید تعلیم پائے ہو یا قدیم۔ یہ وہی ٹریڈ یونین ازم ہے جس کے تحت وہ قرآن کے نام کی آڑ میں جاہلانہ عصبیت کا شکار ہیں اور اپنے گروہ سے باہر ہر فرد کو مُلَّا گردانتے ہوئے کشتنی و سوختنی قرار دیتے ہیں ۔
ثانیاً یہ کہ اپنے مخالفین کے لئے لیبل تراش کر اس کے تحت اِنہیں مطعون کرنا خود ‘مفکر قرآن’ (اور منکرین حدیث) کی وہ قبیح حرکت ہے جسے بہتاناً وہ اپنے فکری حریفوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ ‘کرو خود، مگر الزام دوسروں پر لگاؤ’ کا رویہ اپنانا، ‘مفکر ِقرآن’کی ایک مستمر پالیسی تھی تاکہ ان کی اپنی ایسی عادت چھپی رہے اور لوگوں کی توجہ اس شخص کی طرف مبذول ہوجائے جس کی طرف وہ اُسے منسوب کردیا کرتے تھے۔ اب یہاں یہ ملاحظہ فرمائیے کہ لیبل تراشی کی جو حرکت وہ خود علماے کرام کے خلاف کررہے ہیں ، ٹھیک اسی حرکت کا مرتکب وہ زعماے دین کو قرار دیتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں :
”یہ حضرات طلوعِ اسلام کے پیش کردہ قرآنی دلائل کا جواب تو دے نہیں سکتے، اس لئے اُنہوں نے اس کے خلاف وہی حربہ استعمال کیا ہے جسے یہ اپنے مخالفین کے لئے شروع سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اُنہوں نے مشہور کردیا کہ طلوعِ اسلام، منکر حدیث ہے اور اس طرح عوام کے جذبات کو اس کے خلاف مشتعل کردیا۔( طلوع اسلام،12 فروری 1955ء،ص 3)
امر واقعہ یہ ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’ کو منکر ِحدیث یا منکر ِسنت کہنا، نہ کوئی لیبل تراشی ہے اور نہ الزام بازی، نہ کوئی طنز ہے اور نہ کوئی گالی، بلکہ یہ صرف امر واقعہ کا اظہار ہے، کیونکہ یہ لوگ خود حجیت ِحدیث انکار کرتے ہیں۔لیکن علما پر لیبل سازی کا الزام، بہ تکرارِ بسیار صرف اس لئے دہرایا جاتا ہے کہ ملا اور ملائیت کے جو لیبل وہ خود تراش چکے ہیں ، ان کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول نہ ہوسکے۔
آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ علماے کرام آنکھوں سے دیکھتے اس مکھی کونگل لیتے اور قرآن کے نام پر کی جانے والی اس بدترین تحریف کو ٹھنڈے پیٹوں گوارا کرلیتے۔ علماے کرام اور پرویز صاحب کے درمیان کشمکش کا واقع ہونا ناگزیر تھا۔ چنانچہ یہ کشمکش واقع ہوئی اور ‘مفکر ِقرآن’ فرماتے ہیں :
”اور اس کے ساتھ دیکھئے کہ اس (طلوعِ اسلام) کی زندگی میں کوئی وقت ایسا آیا ہے جب عصا بردارانِ شریعت، اس کے پیچھے لٹھ لئے نہ پھر رہے ہوں ؟ ۔( مقام حدیث:ج2ص 384)
سوچنے کی بات ہے کہ اس ‘خالص قرآنی دعوت’ سے صرف ‘عصا بردارانِ شریعت’ ہی کیوں نعل در آتش ہیں ؟ آخر یہ کیسی ‘قرآنی دعوت’ ہے جس پر اربابِ اقتدار کو نہ صرف یہ کہ کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے بلکہ وہ اس پر راضی بھی ہیں ۔ جبکہ قرآن کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ جب بھی آواز ۂ قرآن اُٹھا، اس کی سب سے پہلی مخالفت ‘اربابِ اقتدار’ ہی کی طرف سے ہوئی۔ طاغوت کو اس میں اپنی موت نظر آئی۔ نمرودیت نے اس آواز کوکچل ڈالنے کی ٹھانی۔ فرعونیت اسی آواز پر لرزہ براندام ہوئی۔ لیکن یہ کیسی ‘خالص قرآنی دعوت’ ہے جس کو وقت کی طاغوتی طاقتیں ٹھنڈے پیٹوں گوارا کررہی ہیں ۔ عصرحاضر کے فراعنہ نہ صرف یہ کہ اس دعوت سے خائف نہیں ہیں بلکہ اس سے راضی بھی ہیں ۔ اگر واقعی یہ ‘خالص قرآنی دعوت’ ہوتی تو اَسود و اَحمر، اسے مٹا ڈالنے پر تُل جاتے۔ فرعون و نمرود اپنے لاؤ لشکروں کے ساتھ اس کا تعاقب کرتے۔ طاغوتی طاقتیں اس ‘دعوتِ حق’ اور اس کے علمبرداروں کوکچل ڈالنے کے لئے اپنے جملہ ذرائع و وسائل جھونک دیتیں اور دنیا کا ہر باطل اقتدار اس کا گلا گھونٹ دینے سے کم کسی بات پر راضی نہ ہوتا لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ باطل اقتدار اور طاغوتی طاقتیں اس ‘قرآنی دعوت’ کو اپنے استحکام کا ذریعہ جانتے ہوئے درپردہ اس کی حمایت پر کمربستہ ہیں ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ عالم اسلام کے علما اس ‘خالص قرآنی دعوت’ کے علمبردار کی مخالفت کررہے ہیں اور خالص کفر کے علمبردار نہ صرف یہ کہ ‘مفکر ِقرآن’ کی تعریف و تحسین کرتے ہوئے اُنہیں خراجِ تہنیت اور گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہیں بلکہ وہ ایسی کتابیں بھی لکھ رہے ہیں جو اس ‘خالص قرآنی دعوت’ کو دنیا کے دور دراز گوشوں تک متعارف کرانے کا موجب بن چکی ہیں ۔تفصیل کے لیے ہماری تحریر”مستشرقین کو غلام احمد پرویز صاحب کو خراج تحسین” ملاحظہ فرمائیے۔

پرویز صاحب کے مذہبی پیشوائیت کے تاریخی افسانے کی حقیقت :

پرویز صاحب نے علماے اسلام کو مُلّا قرار دے ڈالنے کے بعد اُن کی توہین و تذلیل اور استہزاء و تضحیک کے لئے ‘ملّائیت’، ‘مذہبی پیشوائیت’، ‘تھیا کریسی’ اور ‘پریسٹ ہڈ’کی اصطلاحات کو ذریعہ بنایا اور پھر یہ ‘افسانہ’ تراشا کہ ملاؤں اور حکومت کا ہمیشہ اور ہر جگہ گٹھ جوڑ رہا ہے۔پرویز صاحب کے مذہبی پیشوائیت/ملائیت کے بارے میں چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :
1. ”مذہب میں حکومت اور مذہبی پیشوائیت میں ایک سمجھوتہ ہوتا ہے جس کی رو سے مذہبی اُمور، مثل اعتقادات، عبادات، پرسنل لاز وغیرہ، مذہبی پیشوائیت کے دائرہ اقتدار میں رہتے ہیں اور دنیاوی اُمور حکومت کے اختیار میں ۔ مسلمانوں میں صدرِ اوّل کے بعد یہ ثنویت پیدا ہوئی اور مسلسل آگے بڑھتی گئی۔( طلوع اسلام، نومبر1974ء، صفحہ 25)
2. ”اس قسم کی (یعنی فرعونی) آمریت، مذہبی پیشواؤں کی تائید کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی تھی، اس مقصد کے لئے تخت و تاج اور محراب و منبر کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا، جس کی رُو سے اُمورِ مملکت سلطان کی تحویل میں دے دیئے گئے اور معاملاتِ شریعت اربابِ مذہب کے قبضے میں ۔( طلوع اسلام، ستمبر 1973ء، صفحہ 8)
3. ”مفاد پرست گروہ نے اقتدار کی کرسیوں اور رزق کے سرچشموں پر قبضہ کرلیا، مذہبی پیشوائیت نے اس خلافِ اسلام نظام کو عین اسلام ثابت کرنے میں ‘شرعی سندات’مہیا کردیں ۔( طلوع اسلام، جون 1967ء، صفحہ 5)
اس تحریر میں ہم پرویز صاحب کے افسانۂ مذکورہ کا خود انہی کے لٹریچر سے کذبِ خالص ہونا واضح کریں گے۔ اس سے یہ بات آفتاب نصف النہار کی طرح اُجاگر ہوجائے کہ ‘مذہبی پیشوائیت’ کے نام سے جس گھناؤنے کردار سے علماے اُمت کو متہم کیا گیاہے، وہ صرف ‘مفکر قرآن’ کے ‘ذہن رسا’ ہی کا کرشمہ ہےاور صرف ان ہی کے حلقہ دامِ خیال میں پایا جاتا ہے، ورنہ واقعات کی دنیا میں اس کا وجود معدوم محض ہے، بلکہ اس کے برعکس ہماری تاریخ کے پیشوا یانِ دین کا کردار قابل صد فخر و مباہات رہا ہے۔ وہ اربابِ اقتدار کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے کی بجائے ان کے زیر عتاب رہ کر خدمت ِاسلام کرتے رہے ہیں ۔ اگر ہم اس کا ثبوت کتب تاریخ سے پیش کریں تو ہمیں یقین ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’ کے اندھے مقلدین یہ کہہ کر اس کا انکار کردیں گے کہ
”دین میں سند، نہ تاریخ کے مشمولات ہیں اور نہ مسلمانوں کے متواتر و متوارث عقائد ومسالک … سند ہے خدا کی کتاب۔( نظام ربوبیت، صفحہ 192)
اور خدا کی کتاب سے مراد، منکرین حدیث کے نزدیک وہ تعبیرات و تشریحات ہیں جنہیں پرویز صاحب نے اپنے لٹریچر میں قرآن کے گلے مڑھ رکھا ہے۔ اس لئے ہم مجبور ہیں کہ پرویز صاحب ہی کے لٹریچر سے علماے اُمت کا قابل صد فخر کردار واضح کردیا جائے، چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:

پہلا واقعہ:
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کو مسئلہ خلقِ قرآن کے سلسلہ میں انتہائی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اُنہوں نے اربابِ اقتدار کے ہاتھوں مصائب میں مبتلا ہونا قبول کرلیا لیکن ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔ معلوم نہیں ‘مفکر قرآن’ صاحب کی وہ مذہبی پیشوائیت کہاں تھی جو اربابِ اقتدار کی ہاں میں ہاں ملایا کرتی تھی :
”امام صاحب کو جس طرح قید و بند کے عذاب میں مبتلا رکھا گیا، اس کے تصور سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔ اُنہیں دربار میں بلوا کر کوڑوں سے پیٹا جاتا تھا اور جب وہ بے ہوش ہوجاتے تو پھر قیدخانے میں بھجوا دیا جاتاتھا۔یہ سلسلہ ایک دن، دو دن نہیں ، بلکہ پورے اڑھائی سال تک جاری رہا۔ معتصم (مامون الرشید کا جانشین) ان سب لوگوں کو قتل کردیا کرتا تھا جو قرآن کو غیر مخلوق کہتے تھے، لیکن امام صاحب کے قتل کی جرأت اس نے نہیں کی، کیونکہ ان کے ساتھ عوام کی عقیدت بہت گہری تھی۔( طلوع اسلام: مارچ 1952ء، صفحہ 52)

دوسرا واقعہ:
امام ابویوسف (جو امام ابوحنیفہ کے شاگردِ رشید تھے)کے متعلق خود طلوع اسلام ایک مقام پر یہ لکھتا ہے :
”اس زمانہ میں بعض علما کا یہ نظریہ بھی رہا ہے کہ سلطانی عہدوں کو قبول کرنا، اپنے دین کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔ چنانچہ بہت سے محدثین، ان لوگوں کی حدیثیں ہی روایت نہیں کرتے جو شاہی درباروں میں مقرب تھے۔ اکثر علما نے امام ابویوسف پر محض اس لئے طعن کیا ہے کہ اُنہوں نے قضا کا عہدہ قبول کرلیاتھا۔ اس قسم کی حکایات بہت کثرت سے ملتی ہیں ۔ محمد بن جریر طبری کہتے ہیں کہ اہل حدیث کی ایک جماعت، امام ابویوسف کی احادیث سے صرف اس لئے پرہیز کرتی ہے کہ ان پر رائے کا غلبہ تھا اور وہ فروع و احکام کی تفریع کے عادی تھے اور ساتھ ہی بادشاہوں کی صحبت میں رہتے تھے اور قضا کے عہدے پر فائز تھے۔ شاید مجموعی طور پر یہ دونوں باتیں ہی عہد اُموی میں امام ابوحنیفہ کے انکارِ قضا کا باعث ہوں ۔ ان کے خیال میں یہ حکومت ظالم ، سخت اور مضطرب الحال تھی… اس کے علاوہ قضا کے عہدے میں ، اس کا ہر وقت اندیشہ تھا کہ اگر خدا کو راضی رکھیں تو بادشاہ کے غضب کا نشانہ بنتے ہیں اور اگر بادشاہ کو راضی رکھیں تو خدا ناراض ہوتاہے۔چنانچہ بعض روایات میں امام صاحب کا یہ قول موجود ہے کہ آپ نے منصور سے فرمایا تھا کہ اگر تم مجھے یہ دھمکی دو کہ یا تو میں حکومت کو قبول کرلوں ورنہ تم مجھے دریائے فرات میں غرق کردو گے، تو میں غرق ہوجانے کو ترجیح دوں گا۔ تمہارے اور بہت سے حاشیہ بردار موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ تم انہیں یہ اعزاز عطا کرو، مگر میں اس لائق نہیں ہوں ۔( طلوع اسلام: مارچ 1954ء، صفحہ 26)

تیسرا واقعہ:
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ جو بربناے حدیث ِنبویؐ جبری طلاق کے مخالف تھے۔ چونکہ جبری طلاق کے ناجائز ہونے کا اثر جبری بیعت پر بھی پڑتا تھا جو اس دور کے حکمران لیا کرتے تھے، اس لئے امام مالک رحمة اللہ علیہ ، اپنے اس فتوے کی بدولت سزائے تازیانہ کے مستحق قرار پائے۔ طلوع اسلام لکھتا ہے:
”امام مالک رحمة اللہ علیہ ، ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ اگر جبراً طلاق کسی سے دلائی جائے تو وہ واقع نہ ہوگی اور فتنہ اُٹھانے والوں نے اس حدیث سے ابوجعفر منصور کی بیعت کے باطل ہونے پر، دلیل حاصل کی۔ یہ بات محمد بن عبداللہ بن حسن النفس الزکیہ کے خروج کے وقت مدینہ میں پھیل گئی، اور منصور نے امام صاحب کو منع کیا کہ وہ جبری طلاق والی حدیث بیان نہ کریں ۔ پھر ایک جاسوس کو بھیجا جو آپ سے سوال کرے۔ آپ نے اس سے یہ حدیث تمام لوگوں کے سامنے بیان کی، لہٰذا حاکم مدینہ نے کوڑوں کی سزا دی۔ دوسرے ائمہ نے بھی ملوکیت کی ان اَغراض کی مختلف صورتوں میں مخالفت کی۔( طلوع اسلام: اگست ،ستمبر 1964ء، صفحہ 105)

چوتھا واقعہ:
یہ واقعہ اس مرد مجاہد کا ہے، جس نے ہارون الرشید کے بھرے دربار میں ، اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایسا کلمہ حق کہہ دیا جس کی توقع شخصی حکومت میں نہیں کی جاسکتی۔ طلوع اسلام لکھتا ہے:
”اگرچہ جب خلافت، بادشاہی میں بدلی تو درباری زندگی اور عجمی اثرات نے خوشامد پرستی کا جذبہ پیداکردیا تھا، لیکن پھر بھی ایمان کی یہ چنگاری، اس میں اکثر اوقات شعلہ فشاں نظر آتی ہے۔ ہارون الرشید کے دربار میں ایک شاعر قصیدۂ مدحیہ پڑھتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ”اے خلیفہ! اگر عمرو علی کے زمانہ میں آپ ہوتے تو خلافت پر کوئی جھگڑا ہی نہ پڑتا۔(یعنی بلا اختلاف لوگ آپ کو خلیفہ منتخب کرلیتے) وہیں اہل دربار میں سے ایک مرد مؤمن اٹھتا ہے اور کہتا کہ ”کیوں غلط بات کہتے ہو، خلیفہ کے جدامجد حضرت عباسؓ، اس وقت موجود تھے، پھر جھگڑا کیوں نہ چک گیا؟”کچھ اندازہ فرمایا آپ نے، اس جرأتِ ایمانی کا؟ شخصی حکومت، بھرا دربار، لیکن حق و باطل کے مقابلہ میں کسی ڈرانے والے کا ڈر اُسے باز نہ رکھ سکا اور اعلائے کلمة الحق میں وہ رُعب تھا کہ خلیفہ بھی سن کر مسکرا دیا اور اُسے یہ کہنا پڑا کہ ”ٹھیک کہتے ہو۔( طلوع اسلام: فروری 1941ء ، صفحہ 21)

پانچواں واقعہ:
ایک ‘ملا’ کا تذکرہ طلوع اسلام یوں کرتا ہے :
”مامون الرشید کے عہد میں مسئلہ خلق قرآن نے جو قیامت برپا کررکھی تھی، کس سے پوشیدہ ہے؟ ایک صاحب ِایمان (عبدالعزیز بن یحییٰ) اس جسارت و صداقت کو قلب میں لے کر مکہ سے روانہ ہوتے ہیں اور جامع بغداد میں جاکر علیٰ الاعلان کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام ہے، ہرگز ہرگز مخلوق نہیں ہوسکتا، حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ اس کہنے کا انجام کیا ہوگا۔( طلوع اسلام: فروری 1941ء، صفحہ 21)

چھٹا واقعہ:
یہ واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تزکیۂ شہود کے معاملہ میں مسلم عدالتوں کا معیار کس قدر بلند تھا اور حضرات قضاة کرام اس بلندمعیار کو برقرار رکھنے کے لئے کسی بڑے سے بڑے آدمی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
”اس طرح کا واقعہ قاضی شرف الدین بن عین الدولہ کا ہے جو مصر میں قاضی تھے۔ ان کی عدالت میں ملک کامل سلطانِ مصر کسی مقدمہ میں شہادت میں طلب ہوا، وہ چونکہ روزانہ ایک مغنیہ کا گانا سنا کرتا تھا، اس وجہ سے قاضی موصوف نے اس کی شہادت لینے سے انکار کردیا۔ اس پر اس نے قاضی کی شان میں سخت کلمہ استعمال کیا۔ قاضی نے کہا کہ یہ عدالت کی توہین ہے اور اسی وقت اپنی برطرفی کا اعلان کرکے مسند سے اُٹھ کر چلے آئے، سلطان نے مجبوراً جاکر معافی چاہی اور ان کو راضی کیا کیونکہ اس کو اپنی بدنامی اور نامقبولیت کا خطرہ ہوا۔( طلوع اسلام، جون 1938ء ،صفحہ 67)

علماے کرام کا یہی کردار، چودہ سو سالہ تاریخ میں:
تحریر کی تنگ دامنی اور خوفِ طوالت، مزید مثالیں پیش کرنے میں حائل ہیں اور یہ چند مثالیں بھی کتب ِتاریخ سے پیش کرنے کی بجائے’مفکر قرآن’ کے لٹریچر ہی سے پیش کی گئی ہیں ، ورنہ تاریخ کی کتب اُٹھا کر دیکھئے تو ایسی لاتعداد اور لازوال داستانیں ، موجب ِافزائشِ ایمان ہوں گی۔ سلطانِ جائر اور ملک ِعضوض کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے ہر دور میں ہر جگہ موجود رہے ہیں ۔ اب طلوعِ اسلام ہی سے ایک ایسا اقتباس پیش کیا جارہا ہے جو اختصار وایجاز کے ساتھ یہ واضح کرتا ہے کہ ہماری چودہ صدیوں پر محیط تاریخ اس قسم کے قابل رشک واقعات سے بھری پڑی ہے :
”مسلمانوں کی تاریخ میں افراط و تفریط کے خلاف خالص اور صحیح اسلام پیش کرنے کے لئے ہر دور میں قلندرانہ تحریکات چلتی رہی ہیں ۔ محدثین اور متکلمین کی آویزش اور ازاں بعد متکلمین کی باہمی سرپھٹول، مامون الرشید عباسی کے دور میں فتنۂ خلق قرآن اور اس طوفان میں امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا محیر العقول عزم و ثبات، اس کے بعد منطق و علم کلام کے غیر اسلامی اثرات کو کالعدم ٹھہرانے کے لئے علامہ ابن تیمیہ کی مبارک تحریک، نجد میں وہابی تحریک کا آغاز، افریقہ میں مہدی سوڈانی اور شیخ سنوسی کی سرگرمیاں ، ہندوستان میں غیراسلامی تصورات کے خلاف حضرت مجدد الف ثانی کے مسلسل و پیہم جہاد اور حضرت سید جمال الدین افغانی کی تحریک ِاتحاد عالم اسلام (Pan-Islamism) وغیرہ، اس دعویٰ کا زندہ ثبوت ہیں کہ آڑے وقت میں ، مسلمانوں کے اندر ایک ذہنی انقلاب کی تیز رو موجود رہی ہے۔( طلوع اسلام: نومبر 1940ء، صفحہ 20)
یہ اقتباسات اس حقیقت کو ہر شک و شبہ سے بالاتر کردیتے ہیں کہ نہ تو اسلام ہی میں ، ‘مذہبی پیشوائیت’ کا وہ تصور پایا جاتا ہے جسے ‘مفکر قرآن’ کے سامری دماغ نے محض اپنے تسویلِ نفس کے زور پر گھڑ ڈالا ہے اور نہ ہی اُمت ِمسلمہ میں تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ کسی قابل ذکر پیشواے اسلام نے، تقاضائے حق کو پس پشت ڈال کر، اربابِ اقتدار کی ہاں میں ہاں ملاکر، دنیا کے جاہ و منصب اور مال و دولت کو سمیٹا ہو۔یہ سارا افسانہ’مفکر قرآن’نے صرف اس لئے تراشا ہے کہ ‘نظامِ ربوبیت’ کے نام سے، اشتراکیت کا جو ‘قرآنی ایڈیشن’ وہ خود نکال چکے ہیں ، اس کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ لیکن چونکہ یہ راہ ہموار ہو نہیں سکتی جب تک کہ وہ علما (اور وہ جماعت یہاں موجود ہے) جو محمد رسول اﷲ والذین معہ کادین، بلاکم و کاست یہاں رائج کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لئے علما کی مخالفت کرنے کے لئے وہ افسانہ تراشا گیا ہے، جس کا بنیادی تصور،ہندوؤں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاں سے لیا گیا ہے اور پھر برسوں بار بار اسے دہرایا گیا ہے تاکہ یہ جھوٹ ‘سچ’ بن جائے۔

پرویز صاحب کے فکری اسلاف ہی ‘ملا’ تھے :

ہمارے علمائےتفسیر ہوں یا علماے حدیث، ائمۂ فقہ ہوں یا ائمۂ تاریخ، ان میں تو ‘مُلّائیت’ کا وہ تصور قطعی مفقود ہے جسے پرویز صاحب نے گھڑ ا۔ ہاں البتہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خلافت ِراشدہ کے بعد کچھ باطل اور گمراہ فرقے ایسے پیدا ہوئے تھے جن کے ساتھ دورِ حاضر کے منکرین حدیث، اعتقادی و فکری رشتے میں منسلک ہیں ۔ ان میں ‘مذہبی پیشوائیت’ اور ‘مُلّائیت’ کی وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جنہیں پرویز صاحب نے دور حاضر کے علما کی طرف منسوب کیا ہے۔

قدیم و جدید معتزلہ میں مشترک قدریں-طلوع اسلام کی زبانی:
جس طرح آج کے منکرینِ حدیث، وحی اور کتاب اللہ کا نام لے کر عقل کو بالاتر حیثیت دیتے ہوئے فکر ِاغیار کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوکر قرآن کا تیاپانچہ کرڈالتے ہیں ، بالکل اسی طرح قدیم معتزلہ کے ‘قرآنی دانشور’ بھی غیروں کی فکری اسیری میں مبتلا ہوکر غلبۂ عقل کے نعرہ کے ساتھ قرآنِ کریم کو نشانہ بنایا کرتے تھے۔ جیسا کہ ‘عقل کا غلبہ’ کے زیرعنوان خود طلوع اسلام یہ لکھتا ہے :
”وہ عقل کے تسلط کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ عقل خود حسن و قبح کی معرفت حاصل کرسکتی ہے، خواہ شریعت نے کسی بات کے حسن و قبح کو بیان کیا، یابیان نہ کیا ہو۔( طلوع اسلام: فروری 1960ء، صفحہ 70)
جس طرح یہ لوگ انکارِ حجیت ِحدیث کے باوجود خود کو منکرینِ حدیث کہنا یا کہلوانا پسند نہیں کرتے ہیں ، اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور کہنے پر مصر ہیں ، بالکل اسی طرح وہ لوگ بھی اعتقاداً مسلمانوں سے الگ راہ اختیار کرنے کے باوجود بھی خود کو ‘معتزلہ’ کہنا یا کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے :
”یاد رہے کہ یہ لوگ خود اپنے آپ کو خوارج یا معتزلہ نہیں کہتے تھے، اپنے آپ کو خالص مسلمان سمجھتے تھے۔( طلوع اسلام: مارچ 1973ء، صفحہ 55)
جس طرح آج کے منکرین حدیث صرف قرآن ہی کو سند مانتے ہیں ، اسی طرح وہ لوگ بھی تنہا قرآن ہی کو حجت تسلیم کرتے تھے۔ وہ ہر دینی معاملے میں قرآنِ مجید کو سند قرار دیتے تھے۔ ( طلوع اسلام: جون 1978ء، صفحہ 48)
جس طرح دورِ حاضر کے منکرین حدیث مغربی معاشرت کے اجزاء و عناصر کو اور اشتراکیت کے نظامِ معیشت کو قرآنِ کریم میں زبردستی گھسیڑنے پر جُتے ہوئے ہیں ، اسی طرح کل کے معتزلہ بھی یونانی فلسفہ کا پھانہ اسلامی عقائد میں ٹھونکنے پر تلے ہوئے تھے:
”یونانی فلسفہ کو اپنا کر اُنہوں نے اسلامی عقائد میں اسے جس خوبی سے سمویااورعلم کلام کے نام سے ایک مستقل علم کی بنیاد رکھی، وہ اس کی زندہ شہادت ہے۔( طلوع اسلام: جولائی 1955ء، صفحہ 11)
ان وجوہِ مشابہت کی بنا پر آج کے منکرین حدیث اپنے فکری اسلاف یعنی قدیم معتزلہ کی انتہائی تعریف و تحسین کرتے ہیں اور ان کے زوال و فنا پر یوں نوحہ کناں ہیں :
”ہمارے متقدمین میں ‘معتزلہ’ اہل علم کا وہ گروہ تھا جن کی نگاہ صحیح اسلام پر تھی اور وہ قرآن مجید پر عقل و بصیرت کی رو سے غور کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو ہماری ‘مذہبی پیشوائیت’ کس طرح جینے دیتی۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف ان اربابِ فکرونظر کا خاتمہ کردیا گیا بلکہ ان کے علمی کارناموں کو بھی جلا کر راکھ کردیا۔( طلوع اسلام: فروری 1967ء، صفحہ 57)

معتزلہ کی ‘ملائیت’ کا ارباب ِ اقتدار سے گٹھ جوڑ:
ماضی کے فتنۂ اعتزال کے عروج پر ایک نگاہ ڈالئے تو آپ کو واضح طور پر یہ دکھائی دے گا کہ کس طرح اس فتنہ کے علمبرداروں نے اپنے عروج کے لئے اربابِ اقتدار کے ساتھ گٹھ جوڑ کا ‘شریفانہ معاہدہ’ کیا۔

خلافت بنو امیہ:
پرویز صاحب بنو اُمیہ کے دور کی تاریخ میں سے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےعلماے کرام کو یوں نشانہ بناتے ہیں :
”جب قانونِ مکافات کا احساس جاتا رہا تو پھر بادشاہ ہر قسم کی من مانی کرتا۔ سلب و نہب، لوٹ کھسوٹ، ظلم و استبداد، اُمت کے حقوق کی پامالی اس کا معمول بن جاتا۔ وہ اپنی مطلق العنانی کے زور پر یہ کچھ کرتا تو رہتا لیکن اسے یہ خیال ضرور ستاتا کہ اگر ان مظالم سے تنگ آکر کسی دن قوم اس کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی تو اس سیلاب کا روکنا ناممکن ہوگا۔ وہ اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا ۔ جب اس خطرہ کا احساس زیادہ نزاکت اختیار کرگیا تو (جیسا کہ ہوتا چلا آیا ہے) مذہبی پیشوائیت آگے بڑھی۔ اس نے سلاطین سے کہا کہ فکرکی کوئی بات نہیں ۔ قوم مذہب پرست واقع ہوئی ہے، اسے مذہب کے حربوں سے ایسا مفلوج کیا جاسکتا ہے کہ یہ اُٹھنا تو درکنار، ہلنے تک کے قابل نہ رہے۔ اس کے لئے اُنہوں نے اس عقیدہ کو عام کیا کہ تمام کائنات خداے مطلق کے حیطۂ اقتدار میں ہے۔ یہاں ایک پتہ بھی، اس کے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا۔ جو کچھ ہوتاہے سب اس کے حکم اور اجازت سے ہوتا ہے۔انسانوں کا غلط قدم اٹھانا تو درکنار وہ آنکھ تک بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں جھپک سکتا۔ انسان مجبور محض ہے۔ وہی ہوتا ہے جومنظورِ خدا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے سلاطین کی مطلق العنانیت (ڈکٹیٹر شپ) کے مسلک کی تائید اس آیت ِقرآنی کی غلط تاویل سے کی کہ {تُؤْتِى ٱلْمُلْكَ مَن تَشَآءُ وَتَنزِعُ ٱلْمُلْكَ مِمَّن تَشَآءُ…﴿٢٦﴾…سورۃ آل عمران} ”حکومت خدا کی طرف سے عطاکردہ ہوتی ہے، وہ جسے چاہتا ہے، حکومت عطا کردیتا ہے، جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔”
اس ایک عقیدہ سے، حکومت سے قوم کا عمل دخل ختم ہوگیا۔ کسی نے خلیفہ سے کچھ کہنے کی جرأت کی تو اس کا جواب موجود تھا کہ مجھے حکومت خدا نے دی ہیــ، تم اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہو؟ تم خدا کے فیصلے کے خلاف سرکشی کرنا چاہتے ہو۔” 10
پرویز صاحب ہی کی فکر سے وابستہ ایک اور مفکر قرآن صاحب لکھتے ہیں ” نماز روزہ زمانہ ملوکیت کی ایجاد ہے، مولویوں نے عبادات کے نام پر عوام کو مذہبی افیون پلا رکھی ہے “۔(اثر سلام سید)
پرویز صاحب کے اس جملے پر غور فرمائیے ” اس ایک عقیدہ سے، حکومت سے قوم کا عمل دخل ختم ہوگیا۔ کسی نے خلیفہ سے کچھ کہنے کی جرأت کی تو اس کا جواب موجود تھا کہ مجھے حکومت خدا نے دی ہے، تم اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہو؟ تم خدا کے فیصلے کے خلاف سرکشی کرنا چاہتے ہو۔”دیکھا جائے تو یہ پرویز صاحب کی ہی مزعومہ اس وقت کی’مرکز ِملت (خدا اور رسول)’ کا جواب ہے ،مرکزیت ِاُمت ِمسلمہ بھی اس وقت تک قائم تھی (اس پر ہماری گزشتہ تحریر ملاحظہ کیجیے)۔ مزید جس ‘مذہبی پیشوائیت’ نے عقیدئہ جبر کی آڑ میں بنواُمیہ کی پشت پناہی کی تھی، وہ وہی تھے جو قرآن کے سواکسی چیز کو حجت نہیں مانتے تھے۔ بالفاظِ دیگر وہ موجودہ دور کے منکرین حدیث ہی کے فکری آباء و اجداد تھے۔ آج منکرین حدیث، لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے ہی فکری باپ دادوں کی کرتوتوں کو علماے امت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور پھر اُنہیں بدنام کرتے ہیں ۔
علماے امت نے نہ صرف کہ اقتدارِ باطل کی حمایت نہیں کی بلکہ طواغیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل کر کلمہ حق کہتے رہے۔ چنانچہ بنواُمیہ کی حکومت نے جب مسئلہ جبر کو اپنی ڈھال بنایا تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اس کی تردید کی۔ بعد میں امام ابوحنیفہ ، امام احمد بن حنبل کے ساتھ پرویز صاحب کے فکری آباء معتزلہ نے حکمرانوں کے ساتھ مل کر کیا سلوک کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، تفصیل کے لیے گزشتہ تحریر ملاحظہ فرمائیں ۔یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہI. عقیدۂ جبر کو اپنے مظالم کی پردہ پوشی کا ذریعہ بنانا کسی ‘مُلّا’ کا کام نہیں تھا بلکہ حکمرانوں کاکام تھا۔II. اس عقیدہ کی پشت پناہی کرنے والے وہ لوگ تھے جن کے قارورے کے ساتھ موجودہ دور کے منکرین حدیث کا قارورہ ملتا ہے۔

خلافت عباسیہ اور فتنہ اعتزال :
عباسی دور میں فتنۂ اعتزال کے علمبرداروں میں سے دو ‘قرآنی دانشوروں ‘ احمد بن ابی دؤاد اور ثمامہ نے کسی نہ کسی طرح ارباب اقتدار تک رسائی پالی تھی اور انہیں اپنا ہم خیال بنالیا تھا، جس کے نتیجہ میں اس فتنہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی اس ‘سرکاری اور سرپرستانہ ملی بھگت’ اور ‘شریفانہ معاہدہ’ کے نتیجہ میں ، حکومتی اثرو رسوخ اور ذرائع و وسائل سے اس کا حلقہ اثر پھیلتا چلا گیا۔ انتظامیہ اور عدلیہ کے اعلیٰ مناصب کے دروازے اس ‘گٹھ جوڑ’ کے نتیجہ میں معتزلہ کیلئے چوپٹ کھول دیئے گئے اور جو لوگ اس مسلک کے خلاف تھے، ان سے حکومت ِوقت، اس ‘شریفانہ معاہدہ’ کی بنا پر بڑے جابرانہ اور ظالمانہ انداز سے نپٹتی اور اُنہیں قیدو بند سے لے کر دارورَسن کی صعوبتوں میں سے گزرنا پڑتا، یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کا انکار طلوعِ اسلام سے بھی بن نہیں پڑا :
”احمد بن ابی داؤد (داود نہیں ، بلکہ دُؤاد) اور ثمامہ کی کوششوں سے مامون الرشید نے باقاعدہ طور پر اس مسلک کو قبول کرلیا اور مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا۔ اس سے وقتی طور پر مسلک ِاعتزال کو بہت مقبولیت حاصل ہوگئی۔ الناس علی دین ملوکھم کے مطابق ہر طرف مسلک ِاعتزال کا چرچا ہونے لگا۔ ان کا مسلک چونکہ عقل و بصیرت پر مبنی تھا، ا س لئے وہ خود بھی لوگوں کو اپیل کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری مشینری بھی اس کی تائید میں حرکت کرنے لگی تو وہ پورے عالم اسلام پر چھا گیا۔ عدالتوں میں فیصلے اسی مسلک کے مطابق ہونے لگے۔ جو لوگ اس مسلک کے خلاف زبان ہلاتے تھے، ان سے حکومت ِوقت کی طرف سے باقاعدہ باز پرس کی جاتی تھی اور سزائیں دی جاتی تھیں ۔( طلوع اسلام: 23 جولائی 1955ء، صفحہ 11)
کم ظرف اور دنیا پرست لوگوں کو اقتدار کا سہارا مل جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ، چنانچہ معتزلہ کو جو اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہوئی تو وہ قوت و تکبر کے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے اور پھر انہوں نے وہی حرکت کی جسے ‘مفکر ِقرآن’ صاحب، بہتاناً ‘تھیاکریسی’ اور ‘پریسٹ ہڈ’ کی خود ساختہ اصطلاحات کے تحت علماے کرام کی طرف منسوب کرنے کے عادی رہے ہیں ، یعنی فتویٰ بازی :
”خلق قرآن کا مسئلہ، معتزلہ کو جعد بن درہم ہی سے وراثت ملا۔ پہلے معتزلہ اس نظریہ کے قائل نہیں تھے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ قرآن کے مخلوق ہونے پر متفق ہوگئے اور جو شخص قرآن کو غیر مخلوق کہتا تھا اس پر کفر اور فسق کے فتوے لگاتے تھے۔ معتزلہ میں احمد بن ابی داؤد پہلا معتزلی ہے جس نے قرآن کو غیر مخلوق کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ لگایا۔( طلوع اسلام: 30 جولائی 1955ء صفحہ 13)
اس فتویٰ کے اجرا کے بعد معتزلہ کی ‘مذہبی پیشوائیت’ اور ‘تھیاکریسی’ نے اربابِ حکومت کے ساتھ جو ‘شریفانہ معاہدہ’ کررکھا تھا، اس کی روشنی میں اگلا قدم اُٹھایا، وہ کیا تھا؟ طلوع اسلام ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے :
”انہوں نے کہا کہ خلیفہ اسلا م کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے عقیدہ کو، جو توحید کے خلاف ہے، قوت سے مٹائے۔( طلوع اسلام: 30 جولائی 1955ء، صفحہ 13)
پھر کیا ہوا؟ قید و بند، دارورَسن اور ضربِ تازیانہ کے ذریعہ خون کی ندیاں بہا دینے کی نئی تاریخ معتزلہ کے ‘ملاؤں ‘ کے ہاتھوں رقم ہوئی۔ جس کا اعتراف خود طلوعِ اسلام کو بھی کرتے ہی بنی :
”اس عقیدہ کی پشت پر چونکہ حکومت ِوقت بھی تھی، اس لئے لوگوں کو صرف کفر و شرک کے فتوؤں ہی سے مرعوب نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ ان فتوؤں کے بعد لوگوں کو طرح طرح کی سزائیں بھی دی جاتی تھیں اور قتل بھی کردیا جاتا تھا۔( طلوع اسلام: 30 جولائی 1955ء، صفحہ 13)

یہ ہے حقائق کی صحیح اور اصل تصویر جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اربابِ اقتدار اور اعیانِ سلطنت کے ساتھ ‘ملی بھگت’ اور ‘شریفانہ معاہدہ’کرنے اور اس کے نتیجہ میں سرکاری عہدے حاصل کرنے والے درحقیقت وہ ‘اربابِ فکرونظر’ اور ‘صاحبانِ عقل و بصیرت’تھے جو یونانی فلسفہ کو اسلامی عقائد میں سمو ڈالنے کی کوششوں میں جتے رہے تھے اور جو آج کے منکرین حدیث کے فکری آباء و اجداد تھے، نہ کہ وہ علماء و فقہا اور وہ محدثین و مجتہدین جو پابند ِسلاسل رہ کر قید و بند کی اذیتیں جھیلتے ہوئے اور ضربِ تازیانہ کا نشانہ بنتے ہوئے حکومتی مناصب اور سرکاری وظائف سے بے نیاز ہوکر خدمت ِدین اور اشاعت ِاسلام پر کمربستہ رہے۔
مفکر قرآن’ صاحب بیان واقعات، تقلیبِ اُمور اور مسخِ حقائق میں کس قدر جھوٹ اور دیدہ دلیری سے کام لیا کرتے تھے، وہ ان کے اس دوگونہ کذب ہی سے واضح ہے ،جس میں وہ … اُن علماے حدیث اور ائمۂ فقہ پر جو اَعیانِ سلطنت اور اَربابِ حکومت سے الگ رہے، یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ان کی ہمیشہ اہل اقتدار سے ‘ملی بھگت’ رہی ہے اور … جو لوگ فی الواقعہ اقتدار کی چھتری تلے بیٹھ کر علماء و ائمہ کرام پر کفر و شرک کے فتوے لگا کر وقت کے حکمرانوں کو ان کے خاتمہ پر اُکساتے رہے ہیں ، وہ سب ‘حاملین قرآن’، ‘اہل علم و بصیرت’ اور ‘اصحابِ فکر و نظر’قرار پائے۔
الغرض’مذہبی پیشوائیت’، ‘ملا ازم’، ‘تھیاکریسی’ اور ‘پریسٹ ہڈ’ کی خود ساختہ اصطلاحات کی آڑ میں ‘مفکر قرآن’ صاحب، جن رذائل و معائب اور مثالب و نقائص کو علماے کرام کے گلے مڑھتے رہے ہیں ، وہ فی الواقع خود پرویز صاحب (اور ان کے اندھے مقلدین) ہی کے فکری اسلاف میں پائے جاتے تھے، لیکن وہ ان عیوب کواپنے آباء و اجداد کی طرف منسوب کرنے کی بجائے علماے کرام کے کھاتے میں ڈالتے رہے ہیں ۔

سببِ زوالِ معتزلہ:
سرکاری سرپرستی میں شجر اسلام پر پھیلنے والی اس آکاس بیل (معتزلہ) کا خاتمہ کیسے ہوا؟ پرویز صاحب نے حقائق کو پس پشت پھینکتے ہوئے یہ بے پرکی اُڑائی ہے کہ… ”ان اصحابِف کرونظر کا خاتمہ’مذہبی پیشوائیت’ نے کیا”… حالانکہ ان کے زوال بلکہ خاتمہ کا سبب خود ان کی اپنی یہ حرکت تھی .سبب ِاصلی بھی کسی کتابِ تاریخ سے پیش کرنے کی بجائے طلوعِ اسلام ہی کے اوراق سے پیش کرنا مناسب ہے :
”احمد بن ابی دؤاد اور ثمامہ نے یہ بڑی سیاسی غلطی کی کہ مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں دے دیا۔ مامون الرشید معتصم باﷲ، اور واثق باللہ نے مسلک ِاعتزال کو قبول کرکے جبر و اکراہ سے اس مسلک کو عوام میں پھیلانے کی کوششیں شروع کردیں ۔ اس سے تشدد اور سختیاں شروع ہوئیں تو جس نے بھی اس تشدد کے مقابلہ میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا، وہ عوام میں ہیرو بن گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر عباسی خلفا مسلک ِاعتزال کو قبول نہ کرتے تو اعتزال کے مسلک پر ان کا یہ بڑا ہی احسان ہوتا، یا اگر اُنہوں نے اس مسلک کو قبول کرلیا تھا تو اسے بنوکِ شمشیر عوام سے منوانے کی کوشش نہ کرتے تو معتزلہ اس تباہی سے یقینا محفوظ رہتے، جس سے اُنہیں آگے چل کر دوچار ہونا پڑا۔ معتزلہ نے اپنی اس سیاسی غلطی کو بروقت محسوس نہ کیا۔ یہ محدثین و فقہا کے خلاف کفر و شرک کا فتویٰ دیتے تھے اور برسراقتدار طبقہ ان علما و مشائخ کو دارورَسن کی مشقتوں میں مبتلاکرکے عوام میں ان کو ہیرو بنا دینے پر اپنی تمام کوششیں صرف کررہا تھا۔(طلوع اسلام: 30 جولائی 1955ء، صفحہ 13)

لیکن کیا آج کے معتزلہ نے اور تحریک ِطلوعِ اسلام نے اپنے پیشرو معتزلہ سے کوئی سبق سیکھا؟ ہرگز نہیں ۔ پرویز صاحب خود نظامِ طاغوت کی سرکاری مشینری کے کل پرزہ کی حیثیت سے روٹی کے غلام بنے رہے، اپنے مخالفین پر ‘منکرینِ قرآن’ اور ‘منافقین’ ہونے کے فتوے عائد کرتے رہے ، ہر صاحب اقتدار سے ہر دور میں محبت کی پینگیں چڑھاتے رہے، اپنے کنونشن میں وزرائ، اور اربابِ اقتدار کو کرسئ صدارت پر بٹھاتے ۔ اپنے فکری حریفوں کے خلاف حکومت کو مشورے دیتے رہے، ماضی کے معتزلہ کے نقشِ قدم پرچل کر غیر اسلامی تصورات کو قرآنِ مجید میں سمو ڈالنے کی کوشش میں جتے رہے،

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password