خیرخواہی کے نام پر انکار حدیث- متفرق روایات

۔

ملحدین جس انداز میں قرآن کے بارے میں غلط فہمیاں گھڑتے ہیں منکرین حدیث اسی انداز میں حدیث کے بارے پروپیگنڈے کرتے اور غلط فہمیاں گھڑتے ہیں ۔ دونوں کا اس معاملے میں ذہنی پیٹرن ایک جیسا ہے اور دونوں غیر جانبدار تحقیق کے دعویدار بھی ہیں۔ منکرین حدیث کی بائبل دو کتابیں ہیں ، ایک ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی “دو اسلام” اور دوسری ڈاکٹر شبیر احمد کی “اسلام کے مجرم “۔ دونوں کتابیں تدلیس، مکروفریب اور دھوکے بازی کا واضح نمونہ ہیں ۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب نے حدیث کو قرآن کے خلاف اور مقابل دکھانے میں اپنا زور صرف کیا ،ڈاکٹر شبیر احمد نے اپنی کتاب “اسلام کے مجرم” میں محدثین، فقہاء اور علماء کو اسلام کا مجرم قرار دیا کہ انہوں نے ایسی روایتیں بیان کی ہیں کہ جن میں بے حیائی ، فحاشی ہے اور انبیاء، ازواج مطہرات او ر صحابہ پر بہتان لگائے گئے ہیں ۔
ان دونوں کتابوں کے علمی جواب بہت سے علماء نے دیے۔ ان سے منکرین حدیث کا دجل و مکروفریب بھی کھل کے سامنے آتا ہے کہ محض حدیث دشمنی میں یہ لوگ کس قدر علمی خیانت اور دھوکے بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مسلمانوں کی خیرخواہی اور قرآن سے محبت کے نام پر کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے علماء کے ان جوابات کو پڑھ کے رجوع کر لیا تھا لیکن ان کی یہ کتاب ابھی تک چھپ رہی ہے اور اس میں پیش کیے گئے اعتراضات ابھی تک منکرین حدیث کی زبانوں پر عام ہیں اس لیے ان کا جواب بھی ابھی تک دیا جارہا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں سے انہی کتابوں میں اٹھائے گئے اعتراضات ہمارے پیج سے زیر بحث لائے جارہے ہیں ۔ کچھ اعتراضات کے جواب کے لیے تفصیل درکار تھی ان پر ہم نے الگ الگ تحریر میں تبصرہ کیا ہے ۔ باقی اعتراضات کی غلطیوں کو واضح کرنے کے لیے ان پر سرسری تبصرہ پیش کیا جارہا ہے۔ اعتراضات کے اس جوابی سلسلے میں ہم نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان میں ‘متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالات’ از ڈاکٹر اکرم ورک، ‘سنت کی آئینی حیثیت از سید مودودی، ایک اسلام بجواب دو اسلام از مولانا سرفراز خان صفدر، تفہیم الاسلام بجواب دو اسلام از مسعود الرحمان عثمانی ، آئینہ پرویزیت از مولانا عبدالرحمان کیلانی، ‘اسلام کے مجرم کون’ از محمد حسین میمن شامل ہیں ۔

٭اعتراض :حضرت ماریہ قبطیہ کی ام ولد، مخنث اور حضرت علی

٭اعتراض :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد پر جانے والے اصحاب پر طنز اور تبرا والی حدیث

٭اعتراض :خوبصورت عورت کا نماز پڑھنااورصحابہ کا اسے دیکھنا

٭اعتراض :زمانہ جاہلیت کے نکاح اور حضرت عائشہ

٭اعتراض :کبوتری کو زوجہ بنانے کی روایت

٭اعتراض:فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے :امت کا بہترین آدمی وہ ہے جس کی زیادہ بیویاں ہوں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 22)

٭اعتراض :حضرت عائشہ کی کنوارے کی فضیلت کی حدیث

٭اعتراض:ایسی عورت سے نکاح کرنا چاہیئے جس کی خوب اولاد ہو ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 42)

٭اعتراض :قرآنی کی کسوٹی پر پرکھنے کی روایت

٭اعتراض :حضرت جابر کابیوہ عورت سے نکاح اور حدیث

٭اعتراض :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” میرے بعد لوگوں پر عورت سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں” (اسلام کے مجرم صفحہ26)

٭اعتراض: حضرت علی نے نشے میں نماز پڑھائی

٭اعتراض:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منگل خون کا دن ہے اس دن خون تھمتا ہی نہیں ”(اسلام کے مجرم صفحہ 27)

٭اعتراض: ایک روایت پر اعتراض جس میں مذکور واقعہ کا بیان قرآن میں بھی ہے۔

٭اعتراض:حضورؐ کی حضرت عائشہ سے دل لگی کی باتیں

٭اعتراض :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گال سرخ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لال ہوگیا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ44)

٭ اعتراض:عورت پسلی کی مانند ٹیڑھی ہے۔

٭اعتراض:حضرت علی نے فرمایا مجھے جریان تھا جس سے میری مذی نکلا کرتی تھی ۔(اسلام کے مجرم صفحہ 45)

٭اعتراض : تقدیر کی روایت پر اعتراض

٭اعتراض:حضور ؐ کا دم کرنا اور تحفہ قبول کرنا

٭اعتراض:حضورؐ کا بھول جانا

٭اعتراض: کبوتری کو شیطان کہنے کی روایت

٭اعتراض: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی صفیہ سے کہا او سر منڈی ہلاک ہوئی۔(اسلام کے مجرم صفحہ 31)

٭اعتراض:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے گھوڑے پر آئے اوروہیں کھڑے کھڑے پیشاب کیا۔(اسلام کے مجرم صفحہ 45)

٭اعتراض: نحوست ، چھوت کی روایت

٭اعتراض:ابوہریرہ اورحبشی زبان میں کلام

٭اعتراض: بندروں کا زنا اور سنگسار کرنا

٭اعتراض: بہت سی لباس والیاں آخرت میں ننگی ہونگی

٭اعتراض:”سلیمان نے ایک رات میں سوبیویوں کے ساتھ مباشرت کی ۔ ”ملاحظہ فرمائیے ایک رات چند گھنٹے اور اللہ کا ایک عالی مقام پیغمبر (اسلام کے مجرم ،صفحہ 34)

٭اعتراض:محمود بن ربیع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے منہ میں کلی کی جب میں پانچ سال کا تھا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 44)

خلاصہ

٭اعتراض :حضرت ماریہ قبطیہ کی ام ولد، مخنث اور حضرت علی

آنحضرتﷺ کی ام ولد ماریہ قبطیہ سے زنا کرنے کا الزام ایک شخص پر لگایا گیا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ملزم کو قتل کردیا جائے۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ تلوار لے کر اس شخص کو قتل کرنے گئے تو وہ غسل کر رہا تھا۔ حضرت علیؓ نے دیکھا کہ وہ مخنث تھا۔ آپ واپس چلے آئے اور آنحضرتﷺ کو یہ واقعہ سنادیا۔ صحیح مسلم۔ بحوالہ حضرت انس(ر)۔ کتاب برات الحرم
یعنی حضور(ص) نے اپنا لایا قانون شہادت بھلا دیا اور بغیر ثبوت ہی سزا کا حکم دے دیا۔
٭جواب ٭
اس واقعہ کی اصلیت یہ ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بارے میں منافقین مدینہ نے یہ افواہ اڑادی تھی کہ اپنے چچا زاد بھائی سے ان کا ناجائز تعلق ہے۔ رفتہ رفتہ یہ بات نبیﷺ کے کانوں تک بھی پہنچی۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ’’اذھب فان و جدتہ عند ماریہ فاضرب عنقہ… جاؤ اگر تم اس کو ماریہ کے پاس پاؤ تو اس کی گردن مار دو۔‘‘ بعید نہیں کہ کہنے والے نے حضورﷺ سے یہ کہا ہو کہ وہ وہاں موجود ہے، آپﷺ کسی کو بھیج کر دیکھ لیں، اور اس پر حضورﷺ نے فرمایا ہو کہ اگر وہ وہاں کسی نامناسب حالت میں پایا جائے تو جان سے مار دو۔ اس حکم کے مطابق حضرت علیؓ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک حوض میں نہا رہا ہے۔ آپ نے جاتے ہی اسے ڈانٹا اور ہاتھ پکڑ کر حوض میں سے کھینچ لیا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص پانی سے بھرے ہوئے حوض میں اترا ہو، اس کے بارے میں باہر سے دیکھنے والے کو بیک نظر معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ ننگا ہے یا ستر ڈھانکے ہوئے ہے۔ جب حضرت علیؓ نے اس کو باہر کھینچا تو یکایک آپؓ کی نظر اس کے ستر پر پڑی اور معلوم ہوا کہ وہ تو مقطوع الذکر ہے۔حضرت علی نے اسی وقت اسے چھوڑ دیا اور آکر حضورﷺ کو حقیقت حال بتادی۔
بعض محدثین نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس شخص کے مخنث ہونے کا حال حضورﷺ کو معلوم تھا اور آپﷺ نے حضرت علیؓ کو قتل کا حکم دے کر صرف اس لیے بھیجا تھا کہ جب حضرت علیؓ یہ حکم اسے سنائیں گے تو وہ اپنا راز خود کھول دے گا، اور اس طرح سب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ ساری افواہیں بالکل بے بنیاد ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الثانیہ ۱۳۷۱ھ، مارچ ۱۹۵۲ء)

٭اعتراض :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد پر جانے والے اصحاب پر طنز اور تبرا والی حدیث

عن جابر قال : نہی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أن یطرق الرجل أہلہ لیلا، یتخونہم، أو یلتمس عثراتہم یعنی منع کیا ہے رسول نے رات کو دیر سے گھر والوں کے پاس آنے سے (اس وجہ سے کہ) کوئی ان کے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو یا ان کی پردہ والیوں کی جستجو میں نہ ہو۔(کتاب صحیح مسلم ، جلد ثانی ، کتاب الجہاد والسیر، باب کراہیۃ الطروق ، مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)
اس قسم کی حدیث پر بھی پڑھنے والے خود سوچیں ، میں اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کر رہا۔
٭تبصرہ ٭
معترض نے جو ترجمہ کیا ہے ، اسے نہ لغت ِ عرب قبول کرتی ہے نہ عقل سلیم۔یہ ترجمہ اس بات کی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ منکرین حدیث انکار حدیث کے لیے ہمیشہ بددیانتی سے کام لیتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں دغابازی ، فریب سازی اور کذب بیانی سے ذرا بھر دریغ نہیں کرتے۔ محوّلہ بالا حدیث کا اصل متن اور لغت عرب کے مطابق صحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَطْرُقَ الرَّجُلُ أَہْلَہُ لَیْلاً یَتَخَوَّنُہُمْ أَوْ یَلْتَمِسُ عَثَرَاتِہِمْ ”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی اپنے گھروالوں کے پاس رات کے وقت اس حال میں آئے کہ وہ ان کو خائن سمجھتا ہو یا ان کی لغزشوں کی تلاش کرنے کی کوشش میں ہو۔”(صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٧١٥، طبع دار السلام، بالریاض)
اس حدیث میں تو صحابہ کرام کو سوء ِ ظن سے اجتناب کا حکم دیا جا رہا ہے اور یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ اگر رات کے وقت گھر میں داخل ہونے کا محرّک اپنے گھر والوں کے بارے میں کسی خیانت کا گمان اور ان کی کسی لغزش کی تلاش ہے تو ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ کیا صحابہ کرام کو سوء ِ ظن سے روکنا ان پر طنز و تبرا ہے ؟
اس کا ترجمہ یہ کرنا کہ ”کوئی ان کے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو یا ان کی پردہ والیوں کی جستجو میں نہ ہو۔” انتہائی مجرمانہ حرکت ہے۔ عربی گرائمرکے لحاظ سے لفظ ِ یتخونہم ، لفظ ِ الرجل سے حال بن رہا ہے ، یعنی آدمی اپنے گھر میں اس طرح نہ آئے کہ وہ خود اپنے گھر والوں کی دیانت و امانت کے بارے میں سوء ِ ظن کا شکار ہو یا ان کی کسی لغزش کا متلاشی ہو۔اس کے ترجمے میں لفظ ِ”کوئی” اپنی طرف گھسیڑدینا انتہائی تعصب اور ردّی ذہنیت یا عربی زبان سے مطلق جہالت کی علامت ہے۔ کوئی منکر حدیث بتائے کہ یتخوّن فعل کا فاعل کون ہے ؟ اصول کے مطابق اس کا فاعل اس میں موجود ہُوَ ضمیر ہے جو الرجل ہی کی طرف راجع ہے ۔ جب صورت ِ حال یہ ہے تو ”کوئی” کو اس کا فاعل کیسے بنا دیا گیا ہے؟
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ یتخوّنہم کا معنیٰ خیانت کرنا کر دیا گیا ہے ،حالانکہ یہ عربی کے علم ِ صرف کے مطابق خَوْن(بمعنی خیانت)مادہ سے باب ِتفعُّل ہے اور لغات ِ عرب میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ صراحت موجود ہے کہ جب اس مادے سے باب ِ تفعّل کا فاعل بھی آدمی ہو اور مفعول بہٖ بھی آدمی تو اس وقت معنیٰ اسے خائن سمجھنا یا اس پر خیانت کی تہمت لگانا ہوتا ہے۔لغت ِ عرب کی معروف و مستند کتاب المعجم الوسیط میں مرقوم ہے:
تخوّن ۔۔۔۔۔ فلانا : اتّہمہ بالخیانۃ، وتلمّس خیانتہ وعثرتہ ۔”یعنی کسی پر خیانت کی تہمت لگانا اور اس کی خیانت و لغزش کی تلاش میں رہنا۔”(المعجم الوسیط : باب الخاء ، ١/٢٦٣، طبع دار الدعوۃ)
ایک اور گھپلا لفظ ِ عثراتہم کا معنیٰ ”ان کی پردہ والیوں”کر نے کی صورت میں کیا گیا ہے حالانکہ عثرات جمع ہے عثرۃ کی جس کا معنیٰ کوتاہی ، لغزش اور ٹھوکر ہوتا ہے۔ عربی کے ایک مشہور شاعر ابو العلاء المعری کی طرف یہ شعر منسوب ہے :
فمنْ عثراتِ المرء ِ، فی الرأی، أنّہُ إذا ما جری ذکرُ الخِضابِ تشوّرا
”آدمی کی سوچ و فکر کی ایک کوتاہی یہ ہے کہ جب خضاب کا ذکر آتا ہے تو وہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔”(دیوان ابی العلاء المعرّی، قصیدۃ : إذا طلب الشیب الملمّ فحیّہٖ)
ایک اور عربی شعر یوں ہے :
فلا یفرح الباغی علیکم بسعیہ فما کل عثراتِ السُّعاۃِ تقالُ
”تمارے خلاف بغاوت کرنے والا اپنی کوشش کے بِرتے پر خوش نہ ہو کیونکہ کوشش کرنے والوں کی ہر لغزش معاف نہیں کی جاتی۔”
(دیوان ابی المہیار الدیلمی، قصیدۃ : لہا کل یوم نشطۃ وعقال)
ایک مشہور عربی مقولہ بھی ہے عثرۃ اللسان أشد من عثرۃ الرجل کہ زبان کی ٹھوکر پاؤں کی ٹھوکر سے سخت ہوتی ہے۔کیا یہاں کوئی یہ ترجمہ کر سکتا ہے کہ زبان کی پردہ والی پاؤں کی پردہ والی سے سخت ہوتی ہے؟
پھر اگر اس حدیث پر اعتراض کرنے سے پہلے عقل سے تھوڑی سی اپیل کر لی جاتی تو بھی شاید معاملہ حل ہو جاتا۔ وہ اس طرح کہ معترض کے مطابق ترجمہ یہ ہے کہ ”کوئی ان کے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو۔” لفظ ِ ”اُن” سے پتا چلتا ہے کہ خیانت گھر والوں کے ساتھ ہو رہی ہے نہ کہ واحد”آدمی” کے ساتھ حالانکہ اگر کسی شخص کی غیرموجودگی کوئی غیر اس کی بیوی سے تعلقات بنا لیتا ہے تو اس کی خیانت غیر حاضر شخص سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی ایسی بیوی سے جو خود اس سے تعلقات استوار کر رہی ہے۔یہ عقلی طور پر انتہائی بے تُکی بات ہے۔

٭اعتراض :خوبصورت عورت کا نماز پڑھنااورصحابہ کا اسے دیکھنا

ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت رسول کے پیچھے (عورتوں کی صفوں میں) نماز پڑھا کرتی تھی تو بعض لوگ جان بوجھ کر پچھلی صف میں ہٹ کر نماز میں شریک ہوتے تھے ، رکوع کے دوران بغلوں سے اس عورت کو جھانک کر دیکھتے تھے۔(جامع ترمذی ، جلد دوم ، ابواب التفسیر، سورۃ الحجر کی

٭تبصرہ ٭
1. محدثین کرام نے جہاں احادیث روایت کی ہیں ، وہاں ان کی صحت و ضعف کو پرکھنے کے ایسے پیمانے بھی مقرر کیے ہیں جن پر وہی روایات پوری اترتی ہیں جو فی الواقع صحیح ہوں۔محدثین کرام نے اس حوالے سے نہایت باریک بینی سے کام لیا ہے۔مسلمان تو ہر دور میں محدثین کرام کے اس کارنامے کے معترف رہے ہی ہیں، غیرمسلم بھی اہل اسلام کے اس فن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔
صرف سچے ، دیانتدار اور بیدار مغز لوگوں کی بیان کی ہوئی روایات اصولِ محدثین کے مطابق صحیح قرار پاتی ہیں اور انہی پر مسلمان اپنے دین کی بنیاد رکھتے ہیں۔جس روایت کی سند میں کوئی راوی مذکورہ صفات میں سے کسی سے بھی عاری ہو یا سلسلہ سند میں انقطاع آ جائے تو اس کو قبول نہیں کیا جاتا۔محدثین کرام ہر ہر حدیث کی سند بیان کر کے بریئ الذمہ ہو چکے ہیں۔جب انہوں نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ ہمیں یہ روایت فلاں فلاں شخص کے ذریعے موصول ہوئی ہے اور پھر ان تمام لوگوں کے حالات بھی قلمبند کر دیے ہیں تو اب ہمارا فرض ہے کہ روایت ِ حدیث کے قابل لوگوں کی صرف وہ روایات قبول کریں جن کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو۔ تو آئیے اس حدیث کو اصولِ محدثین کے مطابق پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی صحابہ کرام سے یہ عمل ثابت ہے ؟
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی جو سند ذکر کی ہے ، اس میں ایک راوی عمرو بن مالک نُکری ہے۔ اس نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے کئی غلط روایات بیان کی ہیں، اس بارے میں امام ابن عدیرحمہ اللہ (٢٧٧۔٣٦٥ھ)کا بیان ملاحظہ فرمائیں ، وہ لکھتے ہیں : ”اس (ابوالجوزائ) سے عمرو بن مالک نکری نے ۔۔۔ دس کے لگ بھگ غیر محفوظ روایات بیان کی ہیں۔”(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٢/١٠٨، طبع دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
جب تک ان دس غیر محفوظ احادیث کی نشاندہی نہیں ہو جاتی ، تب تک عمرو بن مالک کی ابوالجوزاء سے بیان کی ہوئی تمام روایات ناقابل قبول ہوں گی۔
جس طرح قرآنِ کریم کے حوالے سے بعض شاذ قراء ات موجود ہیں اورمستشرقین ان پر اعتراضات کرتے ہیں ، لیکن مسلمانوں کے ہاں وہ اعتراضات کوئی حیثیت نہیں رکھتے، اسی طرح احادیث میں بھی کمزور روایات موجود ہیں جن کو بنیاد بنا کر حدیث یا محدثین کرام پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان اپنے دین کی بنیاد کمزور روایات پر نہیں بلکہ اصولِ محدثین کے مطابق صحیح قرار پانے والی روایات پر رکھتے ہیں۔
یہ روایت ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ (تقریب التھذیب جلد 1صفحہ 95)سے منقول ہے جو کہ ثقہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ مرسل روایات بیان کرتے ہیں امام بخاری ان کے متعلق فرماتے ہیں ” فی اسنادہ نظر ”(تاریخ الکبیر 16/1)”اس کی سند میں کلام ہے”یہ روایت بھی خود ان کا اپنا قول ہے نہ کہ ابن عباس کا جیساکہ امام ترمذی نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ:
” جعفر بن سلیمان نے اس حدیث کو عمروبن مالک عن ابی الجوزاء کے طریق سے روایت کیا ہے مگر اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں ۔اور جعفر بن سلیمان والی حدیث نوح بن قیس کی روایت سے زیادہ صحیح ہے” (جامع ترمذی مع تحفة جلد 8صفحہ 528)
جعفر بن سلیمان والی روایت تفسیر عبدالرزاق میں موجود ہے (تفسیر عبدالرزاق جلد 2صفحہ 256رقم 1445)
حافظ ابن کثیر اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں اس کا متن شدید منکر ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3صفحہ 195 )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ روایت صحیح نہیں ۔

2. بالفرض اگر اس کو صحیح مان بھی لیں تو اس روایت میں ہے ” ولیستا خر بعضھم ” بعض لوگ پیچھے صف میں ہوتے تھے ۔ تو یہاں مرادصحابہ نہیں ہیں ۔ ابو داؤد الطیالسی کی روایت میں ہے کہ :”ان میں سے کوئی ایک اپنی بغلوں میں سے جھانک کر دیکھتا تھا ۔” (ابوداؤد الطیالسی رقم الحدیث 2712)
ڈاکٹر شبیرہم بھی یہی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کا کردار ایسا نہیں تھا وہ نہایت پاکباز ہستیاں تھیں جن کو اللہ رب العالمین نے معیار ہدایت بنایا ہے ۔” فان امنو ا بمثل ما امنتم بہ فقداھتدوا، ترجمہ :”اگرہد ایت چاہتے ہو تو ان (صحابہ) جیسا ایمان لاؤ۔”(سورہ بقرة ۔آیت 137)
صحابہ کرام تو صف اول کے لئے بڑی جدوجہد کیا کرتے تھے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے وہ بھلا ایسی حرکت کس طرح کرسکتے تھے ۔ پچھلی صف تو منافقین کی ہوتی تھیں جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔”جب منافقین نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں ۔”(سورة نساء ۔آیت 143)
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: ” ہم جانتے ہیں کہ جماعت میں پیچھے صرف منافقین ہوتے تھے کہ جن کا نفاق واضح تھا ” (رواہ صحیح مسلم فی کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب صلاة الجماعة من سنن الھدی حدیث1488)
اس لیے عظیم محدث محمد ناصرالدین البانی فرماتے ہیں ”” پس اس بات کو کیا مانع ہے کہ پچھلی صفوں والے منافقین میں سے ہوں جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے اور اپنے کفر کو چھپاتے ہوں ۔” (سلسلة الاحادیث الصحیحة جلد 5صفحہ 612رقم الحدیث 2472)

٭اعتراض :زمانہ جاہلیت کے نکاح اور حضرت عائشہ

یہ حدیث کتاب بخاری کے کتاب النکاح کی ہے۔ حدیث کا نمبر ١١٤ ہے ۔ اس میں نکاح کی چار اقسام گنوائی گئی ہیں جن میں سے تین اقسام کی عورتیں اپنی شوہر کے علاوہ دوسرے مردوں سے بذریعہ زنا بیج لیتی ہیں۔ امام بخاری نے حدیث میں نکاح کی پہلی قسم میں صرف یہ لکھا ہے کہ نکاح ہوتا کس طرح سے تھا، حدیث میں کریکٹر پر کچھ نوٹ نہیں۔
یہ حدیث انہوں نے بی بی عائشہ کے نام سے روایت کی ہے کہ جناب رسول کو نبوت ملنے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں نکاح چار اقسام کا ہوتا تھا۔ غور کیا جائے کہ ان حدیث سازوں کی روایت کے مطابق جو عائشہ پیدا ہی نبوت ملنے کے بعد ہوئی ہے ، حدیث میں وہ زمانہ قبل نبوت کا عرب کلچر پیش کر رہی ہے۔ اصل میں یہ ایک فن ہے علم حدیث میں تبرا کرنے کا اصحاب رسول پر۔

٭تبصرہ٭
اس حدیث میں زمانہ جہالت میں نکاح کی غلط صورتوں کا رائج ہونا نہ خلاف ِ حقیقت ہے نہ خلاف ِ عقل۔ رہی بات صحابہ کرام کے نسب پر طعن ہونے کی تو عرض ہے کہ اس حدیث میں کسی صحابی کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ اس کے والدین نے نکاح کی غلط صورت کو اپنایا تھا بلکہ نکاح کی صحیح صورت کا بھی اثبات کیا گیا ہے۔خود معترض صاحب کو اعتراف ہے کہ حدیث میں کریکٹر پر کچھ نوٹ نہیں۔ پھر صحابہ کرام کے نسب پر تبرّا کیسے ہو گیا ؟
رہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نبوت ملنے کے بعد پیدا ہونا اور زمانہئ قبل نبوت کا کلچر پیش کرنا تو اس میں کون سی حرج والی بات ہے ؟ یہ بات تو طَے ہے کہ کوئی صحابی اگر کوئی ایسا واقعہ بیان کرے گا جس کا وہ خود چشم دید گواہ نہیں ہے تو ضرور وہ کسی دوسرے صحابی ہی سے سن کر اسے بیان کر رہا ہو گا۔جب تمام صحابہ کرام مسلمانوں کے نزدیک سچے اور کھرے مسلمان تھے تو اس طرح کی روایات پر شک و شبہ کا اظہار بجائے خود صحابہ کرام پر تبرّا کرنے کے مترادف ہے۔

٭اعتراض :کبوتری کو زوجہ بنانے کی روایت

ڈاکٹر شبیر صاحب نے ایک روایت نقل کی ہے کہ
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہا (بے نکاح) ہونے کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبوتری کو ساتھی(زوجہ) بنالو۔(اسلام کے مجرم صفحہ22)
٭ازالہ٭
اس روایت کو حافظ ابن قیم نے اپنی کتاب”المنار المنیف”میں ذکر فرمایاہے۔(المنارالمنیف۔ص97)ڈاکٹر شبیر نے اس کتاب کا نام ”البحار الحنیف” ذکر کیا ہے جو کہ غلط ہے ۔حافظ ابن قیم نے اپنی تصنیف ”المنار المنیف” میں ان روایات کو یکجا کیا ہے جو کہ موضوع یعنی من گھڑت ہیں۔ ان موضوع روایات کو مختلف لوگوں نے گھڑ کر اپنے باطل سیاسی و مسلکی نظریات کے لئے استعمال کیا ہے اور اب منکرین حدیث انہیں اپنے باطل نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کررہے ہیں ۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے سے پہلے لکھا ہے کہ کبوتروں کے بارے تمام روایات ضعیف اور موضوع ہیں اور اس کے بعد انہوں نے ان ضعیف اور موضوع روایات کا ذکر کیا ہے جو کبوتروں کے بارے نقل ہوئی ہیں اور جناب ڈاکٹر شبیر احمد صاحب نے وہی روایت اٹھا کے اسے اپنا کارنامے کے طور پر پیش کردیا ۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اصل عبارت ملاحظہ ہو: فَصْلٌ-27- فِي ذِكْرِ جَوَامِعٍ وَضَوَابِطٍ كُلِّيَّةٍ فِي هَذَا الْبَابِ:
194- فَمِنْهَا أَحَادِيثُ الْحَمَامِ -بِالتَّخْفِيفِ- لا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ. 195- وَمِنْهَا حَدِيثِ “كَانَ يُعْجِبُهُ النظر إلى الحمام”. 196- وَحَدِيثِ “كَانَ يُحِبُّ النَّظَرَ إِلَى الْخُضْرَةِ وَالأُتْرُجِّ والحمام الأحمر”. 197- وَحَدِيثِ “شَكَا رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْدَةَ فَقَالَ لَهُ: لَوِ اتَّخَذْتَ زَوْجًا مِنَ حَمَامٍ فَآنَسَكَ وَأَصَبْتَ مِنْ فراخه. [المنار المنيف في الصحيح والضعيف، ص106، مكتبة المطبوعات الإسلامية، حلب]
لہٰذا ڈاکٹر شبیرنے اس کو اپنی کتاب میں نقل کرکے کوئی نیا کام سرانجام نہیں دیاہے خود محدثین ایسی روایتوں کو ناقابل اعتبار قراردے کر رد کرچکے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر شبیر اس روایت کو جس کتاب سے نقل کرکے اس کو اسلام باور کرانا چاہتے ہیں یہ کتاب ہی اسلام کے مجرموں کے خلاف لکھی گئی ہے۔علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس کتاب کو اپنی “الموضوعات الکبری” میں نقل کیا ہے۔ اور اگر اس کتاب کا اردو ترجمہ ہو جائے تو یقین مانیے کہ حدیث پر اعتراض کرنے والوں کا بنیادی مصدر قرار پائے۔ اور بغیر کتاب کے نام اور موضوع پر غور کیے وہ تھوک کے حساب سے حدیثوں پر اعتراض کا ریکارڈ قائم کر دیں۔۔۔!

٭اعتراض:فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے :امت کا بہترین آدمی وہ ہے جس کی زیادہ بیویاں ہوں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 22)

٭ازالہ٭
اس روایت کو نقل کرنے میں ڈاکٹرشبیر نے علمی خیانت کی ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں بلکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کا قول ہے ۔جسے ڈاکٹرشبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کی طرف منسوب کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ”جس نے میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی پس اس کو چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے” (مسند احمد 454/1وقال احمد شاکر اسنادہ صحیح۔)
اصل روایت یوں ہے : ”سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس نے مجھ سے کہاکہ کیاتم نے نکاح کرلیا؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں تو آپ نے فرمایا کہ نکاح کرو یقینا اس امت میں بہترین وہ ہے جس کی زیادہ بیویاں ہوں” (صحیح بخاری مع فتح جلد٩صفحہ 140۔)
موجودہ زمانے کا بھی مشاہدہ کیا جائے تو اس وقت پوری دنیا میں مردوں کی بنسبت عورتوں کی کثرت ہے اور عورتوں کے مقابلے میں مرد وں کی شرح اموات زیادہ ہوتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلہ میں 80 لاکھ زائد ہے (The Medical Guide.Columbia University) اور قیامت کی پیش گوئی میں سے ہے کہ ایساوقت آئے گا کہ 50 عورتوں کاکفیل ایک ہی مرد ہوگا یعنی عورتیں کافی حدتک مردوں سے تعداد میں بڑھ جائیں گی ۔ عورتوں کی بے نکاہی سے معاشرے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس نے بھی مرد کو ذیادہ شادیاں کرنے کی ترغیب ہے ، یہ کوئی عجیب یا بری بات نہیں ۔اگر اس میں کوئی عیب ہے تو منکرین حدیث قرآن کریم کی اس آیت کاکیا جواب دیں گے جس میں چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے ۔

٭اعتراض :حضرت عائشہ کی کنوارے کی فضیلت کی حدیث

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں،
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسی وادی میں اتریں جہاں بہت سے درخت ہوں لیکن ان کے پتے چرالئے گئے ہوںاور ایک درخت آپ ۖایسا بھی پائیں جس کے پتے چرائیں نہ گئے ہوں تو آپۖ اپنے اونٹ کو کس درخت سے چرائیں گے؟فرمایا اس درخت سے جس کے پتے چرائیں نہ گئے ہوں امام صحیح بخاری کہتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ کی مراد یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں صرف وہ ہی کنواری تھیں۔ ( اسلام کے مجرم,صفحہ22,23)

٭تبصرہ٭
اس حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب النکاح میں ذکر فرمایاہے۔(صحیح بخاری کتاب النکاح رقم الحدیث،5077)
اس حدیث کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اس میں ایک مثال کے ذریعے ام المؤمنین عائشہ کے کنوارے پن اور فضیلت کو واضح کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات میں سے صرف عائشہ ہی کنواری تھی اورباقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ ڈاکٹر شبیر احمد کو یہ حدیث برہنہ نظر آئی حالانکہ اس میں ایسی کچھ بات بھی نہیں ۔حدیث کے معاملے میں اتنے حساس بننے والے ان قرآنی آیات پر بھی کچھ تبصرہ فرما دیں ۔نساؤکم حرث لکم فأتو احرثکم انی شئتم۔ ترجمہ : ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتیوں میں سے جہاں سے چاہوں آؤ۔” (سورةالبقرة،آیت 223) اور فلما تغشاھا حملت حملا خفیفا۔ ترجمہ : ”پس جب اس مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو وہ حمل سے ہوگئی۔” (سورةاعراف ،آیت189)
منکرین حدیث جس طرح کے حدیث کے معانی کی طرف متوجہ کرتے ہیں ان سے قرآن کی ان آیات کا بھی بڑا غلط اور فحش ترجمہ کیا جاسکتا ہے اور ان کو غلط معنوں میں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔ یہ منکرین حدیث کی عقل و سوچ کا ہی فتور ہے ورنہ نا حدیث معیوب ہے نا قرآنی آیت۔

٭اعتراض:ایسی عورت سے نکاح کرنا چاہیئے جس کی خوب اولاد ہو ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 42)

ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے اس روایت کو بھی جزوی طور پر نقل کیا ہے اور عوام الناس کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔حالانکہ یہ روایت مشکوٰة میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔
”معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محبت کرنے والی اور بچہ جننے والی عورتوں سے نکاح کرو تاکہ میں دیگر امتوں پر تمہاری( کثرت کی ) وجہ سے فخر کر سکوں ” (صحیح مشکوة کتاب النکاح الفصل الثانی رقم الحدیث 3091)
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عورت سے نکاح کی ترغیب دے رہے ہیں کہ جو محبت کرنے والی ہو اور بانجھ نہ ہو ۔تو اس حدیث میں ایسی کونسی بات ہے جو قابل اعتراض ہے ۔ انسان نکاح محبت اور اولاد کے حصول کے لئے ہی کرتا ہے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمادی تو اعتراض کیوں ؟

٭اعتراض :قرآنی کی کسوٹی پر پرکھنے کی روایت

”اذا روی عنی حدیث فاعرضوا کتاب اللہ فان واقفہ فاقبلواہ ولا تذروہ۔ ترجمہ :”تمہارے سامنے میرے اقوال پیش کئے جائیں گے تم انہیں قرآن کی کسوٹی پر پرکھ لینا، اگر وہ کتاب اللہ کے مطابق ہوں تو انہیں قبول کر لینااور اگر قرآن کے مطابق نہ ہوں تو انہیں ترک کر دینا” (اسلام کے مجرم صفحہ15)
٭ازالہ٭
ڈاکٹرشبیرصاحب کی پیش کردہ روایت درج ذیل کتب میں موجود ہے مفتاح الجنۃ صفحہ نمبر 52۔الفوائد المجموعہ صفحہ 291 اور امام شافعی کی کتاب الرسالہ صفحہ نمبر 170 اس روایت کی اسنادی حیثیت کے متعلق امام یحیی بن معین رحمہ اللہ لکھتے ہیں “اس حدیث کو زنادقہ (زنادقہ سے مراد وہ فرقہ ہے جو اللہ کی وحدانیت پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کو ظاہر کرتا ہے اصلاً یہ لوگ مجوسی مذہب سے متاثر ہیں)۔ نے گھڑا ہے۔ لہٰذا یہ روایت جھوٹی ہے اور ہم صحیح حدیث کو ماننے والے ہیں ہمارا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔( تذکرۃ الموضوعات صفحہ 28الفوائدالمجموعہ صفحہ 201)
منکرین حدیث اپنے مخصوص موقف کے لیے انہی ضعیف او ر گھڑی ہوئی روایات کا سہارا لیتے ہیں جنہیں محدثین نے چھانٹ کے علیحدہ کرچکے ہیں ۔

٭اعتراض :حضرت جابر کابیوہ عورت سے نکاح اور حدیث

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر بن عبداللہ کو سرزنش کی کہ تم نے شوہر دیدہ (بیوہ )عورت سے نکاح کیوں کیا؟کنواری نو عمر لڑکی سے نکاح کیوں نہ کیا کہ تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :آپ تو بیواؤں اور بے سہاروں کا سہارا تھے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 26)
ازالہ:۔
یہ حدیث صحیح بخاری کتاب النکاح کا ایک جز ہے کہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر سے گھر کی جانب جلدی جانے کی وجہ دریافت فرمائی تو سیدنا جابر نے عرض کیا کہ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا شادی شدہ (بیوہ یا طلاق یافتہ)عورت سے ۔تو میں نے عرض کیا کہ شادی شدہ عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی تاکہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی ۔”(صحیح الصحیح بخاری کتاب النکاح باب تزویج الثیبات رقم الحدیث 5079)
ڈاکٹر صاحب کو اس حدیث پر اعتراض ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر کو کنواری عورت سے شادی نہ کرنے پر سرزنش فرمائی یعنی جابر کو بیواؤں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ جبکہ ایسا نہیں آپ ﷺ نے صرف کنواری سے شادی کرنے کی ترغیب دلائی ۔ اگر ہم اس حدیث مبارکہ کا پس منظر پر بغور نظر ڈالیں تو یہ حدیث باآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔غزوہ احد میں سیدنا جابر کے والدگرامی سیدنا عبداللہ شہید ہوگئے تھے اور اپنے اوپر کچھ قرضہ اور نو بیٹیاں سوگوار چھوڑ گئے تھے تو اپنی بہنوں کی تعلیم وتربیت کے لئے جابر نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جو عمر میں پختہ اور پہلے سے شادی شدہ تھیں ،جابر فرماتے ہیں”اپنے والد کی شہادت کے بعد اپنی بہنوں کی تربیت کے لئے میں نے ایک شادی شدہ عورت سے نکاح کیا ۔مجھے یہ بات ناپسند تھی کہ میں اپنی بہنوں پر ان جیسی ہی کوئی لڑکی لے آؤں، میری چاہت تھی کہ میں اپنی بہنوں کی تربیت کے لئے ایسی عورت سے شادی کروں کہ وہ ان کا خیال رکھے، ان کے بال وغیرہ سنوارے اور ان پر بڑی بن کر رہے ۔ ” (فتح الباری جلد 9صفحہ 152)
جابر نے جب یہ وجہ بیان کی کہ میں نے ثیبہ سے نکاح اپنے گھر کی دیکھ بھال اور بہنوں کی تربیت کے خاطر کیا تو آپ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور دعا دی”بارک اللہ لک ‘ اللہ تجھے برکت دے ،'( فتح الباری جلد 9صفحہ 152)
کنواری عورتوں کی ترغیب دلانا کوئی بری بات نہیں اسی سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اک اور فرمان ہے جس کا ہم بھی مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ”کنواری لڑکیوں سے نکاح کرو اس لئے کہ وہ شیریں زبان ہوتی ہیں ، ان سے اولاد ذیادہ ہوتی ہے اور وہ قلیل عطیہ پر خوش ہوجاتی ہیں” (ابن ماجہ کتاب النکاح باب تزویج الابکار رقم الحدیث 1861حسنہ الالبانی ۔)
شادی کرنے کی ضرورت کنواری لڑکیوں سے ہی صحیح پوری ہوسکتی ہے اس لیے جب ترجیح کی بات ہوگی تو کنواریوں کو ہی ہر صاحب عقل ترجیح دے گا۔ ہر معاشرے میں انہیں ترجیح دی جاتی تھی ” اہل عرب عمومی طور پر کنواری لڑکیوں سے نکاح کرتے تھے اور کم عمر کنواری لڑکیوں کو بڑی عمر کی کنواری لڑکیوں پر ترجیح دیتے تھے ۔ (المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام جلد 4صفحہ 474)
خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواری لڑکیوں سے نکاح کی ترغیب ضرور دلائی مگر شادی شدہ عورت سے نکاح کرنے سے منع نہیں فرمایا جیساکہ جابر کو نکاح کے بعد دعا دی ۔ مزید احادیث ہی بیان کرتی ہیں کہ خود آپکی گیارہ بیویوں میں سے صرف ایک ہی کنواری تھیں ، حضورﷺ کا یہ عمل امت کے لیے ہی تھا کہ بیوہ عورتوں میں کوئی عیب نہیں ہے انہیں بالکل نظر انداز نا کیا جائے۔

٭اعتراض :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” میرے بعد لوگوں پر عورت سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں” (اسلام کے مجرم صفحہ26)

ڈاکٹر شبیرکا اس حدیث پر اعتراض ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کو فتنہ قرار دے رہے ہیں ۔اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونہیں سکتی بلکہ کسی اسلام کے مجرم کی سازش ہے جس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ۔
ازالہ :۔
اس حدیث پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر عورت کو فتنہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ ان عورتوں کو فتنہ/ آزمائش قرار دیا گیا ہے کہ جن کے سبب سے انسان اللہ کی یاد اورجہاد وغیرہ سے دور ہوکر دنیاوی شہوات میں پڑ جاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے : اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ 15؀ ترجمہ: بات یہی ہے کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ (آزمائش) ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس اجر عظیم ہے ۔
ظاہر ہے اس آیت میں ہر حلال مال اور نیک اولاد کو فتنہ نہیں کہا گیا۔!

٭اعتراض: حضرت علی نے نشے میں نماز پڑھائی

سورة البقرة کی آیت نمبر 36نازل ہونے کے بعد بھی لوگ شراب پیتے رہے۔ کھانے کے بعد مغرب کا وقت آگیا اور حضرت علی نے نماز پڑھائی لیکن نشے کی خمار میں کچھ کا کچھ پڑھ گئے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 52)
ازالہ: ۔
ڈاکٹر شبیرکی نقل کردہ عبارت کی اصل ابو داود میں کچھ اس طرح موجود ہے ۔
” علی سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے ان کی اور عبدالرحمان بن عوف کی دعوت کی پس انہوں نے ان دونوں کو شراب پلائی (یہ بات شراب کی حرمت سے قبل کی ہے)علی نے انکو مغرب کی نماز پڑھائی ”اور قل یاایھالکافرون ” کی تلاوت کی اور اس کوخلط ملط کردیا تو قرآن کی آیت نازل ہوگئی ”لاتقربوالصلوة وانتم سکاری حتی تعلمو ا ماتقولون ”(نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ جو کہہ رہے ہو اس کو سمجھنے لگو )۔ ( ابوداؤد کتاب الاشربة باب فی تحریم الخمر رقم الحدیث )
سیدنا علی سے مروی یہ واقعہ شراب کی حرمت سے قبل کاہے جیساکہ خود اس روایت میں صراحت اور سورة البقرة کی آیت 219جس کا ذکر ڈاکٹر شبیرنے کیا ہے اس میں بھی شراب قطعی طور پر حرام نہیں ہوئی تھی جیساکہ ارشاد ہے :
”لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فا ئدہ بھی ہوتا ہے ۔”
(سورہ البقرة ۔آیت 219)
اس آیت میں کہیں شراب کی حرمت اور اس سے منع کا ذکر نہیں ہے ۔یاد رہے کہ اسلام سے قبل اور ابتدائی ایام میں بھی کثرت سے شراب نوشی کی جاتی تھی بلکہ اہل عرب تو اس وجہ سے مشہور بھی تھے ۔سورة البقرة 219کے نزول کے بعد بھی اصحاب رسول شراب نوشی کرتے تھے جس کی بناء پر سیدنا علی سے یہ واقعہ سرزد ہوگیا۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العالمین نے ”لا تقربوالصلوة ” نازل فرماکر نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرمادیا مگر اس روایت سے بھی شراب کو حرام نہیں کیا گیا بلکہ تخصیص کردی گئی کہ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھو ۔ پھر کچھ عرصے بعد مطلق شراب کی حرمت نازل کردی گئی کہ :
”اے ایمان والوں بے شک شراب اور جوا اور بت پانسے (یہ سب )گندے شیطانی کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔” (سورہ المائدہ ۔آیت 90)
اس آیت کے نزول کے بعد مدینے میں پھر منادی کرادی گئی کہ شراب آج سے حرام ہوگئی ہے لہٰذا اس کے بعد صحابہ نے اس سے مکمل اجتناب برتنا شروع کردیا ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابوداؤد کتاب الاشربة ۔
ڈاکٹر شبیرکو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ سورة البقرة کی آیت 219میں شراب کی حرمت موجودہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔مندرجہ بالا قول صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ شراب کی اصل حرمت سورة المائدہ کی آیت میں ہوئی نہ کہ البقرة میں لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی یہ تحقیق بھی صحیح نہیں ۔رہا سیدنا علی کا قرآن غلط پڑھ جانا تو شراب چیز ہی ایسی ہے کہ اس کو نوش کرنے سے انسان اپنے آ پ کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس کو عربی میں خمر کہا گیا ہے یعنی عقل کو ڈھانپ لینے والی ۔ اور سیدنا علی بھی ایک انسان تھے لہٰذا ان سے اس معاملہ میں چوک ہوگئی۔

٭اعتراض:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منگل خون کا دن ہے اس دن خون تھمتا ہی نہیں ”(اسلام کے مجرم صفحہ 27)

٭ازالہ٭
ڈاکٹر شبیر کی نقل کردہ روایت ضعیف ہے صاحب عون المعبود نے امام جلاالدین سیوطی کا قول نقل کیا ہے کہ:” اس حدیث کو ابن جوزی نے تذکرة الموضوعات مین ذکر کیا ہے ۔” (عون المعبود جلد 10صفحہ 192)
اس کی سند میں بکار بن عبدالعزیز بن ابی بکرة الثقفی ہے ۔جو کہ اس روایت کے قبول کرنے کے لئے حجت نہیں ۔ (کتا ب الضعفاء جلد 1صفحہ 172،تھذیب التھذیب جلد 1صفحہ 499)
مزید اس کی سند میں کیسة بنت ابی بکرة کے متعلق حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ”اس کا حال معروف نہیں ۔” (تقریب التھذیب 11748)
ایسی بیسوں روایات ہیں جنہیں محدثین نے مکمل جانچ پڑتال کے بعد ذخیرہ حدیث سے علیحدہ کیا اور ضعیف کہا ہے۔ اس کام پر بجائے محدثین کی تعریف کرنے کے الٹا انہیں اسلام کے مجرم کہنا ان متعصبین کا ہی شیوہ ہے۔

٭اعتراض: ایک روایت پر اعتراض جس میں مذکور واقعہ کا بیان قرآن میں بھی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ۔دیگر امہات المومنین نے منصوبہ بنایا کہ جس بیوی کے پاس جائیں گے وہ یہی کہے گی ہمیں آپ کے منہ سے بدبو آرہی ہے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ35)

ازالہ:۔
مذکورہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے کہ۔
” عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش کے پاس ٹہرتے اور شہد نوش فرماتے تھے تو میں نے اور حفصہ نے مل کر یہ صلاح کی کہ ہم میں سے کسی کے گھر میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوں تو وہ یہ کہے ”میں آپ کے پاس سے مغافیر (ایک بو والا پھل ) کی بو محسوس کررہی ہوں کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ”۔پس جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کے پاس گئے تو انہوں نے ایسا ہی کہا ۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی بات نہیں میں نے تو زینب کے ہاں شہد پیا ہے اور اب ہر گز نہیں پیوں گا پھر یہ آیت نازل ہوئی ۔ یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک (سورہ ۔تحریم آیت 1) (صحیح بخاری کتاب الطلاق باب لم تحرم ما احل اللہ لک رقم الحدیث 5267)
ڈاکٹر شبیرنے اس روایت کو بغیر کسی تبصرے کے نقل کیا ہے شاید انہیں اس بات پر اعتراض ہے کہ روایت مذکورہ سے ازواج مطہرات پر الزام آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلا ف منصوبہ بندی کرتی تھیں ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے ۔
یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک (‘ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہیں ”)
‘ اس آیت میں یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز اپنے اوپر بیویوں کی ضا مندی کے لئے حرام کرلی تھی ۔جس پر اللہ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی ۔ مزید ارشاد ہے :
”واذ اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا فلما نات بہ واظھرہ اللہ علیہ عرف بعضہ واعرض عن بعض ،فلما نباھابہ قالت من انبأک ھذاقال نبانی العلیم الخبیر (سورہ تحریم ۔آیت 3(2)سورة تحریم ،آیت4)
” اور (یاد کرو) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں سے ایک پوشیدہ بات کہی ۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی اور اللہ نے اپنے نبی کو آگاہ کردیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی سی بات تو بتادی اور تھوڑی سی ٹال گئے پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی ۔ کہا سب جاننے والے اور پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے بتادیا ۔”
مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیویوں نے کچھ خفیہ منصوبہ بندی کی تھی جس کی خبر اللہ رب العزت نے بذریعہ وحی فرمادی ۔ اور یہ منصوبہ بندی کس کے خلاف تھی اگلی آیت واضح کررہی ہے ۔
” ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما وان تظٰھر ا علیہ فان اللہ ھو مولٰہ وجبریل وصالح المؤمنین ۔والملٰئکة بعد ذلک ظھیر”(2)
”(اے نبی کی دونوں بیویوں) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو ۔ یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں ۔ اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی گٹھ جوڑ کرو گی پس اس کا کارساز یقینا اللہ ہے اور جبریل ہیں اور صالح مومنین اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں ۔”
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی بیویوں سے کچھ سرزد ہوا تھا اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف صلاح کی تو اس پر اللہ کی طرف تنبیہ نازل ہوئی ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کچھ ازواج کی رضامندی کے لئے اپنے اوپر کچھ حرام کرلیا اور پس منظر میں یہ منصوبہ ازواج مطہرات میں سے دوبیویوں نے بنایا تھا جس کی خبر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی کردی گئی بعد میں ان ازواج کو سخت تنبیہ کی گئی ۔
زیر بحث حدیث ان آیات کی تشریح وتوضیح کرتی ہے ۔ بلکہ جس قدر سخت الفاظ قرآن نے استعمال کئے ہیں حدیث میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے اب جو اعتراض حدیث پر وارد ہوتا ہے قرآن مجید پر بھی وہی اعتراض لازم آتا ہے پس جو جواب قرآن کا ہے وہی حدیث کا بھی سمجھ لیں ۔

٭اعتراض:حضورؐ کی حضرت عائشہ سے دل لگی کی باتیں

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ۔
عائشہ بولیں ہائے سر پھٹا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش میری زندگی میں ایسا ہوجاتا عائشہ بولیں آپ میری موت چاہتے ہیں کہ اگلی رات دوسری بیوی کے پا س گزاریں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 36)
٭ازالہ ٭
حدیث زیر بحث صحیح بخاری میں مرقوم ہے ۔
” سیدہ عائشہ کے سر میں درد تھا اور وہ کہہ رہی تھیں کہ ہائے میرا سر پھٹا جارہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔(کہ تجھ کو کیا فکر ) اگر تو میری زندگی میں مرجائے گی تو میں تیرے لئے دعا اوراستغفارکرونگا۔تب وہ کہنے لگیں ہائے مصیبت اللہ کی قسم آپ میری موت چاہتے ہیں ۔ میرے مرتے ہی اسی دن شام کو دوسری بیوی کے ساتھ ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہائے میرا سر ۔”(صحیح بخاری کتاب المرضی باب مارخص المرضی رقم الحدیث 5665)
اس روایت کے مزید کچھ طرق جمع کئے جائیں تو خلاصہ یہ ہوتا ہے۔
سیدہ عائشہ کے سر میں در دتھا جس کی وجہ سے وہ کہہ رہی تھیں کہ ہائے میرا سر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا کہ تجھ کو کیا فکر ہے اگر تو میری زندگی میں مرگئی تو میں تیرے لئے استغفار کرونگا ایک روایت میں ہے ۔میں تیرا جنازہ پڑھوں گا اور تجھ کو دفن کرونگا ۔(فتح الباری جلد 10صفحہ 155) اس پر عائشہ فرمانے لگیں کہ آپۖ تو میری موت چاہتے ہیں تاکہ اس شام اپنی دوسری زوجہ کے پاس ہوں ۔ ”قالت فتبسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”(فتح الباری جلد 10صفحہ 155)یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے آپ نے بھی کہا کہ ہائے میرا سر ۔ (ماخوذ فتح الباری )
خلاصہ حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ سے ان کی بیماری میں ازراہ مذاق محبت و الفت فرمارہے تھے ۔اس پر بھی ڈاکٹر شبیرکو اعتراض ہے کہ یہ اسلام دشمنوں کی سازش ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس طرح کی باتیں منسوب کردیں کہ آپ اپنی ازواج سے محبت ودلگی فرماتے تھے ۔
ڈاکٹر شبیر کے چند مزید بچگانہ اعتراضات ملاحظہ کیجیے۔

٭اعتراض :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گال سرخ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لال ہوگیا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ44)

تبصرہ :
ڈاکٹر شبیرکو اس پر بھی اعتراض ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ کیوں آگیا ۔ موصوف شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر اور انسان تھے ۔ قل انما انا بشر مثلکم (سورہ کہف ۔آیت 110)” اے نبی کہہ دیں کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں ”
چونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور غصہ انسانی فطرت میں داخل ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ میں آجانا ایک فطری عمل تھا رہی بات ایک نبی کا غصہ میں آجانا یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے ۔”ولما رجع موسی الی قومہ غضبان اسفا ”(سورہ اعراف ۔آیت 150 )” جب موسی اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تھے ۔”
بلکہ غصہ کا یہ عالم تھا :”والقی الالواح واخذ برأس اخیہ یجرہ الیہ ”(سورہ اعراف ۔آیت 150)
” اور (توریت)کی تختیاں پھینک دی اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے ۔”
ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض اس وجہ سے ہے کہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی حالت کا ذکر ہے تو ڈاکٹر شبیراس آیت پر کیا رد عمل ظاہر کریں گے جس آیت میں نبی کے غصے کے ساتھ غصے کا ردعمل بھی ذکر ہے تو ثابت ہوا کہ ڈاکٹر شبیرکا اعتراض عبس ہے ۔
ایک اور اعتراض ملاحظہ کیجیے

٭ اعتراض:عورت پسلی کی مانند ٹیڑھی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” عورت پسلی کی مانند ٹیڑھی ہے اگرا سے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اسے ٹیڑھی رہنے دو اور فائدہ اٹھاتے چلے جاؤ ۔”صاحبو! یہاں یوں لگتا ہے کہ یہود ونصاری نے بائبل کی روایت ہماری صحیح بخاری میں ڈال دی ہے قرآن نہیں کہتا کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ33 )
ازالہ:۔
صحیح بخاری میں یہ روایت ان الفاظ سے منقول ہے ۔
””ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت پسلی کی مانند ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو توڑدوگے اس سے فائدہ اٹھاؤ اسے ٹیڑھی ہی رہنے دو ۔” (صحیح بخاری کتاب النکاح باب مدارة مع النساء رقم الحدیث 5184 )
(1) ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض ہے کہ عورت کو پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسکو”ٹیڑھی ”کہا گیا ہے۔
منکرین حدیث کا مقصد ہی چونکہ نقص نکالنا ہے اس لیے وہ احادیث کے اچھے پہلو بھی نظر انداز کرجاتے ہیں ۔ غور کیا جائے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں نصیحت فرمائی کہ عورت سے زیادہ سختی نہ کرو اس کو سیدھا کرنے کے چکر میں کہیں اس کو توڑ نہ بیٹھنا کہ جس طرح پسلی کو سیدھا کرنے سے وہ سیدھی تو نہیں ہوتی مگر ٹوٹ جاتی ہے تو اسی طرح عورت کو توڑ نہ بیٹھنا اور عورت کو توڑنا کیا ہے وہ طلاق ہے جیساکہ صحیح مسلم کی روایت ہے ”’اگر تم عورت کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اسکو توڑ بیٹھو گے اسکو توڑنا اسکو طلاق دے دینا ہے ۔” ( صحیح مسلم بحوالہ فتح الباری جلد 6صفحہ 445)
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے ”عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔” (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب خلق آدم رقم الحدیث 3331)
یہ حدیث عورتوں کے حقوق کے لئے ہے نہ کہ ان کی تنقیص کے لئے جیساکہ ڈاکٹر شبیرنے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے ۔
(2) دوسرا اعتراض ” عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب خلق آدم رقم الحدیث 3331)یہ بات قرآن مجید میں موجود نہیں ”۔تو اسکا جواب یہ ہے کہ قرآن میں یہ بھی نہیں کہ عورت کو پسلی سے پیدا نہیں کیا گیا ۔ بلکہ قرآن مجید میں اسکا اشارہ موجود ہے کہ عورت کو آدم سے پیدا کیا گیا ہے ۔
” یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث ۔ ترجمہ :”اے لوگوں اپنے پر ور دگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اسکی بیوی کو پیدا کیا ۔”(سورة النساء ۔آیت 1)اس حدیث نے اس کی تشریح پسلی سے کردی ہے۔
(3)ڈاکٹر شبیرکا تیسرا اعتراض کہ یہود ونصاری نے بائبل کی روایت کو صحیح بخاری میں ڈال دیا ۔
قرآن مجید میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے ۔”جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج وچاند کو (خواب میں) دیکھاکہ وہ سب مجھے سجدہ کررہے ہیں ۔” (سورہ یوسف ۔آیت 4)
یوسف کے اس خواب کی تعبیریہ ہے کہ جب ایک طویل حادثاتی عرصے کے بعد جب ان کے تمام بھائی اور والدین ان کے پاس مصر پہنچے تو ان کے لئے سجدہ ریز ہوگئے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 100)اس واقعہ سے قطع نظر اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ سجدہ تو صرف اللہ کے لئے ہے یہاں تو ایک نبی دوسرے نبی کو سجدہ کررہے ہیں۔
اب اگر اعتراضاً عبارت یوں ہو۔”صاحبو یہاں یوں لگتا ہے کہ یہود ونصاری نے بائبل(کیا میں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سچ مچ تیرے آگے زمین پر جھک کر سجدہ کریں (بائبل پیدائش 10:37) کی روایت ہمارے قرآن میں ڈال دی ہے ۔آپ اس اعتراض کا کیا جواب دیں گے ؟جو اس کا جواب وہی حدیث کا جواب۔

٭اعتراض:حضرت علی نے فرمایا مجھے جریان تھا جس سے میری مذی نکلا کرتی تھی ۔(اسلام کے مجرم صفحہ 45)

ازالہ:۔
جریان اور مذی ایک قسم کی بیماری ہے جو انسان کو لاحق ہوجاتی ہیں ۔ تو سیدنا علی بھی ایک انسان تھے اگر ان کو یہ بیماری لگ گئی تو یہ کوئی اچھنبے کی بات تو نہیں ۔اگر ڈاکٹر شبیرکو یہ اعتراض ہے کہ سیدنا علی نے ایسی جنسی بیماری کے متعلق بیان کیوں کیا؟تو اس کا جواب حدیث میں موجود ہے جس کو ڈاکٹر شبیرحذف کرگئے ہیں کہ سیدنا علی نے مسئلہ پوچھنے کے لئے اس بیماری کا اظہار فرمایا تھا ۔
مکمل روایت ملاحظہ فرمائیں :
” سیدنا علی سے روایت ہے کہ مجھے کثرت سے مذی(شہوت کی وجہ سے شرمگاہ سے نکلنے والے پانی کو مذی کہا جاتا ہے ۔)آتی تھی میں نے مقداد بن اسود کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کریں(کہ اس پر غسل ہے یا وضوئ)پس مقداد نے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کو وضو کرنا چاہیئے ”'(صحیح بخاری کتاب العلم باب من استحیا فامرغیرہ باالسوال رقم الحدیث 132)

٭اعتراض : تقدیر کی روایت پر اعتراض

فرشتہ ماں کے پیٹ میں ہی تقدیر لکھ لیتا ہے یعنی زندگی موت اور رزق اعمال بدہونا اور اچھا ہونا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 55)
ڈاکٹر شبیرکو اعتراض ہے کہ جب سب کچھ لکھا ہوا ہے تو قرآن نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
ازالہ:
خود قرآن تقدیر کے مسائل بیان کرتا ہے مثلاً،
وما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ کتابا مؤجلا(سورہ آل عمران ۔آیت 145)
”اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی جاندار نہیں مرسکتا ۔مقررشدہ وقت لکھا ہوا ہے ۔”
مزید ارشاد ہوتا ہے :
وکل شئی احصینٰہ فی امام مبین(سورہ یٰس ۔آیت 12)
”ہم نے ہر چیز کا حساب امام مبین میں رکھا ہوا ہے ۔”
اب اس اعتراض کا رخ قرآن کی جانب ہوگیا ہے ۔اور عبارت یہ ہوتی ہے کہ جب سب کچھ لکھا ہوا ہے تو پھر قرآن نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔

٭اعتراض:حضور ؐ کا دم کرنا اور تحفہ قبول کرنا

امام احمد بن حنبل نے (170/4)میں جابر سے روایت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے بیٹے کو ”نکل اللہ کے دشمن میں اللہ کارسول ہوں ” فرماکر بدروح کونکال دیا وہ بچہ اچھا ہوگیا ۔ اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو مینڈھے پنیر اور گھی پیش کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یعلی بن مرة سے فرمایا ایک مینڈھا پنیر اور گھی لے لو اور ایک مینڈھا اسے واپس کردو ۔
دم کرنا اور قیمت لینا قرآن کے خلاف ہے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 59)

٭ازالہ٭
ڈاکٹر شبیرنے اس حدیث کے ذریعے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ”دم کرنا قرآن کے خلاف ہے ” حالانکہ قرآن مجید میں کہیں بھی ایسا حکم موجود نہیں ۔ اور رہی بات قیمت کی تو اس عورت نے قیمت نہیں بلکہ تحفہ پیش کیا تھا جس میں سے بعض تو آپ نے قبول کرلیا اور بعض واپس کردیا۔کیونکہ قیمت وہ ہوتی ہے جو پہلے طے کی جائے اور ایسا حدیث میں ذکر موجود نہیں ۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض غلط ہے ۔

٭اعتراض:حضورؐ کا بھول جانا

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف لائے صفیں کھڑی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کیلئے کھڑے ہوگئے ،یاد آیاکہ جنبی ہیں (یعنی بیوی سے مباشرت کے بعدغسل نہیں کیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے اور غسل کیا۔”(تفسیر سورة نمبر:7آیت:87،تفہیم القرآن ، سید مودودی،بحوالہ :صحیح بخاری :روایت نمبر:264جلد:1) (اسلام کے مجرم صفحہ 79)
اس صحیح حدیث کے ذکر کرنے کے بعد ڈاکٹر شبیر اپنی سوچ کا اظہار کرتے ہیں کہ:”رسول اللہ (ۖ)رہبر ِانسانیت تھے غائب دماغ نہ تھے۔”
٭ازالہ٭
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رہبر ِانسانیت یقینا تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تھے اور قرآنِ کریم سے یہ بات ثابت بھی ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے بھول واقع ہوسکتی ہے ۔ اگر یہ نام نہاد اہل قرآن کبھی قرآنِ کریم پڑھیں تو قرآنِ کریم فرماتا ہے:
(سنقرئک فلا تنسیٰoلا ماشاء اللہ )(سورہ الأعلیٰ،آیت 6,7)
”ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ بھولیں گے نہیں ،مگر جو اللہ چاہے۔” (یعنی جو اللہ چاہے گا وہ خود ہی بھلا دے گا۔
اب غور کریں صحیح بخاری کی اس حدیث پر جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنا بھول گئے ۔اس میں کتنی بڑی حکمت ہے ؟اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
”یقینا تمہارے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین اُسوہ ہے۔”( سورہ الاحزاب،آیت21 )
معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز کیلئے آئے اور اسے یاد آجائے کہ اس پر غسل فرض ہے تو وہ غسل کرنے چلا جائے ۔یہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے معلوم ہوتا ہے ۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلواکر یہ مسئلہ بتا نا چاہا تھا کہ اگر کسی کے ساتھ یہ مسئلہ ہوجائے تو وہ اس کے حل کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت کو دیکھ لے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہترین اسوہ ہے۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔

٭اعتراض: کبوتری کو شیطان کہنے کی روایت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا وہ ایک کبوتری کا پیچھا کررہا ہے آپ نے فرمایا دیکھو ایک شیطان شیطانہ کا پیچھا کررہا ہے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ22)
ازالہ:۔
قرآن کی ایک آیت پیش ہے :وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض۔ ترجمہ :اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے انسانوں اور جنوں میں سے شیاطین دشمن بنا دیے وہ ایک دوسرے کو اشاروں کنایوں میں پرفریب باتیں پہنچاتے رہتے ہیں گمراہ کرنے کے لیے،(سورہ انعام۔آیت 112)
یعنی قرآن کے مطابق انسان اگراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے تو وہ انسان شیطان ہوجاتا ہے کیونکہ نافرمانی وبغاوت شیطانی صفات ہیں اور جس حدیث میں ذکر ہے کہ وہ کبوتری کا پیچھا کررہا تھا تو وہ شخص کبوتر باز تھا اور کبوتر بازی کھیل تماشہ ہے اس تماشہ کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نمازوں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل رہتی ہے اسی وجہ سے اس شخص کو شیطان کہا گیا ہے اور رہی بات اس کبوتری کو شیطان کہنے کی تو صاحب عون المعبود فرماتے ہیں ”کبوتری کو شیطان اس لئے کہا کہ وہ کبوتری اس شخص کے لئے اللہ کے ذکر سے غفلت کا سبب بن رہی تھی”(عون المعبود شرح السنن ابی داؤد جلد ١٣صفحہ139)۔
لہٰذا کوئی شخص اگر شریعت کے منافی کام کرے اوراللہ کی یاد سے غافل رہے تو وہ انسانیت کے دائرہ سے نکل کر شیطان کے اوصاف میں داخل ہوجائے گا اور یہی اس حدیث مبارکہ کا مطلب ہے کہ شیطان شیطانہ کا پیچھا کررہا تھا لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔

٭اعتراض: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی صفیہ سے کہا او سر منڈی ہلاک ہوئی۔(اسلام کے مجرم صفحہ 31)

ازالہ:۔
صحیح بخاری میں یہ روایت ان الفاظ سے منقو ل ہے عائشہ فرماتی ہیں کہ جب (حج وداع سے فارغ ہوکر )کوچ کا ارادہ فرمایا تو خیمے کے دروازے پر ام المؤمنین صفیہ کو رنجیدہ کھڑے دیکھا تو آپ ۖنے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ ”او سر منڈی ہلاک ہوئی ” تو شاید ہم کو روک کر رکھے گی کیا تو نے دسویں تاریخ کو طواف زیارت کیا تھا انہوں نے کہا جی ہاں کرچکی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ہمارے ساتھ کوچ کرو ۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس جملے پر اعتراض کیا گیا ہے وہ ہے ”او سرمنڈی ہلاک ہوئی ” مکمل حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ کو بددعا نہیں بلکہ محاورةً اس طرح کے الفاظ استعمال فرمائے تھے ۔اہل عرب اس طرح کے محاورے عموماً استعمال کیا کرتے تھے ۔ بعض احادیث میں اس طرح کے دیگر محاورے منقول ہیں ۔مثلاً ۔(1) تربت یداک ۔۔۔تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں (2)ثکلتک امک ۔۔تیری ماں تجھ کو گم کردے ۔یہ الفاظ کلام عرب میں محاورة تنبیہ اور کسی کام کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ان کو کہنے کا مقصد نہ تو بددعا ہوتا ہے اور نہ ہی طعن زنی مراد ہوتی ہے ۔

٭اعتراض:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے گھوڑے پر آئے اوروہیں کھڑے کھڑے پیشاب کیا۔(اسلام کے مجرم صفحہ 45)

ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیر اپنی اسی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں “اردو عربی انگریزی فارسی کی کتابیں تو شبیر احمد خود پڑھ لیتا ہے) (اسلام کے مجرم صفحہ 32۔) لیکن انکی اس علمی قابلیت کی حالت یہ ہے کہ حدیث میں مذکورلفظ” سباطة” (کوڑے دان ) کا ترجمہ ”گھوڑے ”سے کیا ہے جو عربی زبان میں ڈاکٹر صاحب کی ”علمی” مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس طرح کے کچھ ”علمی شاہکار” انکی کتاب میں جابجا موجود ہین۔
زیر بحث روایت صحیح بخاری میں موجود ہے :حذیفہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑے دان پر آئے اور آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ”'(صحیح بخاری کتبا ب الوضوئ،باب البول،رقم الحدیث،224)
ایک روایت کے مطابق حضورﷺ کے گھٹنے میں زخم تھا اس لیے آپ بیٹھ نہ سکے اور اس مجبوری کی وجہ سے کھڑے ہوکر پیشاب کیا(الحاکم جلد 1 صفحہ 183، البیہقی جلد 1 صفحہ 101)، اس معقول عذر کے ساتھ یی بھی عین ممکن ہے کہ وہاں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی جگہ نہ ہواور بیٹھ کر پیشاب کرنے سے کپڑے پلید ہوجانے کا خطرہ ہو کیونکہ وہ کوڑا کرکٹ والی جگہ تھی ۔ یہ واقعہ زندگی میں ایک دفعہ پیش آیا اگر یہ اعذار نہ ہوتے تو یقینا معلم کائنات اس فعل کو ہرگز کبھی بھی گوارا نہ فرماتے ۔

٭اعتراض: نحوست ، چھوت کی روایت

ڈاکٹر شبیر رقمطراز ہیں کہ :
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ چھوت یعنی متعدی بیماری کوئی ہے نہیں ،لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ کوڑھی سے یوں بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔(اسلام کے مجرم صفحہ 37)
ازالہ :۔
صحیح بخاری میں یہ حدیث مبارکہ ان الفاظ سے منقول ہے ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیماری (خود بخود) متعدی نہیں ہوتی، بد شگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے، نہ ہی مردوں پر الّو بولتے ہیں، اور نہ ہی صفر کے مہینے میں کوئی نحوست ہے، کوڑھی کے مریض سے ایسے ہی دور رہو جیسے شیر سے دور بھاگتے ہو)بخاری: ( 5387 ) و مسلم: ( 2220 )
ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ہے کہ ایک جگہ تو آپ کا فرمان ہے کہ کوئی بیماری چھوت (متعدی )نہیں ہوتی ۔جبکہ دوسری طرف فرمارہے ہیں کہ کوڑھی کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ۔ جب بیماری چھوت ہی نہیں ہوتی تو کوڑھی سے دور رہنے کا کیا مطلب ؟
حقیقت یہ ہے کہ دور جاہلیت میں لوگ چھوت، نحوست اور الو وغیرہ کے بولنے پر بہت ذیادہ یقین رکھتے تھے اور یہ توہم پرستی ان پر اس قدر سوار تھی کہ صفر کے مہینے سے بچنے کے لیے کلینڈر کو ہی آگے پیچھے کردیتے تھے ۔ اس طرح متعدی مرض کی کوئی علامت کسی میں دیکھ لیتے تو اسکا جینا دوبھر کردیتے۔ اس حدیث میں اس غلط اعتقاد کا ابطال مقصود تھا،آپﷺ نے مسئلے کو اعتدال پر لانے کی کوشش فرمائی۔ چنانچہ غور فرمائیں تو حدیث کے پہلے جز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے عقیدے کی تعمیر وتوثیق فرمارہے کہ بیماری اللہ رب العزت کی طرف سے ہی ہوتی ہے کسی کومحض چھولینے سے یا کسی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے کسی کو کوئی بیماری نہیں لگتی ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے کہ” کہہ دوسب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے (سورة النساء ،آیت 78)
صحیح بخاری میں اسی موضوع کی ایک اور روایت موجود ہے ایک اعرابی (دیہاتی )نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے اونٹوں کے بارے میں کیا خیال ہے کہ وہ ریگستان میں چرنے چگنے والے ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں پھر اچانک ان میں کوئی خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے اور ان میں سے مل کر ان کو بھی خارش زدہ کردیتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” فمن اعدی الاول ””(یہ بتاؤ ) اس پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ؟” (صحیح بخاری کتاب الطب باب لاصفر رقم الحدیث 5717)
یعنی جس ذات باری تعالیٰ نے پہلے اونٹ کو خارش زدہ کیا اسی کے حکم سے دیگر اونٹ بھی خارش زدہ ہوئے ہیں۔ اس توکل و ایمان کی بات کے بعد حدیث کے دوسرےحصے میں آپ ﷺ احتیاط و تدبیر کی تلقین فرمائی کہ اللہ پر توکل کے ساتھ اسباب کے درجے میں حفظان صحت کے اصولوں کا بھی خیال رکھو۔ خلاصہ یہ کہ احادیث صحیحہ کے درمیان کوئی تعارض نہیں، احادیث میں بظاہرا جو تعارض محسوس ہوتا ہے وہ عموما صحیح و معلول کے درمیان تمیز نہ ہونے، رسول اکرم ﷺ کے مفہوم و مراد کو نہ سمجھنے کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ابن قتیبہؒ نے اپنی کتاب ”اختلاف الحدیث“ میں ایسی تمام احادیث پر تفصیلا بحث کی ہے ۔

٭اعتراض:ابوہریرہ اورحبشی زبان میں کلام

ابو ہریرہ نے کہا کہ بیمار اونٹ کو تندرست اونٹوں کے پاس نہ لے جاؤ ۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نہیں کی کہ چھوت کی بیماری کوئی چیز نہیں تو ابو ہریرہ حبشی زبان میں نہ جانے کیا بکنے لگے ۔ (اسلام کے مجر م صفحہ 37)
ازالہ :۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے مرقوم ہے ۔”ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے قریب نہ لاؤ۔ راوی حدیث کا کہنا ہے کہ ابو ہریرہ نے پہلی حدیث (لاعدویٰ ) کو روایت کرنے کا انکار کیا (یعنی میں نے یہ حدیث نہیں بیان کی )تو ہم نے کہا کیا آپ نے یہ حدیث لا عدوی بیان نہیں کی تو ابو ہریرہ حبشی زبان میں کچھ بات کرنے لگے ۔” (صحیح بخاری کتاب الطب باب لاھامة ۔ رقم الحدیث 5771)
ڈاکٹر شبیرنے حدیث کا ترجمہ کرتے وقت اپنی طرف سے تو ہین آمیز الفاظ استعمال کیا ہے ،حدیث کا پورا ترجمہ نقل نہیں کیا ،روایت کو ابو ہریرہ کا قول کہاحالانکہ وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔حدیث زیر بحث میں لفظ ” رطن ” کا ترجمہ” بکنے ” درج کیاہے حالانکہ ” رطن ” کا اصل معنی عجمی زبان میں بات کرنے کے ہیں ۔(المنجد صفحہ 391مادہ رطن )
حضرت ابو ہریرہ کے متعلق اس قدر گھٹیا اور غلیظ الفاظ کا استعمال اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تحریف کرنے کے بعد بھی یہ لوگ خود کو اسلام کا محافظ اور انکے مخالفین حضرات علماء و محدثین اسلام کے مجرم ٹھہراتے ہیں
اب حدیث مبارکہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
ابو ہریرہ نے حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس لے جانے سے منع فرمایا تو بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے تو یہ حدیث لاعدوی (بیماری چھوت نہیں ہوتی )اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمائی تھی تو ابو ہریرہ نے اس کے بیان سے انکار فرمادیا (بھول جانے کی وجہ سے )اور حبشی زبان میں کچھ بات کرنے لگے وہ الفاظ کیا تھے خود ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ”ابو ہریرہ نے حارث (راوی حدیث) کو کہا کہ تمہیں پتہ ہے میں نے کیا کہا ؟ حارث نے جواب دیا کہ نہیں معلوم ۔ تو ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں نے (حبشی زبان میں )کہا تھا کہ میں انکار کرتا ہوں ۔” (فتح الباری جلد 10صفحہ 297) اور جہاں تک ابو ہریرہ کے انکار کا تعلق ہے یہ انکا نسیان تھا جیسا کہ ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ سے اس حدیث کے علاوہ اور کہیں پر بھی بھول نہیں ہوئی ۔(صحیح بخاری کتاب الطب رقم الحدیث 5771) اس سے حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑا اس لئے کہ یہ روایت دیگراصحاب رسول سے بھی مروی ہے ۔

٭اعتراض: بندروں کا زنا اور سنگسار کرنا

عمروبن میمون کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر کو دیکھا کہ بہت سے بندر اس کے گرد جمع ہوگئے تھے اس نے بندریا کے ساتھ زنا کیا تھا سب بندروں نے سنگسار کیا میں نے بھی ان کے ساتھ اسے سنگسار کیا ۔ ایک اور حدیث میں یہ بیان بھی ہے کہ وہ بندریا ایک ادھیڑ عمر بندر کے ساتھ لیٹی تھی ایک جوان بندر آیا اور آنکھ مارکر اسے اپنے ساتھ لے گیا پھر انہوں نے زنا کیا ۔
اس واقعہ پر یہ اعتراض ہے کہ جانور پر شرعی قانون کیسے نافذ ہوسکتا ہے اور یہ واقعہ عقل کے خلاف ہے ؟
ازالہ :۔
صحیح بخاری کی یہ روایت منسوب الی رسول نہیں اور نا ہی یہ کسی صحابی کی طرف منسوب ہے ۔۔ بلکہ ایک تابعی کا مشاہدہ ہے جو انہوں نے بیان کردیا لہذا اس واقعہ کو درست تسلیم کرنا ایمانیت میں داخل نہیں اور نا ہی اس سے اگر کسی کو انکار ہے تو اس کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جا سکتا ہے ۔۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بندر کی حرکات وسکنات بہت حد تک انسانوں سے ملتی جلتی ہیں تو اگر عمربن میمون نے ایک ایساہی واقعہ دیکھ کر بیان کردیا تو اعتراض کیوں ؟جدید تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ کچھ گوریلے بندر ایسے ہوتے ہیں جو بالکل انسانوں کی طرح رہن سہن رکھتے ہیں کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے ودیگر معاملات میں ان میں کسی حد تک انسانوں کی سی یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ بلکہ بعض اوقات تو انسانوں کو دیکھ کر بالکل ہوبہو ان کی بہترین نقالی بھی کرتے ہیں۔تویہ بعید از عقل نہیں کہ عمر بن میمون کے سامنے اس طرح کا واقعہ پیش آگیا ہو ۔
اور رہی بات جانور پر شرعی قانون ؟تو اس کے متعلق قرآن میں بھی ایک واقعہ مذکورہے کہ :
پھر اللہ نے ایک کوّے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے وہ کہنے لگا ہائے افسوس ! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اس کوّے کی طرح اپنے بھائی کی لاش کو دفنا دیتا پھر تو اور شرمندہ ہوگیا ۔”(سورہ مائدہ ۔آیت 31)
مذکورہ آیت میں ایک کوا جو کہ شرعاً مکلف نہیں مگر اس کے باوجود ایک شخص کو شرعی عمل دکھلارہا ہے اور وہ شخص اس سے وہ عمل سیکھ رہا ہے ۔تو اگر ایک شرعی حد کے مثل بندروں نے کوئی عمل کردیا تو اعتراض کیوں؟تو یہ واقعہ قرآن کے واقعہ کی تائید میں ہے یا مخالفت میں ؟
مزید ھم عرض کریں کہ جس بھائی صاحب نے اعتراض لکھا ہے اس واقعہ پر بہت گندی زبان استعمال کی ہے ھم اسے بس اللہ ہی کا خوف یاد کراتے ہے اور خاموش رھتے ہے ان صاحب کو اگر یہ لگتا ہے کہ ھم ان کہ جیسے گندی زبان استعمال کرے گے تو اس عمل سے ھمیں مبراء سمجھے۔

٭اعتراض: بہت سی لباس والیاں آخرت میں ننگی ہونگی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات فرمایا کہ حجرے والیوں (یعنی امہات المؤمنین)کو جگادو بہت سی لباس والیاں ایسی ہیں کہ آخرت میں ننگی ہونگی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے بارے میں درشت نہ تھے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 45)
ازالہ:۔
مکمل حدیث درج ذیل ہے :
” ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سبحان اللہ آج رات کیا کیا فتنے نازل ہوئے ہیں ۔ اور آج کن کن خزانوں کے دروازے کھلے ہیں۔ حجرے والیوں کو جگادو ۔ بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ”(صحیح بخاری کتاب العلم باب العلم والعظة باللیل رقم الحدیث 115)
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل چارباتیں بیان فرمائی ہیں ۔
(1)آج کی رات بہت سے فتنے نازل ہوئے ہیں ۔(2)آج کی رات بہت سے خزانوں کے دروازے کھولے گئے ہیں ۔(3)حجرے والیوں (امہات المؤمنین ) کو جگادو ۔تاکہ وہ عبادت کریں ان فتنوں سے پناہ مانگیں جو آج رات نازل ہوئی ہیں اور ان (رحمت کے) خزانوں کا سوال کریں جن کے منہ آج رات کھول دئیے گئے ہیں ۔(4)بہت سی لباس والی عورتیں قیامت کے روز بے لباس ہونگی ۔
ڈاکٹر شبیرنے غلط فہمی کی بناء پر سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو بلاوجہ رات میں بیدار کرکے درشتگی کا رویہ اختیار فرمایا (نعوذ بااللہ)بلکہ جگانے کا مقصد صرف عبادت تھا جیساکہ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ:” (اس حدیث)میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج کو رات میں بیدار کرنا اس لئے تھا کہ وہ عبادت سے غافل نہ رہ جائیں اور صرف اس پر ہی اعتماد نہ کرلیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ” (فتح الباری جلد 1صفحہ 279)
ڈاکٹر شبیرکا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ”رب کاسیة” کہنا ازواج مطہرات کے لئے تھا ۔یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے حدیث میں کہیں یہ بات موجود نہیں کہ آپ نے یہ بات ازواج مطہرات کے متعلق فرمائی ۔ بلکہ دوسری احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار عورتوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کو مخاطب کیا:”یا رب کاسیة فی الدنیا والآخرة”(صحیح بخاری کتاب لاتھجد باب تحریض النبیۖ علی صلوة الیل رقم الحدیث 1126)
علامہ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ۔” اے قوم والوں بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ” (عمدة القاری جلد7صفحہ 260)
بالفرض اگر تسلیم بھی کرلیا کہ یہ الفاظ ازواج مطہرات کو کہے گئے تو اس سے مراد صرف ترغیب وتنبیہ ہے ناکہ وعید۔جیساکہ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین نے ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا :
یا نساء النبی من یات منکن بفاحشة مبینة یضٰعف لھا لعذاب ضعفین۔ ترجمہ : ” اے نبی کی بیویوں تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کرے گی تو اس کو دہرا عذاب دیا جائے گا ” (سورہ الاحزاب ۔آیت 30)
اب اس آیت کا منشاء یہ نہیں کہ ازواج ایسا کریں گی بلکہ محض تنبیہ مراد ہے تو حدیث کامنشاء بھی یہی ہے ۔الغرض حدیث اعتراض سے پاک ہے ۔

٭اعتراض:”سلیمان نے ایک رات میں سوبیویوں کے ساتھ مباشرت کی ۔ ”ملاحظہ فرمائیے ایک رات چند گھنٹے اور اللہ کا ایک عالی مقام پیغمبر (اسلام کے مجرم ،صفحہ 34)

ازالہ:
ڈاکٹر شبیرکو سلیمان کے اس عمل پر اعتراض ہے کہ سلیمان ایسا کیسے کرسکتے ہیں یعنی ایک رات میں سو 100بیویوں سے مباشرت چند گھنٹوں میں کیسے ممکن ہے ۔ہم اگر قرآن مجید کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں سلیمان کے کچھ مزید انفراد نظر آتے ہیں۔مثلاً
غدوھا شھر ورواحھا شھر۔ ترجمہ :”(ہوا سلیمان کے تابع کردی گئی )وہ صرف صبح کے وقت ایک مہینے کی مسافت طے کیاکرتی تھی اور شام کے وقت بھی ایک مہینے کی مسافت طے کرتی تھی ” (سورہ سبا ۔ آیت 12)
علمنا منطق الطیر ۔ ترجمہ : ” مجھے پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے ” (سورہ النمل ۔آیت 16)
اب تاریخ انسانی میں کوئی ایسا انسان نہیں جس کے لئے ہوا کو تابع کردیا گیا ہو یا وہ پرندوں سے باتیں کرتا ہو چیونٹیوں کی باہمی گفتگو سنتا ہو ۔ کیا مندرجہ بالا آیات عقلی معیار پرپورا اترتی ہیں؟ یہ تمام قصص قرآن میں موجود ہیں اور وہ سچی کتاب ہے تو اب اگر حدیث میں ایسا کچھ آگیا تو اعتراض کیوں ؟الغرض جب اسطرح کی ماورائے عقل باتیں سلیمان میں پائی جاتی ہوں تو یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں بے پناہ مردانہ قوت بھی ہو ۔ کیونکہ قرآن کے عمومی بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیاء کو بے پناہ طاقت حاصل تھی ۔مثلاً، موسی کے متعلق قرآن مجیدمیں آتا ہے کہ :فوکزہ موسی فقضی علیہ ۔ ترجمہ : ”موسی نے اس کو مکہّ مار ا اور وہ مرگیا ۔” (سورہ القصص ۔آیت 15)داؤ د کے متعلق قرآن مجید میں ذکر ہے :والنا لہ الحدید ۔ ترجمہ: ” ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کردیا ” (سورہ سبا ۔آیت 10)

٭اعتراض:محمود بن ربیع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے منہ میں کلی کی جب میں پانچ سال کا تھا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 44)

ازالہ :۔
ڈاکٹر شبیرنے یہاں پربھی حدیث کا ترجمہ کرنے میں خیانت سے کام لیا ہے اور حدیث میں موجود لفظ ”وجھہ”(چہرہ ) کا ترجمہ ”منہ ” کیا ہے حالانکہ عربی میں ”منہ ” کے لئے ” فم ” آتا ہے ۔
حدیث ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن ربیع قال : عقلت من النبی صلی اللہ علیہ وسلم مجة مجھا فی وجھی وانا ابن خمس سنین من دلو(صحیح بخاری کتاب العلم باب متی سماع الصغیر رقم الحدیث 77)
” محمود بن ربیع فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر کلی فرمائی تھی اور میں پانچ سال کا تھا ۔”
ایسے کئی واقعات کتابوں میں مرقوم ہیں کہ صحابہ آپ ﷺ کے وضو کا پانی تک آپس میں بانٹ لیتے تھے ۔ یہاں بھی صحابی اس کو فخر سے بیان فرمارہے ہیں مگر ڈاکٹر شبیرکو یہ بات قابل اعتراض نظر آرہی ہے ۔ مدعی سست گو اہ چست ۔اگر کوئی اعتراض کردے کہ عیسیٰ علیہ السلام کسی کوڑھی اور اندھے وغیرہ کے ہاتھ پھیر کر باذن اللہ شفاء دیتے تھے اب کوئی ہاتھ پھیرنے کو غلط معنوں میں استعمال کرے تو ہم اس شخص کو یقینا اس گھٹیا اور سطحی سوچ پر ملامت کریں گے۔ پھر اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزاتی کیفیات کے متعلق ایسا ذہن رکھے تو اس بارے میں کیا خیال ہے ؟

خلاصہ

کسی حدیث یا اسکے فہم میں اختلاف ہوجانا کوئی عجیب بات نہیں ہے ، علماء میں ایسے اختلافات موجود ہیں ، ہر گروہ اپنی رائے علمی انداز میں سامنے رکھتا ہے ، مخالفین اسکا دلائل سے جواب دیتے ہیں ۔ منکرین حدیث کااختلاف اس طرح کا کوئی علمی یا مثبت نہیں ہے بلکہ انکا اختلاف ضد اور نفرت کا ہے ، انہیں ہر اس بات سے نفرت ہے جس کے شروع یا آخر میں حدیث کا حوالہ دیا گیا ہو، چاہے وہ بات قرآن میں ہی موجود کیوں نا ہو ۔۔ !اعتراضات گھڑیں گے ، پروپیگنڈے کریں گے ، اپنا مخصوص طعن ثابت کرنے کے لیے حدیث کی عبارت اور مفہوم تک بدل ڈالیں گے ۔ حدیث چاہے کتنی ہی فطری بات بیان کررہی ہو یا حکمت پر مشتمل ہو اس میں سے بھی نقص نکالیں گے ، اعتراض کے بہانے ڈھونڈیں گے۔۔
٭اعتراض :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گال سرخ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لال ہوگیا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ44)
ڈاکٹر شبیر احمد صاحب نے اپنی کتاب ” اسلام کے مجرم ” میں حدیث پر اعتراضات کے سلسلے میں محض رنگین بیانی کے لیے بہت سے حوالے تاریخ و تصوف کی کتابوں سے بھی نقل کیے ہیں اور انکے بہانے کم علم عوام کو حدیث سے بدظن کرنے کی ایک سستی چال چلی۔ ظاہر ہے ان کتابوں یا حوالوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے حدیث پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ انکا احادیث سے کوئی تعلق نہیں ہے، انکا ہمارے اس موجودہ موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ہم بھی ان حوالوں پر کوئی تبصرہ نہیں کررہے ۔
استفادہ تحاریر: اسلام کے مجرم کون از مولانا حسین میمن

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password