کیااللہ کادین صحیح اورضعیف ہوسکتاہے؟

یہ وہ اعتراض ہے جو اکثر منکرین حدیث کی زبانوں پر ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر قرآن کی طرح حدیث بھی اللہ کا دین ہے تو اس میں صحیح اور ضعیف کا اختلاف کیوں ہے؟ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ حدیث کی طرح قرآن مجید میں بھی متواتر اور شاذ کا اختلاف موجود ہے۔
اگر آپ کے علم میں نہیں ہے تو حسن بصری متوفی 110ھ، ابن محیصن متوفی 123ھ، اعمش اسدی متوفی 148ھ اور یزیدی بصری متوفی 202ھ کی مروی قراءات دیکھ لیں۔ اور یہ چاروں حضرات تو اتنے معروف ہیں کہ ان کی شاذ قراءات کے مصاحف بھی پبلش ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح شاذ قراءات کے وجود سے قرآن مجید مشتبہ نہیں قرار پاتا، اسی طرح موضوع روایات کے موجود ہونے سے مقبول احادیث پر طعن وارد نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ احادیث کا ایک بڑا اور غالب ذخیرہ ایسا ہے کہ جس کی صحت وضعف میں اختلاف نہیں ہے اور کم احادیث ہیں کہ جن کی صحت وضعف کی بابت ائمہ سلف کا اختلاف ہوا ہے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ جن احادیث کی صحت وضعف میں ائمہ سلف کا اختلاف نقل ہوا ہے، وہ احادیث اصول ومبادی دین سے متعلق نہیں ہیں بلکہ جزئیات اور فروعات سے بحث کرتی ہیں لہذا دین کے اصول ومبادی کل کے کل مقبول ورایات سے ہی ثابت ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہم بار بار یہ واضح کر رہے ہیں کہ اللہ کا دین حدیث ہے یہ عوامی بیان ہے جبکہ علمی بیان یہ ہے کہ اللہ کا دین حدیث میں موجود ہے یعنی اللہ کا دین سنت ہے جو حدیث میں موجود ہے لہذا حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا مطلب دین کی صحت اور ضعف نہیں ہے بلکہ دین کی اپنے شارع کی طرف نسبت کا صحیح یا ضعیف ہونا ہے۔ اور نسبت کا صحیح یا ضعیف ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ کسی حدیث کی صحت وضعف میں اختلاف مخاطبین کی جہت سے ہے نہ کہ خدا کی جہت سے۔ پس اگر قرآن مجید میں موجود اللہ کے دین اور حکم تک پہنچنے میں مجتہدین اور فقہاء کا اختلاف ہو جاتا ہے تو اس مطلب یہ تھوڑا ہے کہ شریعتیں دو ہیں۔ہم یہ کہیں گے کہ اللہ کا حکم ایک ہی ہے لیکن بعض فقہاء نے اس کو پا لیا اور بعض نہ پا سکے۔ اور اجر وثواب دونوں کے لیے ہے لیکن جس نے حکم پا لیا اس کے لیے دو گنا اجر اور جس نے نہ پایا تو اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔ پس جس طرح اللہ کی کتاب میں موجود حکم کو بذریعہ استدلال واستنباط پا لینے میں دو رائیں ہو سکتی ہیں، اسی طرح احادیث میں موجود اللہ کے حکم کے اثبات ونفی میں بھی دو رائیں ہو سکتی ہیں۔
آخری اور چھٹی بات یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ کا دین کتاب اللہ اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں محفوظ ہے تو یہ من جملہ حفاظت کی بات ہوتی ہے۔ یعنی امت کے پاس وہ احادیث موجود ہیں کہ جن میں اللہ کا حکم ہے، لہذا کسی محدث نے اپنی تحقیق سے اس حکم کو پا لیا اور کوئی نہ پا سکا کہ جس طرح اللہ کی کتاب میں موجود حکم کو کسی مجتہد نے پا لیا اور کوئی اس کو نہ پا سکا۔ تو جس مجہتد نے اللہ کا حکم نہ پایا تو اس نے جو پایا ہے، وہ اللہ کا حکم نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔ یہ اہم تر بات ہے اور یہی قاعدہ محدثین کے لیے بھی جاری ہوتا ہے۔

جھوٹی حدیثیں آخر گھڑی کیوں گئیں؟
ان کے گھڑے جانے کی وجہ یہی تو تھی کہ حضورؐ کا قول و فعل حجت تھا اور آپؐ کی طرف ایک غلط بات منسوب کر کے جھوٹے لوگ کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ اگر وہ حجت نہ ہوتا اور کسی شخص کے لیے اپنے کسی دعوے کے حق میں حدیث لانا اور نہ لانا یکساں بے فائدہ ہوتا تو کسی کو کیا پڑی تھی کہ ایک بات تصنیف کرنے کی تکلیف اٹھاتا۔ دنیا میں ایک جعل ساز وہی نوٹ تو بناتا ہے جو بازار میں قدر و قیمت رکھتا ہو۔ جس نوٹ کی کوئی قیمت نہ ہو اسے آخر کون احمق جعلی بنائے گا؟ اب اگر فرض کیجیے کہ کسی وقت جعل سازوں کا کوئی گروہ پاکستان کے ہزاروں جعلی نوٹ بنا ڈالے تو کیا اس پر کسی کا یہ استدلال کرنا صحیح ہو گا کہ پاکستان کے سارے نوٹوں کو اٹھا کر پھینک دینا چاہیے کیونکہ جعلی نوٹوں کی موجودگی میں سرے سے اس کرنسی کا ہی کوئی اعتبار نہیں ہے؟ٍٍٍٍ ملک کا ہر خیر اندیش آدمی فوراً اس فکر میں لگ جائے گا کہ ایسے جعل سازوں کو پکڑا جائے اور ملک کی کرنسی کو اس خطرے سے بچا لیا جائے۔ ٹھیک یہی اثر آغاز اسلام میں جھوٹی احادیث کا فتنہ رونما ہونے سے اسلام کے خیر اندیش لوگوں نے لیا تھا۔ وہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک ایک واضح حدیث کا پتہ چلا کر اس کا نام رجال کی کتابوں میں ثبت کر دیا، ایک ایک جھوٹی حدیث کی تحقیق کر کے احادیث موضوعہ کے مجموعے مرتب کر دیئے، احادیث کی صحت و سقم جانچنے کے لیے بڑے سخت اصول قائم کر کے لوگوں کو اس قابل بنا دیا کہ صحیح اور جعلی حدیثوں میں امتیاز کر سکیں اور کسی وقت بھی کوئی جھوٹی حدیث اسلامی قانون کے مآخذ میں راہ نہ پا سکے۔
تدوین حدیث کے زمانے میں کچھ لوگوں نے اپنے مختلف النوع اغراض کے لئے حدیثیں گھڑیں اور کوشش کی کہ اپنی گھڑی ہوئی احادیث کواُسوئہ رسولؐ یعنی صحیح احادیث کے ساتھ گڈمڈ کرکے اپنے دیرینہ مقاصد کو حاصل کرلیں مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ شیعوں نے اہل بیت کے سیاسی تفوق کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ اباحیت پسندوں نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے اور عقلیت پسندوں نے اپنی عقلیت کو وجہ جواز فراہم کرنے کے لئے۔گھڑنے والوں نے اپنی جعلی احادیث کی ترویج کا طریقہ یہ سوچا کہ کچھ مشہور اصحاب حدیث کی صحیح اور قوی سندوں سے ان جعلی احادیث کو روایت کریں تاکہ کسی کو ان کی صحت میں شک نہ ہو۔ لیکن جوں ہی یہ روایتیں اہل علم کے سامنے آئیں ،گھڑنے والے پکڑے گئے۔ کیونکہ کسی بھی بڑے محدث کے ہزاروں شاگرد ہوا کرتے تھے۔ اب ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اس محدث سے ایسی حدیث روایت کرے جو ان ہزاروں شاگردوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ ہو اور وہ اس پر بھی اس کا اعتبار کرلیں۔ ایسے راوی پر فوراً جرح شروع ہوتی تھی۔ پچیسیوں تنقیحات ایسی تھیں کہ کسی جعلساز کے لئے نکل بھاگنے کی کوئی راہ باقی نہ بچتی۔ تھوڑی سی زد وخورد کے بعد اسے ہتھیار ڈال دینے پڑتے اور اپنی جعلسازی کا اقرار کرلینا پڑتا۔
پھرمحدثین نے حدیث کی صحت پرکھنے کے لئے ایسے سخت اصول و ضوابط بنائے اور ایسا کڑا معیار مقرر کیا کہ دنیا آج تک اس کی نظیر نہ لاسکی۔ کوئی دس لاکھ افراد کی زندگیاں کھنگال کر رکھ دیں۔ پھر جملہ افراد کو اس کسوٹی پر پرکھ کر کھرا کھوٹا الگ کردکھایا۔تدوین ِحدیث کے تیسرے اور چوتھے دور میں ان جعلی احادیث کا ذخیرہ بھی تالیفی شکل میں باقاعدہ علیحدہ کردیا گیا، تاکہ راہِ حق کے راہرو کے لئے کسی بھی مرحلہ میں مشکل پیش نہ آسکے!!
چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے “اللآلی المصنوعہ فی الا حادیث الموضوعۃ”کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں تمام مو ضوع احادیث کو جمع کیا اور اسی طرح حافظ ابو الحسن بن عراق نے”تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃالموضوعۃ “کتاب لکھی جس میں موضوع روایات کا ذکر ہے تاکہ مسلمان موضوع احادیث سے ہوشیار رہیں۔جب مسلم علماء کا حدیث کے ساتھ اس قدر اسشتغال ہے کہ وہ موضوع اور صحیح، ضعیف اور سقیم حدیث میں تمیز کرسکتے ہیں اور انہوں نے ایسے قوانین اور اصول مرتب کیے جن کی روشنی میں احادیث صحیحہ کو پرکھا جاسکتا ہے۔تو موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے احادیث صحیحہ کی حیثیت کیسے مشکوک ہوگئی ؟
صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، نسائی شریف میں کوئی حدیث موضوع نہیں اور ابن ماجہ میں گو چند ایک موضوع احادیث ہیں لیکن محدثین ان کی بھی نشاندہی کی ہے۔
یہ ہے کہ واقعہ کی اصل صورت جس کی بنیاد پر منکرین حدیث نے ‘ایرانی سازش’کا بدبودار افسانہ تیار کیا ہے۔ اس استدلال کی نوعیت بالکل وہی ہے کہ کسی گھر میں چور گھس جائے تو آپ گھر والے ہی کو چور کہنے لگیں اور جب آپ سے ثبوت مانگا جائے تو آپ فرمائیں کہ ثبوت یہ ہے کہ اس کے گھر میں چور گھسے تھے ، یا کوئی پولیس پارٹی ڈاکوؤں کو گرفتار کر لائے تو آپ پولیس پارٹی ہی کو ڈاکو کہیں اور ثبوت یہ پیش کریں کہ انہوں نے ڈاکوؤں کو گرفتار کیا ہے۔ منکرین سنت کا طرز فکر ہے کہ غلط احادیث کے پھیل جانے سے سارا ذخیرۂ حدیث مشتبہ ہو گیا ہے، لہٰذا تمام احادیث کو اٹھا کر پھینک دینا چاہیے۔ انہیں اس کی پرواہ نہ تھی کہ سنت رسول کو ساقط کر دینے سے اسلامی قانون پر کس قدر تباہ کن اثر پڑے گا اور خود اسلام کی صورت کس بری طرح مسخ ہو کر رہ جائے گی۔

کیا احادیث ِموضوعہ کی موجودگی واقعی بے اطمینانی کی موجب ہے؟
میں تھوڑی دیر کے لئے اس سوال کو چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ کون سے متداول مجموعے ہیں جن میں احادیث ِموضوعہ شامل ہوگئی ہیں۔ اگرچہ مختلف محدثین نے جو مجموعے بھی مرتب کئے ہیں، ان میں اپنی حد تک پوری چھان بین کرکے انہوں نے یہی کوشش کی ہے کہ قابل اعتماد روایات جمع کریں۔مگر اس معاملے میں صحاحِ ستہ اور موطأ کا پایہ کس قدر ہے، وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تاہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کر لیں کہ سب مجموعوں میں موضوعات نے کچھ نہ کچھ راہ پالی ہے تو غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ‘ضخیم کتابیں’ جن کا ذکر منکرین حدیث کررہے ہیں، آخر ہیں کس موضوع پر؟ ان کا موضوع یہی تو ہے کہ کون کون سی حدیثیں وضعی ہیں، کون کون سے راوی کذاب اور وضاعِ حدیث ہیں، کہاں کہاں موضوع احادیث نے راہ پائی ہے، کس کتاب کی کون کون سی روایات ساقط الاعتبار ہیں، کن راویوں پر ہم اعتماد کرسکتے ہیں اور کن پر نہیں کرسکتے، ‘موضوع’ کو ‘صحیح’سے جدا کرنے کے طریقے کیا ہیں اور روایات کی صحت، ضعف، علت وغیرہ کی تحقیق کن کن طریقوں سے کی جاسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین و منکرین حدیث کو موضوع احادیث کا علم ہی محدثین کی خوشہ چینی سے ہوا ہے ۔

ان ضخیم کتابوں کی اطلاع پاکر تو ہمیں امن کا ویسا ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے جیسا کسی کو یہ سن کر ہو کہ بکثرت چور پکڑ لئے گئے ہیں، بڑے بڑے جیل خانے ان سے بھرگئے ہیں، بہت سے اموالِ مسروقہ برآمد کرلئے گئے ہیں اور سراغ رسانی کا ایک باقاعدہ انتظام موجود ہے جس سے آئندہ بھی چور پکڑے جاسکتے ہیں۔ لیکن تعجب کی بات ہوگی اگر کسی کے لئے یہی اطلاع اُلٹی بے اطمینانی کا موجب ثابت ہو اور وہ اسے بدامنی کے ثبوت میں پیش کرنے لگے۔ بے شک بڑی مثالی حالت امن ہوتی،اگر چوری کا سرے سے کبھی وقوع ہی نہ ہوتا۔ بلا شبہ اس طرح کی واردات ہوجانے سے کچھ نہ کچھ بے اطمینانی تو پیدا ہوہی جاتی ہے، لیکن مکمل حالت ِامن زندگی کے اور کس معاملے میں ہم کو نصیب ہے جو یہاں ہم اسے طلب کریں۔ جس حالت پر ہم دنیا میں بالعموم مطمئن رہتے ہیں، اس کے لئے اتنا امن کافی ہے کہ چوروں کی اکثریت پکڑ کر بند کردی جائے اور جو قلیل تعداد بھی آزاد پھر رہی ہو، اس کے پکڑے جانے کا معقول انتظام موجود ہو۔ کیا ہمارے سپریم کورٹ کے فاضل جج سنت کے معاملے میں اتنے امن پر قانع نہیں ہوسکتے؟ کیا وہ اس مکمل امن سے کم کسی چیز پرراضی نہیں ہیں جس میں سرے سے چوری کے وقوع ہی کا نام و نشان نہ پایا جائے…؟منکرین حدیث ’’صرف قرآن‘‘ مہم کے لیے، احادیث کو غیر معتبرکرنے کے لیے جتنے بھی دلائل دیں، یہ سب الٹا خود ان میں پھنستے ہیں
اس موضوع پر تفصیلی تحریر پہلے پوسٹ کی جاچکی ہے ، اس لنک سے دیکھی جاسکتی ہے

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password