احادیث کی کتابوں کےپرانےذخائرکہاں چلےگئے؟

دوسری صدی ہجری کی کتابیں جو آج بھی مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں۔
۱ ۔ الموطا ۔ امام مالک رحمہ اللہ
۲ ۔ کتاب الاثار ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
۳ ۔ مصنف ۔ عبد الرزاق (یہ کتاب گیارہ ضخیم جلدوں میں طبع ہوئی ہے)
۴ ۔ الہدۃ ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ
۵ ۔ کتاب الزھد ۔ عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ
۶ ۔ کتاب الزھد ۔ وکیع ابن جراح رحمہ اللہ (تین جلدوں پر مشتمل ہے)
۷ ۔ المسند ۔ زید بن علی رحمہ اللہ (۷۶ – ۱۲۲ھ)
۸ ۔ سنن ۔ امام شافعی رحمہ اللہ (۱۵۰ – ۲۰۴ھ)
۹ ۔ مسند ۔ امام شافعی رحمہ اللہ
۱۰ ۔ سیر ۔ اوزاعی رحمہ اللہ (۸۸ – ۱۵۷ھ)
۱۱ ۔ مسند ۔ عبد بن المبارک رحمہ اللہ (م ۱۸۱ھ)
۱۲ ۔ مسند ۔ ابو داؤد الطیالسی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)
۱۳ ۔ الرد ۔ علی سیر الاوزاعی رحمہ اللہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ
۱۴ ۔ الحجہ علی اہل المدینہ ۔ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ
۱۵ ۔ کتاب الام ۔ امام شافعی رحمہ اللہ
۱۶ ۔ المغازی ۔ واقدی (۱۳۰ – ۲۰۶ھ) ۔ ۴ جلدوں پر مشتمل ہے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ احادیث کی کتابوں کے باقی پرانے ذخائر کدھر گئے؟ صحابہ کا سارا علمی ذخیرہ اب اپنی اصلی حالت میں کہاں ہے؟
اس کے جواب میں عرض ہے کہ صحابہءکرام رضی اللہ عنہم کی تحاریر ذیادہ تر بےربط تھیں، بعد والوں نے ان سے احادیث لے کرجو تحریریں لکھیں، وہ زیادہ مرتب اور باب درباب تھیں.یوں ارتقاء علم کے قاعدے سے آسان ترتیب والی، مہذب ومرتب کتابیں جوں جوں آتی گئیں، پرانے صحائف چھوٹتے گئے.ویسے بھی یہ نئی کتابیں انہی تمام صحائف و مسودات کو اکھٹا کرکے ترتیب دی گئی تھیں ۔ یوں ان پرانے مسودات اور کتب کی ذاتی حیثیت و شناخت ان کی ضرورت نہ رہنے کی بناء پر ذیادہ توجہ طلب نہ رہی۔یہ ارتقاء ہر علم میں ہوتا ہے. یہ صحائف استعمال سے نکل گئے تو پس منظر میں چلے گئے اور آہستہ آہستہ ختم ہوتے گئے ۔ اور انکی جگہہ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں تحریر ہونے والی ضخیم تر کتب نےلے لی اور ذیادہ تفصیلی، ہمہ گیر اور مبنی بر ضرورت ہونے کی وجوہات کے باعث وسیع پیمانے پر معروف و مقبول ہوگئیں۔
گزشتہ صدی میں جدید علمی ڈسکورس کے در آنے کے بعد جب پرانے نسخوں کی تحقیق شروع ہوئ، تو ان میں سے بھی چند ایک سامنے آگئے..جیسے حضرت ابوہریرہ رض کا صحیفہ ، حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کا صحیفہ، مکتوبات نبویﷺ وغیرہ.

جو مستشرقین اور انکے مشرقی عقیدت مند کہتے ہیں کہ علم حدیث کا سارا ذخیرہ چوتھی صدی ہجری میں لکھا گیا ان کی غلط فہمیوں کی ایک وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ احادیث کے جو بڑے بڑے مجموعے امت میں مقبول ہوئے وہ زیادہ تر تیسری اور کچھ چوتھی صدی ہجری کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں یا شاید بھلا دیتے ہیں کہ زیادہ مکمل اور زیادہ بہتر کام جلدی مقبول ہو جاتا ہے اور کم درجہ کے یا ابتدائی مرحلہ کے کام سے لوگوں کو مستغنی کر دیتا ہے۔
تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک وہ سارا مواد ایک ایک کر کے سامنے آگیا تھا جو پہلی اور دوسری صدی میں مدوّن ہوا تھا۔ مثلا حضرت براء بن عازب کا مجموعہ تو ظاہر ہے کہ دو چار سو روایات پر مشتمل ہو گا۔ ان واقعات پر مبنی ہوگا جو انہوں نے خود دیکھے۔ لیکن بعد میں آنے والے تابعین نے حضرت براء کی معلومات بھی لیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ سے آنے والی معلومات بھی لیں۔ بقیہ صحابہ سے بھی معلومات لیں اور ان کو یکجا کر دیا۔ تو ایک تابعی کے پاس ایک صحابی کی بجائے دس صحابہ کے مجموعے آ گئے۔ تبع تابعی کے پاس بیس صحابہ کے مجموعے آ گئے۔ تبع تابعین کے بعد جو لوگ آئے ان کے پاس اور زیادہ معلومات جمع ہو گئیں۔ یوں جب امام بخاری اور ان کے معاصرین کا زمانہ آیا تو یہ استیعاب اور استقصاء کا زمانہ تھا۔ استیعاب اور استقصاء کی وجہ سے حدیث کے زیادہ بہتر زیادہ جامع اور زیادہ مکمل مجموعے سامنے آ گئے۔ ان مجموعوں نے لوگوں کو بقیہ مجموعوں سے مستغنی کر دیا۔ یوں بقیہ مجموعوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یعنی اگ کسی کے پاس صحیح بخاری موجود ہو تو اس کو یہ بیس بیس تیس تیس احادیث کے چھوٹے چھوٹے مجموعے رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟؟
چھوٹے مجموعوں کی تاریخ اہمیت تو اپنی جگہ برقرار رہی۔ لیکن عام درسی اور تصنیفی ضروریات کے لئے بڑے مجموعوں نے لوگوں کو چھوٹے مجموعوں سے مستغنی کر دیا۔ جس طرح آج ہر جگہ حدیث کی بڑی بڑی کتابیں موجود ہیں۔ لیکن سو بچاس سال بعد شاید ان کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ کیونکہ ایک سی ڈی پر کئی کئی کتابیں دستیاب ہوں گی۔ ا ب آگے چل کر اگر کوئی کہے کہ جناب سی ڈی پر احادیث کی کتابیں تو بیسویں صدی میں مرتب ہوئی ہیں لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ اس سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ یہ بات غلط ہو گی کیونکہ اکیسیویں صدی کی سی ڈیوں پر جو کچھ فراہم ہوگا پچھلی صدیوں میں ہونے والے کام کی بنیاد پر ہی ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ امام بخاری، امام ترمذی اور امام مسلم یہ حضرات جو مجموعے مرتب کر رہے تھے یہ انہی تحریری اور زبانی ذخائر کی بنیاد پر مرتب کر رہے تھے جو ان تک پہنچے تھے۔(محاضرات قرآنی ، ڈاکٹر محمود احمد غازی)

احادیث میں رسول اللہ ﷺ کا عکس :
ایک نہایت اہم بات جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عربی زبان جانتے ہیں اور جنہوں نے محض سرسری طور پر کبھی کبھار متفرق احادیث کا مطالعہ نہیں کر لیا ہے بلکہ گہری نگاہ سے حدیث کی پوری پوری کتابوں کو، یا کم از کم ایک ہی کتاب (مثلاً بخاری یا مسلم) کو از اول تا آخر پڑھا ہے۔ ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علی و سلم کی اپنی ایک خاص زبان اور آپ کا اپنا ایک مخصوص اندازِ بیان ہے جو تمام صحیح احادیث میں بالکل یکسانیت اور یک رنگی کے ساتھ نظر آتا ہے۔
قرآن کی طرح آپ کا لٹریچر اور اسٹائل اپنی ایسی انفرادیت رکھتا ہے کہ اس کی نقل کوئی دوسرا شخص نہیں کر سکتا۔ اس میں آپ کی شخصیت بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اس میں آپ ﷺ کا بلند منصب و مقام جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے آدمی کا دل یہ گواہی دینے لگتا ہے کہ یہ باتیں محمد رسول اللہ کے سوا کوئی دوسرا شخص کہہ نہیں سکتا۔ جن لوگوں نے کثرت سے احادیث کو پڑھ کر حضور ﷺ کی زبان اور طرزِ بیان کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے، وہ حدیث کی سند کو دیکھے بغیر محض متن کو پڑھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا موضوع، کیونکہ موضوع کی زبان ہی بتا دیتی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان نہیں ہے حتیٰ کہ صحیح احادیث تک میں روایت باللفظ اور روایت بالمعنی کا فرق صاف محسوس ہو جاتا ہے، کیونکہ جہاں راوی نے حضور کے بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، وہاں آپﷺ کے اسٹائل سے واقفیت رکھنے والا یہ بات پا لیتا ہے کہ یہ خیال اور بیان تو حضور ﷺ ہی کا ہے لیکن زبان میں فرق ہے۔
یہ انفرادی خصوصیت احادیث میں کبھی نہ پائی جا سکتی اگر بہت سے کمزور حافظوں نے ان کو غلط طریقوں سے نقل کیا ہوتا اور بہت سے ذہنوں کی کارفرمائی نے ان کو اپنے اپنے خیالات و تعصبات کے مطابق توڑا مروڑا ہوتا۔ کیا یہ بات عقل میں سماتی ہے کہ بہت سے ذہن مل کر ایک یک رنگ لٹریچر اور ایک انفرادی اسٹائل پیدا کر سکتے ہیں؟
اور یہ معاملہ صرف زبان و ادب کی حد تک ہی نہیں ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر دیکھیے تو نظر آتا ہے کہ طہارت جسم و لباس سے لے کر صلح و جنگ اور بین الاقوامی معاملات تک زندگی کے تمام شعبوں اور ایمان و اخلاق سے لے کر علامات قیامت اور احوال آخرت تک تمام فکری اور اعتقادی مسائل میں صحیح احادیث ایک ایسا نظام فکر و عمل پیش کرتی ہیں جو اول سے آخر تک اپنا ایک ہی مزاج رکھتا ہے اور جس کے تمام اجزا میں پورا پورا منطقی ربط ہے۔ ایسا مربوط اور ہم رنگ نظام اور اتنا مکمل وحدانی نظام لازماً ایک ہی فکر سے بن سکتا ہے، بہت سے مختلف ذہن مل کر اسے نہیں بنا سکتے۔ یہ ایک اور اہم ذریعہ ہے جس سے موضوع احادیث ہی نہیں مشکوک احادیث تک پہچانی جاتی ہیں۔ سند کو دیکھنے سے پہلے ایک بصیرت رکھنے والا آدمی اس طرح کی کسی حدیث کے مضمون ہی کو دیکھ کر یہ بات صاف محسوس کر لیتا ہے کہ صحیح احادیث اور قرآن مجید نے مل کر اسلام کا جو نظام فکر اور نظام حیات بنایا ہے اس کے اندر یہ مضمون کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتا کیونکہ اس کا مزاج پورے نظام کے مزاج سے مختلف نظر آتا ہے۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password