حدیث کے انکار کا فتنہ

فہمِ قرآن کے لیے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآنِ کریم کے کسی ارشاد کا مفہوم متعین کرنے کے لیے متکلم کے منشاء تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔یہ بات مسلم ہے کہ ذاتِ خداوندی تک ہماری رسائی ناممکن ہے لیکن اللہ عزوجل کے پیغمبر تک توہماری رسائی ممکن ہے کیونکہ اللہ کے جس پیغامبر نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن حکیم کا متن عطا فرمایا ہےاسی نے اس متن کی تشریح بھی فرمائی ہے اور اس کے اکثر وبیشتر مقامات کی وضاحت بھی اپنے ارشادات، اعمال اور اسوۂ حسنہ کے ذریعہ کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وہ پیغامبر حضرت رسولِ کریمﷺ ہیں۔ جن کے بارے میں رسول اللہﷺ کا جملہ بولتے ہی آپ کی یہ حیثیت ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نمائندہ ہیں، جن کاکام ہی اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچانا اور اس کی شرح ووضاحت کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ کے منشاء سے آگاہ کرنا ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کہ جناب نبی کریمﷺ کواللہ تعالیٰ کا نمائندہ تسلیم کرلینے اور قرآنِ کریم کا متن ہم تک پہنچانے میں اتھارٹی کے طور پر قبول کرلینے کے بعد اسی قرآن کریم کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں جناب رسولِ کریمﷺ کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کو حتمی معیار تسلیم کرنے میں آخرکونسی رکاوٹ درآتی ہے؟؟؟
جب کہ قرآن کریم جن ذرائع سے امت تک پہنچا ہے وہی ذرائع اس کی تشریح میں آپ کے ارشادات وفرمودات کوہم تک منتقل کررہے ہیں، اگروہ ذرائع قرآنِ کریم کوامت تک پہنچانے میں قابلِ اعتمادہیں تو حدیث وسنت کو امت تک پہنچانے میں کیوں قابل اعتماد نہیں ہوسکتے ؟؟؟
بعض لوگ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم چونکہ تواتر کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے؛ اس لیے وہ شک وشبہ سے بالاتر ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تواتر آخر کن لوگوں کا ہے اور وہ کون افراد ہیں جواس تواتر میں شامل ہیں؟ کیا یہ تواتر احادیث وسنن کی روایت کرنے والوں سے الگ لوگوں کا ہے؟ اور اگریہ وہی لوگ ہیں توپھر کیا وجہ ہے کہ قرآن کے ضمن میں تووہ لوگ اعتبار واعتمادکی سند سے بہرہ ور ہوں اور جب حدیث وسنت کی بات آئے توان کواس سندِاعتماد وثوق سے محروم ٹھہرایا جائے۔
شاید مسئلہ کچھ اور ہے ۔علامہ سیدسلیمان ندوی تدوین حدیث کے مقدمہ میں اس کی وضاحت فرماتے ہیں:
قرآنِ پاک کے فہم کے نئے دعویدار اس زمانے میں اوربھی پیدا ہوگئے ہیں، جوقرآنِ پاک کوہرضرورت اور ہرحکم اورہرمسئلہ کے لیے کافی اور اپنی عقل اور فہم کواس کی تفسیر اور تشریح کے لیے کافی ترسمجھتے ہیں اور اس طرح وہ چاہتے ہیں کہ احادیث اور فقہ کا سارا دفتر مٹ جائے اور ان کی جگہ ان کے اجتہادات اور استنباطات قرآن پاک کاحقیقی ایڈیشن اور اسلام کی صحیح تعلیمات کا مستند مخزن قرار دیا جائے، ان بدعتیوں نے تومستشرقین کے سفیہانہ اعتراضات کوجوفن حدیث پرانہوں نے کئے ہیں اپنا کرسرے سے اس فن کی بیخ کنی شروع کردی، انہی سے سن کریہ کہا جاتا ہے کہ حدیثیں توحضورﷺ کے ڈھائی سوبرس بعد قلم بند ہوئی ہیں اور کبھی فن رجال کی وثاقت پراعتراضات کیے جاتے ہیں اور کبھی عقلی حیثیت سے اس پرایرادات پیش کیے جاتے ہیں اور ان سب کے نتیجے میں کوئی نماز کے اوقات کواور کوئی نماز کے ارکان کو، کوئی روز ہ کی تعداد کو، کوئی حج کے ارکان کو، کوئی قربانی کو، کوئی سمت قبلہ کو، کوئی وضو کی ہیئت یاضرورت کو، کوئی مسلمانوں کے اصولِ وراثت کو بدلنا چاہتا ہے اورلوگوں کو نئے اسلام کی دعوت دینا چاہتا ہے۔(مقدمہ تدوین حدیث، ازمولاناسیدسلیمان ندویؒ)
حقیقت یہی ہے کہ قرآن مجید کی تحریف کا پروگرام اور منصوبہ اس وقت تک مکمل نہیں هوسکتا جب تک کہ صاحب القرآن مُعلم القرآن کو ان کے مقام سے نہ هٹایا جائے ، اس لیئے منکرین حدیث نے قرآن کی معنوی تحریف کے ساتھ مُعلمُ القرآن صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع سے بھی انحراف کیا ۔ منکرین حدیث جوصرف قرآن پرعمل کا جھوٹا دعوی رکھتے هیں ، وهی قرآن انتہائ تاکید و ضاحت کے ساتھ رسول صلی الله علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کا حکم دیتا هے ، وهی قرآن اطاعت رسول صلی الله علیہ وسلم کو ایمان کی علامت ودلیل قراردیتا هے ،وهی قرآن رسول صلی الله علیہ وسلم کے تمام فیصلے اور تمام اوامر و نواهی پرعمل کرنے اور قبول کرنے کو ایمان کی بنیاد ومدار قرار دیتا هے ، وهی قرآن رسول صلی الله علیہ وسلم اطاعت کو بعینہ الله تعالی کی اطاعت قرار دیتا هے ،اور کیا رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی آپ کی احادیث وسنن پرعمل کیئے بغیر هوسکتی هے ؟؟
تومعلوم هوا کہ جن لوگوں نے حدیث کا انکار کیا حقیقت میں یہی لوگ قرآن کے بھی منکرهیں اگرچہ اپنا نام هزار دفعہ اهل قرآن رکھ لیں اس لیئے کہ اگرقرآن ذکرللعالمین هے ھدی للعالمین هے توصاحب قرآن صلی الله علیہ وسلم رحمت للعالمین هیں آپ کی نبوت ورسالت وقیادت وسیادت واطاعت ساری دنیا کے لیئے اور همیشہ همیشہ کے لیئے هے ۔ لیکن منکرین حدیث آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کوصرف آپ کی زندگی تک محدود سمجھتے هیں اس کے بعد نہیں ۔
مشہورمنکرحدیث اسلم جیراجپوری لکھتے ہیں : جہاں جہاں الله و رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا هے اس سے مراد امام وقت یعنی مرکزملت کی اطاعت هے (( علم حدیث ص 34 ))یہی بات غلام احمد پرویز نے بھی لکھی کہ خدا ورسول سے مراد مرکزملت هے (( مقام حدیث ج 1 ص 64))
جن آیات میں الله تعالی کی طرح رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کا واضح وصریح حکم هے ۔منکرین حدیث ان سے بھی یوں جان چھڑاتے هیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت صرف وقتی وعارضی تھی دائمی اور مستقل هر امتی کے لیئے نہیں تھی۔ چونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم سربراه مملکت سپہ سالار یاحاکم اعلی هوتے تھے تواس حیثیت سے آپ کی اطاعت آپ کی وفات تک واجب هے اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی اطاعت نہیں هوگی بلکہ اس کے قائم مقام مرکزملت اور حکومت وقت کی اتباع هوگی ۔ مطلب آجکل کے دور میں اطاعت رسول سے مراد نواز شریف اور ممنون حسین صاحب کی اطاعت هیں کیونکہ حکومت وقت انہی دونوں کے هاتھ میں هے ۔ نعوذ بااللہ ۔
حقیقت یہ ہے کہ الله تعالی نے جہاں کہیں بھی اطاعت کا حکم دیا هے ۔( اطیعوا الله واطیعوا الرسول ) فرمایا۔
یعنی اپنی اطاعت کے لیئے اپنا اسم ذاتی وجلالی لفظ’ الله ‘جوتمام صفات کمالیہ کوجامع هے منتخب فرمایا جس میں تعلیم وترغیب هے اس بات کی طرف کہ اس ذات کی اطاعت کرو جوازل سے ابد تک موجود رهے گا اور اس کے حق میں فناء وعدم کا تصور نہیں هے لہذا اسماء صفاتیہ پر اسم ذات کو ترجیح دی۔
لیکن اس کے برعکس رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کو آپ کے اسم ذاتی کے ساتھ بیان نہیں کیا یعنی یہ نہیں فرمایا ( اطیعوا محمدا واحمدا ) ۔بلکہ ایسے وصف کے ساتھ ذکرکیا جو تا قیامت بلکہ کبھی بھی آپ سے جدا نہیں هوسکتا اور وه هے ( وصف رسالت ) تو ( اطیعوا الرسول ) کہہ کریہ بتادیا کہ رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت بحیثیت وجود ذات یا حیات کے لازم نہیں هوتی ورنہ دعوی نبوت سے پہلے بھی اطاعت رسول فرض هونی چائیےبلکہ حقیقت میں رسول ونبی هونے کی حیثیت سے اطاعت فرض هوتی هے ۔
مکان و زمان قوم ونسل کے لحاظ سے اگرنبوت محدود هوگی تو اطاعت کا وجوب بھی اسی طرح محدود هوگا ، یہی وجہ هے سابقہ انبیاء علیہم السلام کی نبوتیں محدود زمان ومکان اور خاص اقوام پرمشتمل تھیں لہذا هم پران کی اطاعت لازم نہیں هے ۔ لیکن خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تاقیامت سراجا منیرا بن کرآئے هیں اور آپ کے آنے سے دیگرانبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کی اطاعت واجب نہ رهی اب تاقیامت صرف خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی هی اطاعت واتباع هوگی ۔
لہذا جب اطاعت رسول کا وجوب الله تعالی اطاعت کی طرح هے اور وصف نبوت ورسالت کے ساتھ فرض ولازم هے ، تو پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں اورصرف وفات تک اطاعت کو وهی شخص واجب کہہ سکتا هے جو صرف ( 23 ) سال کے لیئے آپ کو نبی مانتا هو اور بعد ازوفات آپ کی نبوت کا منکر هو جیسا کہ منکرین حدیث هیں ،۔
اورجو شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کوخاتم الانبیاء وخاتم الرسل اور تاقیامت بلاتفریق تمام اقوام وملل اور روئے زمین کے هرخطہ کے جن وانس کے لیئے نبی ورسول برحق مانتا هو اور آپ کی شریعت کو هرزمان ومکان کے لیئے کافی وشافی کامل ومکمل اور قابل عمل مانتا هو ، تو ایسا شخص کبھی بھی ایسی گمراه وملحدانہ نظریات نہیں اپناسکتا جومنکرین حدیث نے اپنائے هوئے هیں ۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password