غلام احمد پرویز صاحب کے ‘نظام ربوبیت’ کی قرآنی بنیادوں کا جائزہ [2]

 غلام احمد پرویز صاحب کے نظام ربوبیت کی قرآنی بنیادوں کا جائزہ –قسط اول

قرآن کے جعلی پرمٹ پر نام نہاد”نظامِ ربُوبیّت”کامنزل بمنزل نفاذ

پرویزصاحب،زندگی بھر،جہاں اشتراکیت کو”نظامِ ربوبیت”کے نام سے مشرف باسلام کرنے میں کوشاں رہےہیں،وہاں وہ امّتِ مسلمہ کو یہ باور کروانے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلّم نے اسی نظام کو بتریج نافذفرمایاتھا،جو اموال واراضی کی شخصی ملکیت کی نفی پر قائم تھا، چنانچہ”مفکّرِ قرآن”(غلام احمد پرویز)بایں الفاظ رقمطراز ہیں کہ:
“قرآن اپنے پیش کردہ نظام کو بتدریج نافذ کرتاہے یعنی معاشرہ جِس حالت میں ہوتا ہے وہ اپنے نظام کی ابتداءاس کے تقاضوں کے مطابق کرتاہُوااُسے منزل بمنزل اَخیر تک پہنچاتاہے۔اس نے اِن منازل کے لیے الگ الگ ہدایات دی ہیں۔انہی کے مطابق اسلام کے صدرِ اوّل میں یہ معاشرہ قائم ہواتھا ان مختلف منازل سے متعلق احکام وہدایات کاسمجھ لینا ضروری ہے۔کیونکہ اِس عملِ تدریج کو سامنے نہ ہونے سے قرآنی احکام سے متعلق قسم قسم کی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔” (نظامِ ربوبیت ص281)
یقیناََ قرآن نے اپنے نظام کو بتدریج نافذ کیا ہے۔سابقہ نظام کی جگہ نئے نظام کی عملی تنفیذ کا یہ کام وحئ خداوندی کی ہدایات پر منزل بمنزل ہُوا۔جس مرحلے پر جس قسم کی ہدایات کی ضرورت تھی وہاں ویسی ہی ہدایات نازل ہوئیں۔لہٰذا قرآنی نظام کے تدریجی نفاذ کاعلم،اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتاجب تک کہ انسان قرآنی آیات وسُورَ کے دورِ نزول کو نہ جان لے۔کیونکہ جس ترتیب وتدریج سے قرآن نازل ہُواہے،اسی ترتیب وتدریج سے اس کی تعالیم وہدایات کا نفاذ عمل میں آتا رہا ہے،ایک آدمی،جس قدر قرآنِ پاک کی ایک ایک آیت یا ایک ایک سورت کا دورِ نزول جانتاہوگا،اسی قدر اس کے لیے اسلامی نظامِ زندگی کے تدریجی نفاذ کو سمجھنا آسان ہوگا۔اس بدیہیِ حقیقت سے کوئی عاقل انکارنہیں کرسکتا۔
تاہم اگر کوئی شخص ہر آیت یاہرسورت کا زمانہ نزول نہیں جانتاتوکم ازکم اُسے اتناتو علم ہونا ہی چاہیے کہ قرآن کی کچھ سورتیں قبل ازہجرت مکّی دور میں نازل ہوئی ہین اور کچھ سورتیں بعد ازہجرت مدنی دُور اُتری ہیں۔مدنی اورمکی سورتوں کی یہ نزولی ترتیب ہی قرآنی نظام کے تدریجی نفاذ کو کسی حد تک ناقابلِ فہم بنادیتی ہیں۔صرف اتنا جان لینا ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہےکہ اوّلین مرحلہ نفاذ میں وہی آیات کارآمد ہوسکتی ہیں جو اوّلین مرحلے میں نازل ہوئی تھیں نہ کہ وہ جو آخری مرحلے میں نازل ہوئی تھیں۔اسی طرح آخری مراحل میں وہی آیات وسُوراساسِ نفاذ بن سکتی ہیں جو انتہائی مراحل میں نازل ہوئی تھیں نہ کہ وہ جو اوّلین مراحل میں اُتری تھیں۔

نفاد قرآنی نظام کے تین مراحل :

اس تمہید کے بعد اب ہم جناب پرویز صاحب کے ان تین مراحل ومنازل کا جائزہ لیتے ہیں۔جن کےاندر،ان کے نزدیک قرآنی نظام نفاذ پذیر ہُوا،وہ پہلی منزل کے متعلق رقمطرازہیں:

:پہلی منزل

:قرآن نے اس پہلی سٹیج پر جہاں ایک طرف ضرورتمندوں کی ضروریات پوری کرنے کی انفرادی طور پر ترغیب وتحریض دی۔اس کے ساتھ ہی دوسری طرف مالی معاملات میں اصلاح کی ہدایات بھی دیں۔اس نے کہا کہ دوسروں کا مال باطل طور پر مت کھاؤ(188/2۔29/4)اس سلسلہ میں اس کی تصریح کردی کہ مذہبی علماءومشائخ لوگوں کامال باطل طور پرکھاتے ہیں لہٰذا ان کو کچھ نہ دو،وہ خود محنت کرکےکمائیں،کھائیں(34/9)یتیموں کے مال کی حفاظت کریں(6/4۔153/6۔34/17)اگرعورت بھی کچھ کمائے تو مرد خواہمخواہ غاصبانہ طور پر اس کے مالک نہ بن جائیں۔عورت اپنی کمائی کی مالک ہوگی،مرد اپنی کمائی کا(282/2)۔مقروض اگرتنگدست ہوتواُسے قرضہ معاف کردو(280/2)۔اپنے ترکہ کے متعلق وصیت کرو(180/2۔106/5)اگر ایسی صورت پیداہوجائے کہ متوفیٰ وصیت نہیں کرسکا یااس کی وصیت پورے ترکہ کو محیط نہیں ہوئی تو ترکہ کی تقسیم ان احکام کے مطابق کرو جو قرآن کریم میں دیئے گئے ہیں(7/4۔۔۔11۔12/4)اور جن کی وجہ سے دولت ایک جگہ مرکوز ہونے کی بجائے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے۔۔۔۔”نظامِ ربوبیت ص282

پہلی منزل کے احکام کا دورِ نزول:

پرویز صاحب نے نظامِ اسلامی کے نفاذ کی پہلی سٹیج پر جن احکام وہدایات کو اساس بنایا ہے۔ان کے دورِ نزول پربھی ایک نگاہ ڈال لیجئے۔
1۔۔۔۔”دوسروں کا مال باطل طریقے پرنہ کھاؤ”(188/2۔29/4)یہ حکم سورۃالبقرۃاورسورۃالنساءدونوں میں موجود ہے۔اوّل الذکر سورہ کا غالب حصّہ مدنی دور کی ابتداءمیں نازل ہواتھا۔اس کی بعض آیات تقریباََ9ہجری میں نازل ہوئی تھیں مثلاََ سودسے متعلقہ آیات۔
رہی سورۃالنساءتووہ جنگِ اُحد کے بعد نازل ہوئی تھی۔تاہم اس کی بعض آیات تقریباََ5ہجری میں بھی نازل ہوئی تھیں۔
2۔۔۔۔”مذہبی علماءومشائخ لوگوں کا مال باطل طور پر کھاتے ہیں۔۔۔۔(34/9)یہ آیت سورہ توبہ کے اس حصّے میں ہے جو9ہجری میں اتراتھا،یہ قطعہ سورت،ان آیات پر مشتمل ہے جن کو حضرت اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دے کر،حج کے موقعہ پر،اعلانِ عام کے لیے بھیجاتھا۔۔۔۔(دیکھئے تفسیر مطالب الفرقان جلد6،ص129)
3۔۔۔۔”یتیموں کے مال کی حفاظت کرو”۔۔۔۔یہ حکم پرویزصاحب کے تینوں حوالوں کے مطابق سورۃالنساء(6/4)،سورۃالانعام(153/6)اور سورہ بنی اسرائیل(34/17)میں مذکور ہے۔سورۃالنساءکادورِ نزول اوپر مذکور ہوچکا ہے۔رہی سورۃالانعام اور سورہ بنی اسرائیل تو وہ مکّی دور میں نازل ہوئی تھیں جبکہ ابھی اسلامی حکومت کا وجود ہی قائم نہ ہو پایاتھا۔اسلامی مملکت کب وجودپذیرہوئی؟پرویزصاحب نے خود یہ لکھاہےکہ۔۔۔”ہجرت کےبعد مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔”(تفسیرمطالب الفرقان جلد6ص129)
4۔۔۔۔”عورت اپنی کمائی کی آپ مالک ہوگی اور مرد اپنی کمائی کا خود مالک ہوگا۔۔۔۔”(282/2)پرویزصاحب کے دیئے ہُوئے حوالہ میں سرے سے یہ مضمون موجود ہی نہیں۔سورۃالنساءمیں البتہ یہ مضمون ہے اس کا دورِ نزول اوپر مذکور ہوچکاہے۔
5۔۔۔۔مقروض اگر تنگدست ہوتواُسے قرضہ معاف کردو”۔۔۔۔(28/2)یہ آیت،سورہ بقرہ میں سُودکی آیات کےساتھ9ہِجری میں نازل ہوئی تھی۔
6۔۔۔۔”اپنے ترکہ کے متعلق وصیت کرو”۔۔۔۔(180/2۔106/5)۔یہ حکم پرویزصاحب کے دونوں حوالوں کے مطابق سورۃالبقرۃاورسورۃالمائدۃمیں ہے۔سورۃالبقرۃکادورِ نزول اُوپر مذکور ہوچکاہے جبکہ سورۃالمائدۃ6ہجری کے آخر میں یا7ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی تھی جب اہل ایمان مکّہ سے عمرہ کئے بغیر اس شرط پر مدینہ لوٹ گئے تھے کہ وہ اگلے سال آئیں گے،مگراگلےسال وہ ابھی عازم سفر نہیں ہُوئےتھے کہ یہ سورہ نازل ہوگئی۔
اس کے بعد اب ان احکام وہدایات کو ملاحظہ فرمائیے۔جو پرویز صاحب کے نزدیک،دوسری منزل سے تعلق رکھتی ہیں وہ رقمطراز ہیں:

دوسری منزل:

منزلِ اوّل میں ضرورت مندوں کی امداد کے لیے اپیل کی گئی تھی جس کے معنیٰ یہ تھے کہ وہ تم سے اپنے حق کے طور پر کچھ نہیں مانگتے،تم انہیں بطور امداد کچھ دو۔لیکن اب کہاکہ تمہارے مال ودولت میں ضرورت مندوں کا حق ہے یعنی وہ اس میں سے اپنی ضروریات کے بقدر بطور استحقاق لے سکتے ہیں۔
قرآنِ کریم نے بڑے تہدید آمیز انداز میں کہا کہ دولت کا اکتنازیعنی اُسے جمع کرکےرکھنا۔۔۔۔سنگین ترین جرم ہے۔اس سے جہنم کے شعلے بھڑکتےہیں،جن میں یہ دولت اوراس کے جمع کرنے والے بُری طرح جلتےاورجھلستےہیں۔(35/9) نظامِ ربوبیت ص286
اسی مرحلہ میں،بقول پرویزصاحب،ارضی ملکیت کی حدبندی کاآغاز ہُوا۔چنانچہ اس سلسلےمیں وہ رقمطرازہیں کہ:
“اسلامی نظام نے عملی قدم اٹھایا اور جو لوگ”بےحدوحساب”زمین کے رقبوں کے مالک بنےبیٹھے تھے ان کی ملکیت کی تحدید(حدبندی)کرنی شروع کردی۔ظاہر ہےکہ اس کے لیے معیار یہی ہوگاکہ ایک شخص کے پاس اسی قدر رقبہ اراضی رہے جس کی پیداوار اس کی اور اس کے اہل وعیال کی پرورش کیلیے کافی ہے۔اس طرح اس نے زمین کے ذاتی ملکیت کے ختم کرنےکےعملی پروگرام کی ابتداءکردی۔سورۃالرّعد میں ہےکہ داعی انقلاب حضعر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال پیدا ہواکہ جس انقلاب کے لیے میں نے اپنی تمام عمر صرف کردی ہے کیا اس کی تکمیل میری زندگی میں ہوجائےگی یانہیں؟اس کے جواب میں کہاگیاکہ۔۔۔۔”تم اس کی فکرنہ کرو کہ اس کی تکمیل تمہاری زندگی میں ہوگی یاتمہاری وفات کےبعد۔تم اس پیغام کوعام کرتے جاؤیہ مکمل ہوکر رہےگا،خواہ تمہاری زندگی میں،خواہ اس کے بعد۔تم دیکھتے نہیں کہ
“ہم کس طرح زمین کے رقبوں کو ان بڑے بڑے سرداروں کے ہاتھوں سے سکیڑتے اورسمیٹتے(کم کرتے)چلے جارہےہیں،یہ ہمارا فیصلہ ہے(کہ ان پر ان کی ملکیت ختم ہوگی)اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے فیصلووں کو لوٹانہیں سکتی ہم بہت جلد حساب کرنے والے ہیں۔(41/13)
سورۃالانبیاءمیں کہا کہ:
“انہیں اور ان کے آباءواجداد کو زمین متاعِ حیات حاصل کرنےکے لیے ملی تھی۔اس پر زمانہ گزر گیا تو انھوں نے اس پر قبضہ مخالفانہ جمالیا۔اب ہم آہستہ آہستہ اسے ان کے ہاتھوں سے نکال رہےہیں ہمارے اس پروگرام کی تکمیل ہوکررہے گی یہ ہمیں مغلوب نہیں کرسکیں گے۔(44/21)
یوں اس دوسری منزل میں اس نظام کے عملاََ قیام کی ابتداءکردی۔(نظامِ ربوبیت ص91۔290)

منزل ثانی کے احکام کادورِ نزول:

آئیے اب ہم یہ دیکھیں کہ اس مرحلہ ومنزل میں نفاذ پذیر ہونے والے احکام وہدایات کا زمانہ نزول کیا تھا۔
1۔۔۔۔”اہلِ حاجت،اہل دولت سے اس مرحلہ میں جو کچھ لیتے ہیں وہ بطور امداد نہیں بلکہ بطور استحقاق لیتےہیں”۔۔۔۔اس کا ماخذ سورۃالذاریات اورسورۃالمعارج ہے یہ دونوں سورتیں مکہ مکرمہ میں ہجرت سے تقریباََ آٹھ سال قبل نازل ہوئی تھیں۔جب کہ اسلام کے نظامِ حیات کی دوسری منزل تو درکنار،سرےسے اسلامی نظام کی کامیابی کے امکانات ہی ناپیدتھے۔اس وقت داعئ انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام کا مقابلہ تکذیب وجحود،کفر وانکار،استہزاءواستخفاف،طنز وطعن اور جھوٹے الزامات کی بوچھاڑوں کے ساتھ ہورہاتھا مگر ابھی ظلم وستم کی چکی چلنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ان حالات میں یہ کہنا کہ اسلامی نظام کا نفاذ،دوسری منزل میں پہنچ گیاتھا۔قطعی بےبنیاد بات ہے جسے واقعات کی دنیا سے کوئی علاقہ وسروکار نہیں ہے۔یہ صرف پرویز صاحب کے اپنے ذہن کی خلّاقی کا کرشمہ ہے۔
2۔۔۔۔”رہااکتنازِ دولت کی مخالفت کاحکم”۔۔۔۔تو یہ پرویز صاحب کے حوالہ کے مطابق،سورہ توبہ کے اس حصے میں شامل ہےجو9ہجری کے لگ بھگ نازل ہُواہے۔
3۔۔۔۔رہیں،”رقبہ زمین کی تحدید سے متعلقہ پرویزصاحب کی پیش کردہ آیات تو یہ سورۃالانبیاءاورسورۃالرعد میں واقع ہیں اور یہ دونوں مکی سورتیں ہیں۔سورۃالرعد مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی تھی۔اگرچہ بعض لوگوں نے اسے مدنی سورت قراردیا ہے مگر اس کا مضمون اورمتن پکار پکار کراس کے مکی ہونے کااعلان کررہے ہیں۔سورۃالانبیاءکازمانہ نزول،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیامِ مکہ کا دورِ متوسط ہے یعنی یہ دونوں سورتیں،جن کی آیات کو پرویزصاحب نے نظامِ اسلام کی دوسری منزل میں لاکرٹانک دیاہے،اس وقت نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلامی حکومت کی ابھی بنیاد ہی نہیں پڑی تھی(تحدیدِ اراضی کی ان دونوں آیات کا اصل مفہوم کیاہے؟اس پربحث آگے آرہی ہے۔)

تیسری منزل:

اسلامی نظام کے نفاذ کے تیسرے مرحلے کے متعلق پرویزصاحب فرماتےہیں:
“قرآن کریم نے وہ فیصلہ سنادیاکہ جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے اور قطعی طور پرطے ہوگیا سورۃالبقرۃمیں ہے﴿يسئلونك ما ذا ينفقون﴾”اے رسول،یہ لوگ تم سے کہتے ہیں کہ انہیں حتمی طور پر بتادیاجائے کہ ان کی کمائی میں ان کا اپنا حق کس قدر اور دوسروں کا کس قدر ہے؟کہاگیا﴿قل العفو﴾(219/2)ان سے کہہ دو،اس میں تمہاراحق صرف اس قدر ہے جس سے تمہاری ضروریات پوری ہوجائیں،باقی سب کا سب دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیےہے۔”(نظامِ ربوبیت ص293)
اس کے بعد آگے چل کر پرویزصاحب نے لکھا ہےکہ ان احکام کی بنیاد پر جو بقول اُن کے زمینی ملکیت کے خلاف ہیں(10/55اور11/41)افراد کو زمین کی ملکیت سے قاطبۃََ بےدخل کردیاگیا۔

“مفکرِ قرآن”کا سفید جھوٹ:

“مفکرِ قرآن”(غلام احمد پرویز)کا یہ ایسا قطعی واضح اور سفید جھوٹ ہے۔جو سرے سے بے بنیاد اور بےاصل ہے۔کیونکہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو رہاایک طرف،خلافتِ راشدہ تک میں اموال واراضی کی شخصی ملکیت کااصول رائج رہا۔جیساکہ درج ذیل واقعات (جو خود پرویزصاحب نے ہی بیان فرمائے ہیں ) سے واضح ہے۔
(1)خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبرمیں یہودکی زمین اُن سےلے لی اور اس کا نصف بیت المال میں رکھ لیا گیا تاکہ ضروریات مملکت پوری کی جائیں۔اوردوسرا نصف مجاہدین مین تقسیم کردیاگیا۔ملاحظہ ہو معارف القرآن(از غلام احمد پرویز)جلد4،صفحہ نمبر565)
(2)خودخلیفہ اوّل جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں کئی قطعاتِ اراضی تھے۔۔۔۔”جب ان کی وفات کا وقت آیا تو وصیت کی میری فلان زمین بیچ کر وہ ساری رقم جو آج تک بیت المال سے وصول ہوئی ہے،واپس کردی جائے۔اُن کا خیال غالباََ یہ تھا کہ جو رقم میں نے لی ہے اس کے مطابق امت کی خدمت نہیں کرسکا”۔۔۔۔(تاریخ الامت ازاسلم جیراج پوری ج2،ص74،اورشاہکار رسالت ص359)
(3)عہدِ فاروقی میں صرف عراق کی زمینوں کا تقسیم نہ کیا جانا لیکن باقی ممالک کی اراضی وغنائم کا تقسیم کیا جانا بھی اس امر کا بیّن ثبوت ہےکہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلافتِ راشدہ میں شخصی ملکیتِ مال واراضی کا اصول قائم تھا۔ملاحظہ ہو(شاہکارِ رسالت ص279)

منزل ثالث کے احکام کا دورِ نزول:

ان واقعات کے باوجود یہ کہنا کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں افراد مملکت کو اموال واراضی کی شخصی ملکیت سے بے دخل کردیاگیاتھا،پرویز صاحب کا سفید جھوٹ ہے۔
بہرھال اس تیسری منزل میں”مفکرِ قرآن”(غلام احمدپرویز)صاحب نے صرف دوہدایاتِ قرآنیہ کو تکمیلِ کارکی بنیاد بنایاہے۔ان ہدایات کے دورِ نزول کو ملاحظہ فرمائیے:
1۔۔۔۔”فاضلہ دولت کی انفرادی ملکیت کی نفی”۔۔۔۔(219/2)،یہ ہدایت،سورۃالبقرۃکے اس حصّہ میں ہے جس کا دورِ نزول مدنی دور کا بالکل ابتدائی زمانہ ہے۔
2۔۔۔۔زمین کی شخصی ملکیتوں کا خاتمہ”۔۔۔۔(10/55،11/41)یہ دونوں آیات حم السجدۃاورسورۃالرّحمان میں ہیں۔حم السجدۃ تو مکّی دَور میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کےاسلام لانےسے بھی پہلے نازل ہوچکی تھی،رہی سورۃالرحمان،تووہ مکّی دور کے بالکل ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی تھی۔اگرچہ بعض لوگوں کو اس کے مدنی ہونے کا شبہ ہوا ہے لیکن حقیقت یہی ہےکہ یہ نہ صرف یہ کہ مکی سورت ہے بلکہ مکّہ کے بھی ابتدائی دور کی سورت ہے۔یہ ؐحض ذہنِ پرویز کے تخیل کا کرشمہ ہے جو کہ آیات،اُس دور مین نازل ہوئی تھیں۔جب کہ اسلام کی کامیابی کے آثار بھی دُور دُور تک نظر نہیں آتے تھے۔انہیں نظامِ اسلامی کے نفاذ تک تیسرے مرحلے کے ساتھ نتھی کردیاگیاہے۔

تینوں منازل کے احکام وہدایات کے دور نزول پر ایک نظر:

اب ان تمام احکام وہدایات کے دَورِ نزول پر ایک نظر ڈال لیجیئے۔

3

4

منازل خلاصہ :
پرویز صاحب کی ان طبع زاد منازل میں اساسِ نفاذبننے والے احکام وہدایات کے زمانہ نزول پر ایک اچٹتی سی نظر بھی اس امر کوواشگاف کردیتی ہےکہ

1۔۔۔۔تینوں منازل میں بعض ایسے احکام بھی اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کی اساس بنائے گئے ہیں جو مکّہ مکّرمہ میں اس وقت نازل ہوئے تھے جبکہ مدینہ میں اسلامی حکومت کی ابھی داغ بیل ہی نہیں پڑی تھی۔مثلاََ یتیموں کے مال کی حفاظت سے متعلقہ احکام جو سورۃالانعام اورسورہ بنی اسرائیل میں موجودہیں۔اگر یہ احکام واقعتاََ اپنے نفاذ کے لیے ریاست کی قوتِ قاہرہ کے محتاج ہیں تو پھر ریاست کے وجود کی بنا پڑنے سے سالہا سال قبل،ان کا نازل کردیاجانا ایک ایسی خلافِ حکمت بات ہے جس کے صدور کی توقع خالقِ حکمت سے نہیں کی جاسکتی۔
حقیقت یہ ہےکہ اموالِ یتامیٰ کے سلسلہ کی ان ہدایات کی تعمیل وجودِ ریاست کے بغیر بھی ممکن ہے،خداورسول اورآخرت پر ایمان ہی۔۔۔۔بشرطیکہ یہ ایمان قلب ودماغ میں خوب راسخ ہوچکا ہو۔۔۔۔اُن کے نفاذ کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔یہی وجہ ہےکہ اللہ تعالےٰ نے انہیں مکّہ ہی میں نازل فرمادیا اوراسلامی ریاست کے وجود پذیر ہونے کا انتظار نہ کیا۔کیونکہ یہ ہدایات واحکام محض ان اخلاقی بنیادوں پرہی نافذ ہوجاتے ہیں جو اسلام کے اعتقادات اورایمانیات فراہم کرتے ہیں۔اس لیے پرویز صاحب کا مکّی دور کے ان احکام کو کھینچ تان کر مدینہ میں نفاذِ اسلام کی پہلی یا دوسری منزل سے وابستہ کرڈالنا نہ صرف یہ کہ ایک بےجا تکلف ہےبلکہ اس کے ساتھ ساتھ خداکی حکمتِ کاملہ پر عدم اعتماد کا اظہار بھی ہے۔جس نے یہ اھکام قبل ازوقت”بلکہ”بےوقت”نازل کردیئے۔
2۔۔۔۔بعض ایسے احکام کو منزلِ اوّل یامنزلِ دوم میں نافذ شدہ قراردیاگیاہے جو ابھی نازل ہی نہیں ہوئے تھے مثلاََ سورہ توبہ کے احکام جو سئہ9ھ سے قبل نازل ہی نہیں ہُوئے تھے۔کیااُن کا نفاذ،نزول سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔علماءومشائخ چونکہ لوگوں کا مال ناجائز کھاتے ہیں لہٰذا ان کو کچھ نہ دو]اور ذرا یہ سوچئے کہ یہ حکم(اگر واقعی یہ حکم بھی ہے)اپنے نفاذ کے لیے ریاست ہی کا محتاج ہے؟[﴿إِنَّ هـٰذا لَشَىءٌ عُجابٌ ﴿٥﴾… سورة ص
3۔۔۔۔کچھ ایسی آیات کو بھی نفاذِ اسلام کی اساس بنایا گیا ہے جو اگرچہ حکم کا کوئی پہلو نہیں رکھتیں۔مگر پرویز صاحب نے اپنے مدعائے مطلوب کی دھن میں ان میں بھی حکم بلکہ قانون اور آئین کا پہلو پیداکر دیا ہے۔مثلاََ سورۃالرعد اورسورۃالانبیاءکی وہ آیات جن سے ارضی ملکیتوں کی تحدید کا قانون نچوڑاگیاہے۔پھر یہ دونوں آیات بھی مکہ ہی میں نازل ہوئی تھیں۔اورجب تک پرویز صاحب کے دعوےٰ کے مطابق نفاذ کی دوسری یاتیسری منزل نہیں آئی اس وقت تک یہ بیکارِ محض بن کر گوشہ خمول میں پڑی رہیں۔کیا یہی حکمتِ تدریجِ نفاذ ہے؟
ہماری یہ بحث اس امر کو واضح کردیتی ہےکہ”نظامِ ربوبیت”کے پیرہن میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ فی الواقعہ مارکسیّت ہی کاپیکرِ ابلیس ہے۔

؎ یزداں کے تصور میں تراشاتھا جو پتھر
اس میں سے بھی ابلیس کا پیکر نکل آیا

اس پیکرِ ابلیس کو مشرف بالاسلام کرڈالنے کےلیے”مفکّرِ قرآن”پرویزصاحب نے قرآن کے نام پر قرآنی آیات کو جس بُری طرح تختہ مشق بنایاہے پاکستان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔اس مقصد کےلیے استدلالاََ یااستشہاداََ پیش کی جانے والی آیات کے زمانہ نزول کو یکسر نظراندازکیا گیا۔اورالفاظِ قرآن کو اصل سیاق وسباق سے اکھاڑ کرذی ٹائل کشتی لڑتے ہۃوئے مفرداتِ قرآن کے گلے میں من مانے معانی مڑھے گئے۔”نظامِ ربوبیت”(جسے دراصل مارکسیّت ہی کا”اسلامی”ایڈیشن قراردیا گیاہے۔)کے نفاذ کی ایک خود ساختہ ذہنی ترتیب قائم کی گئی۔اور پھر اس ترتیب کے مطابق قرآنِ مجید کے متفرق مقامات سے مختلف قطعاتِ آیات کو جوڑ کر”نظامِ ربوبیت”کی سہ منزلہ عمارت ایستادہ کرڈالی گئی۔اس ساری کاروائی کے دوران اس بات کا شدت سے التزام برتاگیا کہ جہاں کوئی بات کھینچ تان کے ذریعے بھی نہ بن پائے وہاں مفہومِ آیات کی کتربیونت سے کام لیا جائے۔اس غرض کے لیے اگر قواعدِ زبان کی مکالفت واقع ہوجائےیا مھاورہ عرب کا خون ہوجائے،تو”مفکّرِ قرآن”(پرویزصاحب)کی بلاءسے۔انہیں صرف اس بات سے غرض تھی کہ«الارض لله»کے الفاظ سے ان کا”نظامِ ربوبیت”اور﴿أَوَلَم يَرَ‌وا أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها وَاللَّهُ يَحكُمُ لا مُعَقِّبَ لِحُكمِهِ وَهُوَ سَر‌يعُ الحِسابِ ﴿٤١﴾… سورة الرعدکے الفاظ سے”تحدید ملکیّت ارضی”کاقانون کشید کرڈالا جائے ؎

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پارہویا درمیاں رہے

یہ سب کچھ کرتے ہُوئے”مفکرِ قرآن”(پرویزصاحب)نے تین باتوں کو کاص طور پر پیشِ نظر رکّھا:
اَوّلاََ۔۔۔۔یہ کہ کسی مقام پر بھی قرآنی آیات وسُورَ کا زمانہ نزول نہ درج ہونےپائے۔کیونکہ اس سے ان کے خود ساختہ منازل کے پرکھے جانے کے لیے ایک کسوٹی بہم پہنچ جاتی ہے۔لہٰذا اس کا التزاماََ ذکر ہی نہ کیا گیا کہ”نہ رہے بانس اورنہ بجے بانسری”
ثانیاََ۔۔۔۔یہ کہ کسی مقام پر بھی ان مراحلِ ثلاثہ میں سے کسی مرحلے یا منزل کا سنِ آغاز اور سالِ اختتام کا ذکر نہ آنے پائے ہرجگہ ان ہر سہ منازل کو اُن کے دورِ وقوع کے اعتبار سے مبہم رکھاجائےتاکہ اگر کہیں ایسانہ ہوکہ نفاذ کے ان مراحل ثلاثہ کے بعد کا کوئی واقعہ،پرویزصاحب کی تردید میں پیش کیا جائےتو”مفکر قرآن”(پرویزصاحب)کے پاس،یہ کہنے کے لیے”جملہ حقوق محفوظ”ہوکہ۔۔۔۔”یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ہنوز،قرآنی نظام اپنی مکمل شکل میں قائم نہیں ہواتھا”۔۔۔۔لیکن کسی مقام پر پرویزصاحب نے بُھولے سے بھی ہمیں یہ نہیں بتایاکہ”قرآنی نظام،اپنی مکمل شکل میں کس سن وسال میں قائم ہواتھا۔”کیونکہ وہ جس سال کو مکمل نفاذ وقیام کا سال قراردیئے اس سال کے بعد کے بہت سے واقعات ایسے پیش کئے جاسکتے تھے جو ایک طرف تو اُن کے موقف کے بطلان پر شاہد عدل ٹھہرتے اور دوسری طرف،یہ بھی ثابت کردیتےکہ نہ صرف دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ خلافتِ راشدہ تک میں مال ودولت اور وسائلِ پیداوار زمین کی شخصی ملکیت کا اصول برقرار رہا ہے اوراس”نظام ربوبیت”کا خوردبین لگا کر دیکھنے سے بھی ہمیں کوئی سراغ نہیں ملتا،جسے پرویزصاحب نے”الارض لله”اور”قل العفو”کے قرآنی الفاظ سے نچوڑا ہے۔میں ایسے متعدد واقعات سابقہ اقساط میں پیش کرچکاہوں۔
ثالثاََ۔۔۔۔یہ کہ قرآنِ کریم کا مطیع فرمان بننے کے لیے نہیں بلکہ قرآنِ حکیم کو اپنا مطیعِ فرمان بنانے کے لیے آیاتِ قرآنیہ کو ایسے معافی پہنائے جائیں کہ بقولِ علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ خداوجبریل ومصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں۔مُشتے نمونہ ازخروارے کے طور پر موضوع کی مناسبت سے،مَیں صرف دو آیات کو پیش کرتا ہوں جنہیں”مفکرِ قرآن”(پرویزصاحب)نے مسخ وتحریف کا نشانہ بنایا ہے،یہ دونوں آیات مع ترجمہ پیشِ خدمت ہیں۔

پرویزصاحب کاتحریفی کرشمہ:
﴿أَوَلَم يَرَ‌وا أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها وَاللَّهُ يَحكُمُ لا مُعَقِّبَ لِحُكمِهِ وَهُوَ سَر‌يعُ الحِسابِ ﴿٤١﴾… سورة الرعد
کیایہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کی(چاروں)طرفوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے کوئی اس کے حکم کو پیچھے نہیں ڈال سکتا،وہ حساب لینے میں بہت شتاب ہے۔
﴿أَفَلا يَرَ‌ونَ أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها أَفَهُمُ الغـٰلِبونَ ﴿٤٤﴾… سورة الأنبياء
کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو(چاروں) سمتوں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں،پھرکیا یہ لوگ غالب آجائیں گے؟
اِن آیات کا یہ سیدھا سادا ترجمہ ہے جو آپ کسی بھی مترجم قرآن سے دیکھ سکتے ہیں۔اِن آیات سے وسائلِ پیداوار اور اراضی ملکیتوں کی حدبندی کا قانون کشید کرنے کے لیے”مفکّر قرآن”(پرویزصاحب)نے الفاظِ وحی سے جس طرح عقلی کشتی اور ذہنی دنگل لرا ہے اور ان کے عام فہم مفہوم سے جان چھڑاتے ہوئے ان سے مطلوبہ معانی برآمد کرنے کے لیے،جس طرح دُور کی کوڑی لانے میں،موصوف نے اپنی”ذہانت”اور”مہارت”صرف کی ہے،وہ اس سلوک کو واضح کردیتی ہے جو”مفکر قرآن”(پرویزصاحب)عمربھر خدا کی کتاب سے کرتے رہے ہیں۔”مفکر قرآن”(پرویزصاحب)کے نزدیک ان آیات کا مفہوم یہ ہے۔
“کیا انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ہم کس طرح زمین(وسائل پیداوار کو بڑے بڑے سرداروں کے ہاتھ سے چھین کر،ان کے مقبوضات کو کم کرتے چلے جاتے ہیں(44/21)۔۔۔۔یہ کدا کا فیصلہ ہے اور خدا جو فیصلے کرتا ہے،دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو ان فیصلوں کو ٹال سکےیاردّکرسکے،وہ محاسبہ کرنے میں بڑا تیزہے(41/13)
یہ سورۃالرعد کی آیت41کامفہوم ہے اب سورۃالانبیاءکاآیت44کا وہ مفہوم ملاحظہ فرمائیے جو”مفکر قرآن”(پرویزصاحب)نے پیش کیا ہے۔
“کیا یہ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم معاشی ذرائع(زمین)کو بڑے بڑے سرداروں کے ہاتھ سے چھین کر،ان کی مقبوضات کو کس طرح کم کرتے چلے جارہے ہیں(41/13)،کیا اس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بالادست رہیں گے اور ہمارا نظام ان پر غالب نہیں آسکےگا؟”(44/21)مفہوم القرآن ص563،ص736
چھوڑئیے اس بات کو،کہ قواعدِ زبان کی رو سے یہ مفہوم ہو بھی سکتا ہےیا نہیں؟اسے بھی نظرانداز کیجیئے کہ”اطرافها”کامعنیٰ لغاتِ عربیہ کی روشنی میں”بڑے بڑے سردار”لیا بھی جاسکتا ہےیانہیں؟اسے بھی جانے دیجیئے کہ ان”بڑے بڑے سرداروں”سے مراد اُس زمانے کے”مسلمان جاگیردار”اور”اہلِ اسلام زمیندار”کیے ہوگئے کیونکہ نفی ملکیت کا یہ قانون تو اہل ایمان ہی پر نافذ ہوسکتا تھا نہ کہ سردارانِ کفار پر؟فی الھال تو آپ اس بات پر غور فرمائیں کہ جب کوئی شخص خارج ازقرآن افکار ونظریات پر پیشگی ایمان لے آتاہے تو اُسے قرآن کے الفاظ میں اپنا مفہوم داخل کرنے کے لئے کس طرح اکھاڑ پچھار،تبدیل وتغییر مسخ وتحریف اور کتربیونت سے کام لینا پڑتا ہے۔یہان ےک کہ اُسے اپنے مدعا کے اثبات کے جوش مٰن اتنا بھی ہوش نہیں رہتا کہ وہ یہ دیکھے کہ اس سے قبل وہ خود ان آیات والفاظ کا کیا مفہوم پیش کرتا رہا ہے۔مقلدینِ پرویز سے معذرت خواہ ہوتے ہُوئے بھی،میں یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ زندگی بھر اسی کیفیت سے دوچار رہے ہیں اور قرآنی آیات کو اسی طرح اپنی سخن سازیوں کا نشانہ بناتےرہے ہیں۔
سورۃالرعد اورسورۃالانبیاءکی زیرِ بحث آیات کا ایک مفہوم وہ ہے جو بقول پرویزصاحب ارضی ملکیت کی تحدید کے قانون کا مصدر وماخذ ہے۔لیکن یہ ایک غلط اور وضعی مفہوم ہے جسے پرویزصاحب نے منسوب الی القرآن کردیاہے۔اس کا حقیقی مفہوم وہی ہے جو دورِ نزولِ قرآن سے لے کر اب تک ہر دور کے علماءکرتے رہے ہیں۔ہم اگران علماءکے بیان کردہ مفاہیم کے اقتباسات پیش کریں تو وابستگانِ ادارہ طلوع اسلام انہین اس لیے درخوراعتناءنہ سمجھیں گے کہ علماءامت کا یہ مفہومِ آیات تو دراصل اس سازش کا نتیجہ ہے جس کے تحت قرآن کے عربی الفاظ میں عجمی مفہوم داخل کیا گیا ہے۔اس لیے ہم خود کو مجبورپارہے ہیں کہ ان ہر دوآیات کا صحیح مفہوم پیش کرنے کے لیے امتِ مسلمہ کے کسی سکالر کے اقتباس کی بجائے خودپرویزصاحب ہی کےدو2اقتباسات پیش کردیئے جائیں۔

ع شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

پرویزصاحب نے ایک مقام پرآیت(41/13)کایہ مفہوم پیش کیا ہے:
“پھرکیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کررہے ہیں اسے اطراف سے گھٹاکر(ظالموں پر اس کی وسعت تنگ کر)رہےہیں۔وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے اور ھساب لینے والوں میں اس سے جلد حساب لینے والا کوئی نہیں ہے۔”(41/13)معارف القرآن ج1ص474
ایک دوسرے مقام پرآیت(44/21)کا مفہوم،بایں الفاظ پیش کیا گیا ہے۔
“اصل یہ ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادوں کو(فوائدِ زندگی سے)بہرہ ور ہونے کے مواقع دیئے۔یہاں تک کہ(خوشحالیوں کی سرشاریوں میں)ان کی بڑی بڑی عمریں گزرگئیں(اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے۔)مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہُوئے چلے آرہے ہیں؟پھر کیا وہ اس مقابلہ میں غالب آرہے ہیں؟”(44/21)(معارف القرآن ج3ص662)
اب غور فرمایئے کہ قرآنی آیات تو چودہ سو سال سے وہی ہیں لیکن”مفکرِ قرآن”(پرویزصاحب)نے مختلف اوقات میں ان کے متفرق مفاہیم بیان کئے ہیں،ایک وہ وقت تھا کہ ان کا قلب ودماغ اس نام نہاد نظامِ ربوبیت کے بوجھ تلے دبا ہُوا نہیں تھا تو وہ ان آیات کا کچھ اور مفہوم پیش کرتے تھے۔اور آج جب کہ مزرکسزم ان کے قلب ودماغ پر چھاچکاہے تو ان آیات سے ایک اور ہی طرح کا مطلب برآمد کیا گیا ہے،اس طرح”مفکرقرآن”(پرویزصاحب)نے عمر بھر قرآنِ مجید کو”العياذ بالله”مداری کی ایسی پٹاری بنائے رکھا کہ جس سے جب اور جیسا مفہوم چاہا برآمدکرلیا۔

بناء فاسد على الفاسد:
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے آیت41/13اورآیت44/21،میں اولاََ تو﴿أَنّا نَأتِى الأَر‌ضَ نَنقُصُها مِن أَطر‌افِها﴾کے الفاظ کا قطعی غلط مفہوم پیش کیا گیا ہے اور ثانیاََ اس غلط مفہوم سے بھی غلط استنتاج کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ”مفکرِ قرآن”(پرویزصاحب)نے زمین کی ملکیت کی تحدید کے پروگرام کی ابتداءاورآگاز کی اساس ان ہی آیات پر رکھی ہے۔چنانچہ ایک مقام پر انہوں نے لکھاہےکہ:
قرآنِ کریم کی ان تصریحات کی روشنی میں اسلامی نظام نے عملی قدم اٹھایا اورجولوگ”بےحدوحساب”زمین کے رقبوں کے مالک بنے بیٹھے تھے ان کی ملکیت کی تھدید کرنی شروع کی۔” (نظامِ ربوبیت ص290)
لیکن آیات کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تحدیدِ ملکیت کا عمل ان آیات سے قبل ہی شروع ہوچکاتھا۔اسی لیے تو انہیں” أَوَلَم يَرَ‌وا “اور” أَفَلا يَرَ‌ونَ “کے الفاظ میں دیکھنے کا ذکر کیا گیا ہے کہ”کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم کس طرح یہ کام کرتے چلے آرہے ہیں۔”گویااس کام کی ابتداءپہلے سے ہوچکی ہے اور اب انہیں دیکھنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔اس طرح پرویزصاحب نے پہلے تو آیت کا ترجمہ ومفہوم باطل پیش کیا اور پھر اس باطل مفہوم سے استدلال واستنتاج بھی غلط کیا اسے کہتے ہیں” بناء فاسد على الفاسد ”

سوشلزم یا کمیونزم کیسا نظام ہے؟ خود پرویز صاحب کی زبانی:

پرویز صاحب نے اس کا جواب بڑی تفصیل سے اپنی مختلف کتب میں دیا ہے۔

“کمیونزم کا جوتجربہ روس میں ہورہا ہے نوع انسانی کے لئے بدترین تجربہ ہے۔جس میں اول تو انسانی زندگی اور حیوانی زندگی میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔دونوں کی زندگی محض طبعی زندگی سمجھی جاتی ہے۔جس کاخاتمہ موت کردیتی ہے۔لہذا اس میں انسانیت کے تقاضے طبعی تقاضوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھے جاتے۔۔۔میں نے ایک مدت تک اس تحریک کا دقت نظر سے مطالعہ کیا۔۔۔اس مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ تحریک انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔اس تصورسے میری روح کانپ اٹھتی ہے۔کہ یہ نظام اگر ساری دنیا پر مسلط ہوگیا تو اس سے وہ کس عذاب الیم میں مبتلا ہوجائے گی”۔(نظام ربوبیت۔ص22)

“سوشلزم کا نظام نظام سرمایہ داری سے بھی زیادہ بدترین نتائج پیدا کرتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب مختلف کارخانے(محنت گاہیں) مختلف مالکوں کے ہوں تو کم از کم مزدور کو یہ ذہنی اطمینان ضرور حاصل رہتا ہے۔کہ اگر اس کارخانے میں حسب پسند کام اوراجرت نہ ملے گی تو میں کسی اورجگہ کام تلاش کرلوں گا۔لیکن سوشلزم میں چونکہ تمام محنت گاہوں کا مالک ایک ہی ہوتا ہے یعنی حکومت اس لئے مذدورسے یہ ذہنی اطمینان بھی چھن جاتا ہے۔اور وہ اپنے آپ کو بے بس قیدی سمجھنے لگ جاتا ہے”۔(نظام ربوبیت ص376)

“۔۔۔اگر محنت کش نظام سرمایہ داری میں اپنے آپ کو مجبور پاتا تھا تو سوشلزم میں مجبور ترسمجھتا ہے۔اور یہی چیز اس نظام کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔محنت کش سے یہ کہنا کہ۔۔۔جو کچھ ہم تمھیں دیتے ہیں تمھیں اس پر کام کرنا ہوگا۔طوعاً نہ کرو گے تو کرہاً کرایا جائے گا۔اور تم اُسے چھوڑ کر کہیں اور جا بھی نہیں سکتے کیونکہ رزق کے تمام دروازوں پر ہمارا ہی کنٹرول ہے۔”یہ ایسا جہنم ہے جس کی مثال کہیں نہیں مل سکتی”۔(نظام ربوبیت ص437)

“۔۔۔روس کا تجربہ شاہد ہے کہ انھوں نے عوام کو (محتاجوں اور غریبوں کو) یہ کہہ کرکہ۔۔۔اٹھو اور امیروں کو لوٹ لو۔ان کی دولت وحشمت کے مالک تم بن جا ؤ گے۔ انھیں بے پناہ قربانیوں کے لئے آمادہ کردیا۔اورانہوں نے اس نشے سے مدہوش ہوکر ہنگامی طور پر وہ کچھ کردیا۔جسے دیکھ کر دنیا انگیشت بدنداں رہ گئی۔ لیکن جب ان کا نشہ اتر گیا۔ تو ایثار وقربانی کا وہ جذبہ بھی ختم ہوگیا۔اس کے بعد جب ان محنت کشوں سے کہا گیا کہ۔۔۔”تم زیادہ سے زیادہ محنت کرو اور اس میں سے بقدر اپنی ضرورت کے لے لو”۔۔۔تو انہوں نے کہا۔۔۔سرکار!پھر اس میں اور قدیم نظام سرمایہ داری میں کیا فرق ہے؟اس میں کارخانہ دار ہم سے زیادہ سے زیادہ محنت کرواتا تھا۔اور ہمیں بقدر ضروریات کے دیتا تھا۔ یہی کچھ اب آپ کرنا چاہتے ہیں۔ہم ایسا کیوں کریں؟۔۔۔اس کا کوئی اطمینان بخش جواب انکے پاس نہ تھا۔انھوں نے اپنا نظام قائم رکھنے کے لئے ڈنڈے سے کام لینا چاہا۔یہ کچھ وقت کے لئے تو چلا لیکن پھر ناکام رہ گیا۔کوئی نظام قوت کے بل پر مسلسل نہیں چل سکتا اس لئے مجبور ہوکر روس والوں کو ا پنے نظام میں تبدیلی کرنا پڑی”۔ (نظام ربوبیت صفحہ 494)

“۔۔۔پردہ اٹھا کر دیکھئے تو اس (سوشلزم۔قاسمی) کے پیکر میں سرمایہ داری ہی کی روح کارفرما نظرآئے گی۔فرق صرف اصطلاحات کا ہوگا۔نظام سرمایہ داری میں وسائل پیدا وار افراد کی ملکیت میں رہتے ہیں۔سوشلزم میں یہ وسائل افراد کے اس گروہ کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔جو مملکت کے اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔غریب محنت کش ویسے کا ویسا ہی محتاج ومحکوم رہتا ہے۔اسی حقیقت کے پیش نظر اقبال نے بھی کہا تھا کہ:

نظا م کاراگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا

طریق کولکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

(تفسیر مطالب الفرقان ج1 ص117)

“۔۔۔اسی نظام سوشلزم میں محنت کش کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے ۔پہلے اگر اس کی ایک مالک سے نہیں بنتی تھی تو وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کی ملازمت اختیار کرلیتا تھا۔اب چونکہ وسائل رزق پر کلی اجارہ داری سٹیٹ کی ہوتی ہے۔اس لئے وہ اس کا دروازہ چھوڑ کرکہیں جا نہیں سکتا۔ یہ ملوکیت کی بدترین شکل ہے۔ یہی وہ جہنم ہے کہ جس کے متعلق قرآن نے کہا ہے کہ:
﴿كُلَّما أَرادوا أَن يَخرُجوا مِنها مِن غَمٍّ أُعيدوا فيها…﴿٢٢﴾… سورة الحج
“جب وہ غم اندوز کے اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اس سے نکلنے کاارادہ کریں گے تو انہیں پھر اس میں دھکل دیاجائے گا۔”(تفسیر مطالب الفرقان ج1ص117)
اشتراکیت کے اس نظام کو “غم واندوہ کا عذاب””جہنم کا نمونہ”ملوکیت کی بدترین شکل”اور نہ جانے کیا کچھ قرار دینے کے بعد یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
۔۔۔”جہاں تک کمیونزم کے معاشی نظام کا تعلق ہے۔وہ قرآن کے تجویز کردہ معاشی نظام کے مماثل ہے۔”(نظام ربوبیت ص358)
۔۔۔اس وقت کمیونزم کی طرف سے دنیا کے سامنے اس کا معاشی نظام پیش کیا جارہا ہے۔اس کا فلسفہ نہیں اس نظام کے متعلق بدلائل وشواہد بتایا جارہاہے۔کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلہ میں انسانیت کے لئے آیہ رحمت ہے۔اور یہ واقعہ بھی ہے ۔(نظام ربوبیت ص398)
۔۔۔دوسری طرف کمیونزم ہے جس کا نظام تو قرآنی نظام کے مماثل ہے لیکن اس کا فسلفہء حیات قرآنی فلسفہء زندگی کی نقیض ہے۔”(نظام ربوبیت۔ص406)

مودودی پرویز:
یہاں ایک بات قابل غور ہے۔پرویز صاحب کا باصرار یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کا معاشی نظام اوراشتراکیت (خواہ اس کا نام ماکرزم ہو۔سوشلزم ہو۔یا کمیونزم ہو) کا نظام باہم مماثل ہیں۔لیکن دوسری طرف جمہور علماء کی ہمنوائی میں مولانا مودودی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ:

1۔اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کافلسفہ ہائے حیات میں بھی مکمل منافات پائی جاتی ہے۔اور 2۔فلفسہء حیات کے علاوہ دونوں کے اصول وارکان میں بھی بون بعید ہے۔صرف ایک چیز دونوں میں مشترک ہے۔اور وہ ہے ذاتی ملکیت کا حق۔بقول مولانا مودودی یہ حق اسلام میں بھی مسلم ہے۔اور نظام سرمایہ داری میں بھی لیکن صرف اتنی بات پر جناب پرویز صاحب کے نزدیک علماء کرام اور مودودی صاحب کارتصوراسلام سرمایہ دارانہ ہوجاتا ہے۔لیکن خود پرویز صاحب مارکزم کے پورے معاشی نظام کو برملا اسلام کے معاشی نظام کےمماثل قرار دینے کے باوجود نہ تو مارکسٹ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔اور نہ ہی سوشلسٹ یا کمیونسٹ اور نہ ہی اپنے پیش کردہ نظام کواشتراکی نظام کہنے کے لئے تیار ہیں ۔بلکہ وہ خود اسے اپنی طرف سے ایک نام دیتے ہیں۔نظام ربوبیت لیکن اس لیبل کے نیچے جو کچھ ہے۔وہ اشتراکیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ ستم ظریفی بھی قابل داد ہےکہ جب وہ اشتراکیت کی ایک ایک شق کو مطابق قرآن ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔تو خودانھیں بھی احساس ہے کہ لوگ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔یہ تو بالکل کمیونزم ہی ہے۔جسے قرآن کا نام لے کر پیش کیا جارہا ہے۔”نہیں بلکہ۔۔۔”در اصل یہ تو عین اشتراکیت ہی ہے جسے اسلام کا لیبل لگا کر پیش کیا جا رہا ہے۔تو وہ پہلے تو انھیں سطح بین لوگ”قرار دیتے ہیں۔اور پھر انھیں جہالت اور بے علمی کا طعنہ دیتے ہیں کہ۔”تم نہ تو قرآن ہی کو جانتے ہو اور نہ ہی اشتراکیت کو توم جاہل مطلق ہو بھلا علم کی ان باتوں سے تمھیں کیاسروکار؟”
“جو کچھ قرآن مجید سے میں سمجھا ہوں وہ یہی ہے کہ قرآن کسی کے پاس فاضلہ دولت نہیں رہنے دیتا۔اور وسائل پیدا وار پر خواہ وہ فطری ہوں یا مصنوعی کسی کی ذاتی ملکیت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتا خواہ ملکیت افراد کی ہو یا اسٹیٹ کی ۔اس مقام پر اکثر سطح بین حضرات فوراً کہہ اٹھیں گے کہ۔۔۔یہ عجیب بات ہے کہ میں ایک طرف کمیونزم کو انسانیت کا بدترین دشمن قرار دیتا ہوں اور دوسری طرف اسلام جو وہی کچھ کرتا ہے جسے اشتراکیت پیش کرتی ہے۔نوع انسانی کے حق میں آب حیات تصور کرتا ہوں۔بعض لوگ شاید اس سے بھی آگے بڑھیں اور کہیں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے یہ اشتراکیت ہی ہے۔جسے اسلام کا لیبل لگا کر پیش کیا جارہا ہے۔جیسا کہ آپ متن کتاب میں دیکھیں گے۔اسی قسم کی باتیں ان لوگوں کی طرف سے پیش کیجاتی رہی ہیں۔جو نہ یہ جانتے ہیں کہ کیمونزم کیا ہے۔اور نہ یہ کہ اسلام کیا ہے؟”(نظام ربوبیت ۔23)

  • نظام ربوبیت اورقرآنی انقلاب- کتنی حقیقت کتنافسانہ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    April 24, 2017 at 11:11 am

    […] نظام ربوبیت کا ثبوت : فرماتے ہیں : ’’میں نے جو گزشتہ صفحات میں لکھا ہے (اور جو کچھ بعد میں آئے گا) اس میں آپ نے ایک چیز کو نمایاں طور پر محسوس کیا ہوگا اور وہ یہ کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی سند میں صرف قرآن کی آیات پیش کی ہیں۔ تاریخ اور روایات سے کچھ نہیں لکھا حتیٰ کہ میں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ نبی اکرمؐ نے جس نظام ربوبیت کو متشکل فرمایا اس کے خدوخال کیا تھے؟ اور وہ کب تک علیٰ حالہ قائم رہا۔۔۔ ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ تسلیم ہے کہ جو کچھ ان صفحات میں لکھا گیا ہے وہ قرآن کی رو سے صحیح ہے تو اس کے بعد ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق معاشرہ کی تشکیل فرمائی ہوگی‘‘۔ [ن۔ر۔ ص۲۲۳،۲۲۴] ’’آج دنیا حیران ہے کہ محمد رسول اللہ والذین معہ کی قلیل جماعت نے اتنے مختصر سے عرصہ میں ایسی محیر العقول ترقی کس طرح کرلی تھی۔ دنیا حیران ہے اور اس کے لیے تحقیقاتی ادارے قائم کرتی ہے۔ لیکن اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ نے وہ معاشرہ متشکل کرلیا تھا جو قرآنی نظامِ ربوبیت کا حامل تھا۔ یہ تمام محیر العقول ترقیاں اسی کے ثمرات تھیں‘‘۔ [ن۔ر، ص۱۸۰] لیکن ’’لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ جس زمانہ (چھٹی صدی عیسوی) میں قرآن نازل ہوا ہے، ذہن انسانی اپنی پختگی تک نہیں پہنچ چکا تھا۔ اس نے فقط اپنے عہد طفولیت کو چھوا تھا۔ اب اسے رفتہ رفتہ پختگی تک پہنچنا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فقید المثال تعلیم اور سیرت سے قرآنی اصولوں کو معاشرہ میں نافذ العمل کر کے دکھا دیا تھا کہ معلوم ہوجائے کہ یہ اصول ناممکن نہیں۔ لیکن اس زمانے کی دنیا ہنوز ذہنی طور پر اس سطح پر نہیں آچکی تھی کہ وہ ان اصولوں کو یا ان کی بنیادوں پر قائم کردہ معاشرہ کو شعوری طور پر اپنا سکے۔ یہ چیزیں ابھی ان کے شعور میں سما ہی نہیں سکتی تھیں۔ اگر مسلمان اسے اسی ’’ایمان بالغیب‘‘ کے انداز سے جس سے یہ معاشرہ قائم ہوا تھا۔ آگے چلاتے رہتے تو یہ آگے بڑھتا رہتا۔ لیکن انھوں نے اس طریق کو چھوڑ دیا اور شعوری طور پر دنیا ہنوز اس قابل نہ تھی کہ اسے اختیار کرسکتی لہٰذا یہ نظام ختم ہوگیا۔ [ن۔ر، ص۲۳۴] پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ آپؐ نے یہ نظام قائم تو فرمایا تھا مگر صحابہ کو اس کی سمجھ نہ آسکی پھر اس میں قصور صحابہ کا بھی نہیں کیونکہ اس دور میں انسان کی ذہنی سطح ربوبیت کا نظام سمجھنے کے قابل ہی نہ تھی۔ ہاں اگر صحابہ جس طرح اللہ، کتابوں، رسولوں، فرشتوں اور یوم آخرت پر ایمان بالغیب لائے تھے اسی طرح اس فلسفہ پر بھی ایمان بالغیب لے آتے تو یہ نظام آگے چلتا رہتا۔ لیکن چونکہ صحابہ اس فلسفہ پر ایمان بالغیب نہ لائے اور نہ ہی ان کی ذہنی سطح اس قابل تھی کہ وہ اس فلسفہ کو سمجھ سکتے لہٰذا انھوں نے اس نظام کو چھوڑ دیا اور اس طرح یہ نظام رسولؐ اللہ کی رحلت کے فوراً بعد ہی ختم ہوگیا تھا۔ آگے فرماتے ہیں ’’جہاں تک میرا مطالعہ رہنمائی کرتا ہے قرن اول کے بعد (جس میں یہ نظام اس زمانے کے حالات کے مطابق اپنی عملی شکل میں قائم ہوا تھا) اسلام کی تاریخ میں میری یہ پہلی کوشش ہے جس میں اس نظام کو سامنے لایا گیا ہے۔ [ن۔ر، مقدمہ، ص۲۲] افسوس کہ چودہ سو سال تک امت اس نظام سے مکمل محروم رہی حتیٰ کہ کتابوں میں بھی اس نظام کا تذکرہ نہ ملا۔ پہلی مرتبہ یہ نظام عہد رسالت کے بعد پرویز صاحب پر منکشف ہوا۔ وہی اس نظام کے موجد ہیں کیونکہ انسانی شعور اب ارتقاء کرچکا ہے اور اس نظام کی ضرورت آج کے دور میں محسوس ہوگئی ہے۔ !! پرویزصاحب،زندگی بھر،جہاں اشتراکیت کوقرآنی پرمٹ پر ”نظامِ ربوبیت”کے نام سے مشرف باسلام کرنے میں کوشاں رہےہیں،وہاں وہ امّتِ مسلمہ کو یہ باور کروانے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلّم نے اسی نظام کو بتریج نافذفرمایاتھا۔ ہم انکی دونوں کوششوں کا علمی جائزہ لیتے ہیں ۔ غلام احمد پرویز صاحب کے ‘نظام ربوبیت’ کی قرآنی بنیادیں کیا ہیں اور کتنی معقول ہیں؟ تحقیق ملاحظہ کیجیے۔ مزید دور نبوی میں ”نظامِ ربُوبیّت”کا منزل بمنزل نفاذ – پرویز صاحب کےاس خود ساختہ نظریے اور اسکے دلائل کا جائزہ۔ لنک۔ […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password