نظام ربوبیت اورقرآنی انقلاب- کتنی حقیقت کتنافسانہ

پرویز صاحب کی کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے آٹھ مختلف سورتوں کی آیات کو کس طرح بھونڈے طریقے سے جوڑ کر قیامت کے مناظر سے ’’نظام ربوبیت کے یوم انقلاب‘‘ کو برآمد کررہے ہیں :
’’جس انقلابِ عظیم کے متعلق تمہیں کہا جا رہا ہے وہ آکر رہے گا [۲۲:۲۰۱] اس وقت یہ تمام سرکش اور متمرد ارباب اقتدار جو اس وقت اس نظام کی مخالفت میں اس قدر زوروں پر ہیں، خاسر و ناکام، بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھاگیں گے [۱۴: ۴۲ تا ۵۲] ان سے کہا جائے گا کہ اب کہاں بھاگ رہے ہو؟ [۲۱:۲۳] اب کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ [۷۵:۱۱] اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا اعمال نامہ جو اس وقت اس انقلاب کے رنگ میں بے نقاب ہو کر تمہارے سامنے آیا ہے۔ [۴۵:۲۷] اس وقت ان کی یہ حالت ہو جائے گی جیسے کٹے ہوئے کھیت یا بجھے ہوئے کوئلے۔ [۲۱:۱۴] پھر ان پر نہ آسمان روئے گا نہ زمین، صف ماتم بچھ جائے گی۔ [۴۴:۲۹] اور نہ ہی ہم متاسف ہوں گے۔ [۹۱:۱۵] لہٰذا ان سے کہو کہ جو کچھ تم سے کہا جاتا ہے اس پر ہنسو نہیں بلکہ خون کے آنسو روؤ۔ [۵۲:۶۰] کہ یہ مقام رونے ہی کا ہے۔‘‘ [نظام ربوبیت، ص۲۴۹۔۲۵۰]
قرآنی آیات کو اس طرح کھلونا پرویز صاحب ہی بنا سکتے ہیں ۔آگے ایک جگہ لکھتے ہیں
’’یہ فطرت کا اٹل فیصلہ ہے جسے واقع ہو کر رہنا ہے جو بڑی بڑی طاقتیں نظام ربوبیت کی راہ میں حائل ہوں گی، انھیں اس طرح راستے سے ہٹا دیا جائے گا جس طرح تیز و تند ہوا بڑے بڑے تناور درختوں کو جڑ سے اکھیڑ دیتی ہے۔ ویسئلونک عن الجبال فقل ینسفھاربی نسفا [۲۰:۱۰۵] اور اس کے بعد میدان صاف ہو جاتا ہے۔ فیذرھا قاعاً صفصفاً [۲۰:۱۰۶]جس میں نہ کوئی ٹیڑھ پن باقی رہتا ہے نہ اونچ نیچ۔ لاتریٰ فیھا عوجا ولا امتا [۲۰۔۱۰۷] ان سے اس طرح میدان صاف کر دینے کے بعد انسانیت کا وہ گروہ عظیم جو آج تک اسے بری طرح کچلا جا رہا ہے [(یعنی مزدور طبقہ۔ مرتب] ابھر کر اوپر آجائے گا۔ وتری الارض بارزہ [۱۸:۴۷] [نظام ربوبیت، ص۲۷۸]

سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآنی آیات کی یہ عجیب و غریب کھچڑیاں انکے مریدوں نے اتنی آسانی سے ہضم کیسے کرلیں ؟
اسکا جواب یہ ہے کہ پرویز صاحب نے یہ پیش کرنے سے پہلے عوام کو اپنے علمی ورثے حدیث، تفسیر ، محدیثین اور مفسرین سے بدظن اور متنفر کرنے کے لیے بھرپور محنت کی۔ اسکے بعد پھر پرویز صاحب نے چالاکی یہ دکھائی کہ قرآنی الفاظ و آیات میں اپنے طبع زاد مفاہیم و تصورات داخل کرکے ان خود ساختہ تعبیرات کو قرآنی تعبیرات قرار دے دیا . انکا انکار قرآن کا انکارٹھہراتے۔ جیسا کہ ایک جگہ لکھتے ہیں
”میں بلاتشبیہ اور بلا تمثیل عرض کرنے کی جرات کروں گا کہ یہ لوگ میری مخالفت نہیں کرتے، کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔” (دسمبر۷۸ئ: ص ۵۲)

نظام ربوبیت کا ثبوت :
فرماتے ہیں :
’’میں نے جو گزشتہ صفحات میں لکھا ہے (اور جو کچھ بعد میں آئے گا) اس میں آپ نے ایک چیز کو نمایاں طور پر محسوس کیا ہوگا اور وہ یہ کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی سند میں صرف قرآن کی آیات پیش کی ہیں۔ تاریخ اور روایات سے کچھ نہیں لکھا حتیٰ کہ میں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ نبی اکرمؐ نے جس نظام ربوبیت کو متشکل فرمایا اس کے خدوخال کیا تھے؟ اور وہ کب تک علیٰ حالہ قائم رہا۔۔۔ ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ تسلیم ہے کہ جو کچھ ان صفحات میں لکھا گیا ہے وہ قرآن کی رو سے صحیح ہے تو اس کے بعد ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق معاشرہ کی تشکیل فرمائی ہوگی‘‘۔ [ن۔ر۔ ص۲۲۳،۲۲۴]
’’آج دنیا حیران ہے کہ محمد رسول اللہ والذین معہ کی قلیل جماعت نے اتنے مختصر سے عرصہ میں ایسی محیر العقول ترقی کس طرح کرلی تھی۔ دنیا حیران ہے اور اس کے لیے تحقیقاتی ادارے قائم کرتی ہے۔ لیکن اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ نے وہ معاشرہ متشکل کرلیا تھا جو قرآنی نظامِ ربوبیت کا حامل تھا۔ یہ تمام محیر العقول ترقیاں اسی کے ثمرات تھیں‘‘۔ [ن۔ر، ص۱۸۰]
لیکن
’’لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ جس زمانہ (چھٹی صدی عیسوی) میں قرآن نازل ہوا ہے، ذہن انسانی اپنی پختگی تک نہیں پہنچ چکا تھا۔ اس نے فقط اپنے عہد طفولیت کو چھوا تھا۔ اب اسے رفتہ رفتہ پختگی تک پہنچنا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فقید المثال تعلیم اور سیرت سے قرآنی اصولوں کو معاشرہ میں نافذ العمل کر کے دکھا دیا تھا کہ معلوم ہوجائے کہ یہ اصول ناممکن نہیں۔ لیکن اس زمانے کی دنیا ہنوز ذہنی طور پر اس سطح پر نہیں آچکی تھی کہ وہ ان اصولوں کو یا ان کی بنیادوں پر قائم کردہ معاشرہ کو شعوری طور پر اپنا سکے۔ یہ چیزیں ابھی ان کے شعور میں سما ہی نہیں سکتی تھیں۔ اگر مسلمان اسے اسی ’’ایمان بالغیب‘‘ کے انداز سے جس سے یہ معاشرہ قائم ہوا تھا۔ آگے چلاتے رہتے تو یہ آگے بڑھتا رہتا۔ لیکن انھوں نے اس طریق کو چھوڑ دیا اور شعوری طور پر دنیا ہنوز اس قابل نہ تھی کہ اسے اختیار کرسکتی لہٰذا یہ نظام ختم ہوگیا۔ [ن۔ر، ص۲۳۴]
پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ آپؐ نے یہ نظام قائم تو فرمایا تھا مگر صحابہ کو اس کی سمجھ نہ آسکی پھر اس میں قصور صحابہ کا بھی نہیں کیونکہ اس دور میں انسان کی ذہنی سطح ربوبیت کا نظام سمجھنے کے قابل ہی نہ تھی۔ ہاں اگر صحابہ جس طرح اللہ، کتابوں، رسولوں، فرشتوں اور یوم آخرت پر ایمان بالغیب لائے تھے اسی طرح اس فلسفہ پر بھی ایمان بالغیب لے آتے تو یہ نظام آگے چلتا رہتا۔ لیکن چونکہ صحابہ اس فلسفہ پر ایمان بالغیب نہ لائے اور نہ ہی ان کی ذہنی سطح اس قابل تھی کہ وہ اس فلسفہ کو سمجھ سکتے لہٰذا انھوں نے اس نظام کو چھوڑ دیا اور اس طرح یہ نظام رسولؐ اللہ کی رحلت کے فوراً بعد ہی ختم ہوگیا تھا۔
آگے فرماتے ہیں
’’جہاں تک میرا مطالعہ رہنمائی کرتا ہے قرن اول کے بعد (جس میں یہ نظام اس زمانے کے حالات کے مطابق اپنی عملی شکل میں قائم ہوا تھا) اسلام کی تاریخ میں میری یہ پہلی کوشش ہے جس میں اس نظام کو سامنے لایا گیا ہے۔ [ن۔ر، مقدمہ، ص۲۲]
افسوس کہ چودہ سو سال تک امت اس نظام سے مکمل محروم رہی حتیٰ کہ کتابوں میں بھی اس نظام کا تذکرہ نہ ملا۔ پہلی مرتبہ یہ نظام عہد رسالت کے بعد پرویز صاحب پر منکشف ہوا۔ وہی اس نظام کے موجد ہیں کیونکہ انسانی شعور اب ارتقاء کرچکا ہے اور اس نظام کی ضرورت آج کے دور میں محسوس ہوگئی ہے۔ !!
پرویزصاحب،زندگی بھر،جہاں اشتراکیت کوقرآنی پرمٹ پر ”نظامِ ربوبیت”کے نام سے مشرف باسلام کرنے میں کوشاں رہےہیں،وہاں وہ امّتِ مسلمہ کو یہ باور کروانے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلّم نے اسی نظام کو بتریج نافذفرمایاتھا۔ ہم انکی دونوں کوششوں کا علمی جائزہ لیتے ہیں ۔
غلام احمد پرویز صاحب کے ‘نظام ربوبیت’ کی قرآنی بنیادیں کیا ہیں اور کتنی معقول ہیں؟ تحقیق ملاحظہ کیجیے۔ مزید دور نبوی میں ”نظامِ ربُوبیّت”کا منزل بمنزل نفاذ – پرویز صاحب کےاس خود ساختہ نظریے اور اسکے دلائل کا جائزہ۔ لنک۔

بزمِ طلوعِ اسلام کی قرآنی فکر – ایک آنکھوں دیکھا حال

’’دور کہیں مغرب کی اذان ہوا کی۔ لیکن ہال میں سیگریٹوں کا دھواں اور لاؤڈ اسپیکر کی گونج اور محمد اسلام صاحب [نمائندہ بزم طلوع اسلام کراچی] کی گھن گرج قرآنی فکر کے راستے ہموار کرتی رہی۔ اس کے بعد حیات النبی صاحب نے کہ وہ بھی ایک پرانے رفیق بزم کے ہیں تقریر دل پذیر کی اور لوگوں کو قرآنی دعوت کی طرف بلایا۔ جلسہ جاری رہا کوئی گھنٹہ بھر گزر گیا تھا کہ ایک حضرت، نام جن کا محمد شفیع تھا، مائک کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’صاحبو! میرے ساتھ دو تین آدمی اور بھی آئے ہیں میں انھیں قرآنی فکر سے روشناس کرنے کے لیے لایا تھا۔ لیکن ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ جناب پرویز کے ماننے والے نماز نہیں پڑھتے اب تو ہمیں بھرے جلسے میں اس بات کا ثبوت مل گیا ہے۔ بتایے اب میں ان دوستوں کو کیا جواب دوں؟ اس پر اسلام صاحب بہت چکرائے‘‘۔
انھوں نے اپنے اسلام کو بچانے کے لیے سات بجے یعنی نماز مغرب کے ٹھیک سوا گھنٹے بعد نماز کا وقفہ یوں کہہ کر کیا کہ: ’’ہمیں بڑا افسوس ہے کہ ایسا ہوا اب آپ حضرات نماز پڑھ لیں۔ خواہ قضا ہی سہی‘‘ جلسے کی کارروائی دس منٹ کے لیے ملتوی ہوئی۔
اسی اللہ کے بندے محمد شفیع نے نماز باجماعت کا بندوبست کیا اور کل پانچ آدمیوں نے کہ ان میں سے ایک بھی بزم طلوع اسلام کا نمائندہ نہیں تھا ‘نماز پڑھی۔ بزم طلوع اسلام کے اراکین قرآنی گتھیاں سلجھاتے رہے اور محمد شفیع نماز پڑھاتا رہا۔۔
میں نے سوچا کہ صاحبو! کہ یہ قرآنی فکر بھی خوب ہے اگر صحابہ اس زمانے میں ہوتے تو قرآن کی پیروی ان کے لیے کتنی آسان ہوتی۔ نہ انھیں راتوں کو قیام کرنا پڑتا اور نہ نماز پنجگانہ کے جھنجھٹ میں پڑنا پڑتا۔ بس نظام صلوٰۃ برپا کرنے کے لیے مصروف جہاد رہا کرتے۔ یہ مسلمانی بھی کیسی خوب اور عہد جدید کے مطابق ہے کہ اسلام پر تین حرف بھیجنے کے باوجود بھی مسلم ہی رہے۔ یہ قرآنی فکر بھی خوب ہے کہ صحابہ کرامؓ اور ائمہ عظام بے چاروں کے ذہن اس تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔ یار لوگوں نے بھی خوب خوب نفس کے بت تراشے ہیں اور انھیں اسلام کے نام پر پیش کرنے پر مصر ہیں۔ اگر نہ مانو تو گردن زدنی، مان لو تو اسلام کا خسارہ، اس کے بعد کچھ کام و دہن کی لذت کا سامان ہوا اور پھر ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ پیش کیا گیا۔ لیکن ہم ڈرامہ دیکھے بغیر ہی واپس چلے آئے‘‘۔ [اخبار جہاں، کراچی، ۸؍ جنوری ۱۹۶۹ء]۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password