احادیث کی کتابوں کے درجات اورانکے احکام

کچھ عرصہ پہلے ایک ممبر نے ایک ملحدہ سونیا فیر کاوس جی کے پیج کی اک پوسٹ میسج میں بھیجی جس میں ایک حدیث کی کتاب کا پیج پوسٹ کیا گیا تھا ، اس میں جنت کی حور کی شرمگاہ وغیرہ کا ذکر تھا۔ وہ پکچر بمعہ ٹائٹل کے ہماری پوسٹ بینر میں موجود ہے۔ اس ملحد یا ملحدہ کا یہ معمول تھا کہ وہ روز اسی طرح روز کچھ سیکس اور جنس سے متعلق گری پڑی روایات اٹھاتی اور انکو اپنے اک سطری تبصرے”آج کا درس حدیث” کے ساتھ پوسٹ کردیتی جس سے بہت سے لوگ حدیث سے بدظن ہوتے اور کنفیوزین کا شکار ہوتے۔ اس کنفیوزن کی بنیادی وجہ جو ہمیں سمجھ آئی وہ حدیث کے متعلق بنیادی باتوں سے بھی ناواقفیت ہے۔ اکثر لوگ کسی بیان کے حدیث ہونے کے لیے اتنا ثبوت کافی سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ کسی حدیث کی کتاب کا حوالہ دیا ہوگیا ہو۔ چاہے اس روایت کو خود محدثین نے ہی موضوع/ ضعیف قرار دے دیا ہو یا وہ روایت یا حوالہ اصل میں موجود ہی نا ہو ۔۔ اس کمی کے ازالے کے لیے ہم نے احادیث پر اپنے اس تحریری سلسلے میں حدیث کی جانچ پڑتال ، حدیث کی کتابوں کے درجات اورحدیث کے درجات پر بھی ضرروری تحاریر پیش کی ہیں ،اس ضروری تفصیل کے بعد ہم نے احادیث پر تقریبا ہر پہلو سے اٹھائے گئے تمام بڑے اعتراضات اس انداز میں زیر بحث لائے کہ اس سے قارئین کے لیے ان اعتراضات کی اصل غلطی سمجھنے میں آسانی ہو اور وہ آئندہ خود بھی ایسے کسی اعتراض کی اپنے طور پر حقیقت جان سکیں۔ ممبر کی طرف سے بھیجی گئی اس پکچر پر بھی ہم نے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تبصرہ کیا ۔ وہ تبصرہ باقی قارئین کے لیے بھی پیش ہے۔ امید ہے نفع بخش ثابت ہوگا۔

حدیث کی حیثیت :.
مسلمانوں کے نزدیک کوئی حدیث محض حدیث کہلائے جانے کی بناء پر قابل قبول یا قابل اعتماد نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی حدیث کی سند و متن کو باقائدہ پرکھا جاتا ہے اسکے لیے اسم و رجال اور جرع وتعدیل کا مخصوص فن موجود ہے .اسماء و رجال راویوں کے حالات کا انسائیکلوپیڈیا ہے , اس کے ذریعے باآسانی صحیح ضعیف روایات کو پرکھرلیا جاتا اور کوئی بھی کمزور, گھڑی ہوئی روایت باآسانی علیحدہ کر لی جاتی ہے . مثلا اگر راوی کمزور حافظے یا غلط عقیدے کا ہو اور اس کی اشاعت بھی کرتا ہوں…یا پھر کسی اور اخلاقی کمی میں مبتلا ہو، تو اس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی.. قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نہ تو کوئی شرعی حکم کشید کیا جاتا ہے، نہ اس کے اندر موجود مسئلے پر ایمان لانے اور یقین رکھنے کا کہا جاتا ہے اور اگر ضعف بہت ہی زیادہ ہو، تو نہ ہی اسے اس عمل کے لئے درجہء ترغیب میں ہی بیان کیا جاتا ہے…مطلب فضائل کے باب میں عام ضعیف حدیث کے بیان کی اجازت دی جاتی ہے لیکن جو حدیث بہت ہی ضعیف ہو اسکی فضائل کے طور پر بھی ذکر کی اجازت نہیں ہوتی ..
ملحدہ نے جو حدیث پیش کی اسے ضعیف کہا گیا ہے اور ضعیف بھی جداً..یعنی بہت زیادہ ضعیف.. حوالہ :«تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۴۸۵۹، ومصباح الزجاجة: ۱۵۵۲) (ضعیف جدا) (سند میں خالد بن یزید ضعیف ہیں)
گویا یہ حدیث نہ تو کسی عقیدے کا ذریعہ بن سکتی ہے، نہ اس میں موجود عمل قابل تقلید بنتا ہے..بلکہ بغیر سند…کہ کس راوی نے اسے روایت کیا اور بغیر اس کے حکم…کہ یہ بہت ہی ضعیف حدیث ہے، اسے مطلقاً بیان کرنا بھی جائز نہیں
.. اب سوال صرف یہ ہے کہ جب اس سے نہ کوئی عقیدہ بنتا ہے، نہ اس پہ عمل کرنا درست ہے، تو پھر اسے صحاح ستہ کی اک کتاب میں کیوں ذکر کیا گیا بیان
؟ اسکے جواب میں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے
1.ایسی روایات کے ذکر کرنے کی وجہ
2.ابن ماجہ کی حیثیت
1.احادیث ضعیفہ کا ذکر کرنا ان محدثین کی دیانتداری کا ایک بہت بڑا مظاہرہ ہے..وہ اس طرح کہ ان کو معلوم بھی تھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے..مگر اس لئے ان احادیث کو ذکرکردیا کہ امت کے سامنے رہے کہ جن چیزوں کی نسبت کسی بھی طرح حضورﷺ کی طرف تھی، محدیثین نے ان کو امت کے کئے محفوظ کردیا..باقی بعد میں ان کا درجہ او حکم بھی واضح کردیا، یہ ان کی غایت درجے تقویٰ اور دیانت داری کا مظہر ہے..
2.سنن ابن ماجہ سنن ابن ماجہ کے مصنف ابوعبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ ہے۔ ۲۰۹ھ میں آپ کی ولادت ہے۔ آپ نے جو سنن لکھی ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی نادر اور غریب حدیثیں موجود ہیں. اس میں بعض روایتیں ضعیف بھی ہیں۔ اسلئے متقدمین نے اس کو ”صحاح ستہ“ میں شامل نہیں کیا ہے۔ جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ اصح السنة صحیح بخاری شریف ہے۔ اس کے بعد مسلم شریف کا درجہ ہے۔ پھر اس کے بعد ابوداؤد کا، پھر ترمذی کا، پھر نسائی کا، بعض علماء کے نزدیک نسائی کا درجہ ترمذی سے بھی اونچا ہے۔ سب سے آخر میں سنن ابن ماجہ کا درجہ ہے۔ متقدمین کے یہاں سنن ابن ماجہ اصول و امہات کتب میں شامل نہیں ہے۔ ان کے یہاں ”صحاح ستہ“ کی بجائے ”صحاح خمسہ“ ہے۔ یعنی بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ کو انھوں نے نہیں لیا۔ ابن ماجہ کو صحیح ستہ میں سب سے پہلے علامہ ابن طاہر مقدسی نے داخل کیاہے۔ بعض محدثین نے ابن ماجہ کی بجائے موطا امام مالک کو ”سادس ستہ“ قرار دیا۔ جیساکہ رزین بن معاویہ نے ”تجرید الصحاح“ میں۔ اور ابن الاثیر جزری نے ”جامع الاصول“ میں۔ ابن ماجہ کی جگہ موطا مالک کو لیا ہے۔ ُ

٭طبقات کتب حدیث٭

احادیث کی جامع کتابوں کی مختلف مراتب ومنازل میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے صحت و قوت کے اعتبار سے کتب حدیث کے پانچ طبقات بتائے ہیں, یہاں ان طبقات کی ساری کتابوں کے بجائے چند کا ذکر کرونگا .
طبقہٴ اولی:
وہ کتابیں ہیں جن کی جملہ احادیث حجت اور قابل استدلال ہیں بلکہ رتبہٴ صحت کو پہنچی ہوئی ہیں، جو حدیث قوی کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ اس طبقہ میں تقریباً وہ تمام کتابیں داخل ہیں جو اسمِ صحیح کے ساتھ موسوم ہیں۔ اور بعض ان کے علاوہ ہیں۔ جیسے صحیح امام بخاری، صحیح امام مسلم، موطا امام مالک، صحیح بن خزیمہ متوفی ۳۱۱ھ، صحیح بن حبان متوفی ۳۵۴ھ،

طبقہٴ ثانیہ:
وہ کتابیں ہیں جن کی احادیث اخذ و استدلال کے قابل ہیں، اگرچہ ساری حدیث صحت کے درجہ کو نہ پہنچی ہوں اور کسی حدیث کے حجت ہونے کے لئے اس کا رتبہٴ صحت کو پہنچا ضروری بھی نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث حسن بھی حجت اور قابل استدلال ہے۔ اس طبقہ میں یہ کتابیں ہیں: ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی متوفی ۲۷۵ھ کی ”سنن ابی داؤد“۔ ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ۲۷۹ھ کی جامع (سنن ترمذی)۔ امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی متوفی ۳۰۳ھ کی ”مجتبیٰ“ جس کو ”سنن صغری“ اور مطلق نسائی بھی کہتے ہیں۔ مسند احمد حنبل بھی اسی طبقہ میں ہے۔ اس لیے کہ اس میں جو بعض روایتیں ضعیف ہیں وہ حسن کے قریب ہیں۔

طبقہٴ ثالثہ
: ان کتابوں کا ہے جس میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، شاذ، منکر، خطاء، صواب، ثابت اور مقلوب سب قسم کی حدیث ملتی ہیں۔ اور ان کتابوں کو علماء کے درمیان زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل نہ ہوئی ہو۔ ان کتابوں کی بعض روایتیں قابل استدلال ملتی ہیں اور بعض ناقابل استدلال۔ جیسے سنن ابن ماجہ متوفی ۲۷۳ھ۔ مسند ابوداؤد طیالسی متوفی ۲۰۳ھ، مسند ابویعلی الموصلی متوفی ۳۰۷ھ، مسند البزار، مصنَّف عبدالرزاق بن ہمام صنعانی متوفی ۲۱۱ھ، مصنف ابوبکر بن شیبہ متوفی ۲۳۵ھ، وغیرہ ان حضرات کا مقصد ان تمام روایتوں کو جمع کرنا ہے جو اُن کو مل جائیں، تلخیص و تہذیب،اور قابل عمل روایات کا انتخاب ان کا مقصد نہیں۔

طبقہٴ رابعہ:
ان کتابوں کا ہے جن کی ہر حدیث پر ضعف کا حکم لگایا جائے گا بشرطیکہ وہ حدیث صرف اس کتاب میں ہو۔ اوپر کے طبقات کی کتب میں نہ ہو، جیسے شیرویہ بن شہردار متوفی ۵۰۹ھ کی کتاب ”فردوس الاخیار“ جس کااختصار ان کے صاحبزادے شہردار بن شیرویہ بن شہردار متوفی ۵۵۸ھ نے کیا ہے۔ جس کا نام مسند الدیلمی ہے ، جو مطبوعہ ہے۔ خطیب بغداد ابوبکر احمد بن علی متوفی ۴۶۳ھ کی کتابیں: تاریخ بغداد، الکفایة فی علم الروایة، (اصول حدیث میں) اقتضاء العلم والعمل، ”موضح اوہام الجمع والتفریق“ وغیرہ۔ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی متوفی ۴۰۳ھ کی کتابیں: ”حلیة الاولیاء“ ”طبقات الاصفیاء“ اور ”دلائل النبوة“ (مطبوعہ) وغیرہ۔

طبقہٴ خامسہ:
موضوعات کی کتابوں کا ہے، جن میں صرف احادیث موضوعہ ہی ذکر کی جاتی ہیں۔ علماء محققین ، محدثین وناقدین نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں وہ صرف احادیثِ موضوعہ کو تلاش کرکے لائے ہیں تاکہ عام اہلِ علم ان سے باخبر ہوکر دھوکہ میںآ نے سے بچیں۔ چنانچہ علامہ ابن الجوزی کی ”الموضوعات الکبری“ اس سلسلہ کی مشہور کتاب ہے۔ اور جیسے امام سیوطی کی ”اللآلی المصنوعة فی الاحادیث الضعیفہ“ ملا علی قاری کی ”الموضوعات الکبری“ اور ”المصنوع فی معرفة الموضوع“ وغیرہ اوپر کی تفصیلات سے واضح ہے کہ صحاح ستہ میں سے صحیحین اور موطا امام مالک طبقہٴ اول میں داخل ہیں اور سنن ابن ماجہ طبقہ ثالث میں اور سنن ثلاثہ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی) طبقہ ثانیہ میں۔ صحاح ستہ میں کوئی کتاب طبقہٴ رابعہ میں نہیں ہے۔

پانچوں طبقات کی کتابوں کے احکام :

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ:
پہلے اور دوسرے طبقہ کی کتابوں پر محدثین کا اعتماد ہے،اور حضرات محدثین انہی دو کتابوں پر زیادہ قناعت کرتے ہیں۔
تیسرے طبقہ سے وہی لوگ برائے عمل روایات منتخب کرسکتے ہیں جو حاذق و ناقد ہیں۔ جن کو راویوں کے حالات اوراسانید کی خرابیاں معلوم ہیں اور اس طبقہ کی کتابوں سے کبھی شواہد و متابعات لئے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ اسی درجے کی کتاب ہے )
چوتھے طبقہ کی روایتوں میں مشغول ہونا، ان کو جمع کرنا، اور ان سے مسائل مستنبط کرنا متأخرین کا ایک طرح کا غلو اور تعمق ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ گمراہ لوگوں مثلاً روافض اور معتزلہ کو انہی کتابوں سے مواد ہاتھ آتا ہے۔ لہٰذا اس طبقہ کی کتابوں سے علمی معرکوں میں استمداد و استدلال درست نہیں ہے۔ پانچویں درجہ کی کتابوں کی روایات دراصل دین میں بڑا فتنہ ہے جس سے بچنا بیحد ضروری ہے۔“

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password