علم اصولِ جرح وتعدیل

.

علم اصولِ جرح وتعدیل
حدیث پر حکم لگانے کے لیے علم اصولِ جرح وتعدیل میں کامل ادراک اور مہارت حاصل ہونے کی ضرورت ہے، اس علم کے مقدمات واصول کی جانکاری اور اس کے تطبیق کا ملکہ حاصل ہو؛ تاکہ نقدِ اسناد کے دوران ہرراوی کواس کا مستحقہ مقام دیاجا سکے؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی کمی وکوتاہی کی وجہ سے ضعیف کوثقہ اور ثقہ کوضعیف قرار دےکر اس کومتہم کردے؛بلکہ اس صورت میں تواس کا اثر براہِ راست احادیثِ نبویہ تک جائے گا۔
مختصر یہ کہ اس علم کے ذریعہ اولاً یہ جانکاری حاصل کرنی ہوگی کہ راوی میں کیا اوصاف ہونے چاہئیں کہ جس سے اس کی روایت قابل قبول ہوسکے؛ پھر عدالت کی کیا حقیقت ہے، اس کی جانکاری کی راہیں کیا ہیں؟ ایک شخص کی تعدیل کافی ہے؟ اگرراوی مجہول ہے تواس حدیث کا کیا حکم ہوگا، راوی کی جہالت کودور کرنے کے کیا کیا ذرائع ہوسکتے ہیں؟ پھرجارح یامعدل کا کن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے، جرح مفصل ضروری ہے یامبہم بھی کافی ہوسکتی ہے؟ یہاں ایک شخص کے تعلق کبھی جرح وتعدیل کے حوالے سے ائمہ محدثین میں اختلاف ہوجاتا ہے تواس صورت میں کونسی راہ اپنانی چاہیے؛ پھرالفاظ جرح وتعدیل کے تعلق سے ان کی خفت اور شدت کی ترتیب کیا ہوسکتی ہے؛ پھران الفاظ کی شدت وخفت کا اندازہ کرکے حدیث کے صحت وضعف کا حکم لگانا، اس علم میں ان تمام چیزوں کی جانکاری اور اس کا علم جب تک نہ ہو جرح وتعدیل کا عمل ناتمام رہے گا۔

راویوں کی جرح وتعدیل سے کیا مراد ہے؟

راویوں کے حالات قابلِ اعتراض ہوں تو وہ روایت مجروح ہوجاتی ہے، جن الفاظ سے اعتراضات سامنے آئیں وہ الفاظ جرح سمجھے جاتے ہیں اور جو الفاظ ان کی اچھی اور لائق اعتمادپوزیشن بتلائیں انہیں تعدیل کہاجاتا ہے۔ جرح کے معنی زخم کرنے کے ہیں، جرّاح آپریشن کرنے والے کو کہا جاتا ہے، تعدیل کا لفظ عدل سے ہے، جو روایت کے معیار پر پورا اترنے کی خبردیتا ہے، جرح وتعدیل سے راویوں کے حالات پہچانے جاتے ہیں، راویوں کو پہچاننے میں سستی برتی جائے اور ان کی جانچ پڑتال پر محنت نہ کی جائے تو پورے دین کے بگڑنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے، دین کی عظمت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا کوئی مسئلہ پوری تحقیق وتنقیح اور پوری احتیاط کے بعد ہی طئے ہونا چاہیے۔

جرح وتعدیل کے عام الفاظ
یوں تو الفاظ جرح وتعدیل بہت ہیں، انہیں اصطلاحات سے دوررہ کر عام الفاظ میں بھی ذکر کیا جاسکتا ہے؛ تاہم اس باب میں جوالفاظ اب تک زیادہ مشہور ہوئے وہ یہ ہیں؛ پھران الفاظ کے بارے میں بھی بعض ائمہ کے استعمالات مختلف ہیں؛ لیکن موضوع کے عمومی تعارف کے لیے ہم انہی الفاظ پر اکتفا کریں گے:
الفاظِ تعدیل
ثبتِ حجت : اونچے درجہ کا ہے، یہاں تک کہ دوسروں کے لیے سند ہے۔
ثبتِ حافظ : اونچے درجہ کاہے، خوب یاد رکھنے والا ہے۔
ثبتِ متقن : اونچے درجہ اور بہت مضبوط ہے۔
ثقہ ثقہ : اونچے درجہ کا ہے، بہت ہی قابل اعتماد ہے۔
ثقہ : قابل وثوق اور قابل اعتماد ہے۔
ثبت : اکھڑنے والا نہیں، قائم رہنے والا ہے۔
صدوق : بہت سچا ہے۔
لابأس بہ : اس میں کوئی جرح کی بات نہیں
محلّہ الصدق : سچائی والا ہے۔
جیدالحدیث : حدیث روایت کرنے میں بہت اچھا ہے۔
صالح الحدیث : روایت میں اچھا ہے۔
الفاظِ جرح
دجال : سخت دھوکے باز ہے، حق اور باطل کے ملانے کو کہتے ہیں۔
کذاب : بہت جھوٹا ہے (یاغلط بات کہنے والا ہے)۔
وضاع : حدیثیں گھڑنے والا ہے۔
یضع الحدیث : حدیث گھڑتا ہے۔
متہم بالکذب : غلط بیانی سےمتہم ہے۔
متروک : لائق ترک سمجھا گیا ہے۔
لیس بثقۃ : قابل بھروسہ نہیں۔
سکتواعنہ : اس کے بارے میں خاموش ہیں۔
ذاہب الحدیث : حدیث ضائع کرنے والا ہے۔
فیہ نظر : اس میں غور کی ضرورت ہے۔
ضعیف جداً : بہت ہی کمزور ہے۔
ضعفوا : اس کو کمزور ٹھہرایا ہے۔
واہ : فضول ہے، کمزور ہے۔
لیس بالقوی : روایت میں پختہ نہیں۔
ضعیف : روایت میں کمزور ہے۔
لیس بحجۃ : حجت کے درجہ میں نہیں۔
لیس بذاک : ٹھیک نہیں ہے۔
لین : یادداشت میں نرم ہے۔
سئی الحفظ : یاد داشت اچھی نہیں ہے۔
لایحتج بہ : لائق حجت نہیں۔

جرح و تعدیل کے چنداہم قوائد:

لم یصح میں وضع نہیں:
اگرکسی حدیث کے بارے میں لم یصح کے الفاظ وارد ہوں تواس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث ضعیف یاموضوع ہے ہوسکتا ہے حسن ہو یاضعیف ہو، من گھڑت (موضوع) نہ ہو، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ: کسی حدیث کے بارے میں لم یصح (یہ حدیث ثابت نہیں ہوئی) کہنے سے لازم نہیں آتاکہ وہ حدیث موضوع ہو۔ (القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۲۹)ہاں ایسی کتاب جس میں موضوع روایات کا بیان ہو اس میں لم یصح کے الفاظ واقعی اس کے حسن اور ضعیف ہونے کی بھی نفی کردیتے ہیں، لم یصح کے بعد اگر اس کا کسی درجے میں اثبات نہ ہو تواس کا مطلب واقعی یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت موضوع ہو۔
جرح وہی لائقِ قبول ہے جس کا سبب معلوم ہو
کسی کے بارے میں نیک گمان کرنے کے لیئے دلیل کی ضرورت نہیں؛ لیکن بدگمانی کے لیئے دلیل ہونا لازمی ہے، بغیر دلیل کے کسی مسلمان کوبرا سمجھنا یاناقابلِ شہادت سمجھنا گناہ ہے، جس راوی پر جرح کی گئی ہو اور اس جرح کا سبب بھی معلوم ہو اور وہ راوی واقعی اس سبب کا مورد ہوتووہ جرح معتبر ہوگی اور ایسے راوی کی روایت مسترد کی جاسکے گی۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے کتنے راوی ہیں جن پر جرح کی گئی ہے، جیسے عکرمہ مولیٰ بن عباس، اسماعیل بن ابی اویس، عاصم بن علی، عمروبن مرزوق، سوید بن سعید وغیرہم؟ مگرچونکہ وہ جرح مفسر اور مبین السبب نہ تھی، اس لیئے شیخین نے اسے قبول نہیں کیا امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ:جرح لائق قبول نہیں جب تک کہ اس کی تشریح واضح نہ ہو اور سبب جرح واضح نہ ہو۔ (تقریب نووی:۲۰۲، مع التدریب)
یہ صحیح ہے کہ تعدیل کے لیئے سبب کی ضرورت نہیں؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ تعدیل کرنے والا کوئی عام آدمی نہ ہو، اس باب میں عالم معرفت رکھنے والا منصف اور ناصح قسم کا آدمی ہونا چاہیے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:ترجمہ: علماء جب کسی شخص کی جرح وتعدیل کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہوں توصحیح راہ یہ ہوگی کہ اس کی تفصیل کی جائے؛ اگرجرح کی وجہ معلوم ہوتواسے قبول کیا جائے گا بصورتِ دیگر تعدیل پر عمل ہوگا، ہاں جوراوی مجہول ہو اور اس کے بارے میں کسی امام حدیث کے اس قول کے سوا کہ وہ ضیعف ہے یامتروک ہے یااسی قسم کا اور کوئی لفظ ہو کوئی اور بات معلوم نہ ہو تو اس امام حدیث کی بات لائق تسلیم ہوگی اور ہم اس سے وجہ جرح کا مطالبہ نہ کریں گے۔ (الرفع والتكميل في الجرح والتعديل:۱/۱۱۹، شاملہ،المؤلف:أبوالحسنات محمدعبدالحي اللكنوي الهندي،الناشر:مكتب المطبوعات الإسلامية،حلب)

جرح تعدیل پر مقدم ہے:
تعدیل کے لیئے بے شک نیک گمان کافی ہے؛ لیکن جرح کے لیے سبب اور دلیل کا ساتھ ہونا ضروری ہے، ظاہر ہے کہ اس صورت میں جارح (جرح کرنے والے) کے پاس معلومات زیادہ ہوں گے؛ اگروہ معلومات صحیح ہیں توجرح تعدیل پر مقدم ہوگی، جرح کے وجوہ اگرمعقول ہیں تواسے ہرصورت میں تعدیل پر مقدم کیا جائے گا؛ گومعدلین کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو؛ اکثریت کی تعدیل سے وجوہ جرح غلط نہیں ہوجاتے؛ گوان کا مدعی ایک ہی ہو، بشرطیکہ اس کے پاس اس کی دلیل یاسبب موجود ہو۔
امام فخرالدین رازیؒ (۶۰۶ھ)، حافظ ابن صلاح (۶۴۳ھ)، علامہ آمدی اور علامہ ابن حاجب کی یہی رائے ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہے؛ لیکن اگرجرح اس امام یامحدث سے منقول ہوجوعلماء فن کے ہاں جرح کرنے میں متشدد اور متعنت سمجھے جاتے ہوں توفقط ان کی جرح سے ہم کسی راوی کومجروح نہ کرسکیں گے؛ ضروری ہوگا کہ کوئی اور جارح بھی اس کا ہمنوا ہو اور ان جارحین کے پاس اس کا کوئی واقعی سبب موجود ہو؛ کبھی جرح مفسر پر بھی تعدیل مقدم ہوجاتی ہے، مثلاً یہ کہ جارح خود اس بات میں مجروح ہو یااس وجہ سے کہ وہ جرح دوسرے وجوہ سے رد ہوچکی ہے، اس صورت میں تعدیل مقدم سمجھی جائے گی۔

متشدد کی جرح اکیلےکافی نہیں:
جن ائمہ کا جرح کرنے میں تشدد، تعنت ہو ان کی تعدیل وتوثیق بہت وزن رکھتی ہے؛ لیکن ان کی جرح زیادہ وزن نہیں رکھتی ہے؛ سوکسی راوی پر محض ان کی جرح سے فیصلہ ضعف نہ کرلیا جائے، متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہوتی، جس راوی پر کسی متشدد کی جرح ہو اس کی جرح کا حال دوسرے ائمہ سے معلوم کرنا چاہیے۔
ناقدین کے پہلے طبقے میں شعبہ (۱۶۰ھ) اور سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ) کو لیجئے، شعبہ گو امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں؛ مگرجرح میں ذراسخت ہیں؛ پھریحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) اور عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ) کو لیجئے، یحییٰ میں سختی اور تشدد ملے گا؛ پھریحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) اور امام احمد (۲۴۱ھ) کو لیجئے جو سختی یحییٰ بن معین کرتے ہیں امام احمد نہیں کرتے؛ پھرامام نسائی (۳۰۳ھ) اور ابن حبان (۳۵۴ھ) کو دیکھئے، امام نسائی ذراسخت معلوم ہوں گے ابوحاتم رازی اور امام بخاری (۲۵۶ھ) میں ابوحاتم متشدد دکھائی دیں گے، ائمہ فن اسماء الرجال کی بحث میں راویوں کا حال لکھتے ہیں تو کہیں کہیں متشددین کی سختی کا ذکر بھی کرجاتے ہیں، اس لیے صرف کسی راوی پر جرح کا نام سن کر اسے ناقابل اعتماد نہ سمجھنے لگ جائیں جب تک تحقیق نہ کرلیں کہ جارحین کون کون ہیں اور کتنے ہیں، اسبابِ جرح واضح ہیں یا نہیں اور یہ کہ کہیں کوئی متشدد جارح تونہیں، ائمہ رجال کتبِ رجال میں کئی جگہ اس تشدد کا ذکر کرجاتے ہیں۔
ابنِ حبان کے تشدد فی الرجال کے بارے میں حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ترجمہ:ابنِ حبان کئی دفعہ ثقہ راویوں پر بھی جرح کرجاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کا ذہن کدھر جارہا ہے۔ (القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۳۳۔ افرط ابن حبان ، مقدمہ فتح الباری:۲/۱۲۹)حافظ ذہبیؒ بھی ابنِ حبان کے بارے میں کہتے ہیں “مااسرف واجترأ” (میزان الاعتدال:۱/۴۳۶) ابن حبان نے بہت زیادتی کی ہے اور بڑی جسارت کی ہے کہ ثقہ راویوں کوبھی ضعیف کہہ دیا، ایک اور جگہ پر کہتے ہیں “تقعقع کعادتہ”(میزان الاعتدال:۲/۱۸۵)۔
شعبہ امیرالمؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں؛ لیکن قبولِ روایت میں اُن کی سختی دیکھئے، آپ سے پوچھا گیا کہ آپ فلاں راوی کی روایت کیوں نہیں لیتے؟ آپ نے کہا “رأیتہ یرکض علی برذون” میں نے اسے ترکی گھوڑے دوڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔آپ منہال بن عمرو کے ہاں گئے، وہاں سے کوئی ساز کی آواز سنی، وہیں سے واپس آگئے اور صورتِ واقعہ کی کوئی تفصیل نہ پوچھی۔
حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا کہ تم زاذان سے روایت کیوں نہیں لیتے؟ توانہوں نے کہا “کان کثیرالکلام” وہ باتیں بہت کرتے تھے۔
حافظ جریر بن عبدالحمید الضبی الکوفی نے سماک بن حرب کوکھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تواس سے روایت چھوڑ دی۔
(دیکھئے، الکفایہ فی علوم الروایہ، للخطیب البغدادی:۱۰۔ لغایت:۱۱۴)
یہ سختی سب کے ہاں نہ تھی، اس لیے محض جرح دیکھ کر ہی نہ اچھل پڑیں، سمجھنے کی کوشش کریں کہ جرح کی وجہ کوئی شرعی پہلو ہے یاصرف شدت احتیاط ہے۔

چند اہم کتابیں :

اس فن کی تفصیلی معلومات کے لیے یہ کتابیں نہایت معاون ہوں گی:
(۱)مولانا عبدالحئی لکھنوی (۱۳۰۴ھ) کی الرفع والتکمیل مع تحقیق وتعلیق شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ (۱۴۱۷ھ)۔
(۲)علامہ تاج الدین سبکی کی جوانہوں نے طبقات الشافعیۃ میں احمد بن صالح مصری کے ترجمہ کے تحت تحریر فرمائی ہے اورالگ سے قاعدۃ فی الجرح والتعدیل کے نام شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ کی تعلیقات کے ساتھ اربع فی علوم الحدیث کے ضمن میں مطبوع ہے۔
(۳)شیخ عبدالوہاب عبداللطیف کی کتاب ضوابط الجرح والتعدیل۔
اسی طرح علم تخریج الحدیث ودراسۃ الاسانید کے موضوع پرتصنیف شدہ کتابیں بھی اصولِ جرح وتعدیل کوبیان کرتی ہیں؛ چنانچہ دکتور محمود طحان مولانا ابواللیث خیرآبادی اور دکتور سیدعانی کی کتب میں بھی اس فن سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔
جرح وتعدیل کے بڑے آئمہ
یوں تو بڑے بڑے محدثین نے مختلف راویوں پر بحث کی ہے، لیکن جو حضرات اس موضوع میں زیادہ معروف ہوئے انہیں جرح وتعدیل کے امام کہیں تو بہت مناسب ہوگا، یہ حضرات اس باب میں بہت معروف رہے ہیں:
(۱)امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ)
(۲)یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ)
(۳)عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ)
(۴)یحییٰ بن معین (۲۲۳ھ)
(۵)علی بن المدینی (۲۳۴ھ)
(۶)امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ)
(۷)امام نسائی (۳۰۳ھ)
(۸)دارِقطنی (۳۸۵ھ)
ان حضرات نے جرح وتعدیل کے قوانین وضع کئے، رواۃِ حدیث کے درجات معلوم کئے اور ایک لاکھ کے قریب اشخاص کے حالاتِ زندگی چھان مارے؛ یہی وہ حضرات ہیں جو علم نبی کو نکھار لائے، علماء اسلام کا ایسا عظیم علمی کارنامہ ہے کہ اقوامِ عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی، مولانا حالی نے اسی لیے کہا تھا ؎
گروہ ایک جو یا تھا علم نبی کا
لگایا پتہ جس نے ہرمفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہرمدعی کا
کئے جرح وتعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں
اسی دھن میں آساں کیا ہرسفر کو
اسی شوق میں طئے کیا بحروبر کو
سنا خازن علمِ دیں جس بشر کو
لیا اس سے جاکر خبر اور اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر
دیا اور کو خود مزہ اس کا چکھ کر
ان حضرات کی محنتیں اب ہمارے سامنے فن رجال کی مستقل کتابوں کی صورت میں بڑی وسعت سے موجود ہیں، ان میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت امام یحییٰ بن معین کی ہے۔اور ان میں سب سے کمزور امام دارِقطنی ہیں، جومخصوص فکر اور تعصب کے باعث بہت سے صحیح راویوں کو بھی ضعیف کہہ جاتے ہیں، علامہ بدرالدین العینی نے اس کی تصریح کی ہے:ترجمہ:دارقطنی نے اپنی سنن میں بہت سی کمزور،معلول،منکر،غریب اور موضوع روایات ذکر کی ہیں۔ (عمدۃ القاری بشریح صحیح البخاری:۳/۱۶۷)

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password