فن اسماء الرجال- ایک تعارف

فن اسماء الرجال:

یہ علم راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اورتاریخ ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب ونسب، قوم ووطن، علم وفضل، دیانت وتقویٰ، ذکاوت وحفظ، قوت وضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیراس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے، اس کے ذریعہ ائمہ حدیث نے مراتب روات اور احادیث کی قوت وضعف کا پتہ لگایاہے۔

ابتداء:

حدیث کے راوی جب تک صحابہ کرامؓ تھے اس فن کی کوئی ضرورت نہ تھی، وہ سب کے سب عادل، انصاف پسند اور محتاط تھے “لأن الصحابۃ عدول ونقلھم صحیح فلاوجہ للخلاف” (مرقات:۵/۱۷) کبارِتابعین بھی اپنے علم وتقویٰ کی روشنی میں ہرجگہ لائق قبول سمجھے جاتے تھے، جب فتنے پھیلے اور بدعات شروع ہوئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ راویوں کی جانچ پڑتال کی جائے، فتنے سب سے پہلے کوفہ اور بصرہ سے اُٹھے، اس لیے علم کی تدوین وتنقیح پہلے یہیں ہونی ضروری تھی، کوفہ میں دوعلمی مرکز تھے۔(۱)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ(۳۲ھ) (۲)حضرت علی کرم اللہ وجہہ(۴۰ھ)
حضرت علیؓ کے خلیفہ بنتے ہی مسلمانوں کا سیاسی اختلاف عراق میں امڈآیا اور اس سیاسی تشیع سے حضرت علیؓ کے حلقے میں بہت سے غلط لوگ آشامل ہوئے، حضرت علیؓ کے نام سے بہت سی غلط باتیں کہنی شروع کردیں، اس ورطۂ شبہات میں انہوں نے دین کا بنیادی تصور تک بدل ڈالا، یہ اسلام میں فرقہ بندی کی طرف پہلا قدم تھا.امام ابن سیرینؒ (۱۱۰ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ فتنے اُٹھے تو علماء نے یہ طئے کیا:اپنے رواتِ حدیث کے نام بتائیں، دیکھا جائے گا کہ اہل سنت کون ہیں، انہی کی روایات لی جائیں گی، اہل بدعت کا بھی پتہ لگایا جائے گا اور ان کی احادیث نہ لی جائیں گی۔(صحیح مسلم، باب حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ:۱/۳۴)
کوفہ کے بعد بصرہ عراق کا دوسرا بڑا شہر تھا، کوفہ سے تشیع اُٹھا تو بصرہ سے انکار قدر کی صدا اٹھی۔سب سے پہلے بصرہ میں جس نے عقیدۂ قدر میں بات چیت کی وہ معبد جہنی تھا (مسلم، بَاب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ، حدیث نمبر:۹)۔
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ملے اور ان لوگوں کے متعلق پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جب تم ان لوگوں سے ملو تو انہیں کہہ دو کہ میں ان سے لاتعلق ہوں اور وہ مجھ سے لاتعلق ہیں، میں بقسم کہتا ہوں کہ اگر یہ احد کے برابر سونا خیرات کریں اُسے اللہ ان سے قبول نہیں کریگا جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لائیں۔ (مسلم، بَاب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ، حدیث نمبر:۹)
علم اسماء الرجال کا احساس یہیں سے پیدا ہوا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ (۶۸ھ) حضرت علیؓ کی بہت سی مرویات کے بارے میں کہہ چکے تھے کہ یہ بات حضرت علیؓ نے کبھی نہ کہی ہوگی، امام مسلم لکھتے ہیں:”تابعین میں کئی ائمہ گزرے، جنھوں نے اسماء الرجال (راویانِ حدیث) میں کلام کیا، ان میں حسن بصری (۱۱۰ھ) اور طاؤس (۱۰۵ھ) نے معبد جہنی میں کلام کیا، سعید بن جبیر (۹۵ھ) نے طلق بن حبیب میں کلام کیا، ابراہیم نخعی (۹۵ھ) اور عامر الشعبی (۱۰۳ھ) نے حارث الاعور میں کلام کیا؛ اسی طرح ایوب سختیانی، عبداللہ بن عون، سلیمان تیمی، شعبہ بن حجاج، سفیان الثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، یحیی بن سعید القطان، وکیع بن الجراح اور عبدالرحمن بن المہدی جیسے اہل علم نے رجال میں کلام کیا ہے اور کمزور راویوں کی تضعیف کی ہے، انہیں اس بات پر اللہ بہتر جانتا ہے، مسلمانوں کے خیرخواہی کے جذبہ نے آمادہ کیا، یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کی غرض ان راویوں کا ضعف بیان کرنا تھا؛ تاکہ وہ پہچانے جائیں، بعض وہ راوی جن کی تضعیف کی گئی بدعتی تھے، بعض ان میں سے متہم فی الحدیث تھے، بعض بھولنے والے تھے اور کثرت سے غلطی کرنے والے تھے، سو ان ائمہ نے چاہا کہ ان کے احوال بیان کردیئے جائیں اور اس سے دین کی خیرخواہی ملحوظ نظر تھی اور دین میں ثابت قدمی پیش نظر تھی، حقوق واموال کے بارے میں شہادت دینے سے دین کے بارے میں شہادت دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ (ترمذی، کتاب العلل،باب وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ ذِكْرِ الْعِلَلِ فِي الْأَحَادِيثِ وَالرِّجَالِ وَالتَّارِيخِ:۱۲/۴۸۲)۔

اسماء الرجال میں پہلے لکھنے والے:
جب تک راویانِ حدیث اپنی سند سے حدیثیں روایت کرتے رہے راویوں کی جانچ پڑتال بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہی۔لیکن جب احادیث ایک جگہ جمع ہوگئیں اس جمع شدہ ذخیرے سے ہی حدیث آگے چلی تواس دور میں علیحدہ علیحدہ راویوں کی جانچ پڑتال کے ساتھ حاذق محدثین کی تحقیق اور اکابراساتذہ فن کا ذوق بھی ساتھ چلنے لگے ۔ ائمہ حدیث نے ایک ایک صحابی ، تابعی کے اصحاب کا جائزہ لیا، سب سے زیادہ کون کن کے قریب رہے، ان کو پہچانا، اسی نسبتِ علم سے وہ حضرات فقیہ سمجھے گئے اور اسی نسبت سے ان کے فیصلے حجت سمجھے گئے، یہ حضرات اپنے ضبطِ تثبیت اور فقہ وروایات میں اگلے لوگوں کے لیے امام ٹہرے۔ حافظ ذہبی ایک جگہ لکھتےہیں کہ طبقۂ تابعین میں انتہائی چھان بین کے باوجود مجھے ایک راوی بھی کاذب نہیں مل سکا،…. غلطی لگ جانا اور بات ہے، حافظے کا ضعف امردیگر ہے؛ لیکن جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اس حد تک اس طبقے میں کوئی مجروح نہ تھا، کذب اپنی نمایاں صورت میں بعد میں نمودار ہوا ہے، تابعین اسی لیے تابعین تھے کہ صحابہ ان کے متبوعین تھے، جو صحابہ کے نقشِ پا سے راہ تلاش نہ کرے وہ تابعین میں سے کیسے ہوسکتا ہے، حضرت علی مرتضیٰؓ کے اردگرد رہنے والے لوگ اگر ان پر جھوٹ باندھتے رہے تو وہ سبائی منافقین تھے، تابعین ہرگز نہ تھے، وہ تابعین بغیر اتباع ہرگز نہ ہوسکتے تھے۔
چنانچہ حضرت علی بن المدینی (۲۳۴ھ) نے کتاب العلل میں، امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) نے کتاب العلل ومعرفۃ الرجال میں، امام بخاری (۲۵۶ھ) نے تاریخ میں، امام مسلم (۲۶۱ھ) نے مقدمہ صحیح مسلم میں، امام ترمذی (۲۷۹ھ) نے کتاب العلل میں، امام نسائی (۳۰۳ھ) نے کتاب الضعفاء والمتروکین میں، ابوعبدالرحمٰن بن ابی حاتم الرازی (۳۲۷ھ) نے کتاب الجرح والتعدیل میں، دارِقطنی (۳۸۵ھ) نے اپنی کتاب العلل میں اور امام طحاوی (۳۲۱ھ) نے رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں۔حضرت امام طحاوی (۳۲۱ھ) باب نکاح المحرم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگردوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگردوں میں سعید بن جبیر، عطاء، طاؤس، مجاہد، عکرمہ اور جابر بن یزید سب سے زیادہ تثبت والے ہیں اور یہ سب امام اور فقہاء ہیں کہ ان کی روایت بھی مستند سمجھی جاتی ہے اور ان کے فقہی فیصلے بھی حجت مانے جاتے ہیں۔ (شرح معانی الآثار، باب نکاح المحرم:۱/۵۱۳)
پھرجن لوگوں نے آگے ان سے دین نقل کیا وہ بھی اسی طرح معروف ہوئے، ان میں عمروبن دینار، ایوب السختیانی اور عبداللہ بن ابی بخیح وغیرہم ہیں اور یہ سب ایسے امام تھے کہ روایت میں مقتدا ٹھرے۔
محدثین کی سلسلہ رواۃ پر کس درجے کی کڑی نظر رہی ہے اور وہ ہردوراویوں کے درمیان کس کس درجے کے تعلق ورابطے کے جویار ہے، امام طحاوی کا یہ بیان اس پر شاہد ناطق ہے، کون صاحب علم ہے جومحدثین کی ان خدمات کا انکار کرسکے؟
امام احمدکی کتاب، کتاب العلل ومعرفۃ الرجال انقرہ سے چھپ چکی ہے، دوجلدوں میں ہے، ابن ابی حاتم الرازی کی کتاب الجرح والتعدیل نوجلدوں میں ہے، حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، یہ اساسی طور پر امام احمد کی کتاب کو بھی ساتھ لئے ہوئے ہے، دارِقطنی اپنی کتاب کو مکمل نہ کر پائے تھے کہ وفات پائی، اسے ان کے شاگرد ابوبکر الخوارزمی البرقانی (۴۲۵ھ) نے مکمل کیا، شمس الدین سخاوی (۹۰۲ھ) نے اس کی ایک تلخیص مرتب کی ہے، جس کا نام “بلوغ الامل بتلخیص کتاب دارِقطنی فی العلل”ہے ان کتابوں میں رجال کے علاوہ علل حدیث پر بھی بہت مفید مباحث موجود ہیں، اس سے اگلے دور میں وہ کتابیں لکھی گئیں جن میں اسماء الرجال ہی مستقل موضوع بناہے، ان میں راویوں کے حالات اور ان کے طبقات کا ذکر ہے اور ساتھ راویوں کی جرح وتعدیل سے بھی بحث کی گئی ہے۔(شرح معانی الآثار، باب نکاح المحرم:۱/۵۱۳)

علم حدیث اور علم رجال کا ساتھ ساتھ رہنا ضروری ہے۔
احادیث جمع کرنے والے ائمہ حدیث نے جو روایتیں لکھیں انہیں، انہوں نے اپنے اساتذہ کا نام لے کر روایت کیا ہے، جن سے انہو ں نے وہ روایات سنی تھیں اور پھر ان کی سند بھی جاری کردی جو حضورﷺ یاصحابہ کرام تک پہنچتی ہے۔جب حدیث کے ذکر میں سند ساتھ آنے لگی تو ضروری تھا کہ پڑھنے والوں پر ان راویوں کا حال بھی کھلا ہو جو اس حدیث کو آگے لانے کی ذمہ داری لیے ہوئے ہیں۔سو حدیث کے لیے جس طرح متن کو جاننا ضروری ہے، سند کو پہچاننا بھی ضروری ٹھہرا کہ اسماء الرجال کے علم کے بغیر علم حدیث میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا، امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) کہتے ہیں:معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت رجال بھی نصف علم ہے۔ (مقدمہ خلاصہ تہذیب الکمال، فصل وھذہ نبذۃ من أقوال الائمۃ فی ہذا:۱/۱۶۵)

کتبِ اسماء الرجال:
پہلے دور کی اسماء الرجال کی کتابیں راویوں کے نہایت مختصر حالات کو لیے ہوئے تھیں، بعد میں ابنِ عدی اور ابونعیم اصفہانی نے سب سے پہلے معلومات زیادہ حاصل کرنے کی طرف توجہ کی، خطیب بغدادی ابن عبدالبر اور ابن عساکر دمشقی نے ضخیم جلدوں میں بغداد اور دمشق کی تاریخیں لکھیں تو ان میں تقریباً سب اعیان ورجال کے تذکرے آگئے ہیں۔
جہاں تک فنی حیثیت کا تعلق ہے سب سے پہلے حافظ عبدالغنی المقدسی نے اس پر قلم اٹھایا ،حافظ عبدالغنی المقدسی دمشق کے رہنے والے تھے اور حنبلی المسلک تھے، آپ نے “الکمال فی اسماءالرجال” لکھی اور انہی کے نقوش وخطوط پر آگے کام ہوتا رہا؛ انہوں نے ابتدائی اینٹیں چنیں اور آگے آنے والوں نے ان پر دیواریں کھڑی کیں۔ حافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمٰن المزی نے “الکمال” کو پھر سے بارہ جلدوں میں مرتب کیا اور اس کا نام “تہذیب الکمال” رکھا، آپ بھی دمشق کے رہنے والے تھے؛ لیکن مسلکاً شافعی تھے، آپ نے اس میں اور اہل فن سے بھی معلومات جمع فرمائیں۔پھرحافظ المزی کے شاگرد جناب حافظ شمس الدین ذہبی اٹھے اور انہوں نے “تہذیب الکمال” کو مختصر کرکے “تذھیب التہذیب” لکھی، اس کے علاوہ “میزان الاعتدال” اور “سیرالنبلاء” اور”تذکرۃ الحفاظ” جیسی بلند پایہ کتابیں بھی لکھیں، جو اپنے فن پر وقت کی لاجواب کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔
پھرشیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے “تذہیب التہذیب” کو اپنے انداز میں مختصر کیا اور “تہذیب التہذیب” لکھی جو بارہ جلدوں میں ہے؛ پھرخود ہی اس کا خلاصہ “تقریب التہذیب” کے نام سے لکھا ہے، اس کے علاوہ آپ نے “لسان المیزان” بھی لکھی، جو چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے۔
پھرشیخ الاسلام حضرت علامہ بدرالدین عینی (۸۵۵ھ) نے “معانی الاخبار من رجال شرح معانی الآثار” لکھی اور طحاوی کے رجال جمع کئے، تلخیص “کشف الاستار” کے نام سے علامہ ہاشم سندھی نے لکھی ہے۔
ان کے بعد حافظ صفی الدین الخزرجی (۹۱۳ھ) نے “خلاصۂ تذہیب تہذیب الکمال” لکھی، یہ کتاب مطبع کبریٰ، بولاق سے (۱۳۰۱ھ) میں شائع ہوئی۔
علم رجال پر لکھی گئی چند اہم کتابیں :
(۱)رجال یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۰ھ)
(۲)طبقات ابن سعد ابن سعد (۲۳۰ھ)
(۳)معرفۃ الرجال امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ)
(۴)تاریخ امام بخاری (۲۵۶ھ)
نقدرجال کے یہ ابتدائی نقوش تھے، آگے ان میں کچھ وسعت پیدا ہوئی، اس دوسرے دور میں پانچ کتابیں زیادہ معروف ہوئیں۔
(۱)کامل ابن عدی (۳۶۵ھ)
دارِقطنی کی رائے ہے کہ اسماء الرجال میں یہی ایک کتاب کافی ہے، ذہبی نے بھی اسے بے مثل کہا ہے۔
(۲)تاریخ نیشاپور ابونعیم اصفہانی (۴۳۰ھ)
(۳)تاریخ بغداد خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ۱۴/جلدوں میں ہے۔
(۴)الاستیعاب ابن عبدالبرمالکی (۴۵۳ھ)
(۵)تاریخ دمشق ابن عساکر (۵۷۱ھ) ۸/جلدوں میں ہے۔

  • اسنادِحدیث کی تحقیق کے اصول | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    April 14, 2017 at 4:34 am

    […] نقدِ حدیث کا علم نہایت حساس اور دشوار گزار ہوتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ باحث کوفنِ اصولِ حدیث کے تمام اصول پرکامل عبور ومہارت حاصل ہو؛ خصوصاً یہ دوعلم اس میں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں: (۱)علم اصولِ جرح وتعدیل (۲)علم اسماء الرجال۔ […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password